next | index | back |
(1)سورہ قصص ايت 26
ميں اس كى قوت كا حال معلوم ہوگيا تھا اور اس امانت وديانت كى يہ شہادت كافى تھى كہ اس نے ظالموں كى ہم نوائي نہ كى اور ان كى ستم رانى پر اظہار رضا مندى نہ كيا _
حضرت شعيب عليہ السلام نے اپنى بيٹى كى تجويز كو قبول كرليا انھوں نے موسى (ع) كى طرف رخ كركے يوں كہا :''ميرا ارادہ ہے كہ اپنى ان دولڑكيوں ميں سے ايك كا تيرے ساتھ نكاح كردوں، اس شرط كے ساتھ كہ تو آٹھ سال تك ميرى خدمت كرے ''_(1)
اس كے بعد يہ اضافہ كيا:'' اگر تو آٹھ سال كى بجائے يہ خدمت دس سال كردے تو يہ تيرا احسان ہوگا مگر تجھ پر واجب نہيں ہے :''(2)
بہرحال ميں يہ نہيں چاہتا كہ تم سے كوئي مشكل كام لوں انشاء اللہ تم جلد ديكھو گے كہ ميں صالحين ميں سے ہوں ، اپنے عہدوپيمان ميں وفادار ہوں تيرے ساتھ ہرگز سخت گيرى نہ كروں گا اور تيرے ساتھ خيراور نيكى كا سلوك كروں گا _(3)
حضرت موسى عليہ السلام نے اس تجويزاور شرط سے موافقت كرتے ہوئے اور عقد كو قبول كرتے ہوئے كہا : '' ميرے اور آپ كے درميان يہ عہد ہے '' _ البتہ'' ان دومدتوں ميں سے (آٹھ سال يا دس سال ) جس مدت تك بھى خدمت كروں ، مجھ پر كوئي زيادتى نہ ہوگى اور ميںاس كے انتخاب ميں آزاد ہوں''_ (4)
عہد كو پختہ اور خدا كے نام سے طلب مدد كے لئے يہ اضافہ كيا : ''جو كچھ ہم كہتے ہيں خدا اس پر شاہد ہے ''_(5)
اوراس اسانى سے موسى عليہ السلام داماد شعيب(ع) بن گئے حضرت شعيب عليہ السلام كى لڑكيوں كا نام '' صفورہ ''( يا صفورا ) اور '' ليا ''بتايا جاتاہے حضرت موسى عليہ السلام كى شادى '' صفورہ '' سے ہوئي تھى _
(1) سورہ قصص آيت 27
(2)سورہ قصص آيت 27
(3)سورہ قصص آيت 27
(4) سورہ قصص آيت 28
(5)سورہ قصص آيت 28
كوئي آدمى بھى حقيقتاً يہ نہيں جانتا كہ ان دس سال ميں حضرت موسى عليہ السلام پر كيا گزرى ليكن بلاشك يہ دس سال حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بہترين سال تھے يہ سال دلچسپ، شيريں اور آرام بخش تھے نيز يہ دس سال ايك منصب عظيم كى ذمہ دارى كے لئے تربيت اور تيارى كے تھے _
درحقيقت اس كى ضرورت بھى تھى كہ موسى عليہ السلام دس سال كا عرصہ عالم مسافرت اور ايك بزرگ پيغمبر كى صحبت ميں بسر كريں اور چرواہے كاكام كريں تاكہ ان كے دل ودماغ سے محلول كى ناز پروردہ زندگى كا اثر بالكل محوہوجائے حضرت موسى كو اتنا عرصہ جھونپڑيوں ميں رہنے والوں كے ساتھ گزارنا ضرورى تھا تاكہ ان كى تكاليف اور مشكلات سے آگاہ ہوجائے اور ساكنان محلول كے ساتھ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہوجائيں_
ايك اور بات يہ بھى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اسرار آفرينش ميں غور كرنے اور اپنى شخصيت كى تكميل كے لئے بھى ايك طويل وقت كى ضرورت تھى اس مقصد كے لئے بيابان مدين اور خانہ شعيب سے بہتر اور كو نسى جگہ ہوسكتى تھى _
ايك اولوالعزم پيغمبر كى بعثت كوئي معمولى بات نہيں ہے كہ يہ مقام كسى كو نہايت آسانى سے نصيب ہوجائے بلكہ يہ كہہ سكتے ہيں كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد تمام پيغمبروں ميں سے حضرت موسى عليہ السلام كى ذمہ دارى ايك لحاظ سے سب سے زيادہ اہم تھى اس لئے كہ :
روئے زمين كے ظالم ترين لوگوں سے مقابلہ كرنا، ايك كثير الا فراد قوم كى مدت اسيرى كو ختم كرنا _
اور ان كے اندر سے ايام اسيرى ميں پيدا ہوجانے والے نقائص كو محو كرنا كوئي آسان كام نہيں ہے _
حضرت شعيب عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى مخلصانہ خدمات كى قدر شناسى كے طور پر يہ طے كرليا تھا كہ بھيڑوں كے جو بچے ايك خاص علامت كے ساتھ پيداہوں گے، وہ موسى عليہ السلام كو ديديں گے،اتفاقاًمدت مو عود كے آخرى سال ميں جبكہ موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام سے رخصت ہو كر
مصر كو جانا چاہتے تھے تو تمام يا زيادہ تر بچے اسى علامت كے پيدا ہوئے اور حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى انھيں بڑى محبت سے موسى عليہ السلام كو دےديا _
يہ امر بديہى ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى سارى زندگى چرواہے بنے رہنے پر قناعت نہيں كرسكتے تھے ہر چند ان كے لئے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس رہنا بہت ہى غنيمت تھا مگر وہ اپنا يہ فرض سمجھتے تھے كہ اپنى اس قوم كى مدد كے لئے جائيں جو غلامى كى زنجيروں ميں گرفتارہے اور جہالت نادانى اور بے خبرى ميں غرق ہے _
حضرت موسى عليہ السلام اپنا يہ فرض بھى سمجھتے تھے كہ مصر ميں جو ظلم كا بازار گرم ہے اسے سرد كريں،طاغوتوںكو ذليل كريں اور توفيق الہى سے مظلوموں كو عزت بخشيں ان كے قلب ميں يہى احساس تھا جو انھيں مصر جانے پر آمادہ كررہا تھا _
آخركار انھوں نے اپنے اہل خانہ، سامان واسباب اور اپنى بھيڑوں كو ساتھ ليا اوراس وقت موسى عليہ السلام كے ساتھ ان كى زوجہ كے علاوہ ان كا لڑكا يا كوئي اور اولاد بھى تھي، اسلامى روايات سے بھى اس كى تائيد ہوتى ہے تو ريت كے '' سفر خروج '' ميں بھى ذكر مفصل موجود ہے علاوہ ازيں اس وقت ان كى زوجہ اميد سے تھى _
جب حضرت موسى عليہ السلام مدين سے مصر كو جارہے تھے تو راستہ بھول گئے يا غالبا ًشام كے ڈاكوئوں كے ہاتھ ميں گرفتار ہوجانے كے خوف سے بوجہ احتياط رائج راستے كو چھوڑكے سفر كررہے تھے _
بہركيف قرآن شريف ميں يہ بيان اس طور سے ہے كہ :''جب موسى عليہ السلام اپنى مدت كو ختم كرچكے اور اپنے خاندان كو ساتھ لے كر سفر پر روانہ ہوگئے تو انھيں طور كى جانب سے شعلہ آتش نظر آيا _
حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے اہل خاندان سے كہا :'' تم يہيں ٹھہرو'' مجھے آگ نظر آئي ہے ميں
جاتاہوں شايد تمہارے لئے وہاں سے كوئي خبرلائوں يا آگ كا ايك انگارالے آئوں تاكہ تم اس سے گرم ہوجائو''_(1)
''خبر لائوں'' سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ''گرم ہوجائو''يہ اشارہ كررہاہے كہ سرد اور تكليف دہ رات تھى _
قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كى زوجہ كى حالت كا كوئي ذكر نہيں ہے مگر تفاسير اور روايات ميں مذكورہے كہ وہ اميد سے تھيں اور انہيں دروازہ ہورہا تھا اس لئے موسى عليہ السلام پريشان تھے _
حضرت موسى عليہ السلام جس وقت آگ كى تلاش ميں نكلے تو انھوں نے ديكھا كہ آگ تو ہے مگر معمول جيسى آگ نہيں ہے، بلكہ حرارت اور سوزش سے خالى ہے وہ نور اور تابندگى كا ايك ٹكڑا معلوم ہوتى تھى ،حضرت موسى عليہ السلام اس منظر سے نہايت حيران تھے كہ ناگہاں اس بلندو پُر بركت سرزمين ميں وادى كے دا ھنى جانب سے ايك درخت ميں سے آواز آئي: ''اے موسى ميں اللہ رب العالمين ہوں ''_(2)
اس ميں شك نہيں كہ يہ خدا كے اختيار ميں ہے كہ جس چيز ميں چاہے قوت كلام پيدا كردے يہاں اللہ نے درخت ميں يہ استعداد پيدا كردى كيونكہ اللہ موسى عليہ السلام سے باتيں كرنا چاہتا تھا ظاہر ہے كہ موسى عليہ السلام گوشت پوست كے انسان تھے، كان ركھتے تھے اور سننے كے لئے انہيں امواج صوت كى ضروت تھى البتہ انبياء عليہم السلام پر اكثر يہ حالت بھى گزرى ہے كہ وہ بطور الہام درونى پيغام الہى كو حاصل كرتے رہے ہيں ،اسى طرح كبھى انھيں خواب ميں بھى ہدايت ہوتى رہى ہے مگر كبھى وہ وحى كو بصورت صدا بھى سنتے رہے ہيں، بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام نے جو آواز سنى اس سے ہم ہرگز يہ نتيجہ نہيں نكال سكتے كہ خدا جسم ركھتا ہے _
موسى عليہ السلام جب آگ كے پاس گئے اور غور كيا توديكھا كہ درخت كى سبز شاخوں ميں آگ
(1)سورہ قصص ايت29
(2)سورہ قصص آيت 30
چمك رہى ہے اور لحظہ بہ لحظہ اس كى تابش اور درخشندگى بڑھتى جاتى ہے جو عصا ان كے ہاتھ ميں تھا اس كے سہارے جھكے تاكہ اس ميں سے تھوڑى سى آگ لے ليں تو آگ موسى عليہ السلام كى طرف بڑھى موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے اس وقت حالت يہ تھى كہ كبھى موسى عليہ السلام آگ كى طرف بڑھتے تھے اور كبھى آگ ان كى طرف، اسى كشمكش ميں ناگہاں ايك صدا بلند ہوئي ،اور انھيں وحى كى بشارت دى گئي _
اس طرح ناقابل انكار قرائن سے حضرت موسى عليہ السلام كو يقين ہوگيا كہ يہ آواز خدا ہى كى ہے، كسى غير كى نہيں ہے _
''ميں تيرا پروردگار ہوں، اپنے جوتے اتاردے كيونكہ تو مقدس سرزمين ''طوى ''ميں ہے ''_(1)
موسى عليہ السلام كو اس مقدس سرزمين كے احترام كا حكم ديا گيا كہ اپنے پائوں سے جوتے اتاردے اور اس وادى ميں نہايت عجزوانكسارى كے ساتھ قدم ركھے حق كو سنے اور فرمان رسالت حاصل كرے _
موسى عليہ السلام نے يہ آوازكہ '' ميں تيرا پروردگار ہوں '' سنى تو حيران رہ گئے اور ايك ناقابل بيان پر كيف حالت ان پر طارى ہوگئي، يہ كون ہے ؟ جو مجھ سے باتيں كررہا ہے ؟ يہ ميرا پروردگارہے، كہ جس نے لفظ'' ربك '' كے ساتھ مجھے افتخار بخشا ہے تاكہ يہ ميرے لئے اس بات كى نشاندہى كرے كہ ميں نے آغاز بچپن سے لے كر اب تك اس كى آغوش رحمت ميں پرورش پائي ہے اور ايك عظيم رسالت كے لئے تياركيا گيا ہوں _''
حكم ملاكہ پائوں سے اپنا جوتا اتار دو، كيونكہ تو نے مقدس سرزمين ميں قدم ركھا ہے وہ سرزمين كہ جس ميں نور الہى جلوہ گرہے ، وہاں خدا كا پيغام سننا ہے ، اور رسالت كى ذمہ دارى كو قبول كرنا ہے، لہذا انتہائي خضوع اور انكسارى كے ساتھ اس سرزمين ميں قدم ركھو ،يہ ہے دليل پائوں سے جوتا اتارنے كى _
ايك حديث ميں امام صادق عليہ السلام سے ،حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے اس واقعہ سے
(1) سورہ طہ آيت 12
متعلق ايك عمدہ مطلب نقل ہوا ہے ،آپ فرماتے ہيں :
جن چيزوں كى تمہيں اميد نہيں ہے ان كى ان چيزوں سے بھى زيادہ اميد ركھو كہ جن كى تمہيں اميد ہے كيونكہ موسى بن عمران ايك چنگارى لينے كے لئے گئے تھے ليكن عہدہ نبوت ورسالت كے ساتھ واپس پلٹے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اكثر ايسا ہوتا ہے كہ انسان كسى چيز كى اميد ركھتا ہے مگر وہ اسے حاصل نہيں ہوتى ليكن بہت سى اہم ترين چيزيں جن كى اسے كوئي اميد نہيں ہوتى لطف پروردگار سے اسے مل جاتى ہيں _
اس ميں شك نہيں كہ انبياء عليہم السلام كو اپنے خدا كے ساتھ ربط ثابت كرنے كے لئے معجزے كى ضرورت ہے ، ورنہ ہر شخص پيغمبر ى كا دعوى كرسكتا ہے اس بناء پر سچے انبياء عليہم السلام كا جھوٹوں سے امتياز معجزے كے علاوہ نہيں ہوسكتا، يہ معجزہ خود پيغمبر كى دعوت كے مطالب اور آسمانى كتاب كے اندر بھى ہوسكتا ہے اور حسى اور جسمانى قسم كے معجزات اوردوسرے امور ميں بھى ہوسكتے ہيں علاوہ ازيں معجزہ خود پيغمبر كى روح پر بھى اثرانداز ہوتا ہے اور وہ اسے قوت قلب، قدرت ايمان اور استقامت بخشتا ہے _
بہرحال حضرت موسى عليہ السلام كو فرمان نبوت ملنے كے بعد اس كى سند بھى ملنى چاہئے، لہذا اسى پُر خطر رات ميں جناب موسى عليہ السلام نے دو عظيم معجزے خدا سے حاصل كئے _
قرآن اس ماجرے كو اس طرح بيان كرتا ہے :
''خدا نے موسى سے سوال كيا : اے موسى يہ تيرے دائيں ہاتھ ميں كيا ہے ''؟_(1)
اس سادہ سے سوال ،ميں لطف ومحبت كى چاشنى تھى ، فطرتاً موسى عليہ السلام، كى روح ميں اس وقت طوفانى لہريں موجزن تھيں ايسے ميں يہ سوال اطمينان قلب كے لئے بھى تھا اورايك عظيم حقيقت كو بيان كرنے كى تمہيد بھى تھا _''موسى عليہ السلام نے جواب ميں كہا: يہ لكڑى ميرا عصا ہے ''_(2)
(1)سورہ طہ آيت 17
(2)سورہ طہ آيت 18
اور چونكہ محبوب نے ان كے سامنے پہلى مرتبہ يوں اپنا دروازہ كھولا تھا لہذا وہ اپنے محبوب سے باتيں جارى ركھنا اور انہيں طول دينا چاہتے تھے اور اس وجہ سے بھى كہ شايد وہ يہ سوچ رہے تھے كہ ميرا صرف يہ كہنا كہ يہ ميرا عصا ہے، كافى نہ ہو بلكہ اس سوال كا مقصد اس عصا كے آثار و فوائد كو بيان كرنا مقصودہو، لہذا مزيد كہا : ''ميں اس پرٹيك لگاتاہوں، اور اس سے اپنى بھيڑوں كے لئے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں ،اس كے علاوہ اس سے دوسرے كام بھى ليتا ہوں ''_(1)
البتہ يہ بات واضح اور ظاہر ہے كہ عصا سے كون كون سے كام ليتے ہيں كبھى اس سے موذى جانوروں اور دشمنوں كا مقابلہ كرنے كے لئے ايك دفاعي، ہتھيار كے طور پر كام ليتے ہيں كبھى اس كے ذريعے بيابان ميں سائبان بنا ليتے ہيں ، كبھى اس كے ساتھ برتن باندھ كر گہرى نہرسے پانى نكالتے ہيں _
بہرحال حضرت موسى عليہ السلام ايك گہرے تعجب ميں تھے كہ اس عظيم بارگاہ سے يہ كس قسم كا سوال ہے اور ميرے پاس اس كا كيا جواب ہے ، پہلے جو فرمان ديئےئے تھے وہ كيا تھے ، اور يہ پرسش كس لئے ہے ؟
موسى سے كہا گيا كہ : اپنے عصا كو زمين پرڈال دو '' چنانچہ موسى عليہ السلام نے عصا كو پھينك ديا اب كيا ديكھتے ہيں كہ وہ عصا سانپ كى طرح تيزى سے حركت كررہا ہے يہ ديكھ كر موسى عليہ السلام ڈرے اور پيچھے ہٹ گئے يہاں تك كہ مڑكے بھى نہ ديكھا '' _(2)
جس دن حضرت موسى عليہ السلام نے يہ عصا ليا تھا تاكہ تھكن كے وقت اس كا سہارا لے ليا كريں ،اور بھيڑوں كے لئے اس سے پتے جھاڑليا كريں، انھيں يہ خيال بھى نہ تھا كہ قدرت خدا سے اس ميں يہ خاصيت بھى چھپى ہوئي ہوگى اور يہ بھيڑوں كو چرانے كى لاٹھى ظالموں كے محل كو ہلادے گى _
موجودات عالم كا يہى حال ہے كہ وہ بعض اوقات ہمارى نظر ميں بہت حقير معلوم ہوتى ہيں مگرا ن ميں بڑى بڑى استعداد چھپى ہوتى ہے جو كسى وقت خدا كے حكم سے ظاہر ہوتى ہے _
(1)سورہ طہ آيت18
(2) سورہ قصص آيت 31
اب موسى عليہ السلام نے دوبارہ آواز سنى جو ان سے كہہ رہى تھى :'' واپس آ اور نہ ڈر توامان ميں ہے''_(1)(2)
بہرحال حضرت موسى عليہ السلام پر يہ حقيقت آشكار ہوگئي كہ درگاہ رب العزت ميں مطلق امن وامان ہے اور كسى قسم كے خوف وخطر كا مقام نہيں ہے_
حضرت موسى عليہ السلام كو جو معجزات عطا كئے گئے ان ميں سے پہلا معجزہ خوف كى علامت پر مشتمل تھا اس كے بعد موسى كو حكم ديا گيا كہ اب ايك دوسرا معجزہ حاصل كرو جو نورواميد كى علامت ہوگا اور يہ دونوں معجزہ گويا ''انذار اوربشارت'' تھے_
موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا كہ'' اپنا ہاتھ اپنے گريبان ميں ڈالو اور باہر نكا،لو موسى عليہ السلام نے جب گريبان ميں سے ہاتھ باہر نكالا تو وہ سفيد تھا اور چمك رہا تھا اور اس ميں كوئي عيب اور نقص نہ تھا ''_(3)
حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں يہ سفيدى اور چمك كسى بيمارى (مثلا ''برص يا كوئي اس جيسى چيز) كى وجہ سے نہ تھى بلكہ يہ نور الہى تھا جو بالكل ايك نئي قسم كا تھا_
جب حضرت موسى عليہ السلام نے اس سنسان كو ہسار اور اس تاريك رات ميں يہ دوخارق عادت
(1)سورہ قصص آيت31
(2) البتہ قرآن كى بعض دوسرى آيات ميں '' ثعبان مبين'' (واضح ادھا) بھى كہا گيا ہے _(اعراف 107 شعراء 32)
ہم نے قبل ازيں كہا ہے كہ اس سانپ كے لئے جو يہ دوالفاظ استعمال ہوئے ہيں ممكن ہے اس كى دو مختلف حالتوں كے لئے ہوں كہ ابتدا ميں وہ چھوٹا سا ہو اور پھر ايك بڑا ادھا بن گيا ہو اس مقام پر يہ احتمال بھى ہوسكتا ہے كہ موسى نے جب واوي طور ميں اسے پہلى بار ديكھا تو چھوٹا سا سانپ تھا، رفتہ رفتہ وہ بڑا ہوگيا _
(3)سورہ قصص آيت31
اور خلاف معمول چيزيں ديكھيں تو ان پر لرزہ طارى ہوگيا، چنانچہ اس لئے كہ ان كا اطمينان قلب واپس اجائے انھيں حكم ديا گيا كہ'' اپنے سينے پر اپنا ہاتھ پھريں تاكہ دل كو راحت ہوجائے ''_(1)
اس كے بعد موسى عليہ السلام نے پھروہى صدا سنى جو كہہ رہى تھى :'' خدا كى طرف سے تجھے يہ دودليليں فرعون اور اس كے ساتھيوں كے مقابلے كے لئے دى جارى ہيں كيونكہ وہ سب لوگ فاسق تھے اور ہيں ''_(2)
جى ہاںيہ لوگ خدا كى طاعت سے نكل گئے ہيں اور سركشى كى انتہا تك جاپہنچے ہيں تمہارا فرض ہے كہ انھيں نصيحت كرو اور راہ راست كى تبلغ كرو اور اگر وہ تمہارى بات نہ مانيں تو ان سے جنگ كرو_
موسى عليہ السلام اس قسم كى سنگين مامورريت پر نہ صرف گھبرائے نہيں،بلكہ معمولى سى تخفيف كےلئے بھى خدا سے درخواست نہ كي، اور كھلے دل سے اس كا استقبال كيا ،زيادہ سے زيادہ اس ماموريت كے سلسلے ميں كاميابى كے وسائل كى خدا سے درخواست كى اور چونكہ كاميابى كا پلااور ذريعہ، عظيم روح، فكر بلند اور عقل توانا ہے، اور دوسرے لفظوں ميں سينہ كى كشاد گى وشرح صدر ہے لہذا ''عرض كيا ميرے پروردگار ميرا سينہ كشادہ كردے ''_(3)
ہاں ، ايك رہبر انقلاب كا سب سے اولين سرمايہ ، كشادہ دلى ، فراوان حوصلہ، استقامت وبرد بارى اور مشكلات كے بوجھ كو اٹھاناہے _
اور چونكہ اس راستے ميں بے شمار مشكلات ہيں، جو خدا كے لطف وكرم كے بغير حل نہيں ہوتيں، لہذا خدا سے دوسرا سوال يہ كيا كہ ميرے كاموں كو مجھ پر آسان كردے اور مشكلات كو راستے سے ہٹادے آپ نے عرض كيا : ''ميرے كام كو آسان كردے ''_(4)
(1) سورہ قصص آيت 32
(2)سورہ قصص آيت 32
(3)سورہ طہ آيت23
(4)سورہ طہ آيت27
اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام نے زيادہ سے زيادہ قوت بيان كا تقاضا كيا كہنے لگے:'' ميرى زبان كى گرہ كھول دے'' _(1)
يہ ٹھيك ہے كہ شرح صدر كا ہونا بہت اہم بات ہے ، ليكن يہ سرمايہ اسى صورت ميں كام دے سكتا ہے جب اس كو ظاہر كرنے كى قدرت بھى كامل طور پر موجود ہو، اسى بناء پر جناب موسى عليہ السلام نے شرح صدر اور ركاوٹوں كے دور ہونے كى در خواستوں كے بعد يہ تقاضا كيا كہ خدا ان كى زبان كى گرہ كھول دے _
اور خصوصيت كے ساتھ اس كى علت يہ بيان كى :'' تاكہ وہ ميرى باتوں كو سمجھيں''_ (2)
يہ جملہ حقيقت ميں پہلى بات كى تفسير كرر ہاہے اس سے يہ بات واضح ہورہى ہے كہ زبان كى گرہ كے كھلنے سے مراد يہ نہ تھى كہ موسى عليہ السلام كى زبان ميں بچپنے ميں جل جانے كى وجہ سے كوئي لكنت آگئي تھى (جيسا كہ بعض مفسرين نے ابن عباس سے نقل كيا ہے)بلكہ اس سے گفتگو ميں ايسى ركاوٹ ہے جو سننے والے كے لئے سمجھنے ميں مانع ہوتى ہے يعنى ميں ايسى فصيح وبليغ اور ذہن ميں بيٹھ جانے والى گفتگو كروں گہ ہر سننے والا ميرا مقصد اچھى طرح سے سمجھ لے _
بہرحال ايك كامياب رہبر ورہنما وہ ہوتا ہے كہ جو سعي ، فكر اور قدرت روح كے علاووہ ايسى فصيح وبليغ گفتگو كرسكے كہ جو ہر قسم كے ابہام اور نارسائي سے پاك ہو _
نيز اس بار سنگين كے لئے _ يعنى رسالت الہي، رہبرى بشر اور طاغوتوں اور جابروں كے ساتھ مقابلے كے لئے يارومددگار كى ضرورت ہے اور يہ كام تنہاانجام دينا ممكن نہيں ہے لہذا حضرت موسى (ع) نے پروردگار سے جو چوتھى درخواست كى :
''خداونداميرے لئے ميرے خاندان ميں سے ايك وزيراور مددگار قراردے''_(3)
(1)سورہ طہ آيت27
(2)سورہ طہ آيت28
(3)سورہ طہ آيت29
البتہ يہ بات كہ حضرت موسى عليہ السلام تقاضا كررہے ہيں كہ يہ وزير ان ہى كے خاندان سے ہو، اس كى دليل واضح ہے چونكہ اس كے بارے ميں معرفت اور شناخت بھى زيادہ ہوگى اور اس كى ہمدردياں بھى دوسروں كى نسبت زيادہ ہوں گى كتنى اچھى بات ہے كہ انسان كسى ايسے شخص كو اپنا شريك كار بنائے كہ جو روحانى اور جسمانى رشتوں كے حوالے سے اس سے مربوط ہو_
اس كے بعد خصوصى التماس كے بعد خصوصى طور پر اپنے بھائي كى طرف اشارہ كرتے ہوئے عرض كيا : ''يہ ذمہ دارى ميرے بھائي ہارون كے سپرد كردے ''_(1)
ہارون بعض مفسرين كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام كے بڑے بھائي تھے اور ان سے تين سال بڑے تھے بلند قامت فصيح البيان اور اعلى علمى قابليت كے مالك تھے، انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى وفات سے تين سال پہلے رحلت فرمائي _(2)
اور وہ نور اور باطنى روشنى كے بھى حامل تھے، اور حق وباطل ميں خوب تميز بھى ركھتے تھے _(3)
آخرى بات يہ ہے كہ وہ ايك ايسے پيغمبر تھے جنہيں خدا نے اپنى رحمت سے موسى عليہ السلام كو بخشا تھا_(4)
وہ اس بھارى ذمہ دارى كى انجام دہى ميں اپنے بھائي موسى عليہ السلام كے دوش بدوش مصروف كار ہے _
يہ ٹھيك ہے كہ موسى عليہ السلام نے اس اندھيرى رات ميں، اس وادي مقدس كے اندر، جب خدا سے فرمان رسالت كے ملنے كے وقت يہ تقاضا كيا ، تو وہ اس وقت دس سال سے بھى زيادہ اپنے وطن سے دور
(1)سورہ طہ آيت31
(2)جيسا كہ سورہ مومنون كى آيہ 45 ميں بيان ہوا ہے : (ثم ارسلنا موسى واخاہ ہارون بايا تنا وسلطان مبين )
(3) جيسا كہ سورہ انبياء كى آيہ 48 ميں بيان ہوا ہے : (ولقد اتينا موسى وہارون الفرقان وضيائ)
(4) (وو ہبنالہ من رحمتنا اخاہ ہارون نبيا) (سورہ مريم آيت 53)
گزار كر آرہے تھے، ليكن اصولى طور پر اس عرصہ ميں بھى اپنے بھائي كے ساتھ ان كارابطہ كامل طور پر منقطع نہ ہو، اسى لئے اس صراحت اور وضاحت كے ساتھ ان كے بارے ميں بات كررہے ہيں، اور خدا كى درگاہ سے اس عظيم مشن ميں اس كى شركت كے لئے تقاضا ركرہے ہيں_
اس كے بعد جناب موسى عليہ السلام ہارون كو وزارت ومعاونت پر متعين كرنے كےلئے اپنے مقصد كو اس طرح بيان كرتے ہيں : ''خداوندا ميرى پشت اس كے ذريعے مضبوط كردے''_(1)
اس مقصد كى تكميل كے لئے يہ تقاضا كرتے ہيں: '' اسے ميرے كام ميں شريك كردے_''(2)
وہ مرتبہ رسالت ميں بھى شريك ہو اور اس عظيم كام كو رو بہ عمل لانے ميں بھى شريك رہيں، البتہ حضرت ہارون ہر حال ميں تمام پروگراموں ميں جناب موسى عليہ السلام كے پيرو تھے او رموسى عليہ السلام ان كے امام و پيشوا كى حيثيت ركھتے تھے_
آخر ميں اپنى تمام درخواستوں كا نتيجہ اس طرح بيان كرتے ہيں: '' تاكہ ہم تيرى بہت بہت تسبيح كريں اور تجھے بہت بہت ياد كريں، كيونكہ تو ہميشہ ہى ہمارے حالات سے آگاہ رہا ہے_''(3)
تو ہمارى ضروريات و حاجات كو اچھى طرح جانتا ہے اور اس راستہ كى مشكلات سے ہر كسى كى نسبت زيادہ آگاہ ہے، ہم تجھ سے يہ چاہتے ہيں كہ تو ہميں اپنے فرمان كى اطاعت كى قدرت عطا فرمادے اور ہمارے فرائض، ذمہ داريوں اور فرائض انجام دينے كے لئے ہميں توفيق اور كاميابى عطا فرما_
چونكہ جناب موسى عليہ السلام كا اپنے مخلصانہ تقاضوں ميں سوائے زيادہ سے زيادہ اور كامل تر خدمت كے اور كچھ مقصد نہيں تھا لہذا خداوندعالم نے ان كے تقاضوں كو اسى وقت قبول كرليا،'' اس نے كہا: اے موسى تمہارى درخواستيں قبول ہيں_''(4)
(1) سورہ طہ آيت 31
(2) سورہ طہ آيت 32
(3) سورہ طہ آيت 33 تا35
(4) سورہ طہ آيت 36
حقيقت ميں ان حساس اور تقدير ساز لمحات ميں چونكہ موسى عليہ السلام پہلى مرتبہ خدائے عظيم كى بساط مہمانى پر قدم ركھ رہے تھے،لہذا جس جس چيز كى انہيں ضرورت تھى ان كا خدا سے اكٹھا ہى تقاضا كرليا،اور اس نے بھى مہمان كا انتہائي احترام كيا،اور اس كى تمام درخواستوں اور تقاضوں كو ايك مختصر سے جملے ميں حيات بخش ندا كے سا تھ قبول كرليا اور اس ميں كسى قسم كى قيدو شرط عائد نہ كى اور موسى عليہ السلام كا نام مكرر لا كر،ہر قسم كے ابہام كو دور كرتے ہوئے اس كى تكميل كر دى ،يہ بات كس قدر شوق انگيز اور افتخار آفرين ہے كہ بندے كا نام مولا كى زبان پر بار بار آئے_
حضرت موسى عليہ السلام كى ماموريت كا پہلا مرحلہ ختم ہوا جس ميں بتايا گيا ہے كہ انھيں وحى اور رسالت ملى اور انھوں نے اس عظيم مقصد كو حاصل كرنے كے ليے وسائل كے حصول كى درخواست كى _
اس كے ساتھ ہى زير نظر دوسرے مرحلے كے بارے ميں گفتگو ہوتى ہے يعنى فرعون كے پاس جانا اور اس كے ساتھ گفتگو كرنا چنانچہ ان كے درميان جو گفتگو ہوئي ہے اسے يہاں پر بيان كيا جارہا ہے_
سب سے پہلے مقدمے كے طور پر فرمايا گيا ہے:اب جبكہ تمام حالات ساز گار ہيں تو تم فرعون كے پاس جائو ''اور اس سے كہو كہ ہم عالمين كے پروردگار كے رسول ہيں''_(1)
اور اپنى رسالت كا ذكر كرنے كے بعد بنى اسرائيل كى آزادى كا مطالبہ كيجئے اور كہيئے''كہ ہميں حكم ملا ہے كہ تجھ سے مطالبہ كريں كہ تو بنى اسرائيل كو ہمارے ساتھ بھيج دے''_(2)
وہ مصر ميں گئے اور اپنے بھائي ہارون كو مطلع كيا اور وہ رسالت جس كے ليے آپ(ع) مبعوث تھے،اس كا پيغام اسے پہنچايا_پھر يہ دونوں بھائي فرعون سے ملاقات كے ارادے سے روانہ ہوئے_ آخر بڑى مشكل سے اس كے پاس پہنچ سكے_اس وقت فرعون كے وزراء اور مخصوص لوگ اسے گھيرے ہوئے تھے_
(1)سورہ شعراء آيت16
(2)سورہ شعراء آيت17
اس مقام پر فرعون نے زبان كھولى اور شيطنت پر مبنى چند ايك جچے تلے جملے كہے جس سے ان كى رسالت كى تكذيب كرنا مقصود تھا_ وہ حضرت موسى عليہ السلام كى طرف منہ كركے كہنے لگا:''آيا بچپن ميں ہم نے تجھے اپنے دامن محبت ميں پروان نہيں چڑھايا ''_(1)
ہم نے تجھے دريائے نيل كى ٹھاٹھيں مارتى ہوئي خشمگين موجوں سے نجات دلائي وگرنہ تيرى زندگى خطرے ميں تھي_تيرے ليے دائيوں كو بلايا اور ہم نے اولاد بنى اسرائيل كے قتل كردينے كا جو قانون مقرر كر ركھا تھا اس سے تجھے معاف كرديا اور امن و سكون اور نازونعمت ميں تجھے پروان چڑھايا_
اور اس كے بعد بھى ''تو نے اپنى زندگى كے كئي سال ہم ميں گزارے''_(2)
پھر وہ موسى عليہ السلام پر ايك اعتراض كرتے ہوئے كہتا ہے:تو نے وہ اہم كام كيا ہے_(فرعون كے حامى ايك قبطى كو قتل كيا ہے)_(3)
يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ايسا كام كرنے كے بعد تم كيونكررسول بن سكتے ہو؟
ان سب سے قطع نظر كرتے ہوئے ''تو ہمارى نعمتوں سے انكار كررہا ہے''_(4)
تو كئي سالوں تك ہمارے دسترخوان پر پلتا رہا ہے،ہمارا نمك كھانے كے بعد نمك حلالى كا حق اس طرح ادا كررہا ہے؟اس قدر كفران نعمت كے بعد تو كس منہ سے نبوت كا دعوى كررہاہے؟
در حقيقت وہ بزعم خود اس طرح كى منطق سے ان كى كردار كشى كركے موسى عليہ السلام كو خاموش كرنا چاہتا تھا_
جناب موسى عليہ السلام نے فرعون كى شيطنت آميز باتيں سن كر اس كے تينوں اعتراضات كے
(1)سورہ شعراء آيت 18
(2)سورہ شعراء آيت 18
(3)سورہ شعراء آيت19
(4)سورہ شعراء آيت19
جواب دينا شروع كيے_ليكن اہميت كے لحاظ سے فرعون كے دوسرے اعتراض كا سب سے پہلے جواب ديا(يا پہلے اعتراض كو بالكل جواب كے لائق ہى نہيں سمجھا كيونكہ كسى كا كسى كى پرورش كرنا اس بات كى دليل نہيں بن جاتا كہ اگر وہ گمراہ ہوتو اسے راہ راست كى بھى ہدايت نہ كى جائے)_
بہر حال جناب موسى عليہ السلام نے فرمايا:''ميں نے يہ كام اس وقت انجام ديا جب كہ ميں بے خبر لوگوں ميں سے تھا''_(1)
يعنى ميں نے اسے جو مكا مارا تھا وہ اسے جان سے ماردينے كى غرض نہيں بلكہ مظلوم كى حمايت كے طور پر تھا ،ميں تو نہيںسمجھتا تھا كہ اس طرح اس كى موت واقع ہوجائے گي_
پھر موسى عليہ السلام فرماتے ہيں:''اس حادثے كى وجہ سے جب ميں نے تم سے خوف كيا تو تمہارے پاس سے بھاگ گيا اور ميرے پروردگارنے مجھے دانش عطا فرمائي اور مجھے رسولوں ميںسے قرار ديا''_(2)
پھر موسى عليہ السلام اس احسان كا جواب ديتے ہيں جو فرعون نے بچپن اور لڑكپن ميںپرورش كى صورت ميںان پر كيا تھادو ٹوك انداز ميں اعتراض كى صورت ميں فرماتے ہيں:''تو كيا جو احسان تو نے مجھ پر كيا ہے يہى ہے كہ تو بنى اسرائيل كو اپنا غلام بنالے''_(3)
يہ ٹھيك ہے كہ حوادث زمانہ نے مجھے تيرے محل تك پہنچاديا اور مجھے مجبوراًتمھارے گھر ميں پرورش پانا پڑى اور اس ميں بھى خدا كى قدرت نمائي كار فرما تھى ليكن ذرا يہ تو سوچو كہ آخر ايسا كيوں ہوا؟كيا وجہ ہے كہ ميں نے اپنے باپ كے گھر ميں اور ماں كى آغوش ميں تربيت نہيں پائي؟ آخر كس ليے؟
كيا تو نے بنى اسرائيل كو غلامى كى زنجيروں ميں نہيں جكڑ ركھا؟يہاں تك كہ تو نے اپنے خودساختہ قوانين كے تحت ان كے لڑكوں كو قتل كرديا اور ان كى لڑكيوں كو كنيز بنايا_
(1)سورہ شعراء آيت20
(2)سورہء شعراء آيت21
(3)سورہ شعراء آيت22
تيرے بے حدوحساب مظالم اس بات كا سبب بن گئے كہ ميرى ماں اپنے نو مولود بچے كى جان بچانے كى غرض سے مجھے ايك صندوق ميں ركھ كر دريائے نيل كى بے رحم موجوں كے حوالے كردے اور پھر منشائے ايزدى يہى تھا كہ ميرى چھوٹى سى كشتى تمھارے محل كے نزديك لنگر ڈال دے_ہاں تو يہ تمہارے بے اندازہ مظالم ہى تھے جن كى وجہ سے مجھے تمھارا مرہون منت ہونا پڑا اور جنھوں نے مجھے اپنے باپ كے مقدس اور پاكيزہ گھر سے محروم كركے تمھارے آلودہ محل تك پہنچاديا_
جب موسى عليہ السلام نے فرعون كو دوٹوك اور قاطع جواب دے ديا جس سے وہ لا جواب اور عاجز ہوگيا تو اس نے كلام كا رخ بدلا اور موسى عليہ السلام نے جو يہ كہا تھا''ميں رب العالمين كا رسول ہوں''تو اس نے اسى بات كو اپنے سوال كا محور بنايا اور كہا يہ رب العالمين كيا چيز ہے؟(1)
بہت بعيد ہے كہ فرعون نے و اقعاًيہ بات مطلب كے لئے كى ہو بلكہ زيادہ تر يہى لگتا ہے كہ اس نے تجاہل عارفانہ سے كام ليا تھا اور تحقير كے طور پر يہ بات كہى تھي_
ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے بيدار اور سمجھ دارافراد كى طرح اس كے سوا اور كوئي چارہ نہ ديكھا كہ گفتگو كو سنجيدگى پر محمول كريں اور سنجيدہ ہوكر اس كا جواب ديں اور چونكہ ذات پروردگار عالم انسانى افكار كى دسترس سے باہر ہے لہذا انھوں نے مناسب سمجھا كہ اس كے آثار كے ذريعے استدلال قائم كريں لہذا انھوں نے آيات آفاقى كا سہارا ليتے ہوئے فرمايا:''(خدا)آسمانوں اور زمين اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پر وردگار ہے اگر تم يقين كا راستہ اختيار كرو''_(2)
اتنے وسيع و عريض اور باعظمت آسمان و زمين اور كائنات كى رنگ برنگى مخلوق جس كے سامنے تو اور تيرے چاہنے اور ماننے والے ايك ذرہ ناچيز سے زيادہ كى حيثيت نہيں ركھتے، ميرے پروردگار كى آفرينش
(1)سورہ شعراء آيت 23
(2)سورہ شعراء آيت 24
ہے اور ان اشياء كا خالق ومدبر اور ناظم ہى عبادت كے لائق ہے نہ كہ تيرے جيسى كمزور اور ناچيز سى مخلوق_
ليكن عظيم آسمانى معلم كے اس قدر محكم بيان اورپختہ گفتگو كے بعد بھى فرعون خواب غفلت سے بيدار نہ ہوا اس نے انپے ٹھٹھے مذاق اور استہزاء كو جارى ركھا اور مغرور مستكبرين كے پرانے طريقہ كار كو اپناتے ہوئے ''اپنے اطراف ميں بيٹھنے والوں كى طرف منہ كركے كہا: كيا سن نہيں رہے ہو(كہ يہ شخص كيا كہہ رہا ہے)''_(1)
معلوم ہے كہ فرعون كے گردكون لوگ بيٹھے ہيں اسى قماش كے لوگ تو ہيں_صاحبان زوراور زرہيںيا پھرظالم اور جابر كے معاون _
وہاں پر فرعون كے اطراف ميں پانچ سوآدمى موجود تھے،جن كا شمار فرعون كے خواص ميں ہوتا تھا_
اس طرح كى گفتگو سے فرعون يہ چاہتا تھا كہ موسى عليہ السلام كى منطقى اور دلنشين گفتگو اس گروہ كے تاريك دلوں ميں ذرہ بھر بھى اثر نہ كرے اور لوگوں كو يہ باور كروائے كہ انكى باتيں بے ڈھنگى اور ناقابل فہم ہيں_
مگر جناب موسى عليہ السلام نے اپنى منطقى اور جچى تلى گفتگو كو بغير كسى خوف وخطر كے جارى ركھتے ہوئے فرمايا:''تمہارا بھى رب ہے اور تمھارے آباء واجداد كا رب ہے''_(2)
درحقيقت بات يہ ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے پہلے تو آفاقى آيات كے حوالے سے استدلال كيا اب يہاں پر'' آيات انفس''اور خود انسان كے اپنے وجود ميں تخليق خالق كے اسرار اور انسانى روح اور جسم ميں خداوند عالم كى ربوبيت كے آثار كى طرف اشارہ كررہے ہيں تاكہ وہ عاقبت نا انديش مغرور كم از كم اپنے بارے ميں تو كچھ سوچ سكيںخود كو اور پھر اپنے خدا كو پہچان سكيں_
ليكن فرعون اپنى ہٹ دھرمى سے پھر بھى باز نہ آيا،اب استہزاء اور مسخرہ پن سے چند قدم آگے بڑھ
(1)سورہ شعراء آيت 35
(2)سورہ شعراء آيت 26
جاتا ہے اور موسى عليہ السلام كو جنون اور ديوانگى كا الزام ديتا ہے چنانچہ اس نے كہا:''جو پيغمبر تمھارى طرف آيا ہے بالكل ديوانہ ہے''_(1)
وہى تہمت جو تاريخ كے ظالم اور جابر لوگ خدا كے بھيجے ہوئے مصلحين پر لگاتے رہتے تھے_
يہ بھى لائق توجہ ہے كہ يہ مغرور فريبى اس حد تك بھى روادارنہ تھا كہ كہے''ہمارا رسول''اور'' ہمارى طرف بھيجا ہوا ''بلكہ كہتا ہے''تمہارا پيغمبر''اور ''تمھارى طرف بھيجا ہوا'' كيونكہ''تمہارا پيغمبر''ميں طنز اور استہزاء پايا جاتا ہے او رساتھ ہى اس ميں غرور اور تكبر كا پہلو بھى نماياں ہے كہ ميں اس بات سے بالا تر ہوں كہ كوئي پيغمبر مجھے دعوت دينے كے لئے آئے اور موسى عليہ السلام پر جنون كى تہمت لگانے سے اس كا مقصد يہ تھا كہ جناب موسى عليہ السلام كے جاندار دلائل كو حاضرين كے اذہان ميںبے اثر بنايا جائے_
ليكن يہ ناروا تہمت موسى عليہ السلا م كے بلند حوصلوں كو پست نہيںكر سكى اور انھوں نے تخليقات عالم ميں آثار الہى اور آفاق و انفس كے حوالے سے اپنے دلائل كو برابر جارى ركھا اور كہا:''وہ مشرق ومغرب اور جو كچھ ان دونوں كے درميان ہے سب كا پروردگار ہے اگر تم عقل وشعور سے كام لو''_(2)
اگر تمہارے پاس مصر نامى محدود سے علاقے ميں چھوٹى سى ظاہرى حكومت ہے توكيا ہوا؟ميرے پروردگار كى حقيقى حكومت تو مشرق و مغرب اور اس كے تمام درميانى علاقے پر محيط ہے اور اس كے آثار ہر جگہ موجودات عالم كى پيشانى پر چمك رہے ہيں اصولى طور پر خود مشرق و مغرب ميں آفتاب كا طلوع و غروب اور كائنات عالم پر حاكم نظام شمسى ہى اس كى عظمت كى نشانياں ہيں، ليكن عيب خود تمہارے اندر ہے كہ تم عقل سے كام نہيں ليتے بلكہ تمہارے اندر سوچنے كى عادت ہى نہيں ہے_(3)
درحقيقت يہاں پر حضرت موسى عليہ اسلام نے اپنى طرف جنون كى نسبت كا بڑے اچھے انداز ميںجواب ديا ہے_ دراصل وہ يہ كہنا چاہتے ہيں كہ ديوانہ ميں نہيں ہوں بلكہ ديوانہ اور بے عقل وہ شخص ہے جو
(1)سورہ شعراء آيت27
(2)سورہ شعراء آيت28
(3)سورہ شعراء آيت28
اپنے پروردگار كے ان تمام آثار اور نشانات كو نہيں ديكھتا _
عالم وجود كے ہر دروديوار پر ذات پروردگار كے اس قدر عجيب وغريب نقوش موجود ہيں پھر بھى جو شخص ذات پروردگار كے بارے ميں نہ سوچے اسے خود نقش ديوار ہوجانا چاہئے _
ان طاقتور دلائل نے فرعون كو سخت بوكھلاديا، اب اس نے اسى حربے كا سہارا ليا جس كا سہارا ہربے منطق اور طاقتور ليتا ہے اور جب وہ دلائل سے عاجزہوجاتاہے تو اسے آزمانے كى كوشش كرتاہے_
'' فرعون نے كہا: اگر تم نے ميرے علاوہ كسى اور كو معبود بنايا تو تمہيں قيديوں ميں شامل كردوںگا''_(1) ميں تمہارى اور كوئي بات نہيں سننا چاہتا ميں تو صرف ايك ہى عظيم الہ اور معبوے كو جانتاہوں اور وہ ميں خود ہوں اگر كوئي شخص اس كے علاوہ كہتا ہے تو بس سمجھ لے كہ اس كى سزا يا تو موت ہے يا عمر قيد جس ميں زندگى ہى ختم ہوجائے_
درحقيقت فرعون چاہتا تھا كہ اس قسم كى تيزوتند گفتگو كركے موسى عليہ السلام كو ہراساں كرے تاكہ وہ ڈركر چپ ہوجائيں كيونكہ اگر بحث جارى رہے گى تو لوگ اس سے بيدار ہوں گے اور ظالم وجابر لوگوں كے لئے عوام كى بيدارى اور شعور سے بڑھ كر كوئي اور چيز خطر ناك نہيں ہوتى _
گزشتہ صفحات ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے منطق اور استدلال كى روسے فرعون پر كيونكر اپنى فوقيت اوربر ترى كا سكہ منواليا اور حاضرين پر ثابت كرديا كہ ان كا خدائي دين كس قدر عقلى ومنطقى ہے اور يہ بھى واضح كرديا كہ فرعون كے خدائي دعوے كس قدر پوچ اور عقل وخردسے عار ى ہيں كبھى تو وہ استہزاء كرتا ہے ،كبھى جنون اور ديوانگى كى تہمت لگاتاہے اور آخر كار طاقت كے نشے ميں آكر قيدوبند اور موت كى دھمكى ديتا ہے _
(1)سورہ شعراء آيت29
اس موقع پر گفتگو كارخ تبديل ہوجاتاہے اب جناب موسى كو ايسا طريقہ اختيار كرنا چاہئے تھا جس سے فرعون كى ناتوانى ظاہر ہوجائے _
موسى عليہ السلام كو بھى كسى طاقت كے سہارے كى ضرورت تھى ايسى خدائي طاقت جس كے معجزانہ اندازہوں، چنانچہ آپ فرعون كى طرف منہ كركے فرماتے ہيں :'' آيا اگر ميں اپنى رسالت كے لئے واضح نشانى لے آئوں پھر بھى تو مجھے زندان ميں ڈالے گا ''_(1)
اس موقع پر فرعون سخت مخمصے ميں پڑگيا، كيونكہ جناب موسى عليہ السلام نے ايك نہايت ہى اہم اور عجيب وغريب منصوبے كى طرف اشارہ كركے حاضرين كى توجہ اپنى طرف مبذول كرالى تھى اگر فرعون ان كى باتوں كو ان سنى كر كے ٹال ديتا تو سب حاضرين اس پر اعتراض كرتے اور كہتے كہ موسى كو وہ كام كرنے كى اجازت دى جائے اگر وہ ايسا كرسكتا ہے تو معلوم ہوجائے گا اور اس سے مقابلہ نہيں كيا جاسكے گا اور اگر ايسا نہيں كرسكتا تو بھى اس كى شخيى آشكار ہوجائے گى بہرحال موسى عليہ السلام كے اس دعوے كو آسانى سے مسترد نہيں كيا جاسكتا تھا آخركار فرعون نے مجبور ہوكر كہا'' اگر سچ كہتے ہو تو اسے لے آئو''(2)
''اسى دوران ميں موسى عليہ السلام نے جو عصا ہاتھ ميں ليا ہوا تھا زمين پر پھينك ديا اور وہ (خدا كے حكم سے ) بہت بڑا اور واضح سانپ بن گيا''_ (3)
''پھر اپنا ہاتھ آستين ميں لے گئے اور باہر نكالا تو اچانك وہ ديكھنے والوں كے لئے سفيد اور چمك دار بن چكا تھا''_ (4) در حقيقت يہ دو عظيم معجزے تھے ايك خوف كا مظہر تھا تو دوسرا اميد كا مظہر، پہلے ميں انذار كا پہلو تھا تو دوسرے ميں بشارت كا ،ايك خدائي عذاب كى علامت تھى تو دوسرا نور اور رحمت كى نشانى ،كيونكہ معجزے كو پيغمبر خدا كى دعوت كے مطابق ہونا چاہئے_
(1)سورہ شعراء آيت 31
(2)سورہ شعراء آيت 31
(3)سورہ شعراء آيت 32
(4)سورہ شعراء آيت 33
فرعون نے جب صورت حال ديكھى تو سخت بوكھلا گيا اور وحشت كى گہرى كھائي ميں جاگرا ،ليكن اپنے شيطانى اقتدار كو بچانے كے لئے جو موسى عليہ السلام كے ظہور كے ساتھ متزلزل ہوچكا تھا اس نے ان معجزات كى توجيہ كرنا شروع كردى تاكہ اس طرح سے اطراف ميں بيٹھنے والوں كے عقائد محفوظ اور ان كے حوصلے بلند كرسكے اس نے پہلے تو اپنے حوارى سرداروں سے كہا: ''يہ شخص ماہر اور سمجھ دار جادو گر ہے''_ (1)
جس شخص كو تھوڑى دير پہلے تك ديوانہ كہہ رہا تھا اب اسے '' عليم'' كے نام سے ياد كررہا ہے، ظالم اور جابر لوگوں كا طريقہ كار ايسا ہى ہوتا ہے كہ بعض اوقات ايك ہى محفل ميں كئي روپ تبديل كرليتے ہيں اور اپنى انا كى تسكين كے لئے نت نئے حيلے تراشتے رہتے ہيں _
اس نے سوچا چونكہ اس زمانے ميں جادوكادور دورہ ہے لہذا موسى عليہ السلام كے معجزات پر جادو كا ليبل لگا ديا جائے تاكہ لوگ اس كى حقانيت كو تسليم نہ كريں _
پھر اس نے لوگوں كے جذبات بھڑكانے اور موسى عليہ السلام كے خلاف ان كے دلوں ميں نفرت پيدا كرنے كے لئے كہا : ''وہ اپنے جادو كے ذريعے تمہيں تمہارے ملك سے نكالنا چاہتا ہے،تم لوگ اس بارے ميں كيا سوچ رہے ہو اور كيا حكم ديتے ہو ''_(2)
يہ وہى فرعون ہے جو كچھ دير پہلے تك تمام سرزمين مصر كو اپنى ملكيت سمجھ رہا تھا'' كيا سرزمين مصر پر ميرى حكومت اور مالكيت نہيں ہے ؟''اب جبكہ اسے اپنا راج سنگھا سن ڈوبتا نظرآرہا ہے تو اپنى حكومت مطلقہ كو مكمل طور پر فراموش كر كے اسے عوامى ملكيت كے طور پر ياد كركے كہتا ہے '' تمہارا ملك خطرات ميں گھر چكا ہے اسے بچانے كى سوچو''_وہى فرعون جو ايك لحظہ قبل كسى كى بات سننے پر تيار نہيں تھا بلكہ ايك مطلق العنان آمر كى حيثيت سے تخت حكومت پر براجمان تھا اب اس حد تك عاجز اور درماندہ ہوچكا ہے كہ اپنے اطرافيوں سے درخواست كررہا ہے كہ تمہارا كيا حكم ہے نہايت ہى عاجز اور كمزور ہوكر التجا كررہا ہے _
(1)سورہ شعراء آيت34
(2)سورہ شعراء آيت35
قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس كے دربارى باہمى طور پر مشور ہ كرنے ميںلگ گئے وہ اس قدر حواس باختہ ہوچكے تھے كہ سوچنے كى طاقت بھى ان سے سلب ہوگئي تھى ہر كوئي دوسرے كى طرف منہ كركے كہتا :
''تمہارى كيا رائے ہے ؟'' (1)
بہرحال كافى صلاح مشورے كے بعد درباريوں نے فرعون سے كہا :'' موسى اور اس كے بھائي كو مہلت دو اور اس بارے ميں جلدى نہ كرو اور تمام شہروں ميں ہركارندے روانہ كردو،تاكہ ہر ماہر اور منجھے ہوئے جادو گر كو تمہارے پاس لے آئيں ''_(2)
در اصل فرعون كے دربارى يا تو غفلت كا شكار ہوگئے يا موسى عليہ السلام پر فرعون كى تہمت كو جان بوجھ كر قبول كرليا اور موسى كو'' ساحر'' (جادوگر) سمجھ كر پروگرام مرتب كيا كہ ساحر كے مقابلے ميں '' سحار'' يعنى ماہر اور منجھے ہوئے جادو گروں كو بلايا جائے چنانچہ انھوں نے كہا : ''خوش قسمتى سے ہمارے وسيع وعريض ملك (مصر) ميں فن جادو كے بہت سے ماہر استاد موجود ہيں اگر موسى ساحر ہے تو ہم اس كے مقابلے ميں سحار لاكھڑا كريں گے اور فن سحر كے ايسے ايسے ماہرين كو لے آئيں گے جو ايك لمحہ ميں موسى كا بھرم كھول كر ركھ ديں گے''_
فرعون كے درباريوں كى تجويز كے بعد مصر كے مختلف شہروں كى طرف ملازمين روانہ كرديئےئے اورانھوںنے ہر جگہ پر ماہر جادو گروں كى تلاش شروع كردى '' آخر كار ايك مقررہ دن كى ميعادكے مطابق جادو گروں كى ايك جماعت اكٹھا كرلى گئي '' (3)
دوسرے لفظوں ميں انھوں نے جادوگروں كو اس روزكے لئے پہلے ہى سے تيار كرليا تاكہ ايك مقرر دن مقابلے كے لئے پہنچ جائيں _
(1)سورہ اعراف آيت 110
(2) سورہ شعراء 36 تا 36
(3)سورہ شعراء آيت 38
''يوم معلوم '' سے كيا مراد ہے ؟جيسا كہ سورہ اعراف كى آيات سے معلوم ہوتا ہے مصريوں كى كسى مشہور عيد كا دن تھا جسے موسى عليہ السلام نے مقابلے كے لئے مقرر كيا تھا اور اس سے ان كا مقصد يہ تھا كہ اس دن لوگوں كو فرصت ہوگى اور وہ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں گے كيونكہ انھيں اپنى كاميابى كا مكمل يقين تھا اور وہ چاہتے تھے كہ آيات خداوندى كى طاقت اور فرعون اور اس كے ساتھيوں كى كمزورى اور پستى پورى دنيا پر آشكار ہوجائے ''اور زيادہ سے زيادہ لوگوں سے كہا گيا كہ آيا تم بھى اس ميدان ميں اكٹھے ہوگے؟(1)
اس طرزبيان سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون كے كارندے اس سلسلے ميں سوچى سمجھى ا سكيم كے تحت كام كررہے تھے انھيں معلوم تھا كہ لوگوں كو زبردستى ميدان ميں لانے كى كوشش كى جائے تو ممكن ہے كہ اس كا منفى رد عمل ہو، كيونكہ ہر شخص فطرى طور پر زبردستى كو قبول نہيں كرتا لہذا انھوں نے كہا اگر تمہارى جى چاہے تو اس اجتماع ميں شركت كرو اس طرح سے بہت سے لوگ اس اجتماع ميں شريك ہوئے _
لوگوں كو بتايا گيا'' مقصد يہ ہے كہ اگر جادو گر كامياب ہوگئے كہ جن كى كاميابى ہمارے خدائوں كى كاميابى ہے تو ہم ان كى پيروى كريں گے '' (2)اور ميدان كو اس قدر گرم كرديں گے كہ ہمارے خدائوں كا دشمن ہميشہ ہميشہ كے لئے ميدان چھوڑجائے گا _
واضح ہے كہ تماشائيوں كا زيادہ سے زيادہ اجتماع جو مقابلے كے ايك فريق كے ہمنوا بھى ہوں ايك طرف توان كى دلچسپى كا سبب ہوگا اور ان كے حوصلے بلند ہوں گے اور ساتھ ہى وہ كاميابى كے لئے زبردست كوشش بھى كريں گے اوركاميابى كے موقع پر ايسا شور مچائيں گے كہ حريف ہميشہ كے لئے گوشئہ گمنامى ميں چلاجائے گا اور اپنى عددى كثرت كى وجہ سے مقابلے كے آغاز ميں فريق مخالف كے دل ميں خوف وہراس اور رعب ووحشت بھى پيدا كرسكيں گے_
(1)سورہ شعراء آيت 39
(2)سورہ شعراء آيت40
يہى وجہ ہے كہ فرعون كے كارندے كوشش كررہے تھے كہ لوگ زيادہ سے زيادہ تعداد ميں شركت كريں موسى عليہ السلام بھى ايسے كثيراجتماع كى خدا سے دعا كررہے تھے تاكہ اپنا مدعا اور مقصد زيادہ سے زيادہ لوگوں تك پہنچا سكيں _
يہ سب كچھ ايك طرف، ادھر جب جادو گر فرعون كے پاس پہنچے اور اسے مشكل ميں پھنسا ہوا ديكھا تو موقع مناسب سمجھتے ہوئے اس سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے اور بھارى انعام وصول كرنے كى غرض سے اس سے كہا :'' اگر ہم كامياب ہوگئے تو كيا ہمارے لئے كوئي اہم صلہ بھى ہوگا ؟'' (1)
فرعون جو برى طرح پھنس چكا تھا اور اپنے لئے كوئي راہ نہيں پاتاتھا انھيں زيادہ سے زيادہ مراعات اور اعزاز دينے پر تيار ہوگيا اس نے فورا ًكہا: : ''ہاں ہاں جو كچھ تم چاہتے ہوميں دوں گا اس كے علاوہ اس صورت ميں تم ميرے مقربين بھى بن جائوگے''_ (2)
در حقيقت فرعون نے ان سے كہا :تم كيا چاہتے ہو؟ مال ہے يا عہدہ: ميں يہ دونوں تمہيں دوں گا _
اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس ماحول اورزمانے ميں فرعون كا قرب كس حد تك اہم تھا كہ وہ ايك عظيم انعام كے طور پر اس كى پيش كش كررہا تھا درحقيقت اس سے بڑھ كر اور كوئي صلہ نہيں ہوسكتا كہ انسان اپنے مطلوب كے زيادہ نزديك ہو_
جب جادوگروں نے فرعون كے ساتھ اپنى بات پكى كرلى اور اس نے بھى انعام، اجرت اور اپنى بارگاہ كے مقرب ہونے كا وعدہ كركے انھيں خوش كرديا اور وہ بھى مطمئن ہوگئے تواپنے فن كے مظاہرے اور اس كے اسباب كى فراہمى كے لئے تگ ودوكرنى شروع كردي، فرصت كے ان لمحات ميں انھوں نے بہت سى رسياں اور لاٹھياں اكٹھى كرليں اور بظاہر ان كے اندر كو كھوكھلاكر كے ان ميں ايسا كوئي كيميكل مواد (پارہ وغيرہ
(1)سورہ شعراء آيت 41
(2)سورہ شعراء آيت 42
كى مانند)بھر ديا جس سے وہ سورج كى تپش ميں ہلكى ہوكر بھاگنے لگتى _
آخركاروعدے كا دن پہنچ گيا اور لوگوں كا اكثير مجمع ميدان ميں جمع ہوگيا تاكہ وہ اس تاريخى مقابلے كو ديكھ سكيں ،فرعون اور اس كے درباري، جادوگر اور موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي ہارون عليہ السلام سب ميدان ميں پہنچ گئے _
ليكن حسب معمول قرآن مجيد اس بحث كو خدف كركے اصل بات كو بيان كرتا ہے _
يہاں پر بھى اس تاريخ ساز منظر كى تصوير كشى كرتے ہوئے كہتا ہے :''موسى نے جادو گروں كى طرف منہ كركے كہا :جو كچھ پھينكنا چاہتے ہو پھينكو اور جو كچھ تمہارے پاس ہے ميدان ميں لے آئو ''_(1)
قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام نے يہ بات اس وقت كى جب جادوگروں نے ان سے كہا:'' آپ پيش قدم ہوكر اپنى چيز ڈاليں گے يا ہم ؟''(2)
موسى عليہ السلام كى يہ پيش كش درحقيقت انھيں اپنى كاميابى پر يقين كى وجہ سے تھى اوراس بات كى مظہر تھى كہ فرعون كے زبردست حاميوں اور دشمن كے انبوہ كثير سے وہ ذرہ برابر بھى خائف نہيں ،چنانچہ يہ پيش كش كركے آپ نے جادوگروں پر سب سے پہلا كامياب وار كيا جس سے جادو گروں كو بھى معلوم ہوگيا كہ موسى عليہ السلام ايك خاص نفسياتى سكون سے بہرہ مند ہيں اور وہ كسى ذات خاص سے لولگائے ہوئے ہيں كہ جوان كا حوصلہ بڑھارہى ہے _
جادو گر تو غرور ونخوت كے سمندر ميں غرق تھے انھوں نے اپنى انتہائي كوششيں اس كام كے لئے صرف كردى تھيں اور انھيںاپنى كاميابى كا بھى يقين تھا'' لہذانھوں نے اپنى رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينك ديں اور كہافرعون كى عزت كى قسم ہم يقينا كامياب ہيں ''_(3)
جى ہاں :انھوں نے دوسرے تمام چاپلوسيوں خوشامديوں كى مانند فرعون كے نام سے شروع كيا اور
(1)سورہ شعراء آيت 43
(2)سورہ اعراف آيت115
(3)سورہ شعراء آيت44
اس كے كھوكھلے اقتدار كا سہاراليا _
جيسا كہ قرآن مجيد ايك اور مقام پر كہتا ہے :
'' اس موقع پر انھوں نے جب رسياں اور لاٹھياں زمين پر پھينكيںتو وہ چھوٹے بڑے سانپوں كى طرح زمين پر حركت كرنے لگيں''_ (1)
انھوں نے اپنے جادو كے ذرائع ميں سے لاٹھيوں كا انتخاب كيا ہوا تھا تاكہ وہ بزعم خود موسى كى عصا كى برابرى كرسكيں اور مزيد برترى كے لئے رسيوں كو بھى ساتھ شامل كرليا تھا _
اسى دوران ميں حاضرين ميں خوشى كى لہر دوڑگئي اور فرعون اور اس كے درباريوں كى آنكھيں خوشى كے مارے چمك اٹھيں اور وہ مارے خوشى كے پھولے نہيں سماتے تھے يہ منظر ديكھ كر ان كے اندر وجدو سرور كى كيفيت پيدا ہوگئي اور وہ جھوم رہے تھے _ چنانچہ بعض مفسرين كے قول كے مطابق ان ساحروں كى تعداد كئي ہزار تھى نيز ان كے وسائل سحر بھى ہزاروں كى تعداد ميں تھے چونكہ اس زمانے ميں مصر ميں سحرو ساحرى كا كافى زور تھا اس بناپر اس بات پر كوئي جائے تعجب نہيں ہے _
خصوصاً جيسا كہ قران (2)كہتا ہے كہ :
وہ منظر اتنا عظيم ووحشتناك تھا كہ حضرت موسى نے بھى اس كى وجہ سے اپنے دل ميں كچھ خوف محسوس كيا _
اگرچہ نہج البلاغہ ميں اس كى صراحت موجود ہے كہ حضرت موسى كو اس بات كا خوف لاحق ہو گيا تھا كہ ان جادوگروں كو ديكھ كر لوگ اس قدر متاثر نہ ہوجائيں كہ ان كو حق كى طرف متوجہ كرنا دشوار ہوجائے بہرصورت يہ تمام باتيں اس بات كى مظہر ہيں كہ اس وقت ايك عظيم معركہ درپيش تھا جسے حضرت موسى عليہ السلام كو بفضل الہى سركرنا تھا_
(1)سورہ طہ آيت 66
(2) سورہ طہ اايت 67
جادو گروں كے دل ميں ايمان كى چمك
ليكن موسى عليہ السلام نے اس كيفيت كو زيادہ دير نہيں پنپنے ديا وہ آگے بڑھے اور اپنے عصا كو زمين پردے مارا تو وہ اچانك ايك ادہے كى شكل ميں بتديل ہوكر جادو گروں كے ان كر شموں كو جلدى نگلنے لگا اور انھيں ايك ايك كركے كھاگيا _(1)(2)
(1)سورہ طہ ، آيت66
(2)كيا عصاكا ادھابن جانا ممكن ہے ؟
اس ميں كوئي شك نہيں كہ عصا كا ازدہا بن جانا ايك بيّن معجزہ ہے جس كى توجيہ مادى اصول سے نہيں كى جاسكتي، بلكہ ايك خدا پرست شخص كو اس سے كوئي تعجب بھى نہ ہوگا كيونكہ وہ خدا كو قادر مطلق اور سارے عالم كے قوانين كو ارادہ الہى كے تابع سمجھتا ہے لہذا اس كے نزديك يہ كوئي بڑى بات نہيں كہ لكڑى كا ايك ٹكڑا حيوان كى صورت اختيار كرلے كيونكہ ايك مافوق طبيعت قدرت كے زير اثر ايسا ہوناعين ممكن ہے _
ساتھ ہى يہ بات بھى نہ بھولنا چاہئے كہ اس جہان طبيعت ميں تمام حيوانات كى خلقت خاك سے ہوئي ہے نيز لكڑى و نباتات كى خلقت بھى خاك سے ہوئي ہے ليكن مٹى سے ايك بڑا سانپ بننے كے لئے عادتاًشايد كروڑوں سال كى مدت دركار ہے،ليكن اعجاز كے ذريعے يہ طولانى مدت اس قدر كوتاہ ہوگئي كہ وہ تمام انقلابات ايك لحظہ ميں طے ہوگئے جن كى بنا پر مٹى سے سانپ بنتا ہے ،جس كى وجہ سے لكڑى كا ايك ٹكڑا جو قوانين طبيعت كے زير اثر ايك طولانى مدت ميں سانپ بنتا،چند لحظوں ميں يہ شكل اختيار كرگيا_
next | index | back |