Index Next

بِسْمِ اللّٰہِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ․

تلاوت کی کیفیت اور اس کی ذمہ داریاں

تلاوت قرآن کے شرائط

قرآن کریم نے پیغمبر اکرم کا تعارف یوں کرایاہے:

>”یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ<[1]

” وہ ان لوگوں پر قرآنی آیتوں کی تلاوت فرماتے ھیں، ان کے نفسوں کو پاکیزہ بناتے ھیں اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ھیں․“

یہ تین مرحلے(تلاوت، تزکیہ اور تعلیم) شان رسالت کا جزوہیں اور فریضہ رسالت کی ادائیگی کے حکم سے پہلے یہ تینوں امر خود حضرت کے سلسلہ میں بروئے عمل لائے گئے ان پر قرآنی آیات کی تلاوت کی گئی۔ خداوند عالم نے آپ کو کتاب وحکمت کا عالم بنایا اور آپ کو مطہروتزکیہ شدہ قراردیا۔ اس کے بعد قرآن نے فرمایا: یہی امور جو خداوند عالم نے آپ پر جاری فرمائے ھیں، اب آپ لوگوں سے متعلق عمل میں لایئں۔ فرق یہ ھے کہ عوام نہ آپ کی مانند فیضیابی کی قدرت وطاقت رکھتے ھیں اور نہ براہ راست فرشتوںیا ان سے بالا ترسے رابط پیداکرسکتے ھیں۔

بنابراین خداوند عالم نے پیغمبر اکرم سے متعلق تلاوت قرآن، تزکیہ اور تعلیم کواپنے ذمہ لیا اس کے بعد ان کا ان صفات کے ساتھ تعارف کرایا اور انھیں حکم دیا کہ لوگوں کے لئے آیات الٰہی کی تلاوت کرو جیسے میں نے تم پر آیات کی تلاوت کی ھے۔ لوگوں کو یوں ھی علم وحکمت کی تعلیم دو، جیسے میں نے تمہیں مطہر اور تزکیہ شدہ بنایا ھے۔ البتہ فرق یہ ھے کہ رسول خدا ان تینوں امورو مراحل میں ان مقامات پر فائز تھے جو صرف آنحضرت سے مخصوص تھے اور دوسرے نہ ان درجات تک پہنچے ھیں نہ پہنچیں گے․

تلاوت قرآن

تلاوت کے سلسلہ میں قرآن نے انسانوں کو حکم دیا کہ جہاں تک تم سے ممکن اور تمہیں میسر ھوقرآن کی تلاوت کرو:

>فَاقْرَئُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْ الْقُرْآن <[2]

اس وحی الٰہی کی تلاوت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پر کس طرح ھوئی؟

قرآن میں ارشاد ھوتاہے ھم نے برحق تم پر قرآن کی تلاوت کی: <تِلْکَ آیَاتُ اللهِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَق>[3]کہ یہاں تلاوت حق کے ھمراہ ھے یعنی صرف حق وحقیقت ھی ھے اور کوئی باطل اس کے حریم میں راہ نھیں پاسکتا․

تلاوت کس طرح حق ھوتی ھے ؟

تلاوت درج ذیل صورتوں میں حق ھے:

۱۔ تلاوت شدہ امر حق ھو۔

۲۔ تلاوت کرنے والا صحیح تلاوت کرے ․

۳۔ تلاوت سننے والا درست سمجھے اور درست قرار دے۔

اگر ان تینوں ارکان میں سے کوئی ایک برحق نہ ھوتو یہ تلاوت حق نھیں ھے۔ یعنی اگر مطلب حق نہ ھو یا کہنے اور پڑھنے والا حق نہ کہے یا سننے والا اس حق کے سننے میں غلطی کرے تو تلاوت حق نہ ھوگی۔

خداوند عالم کی تلاوت کے سلسلہ میں تو ظاہر ھے کہ حق کے سواکسی اور شئے کا وجود ھی نھیں ھے:

>وَاللهُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِی السَّبِیلَ>[4](اللہ حق کہتا ھے اور وہی ھے جوراہ کی ھدایت وراہنمائی کرتاہے)

اس کا دوسرارکن بھی حق ھے کیونکہ جواسے لے کر آتا ھے، امین ھے اور اس کی امانت میں کبھی خیانت کی رسائی نھیں ھوسکتی: ”مطاع ثم امین“( تکویر ۲۱) ملائکہ کا سردار اور فرمانروا(جبرئیل) امین وحی ھے اور بارگاہ خداوندی کے تمام مقرب فرشتے بھترین اور باعظمت سفیر ھیں: <سَفَرَةٍکِرَامٍ بَرَرَةٍ<[5]

پیغمبر اکرم معصوم اور مطہر ھیں۔ حق سنتے ھیں اور حق لے آتے ھیں۔

تیسرا رکن بھی یہ ھے کہ یہ سفراء اور آیات کے پہنچانے والے امین اور صالح ونیکو کار ھیں۔ کہ حق کے سوا اور کچھ نھیں سنتے اور یہ عظیم پیغمبر تم لوگوں پر ایسی کتاب کی تلاوت کرتا ھے جس میں کبھی کسی غلطی، اشتباہ یا تناقض اور ٹکراؤ کی گنجائش ھی نھیں ھے بلکہ یہ کتاب مطہر ھیں ․ سورہٴ مبارکہٴ بینہ میں ارشاد ھوتا ھے:<لَمْ یَکُنْ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ اٴَہْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِینَ مُنفَکِّینَ حَتَّی تَاٴْتِیَہُمْ الْبَیِّنَة>[6] کافرین اہل کتاب اور مشرکین دست بردار نھیں تھے یہاں تک کہ ان کی طرف بینہ اور روشن دلیل آتی۔

بیّنہ کون ھے؟

بینہ وہی پیغمبر ھے جو خداوندعالم کی جانب سے مبعوث ھوئے ھیں کہ لوگوں پر پاک اور مطہر کتابوں کی تلاوت کرے․ سورہٴ بینہ کی دوسری آیت میں ارشاد ھے:

>رَسُولٌ مِنْ اللهِ یَتْلُوا صُحُفًا مُطَہَّرَةً>[7] خدا کی جانب سے ایک پیغمبر ھے جو لوگوں پر آسمانی کتاب(قرآن) سے مطہر وپاکیزہ صحیفوں کی تلاوت کرتا ھے“یہ مطہر وپاکیزہ کتاب ھے، کیونکہ اس میں جھوٹ، تضاد، بے دلیل اور بیہودہ باتیں نھیں پائی جاتیں۔ یہ ساری باتیں رجس وکثافت اور شرک ووسواس ھے جو حریم قرآن سے دور ھیں۔ لہذا قرآن مطہر وپاکیزہ ھے اور ان پاکیزہ صحیفوں میں مطالب واحکام بیان کئے گئے ھیںجو لوگوں کے لئے قیم اور ان پر حاکم ھیں:< فِیہَا کُتُبٌ قَیِّمَة>[8](اس میں سیدھی راہ کی ھدایت کرنے والی بالادست کتابیں ھیں)

لوگوں کو حکم الٰہی کی سرپرستی میں رہنا چاہئے پس یہ صحیفے، سورے اور آیتیں لوگوں کی قیمّ وسرپرست ھیں اور رسول خدا لوگوں کی قیمّ کو ان تک پہنچارہے ھیں۔ یہ کتب قیمہ نہ صرف پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مطہر وپاکیزہ زبان سے لوگوں کے کانوں میں پہنچنے تک مطہر ھیں بلکہ غیب سے پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے گوش گزار ھونے کی منزل میں بھی مظہرومکر ھیں․ سور ھ ”عبس“میںارشاد ھوتاہے:

>فِی صُحُفٍ مُکَرَّمَةٍ مَرْفُوعَةٍ مُطَہَّرَةٍ>[9]یہ آیتیں اس قدربلند ھیں کہ کسی کے ھاتھ ان تک نھیں پہنچتے نہ انھیں کماحقہ، سمجھا جاسکتا ھے اور نہ ان کے جیسی آیتیں بنانا ممکن ھے۔ یہ کتاب مرفوع ھے یعنی بلند ھے اور کسی کی دسترس میں نھیں ھے کہ انسان اس کا مثل وما نند لاسکے اور اس میں تحریف کرے۔ساتھ ھی یہ تمام آلود گیوں سے بھی پاک ومنزہ اور مطہرہے نیز اس وحی کے لانے والے بھی امین، کریم اور صالح ھیں:< بِاٴَیْدِی سَفَرَةٍکِرَامٍ بَرَرَةٍ>[10]کریم وصالح سفیروں یعنی ملائکہ کے ھاتھوں․“

برحق تلاوت

 بنابرایں ھم سے مطالبہ کیا گیا ھے کہ قرآن(بالحق) کی تلاوت کریں۔ قرآن میں جب گزشتہ ادیان کے مومنین کی مدح وستائش کی جاتی ھے تو ارشاد ھوتا ھے:<الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاَوَتِہِ>[11]جن کو ھم نے کتاب عطا کی تووہ اس کے حق کے ساتھ اس کی تلاوت کرتے ھیں“

تلاوت کا حق کیا ھے؟

تلاوت کا حق سورہٴ انفال میں بیان کیا گیا ھے، جہاں مسلمانوں کے بارہ میں ارشاد ھوتا ھے:<إِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًَ>[12]یعنی جب ان پر خدا کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ھے تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ھیں یہ تلاوت بر حق ھے جو مومنین کے ایمان میں اضافہ کرتی ھے۔ ایسی تلاوت نھیں جوباحق ھی نہ ھو کہ روایت میں ھے:”رب تال للقرآن یلعنہ“ ایسے بھی ھیںجو قرآن پڑھتے ھیں اور قرآن ان پر لعنت کرتاہے“

بنابر ایں اگر خداوند عالم نے پیغمبر اکرم کے لئے یہ تین صفات اور تین عہدے بیان فرمائے ھیں تو خود اس نے آنحضرت کے لئے بھی یہ تین مرحلے رکھے ھیں۔ سب سے پہلے ان پر برحق تلاوت فرمائی۔ اس کے بعدانھیں اس پر مامورکیا کہ آپ بھی لوگوں کے لئے ان مطہروپاکیزہ صحیفوں کی تلاوت فرمائیں۔ حضرت کو علم وحکمت عطافرمائی: <وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ>[13]اور آپ کو وہ علم عطا کیا جو آپ نھیں جانتے تھے“ اس کے بعد ان سے مطالبہ کیا کہ آپ لوگوں کو بھی علم وحکمت سے آشنا بنائیں: <وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ>[14]خدا وند عالم نے آنحضرت کو آیہٴ تطہیر کی بنیاد پر طاہر ومطہر بنایا اس کے بعد فرمایا کہ تم بھی لوگوں کا تزکیہ کرو اور انھیں پاکیزہ بناؤ۔ سورہٴ نور میں پرور دگار عالم کا ارشاد گرامی ھے کہ اگر فضل خدا نہ ھوتا تو کوئی شخص زکی وپاکیزہ نہ ھوتا، اسی نکتہ کی طرف اشارہ ھے: <وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ مَا زَکَا مِنْکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ اٴَبَدًا>[15]یعنی اگر خدا کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ھوتی تو کوئی بھی روحی بالیدگی اور تزکیہٴ نفس کے مرحلہ تک نہ پہنچ پاتا․

صرف تزکیہ نفس ھی خداند عالم کی جانب سے نھیں ھے بلکہ تمام کمالات اس کی جانب سے ھیں اور کوئی انسان یہ دعویٰ نھیں کرسکتا کہ یہ کمال خود اس نے حاصل کیا ھے، بلکہ جو کچھ ھے اس کے فضل اور اس کی عنایت سے ھے، فرق یہ ھے کہ بعض افراد رفتہ رفتہ اس فیضان الٰہی سے بہرہ ور ھوتے ھیں اور بعض ایک ھی مرتبہ میں بعض اس لطف الٰہی سے کم فیضیاب ھوتے ھیں اور بعض زیادہ۔

سننے والے کی طہارت

جیسا کہ بیان ھوچکا ھے، سفراء الٰہی اور خدا کے برگزیدہ فرشتے ان مطہرو پاکیزہ صحیفوں کو پیغمبر مطہر پر تلاوت کرتے ھیں۔ لھٰزا تلاوت کی منزل میں بھی اسی انسان کو صحیح تلاوت کی توفیق حاصل ھوتی ھے جو طاہروپاکیزہ ھو۔ یہی وجہ ھے کہ حدیث میں ارشاد ھوا ھے کہ:” طھروا الفواھکم فانھّا طرق القرآن“ اپنے دہنوں کو پاک رکھو کیونکہ یہ قرآن کی راہیں ھیں، یعنی ایسا نھیں ھے کہ انسان دن میں جو کچھ اس کے منہ میں آئے کھدے اور رات میں حق تلاوت کے ساتھ قرآن پڑھنے کی توفیق بھی پیدا کرے۔ قرآن ایک مطہر و پاکیزہ صحیفہ ھے، اسے پاکیزہ راہ سے گزرنا چاہئے۔ پس انسان کادہن اسی وقت قرآن کی گزرگاہ بن سکتا ھے جب پاک ھو․

دہن کیونکر پاک ھو؟

۱۔ بری اور بیہودہ باتیں دہن سے باہر نہ آئیں

۲۔ حرام غذا منھ میں داخل نہ ھو․

جی ھاں! تلاوت قرآن کا گزرپاک دہن سے ھونا چاہئے ورنہ گندے نالے میں بہنے والا صاف وشفاف پانی آخر کارگندا ھو جائے گا۔ اگر قرآن ناپاک دہن سے جاری ھوتو<فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ>[16] ”وائے ھو ان نماز یوں کے لئے“ کا مصداق اس پر صادق آئے گا۔

یہ جو قرآن میں ارشاد ھے:<لاَتَقْرَبُوا الصَّلاَةَ وَاٴَنْتُمْ سُکَارَی>[17]مستی کی حالت میں نماز کے قریب مت ھو یا نماز نہ پڑھو۔“ اس کا مطلب یہ ھے کہ جو کچھ کہہ رہے ھو اسے سمجھو۔ البتہ اگر انسان نہ سمجھے کہ کیا کہہ رہاہے، اس کی نماز صحیح تو ھے لیکن یا سرے سے مقبول نھیں ھے یا پوری طرح قبول نھیں ھے۔ کیونکہ ھم سے صرف تلاوت یا صرف قرائت کا مطالبہ نھیں کیا گیا ھے: <حَتَّی تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ>[18]بلکہ یہ بھی چاہا گیا ھے کہ تم سمجھو بھی کہ کیا کہہ رہے ھو۔ پس اگر انسان یہ نہ جانے کہ کیا کہہ رہاہے، وہ صرف نیت کر کے اور تکبیرةالاحرام کہہ کر نماز شروع کرتا ھے اور سلام پر نماز تمام کرتا ھے۔ یہ نماز فریضہ کو تو ادا کردیتی ھے لیکن اہل تقویٰ کا قرب اسے حاصل نھیں ھوتا۔ کیونکہ وہ جوانی کی مستی، جاہ ومنصب کا نشہ یادنیا کا غرور رکھتا ھے اور یہ کوئی ھنر نھیں ھے کہ انسان کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہ ھے کہ اپنے آپ کو غذاب سے نجات دلاسکے۔اس لئے کہ خداوند عالم بہت سے لوگوں کو مثلاً بچوں، دیوانوں ومجنونوں،اور فکری اعتبار سے بودے افراد کو جو مسائل سمجھنے کے قابل نھیں ھیں، قیامت کے دن عذاب میں مبتلا نھیں کرے گا اور دوزخ میں نھیں ڈالے گا۔

 اس طرح یہ بات ظاہر ھے کہ اس شخص کو جو یہ نہیںجانتا کہ کیا کہہ رہا ھے اور کس سے ھم کلام ھے، اہل تقویٰ والی تقرب کی منزل نصیب نھیں ھے۔

 اپنی تطہیر اورتزکیہ کی راہ میں سب سے پہلا قدم یہ ھے کہ انسان اپنا غرور اور اپنی انانیت چکناچور کردے۔ یہ اقدام طہارت نفس کے لئے زمین ھموار کرتا ھے۔ آپ دیکھتے ھیں کہ قرآن کریم میں کبھی ارشاد ھوتا ھے: ھم نے بارش کے پانی کو اس لئے نازل کیا کہ وہ پاک کرے اور کبھی ارشادہوتا ھے: نماز کے وقت اگر پانی تمھیں میسر نہ ھو تو خاک پر تیمم کرو۔ خدا تمہیںپاک کرنا چاہتا ھے یہ انسان جس نے اپنے چہرہ پر خاک ملی ھے اور اپنے غرور کو توڑڈالا ھے، خدا اسے پاک کرنا چاہتا ھے۔ اب یہ ظاہری تطہیرنہیں ھے․

تلاوت کی راہیں

وہ روایت جس میں ارشاد ھوا ھے کہ: اپنے دہنوں کو پاک رکھو کہ یہ قرآن کی راہیںہیں۔ “ البتہ کان، آنکھیں، ھاتھ اور دیگراعضا بھی قرآن کی راہیں ھیں۔ وہ کان جنھوں نے غیبت سنی ھے اور اس کی مخالفت نھیں کی ھے، وہ کان جنھوں نے اجنبی عورتوں کی آوازوں میں شہوت انگیز نغمے سنے ھیں۔ اور وہ کان جنھوں نے دوسروںکی ھزاروں نارواتہمتیں اورجھوٹے الزامات سنے ھیں اور ان کی کوئی مخالفت نھیں کی ھے، آیات الٰہی کو بھلا کیوں کرسن سکتے ھیں ؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سےایک روایت نقل ھے۔حضرت فرماتے ھیں:”اعطواالعین حقھا“ آنکھوں کو اس کا حق ادا کرو لوگوں نے دریافت کیا، آنکھوںکا حق کیاہے؟فرمایا: ”النظرالی المصحف“قرآن کو دیکھناکیونکہ قرآن کو دیکھ کر اس کی تلاوت کرنا حدیث کے مطابق عبادت ھے۔ اگر نگاہیں پاک نہ ھوں تو انسان قرآن پر نگاہ کرنے کی تو فیق پیدا نھیں کرسکتا۔ وہ خیانت کار آنکھیں جنھوں نے ایک عمر شیطان کی ولایت وسرپرستی میں بسر کی ھے کلام پروردگار کو دیکھنے کی توفیق سے محروم رہتی ھیں۔ جو ھاتھ ناپاک ھے اسے قرآن کی طرف نہیںبڑھنا چاہئے:<لاَیَمَسُّہُ إِلاَّ الْمُطَہَّرُونَ>[19]” قرآن کو صرف طاہر وپاکیزہ افرادہی مس کرتے ھیں“

ندکورہ بالا باتوں سے ھم یہ نتیجہ اخذ کرتے ھیں کہ تلاوت قرآن مجیدکے لئے طہارت حتیٰ سننے کی منزل میں بھی شرط ھے یعنی اگر کسی کان نے باطل باتیں سنی ھوں اور اس کی تطہیر نہ ھوئی ھو ایسی صورت میں اگر آیات الٰہی کی تلاوت بھی اس کے سامنے کی جائے گی تب بھی وہ انھیں نھیں سن سکتا: <وَفِی آذَانِہِمْ وَقْرًا>[20]اور ھم نے ان کے کانوں میں بہراپن کردیا ھے کہ قرآن کو سمجھ نہ سکیں۔

کون سے کان کلام الٰہی کو قبول کرتے ھیں ؟

>وَتَعِیَہَا اٴُذُنٌ وَاعِیَةٌ>[21]اور اہل ھوش کے کان اس پندونصیحت کو سننے اور یادکرتے ھیں۔ یعنی وہی کان انبیاء کرام کی نصیحتوںاوریا ددہانیوں کو سنتے اور آیات الٰہی کو قبول کرتے ھیں جو ”وعاء “ ھیں یعنی ان باتوں کو یاد رکھتے ھیں بعض کان معبر ییں ھر طرح کی بات قبول کرتے ھیں، یہ کان دعاءً اور اذن واعیةنہیں ھیں۔ اگر کان کو ایک غیر محسوس حجاب یاپردہ نہ چھپائے اور وہ واعیہ ھوتو وہ آیات الٰہی کو درک کرسکتا ھے۔

بعض پردے اور حجاب قابل محسوس نھیں ھیں بلکہ خودہی پوشیدہ ھیں: <وَإِذَا قَرَاٴْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَسْتُورًاً>[22] اور جب تم نے قرآن کی تلاوت کی تو ھم نے تمہارے اور ان کے درمیان جو خدا وآخرت پر ایمان نھیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیا۔ یہاں مستور، ساتر کے معنی میں نھیں ھے جیسا کہ ادبیات جاہلی کے پیروبعض اہل ادب کہتے ھیں، بلکہ یہ خود ایک پوشیدہ اور غیرمحسوس حجاب ھے۔

جب حضرت علی یا آٹھویں امام علیہ السلام سے(کیونکہ یہ روایت دونوں حضرات سے نقل ھوئی ھے) پوچھا کیا کہ ھم شب بیداری کی توفیق سے کیوں محروم ھیں؟ تو آپ نے فرمایا: دن کے گناہ اس کی اجازت نھیں دیتے کہ رات کو اٹھ کر عبادت کرو“یہاں خود گناہ حجاب ھے لیکن یہ حجاب دیوار وغیرہ کی طرح دکھائی نھیں دیتا چنانچہ اگر ایسا ھی حجاب کان میں بھی موجود ھوتو قرآن اس سے عبور نھیں کرسکتا اور وہ کان”واعیہ “ یعنی سن کر محفوظ رکھنے والا نھیں ھے پس ھمیں اپنے کان،آنکھوں اور دہن سے ان حجابوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ قرآن کی راہیں پاک ھوں اور الٰہی آیات ھمارے اندر اثر کرسکیں۔

نتیجہ

اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول خدا کے لئے تین امر بطورا حسن اور بدرجہٴ اتم انجام پائے اور تین منصب انھیں عطا ھوئے۔ ان پر بر حق الٰہی آیات کی گئی۔ خداوند عالم نے انھیں علم عطا فرمایا اور پاکیزہ ومطہر قرار دیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ تم بھی یوںہی لوگوں پر الٰہی آیات کی تلاوت کرو، انھیں علم وحکمت کی تعلیم دو اور ان کے قلوب کو پاکیزہ بناؤ اور ناپا کی سے محفوظ رکھوتا کہ ھر شخص اپنے اپنے اعتبار سے چاہئے مقام تلاوت میں یا تعلیم اور تزکیہٴ نفس کی منزل میں (کہ یہ تینوں مراتب باہم مربوط ھیں) الٰہی فیض حاصل کرسکے۔

تلاوت کی کیفیت

آداب تلاوت سے متعلق ھمیں ملنے والے دستورات واحکام کا ایک سلسلہ اس کی لفظی کیفیت سے متعلق ھے یعنی انسان سے جہاں تک ھوسکے اچھی قرائت کرے اور ”ترتیل“کے عنوان سے قرائت کرے اور احادیث کا ایک سلسلہ یہ بتاتا ھے کہ علم وتدبر کے سلسلہ میں غور وفکر کے ساتھ قرائت کرے۔

ترتیل کے سلسلہ میں قرآن، سورہٴ مزمل میں ارشاد فرماتاہے:<ورتل القرآن ترتیلا․ اناسنلقی علیک قولا ثقیلا>() آیت نمبر ؟؟؟یعنی قرآن کے حروف کو مخارج کے ساتھ ادا کرتے ھوئے ٹھہر ٹھہر کر اس کی تلاوت کرو، ھم تم پر سنگین کلام نازل کریں گے۔ قرآن اس نقطہٴ نگاہ سے سنگین اور وزنی ھے کہ اس کے معارف وحقائق کا سمجھنا بھی دشوار ھے اور اس کے احکام پر عمل بھی مشکل ھے، ساتھ ھی قیامت کے دن یہ قول میزان کے پلڑے پر بھی وزنی وسنگین ھے جیسا کہ ارشاد ھے: <فَاٴَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَہُوَ فِی عِیشَةٍ رَاضِیَةٍ>[23]قیامت کے روز جس کا عمل حق کی میزان میں وزنی ھوگا وہ جنت میں عیش وآرام کی زندگی بسر کرے گا

قرآن کریم اس جہت سے نفس کے لئے بھاری ھے کہ اس کے احکام نفسانی خواہشات کے برخلاف اور اس سے سازگار نھیں ھیںلہٰذا نفس پر بہت سنگین ودشوار ھیں اور اس کی وجہ یہ ھے کہ نفس خواہشات کی طرف جھکاؤ رکھتا ھے

 نہج البلاغہ میں پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ایک قول نقل ھے، حضرت فرماتے ھیں: ” حفت النّار بالشّھوات وحفّت الجنّة بالمکارہ“

دوزخ خواہشات اور شہوات سے گھری ھوئی اور جنت دشواریوں سے گھری ھے۔ یعنی انسان جس طرف اور جس رخ سے لذت کی طرف کھینچا جائے اس کی انتہا آتش جہنم ھے۔ اور جس راہ سے بھی جنت تک پہنچنا چاہے، دشواریوں، مشکلوں اور مصیبتوں سے دوچار ھوتا ھے۔

قرآن اس نظر سے قول ثقیل اور وزنی ھے کہ قیامت کے دن اعمال کی الٰہی میزان میں تولا جائے گا،کیونکہ اس روز اس کی حقیقت ظاہر ھوگی، اس روز اس کے اسرار کھلیں گے اور لوگوں کی سمجھ میں آئے گا کہ قرآن احکام ودستورات کے اعتبار سے بہت وزنی تھا۔

لیکن یہی قرآن جو نفس امارہ اور قوت شہوت وغضب کے لئے بہت دشوار اورسنگین ھے کوری اور اچھوتی فطرت کے لئے آسان ھے، ارشاد ھوتا ھے:<وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ>[24]یہ آیت جو سورہٴ قمر میں چار مرتبہ نازل ھوئی ھے اس میں ارشاد ھوتا ھے کہ ھم نے قرآن کو پندو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ھے، کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ھے؟جب کہ سورہٴ مزمل اسی قرآن کو قول ثقیل قرار دیتا ھے اور یہاں فرماتاہے کہ قرآن آسان ھے۔ اور ھم نے اسے آسان قرار دیا ھے وہ سنگینی اور ثقالت اس اعتبار سے تھی کہ اس کا مفہوم ومطالب سنگین وگراںقدر ھے ھلکا پھلکا نھیں ھے۔ اور یہ آسان سنگین کے مقابل میں نھیں ھے کہ بعض لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ان دوآیتوں میں تناقض اور ٹکراؤ پایا جاتاہے، کیونکہ ثقیل، خفیف کا مقابل ھے اور یسیر(آسان) عسیر(مشکل) کے مقابلہ میں ھے۔ لھٰزا یہ قرآن ھلکا اور سبک نھیں ھے اس لئے کہ اس کے معانی ومفاہیم سنگین ووزنی ھیں اور دوسری طرف مشکل ودشوار بھی نھیں ھے کیونکہ فطری ضروریات کے عین مطابق ھے۔

سورہٴ مزمل کی آخری آیت میں ارشاد ھوتا: <فَاقْرَئُوا مَا تَیَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ عَلِمَ اٴَنْ سَیَکُونُ مِنْکُمْ مَرْضَی وَآخَرُونَ یَضْرِبُونَ فِی الْاٴَرْض․․․>خداجانتاہے کہ تم ھمیشہ صحیح وسالم اور حالت حضر میں نہیں ھو بلکہ کبھی سفر میں ھواور کبھی مشکلات دشواریوں اور امراض کا شکار، بہرحال قرآن پڑھنے کے مناسب موقعوں کو ھاتھ سے جانے نہ دو اور غنیمت سمجھو۔ عام حالات میں قرآن پڑھو کیونکہ ھمیشہ قرآن پڑھنا تمہیں میسر نہ ھوگا

انسان جب قرآن کی تلاوت شروع کرتاہے عبادت خدا میں مشغو ل ھوتا ھے اورچونکہ منزل عبادت میں قدم رکھتا ھے لھٰزا شیطان اس کے خلاف اپنے حملہ کا آغاز کرتا ھے چنانچہ ارشاد ھوتا ھے:<فَإِذَا قَرَاٴْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنْ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمِ>[25] جب قرآن پڑھنے کا قصہ کروتو شیطان کے شرے محفوظ رہنے کے لئے درگاہ الٰہی میں پناہ حاصل کرو“

بنابرابن جب قرائت وتلاوت غورو فکر اور تزکیہٴ نفس کے ساتھ ھو توعبادت ھے اور جب عبادت ھے تو شیطان حملہ آور ھوتا ھے اور جب شیطان حملہ کرتا ھے تو اس سے محفوظ رہنے کے لئے استعاذہ ضروری ھے لھٰزا یہ استعاذہ یعنی ”اعوذباللّہ من الشیطان الرجیم“ آداب تلاوت میں سے ھے۔

تلاوت کی ذمہ داری

تلاوت کی ذمہ داری، تہذیب نفس اور قرآن کے بیان کردہ احکام کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھنا ھے۔ یہ ذمہ داری سورہٴ بقرہ کی آیت ۴۵ ؟؟؟آیت نمبر سہی میں بیان کی گئی ھے․ ارشاد ھوتا ھے:<ماٴمرون الناس بالبرو تنسون انفسکم وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون>تم کس طرح لوگوں کو نیکو کاری کا حکم دیتے ھو اور خود کو بھول جاتے ھو جب کہ تم کتاب خدا(قرآن)کی تلاوت کرتے ھو۔ پھر اس میں غور وفکر سے کام کیوں نھیں لیتے؟

اس آیت کریمہ میں مذکورکتاب خدا، وحی آسمانی ھے چاہے وہ قرآن کی شکل میں ھویا گزشتہ انبیاء کرام پر نازل شدہ کتابوں کی شکل میں ھو کیونکہ قرآن نے گزشتہ انبیاء پر نازل شدہ کتابوں کی تصدیق کی ھے․

اس آیت سے یہ ظاہر ھوتا ھے کہ تلاوت کا مقصد تہذیب نفس اور اس کے احکام کوپیش نظر رکھنا ھے، ورنہ جو ذکر، نفس کا تزکیہ نہ کرے اللہ کا ذکرہی نھیں ھے لہٰذاکتاب خدا کی تلاوت، تزکیہٴ نفس کے لئے ھے یعنی اگر کوئی اپنے نفس کا تزکیہ شروع نہ کرے اور کتاب خدا کی تلاوت میں مشغول ھو وہ اس آیت میں شامل مانا جائےگا جب کہ اپنے نفس کوبھول کر کی جانے والی تلاوت درست اور سازگار نھیں ھے۔ اس سلسلہ میں معصومین کی رواتییں بھی ھم تک پہنچیہیں جن میں سے بعض کو ھم یہاں نمونہ کے طور پر ذکر کرتے ھیں:

”عن ابی عبد اللہ(علیہ السلام) قال: قال رسول اللہ(ص): ان اھل القرآن فی اعلٰی درجة من الآدمیین ماخلاالنبیین والمرسلین فلاتستضعفوا الھل القرآن حقوقھم فان لھم من اللہ العزیزالجبّارلمکاناً علیاً“[26]

” امام صادق فرماتے ھیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اہل قرآن، انبیاء ومرسلین کے علاوہ انسانوں کے اعلیٰ ترین درجہ میں ھیں پس اہل قرآن کے حقوق کو کم شمار نہ کرو کیونکہ خدائے عزیزو جبار کی جانب سے انھیں بڑا عالی اور بلند مقام حاصل ھے“ اور اگر مسئلہ ” واعتصموا بحبل اللہ․․․“ کے تجزیہ سے یہ بات واضح ھوجائے کہ اس ”حبل“الٰہی کا ایک سرا خدا سے متعلق ھے، اس کادرمیانی حصہ خداکے نیکو کارسفیروں یعنی فرشتوںکے ھاتھ میں ھے اور دوسرا اور آخری حصہ انسانوں کے ھاتھ میں ھے، اس کے بعد انسانوں سے کہا گیا ھے ”واعتصمو ابحبل اللهجمیعاً“ تو اس کا لازمہ یہ ھے کہ اگر کسی شخص نے تلاوت کے تمام آداب کی رعایت کرتے ھوئے قرآن کی تلاوت کی، اسے سمجھا اور اس پر عمل کیا تو وہ اس حدتک بلندی وکمال حاصل کرتا ھے کہ: ”سفرٴة کرام بررة“خدا کے نیکو کار سفیروں یعنی فرشتوں کی صف میں شامل اور ان سے مرتبط ھوجائے۔ چنانچہ امام صادق سے نقل ایک دوسری حدیث میں یہی بات کہی گئی ھے:

عن ابی عبد اللہ(ع) الحافظ للقرآن، العامل بہ مع السفرةالکرا مالبررة․[27]

قرآن کا وہ حافظ جو اس پر عمل بھی کرتا ھے،آخرت میں اللہ کے باعظمت ونیکو کار فرشتوںکے ھمراہ ھوگا۔ کیونکہ حبل اللہ ان کے ھاتھوں میں ھے۔ اگر انسان بھی اس رسی کو تھام لے اور بلند مدارج طے کرتا جائے تو فرشتوں کی صف میں پہنچ جائے گا․

قرآن پڑھنے والے

ایک روایت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ھم تک پہنچی ھے جس میں حضرت نے قرآن پڑھنے والے مختلف گروہوں کا ذکرفرمایا ھے اس میں ھر گروہ کے قرآن پڑھنے کا مقصد بھی بیان کیا ھے حضرت فرماتے:

  Index Next