Back Index Next

یہیں سے ھمیں یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ سورہٴ انعام میں جو بھی پیغمبر اکرم سے خطاب ”ایّاک اعنی واسمعی یاجارہ“ کی نوعیت کا ھے اور اگرچہ یہ خطاب پیغمبر اکرم سے ھوا لیکن اس سے مراد عوام اور امّت ھیں اور مزید یہ کہ وہ معصوم ومطہر پیغمبر کبھی بھی شیطان وسوسہ کا شکار نھیں ھوسکتا، <وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی إِنْ ھوَ إِلاَّ وَحْیٌ یُوحَیٰ>[65] وہ(پیغمبر) اپنی خواہش سے نھیں بولتا جب تک اس پر وحی نہ نازل ھو،،

شیخ کلینیۺ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا: ” نزل القرآن بایاک اعنی واسمعی یا جارہ“ کے بارہ میں فرمایا:

” معناہ ما عاتب اللّٰہ عزّوجّل بہ علیٰ نبیہ فہو یعنی بہ ما قد مضیٰ فی القرآن مثل قولہ: ولولا ان ثبّتناک لقد کدت ترکن الیہم شیئاءً قلیلاً عنی بذالک غیرہ“[66]

یعنی مذکورہ بالا حدیث کا مطلب یہ ھے کہ جو کچھ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم نے بعنوان عتاب فرمایا ھے اس سے مراد دوسرے لوگ ھیں مثلاً خداوندعالم کا قول کہ: اگر ھم نے تمھیں محکم واستور نہ رکھا ھوتا تو نزدیک تھا کہ ان لوگوں کی طرح تم بھی کج ھوگئے ھوتے( سورہٴ اسراء/ آیت ۷۴) اور اس کلام سے اس نے پیغمبر کے علاوہ دوسرے کو مراد لیا ھے۔

پس تو بیخ وسرزش والی آیتیں جن میں حضرت کو خطاب کیا گیا ھے۔ وہ ”ایّاک اعنی واسمعی یاجارہ“کے عنوان سے نازل ھوئی ھیں اور ان سے مراد امّت کے غلط اور گمراہ افراد ھیں۔

خصوصی خطاب

لیکن جہاں پیغمبر اکرم کی ذات سے کہاگیا ھے وہاں خصوصیت کی علامتیں آیت میں ذکر کی گئی ھے۔ مثال کے طور پر خداوندعالم سورہٴ اسرء میں ارشاد فرماتا ھے:

اٴَقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا وَمِنْ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ َافِلَةً لَکَ عَسَی اٴَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا( [67]

” نماز قائم کرو، زوال آفتاب سے شب کی تاریکی شروع ھونے تک اور نماز بھی قائم کرو کہ وہ مشہود ھے اور شب کا کچھ حصّہ تہجّد ونافلہٴ میں بسر کرو، شاید تمھارا خدا تمھیں مقام محمود پر مبعوث فرمائے“

وہ نمازیں جو زوال آفتاب اور آغاز شب کے درمیان آتی ھیں ظہر وعصر ومغرب وعشا ھیں ” اور قرآن الفجر“ صبح کی نماز ھے یہ کہ تمام پانچ نمازیں تمام مسلمانوں پر واجب ھیں اور اس میں پیغمبر اکرم کو کوئی خصوصیت نھیں ھے اگرچہ اس کا خطاب پیغمبر سے ھے لیکن چھٹی نماز یعنی نافلہٴ شب آنحضرت سے مخصوص ھے اور دیگر افراد پر واجب نھیں بلکہ مستحب ھے۔

یہ خصوصیت آیت کے دو الفاظ ” لک“ اور” یبعثک“ سے سمجھ میں آتی ھے اور اگر ان پانچ نمازوں کی طرح بظاہر صرف پیغمبر اکرم سے خطاب نہ ھوتا بلکہ تمام مکلّفین اس میں شامل ھوتے تو صرف لفظ ” فتھجّد“ میں موجود خطاب ھی کافی ھوتا جیسے پنجگانہ نمازوں میں ”اقم“ کے خطاب پر ھی اکتفاء کی گئی ھے آیت میں نماز شب لفظ” نافلہ“ سے تعبیر کی گئی ھے اور ”نافلہ“ کے معنی ھیں زیادہ اور اضافی جیسا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں ارشاد ھوتا ھے <وَوَہَبْنَا لَہُ إِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ نَافِلَةً>[68]ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کیا اور ان پر یعقوب کا اضافہ کیا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوندعالم سے صرف ایک فرزند کی درخواست کی تھی۔ خداوندعالم نے انھیں اسحاق جیسا بیٹا عطا کیا اور اسحاق علیہ السلام سے یعقوب علیہ السلام نام کا فرزند پیدا ھوا۔ اس بنا پر یعقوب ابراہیم کے پوتے ھیں اور چونکہ حضرت کی درخواست اور دعا سے زیادہ تھے لھٰزا انھیں ” نافلہ“ کی تعبیر سے یاد کیا گیا ھے۔

نماز نافلہ بھی چونکہ پنجگانہ نمازوں۔ جو سب پر واجب ھیں۔ پر اضافہ کی حیثت رکھتی ھے لھٰزا اسے بھی ” نافلہ“ سے تعبیر کیا گیا۔ ” مقام محمود“ یعنی مطلق وکامل مرتبہ ومقام کہ تمام نعمتیں آپ کے وجود کی برکت سے دوسروں تک پہنچیں اور آپ کے فیض سے تمام انسان ان نعمتوں سے بہرہ مند ھوئے خداوندعالم نماز شب کی برکتوں سے آپ کو مقام محمود تک پہنچاتا ھے تاکہ موجودات آپ کی ثنا کریں

قرآن کا عربی ھونا

ایک اور مطلب جس پر گفتگو ضروری ھے قرآن کے ” عربی ھونے“ کا مسئلہ ھے خداوندعالم سورہٴ شعراء میں پیغمبر اکرم سے ارشاد فرماتا ھے:

> نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الْاٴَمِینُ عَلَی قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنْ الْمُنذِرِینَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِینٍ>[69] جبرئل امین نے اسے تمھارے قلب پر نازل کیا تاکہ لوگوں کو(عذاب الٰہی سے) ڈراوٴ۔

امام محمد باقر علیہ السلام یا امام جعفر صادق علیہا السلام سے دریافت کیا گیا کہ ” لسان عربی مبین“ کا مطلب کیا ھے؟ امام نے فرمایا:( یبّین الالسن ولا تبینہ الالسن) عربی زبان تمام زبانوں کی وضاحت کرنے والی ھے۔ لیکن دوسری زبانیں اس زبان کے مطالب کی رساطور پر وضاحت کرنے سے قاصر ھیں۔ عربی زبان اس قدر غنی اور قوی ھے کہ بڑے بڑے لطیف اور دقیق معانی ومطالب کو بسیط الفاظ کے جامہ میں بیان کرسکتی ھے لیکن تمام زبانیں اگر مطالب اور لطیف مفاہیم بیان کرنا چاہیں تو انھیں چند جملوں میں بیان کریں گی اور اس صورت میں زبان کا لطف خاص جاتا رہے گا مجموعی طور پر دنیا کی تمام موجودہ زبانیں اس جہت میں برابر نھیں ھیں۔ بعض زبانیں ضعیف وناتواں ھیں اور اس کا بولنے والے زبان کے تمام مفردات کے ذریعہ بھی اپنے پورے مطالب بیان نھیں کرسکتا، مثلاً بیس لفظوں کے استعمال کے بعد وہ ایک بات سمجھا پائے گا، لیکن عربی زبان سب سے زیادہ غنی زبان ھے اور ایک ایک کلمات و الفاظ کے ذریعہ بہت سے معانی و مطالب کی وضاحت پر قادر ھے اور یہ عربی الفاظ کی وسعت وجامعیّت کی نشانی ھے۔

قرآن کے مراحل

اس کے باوجود یہ زبان ”عربی مبین“ بھی ان بلند معانی ومطالب کو جو خدا کے پاس ھیں بیان نھیں کرسکتی اسی بناپر ھم نے عرض کیا کہ قرآن کے دو مرحلے ھیں:

۱۔ مرحلہ علو، جواّم الکتاب میں خدا کے نزدیک ھے <وَإِنَّہُ فِی اٴُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیمٌ>[70]یعنی بلاشبہ یہ قرآن ھمارے پاس اُم الکتاب ” لوح محفوظ“ میں بلند اور حکمت آمیز ھے۔

۲۔ مرحلہٴ نزول، جیسا کہ پہلے عرض کرچکے ھیں نزول کے بھی دومرحلے ھیں نزول کا دفعی مرحلہ کہ خداوندعالم نے جہاں لفظ ” انزال“ استعمال کیا ھے اس سے مراد یہی مرحلہ ھے مثلاً <إِنَّا اٴَنزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُون>[71]ہم نے قرآن عربی زبان میں نازل کیا تاکہ شاید تم اسے درک کرو۔ اور دوسرا مرحلہ تدریجی نزول کا ھے جیسے اوپر بیان شدہ سورہٴ شعراء کے اندر قرآن کے زبان عربی مبین میں نزول کو ذکر کیا گیا ھے

انزال وتنزیل کی اصطلاح جو قرآن کے بارے میں متعدد آیات میں آتی ھے عربی لغت میں یہ نزول ” تجافی“( چھوڑ دینے یادوری اختیار کرنے) کی صورت میں استعمال ھوتا ھے جیسے بارش کا نزول کہ جب بارش کا ایک قطرہ بادل سے نیچے آیا تو اب ایسا نھیں ھے کہ وہ قطرہ اب بھی بادل میں موجود نہ ھو۔ اور تنزیل کے معنیٰ میں بھی آیا ھے قرآن کے انزال وتنزیل سے مراد یہی دوسرے معنیٰ ھیں یعنی قرآن نے اپنے اس بلند مرحلہ سے جو خدا کے نزدیک ھے اس مرحلہ تک نزول کیا ھے کہ انسانی فہم سے نزدیک اور اس کے لئے قابل درک ھو گیا ھے ساتھ ھی وہ خدا کے نزدیک اپنے بلند مرحلہ پر باقی بھی ھے اور ایسا نھیں ھے کہ نازل ھونے کے بعد وہ پہلے والے بلند مرحلہ سے نیچے آگیا اور اب اس کی جگہ خالی ھوگئی ھے

جب ایک دانشور کوئی علمی باب عمومی درک وفہم تک نیچے لاکر سادے اسلوب میں بیان کرتا ھے تو ایسا نھیں ھے کہ اس عمل سے وہ علمی بات اپنے خاص علمی مطلب کو کھو چکی ھے قرآن کا نزول بھی اسی نوعیت کا ھے: وہ اپنے بلند مرحلہ میں ” اُم الکتاب“ کے اندر باقی بھی ھے اور انسانوں کی فہم وا دراک کی سطح پر بیان بھی ھوا ھے۔ اس کے لئے ایسی بات نھیں کہ اگر کوئی کتاب کسی کتب خانہ کی اونچی الماری سے نیچے لائی جائے تو گویا اب کتاب اس اونچی جگہ پر نھیں ھے، یہی وجہ ھے کہ قرآن فرماتا ھے: < مَا عِنْدَکُمْ یَنفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ>[72]جو کچھ تمھارے پاس ھے ختم ھوجائے گا اور جو کچھ خدا کے پاس ھے باقی رہنے والا ھے۔ جیسا کہ سورہٴ زخرف میں آیا ھے ” عند اللّٰہ امّ الکتاب“ میں بھی ھے اور اسی بنا پر اسے ” حبل اللہ“سے بھی تعبیر کیا گیا ھے کہ اس حبل اللہ کا ایک حصّہ اللہ کے نزدیک ھے اور دوسرا حصّہ زمین پر ھے اور انسان اس سے تمسّک اختیار کرکے کمال اور بلندی حاصل کرتا ھے اور جو لوگ قرآن سے تمسک اختیار کرکے کمال کے بلند ترین درجوں پر پہنچے وہ علم لدنّی کے مالک قرار پائے۔

قرآنی علوم

اب ھم ایک دوسرے مطلب کی طرف آتے ھیں اور وہ یہ کہ قرآن ھمیں کن علوم کی تعلیم دیتا ھے؟ اگرچہ ھر علم اپنی جگہ پر فضیلت رکھتا ھے لیکن بھترین علم وہ ھے جو انسان کا ابدی زادراہ قرار پائے۔ انسان پیدائش کے بعد مر نھیں جاتا بلکہ ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ھوتا رہتا ھے اور وہ بھترین علم جو اس مسافر کا تو شہ اور زادراہ بن سکتا ھے، اصول دین، آغاز خلقت، رسالت اور قیامت کا علم جسے ایک لفظ میں سمٹ کر ” علم توحید“کہا جاتا ھے۔ کیونکہ یہ سب(یعنی مبداٴ، ومعاد، وحی ورسالت وغیرہ) کو اپنے دامن میں سمیٹے ھوئے ھے۔ یہی وجہ ھے کہ قرآن کریم ان الٰہی معارف کی تعلیم کو انبیاء کرام کی رسالت اور فرائض میں شمار کرتا ھے، <وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ >[73]وہ ھے جس نے انبیاء کرام کو امّیوں میں سے مبعوث فرمایا تاکہ․․․․․․ ان لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ قرآن جن علوم ومعارف کی تعلیم دیتا ھے انھیں اس آیت کریمہ میں ”کتاب وحکمت “کے نام یاد کیا گیا ھے۔ سورہٴ محمد میں ارشاد ھوتا ھے:

فَاعْلَمْ اٴَنَّہُ لاَإِلَہَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ [74]

”جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور اللہ نھیں اور اپنے نیز مومنین ومومنات کے لئے مغفرت وبخشش طلب کرو، خداوندعالم تمھارے دنیا وآخرت کے انتقال کی منزلوں سے آگاہ ھے“۔

مذکورہ آیت میں خداوندعالم نے معارف کے ایک حصّہ کی تعلیم دی ھے۔ مرحوم ملّا محسن فیض اس آیت کے ذیل میں پیغمبر اکرم کی ایک حدیث نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:

”الا ستغفار وقول لاالہ الاّٰاللّٰہ خیر العبادة“

”استغفار کرنا اور کلمہ توحید کا ذکر بھترین عبادت ھے،،

لیکن بعض روایات میں یوں آیا ھے کہ:”خیرالعلم التوحید وخیر العبادة الاستغفار“ یعنی بھترین علم توحید کا علم ھے اور بھترین عبادت ا ستغفار ھے۔

پس وہ بھترین علم جسے حاصل کرنے پر رسول خدا مامور کئے گئے ھیں، علم توحید ھے شیخ طوسیۺ تفسیر تبیان میں اس آیت کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں: یہ آیت اس بات کی دلیل ھے کہ علم توحید بدیہی نھیں بلکہ اکتسابی ھے ورنہ اسے امر کی شکل میں پیش کیا جاتا۔ فاعلم انّہ لاالٰہ الّااللّٰہ“

لیکن یہ استدلال بظاہر کامل نھیں ھے کیونکہ ” فاعلم“ صرف علم نظری کے لئے استعمال نھیں ھوتا بلکہ بدیہی علم کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ھے اسی وجہ سے آیت مذکورہ کے ذیل میں بیان ھونے والی بعض رویات میں اسے ”خیرالعبادہ“سے تعبیر وتفسیر کیا گیا ھے اس لئے یہاں ” فاعلم“ ’’ فاعتبر‘‘ کے معنی میں ھے، کیونکہ اصول دین کے باب میں اس پر ایمان لانا اہم ھے نہ کہ اس کا علم حاصل کرنا۔ ممکن ھے ایک شخص کے لئے توحید قطعی اور یقینی ھو لیکن وہ اپنے بغض وعناد کی وجہ سے اس پر ایمان نہ رکھتا ھو۔ قرآن ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ھے:< وحجدوا بہا واستیقنہّا انفسہم>() انھوں نے(الٰہی معجزہ)کا یقین کرنے کے بعد بھی اس کا انکار کیا۔

؟؟؟ آیت نمبر سہی کریں() سورہٴ نحل آیت۱۴․

البتہ یہ وہی علم ھے جس کے بارہ میں نہج البلاغہ میں آیا ھے ” رب عالم قد قتلہ جہلہ وعلمہ معہ لاینفعہ“کچھ عالم ایسے ھیں جن کے علم نے انھیں مار ڈالا اور ان کے علم نے انھیں کوئی فائدہ نھیں پہنچایا، اس طرح کا علم در حقیقت جہل ھے۔ لھٰزا کہا گیا ھے کہ: ایمان، قلب کے ذریعہ اعتراف واعتقاد، زبان کے ذریعہ اقرار اور اعضاء و جوارح کے ذریعہ عمل کا نام ھے، صرف علم وآگاہی ایمان نھیں ھے، بلکہ عالم ھونا مومن ھونے کا مقّدمہ ھے۔ دریا کا وجود نظری نھیں بلکہ بدیہی ھے، لیکن جو شخص دریا کے کنارے ھے اگر ھوشیار نہ رہے تو ممکن ھے کہ دریا میں گر پڑے اور ڈوب جائے لھٰزا آگاہ کرنا چاہئے کہ ھوشیار رہے کہ دریا کہ کنارے کھڑا ھے، یہاں بھی ” فا علم“ ایک دھوکا ھے۔ اس کے علاوہ ضروری نھیں ھے کہ جس چیز کا حکم دیا جارہا ھے ھمیشہ بدیہی نہ ھو۔

انبیائے کرام اور دلوں کی صفائی

اس بنابر مبداء ومعاد کا علم بدیہی علم ھے لیکن کبھی اس پر غفلت کے پردے پڑے رہتے ھیں ایسے ھی موقعوں پر انبیائے کرام آتے ھیں اور یہ پردے اٹھا دیتے ھیں لھٰزا خداوندعالم قرآن کریم میں رسول اکرم سے ارشاد فرماتا ھے: ” فذکّر انّما انت مذکّر“ لوگوں کو آگاہ کیجئے۔ اور یاد دلایئے آپ صرف یاد دلانے والے ھیں۔ ضمنی طور پر اس آیت کریمہ سے ” ویعلّمہم الکتاب والحکمة“ کے معنی بھی واضح ھوتے ھیں کہ تعلیم سے مراد وہی یادآوری اور ٹہوکا ھے جن چیزوں کو لوگ جانتے تھے اور جو لوگوں پر واضح تھیں لیکن بعض وجوہ کی بنا پر ان سے غافل ھوگئے تھے پیغمبر ان کی یاد دہانی کراتے ھیں۔

کبھی ایسا ھوتا ھے کہ کسی کو زمین کی گہرائیوں سے پانی نکالنے کا طریقہ سکھلایا جائے، یہ تعلیم ھے، لیکن کبھی دریا کے کنارے کھڑے ھوئے شخص کو توجہ دلائی جاتی ھے، دریا! دریا تاکہ وہ دریا میں گرنہ پڑے۔ یہاں صرف یاد دہانی ھے تعلیم نھیں کیونکہ وہ خود جانتا ھے کہ وہاں دریا ھے، اس کے باوجود غافل ھے، اسے ھوشیار کرنا چاہیئے تاکہ دریا میں گر نہ پڑے۔

توحید، انسان کی سرشت وطینت میں ایک فطری امر ھے۔ انبیاء کرام توحید کے معلم نھیں ھیں بلکہ انھیں اس فطری امر کے یاد دلانے والے ھیں جن کی فطرت پر غفلت کا پردہ پڑ گیا ھے، قرآن کریم ایسے افراد کے بارے میں ارشاد فرماتا ھے: <بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ>[75]بلکہ ان کے دلوں پر ان کے بُرے اعمال کا رنگ بیٹھ گیا ھے۔

لہٰذاخداوندعالم اپنے بعض احکام کو طہارت کے عنوان سے بیان فرمایا ھے۔ انسان کو ھر نماز میں طہارت کرنا چاہیئے۔ اگر وضو یا غسل کے لئے اس کے پاس پانی نہ ھو تو پانی کے بدلے خاک سے یہ طہارت حاصل کرے: <فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَیَمَّمُوا صَعِیدًا طَیِّبًا>[76] اگر تمھیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیّمم کرو۔ اس کے بعد اسی آیت کے آگے فرماتا ھے: ”لیطہّرکم“ یعنی یہ حکم اس لئے ھے کہ خداوندعالم تمھیں پاک کردے یہاں وضو کا مسئلہ نھیں ھے بلکہ تیّمم کا مسئلہ درپیش ھے۔ چہرہ اور ھاتھوں پر خاک ملنا ظاہری طور پر پاکیزگی و طہارت کا سبب نھیں ھوتا۔ معلوم ھوا کہ ظاہری طہارت کے علاوہ ایک دوسری طہارت کا ذکر بھی قرآن میں ھے وہ ھے انسانی فطرت وروح کی طہارت اور یہ طہارت ایک طرح سے باطن کا میل صاف کرنا اور دل کی صفائی ھے وحی کا حاصل بھی یہی باطن کی صفائی ھے۔

قرآن کریم کی وہ تمام آیتیں جن کی زبان یاد دہانی اور عہد ومیثاق وغیرہ کی زبان ھے، اس بات کی تائید کرتی ھے۔ تعلیم کے عمومی معنی میں تذکرویاد دہانی بھی شامل ھے اسی لئے گزشتہ دو آیتوں میں ” فیعلّمہم“ اور ” فاعلم“ اسی معنی میں تھے۔ اسی بنا پر ھم نہ صرف مبداء ومعاد اور وحی وغیرہ کے لئے فطری دلیل رکھتے ھیں بلکہ برہانی دلیلیں بھی اسی فطری دلیل کی طرف پلٹی ھیں وہ خود مستقل دلیلیں نھیں ھیں۔ قرآن کریم جو اکثر غور وفکر، تفکّر وتدبّر کا حکم دیتا ھے یہ سب آگاہی اٹہوکا ھے کہ دل آگاہ ھو اور دیکھے نہ کان اور آنکھ کیونکہ جو کچھ انسان دیکھنے اور سننے سے حاصل کرتا ھے علم ھے،لیکن جن چیزوں کو وہ پہلے سے جانتا تھا فقط انھیں یاد دلایا گیا ھے علم اور سیکھنے والی چیز نھیں ھے۔ قرآن کریم ارشاد فرماتا ھے: <وَاللهُ اٴَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُمْ لاَتَعْلَمُونَ شَیْئًا>[77] خداوندعالم تمھیں تمھاری ماووٴں کے رحموں سے اس حالت میں دنیا لایا کہ تم کچھ بھی نھیں جانتے تھے۔

سورہٴ سجدہ میں ارشاد ھوتا ھے: <وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَالْاٴَفْئِدَةَ>[78] اور اس نے تمھارے لئے کان، آنکھ اور دل قرار دیئے۔ انسان ابتدا میں جبکہ وہ پیدا ھوتا ھے ھر چیز سے بے خبر ھوتا ھے، لیکن رفتہ رفتہ آنکھوں اور کان کے ذریعہ بعض چیزوں کو دیکھتا سنتا اور عقل کے ذریعہ احساس کرتا ھے اس طرح وہ رفتہ رفتہ صاحب علم ھوتا جاتا ھے اور جو حالات اس کے ارد گرد گزرتے جاتے ھیں ان سے باخبر ھوتا جاتا۔

آسمانی کتابوں اور حکمت وفلسفہ کی کتابوں کا فرق

آسمانی کتابوں اور فلسفہ کی کتابوں کا فرق یہ ھے کہ آسمانی کتابیں ھدایت ھیں اور دل سے سرو کار رکھتی ھیں اور انسان کو اس کے باطن سے مخاطب کرتی ھیں لیکن فلسفہ کی کتابیں کان اور آنکھ کے ذریعہ تعلیم دیتی ھیں۔ آسمانی کتابیں شہر کے اندر سے انسان سے ھم کلام ھوتی ھیں اور فلسفہ کی کتابیں دروازہ شہر کے باہر سے۔ قرآن کریم جب استدلال کرتا ھے تو آیات کے آخر میں اکثر کہتا ھے ” افلا تعقلون“ کیا تم اپنی عقل کو کام میں نھیں لاتے؟ کبھی کہتا ھے ” افلا تذکّرون“ کیا تمھیں یاد نھیں آتا؟ ان خطابات سے یہ بات سمجھ میں آتی ھے کہ توحید ایک فطری مسئلہ ھے کہ خداوندعالم اس کی علامتیں اور نشانیاں بیان کرنے کے بعد انسان کو دعوت دیتا ھے کہ غور و فکر سے کام لے تاکہ اسے یاد آجائے۔

سورہٴ نحل میں تیسری آیت کے بعد بہت سے مسائل اور فطری موجود کی طرف اشارہ کیا گیا ھے لیکن وہ مجموعی طور پر ایک استدلال ھے< خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ>[79] خداوندعالم نے آسمانوں اور زمینوں کو حق کی بنیاد پر حق فرمایا اور وہ ان چیزوں سے منزہ ھے جن کا مشرکین اسے شریک قرار دیتے ھیں۔ ادبی نقطئہ نگاہ سے ” بالحق“ کا باء ملاسبت کے لئے ھے یعنی اس نے دنیا کو حق کے لباس میں خلق فرمایا ھے اور یہ لباس تمام دنیا کو اس طرح چھپائے اور احاطہ کئے ھوئے ھے کہ اس میں باطل کے لئے گنجائش نھیں ھے:

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْاٴَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلاً ذَلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ النَّارِ[80]

ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ھے؛ بیہودہ اور باطن پیدا نھیں کیا، یہ کافروں کا گمان ھے کہ پس وائے ھو کافروں پر جہنم کی آگ سے۔

جو چیز کسی بھی مشخص مقصد کے تحت وجود میں ھو باطن نھیں ھوسکتی خداوندعالم سورہٴ نحل کی بعد کی آیتوں میں بعض موجودات کی خلقت کا مقصد یوں بیان فرماتا ھے:

 وَالْاٴَنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاٴْکُلُونَ وَلَکُمْ فِیہَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ وَتَحْمِلُ اٴَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بَالِغِیہِ إِلاَّ بِشِقِّ الْاٴَنفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لاَتَعْلَمُونَ[81]

اور چوپایوں کو تمھارے لئے پیدا کیا تاکہ ان کی کھالوں اور بالوں کے ذریعہ اپنے کو سردی وگرمی سے محفوظ رکھو اپنی سردی دور کرو اور ان میں سے تم بعض جانورں کا دودھ اور گوشت کھاتے ھو ان میں تمھارے لئے شان وشوکت ھے جب تم انھیں چرانے کے لئے لے جاتے ھو یا واپس لاتے ھو اور وہ تمھارے وزنی بوجھ کو جنھیں تم زحمتوں کے بعد بھی اٹھا نھیں سکتے، ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاتے ھیں، بلاشبہ تمھارا خداوندعالم بڑا شفیق ومہربان ھے۔ اسی نے گھوڑں،خچروں، اور گدھوں کو تمھاری سواری اور تمھاری آزینت کے لئے پیدا کیا۔ ان کے علاوہ اور چیزیں بھی پیدا کرے گا جن سے تم ابھی آگاہ نھیں ھو۔

اس سورہٴ میں وہ آیتیں جو موجودات کی خلقت اور ان کے مقصد کو بیان کرتی ھیں ان کا سلسلہ جاری رہتا ھے اور ھم گیارویں، بارہویں اور تیرہویں آیتوں کے آخر میں یہ تین جملہ دیکھتے ھیں۔ <إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُون> بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ھیں۔ <إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُون>بلاشبہ اس میں سمجھنے والوں کے لئے نشانیاں ھیں۔ <إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ>بلاشبہ اس میں ھوشیار وآگاہ افراد کے لئے نشانی ھے۔ یہاں ’ تفکرّ وتعقل‘ تذکر وآگاہی اور یاددہانی کے دائرے میں ھے۔ یعنی لوگ انسانوں اور موجودات کی خلقت پر توجہ کرتے ھوئے غوروفکر کرتے ھیں اور اپنی عقلوں کو کام میں لاتے ھیں اس کا مطلب یہ نھیں کہ کچھ نھیں جانتے اور آگاہ ھوتے ھیں، بلکہ وہ اور چیزوں کو اپنے ذہن میں لاتے ھیں۔ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ ماضی میں پہلے جانتے تھے لیکن فراموش کرچکے ھیں لھٰزا خداوندعالم فرماتا ھے۔< إِنْ ھوَ إِلاَّ ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِینٌ>[82] یہ نھیں فرماتا: ” ھوالاّٰ تعلیم“ قرآن یاد دلانے والا ھے اور تعلیم دینے والا نھیں پیغمبر بھی معلّم نھیں ھیں، اور اگر قرآن میں آیا ھے ” ویعلّمہم الکتاب والحکمة“(وہ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ھیں) تو آیت کریمہ ” ان انت الّا مذّکّر“( آپ صرف یاد دلانے اور آگاہ کرنے والے ھیں) اس کی وضاحت کرتی ھے ایسا نھیں کہ انسان جاہل وغافل پیدا کیا گیا ھو اور اسے مسئلہ مبداٴ ومعاد کی تعلیم نہ دی گئی ھو تاکہ اس پر اعتقاد پیدا کرے۔ بلکہ انسان فطرتاً خدا شناس ھے لیکن کبھی غلط رسم وراج کے پردے اس کی فطرت کو چھپا دیتے ھیں اور انسان کو خدا سے منحرف کردیتے ھیں۔ یہی وجہ ھے کہ پیغمبر اور قرآن اسے یاددہانی کراتے ھیں اور اس کی فطرت کو بیدار کرتے ھیں۔

Back Index Next