Back Index Next

اس کے بعد آنحضرت استدلال فرماتے ھیں:

” فانّ التّفکر حیاة قلب البصیر کما یمشی المستنیر فی الظّلمات بالنور فعلیکم بحسن التخلّص وقلّة التربّص“[50]

صاحب بصیرت انسان غور فکر کے ذریعہ زندہ ھے اور فکر ھی انسانی دل کو حیات بخشتی ھے بالکل یوں ھی جیسے روشنی کا طالب نور یا چراغ کے ذریعہ اندھروں اور تارکیوں میں راہ طے کرتا ھے پس تم پر لازم ھے کہ بہتریں انداز میں نجات و رہائی کی کوشش کرو اور اس کے انتظار میں کم رہو( تم ایسے مسافر کے مانند ھو کہ اگر جلدی نھیں گئے اور خود کو مشغول رکھا تو خواہ مخواہ تمھیں خود ھی لے جایا جائے گا پس خود زمین پرجم کرنہ رہ جاؤ اور اس سے پہلے کہ لوگ لے جائیں تم خود چلے جاؤ اور خود چھٹکارہ حاصل کرو اور قید وبند نیز دنیا کے روابط وتعلقات سے اپنا دل ھٹالو(

قرآن کی ھدایت ونور انیت

شیخ کلینی، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے ایک دوسری روایت نقل کرتے ھیں کہ آپ نے اصحاب و انصار سے فرمایا: ” اعلموانّ القرآن ھدی النّھار ونوراللّیل المظلم علیٰ ماکان من جھدوفاقة“[51]

جان لو کہ قرآن دن میں ھدایت اور رات میں روشنی ونورانیت فراہم کرتا ھے اگرچہ حاملان قرآن جدوجہد میں مصروف اور فقروفاقہ میں مبتلا ھوں یعنی مشکلات کا دباوٴ اور تنگ دستی ان کی روشن ضمیر میں آڑے نھیں آتی جبکہ اکثر حاملان قرآن زیادہ تر زندگی کے مشکلات اور فقر وتنگدستی کا شکار رہتے ھیں پھر بھی ان دونوں فضیلتوں یعنی دن کی ھدایت اور تاریک رات کی نورانیت سے شرف یاب ھوئے ھیں۔

ابن بابویہ قمی نے ایک روایت نقل کی ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند محمد حنفیہ سے فرماتے ھیں:

” وعلیک بتلاوة القرآن والعمل بہ ولزوم فرائضہ وشرائعہ وحلالہ وحرامہ وامرہ ونہیہ والتھجّدبہ وتلاوتہ فی لیلک ونہارک فانّہ عہد من اللّہ تعلیٰ الیٰ خلفہ فہو واجب علیٰ کلَ مسلم ان ینظر کلّ یوم فی عہدہ ولو خمسین آیة“

میں تمھیں قرآن کی تلاوت اور اس کے احکام پر عمل کی تاکید کرتا ھوں۔ تم پر اس کے فرائض، واجبات، شرائع، حلال وحرام اور امرونہی کی پابندی ضروری ھے، قرآن کے ساتھ شب زندہ داری کرو۔ رات اور دن میں قرآن پڑھنا چونکہ یہ قرآن خداوندعالم کا اپنے بندوں کی طرف بھیجا ھوا عہدوپیمان ھے لھٰزا ھر مسلمان پر لازم ھے کہ خدا کے اس عہد پر نظر ڈالے چاہے ھر روز پچاس آیت ھی کیوں نہ پڑھے۔

جنت کے درجے آیات قرآن کے برابر

” واعلم ان درجات الجنّة علیٰ قدر آیات القرآن فاذا کان یوم القیامة یقال لقاریٴ القرآن: اقرا ٴواٴرقا“

جان لو کہ جنت کے درجات قرآن کی آیتوں کے برابر ھیں۔ پس جب قیامت کا دن نمودار ھوگا تو قرآن کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا کہ تلاوت کرو اور بلندی حاصل کرو۔ یعنی جس قدر اس نے دنیا میں قرآن پڑھا اور اس کی تعلیم حاصل کی تھی اسی قدر قرآن وہاں ظاہر ھوگا۔ اور اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا آخرت میں اس کی ترقی اور درجات کی بلندی دنیا میں اس کے قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی مقدار سے تعلق رکھتی ھے۔ بلاشبہ جنت میں انبیا ء وصد یقین کے بعد حاملان قرآن سے پڑھ کر کسی کا درجہ نھیں ھے لھٰزا جنت کے درجوں کو قرآنی آیات کے ذریعہ حاصل کرنا چاہئے۔

قرآن کی جامع تعریف

شیخ کلینی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت نقل کی ھے جس میں آنحضرت نے چند جملوں میں قرآن کی جامع وکامل تعریف بیان فرمائی ھے۔

” القرآن ھدیً من الضّلالة وتبیان من العمیٰ واستقالة من العثرہ ونور من الظلمة وضیاء من الاحداث وعصمة من الھلکة ورشد من الغوایة وبیان من الفتن وبلاغ من الدّنیا الیٰ آلاخرة وفیہ کمال دینکم وما عدل احد عن القرآن اِلّا الیٰ النّار“[52]

یعنی قرآن مندرجہ ذیل فضائل واوصاف کا حامل ھے۔

۱۔رہنما اور گمراہوں کی ھدایت کرنے والا۔

۲۔ہر اندھے کو بینائی عطا کر دیتا ھے۔

۳۔ ھر طرح کی لغرش سے بچاتا ھے۔

۴۔ ھر طرح کی ظلمت وتاریکی کے لئے نور وروشنی ھے۔

۵۔ ھر حادثہ میں امید کی کرن ھے۔

۶۔ ھر ھلاکت سے بچانے والا ھے۔

۷۔ ھر طرح کی گمراہی میں راہ راست دکھانے والا ھے۔

۸۔ تمام فتنوں کو واضح کرنے والا ھے۔

۹۔ انسان کو دنیا سے آخرت کی جانب لے جانے والا ھے۔

۱۰۔ تمہارے دین کا کمال قرآن میں ھے۔

۱۱۔ جس نے بھی قرآن سے منھ موڑا واصل جہنم ھوا۔

” کافی“ کتاب فصل القرآن میں دوسری رواتیں بھی ھیں جنھیں دقت نظر سے پڑھنا مفید ھوگا ھم نے یہاں چند روایتیں نمونہ کے طور پر نقل کی ھیں۔

اب چند روایتیں نزول قرآن کے سلسلہ میں کہ قرآن کب نازل ھوا اور کس سلسلہ میں نازل ھوا۔ پورا قرآن ایک مرتبہ میں نازل ھوا یا رفتہ رفتہ انشاء اللہ اس بحث کو آئندہ ذکر کریں گے۔

 تیسرا باب

نزولِ قرآن

قرآن کی شاٴن نزول

قرآن کب نازل ھوا؟

اس سلسلہ کی آخری بحث نزول قرآن کی بحث ھے کہ قرآن کس وقت نازل ھوا؟

سورہٴ ”دخان“ میں ارشاد ھوتا ھے:

>إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِیہَا یُفْرَقُ کُلُّ اٴَمْرٍ حَکِیمٍ[53]

ہم نے قرآن کو مبارک شب میں نازل کیا تاکہ لوگوں کو قیامت کے عذاب سے ڈرائیں۔ اس شب میں ھر باحکمت امرجدا اور مشخص ھوتا ھے۔

سورہٴ قدر“ میں اس مبارک شب کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ھے:

>إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْر>ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔

اس طرح معلوم ھوا کہ وہ مبارک شب وہی شب قدر ھے۔ سورہٴ بقرہ میں بھی شب قدر مشخص کی جاتی ھے کہ وہ ماہ رمضان میں ھے:

>شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی اٴُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ[54]

ماہ رمضان وہ مہینہ ھے جس میں قرآن نازل کیا گیا،

قدر کے معنی محاسبہ اور اندازہ گیری کے ھیں، اس بنا پر نزول قرآن کی یہ شب امور کو جدا جدا کرنے اور محاسبہ کرنے کی شب ھے جو ماہ رمضان المبارک میں ھے لھٰزا روایت میں اس ماہ کو ”ربیع القرآن “بہار قرآن کا مہینہ کہا گیا ھے اور رمضان المبارک قرآن کے نزول کی بنا پر اہمیت و شرف کا حامل بن گیا ھے، روزہ کی وجہ سے نہیں، کیونکہ قرآن ایسی ھزاروں برکتیں اور حکم اپنے ھمراہ لایا ھے جن میں ایک روزہ ھے۔

یہاں یہ سوال پیدا ھوتا کہ بعض آیات اور حدیث وتاریخ کے قطعی دلائل کے مطابق قرآن حضرت رسول اکرم کی رسالت کے تیئیس(۲۳) سال کے عرصہ میں بتدریج اور رفتہ رفتہ نازل ھوا ھے پھر مذکورہ بالا آیتیں رمضان المبارک کی ایک شب میں پورے قرآن کے نزول پر کیسے دلالت کرتی ھیں؟

مثال کے طور پر سورہٴ فرقان میں ارشاد ھوتا ھے:۔

>وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلاَنُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلً[55]

کافروں نے کہا، قرآن ان(رسول) پر یکبارگی کیوں نھیں نازل ھوا(اے رسول) ھم تمھارے قلب کو آرام بخشنے کے لئے اسے(قرآن کو) ایک روش کے ساتھ اور مشخص ومعیّن ترتیب کے تحت بھیجا اور تم پر تلاوت کی

تدریجی نزول یا دفعی نزول

اگر ھم ”انزلناہ“ کی ضمیر بعض آیات کی طرف پلٹائیں اور کہیں کہ قرآن کا کچھ حصہّ شب قدر میں نازل ھواہے تو اوّل یہ شب قدر بھی اور دوسرے اوقات کی صف میں شامل ھوجائے گی کہ دوسری آیتیں ان اوقات میں نازل ھوئیں پھر اس شب کے لئے کوئی فضلیت وامتیاز نھیں رہ جاتا۔ دوسرے یہ کہ سورہٴ دخان میں پہلے <حم وَالْکِتَابِ الْمُبِینِ>آیاہے اور پورے قرآن کی بات ھے اور ضمیر اس کی طرف پلٹی ھے۔ نیز یہ بات< ”ا ِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَة مبارکة“>اور <شہر رمضان الّذی انزل فیہ القرآن>کے ظاہری مفہوم سے میل نھیں کھاتی اور یہ نھیں کہا جاسکتا کہ یہاں مراد قرآن کے کچھ حصّہ کا نزول ھے جبکہ اکثر وبیشتر قرآن ماہ رمضان کے علاوہ اور دنوں میں نازل ھوا ھے۔ لھٰزا مفسرین نے اس اعتراض کے جواب میں کہا ھے کہ قرآن کا نزول دو طرح سے ھے۔

(۱) تدریجی نزول، جسے تنزیل کہتے ھیں۔

(۲) دفعی اور یکبارگی نزول جسے انزال کہتے ھیں۔

اسی بناپر جہاں ماہ رمضان میں نزول قرآن کی بات آئی ھے وہاں لفظ”انزال“ یا مادہٴ انزال کا ذکر کرے مثلاً:

إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةِ الْقَدْرا ِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَةمبارکة شہر رمضان الّذی انزل فیہ القرآن

اور جہاں تدریجی نزول کی بات کی گئی ھے وہاں تنزیل کی تعبیر استعمال ھوئی ھے۔ اور ادبی نقطہٴ نظر سے انزال وتنزیل( جو بات افعال وتفعیل سے ھیں) کے درمیان یہی دفعی اور تدریجی نزول کا فرق ھے۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ھے کہ اگر تمام قرآن شب قدر میں پیغمبر اکرم پر نازل ھوا ھے تو پیغمبر کوئی واقعہ یا نیا مسئلہ پیش آنے کی صورت میں اس سے متعلق حکم یا دستور نازل ھونے تک صبر کیوں فرماتے تھے؟ مثال کے طور پر سورہٴ ”مجادلہ“ میں ارشاد ھے:۔

قَدْ سَمِعَ اللهُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللهِ وَاللهُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ بَصِی[56]

اے پیغمبر بے شک خداوندعالم نے اس عورت کی بات سنی جو اپنے شوہر کے بارے میں تم سے بحث کررہی ھے اور اپنی شکایت خدا تک پہنچا رہی ھے، خدا تم دونوں کی باتیں سنتا ھے در حقیقت خدا سننے والا اور دیکھنے والا ھے۔

اس آیت میں ھم دیکھتے ھیں کہ ایک میاں بیوی کے درمیان ایک مشکل پیش آتی ھے اور اس کا جواب پیش کیا گیا ھے۔ اسی طرح کے دوسرے موار مثلاً جنگ وصلح وغیرہ کہ اصحاب نئے سوال کرتے تھے اور نیا حکم نازل ھوتا تھا۔ اس سوال کا جواب سورہٴ طٰٓہ کی آیت ۱۱۴ میں ھے وہاں ارشاد ھوتا ھے:۔

” وَلاَتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یُقْضَی إِلَیْکَ وَحْیُہ“

اے پیغمبر وحی تمام ھونے سے پہلے(یعنی جب تک فرشتہٴ وحی آپ پر وحی کی تلاوت نہ کردے) آپ آیت پڑھنے میں اور تلاوت کرنے میں جلدی نہ کیجئے۔

یعنی جب تک ھم اسے مرحلہ تکمیل تک نہ پہنچائیں، آپ تلاوت میں جلدی نہ کریں۔

اس آیت سے معلوم ھوتا ھے کہ آنحضرت قرآن کی تمام آیتوں کا علم رکھتے تھے اور وہ آپ کو حفظ تھیں اور کبھی کبھی وحی تمام ھونے سے پہلے ھی بقیہ آیت کی تلاوت فرمادیتے تھے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ھوتا ھے کہ قرآن دوبار نازل ھوا ھے ایک نزول دفعی تھا یعنی تمام آیتیں یکجا نازل ھوئیں اور دوسری بار تدریجی نزول، جس میں آیتیں مختلف مناسبتوں کے تحت نازل ھوئیں مثلاً سورہٴ مجادلہ کی پہلی آیت جسے ھم اوپر ذکر کر چکے ھیں، لھٰزا مذکورہ آیت جس میں حضرت کو تمام آیت پڑھنے سے روکا گیا ھے یہ اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ آنحضرت کو وحی تمام ھونے سے پہلے(اس مخصوص واقعہ یا مناسبت کے سلسلہ میں ) پوری آیت کا علم تھا۔

شان نزول

نزول قرآن کی بحث میں ایک دوسری بات جو سامنے آتی ھے شان نزول ھے۔ شان نزول، قرآن کے معانی سمجھنے اور آیات کی تفسیر کرنے کے سلسلہ میں کیا اہمیت رکھتی ھے؟ وہ مورد جو کسی آیت کی شان نزول میں بیان ھوتا ھے کیا اسی آیت سے مخصوص ھے اور اسے کسی دوسرے مورد پر منطبق نھیں کیا جاسکتا یا شان نزول ایک مصداق بیان کرنے کے علاوہ کچھ اور نھیں کرتی اور اس کے ذریعہ آیت کے معنی سمجھنے میں مدد ملتی ھے؟ یا در حقیقت کسی آیت یا سورہ کے سلسلہ میں شان نزول صرف ایک راہ نما کی حیثیت رکھتی ھے ایسا نھیں کہ آیت یا سورہ شان نزول سے مخصوص اور کسی دوسرے مصداق سے مطابقت نہ رکھتا ھو؟ کیا آیت کے یہ معانی اور عنوانات اسی مخصوص مصداق(شان نزول) میں استعمال ھوتے ھیں یا کلی معانی کے تحت استعمال ھوتے اور اس خاص مورد سے مطابقت رکھتے ھیں؟

اس سلسلہ میں مرحوم ملا محسن فیض نے امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ھے کہ آپ نے فرمایا:

” القرآن نزّل الثلاثاً: ثلث فیناو فی احبّائنا وثلث فی اعدائناو عدوّمن کان قبلنا وثلث سنّة ومثل“

قرآن مجید تین حصّوں میں نازل ھوا ھے: ایک تہائی ھمارے اور ھمارے دوستوں کے بارے میں ، ایک تہائی ھمارے دشمنوں نیز ھم سے پہلے کے انبیاء واولیاء کے دشمنوں کے بارے میں ، اور ایک تہائی احکام مَثل وغیرہ سے متعلق ھے۔

حضرت کی اس تقسیم سے معلوم ھوتا ھے کہ مجموعی طور سے قرآنی مطالب ان ھی تین قسموں پر منقسم ھوتے ھیں: ایک حصّہ انبیاء ائمہ اوراولیاء کے بارہ میں ایک حصّہ ائمہ کے دشمنوں اور گزشتہ انبیاء واولیاء کے دشمنوں کے بارے میں اور تیسرا حصّہ احکام، الٰہی سنّتوں اور امثال و حکم سے متعلق ھے۔[57]

شان نزول کی مشخص حیثیت نھیں

یہاں اسی روایت کا بقیہ حصّہ بیان کرتے ھیں کہ حضرت نے فرمایا:۔

” ولوانّ الآیة اذانزلت فی قوم ثمّ مات اولٰیک القوم ماقت الآیة لمابقی مزالقرآن شئی“

اگر کوئی آیت کسی قوم یا کسی گروہ کے بارے میں نازل ھوئی اور وہ قوم ختم ھوگئی لھٰزا آیت بھی ختم ھوجاتی تو قرآن میں کچھ باقی ھی نہ بچتا“

اس بنا پر اگر قرآن کی کوئی آیت گزشتہ اقوام میں سے کسی قوم کے بارے میں نازل ھوئی اور وہ قوم تباہ اور ختم ھوگئی اور آیت مودر نزول سے مخصوص ھوئی اور آیات کی شان نزول کی حیثیت مشخص ومعین کرنے اور محدود کرنے والی ھوئی جب وہ قوم صفہ ھستی سے مٹی آیت بھی تمام ھوجائے گی اور صرف تلاوت کی حد تک لفظی وجود باقی رہ جائے گا لیکن ایسا نھیں ھے کیونکہ: جو آیت کسی ایک سلسلہ میں نازل ھوئی کسی ایک اصل کلی کے مطابق ھے اسی امر سے مخصوص نھیں ھے، پس اگر ایک کلی کی مطابقت کسی ایک مورد سے کریں یا کسی خاص مورد میں ایک حکم کلی صاد رہو تو نزول آیت کا وہ مورد اس اصل کلی کے کے مصادیق میں سے ایک مصداق ھوگا لھٰزا نزول آیت کے اس مورد کے بر طرف ھوجانے یا ختم ھوجانے سے آیت کے کلی مفہوم میں کوئی تغیر پیدا نھیں ھوتا اور نہ آیت کی حجّیت ختم ھوتی ھے کیونکہ اگر ایسا ھوگا تو قرآن میں کچھ باقی نہ بچے گا اس لئے کہ اس کا کو زیادہ تر حصّہ ان احکام سے متعلق ھے جو لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے رہے ھیں اور یہ احکام بدلنے والے نھیں ھیں۔

مثال کے طور پر

کفار کے ساتھ پیغمبر اسلام کی جنگوں میں دوایسے واقعے پیش آئے: ایک واقعہ ایسے گروہ سے مربوط تھا جنھوں نے وفاداری کا عہدکیا تھا لیکن وہ عہد توڑ کر میدان سے فرار کر گئے اور دوسرا واقعہ ایسے گروہ سے متعلق ھے جنھوں نے وفاداری کا عہد کیا اور اپنے عہد وپیمان پر باقی رہے اور اپنا حق ادا کیا یہ دو واقعہ ھیں جن سے متعلق سورہٴ احزاب کی چند آیتیں نازل ھوئی ھیں۔

پہلا واقعہ

وَلَقَدْ کَانُوا عَاہَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لاَیُوَلُّونَ الْاٴَدْبَارَ وَکَانَ عَہْدُ اللهِ مَسْئُولًا قُلْ لَنْ یَنْفَعَکُمْ الْفِرَارُ إِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ الْمَوْتِ اٴَوْ الْقَتْلِ وَإِذًا لاَتُمَتَّعُونَ إِلاَّ قَلِیلًا[58]

بلاشبہ اس گروہ نے پہلے خدا سے عہد وپیمان باندھا کہ میدان جنگ کو ترک کرکے فرار نہ کریں گے اور الٰہی عہد کی ذمہ داری ھوتی ھے( یعنی اگر کسی نے خدا کے ساتھ عہد کیا تو وہ ذمہ دار ھے کہ اس عہد وپیمان کی حفاظت کرے اور اس کا وفادار رہے) آیت کو آگے بڑھاتے ھوئے خدا پیغمبر اسلام سے خطاب کرکے فرماتا ھے: اے پیغمبر جن لوگوں نے فرار کیا اور اپنے عہد کو وفا نھیں کیا ان سے کہئے: اگر تم موت سے فرار کرتے ھو تو اس سے تمھیں کوئی فائدہ نھیں ھوگا کیونکہ جلدی یا دیر بہرحال تمھاری موت آکر رہے گی اور پھر تھوڑی سی چند روزہ دنیاوی لذت کے سوا تمھیں کچھ حاصل نہ ھوگا کہہ دیجئے کہ اگر خدا نے نے تمھارے لئے بُرا ارادہ کر لیا تو تمھیںکون بچاسکتا ھے اگر اس نے تمھارے لئے رحمت کا ارادہ کیا ھو، وہ(عہد شکن لوگ) خدا سے الگ کسی کو اپنا ناصرومددگار نہ پائےں گے۔

اس کے بعد ارشاد ھوتا ھے: جو لوگ سازش کرتے اور اسلام کے خلاف نقشے بناتے تھے نہ خود جنگ میں شرکت کرتے تھے اور نہ اپنے بھائیوں کو شریک ھونے دیتے تھے، اپنے بھائیوں سے کہتے تھے کے ھماری طرف آجاوٴ اور جنگ میں شریک نہ ھو۔ خدا ان لوگوں کو پہچانتا ھے۔

دوسرا واقعہ

مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلً[59]

مومنین میں ایسے جواں مرد بھی ھیں جو خدا سے کئے ھوئے اپنے عہدوپیمان پر باقی رہے پس ان میں سے بعض نے اپنا حق ادا کیا اور بعض انتظار کررہے ھیں کہ اپنا عہد پورا کریں، یہ لوگ اپنے عہد سے دست بردار نھیں ھوئے اور اپنا پیمان نھیں توڑا۔

یہ دوسرا واقعہ ان مومنین سے مربوط ھے جنھوں نے خدا سے عہد کیا اور اس پر جمے رہے میدان جنگ میں شرکت کی اور کار زار سے نہ بھاگے، ان میں سے بعض نے اسلام سے متعلق اپنا حق ادا کیا اور شہادت کے درجہ پر فائز ھوئے اور بعض اس کے منتظر ھیں کہ ان کی بھی باری آئے کہ اپنا حق ادا کریں۔ نہ وہ اپنے عمل پرپشیمان ھوئے جنھوں نے ایفائے عہد کیا اور شہید ھوئے اور نہ یہ لوگ جو شہادت کے منتظر ھیں اپنے انتظار پرپشیمان ھیں۔

سورہٴ احزاب کی آیتوں یہ دو حصّے دوگروہ اور دو واقعات کے بارے میں نازل ھوئے ھیں اور دونوں گروہ تمام ھوچکے ھیں(کچھ شہید ھوئے اور کچھ ھلاک ھوگئے) لیکن ان لوگوں کے جانے کے بعد آیت کا مفہوم ومطلب کبھی ختم ھوتا اگرچہ مورد تمام ھوگیا لیکن اصل کلی باقی ھے۔ اس بنا پر شان نزول مصداق بیان کرنے کے علاوہ کوئی اور حیثیت نھیں رکھتی؛ نہ یہ تفسیر وتعیین نہ یہ اختصاص کا سبب بنتی ھے۔

منفرد منحصرد ومنحصرمصداقات

لیکن بعض ایسی آیتیں بھی ھیں جن کے مصداق منفرد ھیں یعنی ایک فرد کے علاوہ اس آیت کا کوئی دوسرا مصداق نھیں ھے مثلاً یہ آیت:

إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ[60]

 اگرچہ یہ آیت صیغہ جمع کے ساتھ نازل ھوئی ھے نیز الفاظ کے مادے اور ان کی ھیٴیتں اپنے اصل معانی میں استعمال ھوئی ھیں۔ لیکن خارج میں ایک فرد کے علاوہ کوئی اور اس کا مصداق نھیں ھے یعنی وہ شخص جس نے رکوع کی حالت میں فقیر کو صدقہ دیا ھے، اس زمانہ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے سوا کوئی اور نھیں تھا۔

بہر حال شان نزول آیت کو تخصیص نھیں دیتی اور آیت کی اصالت اور اس کا دوام، مصداق کے ختم ھونے سے ختم نھیں ھوتا اگرچہ آیت اور سورہ کی شان نزول ان کے مفاہیم ومطالب کو سمجھنے میں موٴثر کردار ادا کرتی ھے۔

امام محمد باقر علیہ السلام اس حدیث کا بقیہ حصّہ بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

” ولٰکنّ القرآن یجری اوّلہ علیٰ آخرہ مادامت السمٰوات والارض ولکلّ قوم آیة یتلونھاھم منہا من خیرا وشر“[61]

لیکن پورا قرآن ایک حقیقت ھے جو ابتدا سے آخر تک باہم مربوط ھے جب تک کہ نظام وجود باقی ھے اور آسمان وزمین اپنی جگہ پر ھیں اور جو لوگ بھی کسی آیت کی تلاوت کرتے ھیں تو دیکھتے ھیں کہ یہ آیت ان کے حسب حال ھے۔

اس کے بعد محمد بن مسلم امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:

” یا محمّد! اذا سمعت اللّہ تعالی ذکر احداً من ھٰذا الامّة نجیر فنحن ھم واذا سمعت اللّہ تعالی ذکر قوماً سوٴممّن مضی فھم عدونا“

اے محمد بن مسلم! اگر تم نے سنا کہ خداوندعالم نے اس امت میں کسی شخص کو نیکیوں سے یاد کیا ھے تو سمجھ لو کہ اس سے مراد ھم ھیں اور اگر تم نے سنا کہ خداوندعالم نے کسی آیت میں ماضی میں کسی قوم کو بدی کے ساتھ یاد کیا ھے تو جان لو کہ اس سے مراد ھمارے دشمن ھیں۔ یعنی قرآن میں جہاں بھی تمہیں فضیلتوں اور خوبیوں کی بات نظرآئے وہ ھم۔ ھمارے ھم عقیدہ اور پیرو افراد ھیں اور جہاں بھی کفّار وکج فکر افراد کی توبیخ وسرزنش کی گئی ھے وہ ھمارے دشمنوں اور مخالفوں کے لئے ھے وہ اس وقت موجود ھوں یا اس کے بعد مستقبل میں آئیں اصل کلی سب کے شامل حال ھوگی۔ پس قرآن کریم اصول کلیّہ پر مبنی ھے اور مصداقات سے اس کی مطابقت اس قانون کلی کی محدودیت کا باعث نہ ھوگی۔

قرآن اور جلائے قلب

ہم عرض کر چکے ھیں کہ قرآن کلّی اصول کا حامل ھے اور مصداقات پر ان اصول کی تطبیق ان کی محدودیت کا سبب نھیں ھوگی، ان اصول کلّیہ کی پہلی اصلی آیات کی شان نزول کے بارے میں تھی جس کی وضاحت ھم کرچکے ھیں دوسری اصل یہ ھے کہ وہ آیتیں جن کا ظاہر رسول اکرم کی توبیخ اور ان پر عتاب ھے کیا اس سے مراد خود پیغمبر اکرم کی ذات گرامی ھے یا یہ کہ پیغمبر کو اس طرح خطاب کیا جارہا ھے تاکہ وہ امّت کو بیدار کرے یعنی یہ توبیخ حضرت کے بجائے دوسرے کے لئے ھے،؟

درسے کہتا ھوں تاکہ دیوار سنے:

شیخ کلینی حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے ایک روایت میں فرمایا ھے:” نزول القرآن بایّاک اعنی واسمعی یاجارہ“[62]یعنی قرآن اس انداز میں نازل ھوا ھے کہ’‘ میں تم سے کہتا ھوں تاکہ پڑوسی شنے“ وہی مشہور مثل کہ فارسی میں بھی کہتے ھیں” بہ درمی گویم، دیوار گوش کن“ مثال کے طور پر خداوندعالم سورہٴ انعام میں پیغمبر اکرم کو خطاب کرتے ھوئے فرماتا ھے:

وَإِذَا رَاٴَیْتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فِی آیَاتِنَا فَاٴَعْرِضْ عَنْہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ وَإِمَّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیْطَانُ فَلاَتَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرَی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِین[63]

اے پیغمبراگر تم نے دیکھا کہ کچھ لوگ ھماری آیات میں مین میخ نکالتے ھیں طعن کرتے ھیں تو تم ان سے دوری اختیار کرو یہاں تک کہ وہ اس بات سے ھٹ کر دوسری بات پر آجائیں اور اگر شیطان تمھیں(اس حکم سے) غافل کردے تو یاد آنے کے بعد ظلم وستمگار لوگوں کے ساتھ ھر گز نہ بیٹھو“

اس آیت میں جیسا کہ آپ ملا حظہ فرما رہے ھیں خطاب رسول اکرم سے ھے کہ خدا انھیں قرآن کا مضحکہ اڑانے والوں کے ساتھ بیٹھنے سے منع کرتا ھے اور حکم دیتا ھے کہ ایسے لوگوں کی بزم میں شریک نہ ھو، لیکن سورہٴ نساء میں فرماتا ھے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ اٴَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللهِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاٴُ بِہَا فَلاَتَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ إِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِینَ وَالْکَافِرِینَ فِی جَہَنَّمَ جَمِیعًا[64]

بلاشبہ(اے مومنو!)تم پر قرآن میں حکم الٰہی نازل ھوچکا ھے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیت کے خلاف کفر بکا جارہا ھے ان کا مزاق اڑایا جارہا ھے وہاں نہ بیٹھو یہاں تک کہ یہ لوگ قرآن کا مضحکہ اڑانے کے بجائے دوسری باتوں میں مشغول ھوجائیں(اگر تم نے قرآن کا مضحکہ اڑاتے وقت ان کی ھمنشنی اختیار کی تو)تم بھی درحقیقت ان ھی کے مانند ھوجاؤ گے اور خداوندعالم تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرے گا،،

یہاں قرآن مومنین سے خطاب کرتے ھوئے فرماتا ھے: کہ میں نے پہلے بھی تمھیں یاد دہانی کرائی ھے کہ ایسے منافقوں کی بزم میں نہ بیٹھو جو قرآن کا مزاق اڑاتے ھیں، یہاں تک کہ وہ لوگ اس بُری حرکت سے دست بردار ھوجایئں۔ جبکہ قرآن نے کسی بھی آیت میں لوگوں سے یہ خطاب نھیں فرمایا ھے کہ منافقوں کے ساتھ نہ بیٹھیں اور ان کی بزم میں شریک نہ ھوں، پھر اس آیت میں یہ کیوں فرماتا ھے کہ ھم نے تمھیں پہلے یاد دہانی کرادی جبکہ سورہٴ انعام میں اس سلسلہ میں صرف پیغمبر اکرم کو خطاب فرمایا ھے؟

Back Index Next