Back | Index | Next |
”کمافعلت الیھودو النصاریٰ، صلوّافی الکنائس والبیع وعطّلوا بیوتھم“
یعنی یہودیوں اور عیساؤں کے مانند اپنے گھروںکو قبرستان نہ بناؤ،انھوں نے اپنے کلیساؤں اور عبادت خانوں میں نمازپڑھی اور مخصوص عبادت بجالائے لیکن اپنے گھروں کو محروم ومعطل رکھا۔
گویا عبادت صرف عبادت گاہوں میں ھوسکتی ھے․” فانّ البیت اذاکثر فیہ تلاوة القرآن کثر خیرہ واتّسع اھلہ وامناء لاھل السّماء کماتضیٴ نجوم السّماء لاھل الدنیا“[39] پس بلاشبہ جس گھر میں قرآن کی تلاوت زیادہ ھوتی ھے اس گھر کی خیروبرکت بھی زیادہ ھوجاتی ھے اور وہ گھر اہل آسمان کے لئے یوں ضوبار ھوتا ھے جیسے آسمان کے ستارے اہل زمین کے لئے نور افشانی کرتے ھیں
اسی سلسلہ کی ایک دوسری روایت ابن القدّاح، امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں، آپ نے فرمایا:
البیت الذی یقراٴفیہ القرآن ویذکر اللّٰہ عزّوجّل فیہ تکثر برکتہ و تحضرہ الملا ئکة تھجرہٰ الشّیاطین ویضیٴ لاھل السّماء کماتضیٴ الکو اکب لاھل الارض وانّ البیت الذّی لایقرافیہ القرآن ولایذکر اللّٰہ عزّوجّل فیہ تقلّ برکتہ وتھجرہ الملائکة وتحضرہ الشّیاطین:“[40]
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ھے اور خدا کا ذکرکیا جاتاہے اس کی برکت زیادہ ھوتی ھے فرشتے اس میں حاضر ھوتے ھیں اور شیاطین اس گھر سے دور ھوجاتے ھیں وہ گھر اہل آسمان کے لئے اس طرح نور افشانی کرتا ھے جیسے ستارے زمین والوں کے لئے چمکتے ھیں، اور جس گھر میں قرآن کی تلاوت اور خدا کاذکر نھیں ھوتا بلاشبہ اس کی برکت کم ھوجاتی ھے، فرشتے اس گھر سے دور ھوجاتے ھیں اورشیطانوں کا ڈیرابن جاتاہے․
اکثر آپ دیکھتے ھیں کہ انسان کبھی کوئی کام انجام دینے کی توفیق پاتاہے یا کسی عبادت کے ادا کرنے میں کامیاب ھوجاتا ھے یا پھر خداوندعالم اسے کسی ایسے دینی خطرہ سے محفوظ رکھتا ھے جو اس کے گناہ میں مبتلا ھونے کا سبب بنتا ھے۔ یہ سب ان ھی قرآنی آیات کی برکت کا نتیجہ ھے جس کی اس نے گھر میں تلاوت کی ھے ایک اور روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ھے:
انّ البیت اذاکان فیہ المرٴالمسلم یتلوا القرآن یتراء اہ اھل السماء کما یتراٴیٰ اھل الدنیا الکو اکب الدّری فی السماء۔
بلاشبہ وہ گھر جس میں ایک مسلمان قرآن پڑھتا ھے اہل آسمان اس گھر سے نور حاصل کرتے اور فائدہ اٹھاتے ھیں جیسے اہل زمین آسمان کے چمک دار ستارہ کو دیکھتے اور اس کے نور سے راہ تلاش کرتے ھیں۔
کتاب” وافی“ کے باب النوادر میں جناب جابر امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں، آپ نے فرمایا:
” وقعت مصحف فی البحرفوجد وہ قد ذھب مافیہ الّٰا ھٰذہ الاٴیة: الاالیٰ اللہ تصیر الامور“[41]
ایک قرآن دریا میں گر پڑا لوگوں نے دیکھا کہ اس ایک آیت کے علاوہ اس کی تمام آیتیں دھل گئی ھیں:آگاہ رہو کہ تمام امور کی باز گشت خدا کی طرف ھے․
کیا لطیف تعبیر ھے یعنی جو کچھ بھی خدائی رنگ نہ رکھتا ھو اور خدا کے لئے نہ ھووہ ضائع ھوجاتاہے اور جو کچھ رہ جاتاہے وہ ھر وجود سے خدا کے ارتباط کا پہلو ھے بقیہ سب کچھ محواور زائل ھوجانے والا ھے کیا اچھی تمثیل اور کیا بھترین آیت ھے․
قرآن کی قرائت خوش الحانی اور اس پر غور کرنے کے بارے میں کافی میں تیرہ رواتیں نقل ھوئی ھیں ان میں سے ایک ھم یہاں ذکر کرتے ھیں:
امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ: ”ورتّل القرآن ترتیلا“ کے کیا معنی ھیں․؟آپ نے فرمایا: حضرت امیرامومنین کا ارشاد ھے:
”بیّنة تبیاناً ولاتھذّہ ھذّالشّرہ ولاتنثرہ نثرالّرمل ولکن افرعواقلوبکم القاسیةولایکن ھمّ احدکم آخرالسورة“[42]
قرآن کو صحیح ودرست بیان کرو یعنی حروف والفاظ کو روشن وواضح انداز میں ادا کرو نہ شعر کی مانندا سے تیزی اورعجلت کے ساتھ پڑھو اور نہ ریت کی مانند اسے اس قدر پراگندہ اورایک دوسرے سے جدا نثر میں پڑھو بلکہ اس طرح پڑھو کہ تمھارے سخت دل نرم ھوجائیںاور کبھی تمہاری تمام فکر یہ نہ رہے کہ کس طرح جلد از جلد آخری سورہٴ تک پہنچ جاؤ۔
ادب تلاوت کے سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ھوئی ھے، آپ فرماتے ھیں”قرآن پڑھنے والااگر تلاوت کے دوران ایسی آیت پر پہنچا جس میں خداوند عالم سے کسی چیزکی طلب اور درخواست کی گئی ھے تو بے فیض ھی نہ گزرجائے بلکہ خدا سے اپنے خیر کی دعا کرے اور اگر ایسی آیت پر پہنچے جس میں ڈرانے خوف دلانے اور عذاب الٰہی کا تذکرہ ھو تو خدا سے پناہ طلب کرے اور آتش جہنم سے محفوظ رہنے کی دعا کرے۔
لہذا تلاوت کے آداب میں (قرآنی آیات کے سلسلہ میں ) غور و فکر، دعا اور استغاثہ بھی شامل ھے صرف پڑھ لیناہی کافی نھیں ھے۔ اگرچہ صرف پڑھنا بھی اجرو ثواب سے خالی نھیں ھے۔
تلاوت کے آداب میں سے ایک یہ بھی ھے کہ انسان کتنی مدت میں قرآن ختم کرے؟
قرآن ختم کرنا ماہ رمضان میں ایسی خصوصیت رکھتا ھے کہ دوسرے مہینوں کو وہ خصوصیت حاصل نھیں ھے۔ جناب جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ھے کہ آپ نے فرمایا: ھر چیز کی ایک بہارہے اور قرآن کی بہار ماہ رمضان ھے لہذا کہا گیا کہ ماہ مبارک رمضان میں انسان تین روز کے اندر قرآن ختم کرسکتا ھے لیکن ماہ رمضان کے علاوہ زیادہ غوررفکر کے ساتھ پڑھے․
مرحوم شیخ کلینی نے کافی میں ختم قرآن کی مدت سے متعلق باب میں کئی روایتیں نقل کی ھیں ان میں سے ایک روایت یہ ھے کہ:ایک روز ابوبصیر نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیا:
میں ماہ رمضان المبارک میں ھر شب ایک قرآن ختم کرسکتا ھوں، حضرت نے فرمایا: نھیں ایسانہ کروپوچھادو شبوں میں ؟ حضرت نے فرمایا نھیں، دریافت کیا، پھر کیا تین شبوں میں قرآن ختم کرسکتا ھوں؟ حضرت نے ھاتھ کے اشارہ سے اظہار کیا کہ قابل قبول ھے اس کے بعد فرمایا:
”یا ابا محمد،انّ لرمضان حقاّ وحرمة لایشبہہ شیٴ من الشہور وکان اصحاب محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلّم یقراٴ احدھم القرآن فی شہر اٴو اقلّ، انّ القرآن لا یقراٴ ھذرمة ولکن یرتل ترتیلا فاذامررت بآیة فیہا ذکرالجنّة، فقف عندھا وسللله عزّوجلّ الجنة وا ذا مررت بآیة فیہا ذکرالنار فقف عندھا تعوّذباللّہ من النار“[43]
اے ابومحمد!ماہ رمضان ایک عظیم حق اور بڑے احترام کا سزاوار ھے کہ کوئی مہینہ اس کے جیسا نھیں ھے(پس اگر ماہ رمضان المبارک میں تمھیں اتنی تیزی کے ساتھ قرآن پڑھنے کی چھوٹ ھو تو دوسری مہینوںمیں ایسا نھیں ھے) حضرت پیغمبر اسلام کے اصحاب کرام میں سے ھر ایک قرآن کو ایک ماہ یا اس سے کم عرصہ میں ختم کرتا، تھا بلاشبہ قرآن جلدی جلدی نھیں پڑھا جاتا بلکہ ایک ایک لفظ کو ڈھنگ سے اور غور کر کے پڑھا جاتاہے۔ پس اگر تم کسی ایسی آیت پر پہونچے کہ جس میں جنت کا ذکر ھو تو وہاں ٹھہرو اور خدا وندعالم سے جنت کے لئے دعا کرو اور اگر ایسی آیت پر پہونچے کہ جس میں جہنم کا نام ھو تو وہاں رکوں اور خدا وندعالم سے آتش جہنم سے پناہ مانگو۔
اس بنا پر تیزی اور جلدی کے ساتھ قرآن پڑھنا درست نھیں ھے لھٰزا معمولاً رمضان المبارک کے علاوہ قرآن کو ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ میں ختم کرتے ھیں تاکہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ انسان اس پر غور بھی کرتا رہے۔
تلاوت قرآن کے آداب میں ایک اور بحث جو پیش آتی ھے وہ قرآنی سوروں کے فضائل ھیں۔ اس سلسلہ میں بہت سی روایتیں معصومین علیہما السلام سے نقل ھوئی ھیں۔ سورہ مبارکہ ”حمد“کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ھے کہ اگر اس سورہ نے کسی کو شفا نہ بخشی تو پھر وہ لا علاج ھے۔[44]
البتہ سورہ حمدصرف ظاہری امراض کا اعلاج نھیں ھے بلکہ باطنی و قلبی امراض کا علاج کرتی ھے وہی امراض جن کا قرآن میں ذکر آیا ھے۔(فی قلوبہم مرض) ان کے دلوں میں مرض ھے۔
بہر حال بہتر ھے کہ انسان پابندی کے ساتھ قرآن پڑھتا رہے یا کم از کم قرآن کے بعض سوروں کی تلاوت کی مداومت رکھے اور جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ھر شب مسبحات ستہ کی تلاوت فرماتے تھے یوں ھی انسان کو چاہیٴے کہ سونے سے قبل ان مسبحات کی تلاوت کرے، مسبحات ستہ سے مراد سورہ حدید، سورہ حشر، سورہ جمعہ، سورہ صف، سورہ تغابن، اور سورہ اعلیٰ ھیں۔
جناب جابر سے نقل ھے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص تمام مسبحات سونے سے پہلے پڑھا کرے اس وقت تک نھیں مرے گا جب تک قائم آل محمد کی زیارت نہ کرلے، اور اگر مر گیا تو پیغمبر اسلام کے جوار میں ھوگا۔[45]
سورہ انعام کے سلسلہ میں وارد ھوا ھے کہ امام جعفر صادق علیہ اسلام نے فرمایا: سورہ انعام رفتہ رفتہ نازل نھیں ھوا بلکہ ایک ھی بار میں نازل ھوا ھے۔ اس کے ھمراہ ستر(۷۰) ھزار فرشتے نازل ھوئے، اور اسے پیغمبر اسلام کی بارگاہ تک پہنچایا پس اس کی تعظیم و تکریم کرو کیونکہ اسم مبارک اللہ ستر(۷۰) مرتبہ اس سورہ میں آیا ھے۔ اگر لوگ یہ جان لیتے کہ اس کے پڑھنے میں کتنا اجر و ثواب ھے اسے کبھی ترک نھیں کرتے۔[46]
بہر حال جس طرح بعض سوروںکی فضیلت میں روایتیں بیان ھوئی ھیں یوں ھی بعض آیات کے سلسلہ میں بھی الگ سے روایتیں نقل ھوئی ھیں شیخ کلینی علیہ الرحمة امام موسیٰ کاظم علیہ اسلام سے نقل کرتے ھیں آپ نے فرمایا:
”من استکفیٰ بآیة من الشرق الیٰ الغرب کُفِیَ اذا کان بیقین“[47]
یعنی اگر کوئی شخص مشرق سے مغرب تک قرآن کی ایک آیت سے کفایت کا مطالبہ کرے اور اگر اسے یقین کے ساتھ پڑھے تو وہی ایک آیت اس کے لئے کافی ھے کیا قرآن میں نھیں آیا کہ الیس اللہ بکافی عبدہ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نھیں ھے۔ اگر اللہ کافی ھے تو کلام اللہ بھی اگر یقین و اعتقاد کے ساتھ پڑھا جائے کافی ھوگا۔
آداب تلاوت کی بحث کے تتمہ میں ھم کتاب”وافی“سے ایک دعا نقل کررہے ھیں۔ جس کا عنوان ھے ”باب الدّعا عند قراٴة القرآن“تلاوت قرآن سے پہلے پڑھی جانے والی دعا کا باب۔ اس دعا سے استفادہ ھوتا ھے کہ تلاوت کا مطلب بغیر غور وفکر کے قرآن پڑھنا نھیں ھے بلکہ اس سے مراد ایسا پڑھنا ھے جو غوروفکر کے ساتھ ھو، صرف زبانی لقلقہ نہ ھو اور یہ آداب تلاوت کا تقاضا ھے۔ اس دعا میں آیا ھے۔
”اللّہم فہب لناحسن تلاوتہ وحفظ آیایہ وایماناً بمتشابہہ عملاً بمحکمہ وسبباً وتاوید وھدیً فی تدبیرہ وبصیرة بنورہ“
خدایا! ھمیں توفیق عطا فرما کہ ھم قرآن کی بھترین تلاوت کریں، اس کی آیتوں کو حفظ کریں اس کے متشابہات پر یقین و ایمان پیدا کریں اس کی محکم آیتوں پر عمل کریں اس کی تدبیر سے ھدایت اور اس کے نور سے بصیرت حاصل کریں۔
”اللّہم وکما انزلتہ شقاءً لاولیائکَ و شفاءً علیٰ اعدائکَ وعمی علیٰ اھل معصیتک ونوراً لاھل طاعتک فاجعلہ لنا حصناً منعذابکَ وحراًمن غصبک و ماجزاً عن معصیتک“
بارہ الہٰا! جس طرح تو نے قرآن کو اپنے اولیا اور دوستداروں کے لئے شفا اور اپنے دشمنون کے لئے شفا وبدبختی اور اپنے گناہ گاروں کے لئے نابنیائی اور اپنے اطاعت گزار بندوں کے لئے نور و روشنی بنا کر نازل کیا ھے۔ پس اسے ھمارے لئے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنے والا محکم قلعہ اور اپنے قہرو غصب سے بچنے کے لئے پناہ گاہ اور گناہوں کے مقابلہ میں بند قرار دے۔
” ونوراً یوم نلقک نستضیٴ بہ فی خلقک و نجوز بہ صراطک و نھتدی بہ الیٰ جنتک“
اور اسے ھمارے لئے یوم لقاکا وہ نور قرار دے جس سے ھم تیرے بندوںمیں روشنی حاصل کریں اس کے ذریعہ صراط سے گذرجائیں اور جنت کی طرف ھماری رہنمائی کرے۔
” اللّھم انّا نعوزبکَ من الشقوة فی حملہ والعمیٰ عن علمہ والجورفی حکمہ والغوّ عن قصدہ والتقصیردون حقہ“
خدا وندہم تجھ سے پناہ چاہتے ھیں کہ حامل قرآن ھونے کے باوجود شقاوت سے کام لیں علم قرآن سے اندھے ھوں، اس کے معارف کو نہ سمجھے اور اس کے احکام میں ستم جور کور وارکھیں اس کی راہ سے تجاوز کریں اور اس کا حق ادا نہ کریں۔
سبیل قصدوہی درمیانی راہ اور صراط مستقیم ھے جسے بہرحال طے کرنا چاہئے اور اس سے کسی طرح روگردانی اور گریز نھیں کرنا چاہئے خداوندعالم نے قرآن میں جس راہ کی نشان دہی کی ھے وہی صراط مستقیم ھے اور نجات کی وہی راہ ھے کہ اگر کسی نے اس سے گریز کیا تو گویا راہ خدا کو طے نھیں کیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ھوتا ھے۔
>وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ اٴَجْمَعِین[48]
یہ خدا پر ھے کہ تمھیں سیدھی راہ کی نشان دہی کرے اور دوسری راہ بھی ھے جو گمراہی کی راہ ھے(پس خدا کی راہ سے گریز نھیں کرنا چاہئے) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ھدایت دیتا۔ اس بناپر جو لوگ خدا کی راہ سے دور ھوے اور اس سے گریز کیا وہ منحرف وگمراہ ھوگئے۔ ھمیں ھمیشہ خداوندعالم سے دعا کرنی چاہئے کہ اس قرآن کے ذریعہ اپنی سیدھی راہ ھم پر کھول دے اور یہ قرآنی آیات میں غوروفکر نیزالٰہی احکام کے مقابل تسلیم وخضوع کے ذریعہ ھی میسر ھے۔
” اللّھم احمل عنا ثقلہ واوجب لنااجرہ واوزعنا شکرہ واجعلنا نعیہ و لحفظہ“
خداوندا! قرآن کی سنگینی ھمارے دوش سے ھٹالے، اس کی جزا ھمیں عطافرما، اس نعمت کا شکر ادا کرنے کی توفیق فرما اور ھمیں ایسا بنادے کہ اچھی طرح سمجھیں اور حفظ کریں۔
” اذن واعیہ“کی بحث میں یہ بات گزر چکی ھے کہ صرف وہی لوگ مفاہیم و معارف قرآن کو درک کر سکتے ھیں جو غور سے سننے والے کان رکھتے ھیں، یعنی ان کے دل معارف قرآن کا ظرف ھیں، قرآن ارشاد فرماتا ھے ” وتعیھا اذن واعیة“یعنی اسے یاد رکھنے والے کان سن کر یاد رکھیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا بھی ارشاد گرامی ھے۔ ”انّ ھٰذہ القوب اوعیة فخیرھا اوعاھا“
یہاں انسان خدا سے یہ دعا کرتا ھے کہ خدایا ھمیں وہ توفیق عطا کردے کہ جو ھماری جان اورہمارے قلب قرآن کا ظرف بن جائیں کیونکہ اگرچہ قرآن کے قاری اور اس کی تلاوت کرنے والے بہت سے ھیں لیکن وہ افراد جن کے قلوب اور جن کی جانیں قرآن کا ظرف ھیں بہت کم ھے۔ انسانوں کی درجہ بندی کے سلسلہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک مشہور حدیث ھے، آپ کمیل ابن زیاد سے فرماتے ھیں:
”النّاس ثلاثة: عالم ربّانی ومتعلم علیٰ سبل نجاة وھمج رعاع اتباع کل ناعق․․․“
انسان تین طرح کے ھیں ایک علم رباّنی ھے دوسرا راہ نجات کا طالب علم ھے اور تیسرا․․․․
اس روایت میں حضرت علی علیہ السلام نے علم ربّانی اور راہ نجات کے متعلم کو مفرد تعبیر کیا ھے۔ کیونکہ بہت ھی مختصر ساہے لیکن تیسرا گروہ جس کی تعداد بہت ھے اسے صیغہ، جمع کے ساتھ ذکر کیا ھے اس سے معلوم ھوتا ھے کہ وہ لوگ جن کے قلوب قرآن کا ظرف ھیں بہت تھوڑے ھیں اور اس دعا میں ھم خدا سے طلب کرتے ھیں کہ ھمیں بھی اس گروہ میں قرار دے۔
” اللّھم اجعلناتنبع حلالہ ونجتنب حرامہ ونقیم حدودہ ونودّی فرئضہ“
خدایا! ھمیں توفیق عطا فرما کہ ھم قرآن کے حلال کی پیروی کریں اور اس کے حرام سے پرہیز کریں، اس کے حدود قائم کریں اور اس کے فرائض ادا کریں۔
اس سے بھی یہ بات معلوم ھوتی ھے کہ ھم سے جس تلاوت کا مطالبہ کیا گیا ھے وہ غوروفکر کے ساتھ ھے ورنہ اگر تلاوت سے مراد بغیر غوروفکر کے صرف قرائت ھوتی تو کوئی ضروت نھیں تھی کہ قرائت سے پہلے انسان خدا سے اس طرح کی درخواست کرتا۔
” اللّھم ارزقناحلاوة فی تلاوتہ ونشاطاًفی قیامہ ووجلاًفی ترتیلہ وقوة فی استعمالہ فی آناء اللّیل والنّھار۔“
خدایا! ھمیں قرآن کی تلاوت میں حلاوت ولذت دنشاط عطا فرما۔(یعنی قرآن کی تلاوت سے ھم لذت حاصل کریں تکلیف نہ محسوس کریں) اور جب ھم اس کی آیتوں کی تلاوت کریں تو خوف وخشیت ھمارے دل میں پیدا ھو۔ ھمیں وہ قوّت وتوانائی عطا کر کہ دن ورات کے تمام اوقات میں اسے بروئے کار لاسکیں اور اس سے استفادہ کریں۔
یہ جو اس دعائے شریفہ میں آیا تھا کہ:خدایا! ھمیں توفیق عطا فرما کہ ھمارے دل معارف قرآن کا ظرف بن جایئں یہ اس لئے ھے کہ اگر کوئی شخص قرآن کے مقابل تسلیم وخضوع سے کام نہ لے گا تو اس کے معارف کو سمجھنے سے محروم رہ جائے گا۔
}سَاٴَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْاٴَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ[49]
”یعنی جو لوگ خدا کی زمین پر ناحق اکڑتے پھرتے ھیں جلدی ھی انہیں اپنی آیتوں سے پھیردوںگا“
خداوندعالم مغرور اور تکبر انسانوں کو توفیق نھیں دیتا کہ وہ قرآنی معارف وحقائق کو سمجھ سکیں، لہذا تکبر کرنے والا انسان آیات الٰہیہ سے، چاہے وہ تکونی آیات ھوں یا تدوینی، آگاہ نھیں ھوسکتا۔ اور نہ ان کی معرفت حاصل کرسکتا ھے۔
فصل اوّل کے تین امور میں سے پہلا امر جو تلاوت سے مخصوص تھا اس میں تلاوت کی کیفیت اور اس کی ذمہ داری وغیرہ سے متعلق باتیں بیان کی گئیں اب اس امر کے تحت آنے والے دو ابواب یعنی قرآن سے تمسک اور اس پر عمل کے باب اور نزدل قرآن کے باب پر یہاں اجمال کے ساتھ بحث کی جارہی ھے۔
قرآن سے تمسک اور اس پر عمل کے باب میں ”کافی“ کے اندر کئی روایتں نقل ھوئی ھیں جن میں سے ایک طویل حدیث یہاں نقل کررہے ھیں امام صادق علیہ السلام حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کرتے ھیں کہ آنحضرت نے فرمایا:
”ایھّا الناس انّکم فی داور ھدنة وانتم علیٰ ظھرسفروالسّیربکم سریع“
اے لوگوں! ابھی تم آرام کی جگہ اور صلح وآشتی کی منزل میں زندگی بسر کررہے ھو تم ابھی راہ میں ہو اور تمھیں تیزی کے ساتھ لے جایاجارہا ھے․
” وقدراٴ یتیم اللیّل والنھار والشّمس والقر یبلیان کلّ جدید ویقربان کلّ بعید ویاٴتیان بکل موعودفا عدّو الجھاز لبعد المجاز“
بلاشبہ تم نے دیکھاکہ شب دروز اور آفتاب وماہتاب کی گردشں ھر نٴی چیز کہنہ بنا دیتی ھیں، اور ھر دوری کو نزدیک کردیتی ھیں اور زمانہ کی یہ رفتار ھر وعدہ کی ھوئی چیز کو تمھارے سامنے پیش کرتی ھے، پس طویل مسافت کے لئے وسیلہ مہیا کرو کیونکہ تمھاری گزرگاہ اور عبور کی جگہ بہت دو رہے اور اس کے لئے وسیلہ کی ضرورت ھے۔
”قال: فقام المقداد بن الاسود فقال: یارسول اللہ وما دار الھدنة؟ قال دار بلاغ وانقطاع“
اس وقت مقداد بن اسود کھڑے ھوئے اور عرض کی یارسول اللہ: ”دارہدنہ “ کیا ھے؟ فرمایا: ایسا گھر جو پہنچانے والا اور جدا کرنے والا ھے(کیونکہ انسان کو آخرت کی منزل تک پہنچاتا ھے اور انسان دنیا میں جس جس چیز سے لگاوٴاور دوستی رکھتا ھے اس سے اسے جدا کر دیتا ھے
”فاذا البسّة علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن فانّہ شافع مشفّع وماحل مصدق“
پس اگر فتنے اور آشوب تاریک رات کے حصوں کے مانند تمھیں ڈھانپ لیں تو قرآن کی طرف رجوع کرو کیونکہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ھے جس کی شفاعت خدا کے یہاں مقبول ھے اور ایسا عرض گزار ھے جس کی شکایت قابل قبول ھے“
سچ ھے! اگر قرآن قیامت کے دن تمھاری شفاعت کرے اور تمھارے حق میں کلام کرے تاکہ خدا تمھارے ساتھ ازروئے عدل پیش نہ آئے بلکہ رحمت کو عدل کا ساتھی قرار دے اور صرف خدائے عادل نھیں بلکہ خدائے عادل ورحیم تمھارا حساب وکتاب کرے تو قرآن کی شفاعت مقبول قرار پائے گی۔ چنانچہ اگر خداوند عالم صرف عدالت کے ساتھ آپ کا حساب وکتاب کرے گا تو بڑی مشکل پیش آئے گی لیکن اگر رحمت بھی عدالت کے ساتھ شامل ھوگئی اور دونوں نے باہم آپ کا حساب وکتاب کیا تو نجات کی امید پیدا ھو جائے گی۔
جس طرح قرآن کی شفاعت خدا کے نزدیک قبول ھے یوں ھی اگر خدا نخواستہ وہ تمھاری شکایت کرے اور تمھاری بد اعمالیاں بیان کرے اور روز جزا کے مالک سے تمھاری شکایت کرے تو خداوندعالم اس کی شکایت کی تصدیق کرے گا، کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ھے پس اگر وہ بندوں کی شکایت صاحب کلام تک پہنچائے تو متکلم اپنے کلام کی تصدیق کرے گا اور اس پر یقین کرے گا۔ اور وہ دن بہت سخت و دشوار ھے کہ قرآن مجید شفاعت کے بجائے ھماری شکایت کرے۔
”ومن جعلہ امامہ، قادہ الی الجنّة ومن جعلہ خلفہ ساقہ الیٰ النّار“
جو قرآن کو اپنے سامنے رکھے اور اس کی پیروی کرے تو قرآن اس کا ذمہ دار وضامن ھوگا اور اسے جنت کی جانب روانہ کرے گا اور جو شخص قرآن کو پس پشت ڈال دے(ببذکتاب اللّہ وراء ظہوہ) قرآن اسے دوزخ اور عذاب الٰہی کی طرف ھنکالے جائے گا۔
” وھوالدّلیل یدل علیٰ خیر سبیل“
اور قرآن ایسا رہنما ھے جو بھترین راہ کی نشان دہی کرتا ھے۔
” وہوکتاب فیہ تفصیل وبیان وتحصیل وہوالفصل لیس بالھزل“
وہ ایسی کتاب ھے جس میں ھر چیز کی تفصیل اور اس کا بیان ھے، اس سے حقائق حاصل ھوتے ھیں اور کوئی مبہم بیان اس میں نھیں پایا جاتا۔ وہ جو بات بھی کہتا ھے سنجیدہ اور فیصلہ کنندہ ھے اس میں کبھی مذاق اور غیر سنجیدگی نھیں پائی جاتی۔
” لہ ظھر وبطن“ قرآن میں ظاہر بھی ھے اور باطن بھی۔
قرآن کے ظاہر کو ظاہری علوم کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ھے لیکن اس کے باطن کو ظاہری، علوم سے نھیں سمجھا جاسکتا۔ امام صادق علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھا جو ایک مدرسہ کا اُستاد تھا اور اس نے فقہی ودینی مسائل میں کئی کتابیں بھی لکھی تھیں۔ ایک روز امام صادق علیہ السلام نے اس سے دریافت فرمایا: ” بماذاتفتی الناس“ کس چیز کے ذریعہ کے فتویٰ دیتے ھو؟اس نے عرض کی: ”بالقرآن“ میں قرآن سے لوگوں کو فتویٰ دیتا ھوں۔ حضرت نے فرمایا: تو قرآن سے فتویٰ دیتا ھے جبکہ خداوندعالم نے تجھے قرآن سے ایک حرف بھی عطا نھیں کیا ھے اور تو نے قرآن کے ایک حرف کی بھی میراث نھیں پائی ھے ” وماورّثک اللّٰہ من القرآن حرفاً“
وہ شخص جو ایک فرقہ کا پیشوا تھا اور جس نے قرآن کے احکام ومسائل سے متعلق کتابیں لکھی تھیں امام اس سے فرماتے ھیں تجھے قرآن کا ایک حرف بھی میراث میں نھیں ملا ھے! کیونکہ پڑھ لکھ کر حاصل کیا جانے والا علم قرآن کے ظاہر تو پہنچا سکتا ھے لیکن باطن قرآن کو وارثتی علم کے بغیر حل نھیں کیا جاسکتا اور جو وارث انبیاء ھے صرف وہی باطن قرآن سے حاصل کرسکتا ھے۔ اگر ایسے علماء پیدا ھوں جو حقیقاً انبیاء اور ان کے اوصاف کے وارث ھوں تو وہ باطن قرآن تک پہنچ سکتے ھیں مگر جس نے عملی طور سے انبیاء کی راہ کو ترک کردیا اور ظاہر قرآن کا کچھ علم حاصل کرلیا وہ قرآن کی میراث سے کچھ بھی نہ پائے گا۔
”فظاہرہ حکم وباطنہ علم، ظاہرہ انیق وباطنہ عمیق لہ تخوم وعلیٰ تخومہ تخوم لا تحصیٰ عجائبہ ولا تبلیٰ غرائبہ“
قرآن کاظاہر اور حکم دستور ھے اور اس کا باطن علم ودانش ھے۔ اس کا ظاہر خوبصورت ھے اور باطن دقیق وعمیق اس میں گہرائیاں پائی جاتی ھیں اور ان گہرائیوں میں بھی گہرائیاں ھیں۔ اس کے عجائب وغرائب ناقابل شمار اور سدا بہار ھیں جو کبھی فرسودہ نہ ھوں گے۔( کیونکہ قرآن صاحب علم اور حکمت خدا کی طرف سے آیا ھے اور شب وروز، زمانہ کی گردشوں اور آفتاب وماہتاب کے طلوع و غروب سے بالا تر ھے لھٰزا وہ کبھی زمان ومکان کی گردشوں سے فرسودہ و کہنہ نہ ھوگا)
” فیہ مصابیح الھدیٰ ومنار الحکمة ودلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة فلیجل جالِ بصرہ ولیبلغ الصفة نظرہ ینج من عطب ویتخلّص من نشب“
قرآن میں ھدایت کے چراغ، حکمت کی نشانیاں اور معرفت کی دلیل موجود ھیں لیکن یہ سب اس کے لئے ھے جو ان علامتوں اور صفتوں کو پہچانتا ھو پس آگے بڑھنے والا اور صاحب تحرک یہ چاہتا ھے کہ اپنی آنکھوں کو اور جلابخشے اور بغور مشاہدہ کرے تاکہ اس صفت کو درک کرسکے نیز ھلاکت سے نجات اور جہالت سے چھٹکارا پاسکے۔
قرآن اس الٰہی سائن بورڈ کے مانند ھے جو انسانی زندگی کی راہ میں نصب کیا گیا ھے لیکن اس کے لئے پاک فطرت کی ضرورت ھے تاکہ اس میں لکھی ھوئی علامتوں اور نشانیوں کو حاصل کرسکے اور حقیقت بینی کی ضرورت ھے تاکہ ان صفات کو دیکھ سکے جو شناخت ومعرفت کا سبب ھیں اور ان صفات کو درک کرتے ھوئے خود کو ھلاکت وجہالت سے دور کرے اور دوسروں کو بھی نجات بخشے۔
Back | Index | Next |