next index back

اس مقام پر كچھ ايسے افراد بھى ہيں جو تمام معجزات انبياء كى طبيعى اور مادى توجيہات كرتے ہيں جس سے ان كے اعجازى پہلوں كى نفى ہوتى ہے،اور ان كى يہ سعى ہوتى ہے كہ تمام معجزات كو معمول كے مسائل كى شكل ميں ظاہر كريں،ہر چند وہ كتب آسمانى كى نص اور الفاظ صريحہ كے خلاف ہو،ايسے لوگوں سے ہمارا يہ سوال ہے كہ وہ اپنى پوزيشن اچھى طرح سے واضح كريں_كيا وہ واقعاً خدا كى عظيم قدرت پر ايمان ركھتے ہيںاور اسے قوانين طبيعت پر حاكم مانتے ہيں كہ نہيں؟ اگر وہ خدا كو قادر و توانا نہيں سمجھتے توان سے انبياء كے حالات اور ان كے معجزات كى بات كرنا بالكل بے كار ہے اور اگر وہ خدا كو قادر جانتے ہيں تو پھر ذرا تا مل كريں كہ ان تكلف آميز توجيہوں كى كيا ضرورت ہے جو سراسر آيات قرآنى كے خلاف ہيں (اگر چہ زير بجث آيت ميں ميرى نظر سے نہيں گزرا كہ كسى مفسر نے جس كا طريقہ تفسير كيسا ہى مختلف كيوںنہ ہو اس آيت كى مادى توجيہہ كى ہو،تا ہم جو كچھ ہم نے بيان كيا وہ ايك قاعدہ كلى كے طور پر تھا_

اس موقع پر لوگوں پر يكدم سكوت طارى ہوگيا حاضرين پر سناٹا چھاگيا،تعجب كى وجہ سے ان كے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے آنكھيں پتھرا گئي گويا ان ميں جان ہى نہيں رہى ليكن بہت جلد تعجب كے بجائے وحشت ناك چيخ و پكار شروع ہوگئي،كچھ لوگ بھاگ كھڑے ہوئے كچھ لوگ نتيجے كے انتظار ميں رك گئے اور كچھ لوگ بے مقصد نعرے لگارہے تھے ليكن جادوگرں كے منہ تعجب كى وجہ سے كھلے ہوئے تھے_

اس مرحلے پر سب كچھ تبديل ہوگيا جو جادوگر اس وقت تك شيطانى رستے پر گامزن ،فرعون كے ہم ركاب اور موسى عليہ السلام كے مخالف تھے يك دم اپنے آپے ميں آگئے اور كيونكہ جادو كے ہر قسم كے ٹونے ٹوٹكے او رمہارت اور فن سے واقف تھے اس لئے انھيں يقين آگيا كہ ايسا كام ہر گز جادو نہيں ہوسكتا، بلكہ يہ خدا كا ايك عظيم معجزہ ہے ''لہذا اچانك وہ سارے كے سارے سجدے ميں گر پڑے ''_(1)

دلچسپ بات يہ ہے كہ قرآن نے يہاں پر ''القي''كا استعمال كيا ہے جس كا معنى ہے گراديئے گئے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جناب موسى عليہ السلام كے معجزے سے اس قدر متا ثر ہوچكے تھے كہ بے اختيار زمين پر سجدے ميں جاپڑے _

اس عمل كے ساتھ ساتھ جو ان كے ايمان كى روشن دليل تھا ;انھوں نے زبان سے بھى كہا:''ہم عالمين كے پروردگار پر ايمان لے آئے''_(2)

اور ہر قسم كا ابہام وشك دور كرنے كے لئے انھوں نے ايك اور جملے كابھى اضافہ كيا تاكہ فرعون كے لئے كسى قسم كى تاويل باقى نہ رہے،انھوں نے كہا:''موسى اور ہارون كے رب پر'' _(3)

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ عصازمين پر مارنے اور ساحرين كے ساتھ گفتگو كرنے كا كام اگرچہ موسى عليہ السلام نے انجام ديا ليكن ان كے بھائي ہارون عليہ السلام ان كے ساتھ ساتھ ان كى حمايت اور مدد كررہے تھے_


(1)سورہ شعراء آيت 46

(2)سورہ شعراء آيت47

(3)سورہ شعراء آيت 48

يہ عجيب وغريب تبديلى جادوگروں كے دل ميں پيدا ہوگئي اور انھوں نے ايك مختصر سے عرصے ميں مطلق تاريكى سے نكل كر روشنى اور نور ميں قدم ركھ ديا اور جن جن مفادات كا فرعون نے ان سے وعدہ كيا تھا ان سب كو ٹھكراديا ،يہ بات تو آسان تھي، انھوں نے اس اقدام سے اپنى جانوں كو بھى خطرے ميں ڈال ديا،يہ صرف اس وجہ سے تھا كہ ان كے پاس علم و دانش تھا جس كے باعث وہ حق اور باطل ميں تميز كرنے ميں كامياب ہوگئے اور حق كا دامن تھام ليا_

كيا ميرى اجازت كے بغير موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئے؟

اس موقع پر اس طرف تو فرعون كے اوسان خطا ہوچكے تھے اور دوسرے اسے اپنا اقتدار بلكہ اپنا وجود خطرے ميں دكھائي دے رہا تھا خاص طور پر وہ جانتا تھا كہ جادوگرو ں كا ايمان لانا حاضرين كے دلوں پر كس قدر مو ثر ہوسكتا ہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ كافى سارے لوگ جادوگروں كى ديكھا ديكھى سجدے ميں گر جائيں، لہذا اس نے بزعم خود ايك نئي اسكيم نكالى اور جادوگروں كى طرف منہ كركے كہا:''تم ميرى اجازت كے بغير ہى اس پر ايمان لے آئے ہو''_(1)

چونكہ وہ سالہا سال سے تخت استبداد پر براجمان چلاآرہا تھا لہذا اسے قطعاً يہ اميد نہيں تھى كہ لوگ اس كى اجازت كے بغير كوئي كام انجام ديں گے بلكہ اسے تو يہ توقع تھى كہ لوگوں كے قلب و عقل اور اختيار اس كے قبضہ قدرت ميں ہيں،جب تك وہ اجازت نہ دے وہ نہ تو كچھ سوچ سكتے ہيں اور نہ فيصلہ كرسكتے ہيں ،جابر حكمرانوں كے طريقے ايسے ہى ہوا كرتے ہيں_

ليكن اس نے اسى بات كو كافى نہيں سمجھا بلكہ دو جملے اور بھى كہے تا كہ اپنے زعم باطل ميں اپنى حيثيت اور شخصيت كو برقرار ركھ سكے اور ساتھ ہى عوام كے بيدار شدہ افكار كے آگے بند باندھ سكے اور انھيں دوبارہ خواب غفلت ميں سلادے_


(1)سورہ شعراء آيت 49

اس نے سب سے پہلے جادوگروں سے كہا:تمھارى موسى سے يہ پہلے سے لگى بندھى سازش ہے ،بلكہ مصرى عوام كے خلاف ايك خطرناك منصوبہ ہے اس نے كہا كہ وہ تمہارا بزرگ اور استاد ہے جس نے تمہيں جادو كى تعليم دى ہے اور تم سب نے جادوگر ى كى تعليم اسى سے حاصل كى ہے_ ''(1)

تم نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ كے تحت يہ ڈرامہ رچايا ہے تا كہ مصر كى عظيم قوم كو گمراہ كركے اس پر اپنى حكومت چلائو اور اس ملك كے اصلى مالكوں كو ان كے گھروں سے بے گھر كردو اور ان كى جگہ غلاموں اور كنيزوں كو ٹھہرائو_

ليكن ميں تمہيں كبھى اس بات كى اجازت نہيں دوں گا كہ تم اپنى سازش ميں كامياب ہوجائو،ميں اس سازش كو پنپنے سے پہلے ہى ناكام كردوں گا''تم بہت جلد جان لوگے كہ تمہيں ايسى سزادوں گا جس سے دوسرے لوگ عبرت حاصل كريں گے تمہارے ہاتھ اور پائوں كو ايك دوسرے كى مخالف سمت ميں كاٹ ڈالوں گا(داياں ہاتھ اور باياں پائوں ،يا باياں ہاتھ اور داياں پائوں)اور تم سب كو (كسى استثناء كے بغير)سولى پر لٹكادوں گا''_(2)

يعنى صرف يہى نہيں كہ تم سب كو قتل كردوں گا بلكہ ايسا قتل كروں گا كہ جس ميں دكھ،درد،تكليف اور شكنجہ بھى ہوگا اور وہ بھى سرعام كھجور كے بلند درختوںپركيونكہ ہاتھ پائوں كے مخالف سمت كے كاٹنے سے احتمالاًانسان كى دير سے موت واقع ہوتى ہے اور وہ تڑپ تڑپ كر جان ديتا ہے_

ہميں اپنے محبوب كى طرف پلٹادے

ليكن فرعون يہاں پر سخت غلط فہمى ميں مبتلا تھا كيونكہ كچھ دير قبل كے جادوگر اور اس وقت كے مومن افراد نور ايمان سے اس قدر منور ہوچكے تھے اور خدائي عشق كى آگ ان كے دل ميں اس قدر بھڑك چكى تھى كہ انھوں نے فرعون كى دھمكيوں كو ہر گز ہرگز كوئي وقعت نہ دى بلكہ بھرے مجمع ميں اسے دو ٹوك جواب دے كر اس


(1)سورہ شعراء آيت 49

(2)سورہ شعراء آيت49

كے تمام شيطانى منصوبوں كو خاك ميں ملاديا_

انھوں نے كہا:''كوئي بڑى بات نہيں اس سے ہميں ہر گز كوئي نقصان نہيں پہنچے گا تم جو كچھ كرنا چاہتے ہو كر لو، ہم اپنے پروردگار كى طرف لوٹ جائيں گے''_(1)

اس كام سے نہ صرف يہ كہ تم ہمارا كچھ بگاڑ نہ سكوگے بلكہ ہميں اپنے حقيقى معشوق اور معبود تك بھى پہنچادوگے،تمھارى يہ دھمكياں ہمارے لئے اس دقت مو ثر تھيں جب ہم نے خود كو نہيں پہچانا تھا،اپنے خدا سے نا آشنا تھے اور راہ حق كو بھلاكے زندگى كے بيابان ميں سرگردان تھے ليكن آج ہم نے اپنى گمشدہ گراں بہا چيز كو پاليا ہے جو كرنا چاہو كرلو_

انھوں نے سلسلہ كلام آگے بڑھاتے ہوئے كہا: ہم ماضى ميں گناہوں كا ارتكاب كرچكے ہيں اور اس ميدان ميں بھى اللہ كے سچے رسول جناب موسى عليہ السلام كے ساتھ مقابلے ميں پيش پيش تھے اور حق كے ساتھ لڑنے ميں ہم پيش قدم تھے ليكن''ہم اميد ركھتے ہيں كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہ معاف كردے گا كيونكہ ہم سب سے پہلے ايمان لانے والے ہيں''_(2)

ہم آج كسى چيز سے نہيں گھبراتے، نہ تو تمھارى دھمكيوں سے اور نہ ہى بلند و بالا كھجور كے درختوں كے تنوں پر سولى پر لٹك جانے كے بعد ہاتھ پائوں مارنے سے_

اگر ہميں خوف ہے تو اپنے گزشتہ گناہوں كا اور اميد ہے كہ وہ بھى ايمان كے سائے اور حق تعالى كى مہربانى سے معاف ہوجائيںگے_

يہ كيسى طاقت ہے كہ جب كسى انسان كے دل ميں پيدا ہوجاتى ہے تو دنيا كى بڑى سے بڑى طاقت بھى اس كى نگاہوں ميں حقير ہوجاتى ہے اوروہ سخت سے سخت شكنجوں سے بھى نہيں گھبراتا اور اپنى جان ديدينا اس كے لئے كوئي بات ہى نہيں رہتي_


(1)سورہ شعراء آيت49

(2)سورہ شعراء آيت 51

يقينا يہ ايمانى طاقت ہوتى ہے_

يہ عشق كے روشن ودرخشاں چراغ كا شعلہ ہوتا ہے جو شہادت كے شربت كو انسان كے حلق ميں شہد سے بھى زيادہ شيريں بناديتا ہے اور محبوب كے وصال كو انسان كا ارفع و اعلى مقصد بنا ديتا ہے_

بہر حال يہ منظر فرعون اور اس كے اركان سلطنت كے لئے بہت ہى مہنگا ثابت ہوا ہر چند كہ بعض روايات كے مطابق اس نے اپنى دھمكيوں كو عملى جامہ بھى پہنايا اور تازہ ايمان لانے والے جادوگروں كو شہيد كرديا ليكن عوام كے جو جذبات موسى عليہ السلام كے حق ميں اور فرعون كے خلاف بھڑك اٹھے تھے وہ انھيں نہ صرف دبا نہ سكا بلكہ اور بھى بر انگيختہ كرديا_

اب جگہ جگہ اس خدائي پيغمبر كے تذكرے ہونے لگے اور ہر جگہ ان با ايمان شہداء كے چرچے تھے بہت سے لوگ اس وجہ سے ايمان لے آئے_جن ميں فرعون كے كچھ نزديكى لوگ بھى تھے حتى كہ خود اس كى زوجہ ان ايمان لانے والوں ميں شامل ہوگئي_

فرعون كى زوجہ ايمان لے آئي

فرعون كى بيوى كا نام آسيہ اور باپ كا نام مزاحم تھا_كہتے ہيں كہ جب اس نے جادوگروں كے مقابلہ ميں موسى عليہ السلام كے معجزے كو ديكھا تو اس كے دل كى گہرائياں نور ايمان سے روشن ہوگئيں،وہ اسى وقت موسى عليہ السلام پر ايمان لے آئي _وہ ہميشہ اپنے ايمان كو پوشيدہ ركھتى تھي_ ليكن ايمان اور خدا كا عشق ايسى چيز نہيں ہے جسے ہميشہ چھپايا جاسكے_جب فرعون كو اس كے ايمان كى خبر ہوئي تو اس نے اسے بارہا سمجھايا اور منع كيا اور يہ اصرار كيا كہ موسى كے دين سے دستبردار ہوجائے اور اس كے خدا كو چھوڑدے،ليكن يہ با استقامت خاتون فرعون كى خواہش كے سامنے ہر گز نہ جھكي_

آخر كار فرعون نے حكم ديا كہ اس كے ہاتھ پائوں ميخوں ساتھ جكڑ كر اسے سورج كى جلتى ہوئي دھوپ ميں ڈال ديا جائے اور ايك بہت بڑا پتھر اس كے سينہ پر ركھ ديں_جب وہ خاتون اپنى زندگى كے آخرى لمحے گزار رہى تھى تو اس كى دعا يہ تھي:

''پروردگاراميرے لئے جنت ميں اپنے جوار رحمت ميں ايك گھر بنادے_ مجھے فرعون اور اس كے عمال سے رہائي بخش اور مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے''_

خدا نے بھى اس پاكباز اور فدار كار مومنہ خاتون كى دعا قبول كى اور اسے مريم(ع) جيسى دنيا كى بہترين خاتون جناب مريم(ع) كے ہم رديف قرار پائي ہے_

ايك روايت ميں رسول خدا(ص) سے منقول ہے:

''اہل جنت ميں افضل ترين اور برترين عورتيں چارہيں_ خويلد كى بيٹى خديجہ(ع) ،محمد(ص) كى بيٹى فاطمہ(ع) اور عمران كى بيٹى مريم(ع) اور مزاحم كى بيٹى آسيہ(ع) جو فرعون كى بيوى تھي''_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ فرعون كى بيوى اپنى اس بات سے فرعون كے عظيم قصر كى تحقير كررہى ہے،اور اسے خدا كے جوار رحمت ميں گھر،كے مقابلہ ميں كوئي اہميت نہيں ديتي_اس گفتگو كے ذريعہ ان لوگوں كے جو اسے يہ نصيحت كرتے تھے كہ ان تمام نماياں وسائل و امكانات كو جو ملكہ مصر ہونے كى وجہ سے تيرے قبضہ و اختيار ميں ہيں، موسى عليہ السلام جيسے چرواہے پر ايمان لاكر ہاتھ سے نہ دے_ جواب ديتى ہے:

اور''نجى من فرعون و عملہ'' كے جملہ كے ساتھ خود فرعون سے اور اس كے مظالم اور جرائم سے بيزارى كا اعلان كرتى ہے_

اور ''نجى من القوم الظالمين''كے جملہ سے اس آلودہ ماحول سے اپنى على حدگي،اور ان كے جرائم سے اپنى بيگانگى كا اظہار كرتى ہے_

مسلمہ طور پر فرعون كے دربار سے بڑھ كرز رق برق اور جلال و جبروت موجود نہيں تھا_اسى طرح فرعون جيسے جابر و ظالم كے شكنجوںسے بڑھ كر فشار اور شكنجے موجود نہيں تھے_ ليكن نہ تو وہ زرق برق اور نہ ہى وہ فشار اور شكنجے اس مومنہ عورت كے گھٹنے جھكا سكے_ اس نے رضائے خدا ميں اپنا سفر اسى طرح سے جارى ركھا_يہاں تك كہ اپنى عزيز جان اپنے حقيقى محبوب كى راہ ميں فدا كردي_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ وہ يہ استدعا كرتى ہے كہ اے خدا جنت ميں اوراپنے جوار ميں اس كے لئے

ايك گھر بنادے جس كا جنت ميں ہونا تو جنبہ جسمانى ہے اور خدا كے جوار رحمت ميں ہونا جنبہ روحانى ہے_ اس نے ان دونوں كو ايك مختصر سى عبارت ميں جمع كرديا ہے_

جناب موسى عليہ السلام كے قتل كا حكم

ايك طرف موسى عليہ السلام اور ان كے پيروكاروں كے درميان باہمى نزاع،اور دوسرى طرف فرعون اور اس كے ہم نوائوں كے ساتھ لڑائي جھگڑا كافى حد تك بڑھ گيا اوراس دوران ميں بہت سے واقعات رونما ہوچكے،جنہيں قرآن نے اس مقام پر ذكر نہيں كيا بلكہ ايك خاص مقصد كو جسے ہم بعد ميں بيان كريں گے پيش نظر ركھ كر ايك نكتہ بيان كيا گيا ہے كہ حالات بہت خراب ہوگئے تو فرعون نے حضرت موسى عليہ السلا م كى انقلابى تحريك كو دبانے بلكہ ختم كرنے كے لئے ان كے قتل كى ٹھان لى ليكن ايسا معلوم ہوتا ہے كہ گويا اس كے مشيروں اور درباريوں نے اس كے اس فيصلے كى مخالفت كى _چنانچہ قرآن كہتا ہے:

''فرعون نے كہا مجھے چھوڑدوتاكہ ميں موسى كو قتل كر ڈالوں اور وہ اپنے پروردگار كو بلائے تاكہ وہ اسے اس سے نجات دے''_(1)

اس سے يہ بات سمجھنے ميں مدد ملتى ہے كہ اس كے اكثر يا كم از كم كچھ مشير موسى عليہ السلام كے قتل كے مخالف تھے وہ يہ دليل پيش كرتے تھے كہ چونكہ موسى كے كام معجزانہ اور غير معمولى ہيں لہذا ہوسكتا ہے كہ وہ ہمارے لئے بددعا كردے تو اس كا خدا ہم پر عذاب نازل كردے ليكن كبر و غرور كے نشے ميں مست فرعون كہنے لگا:ميں تواسے ضرور قتل كروں گا جو ہوگا ديكھا جائے گا_

يہ بات تو معلوم نہيں ہے كہ فرعون كے حاشيہ نشينوں اور مشيروں نے كس بناء پر اسے موسى عليہ السلام كے قتل سے باز ركھا البتہ يہاں پر چند ايك احتمال ضرور ہيں اور ہوسكتا ہے وہ سب كے سب صحيح ہوں_

ايك احتمال تو يہ ہے كہ ممكن ہے خدا كى طرف سے عذاب نازل ہوجائے_


(1)سورہ مومن آيت 26

دوسرا احتمال ان كى نظر ميں يہ ہوسكتا ہے كہ موسى عليہ السلام كے مارے جانے كے بعد حالات يكسردگر گوں ہوجائيں گے كيونكہ وہ ايك شہيد كا مقام پاليں گے اور انہيں ہيروكا درجہ مل جائے گا اس طرح سے ان كا دين بہت سے مو من،ہمنوا،طرفدار اور ہمدرد پيدا كرلے گا _

خلاصہ كلام انہيں اس بات كا يقين ہوگياكہ بذات خود موسى ان كے لئے ايك عظيم خطرہ ہيں ليكن اگر ان حالات ميں انہيں قتل كرديا جائے تو يہ حادثہ ايك تحريك ميں بدل جائے گا جس پر كنٹرول كرنا بھى مشكل ہوجائے گااور اس سے جان چھڑانى مشكل تر ہوجائے گي_

فرعون كے كچھ دربارى ايسے بھى تھے جو قلبى طور پر فرعون سے راضى نہيں تھے_وہ چاہتے تھے كہ موسى عليہ السلام زندہ رہيں اورفرعون كى كى تمام تر توجہ انہى كى طرف مبذول رہے، اس طرح سے وہ چار دن آرام كے ساتھ بسر كرليں اور فرعون كى آنكھوں سے اوجھل رہ كر ناجائز مفاد اٹھاتے رہيں كيونكہ يہ ايك پرانا طريقہ كار ہے كہ بادشاہوں كے دربارى اس بات كى فكر ميں رہتے ہيں كہ ہميشہ ان كى توجہ دوسرے امور كى طرف مبذول رہے تا كہ وہ آسودہ خاطر ہوكر اپنے ناجائز مفادات كى تكميل ميں لگے رہيں_اسى لئے تو بعض اوقات وہ بيرونى دشمن كو بھى بھڑكاتے ہيں تاكہ بادشاہ كى فارغ البالى كے شر سے محفوظ رہيں_

كہيں موسى تمہارا مذہب نہ بدل دے

بہر حال فرعون نے حضرت موسى عليہ السلام كو قتل كے منصوبے كى توجيہہ كرتے ہوئے اپنے درباريوں كے سامنے اس كى دودليليں بيان كيں_ايك كا تعلق دينى اور روحانى پہلو سے تھا اور دوسرى كا دنياوى اور مادى سے ،وہ كہنے لگا:مجھے اس بات كا خوف ہے كہ وہ تمہارے دين كو تبديل كردے گا اور تمہارے باپ دادا كے دين كو دگر گوں كردے گا،يا يہ كہ زمين ميں فساد اور خرابى برباد كردے گا_(1)

اگر ميں خاموشى اختيار كرلوں تو موسى بہت جلد مصر والوں ميں اتر جائے گا اور بت پرستى كا''مقدس


(1)سورہ مومن آيت 26

دين''جو تمہارى قوميت اور مفادات كا محافظ ہے ختم ہوجائے گااور اس كى جگہ توحيد پرستى كا دين لے لے گا جو يقينا تمہارے سوفيصد خلاف ہوگا_

اگر ميں آج خاموشى ہوجائوں اور كچھ عرصہ بعد موسى سے مقابلہ كرنے كے لئے اقدام كروں تو اس دوران ميں وہ اپنے بہت سے دوست اور ہمدرد پيدا كرلے گا جس كى وجہ سے زبردست لڑائي چھڑجائے گى جو ملكى سطح پر خونريزي، گڑ بڑاور بے چينى كا سبب بن جائے گى اسى لئے مصلحت اسى ميں ہے كہ جتنا جلدى ہوسكے اسے موت كے گھاٹ اتار ديا جائے _

اب ديكھنا يہ ہے كہ اس گفتگو سے موسى عليہ السلام نے كس رد عمل كا اظہار كيا جو اس مجلس ميں تشريف فرمابھى تھے، قرآن كہتا ہے :موسى نے كہا : ''ميں اپنے پروردگار اور تمہارے پروردگار كى ہر اس متكبر سے پناہ مانگتا ہوں جو روز حساب پر ايمان نہيں لاتا ''_(1)

موسى عليہ السلام نے يہ باتيں بڑے سكون قلب اور اطمينان خاطر سے كيں جوان كے قوى ايمان اور ذات كردگار پر كامل بھروسے كى دليل ہيں اور اس طرح سے ثابت كرديا كہ اس كى اس دھمكى سے وہ ذرہ بھر بھى نہيں گھبرائے _

حضرت موسى عليہ السلام كى اس گفتگو سے ثابت ہوتا ہے كہ جن لوگوں ميں مندرجہ ذيل دوصفات پائي جائيں وہ نہايت ہى خطر ناك افراد ہيں ايك '' تكبر'' اور دوسرے '' قيامت پر ايمان نہ ركھنا'' اور اس قسم كے افراد سے خدا كى پناہ مانگنى چاہئے _

آيا كسى كو خدا كى طرف بلانے پر بھى قتل كرتے ہيں ؟

يہاں سے موسى عليہ السلام اور فرعون كى تاريخ كا ايك اور اہم كردار شروع ہوتا ہے اور وہ ہے ''مئومن آل فرعون '' جو فرعون كے رشتہ داروں ميں سے تھا حضرت موسى عليہ السلام كى دعوت توحيد قبول كرچكا


(1)سورہ مومن آيت 27

تھا،ليكن اپنے اس ايمان كو ظاہر نہيں كرتا تھا كيونكہ وہ اپنے آپ كو خاص طريقے سے موسى عليہ السلام كى حمايت كا پابند سمجھتا تھا جب اس نے ديكھا كہ فرعون كے غيظ وغضب سے موسى عليہ السلام كى جان كو خطرہ پيدا ہوگيا ہے تو مردانہ وار آگے بڑھا اور اپنى دل نشين اور موثر گفتگو سے قتل كى اس سازش كو ناكام بناديا _

قرآن ميں فرمايا گيا ہے :'' آل فرعون ميں سے ايك شخص نے جو اپنے ايمان كو چھپائے ہوئے تھا كہا:

''كياكسى شخص كو صرف اس بناء پر قتل كرتے ہوكہ وہ كہتا ہے كہ ميرا رب اللہ ہے ؟''(1)

''حالانكہ وہ تمہارے ربّ كى طرف سے معجزات اور واضح دلائل اپنے ساتھ لايا ہے _''(2)

آيا تم اس كے عصا اور يدبيضاء جيسے معجزات كا انكار كرسكتے ہو ؟ كيا تم نے اپنى آنكھوں سے اس كے جادو گروں پر غالب آجانے كا مشاہدہ نہيں كيا ؟ يہاں تك كہ جادوگروں نے اس كے سامنے اپنے ہتھيار ڈال ديئےور ہمارى پرواہ تك نہ كى اور نہ ہى ہمارى دھمكيوں كو خاطر ميں لائے اور موسى كے خدا پر ايمان لاكر اپنا سراس كے آگے جھكاديا، ذرا سچ بتائو ايسے شخص كو جادوگر كہا جاسكتا ہے،؟ خوب سوچ سمجھ كر فيصلہ كرو، جلد بازى سے كام نہ لو اور اپنے اس كام كے انجام كو بھى اچھى طرح سوچ لوتاكہ بعد ميں پشيمان نہ ہونا پڑے _

ان سب سے قطع نظر يہ دوحال سے خالى نہيں '' اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹ اس كا خود ہى دامن گير ہوگا اور اگر سچا ہے تو كم ازكم جس عذاب سے تمہيں ڈرايا گيا ہے وہ كچھ نہ كچھ تو تمہارے پاس پہنچ ہى جائےگا''_(3)

يعنى اگر وہ جھوٹا ہے جھوٹ كے پائوں نہيں ہوتے ، آخركار ايك نہ ايك دن اس كا پول كھل جائے گا اور وہ اپنے جھوٹ كى سزا پالے گا ليكن يہ امكان بھى تو ہے كہ شايد وہ سچا ہو اور خدا كى جانب سے بھيجا گيا ہو تو پھر ايسى صورت ميں اس كے كئے ہوئے وعدے كسى نہ كسى صورت ميں وقوع پذير ہوكررہيں گے لہذا اس كا قتل كرنا عقل وخرد سے كو سوں دورہے _


(1)سورہ مومن آيت28

(2)سورہ مومن آيت 28

(3)سورہ مومن 28

اس سے يہ نتيجہ نكلا، ''االلہ تعالى مسرف اور جھوٹے كى ہدا يت نہيں فرماتا''_ (1)

اگر حضرت موسى تجاوزو اسراف ودروغ كو اختيار كرتے تو يقينااللہ تعالى كى ہدايت حاصل نہ كرتے اور اگر تم بھى ايسے ہى ہوگئے تو اس كى ہدايت سے محروم ہوجائوگے _

مومن آل فرعون نے اس پر ہى اكتفاء نہيں كى بلكہ اپنى گفتگو كو جارى ركھا، دوستى اور خير خواہى كے انداز ميں ان سے يوں گويا ہوا : اے ميرى قوم آج مصر كى طويل وعريض سرزمين پر تمہارى حكومت ہے اور تم ہر لحاظ سے غالب اور كامياب ہو، اس قدر بے انداز نعمتوں كا كفران نہ كرو، اگر خدائي عذاب ہم تك پہنچ گيا تو پھر ہمارى كون مدد كرے گا ''_(2)

ظاہر اً اس كى يہ باتيں '' فرعون كے ساتھيوں '' كے لئے غير موثر ثابت نہيں ہوئيں انہيں نرم بھى بنا ديا اور ان كے غصے كو بھى ٹھنڈا كرديا _

ليكن يہاں پر فرغون نے خاموشى مناسب نہ سمجھى اس كى بات كاٹتے ہوئے كہا: بات وہى ہے جو ميں نے كہہ دى ہے_''جس چيز كا ميں معتقد ہوں اسى كا تمہيں بھى حكم ديتا ہوں ميں اس بات كا معتقد ہوں كہ ہر حالت ميں موسى كو قتل كردينا چاہئے اس كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ہے اور ميں تو صرف تمہيں صحيح راستہ كى طرف راہنمائي كرتا ہوں''_ (3)

ميں تمہيں خبردار كرتا ہوں

اس دور ميں مصر كے لوگ ايك حدتك متمدن اور پڑھے لكھے تھے انہوں نے قوم نوح، عاد اور ثمود جيسى گزشتہ اقوام كے بارے ميں مو رخين كى باتيں بھى سن ركھى تھيں اتفاق سے ان اقوام كے علاقوں كا اس علاقے سے زيادہ فاصلہ بھى نہيں تھا يہ لوگ ان كے دردناك انجام سے بھى كم وبيش واقفيت ركھتے تھے _

لہذا مو من آل فرعون نے موسى عليہ السلام كے قتل كے منصوبے كى مخالفت كى اس نے ديكھا كہ


(1)سورہ مومن آيت 28

(2)سورہ مومن آيت29

(3)سورہ مومن آيت29

فرعون كو زبردست اصرار ہے كہ وہ موسى كے قتل سے باز نہيں آئے گا، اس مرد مو من نے پھر بھى ہمت نہ ہارى اور نہ ہى ہارنى چاہئے تھى لہذا اب كہ اس نے يہ تدبير سوچى كہ اس سركش قوم كو گزشتہ اقوام كى تاريخ اور انجام كى طرف متوجہ كرے شايد اس طرح سے يہ لوگ بيدارہوں اور اپنے فيصلے پر نظر ثانى كريں قرآن كے مطابق اس نے اپنى بات يوں شروع كى اس باايمان شخص نے كہا:'' اے ميرى قوم ، مجھے تمہارے بارے ميں گزشتہ اقوام كے عذاب كے دن كى طرح كا خوف ہے _''(1)

پھر اس بات كى تشريح كرتے ہوئے كہا :''ميں قوم نوح(ع) ، عاد، ثمود اور ان كے بعد آنے والوں كى سى برى عادت سے ڈرتا ہوں''_ (2)

ان قوموں كى عادت شرك،كفر اور طغيان وسركشى تھى اور ہم ديكھ چكے ہيں كہ ان كا كيا انجام ہوا ؟ كچھ تو تباہ كن طوفانوں كى نذر ہوگئيں، كچھ وحشت ناك جھگڑوں كى وجہ سے برباد ہوئيں، كچھ كو آسمانى بجلى نے جلاكر راكھ كرديا اور كچھ زلزلوں كى بھينٹ چڑھ كر صفحہ ہستى سے مٹ گئيں _كيا تم يہ نہيں سمجھتے كہ كفراور طغيان پر اصراركى وجہ سے تم بھى مذكورہ عظيم بلائوں ميں سے كسى ايك كا شكار ہوسكتے ہو؟ لہذا مجھے كہنے دو كہ مجھے تمہارے بارے ميں بھى اس قسم كے خطرناك مستقبل كا انديشہ ہے _

آيا تمہارے پاس اس بات كا كوئي ثبوت ہے كہ تمہارے كردار اور افعال ان سے مختلف ہيں ؟ آخران لوگوں كا كيا قصور تھا كہ وہ اس طرح كے بھيانك مستقبل سے دوچار ہوئے كيا اس كے سوا كچھ اور تھا كہ انھوں نے خدا كے بھيجے ہوئے پيغمبر وں كى دعوت كے خلاف قيام كيا، ان كى تكذيب كى بلكہ انہيں قتل كرڈالا_

ليكن يادركھو جو مصيبت بھى تم پر نازل ہوگى خود تمہارے كئے كى سزا ہوگى كيونكہ '' خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں كرنا چاہتا_'' (3) پھر كہتا ہے : اے ميرى قوم ميں تمہاريے لئے اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن لوگ ايك دوسرے كو پكاريں گے ليكن كوئي مدد نہيں كرے گا''_(4)


(1)سورہ مومن آيت 31

(2)سورہ مومن آيت 31

(3)سورہ مومن آيت31

(4)سورہ مومن آيت32

ان بيانات كے ذريعے مومن آل فرعون نے جو كچھ كرنا تھا كردكھايا اس نے فرعون كو جناب موسى كے قتل كى تجويز بلكہ فيصلے كے بارے ميں ڈانواڈول كرديا يا كم از كم اسے ملتوى كرواديا اسى التواء سے قتل كا خطرہ ٹل گيا اور يہ تھا اس ہوشيار، زيرك اور شجاع مرد خدا كا فريضہ جو اس نے كماحقہ ادا كرديا جيسا كہ بعد كى گفتگوسے معلوم ہوگا كہ اس سے اس كى جان كے بھى خطرے ميں پڑنے كا انديشہ ہوگيا تھا _

آخرى بات

پانچويں اور آخرى مرحلے پر مومن آل فرعون نے تمام حجاب الٹ ديئے اور اس سے زيادہ اپنے ايمان كو نہ چھپاسكا ،وہ جو كچھ كہنا چاہتا تھا كہہ چكا اور فرعون والوںنے بھى ،جيسا كہ آگے چل كر معلوم ہوگا، اس كے بارے ميں بڑا خطرناك فيصلہ كيا _ خداوند عالم نے بھى اپنے اس مومن اور مجاہد بندے كو تنہا نہيں چھوڑا جيسا كہ قران نے بيان كياہے : ''خدا نے بھى اسے ان كى ناپاك چالوں اور سازشوں سے بچاليا ''_(1)

اس كى تعبير سے واضح ہوتا ہے كہ فرعونيوں نے اس كے بارے ميں مختلف سازشيں اور منصوبے تيار كرركھے تھے _

ليكن وہ منصوبے كيا تھے ؟ قرآن نے اس كى تفصيل بيان نہيں كي، ظاہر ہے كہ مختلف قسم كى سزائيں اذيتيں اور آخركار قتل اور سزائے موت ہوسكتى ہے ليكن خداوندعالم كے لطف وكرم نے ان سب كو ناكام بناديا _

چنانچہ بعض تفسيروں ميں ہے كہ وہ ايك مناسب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موسى عليہ السلام تك پہنچ گيا اور اس نے بنى اسرائيل كے ہمرا ہ دريائے نيل كو عبور كيا، نيز يہ بھى كہا گيا ہے كہ جب اس كے قتل كا منصوبہ بن چكا تو اس نے اپنے آپ كو ايك پہاڑ ميں چھپاليا اور نگاہوں سے اوجھل ہوگيا _

يہ دونوں روايات آپس ميں مختلف نہيں ہيں كيونكہ ممكن ہے كہ پہلے وہ شہر سے مخفى ہوگيا ہو اور پھر بنى اسرائيل سے جا ملاہو _


(1)سورہ مومن آيت45

موسى كے خدا كى خبرلاتا ہوں

اگرچہ مومن آل فرعون كى باتوں نے فرعون كے دل پر اس قدر اثر كيا كہ وہ موسى عليہ السلام كے قتل سے تو باز آگيا ليكن پھر بھى غرور كى چوٹى سے نيچے نہ اترا اور اپنى شيطنت سے بھى بازنہ آيا اور نہ ہى حق بات قبول كرنے پر آمادہ ہوا كيونكہ فرعون كے پاس اس بات كى نہ توصلاحيت تھى اور نہ ہى لياقت لہذا اپنے شيطنت آميز اعمال كو جارى ركھتے ہوئے اس نے ايك نئے كام كى تجويز پيش كى اور وہ ہے آسمانوں پر چڑھنے كے لئے ايك بلندو بالابرج كى تعمير تاكہ اس پر چڑھ كر موسى كے خدا كى خبر لے آئے _

فرعون نے كہا: اے ہامان : ميرے لئے ايك بلند عمارت تيار كروتاكہ ميں اسباب وذرائع تك پہنچ سكوں ايسے اسباب وذرائع جو مجھے آسمانوں تك لے جاسكيں تاكہ ميں موسى كے خدا سے باخبر ہوسكوں ہر چند كہ ميں گمان كرتاہوں كہ وہ جھوٹاہے _

جى ہاں اس قسم كے برے اعمال فرعون كى نظر ميں مزين كرديئے گئے تھے اور انھوں نے اسے راہ حق سے روك ديا تھا ،ليكن فرعون كى سازش اور چالوں كا انجام نقصان اور تباہى كے سوا كچھ نہيں ''_(1)

سب سے پہلى چيز جو يہاں پر نظر آتى ہے وہ يہ ہے كہ آخر اس كام سے فرعون كا مقصد كيا تھا؟ آياوہ واقعاً اس حدتك احمق تھا كہ گمان كرنے لگا كہ موسى كا خدا آسمان ميں ہے ؟ بالفرض اگر آسمان ميں ہو بھى تو آسمان سے باتيں كرنے والے پہاڑوں كے ہوتے ہوئے اس عمارت كے بنانے كى كيا ضرورت تھى جو پہاڑوں كى اونچائي كے سامنے بالكل ناچيز تھي؟ اور كيا اس طرح سے وہ آسمان تك پہنچ بھى سكتا تھا؟

يہ بات تو بہت ہى بعيد معلوم ہوتى ہے كيونكہ فرعون مغرور اور متكبر ہونے كے باوجود سمجھ دار اور سياستداں شخص تو ضرورتھا جس كى وجہ سے اس نے ايك عظيم ملت كو اپنى زنجيروں ميں جكڑا تھا اور بڑے زور دار طريقے سے اس پر حكومت كرتارہا لہذا اس قسم كے افراد كى ہر ہر بات اور ہر ہر حركت شيطانى حركات


(1)سورہ مومن آيت37

وسكنات كى آئينہ دار ہوتى ہيں لہذا سب سے پہلے اس كے اس شيطانى منصوبے كا تجزيہ وتحليل كرنا چاہئے كہ آخر ايسى عمارت كى تعمير كا مقصد كيا تھا ؟

بظاہر يہ معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے ان چند مقاصد كے پيش نظر ايسا اقدام كيا :

1_وہ چاہتا تھا كہ لوگوں كى فكر كو مصروف ركھے موسى عليہ السلام كى نبوت اور بنى اسرائيل كے قيام كے مسئلہ سے ان كى توجہ ہٹانے كے لئے اس نے يہ منصوبہ تيار كيا، بعض مفسرين كے بقول يہ عمارت ايك نہايت ہى وسيع وعريض زمين ميں كھڑى كى گئي جس پر پچاس ہزار مزدور كام كرنے لگے اس تعميرى منصوبے نے دوسرے تمام مسائل كو بھلاديا جوں جوں عمارت بلند ہوتى جاتى تھى توں توں لوگوں كى توجہ اس كى طرف زيادہ مبذول ہوتى تھى ہر جگہ اور ہر محفل ميں نئي خبر كے عنوان سے اس كے چرچے تھے اس نے وقتى طور پر جادو گروں پر موسى عليہ السلام كى كاميابى كو جو كہ فرعون اور فرعونيوں كے پيكر پر ايك كارى ضرب تھى لوگوں كے ذہنوں سے فراموش كرديا _

2_ وہ چاہتا تھا كہ اس طرح سے زحمت كش اور مزوور طبقے كى جزوى مادى اور اقتصادى امداد كرے اور عارضى طور پر ہى سہى بيكار لوگوں كے لئے كام مہيا كرے تاكہ تھوڑاسا اس كے مظالم كو فراموش كرديں اور اس كے خزانے كى لوگوں كو زيادہ سے زيادہ احتياج محسوس ہو _

3_پروگرام يہ تھا كہ جب عمارت پايہ تكميل كو پہنچ جائے، تو وہ اس پر چڑھ كر آسمان كى طرف نگاہ كرے اور شايد چلہ كمان ميں ركھ كر تير چلائے اور وہ واپس لوٹ آئے تو لوگوں كو احمق بنانے كے لئے كہے كہ موسى كا خدا جو كچھ بھى تھا آج اس كا خاتمہ ہو گيا ہے اب ہر شخص بالكل مطمئن ہوكر اپنے اپنے كام ميں مصروف ہوجائے _

وگرنہ فرعون كے لئے تو صاف ظاہر تھا كہ اس كى عمارت جتنى بھى بلند ہو چند سو ميڑسے زيادہ تو اونچى نہيں جاسكتى تھى جبكہ آسمان اس سے كئي گنا بلند اور اونچے تھے، پھريہ كہ اگر بلند ترين مقام پر بھى كھڑے ہوكر آسمان كى طرف ديكھا جائے تو اس كا منظر بغير كسى كمى بيشى كے ويسے ہى نظر آتا ہے جيسے سطح زمين سے _

يہ بات بھى قابل توجہ ہے كہ فرعون نے يہ بات كركے درحقيقت موسى عليہ السلام كے مقابلے سے ايك قسم كى پسپائي اختيار كى جبكہ اس نے كہا كہ ميں موسى كے خدا كے بارے ميں تحقيق كرنا چاہتاہوں'' فاطلع الى الہ موسى '' اور ساتھ ہى يہ بھى كہتا ہے كہ'' ہر چند كہ ميں اسے جھوٹا گمان كرتا ہوں '' اس طرح سے وہ يقين كى منزل سے ہٹ كر شك اور گمان كے مرحلے تك نيچے آجاتاہے _

اس مسئلے ميں مفسرين كے ايك گروہ نے (مثلاً فخر رازى اور آلوسى نے ) يہ سوال بھى اٹھايا ہے كہ آيا : فرعون نے اپنا مجوزہ بلند مينار تعمير كرايا تھا يانہيں؟

ان مفسرين كا ذہن اس طرف اس لئے منتقل ہوا كہ مينار كى تعمير كا كام كسى طرح بھى عاقلانہ نہ تھا كيا اس عہد كے لوگ كبھى بلند پہاڑوں پر نہيں چڑھے تھے ؟ اور انھوں نے آسمان كے منظر كو ويسا ہى نہيں ديكھا تھا جيسا كہ وہ زمين سے نظرآتا ہے ؟كيا انسان كا بنايا ہوا مينار پہاڑسے زيادہ اونچا ہوسكتا ہے ؟ كيا كوئي احمق بھى يہ يقين كرسكتا ہے كہ ايسے مينار پر چڑھ كر آسمان كو چھوا جاسكتا ہے ؟

ليكن وہ مفسرين جنہوں نے يہ اشكا لات پيدا كئے ہيں ان كى توجہ ان نكات كى طرف نہيں گئي كہ اول تو ملك مصر كو ہستانى نہيں دوم يہ كہ انہوں نے اس عہد كے لوگوں كى سادہ لوحى كو فراموش كرديا كہ ان سيدھے سادھے لوگوںكو ايسے ہى مسائل سے غافل كيا جاسكتا تھا يہاں تك كہ خود ہمارے زمانے جسے عصر علم ودانش كہا جاتاہے، لوگوں كى توجہ اصل مسائل سے ہٹانے كے لئے كيسے كيسے مكرو فريب اور حيلہ سازياں كى جاتى ہيں _

پچاس ہزار معمار برج بناتے ہيں

بہر كيف _بعض تواريخ كے بيان كے مطابق، ہامان نے حكم ديا كہ ايسا محل اور برج بنانے كے لئے زمين كا ايك وسيع قطعہ انتخاب كريں اور اس كى تعمير كے لئے پچاس ہزار معمار اور مزدور روانہ كردے اور اس عمارت كے واسطے مٹيريل فراہم كرنے كے لئے ہزاروں آدمى مقرر كئے گئے اس نے خزانہ كا منہ كھول ديا اور اس مقصد كے لئے كثير رقم خرچ كى يہاں تك كہ تمام ملك مصر ميں اس عظيم برج كى تعمير كى شہرت ہوگئي _

يہ عمارت جس قدر بھى بلند سے بلندتر، ہوتى جاتى تھى لوگ اتنے ہى زيادہ اسے ديكھنے آتے تھے اور منتظر تھے كہ ديكھئے فرعون يہ عمارت بنا كر كيا كرتا ہے ؟

يہ عمارت اتنى بلند ہوگئي كہ اس سے دوردور تك اطراف وجوانب كا ميدان نظر آنے لگا بعض مو رخين نے لكھا ہے كہ معماروں نے اس كى مارپيچ سيڑھياں ايسى بنائي تھيں كہ آدمى گھوڑے پر سوار ہوكر اس پر چڑھ سكتا تھا _

ميں نے موسى عليہ السلام كے خدا كو مارا ڈالا

جب وہ عمارت پايہ تكميل كو پہنچ گئي اور اسے مزيد بلند كرنے كا كوئي امكان نہ رہا تو ايك روز فرعون پورى شان وشوكت سے وہاں آيا اور بذات خود برج پر چڑھ گيا جب وہ برج كى چوٹى پر پہنچا اور آسمان كى طرف نظر اٹھائي تو اسے آسمان ويسا ہى نظر آيا جيسا كہ وہ زمين سے ديكھا كرتا تھا اس منظر ميں ذرا بھى تغيرو تبديلى نہ تھى _

مشہور يہ ہے كہ اس نے مينار پر چڑھ كے كمان ميں تير جوڑا اور آسمان كى طرف پھنكا يا تووہ تير كسى پرندے كے لگايا پہلے سے كوئي سازش كى گئي تھى كہ تير خون آلود واپس آيا تب فرعون وہاں سے نيچے اترآيا اور لوگوں سے كہا :جائو، مطمئن رہو اور كسى قسم كى فكر نہ كرو ميں نے موسى كے خدا كو مارڈالاہے _

يہ بات حتمى طور پر كہى جاسكتى ہے كہ سادہ لوحوں اور اندھى تقليد كرنے والوں كے ايك گروہ نے او ران لوگوں نے جن كى آنكھيں اور كان حكومت وقت كے پروپيگنڈے سے بند ہوگئے تھے، فرعون كے اس قول كا يقين كرليا ہوگا اور ہر جگہ اس خبر كو عام كيا ہوگا اور مصر كى رعايا كو غافل ركھنے كا ايك اور سبب پيدا ہوگا _

مفسرين نے يہ بھى لكھا ہے كہ يہ عمارت دير تك قائم نہيں رہى (اور اسے رہنا بھى نہ چاہئے تھا) تباہ ہوگئي بہت سے لوگ اس كے نيچے دب كے مرگئے اس سلسلے ميں اہل قلم نے اور بھى طرح طرح كى داستانيں لكھى ہيں ليكن ان كى صحت كى تحقيق نہ ہوسكى اس لئے انھيں قلم زد كرديا گيا ہے _

بيدار كرنے والى سزائيں

ايك كلى قانون تمام پيغمبروں كے لئے يہ تھا كہ جب ان كو لوگوں كى مخالفت كا سامنا ہو اور وہ كسى طرح سے راہ راست پر نہ آئيں تو خدا ان كو بيدار كرنے كے لئے مشكلات ومصائب ميں گرفتار كرتا تھا تاكہ وہ اپنے ميں نياز مندى اور محتاجى كا احساس كريں ، اور ان كى فطرت توحيد جو آرام وآسائشے كى وجہ سے غفلت كے پردوں ميں چلى گئي ہے دوبارہ ابھر آئے اوران كو اپنى ضعف وناتوانى كا اندازہ ہو اور اس قادر وتوانا ہستى كى جانب متوجہ ہوں جو ہر نعمت و نقمت كا سر چشمہ ہے _

قرآن ميں اس مطلب كى طرف اشارہ فرمايا گيا ہے : ہم نے آل فرعون كو قحط، خشك سالى اور ثمرات كى كمى ميں مبتلا كيا كہ شاہد متوجہ اور بيدار ہوجائيں(1)

باوجود يكہ قحط سالى نے فرعونيوں كو گھير ليا تھا ليكن مذكورہ بالابيان ميں صرف فرعون كے مخصوصين كا ذكر كيا گيا ہے مقصد يہ ہے كہ اگر يہ بيدار ہوگئے تو سب لوگ بيدار ہوجائيں گے كيونكہ تمام لوگوں كى نبض انہى كے ہاتھوں ميں ہے يہ چاہيں تو بقيہ افراد كو گمراہ كريں يا ہدايت كريں _

اس نكتہ كو بھى نظر انداز نہيں كرنا چاہئے كہ خشك سالى اہل مصر كے لئے ايك بلائے عظيم شمار ہوتى تھى كيونكہ مصر پورے طور سے ايك زرعى مملكت تھى اس بناء پر اگر زراعت نہ ہوتو اس كا اثر ملك كے تمام افراد پر پڑتا ہے ليكن مسلمہ طور پر فرعون اور اس كے افراد چونكہ ان زمينوں كے مالك اہلى تھے اس لئے فى الحقيقت وہ سب سے زيادہ اس سے متاثر ہوئے تھے _

ضمناً يہ بھى معلوم ہوا كہ يہ خشك سالى كئي سال تك باقى رہى كيونكہ'' سنين'' جمع كا صيغہ ہے _

ليكن آل فرعون، بجائے اس كے كہ ان الہى تنبيہوں سے نصيحت ليتے اور خواب خرگوش سے بيدار ہوتے انہوں نے اس سے سوء استفادہ كيا اور ان حوادث كى من مانى تفسير كي، جب حالات ان كے


(1)سورہ اعراف 130

منشا كے مطابق ہوتے تھے تو وہ راحت وآرام ميں ہوتے تھے اور كہتے كہ يہ حالات ہمارى نيكى ولياقت كى وجہ سے ہيں: ''فى الحقيقت ہم اس كے اہل ولائق ہيں ''_

ليكن جس وقت وہ مشكل ومصيبت ميں گرفتار ہوتے تھے تو اس كو فوراً موسى عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كے سرباندھ ديتے تھے'' اور كہتے تھے كہ يہ ان كى بد قدمى كى وجہ سے ہوا ہے _

ليكن قرآن كريم ان كے جواب ميں كہتا ہے : '' ان كى بدبختيوں اور تكليفوں كا سر چشمہ خدا كى طرف سے ہے خدا نے يہ چاہا ہے كہ اس طرح ان كو ان كے اعمال بد كى وجہ سے سزادے ليكن ان ميں سے اكثر اس كو نہيں جانتے ''_(1)

مختلف اور پيہم بلائوں كا نزول

قرآن ميں ان بيدار كنندہ درسوں كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے جو خدا نے قوم فرعون كو ديئے جب مرحلہ اول يعنى قحط، خشك سالى اور مالى نقصانات نے ان كو بيدار نہ كيا تو دوسرے مرحلہ كى نوبت پہنچى جو پہلے مرحلہ سے شديد تر تھا اس مرتبہ خدا نے ان كو پے درپے ايسى بلائوںميں جكڑا جو ان كو اچھى طرح سے كچلنے والى تھيں مگر افسوس ان كى اب بھى آنكھيں نہ كھليں _

پہلے ان بلائوں كے نزول كے مقدمہ كے طور پر فرمايا گيا ہے : انہوں نے موسى كى دعوت كے مقابلے ميں اپنے عناد كو بدستور باقى ركھا اور ''كہا كہ تم ہر چند ہمارے لئے نشانياں لائو اوران كے ذريعے ہم پر اپنا جادو كرو ہم كسى طرح بھى تم پر ايمان نہيں لائيں گے''_ (2)

لفظ''آيت '' شايد انہوں نے ازراہ تمسخر استعمال كيا تھا ، كيونكہ حضرت موسى نے اپنے معجزات كو آيات الہى قرار ديا تھا ليكن انہوں نے سحر قرار ديا_

آيات كا لہجہ اور ديگر قرائن اس بات كے مظہر ہيں كہ فرعون كے پروپيگنڈوں كا محكمہ جو اپنے زمانے


(1)سورہ اعراف 131

(2)سورہ اعراف آيت 132

كے لحاظ سے ہر طرح كے سازو سامان سے ليس تھا وہ حضرت موسى كے خلاف ہر طرف سے حركت ميں آگيا تھا اس كے نتيجے ميں تمام لوگوں كا ايك ہى نعرہ تھا اور وہ يہ كہ اے موسى تم تو ايك زبردست جادو گر ہو ، كيونكہ موسى كى بات كو رد كرنے كا ان كے پاس اس سے بہتر كوئي جواب نہ تھا جس كے ذريعے لوگوں كے دلوں ميں وہ گھربنانا چاہتے تھے _

ليكن چونكہ خدا كسى قوم پر اس وقت تك اپنا آخرى عذاب نازل نہيں كرتا جب تك كہ اس پر خوب اچھى طرح سے اتمام حجت نہ كرلے اس لئے بعد والى آيت ميں فرمايا گيا ہے كہ ہم نے پہلے طرح طرح كى بلائيں ان پر نازل كيں كہ شايد ان كو ہوش آجائے _(1)

''پہلے ہم نے ان پر طوفان بھيجا''

اس كے بعد قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:

''اس كے بعد ہم نے ان كى زراعتوں اور درختوں پر ٹڈيوں كو مسلط كرديا_''

روايات ميں وارد ہوا ہے كہ كہ اللہ نے ان پر ٹڈياں اس كثرت سے بھيجيں كہ انھوں نے درختوں كے شاخ و برگ كا بالكل صفايا كرديا، حتى كہ ان كے بدنوں تك كو وہ اتنا آزار پہنچاتى تھيں كہ وہ تكليف سے چيختے چلاتے تھے_

جب بھى ان پر بلا نازل ہوتى تھى تو وہ حضرت موسى عليہ السلام سے فرياد كرتے تھے كہ وہ خدا سے كہہ كر اس بلا كو ہٹواديں طوفان اور ٹڈيوں كے موقع پر بھى انھوں نے جناب موسى عليہ السلام سے يہى خواہش كى ، جس كو موسى عليہ السلام نے قبول كرليا اور يہ دونوں بلائيں برطرف ہوگئيں، ليكن اس كے بعد پھر وہ اپنى ضد پر اتر آئے جس كے نتيجے ميں تيسرى بلا ''قمّل '' كى ان پر نازل ہوئي_

''قمّل'' سے كيا مراد ہے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان گفتگو ہوئي ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ


(1) سورہ اعراف كى ايت 133 ميں ان بلاو ں كا نام ليا گيا ہے

ايك قسم كى نباتى آفت تھى جو زراعت كو كھاجاتى تھي_

جب يہ آفت بھى ختم ہوئي اور وہ پھر بھى ايمان نہ لائے،تو اللہ نے مينڈك كى نسل كو اس قدر فروغ ديا كہ مينڈك ايك نئي بلا كى صورت ميں ان كى زندگى ميں اخل ہوگئے_

جدھر ديكھتے تھے ہر طرف چھوٹے بڑے مينڈك نظر آتے تھے يہاں تك كہ گھروں كے اندر، كمروں ميں، بچھونوں ميں، دسترخوان پر كھانے كے برتنوں ميں مينڈك ہى مينڈك تھے، جس كى وجہ سے ان كى زندگى حرام ہوگئي تھي، ليكن پھر بھى انھوں نے حق كے سامنے اپنا سرنہ جھكايا اور ايمان نہ لائے_

اس وقت اللہ نے ان پر خون مسلط كيا_

بعض مفسرين نے كہا كہ خون سے مراد ''مرض نكسير'' ہے جو ايك وبا كى صورت ميں ان ميں پھيل گيا، ليكن بہت سے مفسرين نے لكھا ہے كہ دريائے نيل لہو رنگ ہوگيا اتنا كہ اس كا پانى مصرف كے لائق نہ رہا_

آخر ميں قرآن فرماتا ہے: '' ان معجزوں اور كھلى نشانيوں كو جو موسى كى حقانيت پر دلالت كرتى تھيں،ہم نے ان كو دكھلايا ليكن انھوں نے ان كے مقابلہ ميں تكبر سے كام ليا اور حق كو قبول كرنے سے انكار كرديا اور وہ ايك مجرم او رگناہگار قوم تھے_''(1)

بعض روايات ميں ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بلا ايك ايك سال كے لئے آتى تھى يعنى ايك سال طوفان و سيلاب، دوسرے سال ٹڈيوں كے دَل، تيسرے سال نباتاتى آفت، اسى طرح آخر تك، ليكن ديگر روايات ميں ہے كہ ايك آفت سے دوسرى آفت تك ايك مہينہ سے زيادہ فاصلہ نہ تھا، بہر كيف اس ميںشك نہيں كہ ان آفتوں كے درميان فاصلہ موجود تھا( جيسا كہ قرآن نے لفظ ''مفصلات'' سے تعبير كيا ہے)تاكہ ان كو تفكر كے لئے كافى موقع مل جائے_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ يہ بلائيں صرف فرعون اور فرعون والوں كے دامن گير ہوتى تھيں، بني


(1) سورہ اعراف آيت 133

اسرائيل اس سے محفوظ تھے، بے شك يہ اعجاز ہى تھا ،ليكن اگر نكتہ ذيل پر نظر كى جائے تو ان ميں سے بعض كى علمى توجيہہ بھى كى جاسكتى ہے_

ہميں معلوم ہے كہ مصر جيسى سرسبز و شاداب اور خوبصورت سلطنت جو دريائے نيل كے كناروں پر آباد تھى اس كے بہترين حصے وہ تھے جو درياسے قريب تھے وہاں پانى بھى فراوان تھا اور زراعت بھى خوب ہوتى تھى ،تجارتى كشتياں وغيرہ بھى دستياب تھيں، يہ خطے فرعون والوں اور قبطيوں كے قبضے ميں تھے جہاں انھوں نے اپنے قصر و باغات بنا ركھے تھے اس كے بر خلاف اسرائيلوں كو دور دراز كے خشك اور كم آب علاقے دئے گئے تھے جہاں وہ زندگى كے يہ سخت دن گذارتے تھے كيونكہ ان كى حيثيت غلاموں جيسى تھي_

بنا بر اين يہ ايك طبيعى امر ہے كہ جب سيلاب اور طوفان آيا تو اس كے نتيجے ميں وہ آبادياں زيادہ متاثر ہوئيں جو دريائے نيل كے دونوں كناروں پر آباد تھيں، اسى طرح مينڈھك بھى پانى سے پيدا ہوتے ہيں جو قبطيوں كے گھروں كے آس پاس بڑى مقدار ميں موجود تھے، يہى حال خون كا ہے كيونكہ رود نيل كا پانى خون ہو گيا تھا، ٹڈياں اور زرعى آفتيں بھى باغات، كھيتوں اور سر سبز علاقوں پر حملہ كرتى ہيں، لہذا ان عذابوں سے زيادہ تر نقصان قبطيوں ہى كا ہوتا تھا_

جو كچھ قرآن ميں ذكر ہوا ہے اس كا ذكر موجودہ توريت ميں بھى ملتا ہے، ليكن كسى حد تك فرق كے ساتھ_(1)

بار بار كى عہد شكنياں

قرآن ميں فرعونيوں كے اس رد عمل كا ذكر كيا گيا ہے جو انہوں نے پروردگار عالم كى عبرت انگيزاور بيدار كنندہ بلائوں كے نزول كے بعد ظاہر كيا،ان تما م قرآنى گفتگو سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ جس وقت وہ بلا كے چنگل ميں گرفتار ہو جاتے تھے،جيسا كہ عام طور سے تباہ كاروں كا دستور ہے،وقتى طور پر خواب غفلت


(1)ملاحظہ ہو سفر خروج فصل ہفتم تا دہم توريت

سے بيدار ہوجاتے تھے اور فرياد وزارى كرنے لگتے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام سے درخواست كرتے تھے كہ خدا سے ان كى نجات كے لئے دعا كريں_ چونكہ حضرت موسى عليہ السلام ان كے لئے دعا كرتے تھے اور وہ بلا ان كے سروں سے ٹل جاتى تھي،مگر ان كى حالت يہ تھى كہ جونہى وہ بلا سر سے ٹلتى تھى تو وہ تمام چيزوں كو بھول جاتے تھے اور وہ اپنى پہلى نا فرمانى اور سركشى كى حالت پر پلٹ جاتے تھے_

جس وقت ان پر بلا مسلط ہوتى تھى تو كہتے تھے:'' اے موسى ہمارے لئے اپنے خدا سے دعا كرو كہ جو عہد اس نے تم سے كيا ہے اسے پورا كرے اور تمہارى دعا ہمارے حق ميں قبول كرے،اگر تم يہ بلا ہم سے دور كردو تو ہم يہ وعدہ كرتے ہيں كہ ہم خود بھى تم پر ضرور ايمان لائيں گے اور بنى اسرائيل كو بھى يقينا تمہارے ہمرا ہ روانہ كرديں گے''_(1)

اس كے بعد ان كى پيمان شكنى كا ذكر كيا گيا ہے،ارشاد ہوتا ہے:''جس وقت ہم ان پر سے بلائوں كو تعين شدہ مدت كے بعد ہٹا ديتے تھے تو وہ اپنا وعدہ توڑ ڈالتے تھے''_(2)

نہ خود ہى ايمان لاتے تھے اور نہ ہى بنى اسرائيل كو اسيرى سے آزاد كرتے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام ان كايك مدت معين كرتے تھے كہ فلا ں وقت يہ بلا بر طرف ہوجائے گى تاكہ ان پر اچھى طرح كھل جائے كہ يہ بلا كوئي اتفاقى حادثہ نہ تھا بلكہ حضرت موسى عليہ السلام كى دعا كى وجہ سے تھا_

موسى عليہ السلام كے پاس سونے كے كنگن كيوں نہيں؟

حضرت موسى عليہ السلام كى منطق ايك طرف ان كے مختلف معجزات دوسرى طرف مصر كے لوگوں پر نازل ہونيوالى بلائيں جو موسى عليہ السلا م كى دعا كى بركت سے ٹل جاتى تھيں تيسرى طرف،ان سب اسباب نے مجموعى طور پر اس ماحول پر گہرے اثرات ڈالے اور فرعون كے بارے ميںلوگوں كے افكار كو ڈانواںڈول


()اعراف آيت 134

(2)سورہ اعراف ايت 135

كرديا اور انھيں پورے مذہبى اور معاشرتى نظام كے بارے ميں سوچنے پر مجبور كرديا_

اس موقع پر فرعون نے دھوكہ دھڑى كے ذريعہ موسى عليہ السلام كا اثر مصرى لوگوں كے ذہن سے ختم كرنے كى كوشش كى اور پست اقدار كا سہارا ليا جو اس ماحول پر حكم فرماتھا، انھيں اقدار كے ذريعہ اپنا اور موسى عليہ السلام كا موازنہ شروع كرديا تا كہ اس طرح لوگوں پر اپنى برترى كو پايہ ثبوت تك پہنچائے، جيسا كہ قرآن پاك فرماتا ہے:

''اور فرعون نے اپنے لوگوں كو پكار كر كہا:اے ميرى قوم آيا مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر ميرى حكومت نہيں ہے اور كيا يہ عظيم دريا ميرے حكم سے نہيں بہہ رہے ہيں اور ميرے محلوں،كھيتوں اور باغوں سے نہيں گررہے ہيں؟كيا تم ديكھتے نہيں ہو؟''(1)

ليكن موسى عليہ السلام كے پاس كيا ہے،كچھ بھى نہيں ، ايك لاٹھى اور ايك اونى لباس اور بس ،تو كيا اس كى شخصيت بڑى ہوگى يا ميري؟ آيا وہ سچ بات كہتا ہے يا ميں؟اپنى آنكھيں كھولوں اور بات اچھى طرح سمجھنے كى كوشش كرو_ اس طرح فرعون نے مصنوعى اقدار كو لوگوں كے سامنے پيش كيا،بالكل ويسے ہى جيسے عصر جاہليت كے بت پرستوں نے پيغمبر اسلام (ص) كے مقابلے ميں مال و مقام كو صحيح انسانى اقدار سمجھ ركھا تھا_

لفظ''نادى ''(پكار كر كہا )سے معلوم ہوتا ہے كہ فرعون نے اپنى مملكت كے مشاہير كى ايك عظيم محفل جمائي اور بلند آواز كے ساتھ ان سب كو مخاطب كرتے ہوئے يہ جملے ادا كيے،يا حكم ديا كہ اس كى اس آواز كو ايك سركارى حكم نامے كے ذريعے پورے ملك ميں بيان كيا جائے_

قرآن آگے چل كر فرماتا ہے كہ فرعون نے كہا:''ميں اس شخص سے برتر ہوں جو ايك پست خاندان اور طبقے سے تعلق ركھتا ہے_اور صاف طور پر بات بھى نہيں كرسكتا''_(2)

اس طرح سے اس نے اپنے لئے دو بڑے اعزازات(حكومت مصر اور نيل كى مملكت)اور موسى


(1)سورہ زخرف آيت 51

(2)سورہ زخرف آيت 52

عليہ السلام كے دوكمزور پہلو(فقر اور لكنت زبان) بيان كرديئے_

حالانكہ اس وقت حضرت موسى عليہ السلام كى زبان ميں لكنت نہ تھي_كيونكہ خدا نے ان كى دعا كو قبول فرماليا تھا اور زبان كى لكنت كو دور كرديا تھا كيونكہ موسى عليہ السلام نے مبعوث ہوتے ہى خداسے يہ دعا مانگى تھى كہ _''خدا وندا ميرى زبان كى گرہيں كھول دے''_(1) اور يقينا ان كى دعا قبول ہوئي اور قرآن بھى اس بات پر گواہ ہے_ بے پناہ دولت،فاخرہ لباس اور چكاچوند كرتے محلات،مظلوم طبقے پر ظلم و ستم كے ذريعے حاصل ہوتے ہيں_ ان كا مالك نہ ہونا صرف عيب كى بات ہى نہيں بلكہ باعث صدافتخار شرافت اور عزت كا سبب بھى ہے_

''مھين''(پست)كى تعبير سے ممكن ہے اس دور كے اجتماعى طبقات كى طرف اشارہ ہو، كيونكہ اس دور ميں بڑے بڑے سرمايہ داروں كا معاشرہ كے بلند طبقوں ميں شمار ہوتا تھا او رمحنت كشوں اور كم آمدنى والے لوگوں كا پست طبقے ميں ،يا پھر ممكن ہے موسى عليہ السلام كى قوم كى طرف اشارہ ہو كيونكہ ان كا تعلق بنى اسرائيل سے تھا اور فرعون كى قبطى قوم اپنے آپ كو سردار اور آقا سمجھتى تھي_ پھر فرعون دو اور بہانوں كا سہارا ليتے ہوئے كہتا ہے:''اسے سونے كے كنگن كيوں نہيں ديئے اور اس كے لئے مددگار كيوں نہيں مقرر كئے تاكہ وہ اس كى تصديق كريں؟'' اگر خدا نے اسے رسول بنايا ہے تو دوسرے رسول كى طرح طلائي كنگن كيوں نہيں دئے گئے اور اس كے لئے مدد گار كيوں نہيں مقرر كئے گئے_

كہتے ہيں كہ فرعونى قوم كا عقيدہ تھا كہ روساء اور سر براہوں كو ہميشہ طلائي كنگنوں اور سونے كے ہاروں سے مزين ہونا چاہيئےور چونكہ موسى عليہ السلام كے پاس اس قسم كے زيورات نہيں تھے بلكہ ان زيورات كے بجائے وہ چرواہوں والا موٹا سا اونى كرتا زيب تن كئے ہوئے تھے،لہذا ان لوگوں نے اس بات پر تعجب كا اظہار كيا اور يہى حال ان لوگوں كا ہوتا ہے جو انسانى شخصيت كے پركھنے كا معيار سونا،چاندى اور دوسرے زيورات كو سمجھتے ہيں_


(1)سورہ طہ آيت 27

جناب موسى اورہارون عليہما السلام كے اونى لباس

اس بارے ميں ايك نہايت عمدہ بيان آيا ہے ،امام على بن ابى طالب عليہما السلام فرماتے ہيں:موسى عليہ السلام اپنے بھائي(ہارون) كے ساتھ فرعون كے دربار ميں پہنچے دونوں كے بدن پراونى لباس اور ہاتھوں ميں عصا تھا اس حالت ميں انھوں نے شرط پيش كى كہ اگر فرمان الہى كے سامنے جھك جائے تو اس كى حكومت اور ملك باقى اور اقتدار قائم و برقرار رہے گا،ليكن فرعون نے حاضرين سے كہا:تمہيں ان كى باتوں پر تعجب نہيں ہوتا كہ ميرے ساتھ شرط لگا رہے ہيں كہ ميرے ملك كى بقا اور ميرى عزت كا دوام ان كى مرضى كے ساتھ وابستہ ہے جبكہ ان كا اپنا حال يہ ہے كہ فقر و تنگدستى ان كى حالت اور صورت سے ٹپك رہى ہے(اگر يہ سچ كہتے ہيں تو)خود انھيں طلائي كنگن كيوں نہيں ديئے گئے_

دوسرا بہانہ وہى مشہور بہانہ ہے جو بہت سى گمراہ اور سركش امتيں انبياء كرام عليہم السلام كے سامنے پيش كيا كرتى تھيں،كبھى تو كہتى تھيں كہ''وہ انسان كيوں ہے اور فرشتہ كيوں نہيں؟اور كبھى كہتى تھى كہ اگر وہ انسان ہے تو پھر كم از كم اس كے ہمراہ كوئي فرشتہ كيوں نہيں آيا؟''

حالانكہ انسانوں كى طرف بھيجے ہوئے رسولوں كوروح انسانى كا حامل ہونا چاہئے تا كہ وہ ان كى ضرورتوں،مشكلوں اور مسائل كو محسوس كرسكيں اور انہيں ان كا جواب دے سكيں اور عملى لحاظ سے ان كے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پاسكيں_

چوتھا مرحلہ انقلاب كى تياري

حضرت موسى عليہ السلام ميدان مقابلہ ميں فرعون پر غالب آگئے اور سرخرو اور سرفراز ہوكر ميدان سے باہر آئے اگر چہ فرعون اور اس كے تمام دربارى ان پر ايمان نہ لائے ليكن اس كے چند اہم نتائج ضرور برآمد ہوئے،جن ميں سے ہر ايك اہم كاميابى شمار ہوتا ہے_

1_بنى اسرائيل كا اپنے رہبر اور پيشوا پر عقيدہ مزيد پختہ ہوگيا اور انھيں مزيد تقويت مل گئي چنانچہ ايك

دل اور ايك جان ہو كر ان كے گرد جمع ہوگئے كيونكہ انھوں نے سالہا سال كى بدبختى اور دربدر كى ٹھوكريں كھانے كے بعد اب اپنے اندر كسى آسمانى پيغمبر كو ديكھا تھا جو كہ ان كى ہدايت كابھى ضامن تھا اور ان كے انقلاب،آزادى اور كاميابى كا بھى رہبر تھا_

2_موسى عليہ السلام نے مصريوں اور قبطيوں تك كے درميان ايك اہم مقام حاصل كرليا_ كچھ لوگ ان كى طرف مائل ہوگئے اور جو مائل نہيں ہوئے تھے وہ كم ازكم كم ان كى مخالفت سے ضرور گھبراتے تھے اور جناب موسى عليہ السلام كى صدائے دعوت تمام مصر ميں گونجنے لگي_

3_سب سے بڑھ كر يہ كہ فرعون عوامى افكار اور اپنى جان كو لاحق خطرے سے بچائو كے لئے اپنے اندر ايسے شخص كے ساتھ مقابلے كى طاقت كھوچكا تھا جس كے ہاتھ ميں اس قسم كا عصا اور منہ ميں اس طرح كى گويا زبان تھي_

مجموعى طور پر يہ امور موسى عليہ السلام كے لئے اس حد تك زمين ہموار كرنے ميں معاون ثابت ہوئے كہ مصريوں كے اندر ان كے پائوں جم گئے اور انھوں نے كھل كر اپنا تبليغى فريضہ انجام ديا اور اتمام حجت كي_

next index back