Back | Index | Next |
ً قرّاء القرآن ثلاثة: رجل قراٴالقرآن فاتخذہ بضاعة واستد ربّہ الملوک واستطال بہ علی الناس، ورجل قراٴ القرآن فحفظ حروفہ وضیّع حدودہ واقامہ اقامة القدح فلاکثر الله ھوٴلاء من حملة القرآن ورجل قراٴ القرآن، فوضع دواء القرآن علی داء قلبہ فاٴسھربہ لیلہ واظماٴبہ نھارہ وقام بہ فی مساجدہ وتجافیٰ بہ عن فراشہ فباٴولئک یدفع اللهالعزیز الجبارالبلاء باولئک ینزّل اللهعزّوجل من الاعداء وباولئک ینزّل اللهعزّوجل الغیث من السّماء، فواللہ لٰھولاء فی قراء القرآن اعزّمن الکبریت الاحمر“[28]
قرآن پڑھنے والے تین طرح کے لوگ ھیں:
اول․․ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ھے، اسے اپنے روزگارکاسرمایہ قراردیتاہے،اسے سلاطین وحکام کے یہاں سے فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بناتا ھے اور قرآن سمجھنے یا اسکی تلاوت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے اونچا اور برتر سمجھتا ھے۔
دوم۔ وہ شخص ھے جو قرآن پڑھتا ھے اور اس کے حروف کو تو حفظ کرتا ھے لیکن اس کے حدودو احکام کو ضائع کرتاہے۔ یہ قرآن اس کے لئے ایک تیر کے مانند ھے جیسے اس نے اپنے پیچھے لگا رکھا ھے خداوند عالم قرآن پڑھنے والوں میں ایسے لوگوں کا اضافہ ھرگزنہ فرمائے۔
سوم۔جوشخض قرآن پڑھتا ھے اور اسے اپنے دکھے ھو ئے دل کی دوا سمجھتا ھے اور اسے پڑھنے نیز اس پر عمل کرنے کے لئے رات کو بیداری اور دن کو تشنہ لبی کے ساتھ گزارتاہے۔ اپنی نماز میں اس کے ذریعہ قیام کرتا ھے، اوراسی کے ذریعہ فرش استراحت سے دور رہتا ھے۔ ایسے ھی لوگ زمین کی برکتیں ھیں۔ خدائے عزیز وجباران ھی کے ذریعہ بلاوٴں کو دور کرتاہے، ان کی برکت سے دشمنوں کے شرکو دفع کرتا ھے اور آسمان سے(بندوں پر)باران رحمت نازل کرتا ھے۔ خدا کی قسم یہ لوگ قرآن پڑھنے والوں میں کبریت احمر سے بھی کم یاب ھیں۔[29]
شفاء ودوا۔ اس حدیث شریف میں قرآن دوائے قلب کے عنوان سے بیان ھوا ھے۔ لیکن خداوند عالم قرآن میں خود قرآن کو شفا کی صفت سے یاد کرتا ھے، ارشادہوتا ھے۔ < وَنُنَزِّلُ مِنْ الْقُرْآنِ مَا ھوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِین>[30]قلب اور نفس کی بیمایوں کے علاج کے نقطہ نظر سے شفاء قرآن کریم کی سب سے زیادہ ظریف اور دقیق تعبیر ھے کیونکہ ممکن ھے دواثر نہ کرے لیکن شفا چونکہ مداواہی مداوہ ھے لھٰزا اس کا اثرنہ کرنا ممکن ھی نھیں ھے دوا اور شفا کوچراغ اور نورسے تشبیہ دی جاسکتی ھے کیونکہ چراغ کو خاموش کیا جاسکتا ھے لیکن چونکہ نور کی روشنی اس کی ذاتی ھے لھٰزا اسے خاموش کیا جانا ممکن ھی نھیں ھے۔ روشن کی جانے والی چیزیں توخاموش ھو سکتی ھیں لیکن نور ھمیشہ نور اور روشنی ھے۔
قرآن، قلب کی بیمایوں کو گناہ سمجھتا ھے لھٰزا وہ ایسے شخص کوجو نا محرم کی آواز پرکان دھرتا ھے اور اس سے اس میں جذبات پیدا ھوتے ھیں مریض جانتاہے چنانچہ ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے خطاب کرتے ھوئے سورہٴ احزاب میں ارشادفرماتاہے: <فَلاَتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ>[31]”دیکھو ھرگز(نامحرم سے)نرم اور ملائم لہجہ میں گفتگو نہ کرو، کہیں ایسانہ ھو کہ جس شخص کا قلب بیمارہے، طمع اور لالچ میں مبتلا ھو جائے“
بہرحال وہ پاک انسان جو قرآن کو اپنے د ل کی دوا جانتے ھیں اور قرآن سے اس قدرانس رکھتے ھیں کہ اپنی راتیں اس کے ساتھ بسر کرتے ھیں اپنی نماز وعبادات میں اس کے ھمدم وہم آواز ھیں ایسے انسانوں کا گروہ زمین کی برکتوں میں سے ھے۔ خداوندعالم ان لوگوں کے ذریعہ زمین سے ملاوٴں کو دفع کرتا ھے۔
زکریابن آدم، جو اپنے عہد کی عظیم علمی شخصیت اور حضرت امام رضا علیہ السلام کے شاگرد رشید ھیں( اور شیخان، قم میں دفن ھیں) حضرت کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی: قم کے بزرگ اہل علم اور بوڑھے افراد وفات پاچکے اور اب جوان شہر میں رہ گئے ھیں ان کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لئے دشوار ھے آپ اجازت دے دیں کہ قم سے باہر چلاجاؤں حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: تم قم ھی میں رہو کیونکہ خداوند عالم تمہاری برکت سے قم سے بلاوعذاب کو دور کرتاہے بالکل اسی طرح جیسے میرے پدر بزرگوارحضرت موسیٰ علیہ السلام بن جعفرعلیہ السلام کی قبر کی برکت سے خدا اس علاقہ سے عذاب دور رکھتا ھے۔
یہ عالم باعمل کے وجود کی برکت ھے کہ حضرت فرماتے ھیں اے زکریا: قم میں رہو کیوں کہ تمہارا وجود لوگوں سے عذاب وبلا کے دور ھونے کاباعث ھے۔ اسی باب میں شیخ کلینیۺ امام سجاد سے ایک حدیث نقل کرتے ھیں کہ حضرت نے فرمایا: ”لومات من بین المشرق والمغرب لما استوحشت بعد ان یکون القرآن معی“(یہ حدیث بہت ھی دلچسپ ھے اور اسے سب کو یادرکھنا چاہئے) یعنی اگر روئے زمین پربسنے والے تمام انسان مرجائیں اور قرآن میرے ساتھ ھو تومجھے وحشت کا احساس تک نھیں ھوگا۔
یہ روایت مومنین کے لئے بہت حیات بخش ھے کہ اگر دنیا کے تمام انسان مرجائیں اور قرآن ان کے ساتھ رہے تو انھیںکسی طرح کا خوف وہراس نہ ھوگا۔ اب چاہے یہ موت ظاہری ھو یا حقیقی یعنی کافر ھوجانا۔ پس اگر تمام لوگ کافر ھوکر خدا سے برگشتہ ھوجائیں اور میں تنہا موحدو مسلمان رہوں تو مجھے کسی سے خوف زدہ نھیں ھونا چاہئے۔ کیو نکہ انسان خدا سے کیا چاہتا ھے؟ہمیشہ کی سعادت وخوش بختی! اور یہ ابدی سعادت قرآن کے ذریعہ حاصل ھوتی ھے۔ یہ قرآن ھے کہ جو انسان کو آخرت کی تمام فلاح وسعادت اورخوش بختی کی تمام راہیں بتاتا اور خداوندعالم کی عبادت کے تمام طریقے اس کو سکھاتا ھے اور اس سے کہتا ھے: اگر دنیا تمہاری دشمن ھوجائے اور تمہارے پاس قرآن ھو تو کسی سے نہ ڈرو، ان کے مقابل میں ڈٹ جاؤ اوراستقامت وپائداری اختیار کرو اور اس بات سے دل کومطمئن رکھو کہ خدا تمہارے ساتھ ھے اور قرآن تمہارا مونس وہمدم ھے۔
”وکان علیہ السلام اذاقراٴ ملک یوم الدین“یکرّرھا حتیّٰ کا د ان یموت“
اور روایت میں ھے حضرت امام زین العابدینعلیہ السلام جب” ملک یوم الدین “فرماتے تھے تو اس کی اس قدر تکرارکرتے تھے کہ لگتا تھا حضرت کے جسم سے روح پرواز کرنے والی ھے۔ یہ قرآن کی صحیح معر فت اور اس کی قیامت کی طرف اس قدر متوّجہ کررہاہے کہ آپ جب بھی اس آیت تک پہنچتے ھیں اسے اس قدردہراتے ھیں کہ گمان ھونے لگتا ھے کہ آپ اس دنیا ھی سے رخصت ھونے والے ھیں۔
ہماری یہ گفتگو تلاوت قرآن، اس کی کیفیت اورتلاوت کی فضیلت کے بارے میں بھی تھی گزشتہ باب میں ھم نے چند روایتیںنقل کیں۔ اب آگے ملاحظہ فرمائیں:
کتاب اصول کافی اور علم حدیث کی بقیہ تین کتابوں میں چھٹے امام سے ایک روایت نقل ھے امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”قال رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ: حملة القرآن عرفاء اھل الجنّة والمجتھدون قوّاد اھل الجنّة والرسل سادة اھل الجنّة“
میرے جدبزرگوار حضرت رسول خدا نے فرمایا کہ حاملین قرآن( یعنی وہ لوگ جنھوں نے قرآن پڑھا سمجھا اور اس پر عمل کیا) اہل جنت کے عرفا ھیں۔ مجتہدین(یعنی وہ لوگ جو اس کوشش میں رہتے ھیں کہ خود کو پالیں اور اللہ کے احکام پر عمل کریں)اہل جنت کے قائدورہبر ھیں اور انبیاء ومرسلین اہل جنت کے سرداروآقا ھیں۔
سید کا لقب وہ روشن ترین اور بھترین لقب ھے کہ ھم اس لقب کے ذریعہ اہل بیت علیہ السلام کو خطاب کرتے ھیں مثلاً سید الانبیاء سیدالاولیاء سیدة نساء العالمین سید الشہداء غیرہ․
اصول کافی میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے سے متعلق ایک مخصوص باب موجود ھے اس باب میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ھے ․آپ نے فرمایا:
” ینبغی للمٴومن ان لایموت حتیٰ یتعلّم القرآن اٴ واٴن یکون فی تعلّمہ“
یہ سزاوار نھیں ھے کہ کوئی موٴمن مرجائے اور اس نے قرآن کی تعلم حاصل نہ کی ھویا اس کی تعلیم کی راہ میں گا مزن نہ ھو۔
ایک دوسری حدیث حفص بن غیاث امام موسیٰ کاظم سے نقل کرتے ھیں امام نے فرمایا:
” سمعت موسی ٰبن جعفر علیہ السلام یقول لرجل:اتحبّ البقاء فی الدّینا؟ فقال نعم فقال ولم؟ قال: لقرائة قل ھواللہ احد“
امام موسیٰ کاظم نے ایک شخص سے دریافت کیا کہ کیا تم دنیا میں باقی رہنا چاہتے ھو؟اس نے جواب دیا: ھاں حضرت نے پوچھا کیوں ؟عرض کیا ”قل ھواللہ احد“ پڑھنے کے لئے ؟
(شیخ صدوق ۺنے کتاب توحید میں نقل کیا ھے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:چونکہ خداوندعالم جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں قرآن پرگہری تحقیق کرنے والے گروہ پیداہوںگے لھٰزا اس نے سورہ توحید اور سورہ حدیدکی ابتدا کی آیتوں کو” واللہ علیم بذات الصدواً“ تک نازل فرمایا․
درحقیقت جویہ کہتا ھے کہ میں سورہٴ قل ھواللہ احد کی تلاوت کرنے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ھوں وہ عرفان وافکار کی بلند ترین چوٹی پر پہچا ھوا ھے۔
اسی حدیث کو جاری رکھتے ھوئے حفص کہتے ھیں امام ھفتم نے ایک لمحہ کے لئے خاموشی اختیار کی اس کے بعد فرمایا: ” یاحعفر! من مات من اولیائنا وشیعتنا ولم یحسن القرآن علّم فی قبرہ لیرفع الله بہ من درجتہ فان درجات الجنّة علیٰ قدر(اوعدد) آیات القرآن“
اے حفص: ھمارے چاہنے والوں اور شیعوں میں سے اگر کوئی مرجائے اور اس نے قرآن کی تعلیم حاصل نہ کی ھو تو(یہ شیعت وولایت اس کے لئے برکت بن جائے گی کہ) اسے قبر میں (عالم برزخ میں ) قرآن کی تعلیم دی جائے گی تاکہ جنت میں اس کے درجات میں اضافہ کیا جائے کیونکہ جنت کے درجات قرآن کی آیتوں کے برابر(یعنی تقریباً۶۲۰۰سے زیادہ)ہیں
”یقال لہ اقراٴوا قافیقراثہ یرقی“ اس سے کہا جائے گا کہ جس قدر قرآن پڑھ سکتے ھو پڑھو اور ترقی وبلندی حاصل کرو پس وہ پڑھے گا اور ترقی کرےگا۔
گزشتہ قسطوں میں عرض کیا جاچکاہے کہ: بعض افراد صرف ”جنّات تجری من تحتھا الانھار“کی قراٴت وتلاوت کرتے ھیں اور ان ھی جنتوں کو حاصل کرنے میں سرگرداں ھیں لیکن بعض ان سے بھی بلند مرتبہ والے ھیں وہ یہ کہتے ھیں:”ماعنداللہ خیر وابقیٰ“جو کچھ خدا کے پاس ھے بہتر اور باقی رہنے والاہے۔ اور بعض اولیاء خدامیںسے ھیں جو کہتے ھیں:” واللہ خیروابقی“( خود) خداوند عالم۔ بہتراور باقی رہنے ولاہے۔ یہ وہ بلندو بالا مقام ھے جسے بیان کرنے سے اصطلاحیں اور الفاظ قاصر ھیں۔
بہرحال اس حدیث سے یہ ظاہر ھوتا ھے کہ ھمارے ائمہ معصومین کی نگاہ میں تلاوت دراصل وہی ھے جوترقی وکمال کا پیش خیمہ ھو۔ یہ معمولی اور ظاہری طور پرکی جانے والی تلاوت تو حقیقت میں تلاوت نھیں ھے۔
کتاب ” توحید صدق ۺکے سب سے پہلے باب”ثواب الموحدین“ میں حضرت فرماتے ھیں:
”قیامت میں خداوندعالم کی جانب سے ایک منادی غیب سے آواز دے گاکہ جس شخص نے ”لا الہٰ لا اللہ“ کہا وہ جنت میں جائےگا، راوی نے حضرت کی خدمت میں عرض کی: پھر آپ ان لوگوں کو کیا جواب دیں گے جو” لا الہٰ الّا اللہ“ کھتے ھیں اور احکام پر عمل نھیں کرتے؟ ممکن ھے کہ ھر عادل و ظالم مومن و فاسق ” لا الہٰ الّا اللہ“ کہہ دے۔ اس طرح تو کام بہت آسان ھے؟
حضرت نے فرمایا: اس روز مومن کے علاوہ کسی کو توحید یاد ھی نھیں رہے گی ․
جی ھاں! یہ تمام اعمال اس لئے ھیں کہ مومن کے اندران کا ملکہ پیدا ھوجائے تاکہ وہ انھیں کبھی فراموش نہ کرے ورنہ انسان سے قبر میں اللہ پیغمبر اور کتاب وغیرہ کے بارے میں سوال کیوں کیا جاتاہے؟ اگر یہ طے ھوکہ الفاظ ھی کے ذریعہ جواب دیا جائےگا، ھر شخص جانتا ھے کہ اس کا خدا، کتاب پیغمبرو قبلہ کیا ھے؟ لیکن جس مسلمان نے احکام پرعمل نھیں کیا قبر میں اسے کچھ یادنہ آے گا کیونکہ وہاںزبان انسان کے اختیار میں نھیں ھے انسان کا عمل ظاہری ھوتا ھے اور جواب دیتا ھے․
کیا فشارقبر اور موت کے جھٹکے انسان کو اس قابل رکھتے ھیں کہ اسے عالم برزخ میں یہ یاد آئے کہ وہ کس دین کا پیروہے اور کس آئین پر عمل کرتاہے؟ یہی وجہ ھے کہ حضرت فرماتے ھیں: اس روز مومنین کے علاوہ دوسروں کو توحید یاد بھی نہ رہے گی․
انسان جب اس دنیا میں بعض ظاہری بیماریوں مثلاً ٹائفاڈو وغیرہ کے زیر اثر اپنی بعض علمی یاد داشیں کھو بیٹھتا ھے تو عالم برزخ میں بدرجہ اولیٰ آسان سے آسان مذہبی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر رہے گا۔ جبکہ وہاں کبھی مشکل اور دشواراحکام سے متعلق سوال نھیں کیا جاتا،بلکہ دین کی یہی بدیہی باتیں(جو سب پر ظاہری ھیں) پوچھی جاتی ھیں۔ ھاں شرط یہ ھے کہ انسان خودکو اس دنیا میں ایمان اور عمل صالح سے آراستہ کرے تاکہ وہاں آسانی کے ساتھ سوالات کے جوابات دے سکے۔
ایک مرتبہ ھمارے استاد بزرگوار امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک درس کے آخر میں فرمایا تھا:ایک روایت ھے جس میں ارشاد ھوتا ھے کہ:بعض افراد قیامت میں ایسے ھوں گے کہ عذاب کے ایک احقاب(اب یہ احقاب سترسال کا یا اسیّ(۸۰) سال کا یا کچھ کم یازیادہ ھوتا ھے ھم نھیں جانتے) کے گزرجانے کے بعد، جب ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہارا پیغمبر کون ھے ؟ تو جواب دیں گے کہ ھمارا پیغمبر وہ ھے جس پر قرآن نازل ھوا ھے! یعنی اس وقت تک ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا نام بھی یاد نہ آئے گا․
جی ھاں! ایسا نھیں ھے کہ موت کے بعد کے حالات قبل ازموت جیسے حالات ھوں۔ وہاں زبان اور اعضاوجوارح انسان کے اختیار میں نھیں ھیں۔ یعنی وہ ظاہری اسباب وعلل جودنیا میں انسان کے اختیارمیں تھے،وہاں سلب ھوجائیں گے،<وَتَقَطَّعَتْ بِہِمْ الْاٴَسْبَاب>[32]البتہ یہ صورت حال عالم برزخ میں اس کی برزخ کی حد تک ظاہری اور قیامت میں پورے طور سے نمایاں ھوگی۔
یہاں یہ یاد دیانی ضروری ھے کہ وہی فشارو عذاب جن میں انسان ایک مدت تک مبتلارہتا ھے،اور رفتہ رفتہ گناہوں سے پاک ھوتا جاتاہے اسے آہستہ آہستہ وہ سوال وجواب یاد آتے جاتے ھیں۔ جیسا کہ مذکورہ بالاروایت میں نقل ھواکہ ایک احقاب کے گزرنے کے بعدبھی انسان اس مرحلہ تک پہنچتا ھے کہ اسے صرف اتنا یاد آتا ھے کہ پیغمبر وہی جس پر قرآن نازل ھوا ھے۔
بہرحال یہ مسائل امت کے گنہ گاروں کے لئے ھیں، ورنہ خالص مومن جواب دینے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نھیں لگائے گا۔ اس پر کوئی فشار نھیں ھے، نہ موت کے وقت اور نہ عالم برزخ میں بلکہ مومن کے لئے موت سے زیادہ خوش گوار کوئی اور لذت ھے ھی نھیں کیونکہ(اس کی حالت تو یہ ھوتی ھے گویا) ایک قیدی عالم جاویدانی کی طرف پرواز کرتاہے اور مصائب والام سے بھری ھوئی پرآشوب دنیا سے آسائش ولذت سے سرشار دنیامیں پہنچ جاتاہے۔
”قال حفص: ماراٴیت احداً اشدّ خوفًا علیٰ نفسہ من موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام ولا ارجیٰ الناس منہ“
”حفص کہتے ھیں کہ میں نے کسی ایک شخص کو حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے مانند اپنے نفس پر خوف زدہ اور ان سے زیادہ امیدوار نھیں دیکھا“
کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آئندہ کیا ھوگا۔
”وکانت قراٴتہ حزنا فاذاقراٴ فکانّہ یخاطب انساناً“
یہاں تلاوت کے آداب ظاہر ھورہے ھیں”جب امام قرآن کی تلاوت فرماتے تھے تو آپ کی آواز حزن واندوہ میں ڈوبی ھوتی تھی اور یوں تلاوت فرماتے تھے گویا کسی سے گفتگو فرمارہے ھیں “۔
یہ جو روایت میں آیا ھے کہ جب بھی سنو کہ ”یاایھا الذین آمنوا“ کی تلاوت کی جارہی ھے جواب میں لبیک کہو“ اس سے معلوم ھوتا ھے کہ یہ خطاب اب بھی اپنی جگہ باقی ھے اور قرآن ھمیشہ انسان سے ھم کلام ھوتا ھے ورنہ ”لبّیک“ کے کیا معنی ھیں؟ بنابراین قرآن پڑھنے کا مطاب اللہ سے باتیں کرناہے لھٰزا ضروری ھے کہ جہاں بھی قرآن اہل ایمان سے خطاب کرتا ھے وہاں انسان”لبیک“ کہے۔ البتہ صرف زبان سے نھیں بلکہ عمل کے ذریعہ بھی اللہ کے کلام پر لبیک کہے۔
شیخ کلینیۺ نے کتاب کافی آداب تلاوت کے باب میں حضرت امام زین العابدین سے ایک روایت نقل کی ھے کہ حضرت سے دریافت کیا گیا: ”ای الاعمال افضل“؟کون سا عمل افضل وبہترہے؟ ”قال الحال المرتحل“ یعنی کوئی شخص جب قرآن کی تلاوت شروع کرے تو ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں منتقل ھویہاں تک کہ آخر قرآن تک پہنچ جائے راوی کہتا ھے، میں نے امام سے پوچھا ” وماالحال المرتحل“ حال مرتحل کیا ھے؟قال:فتح القرآن وختمہ“فرمایا قرآن شروع کرنا اور اسے ختم کرنا“ ”کلماجاء باوّلہ ارتحل بآخرہ“جب بھی وہ اس کے پہلے مرحلہ تک پہنچتا ھے تو کوشش کرتا ھے کہ اس سے انتقال اور رحلت کرے اور اسے طے کرتا ھوا آخر تک پہنچ جائے․
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام نے حضرت رسول خدا سے ایک روایت نقل کرتے ھوئے فرمایا:
”من اعطاہ اللّٰہ القرآن فراٴی انّ رجلااعطی افضل ممااعطی فقد صغّر عظیماً وعظّم صغیراً“
جسے خداوندعالم نے قرآن عطا کیا ھو(یعنی قرآن کا علم، اس کی معرفت، اور قرآن کو اس کی روزی قراردیا ھو) اور اس کے بعد بھی وہ یہ سوچے کہ خداوندعالم نے دوسروںکو جو نعمت عطا کی ھے وہ مجھے عطا کردہ نعمت سے بالاتر ھے تو گویا اس شخص نے بڑے کو چھوٹا شمار کیا اورچھوٹے کو بڑا قرار دیا ھے۔ اس روایت سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ علوم قرآن سے برتروبالا، بافضیلت وگراں قدر کوئی بھی نعمت نھیں ھے اور اگر کوئی شخص قرآن کو اس کے مطالب کے ساتھ سیکھ لے اور اس کے بعد بھی اس عظیم نعمت کو حقیر شمار کرے یا کسی دوسری نعمت کو اس سے زیادہ بیش قیمت قرار دے، اس نے درحقیقت قرآن عظیم کو حقیر شمار کیا ھے اور اس دوسری نعمت کو جو حقیر وکمتر تھی عظیم وبرتر سمجھا ھے۔
کتاب”وافی “ میں ” قرائةالقرآن وثواب القرائة“ تلاوت قرآن اور اس کا ثواب “ کے عنوان سے ایک باب ھے اس باب میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ھے، آپ نے فرمایا:” القرآن عھدالله الیٰ خلقة“قرآن اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک عہدد پیمان ھے“ اور چونکہ یہ عہد خدا ھے لھٰزا ھر مسلمان کے لئے سزاوار ھے کہ اللہ کے اس عہد کو دیکھے اور کم از کم ھر روز اس الٰہی عہد نامہ کی تلاوت کرے۔
اسی باب میں شیخ طوسیۺ کی کتاب ”تہذیب“ سے ایک حدیث نقل ھے کہ امام علی رضاعلیہ اسلام نے فرمایا:” ینبغی للرجل اذا اصبح ان یقراٴ بعد التعقیب خمسین آیة“ انسان کے لئے بہتر ھے کہ نماز صبح کی تعقیبات کے بعد قرآن مجید کی پچاس آیتیں تلاوت کرے۔
کتاب وافی کے مولف نے تیسری حدیث کلینی سے نقل کی ھے کہ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا:” آیات القرآن خزائن فکلّ مافتحت خزانة ینبغی لک اٴن تنظر فیھا“
حضرت فرماتے ھیں: قرآن کی آیتیں الٰہی خزانے ھیں جب بھی کوئی خرانہ کھلے تو تمہارے لئے سزاوار ھے کہ اسے دیکھو اور اس پر غور کرو۔
41 ؟؟؟اگرچہ ملافیض نے اپنی اس کتاب میں یہ حدیث” قراٴت قرآن“ کے باب میں نقل کی ھے لیکن یہ حدیث” قرآن میں تدبرّ کے باب میں زیادہ مناسب ھے۔
ہر عہد اور ھر زمانہ میں قرآن کے بارے میں بے انتہاکتابیں لکھی گئیں اور لکھی جارہی ھیں لیکن قرآن ایسا بحر بیکراں ھے کہ اس پر جتنا بھی لکھااور بیان کیا جائے، اس کے تمام طالب کا احصا نھیں کیا جاسکتا پس جب ان بیش قیمت خزانوں کا کوئی ایک خزینہ کھل جائے تو بہتر ھے کہ انسان اس میں دقت نظر کے ساتھ دیکھے اور اس پر غوروفکر کرے موٴلف نے اس باب کی چوتھی حدیث ابن قداح سے نقل کی ھے وہ کہتے ھیںکہ امام محمد باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: پڑھو! میں نے عرض کیا: کیا پڑھوں؟ فرمایا قرآن کے نویں سورہٴ سے کچھ پڑھو میں نویں سورہ کو تلاش کررہا تھا کہ حضرت نے فرمایا: سورئہ یونس پڑھو کیونکہ سورہٴ یونس قرآن کا نواں سورہ ھے[33]
ابن قداح کہتے ھیں: میں نے سورہٴ یونس کھولا اور ان آیات کی تلاوت کی” <لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَزِیَادَةٌ وَلاَیَرْہَقُ وُجُوہَہُمْ قَتَرٌ وَلاَذِلَّةٌ>[34]اس آیت کریمہ کے شروع میں یہ جملہ ھے<وَاللهُ یَدْعُو إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَیَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیم<[35]
لوگ خداوند عالم کی طرف سے دی جانے والی دعوت کے سلسلہ میں دوگروہ میں بٹے ھوئے ھیں ایک گروہ اس دعوت وہدایت کو قبول کرتا ھے اور دوسرا گروہ اس سے انکار کرتاہے۔ عاقبت حسنہ اور انجام خیران مومنین کا حصّہ ھے جنھوںنے الٰہی دعوت کو قبول کیا اس کی آواز پر لبیک کہی ھے۔ کسی طرح کی سیاہی ان کے چہروں پر عارض نھیں ھوتی، اور نہ کبھی کوئی ذلت ان کو نصیب ھوتی ھے۔
یہ جو اس آیت میں ارشاد ھوتا کہ:کوئی سیاہی ان کے چہروں پر عارض نھیں ھوتی اور دوسری جگہ ارشاد ھوتا ھے < یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوہ<[36]
یعنی اس روز جب کہ بعض چہرے سفید اور بعض چہرے(گناہوں کے اثر سے) سیاہ ھوجائیں گے یہ سیاہی جو گناہوں کے اثر سے چہرہ پر عارض ھوتی ھے، کوئی غیر فطری امر نھیں ھے، کیونکہ انسانوں کے اعمال وافعال اور ان کے چہرہ کی رنگت میں ایک ربط موجود ھے کہ مثال کے طور پر جب بھی وہ کسی چیز سے خجل وشرمندہ ھوتا ھے تو اس کے چہرہ کا رنگ سرخ ھوجاتاہے اور جب بھی وہ ڈرتا ھے چہرہ پر زردی چھاجاتی ھے۔ اور جب وہ گناہ کرتا ھے تو طبیعی طور پر اس کا چہرہ سیاہ ھونا چاہئے لیکن خدائے متعال اس کی آبرو کی حفاظت کی خاطر دنیا میں یہ رنگ اس کے چہرہ پر ظاہر نھیں کرتا یہاں تک روز قیامت آجائے اس وقت گنہ گار انسان کا چہرہ تاریک رات کی مانند سیاہ اور صاحب ایمان وباتقویٰ انسان کا روشن اور سفید ھوکر خلائق کے سامنے ظاہر ھوگا۔
>اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ ھمْ فِیہَا خَالِدُونَ>[37]یہی لوگ اہل جنت ھیں جو اس میں ھمیشہ رہیں گے، ابن قداح کہتے ھیں: میں نے سورہٴ مبارکہ یونس کی آیتیں یہاںتک کہ(للذین احسنواالحسنیٰ۔۔۔ قتر ولاذلّة) تک امام محمدباقر علیہ السلام کی خدمت میں تلاوت کیں، حضرت نے فرمایا:”حسبک“ اسی قدر کافی ھے اس کے بعد فرمایا:” قال رسول اللہ: انی لاعجب کیف لا اثیب اذا قراٴت القرآن“مجھے تعجب وحیرت ھے کہ جب میں قرآن پڑھتاہوں تو بوڑھا کیوں نھیں ھوجاتا!
یہ ادب تلاوت ھے کہ پورے تاٴثر کے ساتھ قر آن پڑھا جائے اور یہی وجہ ھے کہ جب بھی انسان قرآن کی تلاوت کرتا ھے جبکہ اس حالت میں اس کی زبان عبادت میں مشغول ھے اس کے تمام اعضاؤجوارح کو بھی عبادت میں مشغول رہنا چاہئے۔گویا وہ سماعت وبصارت اور مختصریہ کہ اپنے پورے وجود کے ساتھ قرآن آیات سے بہرہ مند ھو اور ان کی تلاوت سے فائد اٹھائے۔
اصول کافی کی کتاب”فضل القرآن“ میں مصحف کے ذریعہ قرآن کی تلاوت کا ایک باب ھے اس میں معصومین علیھم السلام سے روایتیں نقل ھوئی ھیں اور اس مطلب کو بیان کرتی ھیں کہ بہتر ھے انسان قرآن کوخودکتاب کھول کر پڑھے۔
اسحاق بن عمار کہتے ھیں کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے دریافت کیا:
”جعلت فداک انی احفظ القرآن علی ظہر قلبی فاقراٴہ علی ظھر قلبیٰ فضل او انظرفی المصحف“؟
آپ پر فدا ھو جاؤںمیں قرآن کا حافظ ھوں! پس اگرمیں قرآن کی تلاوت اپنے حفظ سے کروں یہ بہتر اور با فضیلت ھے با قرآن کھولوں اور اسے دیکھ کر تلاوت کروں؟
حضرت نے جواب میں فرمایا:
”بل اقراٴہ وانظر فی المصحف فھو افضل، اماعلمت ان النظر فی المصحف عبا دة[38]
بلکہ قرآن کو دیکھ کر اس کی تلاوت کرو، قرآن کھولو اور پڑھویہ افضل ھے۔ کیا تم نھیں جانتے کہ قرآن میں دیکھنا عبات ھے؟۔
نہ صرف قرآن پڑھنا اورقرآن پہ نگاہ ڈالنا عبادت ھے بلکہ قرآن کو اپنے ھمراہ رکھنابھی عبادت ھے یہ معجز نما الفاظ ھیں جن کا جواب کوئی نھیں لاسکتا اور یہ خداوندعالم کا کلام ھے ان الفاظ کا اپنے ھمراہ رکھنا عبادت وثواب ھے۔
کتاب ”وافی“ کے باب ” اتخاذ المصحف وکتابتہ“ میں حمادبن عیسیٰ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا:
” انّہ لیعجبنی ان یکون فی البیت مصحف یطرد اللّہ بہ الشّیاطین“۔
” مجھے یہ بات پسند ھے کہ گھر میں قرآن ھو، خداوندعالم اس کے ذریعہ شیطانوں کو دور کرتا ھے“۔
البتہ یہ بات واضح ھے کہ اپنے ھمراہ قرآن رکھنا اوراس کے حفاظت کرنا اسی صورت میں شیطانوں کو دور کرے گا جب اس کی تلاوت کی جائے اس سے تعلیم حاصل کی جائے اس سے تزکیہ و تعلیم کی بات پیش کی جائے اور اس کے مسائل و احکام کی تحقیق کی جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔ اس سے کوئی فائدہ نہ ھوگا کہ قرآن گھر میں رکھ دیا جائے اور اس پر گردوخاک پڑتی رہے مذکورہ پہلی صورت میں تو قرآن شفاعت کرےگا اور دوسری صورت میں خدا سے شکایت کرے گا پس قرآن کی تلاوت کرنا اور قرآن کے ظاہر سے انس رکھنا ھی برکت ھے چہ جائیکہ اس سے بڑھ کر تعلیم حاصل کرنا اور آیات کی تحقیق کرنا۔
”البیوت التی یقراٴ فیھا القرآن“(یعنی وہ گھر جن میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ھے) کے باب میں شیخ کلینیۺ نے پیغمبر اسلام سے ایک روایت نقل کی ھے، آنحضرت نے فرمایا:
”نور وا بیوتکرم بتلاوة القرآن ولاتتخذوھا قبوراً“
اپنے گھروں کوقرآن کی تلاوت کے ذریعہ روشن ومنور بناؤانھیں قبرستان نہ بناوٴ کیونکہ جس گھر میں قرآن کا ذکر نہ ھو وہ گویا خاندانی قبرستان ھے، زندگی بسر کرنے کی جگہ نھیں ھے،کیونکہ انسان اسی وقت زندہ ھے جب اس کی زندگی میں قرآن شامل ھو۔ آنحضرت مزید فرماتے ھیں ․
Back | Index | Next |