next | index |
تمام پيغمبر كى نسبت قرآن ميں حضرت موسى (ع) كا واقعہ زيادہ آيا ہے_تيس سے زيادہ سورتوںميںموسى (ع) و فرعون اور بنى اسرائيل كے واقعہ كى طرف سومرتبہ سے زيادہ اشارہ ہوا ہے_
اگر ہم ان آيتوں كى الگ الگ شرح كريں ااس كے بعد ان سب كو ايك دوسرے كے ساتھ ملا ديں تو بعض افراد كے اس توہم كے برخلاف كہ قرآن ميں تكرار سے كام ليا گيا ہے،ہم كو معلوم ہوگا كہ قرآن ميں نہ صرف تكرار نہيں ہے بلكہ ہر سورہ ميں جو بحث چھيڑى گئي ہے اس كى مناسبت سے اس سرگزشت كا ايك حصہ شاہد كے طور پر پيش كيا گيا ہے_
ضمناًيہ بات بھى ذہن ميں ركھنا چايئےہ اس زمانے ميں مملكت مصر نسبتاً وسيع مملكت تھي_وہاں كے رہنے والوں كا تمدن بھى حضرت نوح(ع) ،ہود(ع) اور شعيب(ع) كى اقوام سے زيادہ ترقى يافتہ تھا_ لہذا حكومت فراعنہ كى مقاومت بھى زيادہ تھي_
اسى بناء پر حضرت موسى (ع) كى تحريك اور نہضت بھى اتنى اہميت كى حامل ہوئي كہ اس ميں بہت زيادہ عبرت انگيز نكات پائے جاتے ہيں_بنابريں اس قرآن ميں حضرت موسى (ع) كى زندگى اور بنى اسرائيل كے حالات كے مختلف پہلوئوں پر روشنى ڈالى گئي ہے_
كلى طور پر اس عظيم پيغمبر(ع) كى زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_
1_پيدائشے سے لے كر آغوش فرعون ميں آپ(ع) كى پرورش تك كا زمانہ_
2_مصر سے آپ(ع) كا نكلنا اور شہر مدين ميں حضرت شعيب(ع) كے پاس كچھ دقت گزارنا_
3_آپ(ع) كى بعثت كا زمانہ اور فرعون اور اس كى حكومت والوں سے آپ(ع) كے متعدد تنازعے_
4_فرعونيوں كے چنگل سے موسى (ع) اور بنى اسرائيل كى نجات اور وہ حوادث جو راستہ ميں اور بيت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے_
5_حضرت موسى (ع) اور بنى اسرائيل كے درميان كشمكش كا زمانہ_
حكومت فرعون نے بنى اسرئيل كے يہاں جو نومولود بيٹے ہوتے تھے انہيں قتل كرنے كا ايك وسيع پروگرام بنايا تھا_ يہاں تك كہ فرعون كى مقرر كردہ دائياں بنى اسرائيل كى باردار عورتوں كى نگرانى كرتى تھيں_
ان دائيوں ميں سے ايك والدہ موسى (ع) كى دوست بن گئي تھي_ (شكم مادر ميں موسى (ع) كا حمل مخفى رہا اوراس كے آثار ظاہر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسى (ع) كو يہ احساس ہوا كہ بچے كى ولادت كا وقت قريب ہے تو آپ نے كسى كے ذريعہ اپنى دوست دائي كو بلانے بھيجا_جب وہ آگئي تو اس سے كہا:ميرے پيٹ ميں ايك فرزند ہے،آج مجھے تمہارى دوستى اور محبت كى ضرورت ہے_
جس وقت حضرت موسى عليہ السلام پيدا ہوگئے تو آپ كى آنكھوں ميں ايك خاص نور چمك رہا تھا،چنانچہ اسے ديكھ كر وہ دايہ كاپنے لگى اور اس كے دل كى گہرائي ميں محبت كى ايك بجلى سماگئي،جس نے اس كے دل كى تمام فضاء كو روشن كرديا_
يہ ديكھ كر وہ دايہ، مادر موسى (ع) سے مخاطب ہوكر بولى كہ ميرا يہ خيال تھا كہ حكومت كے دفتر ميں جاكے اس بچے كے پيدا ہونے كى خبر دوں تاكہ جلاد آئيں اور اسے قتل كرديں اور ميں اپنا انعام پالوں_ مگر ميں كيا كروں
كہ ميں اپنے دل ميں اس نوزائيدہ بچے كى شديد محبت كا احساس كرتى ہوں_ يہاں تك كہ ميں يہ نہيں چاہتى كہ اس كا بال بھى بيكا ہو_اس كى اچھى طرح حفاظت كرو_ميرا خيال ہے كہ آخر كار يہى ہمارا دشمن ہوگا_
وہ دايہ مادر موسى (ع) كے گھر سے باہر نكلي_ تو حكومت كے بعض جاسوسوں نے اسے ديكھ ليا_ انھوںنے تہيہ كرليا كہ وہ گھر ميں داخل ہوجائيں گے_ موسى (ع) كى بہن نے اپنى ماں كو اس خطرے سے آگاہ كرديا ماں يہ سن كے گھبراگئي_ اس كى سمجھ ميں نہ آتا تھا كہ اب كيا كرے_
اس شديد پريشانى كے عالم ميں جب كہ وہ بالكل حواس باختہ ہورہى تھياس نے بچے كو ايك كپڑے ميں لپيٹا او رتنور ميں ڈال ديا_ اس دوران ميں حكومت كے آدمى آگئے_مگر وہاں انھوں نے روشن تنور كے سوا كچھ نہ ديكھا_ انھوں نے مادر موسى (ع) سے تفتيش شرو ع كردى _ پوچھا_دايہ يہاں كيا كررہى تھي_؟ موسى (ع) كى ماں نے كہا كہ وہ ميرى سہيلى ہے مجھ سے ملنے آئي تھى _حكومت كے كارندے مايوس ہوكے واپس ہوگئے_
اب موسى (ع) كى ماں كو ہوش آيا_ آپ نے اپنى بيٹى سے پوچھا كہ بچہ كہاں ہے؟ اس نے لاعلمى كا اظہار كيا_ ناگہاں تنور كے اندر سے بچہ كے رونے كى آواز آئي_ اب ماں تنور كى طرف دوڑى _كيا ديكھتى ہے كہ خدا نے اس كے لئے آتش تنور كو ''ٹھنڈا اور سلامتى كہ جگہ''بناديا ہے_ وہى خدا جس نے حضرت ابراھيم(ع) كے ليے آتش نمرود كو ''برد وسلام''بناديا تھا_ اس نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور بچے كو صحيح وسالم باہر نكال ليا_
ليكن پھر بھى ماں محفوظ نہ تھي_كيونكہ حكومت كے كارندے دائيں بائيں پھرتے رہتے اور جستجو ميںلگے رہتے تھے_ كسى بڑے خطرے كے ليے يہى كافى تھا كہ وہ ايك نوزائيد بچے كے رونے كى آواز سن ليتے_
اس حالت ميں خدا كے ايك الہام نے ماں كے قلب كو روشن كرديا_وہ الہام ايسا تھا كہ ماں كو بظاہر ايك خطرناك كام پر آمادہ كررہا تھا_مگر پھر بھى ماں اس ارادے سے اپنے دل ميں سكون محسوس كرتى تھي_
''ہم نے موسى (ع) كى ماں كى طرف وحى كى كہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس كے بارے ميںكچھ خوف پيدا ہوتو اسے دريا ميں ڈال دينا اور ڈرنا نہيں اور نہ غمگين ہونا كيونكہ ہم اسے تيرے پاس لوٹا ديں گے اور اسے رسولوں ميں سے قرار ديں گے_(1)
اس نے كہا: ''خدا كى طرف سے مجھ پريہ فرض عائد ہوا ہے_ ميں اسے ضرور انجام دوں گي''_اس نے پختہ ارادہ كرليا كہ ميںاس الہام كو ضرور عملى جامہ پہنائوں گى اور اپنے نوزائيدہ بچے كو دريائے نيل ميں ڈال دوںگي_
اس نے ايك مصرى بڑھئي كو تلاش كيا (وہ بڑھئي قبطى اور فرعون كى قوم ميںسے تھا)اس نے اس بڑھئي سے درخواست كى كہ ميرے ليے ايك چھوٹا سا صندوق بنادے_
بڑھئي نے پوچھا:جس قسم كا صندوقچہ تم بنوانا چاہتى ہو اسے كس كام ميں لائوگي؟
موسى (ع) كى ماں جو دروغ گوئي كى عادى نہ تھى اس نازك مقام پر بھى سچ بولنے سے باز نہ رہي_اس نے كہا:ميں بنى اسرائيل كى ايك عورت ہوں_ميرا ايك نوزائيد بچہ لڑكا ہے_ميںاس بچے كو اس صندوق ميں چھپانا چاہتى ہوں_
اس قبطى بڑھئي نے اپنے دل ميں يہ پختہ ارادہ كرليا كہ جلادوں كو يہ خبر پہنچادےگا_وہ تلاش كركے ان كے پاس پہنچ گيا_ مگر جب وہ انھيں يہ خبر سنانے لگاتو اس كے دل پر ايسى وحشت طارى ہوئي كہ اس كى زبان بند ہوگئي_ وہ صرف ہاتھوں سے اشارے كرتا تھا اور چاہتا تھا كہ ان علامتوں سے انھيں اپنا مطلب سمجھا دے_ حكومت كے كارندوں نے اس كى حركات ديكھ كر يہ سمجھا كہ يہ شخص ہم سے مذاق كررہا ہے_اس ليے اسے مارا اور باہر نكال ديا_
جيسے ہى وہ اس دفتر سے باہر نكلا اس كے ہوش و حواس يكجاہوگئے، وہ پھر جلادوں كے پاس گيا اور اپنى حركات سے پھر ماركھائي_
(1)سورہ قصص آيت7
آخر اس نے يہ سمجھا كہ اس واقعے ميں ضرور كوئي الہى راز پوشيدہ ہے_چنانچہ اس نے صندوق بناكے حضرت موسى (ع) كى والدہ كو دےديا_
غالباًصبح كا وقت تھا_ابھى اہل مصر محو خواب تھے_مشرق سے پو پھٹ رہى تھي_ماںنے نوزائيدہ بچے اور صندوق كو دريائے نيل كے كنارے لائي،بچے كو آخرى مرتبہ دودھ پلايا_پھر اسے،مخصوص صندوق ميں ركھا(جس ميں يہ خصوصيت تھى كہ ايك چھوٹى كشتى كى طرح پانى پر تيرسكے)پھر اس صندوق كو نيل كى موجوں كے سپرد كرديا_
نيل كى پر شور موجوںنے اس صندوق كوجلدہى ساحل سے دور كرديا_ماں كنارے كھڑى ديكھ رہى تھى _ معاًاسے ايسا محسوس ہوا كہ اس كا دل سينے سے نكل كر موجوںكے اوپر تيررہاہے_اس دقت،اگر الطاف الہى اس كے دل كو سكون و قرار نہ بخشتا تو يقينا وہ زور زور سے رونے لگتى اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،كسى آدمى ميں يہ قدرت نہيں ہے كہ ان حساس لمحات ميں ماںپر جو گزررہى تھي_الفاظ ميں اس كا نقشہ كھينچ سكے مگر _ ايك فارسى شاعرہ نے كسى حد تك اس منظر كو اپنے فصيح اور پر از جذبات اشعار ميں مجسم كيا ہے_
1_مادر موسى (ع) چو موسى (ع) رابہ نيل
درفگند از گفتہ رب جليل
2_خودز ساحل كرد باحسرت نگاہ
گفت كاى فرزند خرد بى گناہ
3_گر فراموشت كند لطف خداى
چون رہى زين كشتى بى ناخداي
4_وحى آمد كاين چہ فكر باطل است
رہرو ما اينك اندر منزل است
5_ماگرفتيم آنچہ را انداختى
دست حق را ديدى ونشاختي
6_سطح آب از گاہوارش خوشتراست
دايہ اش سيلاب و موجش مادراست
7_رودھا از خودنہ طغيان مى كنند
آنچہ مى گوئيم ما آن مى كنند
8_ما بہ دريا حكم طوفان مى دہيم
ما بہ سيل وموج فرماں مى دہيم
9_نقش ہستى نقشى از ايوان ما است
خاك وباد وآب سرگردان ماست
10_بہ كہ برگردى بہ ما بسپاريش
كى تو از ما دوسترمى داريش؟(1)
1_جب موسى (ع) كى ماںنے حكم الہى كے مطابق موسى (ع) كو دريائے نيل ميں ڈال ديا_
2_وہ ساحل پركھڑى ہوئي حسرت سے ديكھ رہى تھى اور كہہ رہى تھى كہ اے ميرے بے گناہ ننھے بيٹے
3_اگر لطف الہى تيرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس كشتى ميںكيسے سلامت رہ سكتا ہے جس كا كوئي نا خدا نہيں ہے_
4_حضرت موسى عليہ السلام كى ماںكو اس وقت وحى ہوئي كہ تيرى يہ كيا خام خيالى ہے ہمارا مسافر تو سوئے منزل رواںہے_
5_تونے جب اس بچے كو دريا ميں ڈالاتھا تو ہم نے اسے اسى وقت سنبھال ليا تھا _ تو نے خدا كا ہاتھ ديكھا مگر اسے پہچانا نہيں_
6_اس وقت پانى كى سطح(اس كے ليے)اس كے گہوارے سے زيادہ راحت بخش ہے_دريا كا سيلاب اس كى دايہ گيرى كررہا ہے اور اس كى موجيں آغوش مادر بنى ہوئي ہيں_
7_ديكھوں دريائوں ميں ان كے ارادہ و اختيار سے طغيانى نہيں آتي_وہ ہمارے حكم كے مطيع ہيں وہ وہى كرتے ہيں جو ہمارا امر ہوتا ہے_
8_ہم ہى سمندروں كو طوفانى ہونے كاحكم ديتے ہيں اور ہم ہى سيل دريا كو روانى اور امواج بحر كو تلاطم كا فرمان بھيجتے ہيں_
(1)از ديوان پروين اعتصامي
9_ہستى كا نقش ہمارے ايوان كے نقوش ميں سے ايك نقش ہے جو كچھ ہے،يہ كائنات تو اس كامشتے ازخروارى نمونہ ہے_ اور خاك،پاني،ہوا اور آتش ہمارے ہى اشارے سے متحرك ہيں_
10_بہتر يہى ہے كہ تو بچے كو ہمارے سپرد كردے اور خود واپس چلى جا_ كيونكہ تو اس سے ہم سے زيادہ محبت نہيں كرتي_
دلوں ميں حضرت مو سى عليہ السلام كى محبت
اب ديكھناچاہيئےہ فرعون كے محل ميں كيا ہورہا تھا؟
روايات ميں مذكور ہے كہ فرعون كى ايك اكلوتى بيٹى تھي_وہ ايك سخت بيمارى سے شديد تكليف ميں تھي_فرعون نے اس كا بہت كچھ علاج كرايا مگر بے سود_اس نے كاہنوں سے پوچھا_ انھوں نے كہا:''اے فرعون ہم پيشن گوئي كرتے ہيں كہ اس دريا ميں سے ايك آدمى تيرے محل ميں داخل ہوگا_اگر اس كے منہ كى رال اس بيمار كے جسم پر ملى جائے گى تو اسے شفا ہوجائيگي_
چنانچہ فرعون اور اس كى ملكہ آسيہ ايسے واقعے كے انتظار ميں تھے كہ ناگہاں ايك روز انھيں ايك صندوق نظر آيا جو موجوں كى سطح پر تير رہا تھا_فرعون نے حكم ديا كہ سركارى ملازمين فوراً ديكھيں كہ يہ صندوق كيسا ہے اور اسے پانى ميں سے نكال ليں_ديكھيں كہ اس ميں كيا ہے؟
نوكروں نے وہ عجيب صندوق فرعون كے سامنے لاكے ركھ ديا_ كسى كو اس كا ڈھكنا كھولنے كى ہمت نہ ہوئي_ مطابق مشيت الہي،يہ لازمى تھا كہ حضرت موسى (ع) كى نجات كے ليے صندوق كا ڈھكنا فرعون ہى كے ہاتھ سے كھولا جائے،چنانچہ ايسا ہى ہوا_
جس وقت فرعون كى ملكہ نے اس بچے كو ديكھا تو اسے يوں محسوس ہواكہ ايك بجلى چمكى ہے جس نے اس كے دل كو منور كرديا ہے_
ان دونوں بالخصوص فرعون كى ملكہ كے دل ميں اس بچے كى محبت نے گھر بناليا اور جب اس بچے كا
آب دہن اس كے ليے موجب شفا ہوگيا تو يہ محبت اور بھى زيادہ ہوگئي _
قرآن ميں يہ واقعہ اس طرح مذكور ہے كہ:_فرعون كے اہل خانہ نے موسى (ع) كو نيل كى موجوں كے اوپر سے پكڑ ليا_ تا كہ وہ ان كا دشمن اور ان كے ليے باعث اندوہ ہوجائے_(1)
''يہ امر بديہى ہے كہ فرعون كے اہل خانہ نے اس بچے كے قنداقہ(وہ كپڑاجس ميں بچہ كو لپيٹتے ہيں)كو اس نيت سے دريا سے نہيں نكالا تھا كہ اپنے جانى دشمن كو اپنى گود ميں پاليں ،بلكہ وہ لوگ بقول ملكہ فرعون،اپنے ليے ايك نور چشم حاصل كرناچاہتے تھے_
ليكن انجام كار ايسا ہى ہوا،اس معنى و مراد كى تعبير ميںلطافت يہى ہے كہ خدا اپنى قدرت كا اظہار كرنا چاہتا ہے كہ وہ كس طرح اس گروہ كو جنھوں نے اپنى تمام قوتيں اور وسائل،بنى اسرائيل كى اولاد ذكور كو قتل كرنے كے ليے وقف كرديا تھا،اس خدمت پر مامور كرے كہ جس بچے كو نابود كرنے كے ليے انھوں نے يہ پروگرام بنايا تھا،اسى كوو وہ اپنى جان كى طرح عزيز ركھيں اور اسى كى پرورش كريں_
قرآن كى آيات سے يہ معلوم ہوتاہے كہ اس بچے كى بابت فرعون،اس كى ملكہ اور ديگر اہل خاندان ميں باہم نزاع اور اختلاف بھى ہوا تھا،كيونكہ قرآن شريف ميں يوں بيان ہے:فرعون كى بيوى نے كہا كہ يہ بچہ ميرى اور تيرى آنكھوں كا نور ہے_ اسے قتل نہ كرو_ ممكن ہے يہ ہمارے ليے نفع بخش ہو يا ہم اسے ہم اپنا بيٹابنا ليں_(2)
ايسا معلوم ہوتا ہے كہ فرعون بچے كے چہرے اور دديگر علامات سے،من جملہ ان كے اسے صندوق ميں ركھنے اور دريائے نيل ميںبہادينے سے يہ سمجھ گيا تھا كہ يہ بنى اسرائيل ميں سے كسى كا بچہ ہے_
يہ سمجھ كر ناگہاں،بنى اسرائيل ميں سے ايك آدمى كى بغاوت اور اس كى سلطنت كے زوال كا كابوس اس كى روح پر مسلط ہوگيا اور وہ اس امر كا خواہاں ہوا كہ اس كا وہ ظالمانہ قانون،جو بنى اسرائيل كے تمام نوزاد اطفال كے ليے جارى كيا گيا تھا اس بچے پر بھى نافذ ہو_
(1)سورہ قصص آيت 8
(2)قصص آيت 9
فرعون كے خوشامدى درباريوں او ررشتہ داروں نے بھى اس امر ميں فرعون كى تائيد و حمايت كى اور كہا اس كى كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ بچہ قانون سے مستثنى رہے_
ليكن فرعون كى بيوى آسيہ جس كے بطن سے كوئي لڑكا نہ تھا اور اس كا پاك دل فرعون كے درباريوں كى مانند نہ تھا،اس بچے كے ليے محبت كا كان بن گيا تھا_ چنانچہ وہ ان سب كى مخالفت پرآمادہ ہوگئي اور چونكہ اس قسم كے گھريلو اختلافات ميں فتح ہميشہ عورتوں كى ہوتى ہے،وہ بھى جيت گئي_
اگر اس گھريلو جھگڑے پر،دختر فرعون كى شفايابى كے واقعے كا بھى اضافہ كرليا جائے تواس اختلاف باہمى ميں آسيہ كى فتح كا امكان روشن تر ہو جاتا ہے_
قرآن ميںايك بہت ہى پر معنى فقرہ ہے:''وہ نہيںجانتے تھے كہ كيا كررہے ہيں:''(1)
البتہ وہ بالكل بے خبر تھے كہ خدا كا واجب النفوذ فرمان اور اس كى شكست ناپذير مشيت نے يہ تہيہ كرليا ہے كہ يہ طفل نوزاد انتہائي خطرات ميں پرورش پائے _ اور كسى آدمى ميں بھى ارادہ و مشيت الہى سے سرتابى كى جرا ت اور طاقت نہيں ہے''_
اللہ كى عجيب قدرت
اس چيز كانام قدرت نمائي نہيںہے كہ خداآسمان و زمين كے لشكروں كو مامور كركے كسى پُرقوت اور ظالم قوم كو نيست و نابود كردے_
بلكہ قدرت نمائي يہ ہے كہ ان ہى جباران مستكبر سے يہ كا م لے كر وہ اپنے آپ كو خود ہى نيست و نابود كرليں اور ان كے دل و دماغ ميں ايسے خيالات پيدا ہوجائيں كہ بڑے شوق سے لكڑياں جمع كريں اور اس كى آگ ميں جل مريں،اپنے ليے خودہى قيدخانہ بنائيں اور اسميںاسير ہوكے جان دے ديں، اپنے ليے خود ہى صليب كھڑى كريں اور اس پر چڑھ مرجائيں_
(1)سورہ قصص آيت 9
فرعون اوراسكے زور منداور ظالم ساتھيوں كے ساتھ بھى يہى پيش آيا_ چنانچہ تمام مراحل ميںحضرت موسى (ع) كى نجات اور پرورش انہى كے ہاتھوں سے ہوئي،حضرت موسى (ع) كى دايہ قبطيوں ميںسے تھي،صندوق موسى (ع) كو امواج نيل سے نكالنے اور نجات دينے والے متعلقين فرعون تھے،صندوق كا ڈھكنا كھولنے والا خود فرعون يا اس كى اہليہ تھي،اور آخر كا ر فرعون شكن اور مالك غلبہ و اقتدار موسى (ع) كے ليے امن و آرام اور پرورش كى جگہ خود فرعون كا محل قرار پايا_
يہ ہے پروردگار عالم خدا كى قدرت_
حضرت موسى عليہ السلام كى ماں نے اس طرح سے جيسا كہ ہم نے پيشتر بيان كيا ہے،اپنے فرزند كو دريائے نيل كى لہروں كے سپرد كرديا_ مگر اس عمل كے بعد اس كے دل ميں جذبات كا يكايك شديد طوفان اٹھنے لگا،نوزائيدہ بيٹے كى ياد،جس كے سوا اس كے دل ميں كچھ نہ تھا،اس كے احساسات پر غالب آگئي تھي،قريب تھا كہ وہ دھاڑيں مار كر رونے لگے اور اپنا راز فاش كردے،قريب تھا كہ چيخ مارے اور اپنے بيٹے كى جدائي ميں نالے كرے_
ليكن عنايت خداوندى اس كے شامل حال رہى جيسا كہ قرآن ميں مذكور ہے:''موسى عليہ السلام كى ماں كا دل اپنے فرزند كى ياد كے سوا ہر چيز سے خالى ہوگيا،اگر ہم نے اس كا دل ايمان اور اميد كے نور سے روشن نہ كيا ہوتا تو قريب تھا كہ وہ راز فاش كرديتي_ ليكن ہم نے يہ اس ليے كيا تاكہ وہ اہل ايمان ميں سے رہے''_(1)
يہ قطعى فطرى امر ہے كہ: ايك ماں جو اپنے بچے كو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا كرے وہ اپنى اولاد كے سوا ہر شے كو بھول جائے گي_ اور اس كے حواس ايسے باختہ ہو جائيںگے كہ ان خطرات كا لحاظ
(1)سورہ قصص آيت10
كيے بغير جو اس كے اور اس كے بيٹے دونوں كے سر پر منڈلارہے تھے فرياد كرے اور اپنے دل كا راز فاش كردے_
ليكن وہ خدا جس نے اس ماں كے سپرد يہ اہم فريضہ كيا تھا،اسى نے اس كے دل كو ايسا حوصلہ بھى بخشا كہ وعدہ الہى پر اس كا ايمان ثابت رہے اور اسے يہ يقين رہے كہ اس كا بچہ خدا كے ہاتھ ميں ہے آخر كار وہ پھر اسى كے پاس آجائے گا اور پيغمبر بنے گا_
اس لطف خداوندى كے طفيل ماںكے دل كا سكون لوٹ آيامگر اسے آرزورہى كہ وہ اپنے فرزندكے حال سے باخبر رہے'' اس لئے اس نے موسى عليہ السلام كى بہن سے كہاكہ جا تو ديكھتى رہ كہ اس پر كيا گزرتى ہے''_(1)
موسى عليہ السلام كى بہن ماں كا حكم بجالائي اور اتنے فاصلہ سے جہاں سے سب كچھ نظر آتا تھا ديكھتى رہى _ اس نے دور سے ديكھا كہ فرعون كے عمال اس كے بھائي كے صندوق كو پانى ميں سے نكال رہے ہيں اور موسى عليہ السلام كو صندوق ميں سے نكال كر گود ميں لے رہے ہيں_
''مگر وہ لوگ اس بہن كى ا س كيفيت حال سے بے خبر تھے_''_(2)
بہر حال ارادہ الہى يہ تھا كہ يہ طفل نوزاد جلد اپنى ماںكے پاس واپس جائے اور اس كے دل كو قرار آئے_اس ليے فرمايا گيا ہے :''ہم نے تمام دودھ پلانے والى عورتوں كو اس پر حرام كرديا تھا''_(3)
يہ طبيعى ہے كہ شير خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ہى بھوك سے رونے لگتا ہے اور بے تاب ہوجاتا ہے_ درين حال لازم تھا كہ موسى عليہ السلام كو دودھ پلانے كے ليے كسى عورت كى تلاش كى جاتي_ خصوصاً جبكہ ملكہ مصر اس بچے سے نہايت دل بستگى ركھتى تھى اور اسے اپنى جان كے برابر عزيز ركھتى تھي_
محل كے تمام خدام حركت ميں آگئے اور دربدر كسى دودھ پلانے والى كو تلاش كرنے لگے_مگر يہ عجيب بات تھى كہ وہ كسى كا دودھ پيتا ہى نہ تھا_
(1)سورہ قصص آيت11
(2)سورہ قصص آيت11
(3)سورہ قصص آيت12
ممكن ہے كہ وہ بچہ ان عورتوں كى صورت ہى سے ڈرتا ہو اور ان كے دودھ كا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس كا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو_اس بچے كا طور كچھ اس طرح كا تھا گويا كہ ان (دودھ پلانے والي)عورتوں كى گود سے اچھل كے دورجاگرے در اصل يہ خدا كى طرف سے''تحريم تكويني''تھى كہ اس نے تمام عورتوںكو اس پر حرام كرديا تھا_
بچہ لحظہ بہ لحظہ زيادہ بھوكا اور زيادہ بيتاب ہوتا جاتا تھا_ بار بار رورہا تھا اور اس كى آواز سے فرعون كے محل ميں شور ہورہا تھا_ اور ملكہ كا دل لرز رہا تھا_
خدمت پرمامور لوگوں نے اپنى تلاش كو تيز تر كرديا_ ناگہاں قريب ہى انھيں ايك لڑكى مل جاتى ہے_ وہ ان سے يہ كہتى ہے:ميںايك ايسے خاندان كو جانتى ہوں جو اس بچے كى كفالت كرسكتا ہے_ وہ لوگ اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں گے_
''كيا تم لوگ يہ پسند كروگے كہ ميں تمہيں وہاں لے چلوں''؟(1)
ميں بنى اسرائيل ميں سے ايك عورت كو جانتى ہوں جس كى چھاتيوںميںدودھ ہے اور اس كا دل محبت سے بھرا ہوا ہے_ اس كا ايك بچہ تھا وہ اسے كھو چكى ہے_ وہ ضرور اس بچے كو جو محل ميں پيدا ہوا ہے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گي_
وہ تلاش كرنے والے خدام يہ سن كر خوش ہوگئے اور موسى عليہ السلام كى ماں كو فرعون كے محل ميں لے گئے_ اس بچے نے جونہى اپنى ماں كى خوشبو سونگھى اس كا دودھ پينے لگا_ اور اپنى ماں كا روحانى رس چوس كر اس ميں جان تازہ آگئي_اسكى آنكھوں ميں خوشى كا نور چمكنے لگا_
اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے تھے_ بہت ہى زيادہ خوش و خرم تھے_ فرعون كى بيوى بھى اس وقت اپنى خوشى كو نہ چھپا سكي_ممكن ہے اس وقت لوگوں نے كہا ہوكہ تو كہاں چلى گئي تھي_ہم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ كے تھك گئے _ تجھ پر اورتيرے شير مشكل كشا پر آفرين ہے_
(1)سورہ قصص آيت12
جس وقت حضرت موسى عليہ السلام ماں كا دودھ پينے لگے،فرعون كے وزير ہامان نے كہا: مجھے لگتا ہے كہ تو ہى اسكى ماں ہے_ بچے نے ان تمام عورتوں ميں سے صرف تيرا ہى دودھ كيوں قبول كرليا؟
ماں نے كہا:اس كى وجہ يہ ہے كہ ميں ايسى عورت ہوں جس كے دودھ ميں سے خوشبو آتى ہے_ ميرا دودھ نہايت شيريں ہے_ اب تك جو بچہ بھى مجھے سپرد كيا گيا ہے_ وہ فوراً ہى ميرا دودھ پينے لگتا ہے_
حاضرين دربار نے اس قول كى صداقت كو تسليم كرليا اور ہر ايك نے حضرت موسى عليہ السلام كى ماںكو گراں بہا ہديے اور تحفے ديے_
ايك حديث جو امام باقر عليہ السلام سے مروى ہے اس ميں منقول ہے كہ:''تين دن سے زيادہ كا عرصہ نہ گزرا تھا كہ خدانے كے بچے كواس كى ماں كے پاس لوٹا ديا''_
بعض اہل دانش كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ليے يہ''تحريم تكويني''(يعنى دوسرى عورتوں كا حرام كيا جانا)اس سبب سے تھاكہ خدا يہ نہيں چاہتا تھا كہ ميرا فرستادہ پيغمبر ايسا دودھ پيئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ايسا مال كھاكے بنا ہو جو چوري،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس كو غصب كركے حاصل كيا گيا ہو_
خدا كى مشيت يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنى صالحہ ماں كے پاك دودھ سے غذا حاصل كريں_تاكہ وہ اہل دنيا كے شر كے خلاف ڈٹ جائيں اور اہل شروفساد سے نبردآزمائي كرسكيں_
''ہم نے اس طرح موسى عليہ السلام كو اس كى ماں كے پاس لوٹا ديا_تاكہ اس كى آنكھيں روشن ہوجائيں اور اس كے دل ميں غم واندوہ باقى نہ رہے اور وہ يہ جان لے كہ خدا كا وعدہ حق ہے_ اگر چہ اكثر لوگ يہ نہيں جانتے''_(1)
(1)سورہ قصص آيت 13
اس مقام پر ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ:كيا وابستگان فرعون نے موسى عليہ السلام كو پورے طور سے ماں كے سپرد كرديا تھا كہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلايا كرے اور دوران رضاعت روزانہ يا كبھى كبھى بچے كو محل ميں لايا كرے تا كہ ملكہ مصر اسے ديكھ ليا كرے يا يہ كہ بچہ محل ہى ميں رہتا تھا اور موسى عليہ السلام كى ماں معين اوقات ميں آكر اسے دودھ پلاجاتى تھي؟
مذكورہ بالا دونوں احتمالات كے ليے ہمارے پاس كوئي واضح دليا نہيں ہے_ ليكن احتمال اول زيادہ قرين قياس ہے_
ايك اور سوال يہ ہے كہ:
آيا عرصہ شير خوارگى كے بعد حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل ميں چلے گئے يا ان كا تعلق اپنى ماں اور خاندان كے ساتھ باقى رہا اور محل سے وہاں آتے جاتے رہے؟
اس مسئلے كے متعلق بعض صاحبان نے يہ كہا ہے كہ شير خوار گى كے بعد آپ كى ماں نے انھيں فرعون اور اس كى بيوى آسيہ كے سپرد كرديا تھا اور حضرت موسى عليہ السلام ان دونوں كے پاس پرورش پاتے رہے_
اس ضمن ميں راويوںنے فرعون كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كى طفلانہ(مگر با معنى )باتوں كا ذكر كيا ہے كہ اس مقام پر ہم ان كو بعذر طول كلام كے پيش نظر قلم انداز كرتے ہيں_ ليكن فرعون كا يہ جملہ جے اس نے بعثت موسى عليہ السلام كے بعد كہا:
''كيا ہم نے تجھے بچپن ميں پرورش نہيں كيا اور كيا تو برسوں تك ہمارے درميان نہيں رہا''_(1)
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب موسى عليہ السلام چند سال تك فرعون كے محل ميں رہتے تھے_
على ابن ابراھيم كى تفسير سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام تازمانہ بلوغ فرعون كے محل ميں نہايت احترام كے ساتھ رہے_مگر ان كى توحيد كے بارے ميں واضح باتيں فرعون كو سخت ناگوار ہوتى تھيں_
(1)سورہ شعراء آيت18
يہاں تك كہ اس نے انھيں قتل كرنے كا ارادہ كرليا_ حضرت موسى عليہ السلام اس خطرے كو بھاپ گئے اوربھاگ كر شہر ميں آگئے_ يہاں وہ اس واقعے سے دوچار ہوئے كہ دو آدمى لڑرہے تھے جن ميں سے ايك قبطى اور ايك سبطى تھا_(1)
موسى عليہ السلام مظلوموں كے مددگار كے طورپر
اب ہم حضرت موسى عليہ السلام كى نشيب و فراز سے بھرپور زندگى كے تيسرے دور كو ملاحظہ كر تے ہيں_
اس دور ميں ان كے وہ واقعات ہيں جو انھيں دوران بلوغ اور مصر سے مدين كو سفر كرنے سے پہلے پيش آئے اور يہ وہ اسباب ہيں جو ان كى ہجرت كا باعث ہوئے_
''بہر حال حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں اس وقت داخل ہوئے جب تمام اہل شہر غافل تھے''_(2)
يہ واضح نہيں ہے كہ يہ كونسا شہر تھا_ليكن احتمال قوى يہ ہے كہ يہ مصر كا پايہ تخت تھا_ بعض لوگوں كا قول ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اس مخالفت كى وجہ سے جو ان ميں فوعون اور اس كے وزراء ميں تھى اور بڑھتى جارہى تھي،مصر كے پايہ تخت سے نكال ديا گيا تھا_ مگر جب لوگ غفلت ميں تھے _ موسى عليہ السلام كو موقع مل گيا اور وہ شہر ميںآگئے_
اس احتمال كى بھى گنجائشے ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے محل سے نكل كر شہر ميں آئے ہوں كيونكہ عام طور پر فرعونيوں كے محلات شہر كے ايك كنارے پر ايسى جگہ بنائے جاتے تھے جہاں سے وہ شہر كى طرف آمدورفت كے راستوں كى نگرانى كرسكيں_
(1)اس واقعہ كى تفصيل آئندہ آئے گي
(2)سورہ قصص آيت 18
شہر كے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ ہوچكے تھے اور كوئي بھى شہر كى حالت كى طرف متوجہ نہ تھا_ مگر يہ كہ وہ وقت كونسا تھا؟بعض كا خيال ہے كہ''ابتدائے شب''تھي،جب كہ لوگ اپنے كاروبار سے فارغ ہوجاتے ہيں،ايسے ميں كچھ تو اپنے اپنے گھروں كى راہ ليتے ہيں_كچھ تفريح اور رات كوبيٹھ كے باتيں كرنے لگتے ہيں_
بہر كيف حضرت موسى عليہ السلام شہر ميں آئے اور وہاںايك ماجرے سے دوچار ہوئے ديكھا :'' دو آدمى آپس ميں بھڑے ہوئے ہيں اور ايك دوسرے كو مار رہے ہيں_ان ميں سے ايك حضرت موسى عليہ السلام كا طرف دار اور ان كا پيرو تھا اور دوسراان كا دشمن تھا''_(1)
كلمہ ''شيعتہ'' اس امر كا غماز ہے كہ جناب موسى (ع) اور بنى اسرائيل ميں اسى زمانے سے مراسم ہوگئے تھے اور كچھ لوگ ان كے پيرو بھى تھے احتمال يہ ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام اپنے مقلدين اور شيعوں كى روح كو فرعون كى جابرانہ حكومت كے خلاف لڑنے كے لئے بطور ايك مركزى طاقت كے تيار كررہے تھے _
جس وقت بنى اسرائيل كے اس آدمى نے موسى عليہ السلام كو ديكھا:'' تو ان سے اپنے ،دشمن كے مقابلے ميں امداد چاہي''_ (2)
حضرت موسى عليہ السلام اس كى مدد كرنے كےلئے تيار ہوگئے تاكہ اسے اس ظالم دشمن كے ہاتھ سے نجات دلائيں بعض علماء كا خيال ہے كہ وہ قبطى فرعون كا ايك باورچى تھا اور چاہتاتھا كہ اس بنى اسرائيل كو بيكار ميں پكڑكے اس سے لكڑياں اٹھوائے'' حضرت موسى عليہ السلام نے اس فرعونى كے سينے پر ايك مكامارا وہ ايك ہى مكے ميں مرگيا اور زمين پر گر پڑا ''_(3)
اس ميں شك نہيںكہ حضرت موسى كا اس فرعونى كو جان سے ماردينے كا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھى يہ خوب واضح ہوجاتاہے ايسا اس لئے نہ تھا كہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلكہ انھيں ان نتائج كا خيال تھا جو خود حضرت موسى اور بنى اسرائيل كو پيش آسكتے تھے _
(1)سورہ قصص آيت 15
(2)سورہ قصص آيت15
(3) سورہ قصص آيت15
لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے فوراً كہا:'' كہ يہ كام شيطان نے كرايا ہے كيونكہ وہ انسانوں كا دشمن اور واضح گمراہ كرنے والاہے ''_(1)
اس واقعے كى دوسرى تعبير يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام چاہتے تھے كہ بنى اسرئيلى كا گريبان اس فرعونى كے ہاتھ سے چھڑا ديں ہر چند كہ وابستگان فرعون اس سے زيادہ سخت سلوك كے مستحق تھے ليكن ان حالات ميں ايسا كام كر بيٹھنا قرين مصلحت نہ تھا اور جيسا كہ ہم آگے ديكھيں گے كہ حضرت موسى اسى عمل كے نتيجے ميں پھر مصر ميں نہ ٹھہرسكے اور مدين چلے گئے _
پھر قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام كا يہ قول نقل كيا گيا ہے اس نے كہا:''پروردگار اميں نے اپنے اوپر ظلم كيا تو مجھے معاف كردے ،اور خدا نے اسے بخش ديا كيونكہ وہ غفورو رحيم ہے ''_(2)
يقينا حضرت موسى عليہ السلام اس معاملے ميں كسى گناہ كے مرتكب نہيں ہوئے بلكہ حقيقت ميں ان سے ترك اولى سرزد ہوا كيونكہ انہيں ايسى بے احتياطى نہيں كرنى چاہيئے تھى جس كے نتيجے ميں وہ زحمت ميں مبتلا ہوں حضرت موسى نے اسى ترك اولى كے لئے خدا سے طلب عفو كيا اور خدا نے بھى انھيں اپنے لطف وعنايت سے بہرہ مند كيا _
حضرت موسى عليہ السلام نے كہا: خداوندا تيرے اس احسان كے شكرانے ميں كہ تونے ميرے قصور كو معاف كرديا اور دشمنوں كے پنجے ميںگرفتار نہ كيا اور ان تمام نعمتوں كے شكريہ ميں جو مجھے ابتداء سے اب تك مرحمت كرتا رہا،ميں عہد كرتا ہوں كہ ہر گز مجرموں كى مدد نہ كروں گا اور ظالموں كا طرف دار نہ ہوں گا ''_(3)
بلكہ ہميشہ مظلومين اور ستم ديدہ لوگوں كا مددگارر ہوں گا _(4)
(1) سورہ قصص آيت15
(2)سورہ قصص آيت15
(3)سورہ قصص آيت 17
(4)كيا حضرت موسى عليہ السلام كا يہ كا م مقام عصمت كے خلاف نہيں ہے ؟
مفسرين نے ، اس قبطى اور بنى اسرائيل كى باہمى نزاع اور حضرت موسى كے ہاتھ سے مرد قبطى كے مارے جانے كے بارے ميں بڑى طويل بحثيں كى ہيں _
فرعونيوں ميں سے ايك آدمى كے قتل كى خبر شہر ميں بڑى تيزى سے پھيل گئي قرائن سے شايد لوگ يہ سمجھ گئے تھے كہ اس كا قائل ايك بنى اسرائيل ہے اور شايد اس سلسلے ميں لوگ موسى عليہ السلام كا نام بھى ليتے تھے_
البتہ يہ قتل كوئي معمولى بات نہ تھى اسے انقلاب كى ايك چنگارى يا اس كا مقدمہ شمار كيا جاتاتھا اور
درحقيقت يہ معاملہ كوئي اہم اور بحث طلب تھا ہى نہيں كيونكہ ستم پسند وابستگان فرعون نہايت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنى اسرائيل كے ہزاروں بچوںكے سرقلم كيے اور بنى اسرائيل پر كسى قسم كا ظلم كرنے سے بھى دريغ نہ كيا اس جہت سے يہ لوگ اس قابل نہ تھے كہ بنى اسرائيل كےلئے ان كا قتل احترام انسانيت كے خلاف ہو _
البتہ مفسرين كے لئے جس چيزنے دشوارياں پيدا كى ہيں وہ اس واقعے كى وہ مختلف تعبيرات ہيں جو خود حضرت موسى نے كى ہيں چنانچہ وہ ايك جگہ تو يہ كہتے ہيں:
''ھذا من عمل الشيطان ''
''يہ شيطانى عمل ہے ''_
اور دوسرى جگہ يہ فرمايا:
''رب انى ظلمت نفسى فاغفرلى ''
''خداياميںنے اپنے نفس پر ظلم كيا تو مجھے معاف فرمادے ''_
جناب موسى عليہ السلام كى يہ دونوں تعبيرات اس مسلمہ حقيقت سے كيونكر مطابقت ركھتى ہيں كہ :
عصمت انبيا ء كا مفہوم يہ ہے كہ انبيا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ہر دو حالات ميں معصوم ہوتے ہيں '' _
ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے اس عمل كى جو توضيح ہم نے آيات فوق كى روشنى ميں پيش كى ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے كہ حضرت موسى سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى سے زيادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ كو زحمت ميں مبتلاكرليا كيونكہ حضرت موسى كے ہاتھ سے ايك قبطى كا قتل ايسى بات نہ تھى كہ وابستگان فرعون اسے آسانى سے برداشت كرليتے_
نيز ہم جانتے ہيںكہ ''ترك اولى ''كے معنى ايسا كام كرنا ہے جو بذات خود حرام نہيں ہے_ بلكہ اس كا مفہوم يہ ہے كہ ''عمل احسن ''ترك ہوگيا بغير اس كے كہ كوئي عمل خلاف حكم الہى سرزد ہوا ہو؟
حكومت كى مشينرى اسے ايك معمولى واقعہ سمجھ كراسے چھوڑنے والى نہ تھى كہ بنى اسرائيل كے غلام اپنے آقائوں كى جان لينے كا ارادہ كرنے لگيں_
لہذا ہم قرآن ميں يہ پڑھتے ہيں كہ'' اس واقعے كے بعد موسى شہر ميں ڈررہے تھے اور ہر لحظہ انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا اور وہ نئي خبروں كى جستجو ميں تھے ''_(1)
ناگہاں انہيں ايك معاملہ پيش آيا آپ نے ديكھا كہ وہى بنى اسرائيلى جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب كى تھى انھيں پھر پكاررہا تھا اور مدد طلب كررہاتھا (وہ ايك اور قبطى سے لڑرہا تھا) _
''ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اس سے كہا كہ تو آشكارا طور پر ايك جاہل اور گمراہ شخص ہے''_(2)
توہر روز كسى نہ كسى سے جھگڑ پڑتا ہے اور اپنے لئے مصيبت پيدا كرليتا ہے اور ايسے كام شروع كرديتا ہے جن كا ابھى موقع ہى نہيں تھا كل جو كچھ گزرى ہے ميں تو ابھى اس كے عواقب كا انتظار كرہا ہوں اور تونے وہى كام از سر نو شروع كرديا ہے _
بہر حال وہ ايك مظلوم تھا جو ايك ظالم كے پنجے ميں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے كچھ قصور ہوا ہو يانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسى كے لئے يہ ضرورى ہوگيا كہ اس كى مدد كريں اور اسے اس قبطى كے رحم وكرم پر نہ چھوڑديں ليكن جيسے ہى حضرت موسى نے يہ اراداہ كيا كہ اس قبطى آدمى كو (جو ان دونوں كا دشمن تھا )پكڑ كر اس بنى اسرائيل سے جدا كريں وہ قبطى چلايا، اس نے كہا :
اے موسى : كيا تو مجھے بھى اسى طرح قتل كرنا چاہتا ہے جس طرح تو نے كل ايك شخص كو قتل كيا تھا''_(3)''تيرى حركات سے تو ايسا ظاہر ہوتا ہے كہ تو زمين پر ايك ظالم بن كررہے گا اور يہ نہيں چاہتا كہ مصلحين ميں سے ہو ''_(4)
(1)سورہ قصص آيت15
(2)سورہ قصص آيت16
(3)سورہ قصص آيت19
(4)سورہ قصص آيت 19
اس جملے سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے فرعون كے محل اور اس كے باہر ہر دو جگہ اپنے مصلحانہ خيالات كا اظہار شروع كرديا تھا بعض روايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ اس موضوع پر ان كے فرعون سے اختلافات بھى پيدا ہوگئے تھے اسى لئے تو اس قبطى آدمى نے يہ كہا :
يہ كيسى اصلاح طلبى ہے كہ تو ہر روز ايك آدمى كو قتل كرتاہے ؟
حالانكہ اگر حضرت موسى كا يہ ارادہ ہوتا كہ اس اس ظالم كو بھى قتل كرديں تو يہ بھى راہ اصلاح ميں ايك قدم ہوتا _
بہركيف حضرت موسى كو يہ احساس ہوا كہ گزشتہ روز كا واقعہ طشت ازبام ہوگيا ہے اور اس خوف سے كہ اور زيادہ مشكلات پيدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے ميں دخل نہ ديا _
اس واقعے كى فرعون اور اس كے اہل دربار كو اطلاع پہنچ گئي انھوں نے حضرت موسى سے اس عمل كے مكرر سرزد ہونے كو اپنى شان سلطنت كے لئے ايك تہديد سمجھا _ وہ باہم مشورے كے لئے جمع ہوئے اور حضرت موسى كے قتل كا حكم صادر كرديا _
(جہاں فرعون اور اس كے اہل خانہ رہتے تھے)وہاں سے ايك شخص تيزى كے ساتھ حضرت موسى كے پاس آيا اور انھيں مطلع كيا كہ آپ كو قتل كرنے كا مشورہ ہورہا ہے ، آپ فورا شہرسے نكل جائيں ، ميں آپ كا خير خواہ ہوں_'' (1)
يہ آدمى بظاہر وہى تھا جو بعد ميں ''مومن آل فرعون ''كے نام سے مشہور ہوا ،كہا جاتاہے كہ اس كا نام حزقيل تھا وہ فرعون كے قريبى رشتہ داروں ميں سے تھا اور ان لوگوں سے اس كے ايسے قريبى روابط تھے كہ ايسے مشوروں ميں شريك ہوتا تھا _
(1) سورہ قصص آيت 19
اسے فرعون كے جرائم اور اس كى كرتوتوں سے بڑا دكھ ہوتا تھا اور اس انتظار ميں تھا كہ كوئي شخص اس كے خلاف بغاوت كرے اور وہ اس كار خير ميں شريك ہوجائے _
بظاہر وہ حضرت موسى عليہ السلام سے يہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان كى پيشانى ميں من جانب اللہ ايك انقلابى ہستى كى علامات ديكھ رہا تھا اسى وجہ سے جيسے ہى اسے يہ احساس ہوا كہ حضرت موسى خطرے ميں ہيں ، نہايت سرعت سے ان كے پاس پہنچا اور انھيں خطرے سے بچاليا _
ہم بعد ميں ديكھيں گے كہ وہ شخص صرف اسى واقعے ميں نہيں ، بلكہ ديگر خطرناك مواقع پر بھى حضرت موسى كے لئے بااعتماد اور ہمدرد ثابت ہواحضرت موسى عليہ السلام نے اس خبر كو قطعى درست سمجھا اور اس ايماندار آدمى كى خيرخواہى كو بہ نگاہ قدر ديكھا اور اس كى نصيحت كے مطابق شہر سے نكل گئے_''اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ہر گھڑى انہيں كسى حادثے كا كھٹكا تھا ''_(1)
حضرت موسى عليہ السلام نے نہايت خضوع قلب كے ساتھ متوجہ الى اللہ ہوكر اس بلا كو ٹالنے كےلئے اس كے لطف وكرم كى درخواست كى :''اے ميرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رہائي بخش ''_(2)
ميں جانتاہوں كہ وہ ظالم اور بے رحم ہيں ميں تو مظلوموں كى مدافعت كررہاتھا اور ظالموں سے ميرا كچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے ميں نے اپنى توانائي كے مطابق مظلوموں سے ظالموں كے شركو دور كيا ہے تو بھى اے خدائے بزرگ ظالموں كے شركو مجھ سے دور ركھ _
حضرت موسى عليہ السلام نے پختہ ارادہ كرليا كہ وہ شہرمدين كو چلے جائيں يہ شہر شام كے جنوب اور حجاز كے شمال ميں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ كى حكومت ميں شامل نہ تھا _
مدين كہاں تھا؟
''مدين '' ايك شہر كانام تھا جس ميں حضرت شعيب اور ان كا قبيلہ رہتا تھا يہ شہر خليج عقبہ كے مشرق ميں
(1)سورہ قصص آيت21
(2)سورہ قصص آيت21
تھا (يعنى حجاز كے شمال اور شامات كے جنوب ميں )وہاں كے باشندے حضرت اسماعيل (ع) كى نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطين سے تجارت كرتے تھے آج كل اس شہر كانام معان ہے (1)
نقشے كو غور سے دبكھيں تو معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كا مصر سے كچھ زبادہ فاصلہ نہيں ہے،اسى لئے حضرت موسى عليہ السلام چند روز ميں وہاں پہنچ گئے_
ملك اردن كے جغرافيائي نقشہ ميں، جنوب غربى شہروں ميں سے ايك شہر'' معان '' نام كا ملتا ہے ، جس كا محل وقوع ہمارے مذكورہ بالا بيان كے مطابق ہے _
ليكن وہ جوان جو محل كے اندار نازو نعم ميں پلا تھا ايك ايسے سفر پر روانہ ہو رہا تھا جيسے كہ سفر اسے كبھى زندگى بھر پيش نہ آيا تھا_
اس كے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہ سفر، نہ كوئي سوارى ، نہ رفيق راہ اور نہ كوئي راستہ بتانے والا ،ہردم يہ خطرہ لاحق تھا_
كہ حكومت كے اہلكار اس تك پہنچ جائيں اور پكڑكے قتل كرديں اس حالت ميں ظاہر ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كا كيا حال ہوگا _
ليكن حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ مقدر ہوچكا تھا كہ وہ سختى اور شدت كے دنوں كو پيچھے چھوڑديں اور قصرفرعون انھيں جس جال ميں پھنسانا چاہتا تھا_
اسے توڑكر باہر نكل آئيں اور وہ كمزور اور ستم ديدہ لوگوں كے پاس رہيں ان كے درد وغم كا بہ شدت احساس كريں ور مستكبرين كے خلاف ان كى منفعت كے لئے بحكم الہى قيام فرمائيں_
(1) بعض لوگ كلمہ '' مدين '' كا اطلاق اس قوم پر كرتے ہيں جو خليج عقيہ سے كوہ سينا تك سكونت پذير تھى توريت ميں بھى اس قوم كو '' مديان ''كہا گيا ہے _
بعض اہل تحقيق نے اس شہر كى وجہ تسميہ بھى لكھى ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) كا ايك بيٹا جس كا نام '' مدين '' تھا اس شہر ميں رہتا تھا_
اس طويل ، بے زادو راحلہ اور بے رفيق ورہنما سفر ميں ايك عظيم سرمايہ ان كے پاس تھا اور وہ تھا ايمان اور توكل برخدا _
''لہذا جب وہ مدين كى طرف چلے تو كہا : خدا سے اميد ہے كہ وہ مجھے راہ راست كى طرف ہدايت كرے گا''_(1)
اس مقام پر ہم اس سرگزشت كے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ہيں اور وہ موقع يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام شہرمدين ميں پہنچ گئے ہيں _
يہ جوان پاكباز انسان كئي روز تك تنہا چلتا رہا يہ راستہ وہ تھا جو نہ كبھى اس نے ديكھا تھا نہ اسے طے كيا تھا بعض لوگوں كے قول كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام مجبور تھے كہ پابرہنہ راستہ طے كريں، بيان كيا گيا ہے كہ مسلسل آٹھ روز تك چلتے رہے يہاں تك كہ چلتے چلتے ان كے پائوں ميں چھالے پڑگئے _
جب بھوك لگتى تھى تو جنگل كى گھاس اور درختوں كے پتے كھاليتے تھے ان تمام مشكلات اور زحمات ميں صرف ايك خيال سے ان كے دل كوراحت رہتى تھى كہ انھيں افق ميں شہرمدين كا منظر نظر آنے لگا ان كے دل ميں آسود گى كى ايك لہر اٹھنے لگى وہ شہر كے قريب پہنچے انہوں نے لوگوں كا ايك انبوہ ديكھا وہ فورا سمجھ گئے كہ يہ لوگ چرواہے ہيں كہ جو كنويں كے پاس اپنى بھيڑوں كو پانى پلانے آئے ہيں _
''جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے تو انھوں نے وہاں بہت سے آميوں كو ديكھا جو كنويں سے پانى بھر كے اپنے چوپايوں كو پلارہے تھے،انھوں نے اس كنويں كے پاس دو عورتوں كو ديكھا كہ وہ اپنى بھيڑوں كو لئے كھڑى تھيں مگر كنويں كے قريب نہيں آتى تھيں''_ (2)
ان باعفت لڑكيوں كى حالت قابل رحم تھى جو ايك گوشے ميں كھڑى تھيں اور كوئي آدمى بھى ان كے
(1) سورہ قصص آيت 22
(2)سورہ قصص آيت23
ساتھ انصاف نہيں كرتا تھا چرواہے صرف اپنى بھيڑوں كى فكر ميں تھے اور كسى اور كو موقع نہيں ديتے تھے حضرت موسى عليہ السلام نے ان لڑكيوں كى يہ حالت ديكھى تو ان كے نزديك آئے اور پوچھا :
'' تم يہاں كيسے كھڑى ہو''_(1)
تم آگے كيوں نہيں بڑھتيںاور اپنى بھيڑوں كو پانى كيوں نہيں پلاتيں ؟
حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہ حق كشى ، ظلم وستم ، بے عدالتى اور مظلوموں كے حقوق كى عدم پاسدارى جو انھوں نے شہر مدين ميں ديكھي، قابل برداشت نہ تھى _
مظلوموں كو ظالم سے بچانا ان كى فطرت تھى اسى وجہ سے انھوں نے فرعون كے محل اور اس كى نعمتوں كو ٹھكراديا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنى اس روش حيات كو ترك نہيں كرسكتے تھے اور ظلم كو ديكھ كر خاموش نہيں رہ سكتے تھے _
لڑكيوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے جواب ميں كہا :'' ہم اس وقت تك اپنى بھيڑوں كو پانى نہيں پلاسكتے، جب تك تمام چرواہے اپنے حيوانات كو پانى پلاكر نكل نہ جائيں ''_(2)
ان لڑكيوںنے اس بات كى وضاحت كے لئے كہ ان باعفت لڑكيوں كے باپ نے انھيں تنہا اس كام كے لئے كيوں بھيج ديا ہے يہ بھى اضافہ كيا كہ ہمارا باپ نہايت ضعيف العمرہے _
نہ تو اس ميں اتنى طاقت ہے كہ بھيڑوں كو پانى پلاسكے اور نہ ہمارا كوئي بھائي ہے جو يہ كام كرلے اس خيال سے كہ كسى پر بارنہ ہوں ہم خود ہى يہ كام كرتے ہيں _
حضرت موسى عليہ السلام كو يہ باتيں سن كر بہت كوفت ہوئي اور دل ميں كہا كہ يہ كيسے بے انصاف لوگ ہيں كہ انھيں صرف اپنى فكر ہے اور كسى مظلوم كى ذرا بھى پرواہ نہيں كرتے _
وہ آگے آئے ،بھارى ڈول اٹھايا اور اسے كنوئيں ميں ڈالا، كہتے ہيں كہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا كہ چند
(1) سورہ قصص آيت 23
(2)سورہ قصص آيت 24
آدمى مل كر اسے كھينچ سكتے تھے ليكن حضرت موسى عليہ السلام نے اپنے قوى بازوئوں سے اسے اكيلے ہى كھينچ ليا اور ان دونوں عورتوں كى بھيڑوں كو پانى پلاديا ''_(1)
بيان كيا جاتاہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام كنويں كے قريب آئے اورلوگوں كو ايك طرف كيا تو ان سے كہا:'' تم كيسے لوگ ہو كہ اپنے سوا كسى اور كى پرواہ ہى نہيں كرتے ''_
يہ سن كر لوگ ايك طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسى كے حوالے كركے بولے :
'' ليجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانى كھينچ سكتے ہيں،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كو تنہاچھوڑ ديا،ليكن حضرت موسى عليہ السلام اس وقت اگرچہ تھكے ہوئے تھے،اور انھيں بھوك لگ رہى تھى مگر قوت ايمانى ان كى مدد گار ہوئي ، جس نے ان كى جسمانى قوت ميں اضافہ كرديا اور كنويں سے ايك ہى ڈول كھينچ كر ان دنوں عورتوں كى بھيڑوںكو پانى پلاديا _
اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سائے ميں آبيٹھے اور بارگاہ ايزدى ميں عرض كرنے لگے :'' خداوند اتو مجھے جو بھى خيراور نيكى بخشے ، ميں اس كا محتاج ہوں ''_(2)
حضرت موسى عليہ السلام ( اس وقت ) تھكے ہوئے اور بھوكے تھے اس شہر ميں اجنبى اور تنہاتھے اور ان كے ليے كو ئي سرچھپانے كى جگہ بھى نہ تھى مگر پھر بھى وہ بے قرار نہ تھے آپ كا نفس ايسا مطمئن تھا كہ دعا كے وقت بھى يہ نہيں كہا كہ'' خدايا تو ميرے ليے ايسا ياويسا كر'' بلكہ يہ كہا كہ : تو جو خير بھى مجھے بخشے ميں اس كا محتاج ہوں '' _
يعنى صرف اپنى احتياج اور نياز كو عرض كرتے ہيں اور باقى امور الطاف خداوندى پر چھوڑديتے ہيں _
ليكن ديكھو كہ كار خير كيا قدرت نمائي كرتا ہے اور اس ميں كتنى عجيب بركات ہيں صرف ''لوجہ اللہ'' ايك قدم اٹھانے اور ايك نا آشنا مظلوم كى حمايت ميں كنويں سے پانى كے ايك ڈول كھيچنے سے حضرت موسى كي
(1) سورہ قصص آيت24
(2) سورہ قصص آيت 24
زندگى ميں ايك نياباب كھل گيا اور يہ عمل خيران كے ليے بركات مادى اور روحانى دنيا بطور تحفہ لايا اور وہ ناپيدا نعمت (جس كے حصول كےلئے انھيں برسوں كوشش كرنا پڑتى ) اللہ نے انھيں بخش دى حضرت موسى عليہ السلام كے لئے خوش نصيبى كا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے يہ ديكھا كہ ان دونوں بہنوں ميں سے ايك نہايت حياسے قدم اٹھاتى ہوئي آرہى ہے اس كى وضع سے ظاہر تھا كہ اسكوايك جوان سے باتيں كرتے ہوئے شرم آتى ہے وہ لڑكى حضرت موسى عليہ السلام كے قريب آئي اور صرف ايك جمكہ كہا : ميرے والد صاحب آپ كو بلاتے ہيں تاكہ آپ نے ہمارى بكريوں كے لئے كنويں سے جو پانى كھينچا تھا ، اس كا معاوضہ ديں ''_(1)
يہ سن كر حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں اميد كى بجلى چمكى گوياانھيں يہ احساس ہوا كہ ان كے لئے ايك عظيم خوش نصيبى كے اسباب فراہم ہورہے ہيں وہ ايك بزرگ انسان سے مليں گے وہ ايك ايسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ہے جو يہ بات پسند نہيں كرتا كہ انسان كى كسى زحمت كا، يہاں تك كہ پانى كے ايك ڈول كھيچنے كا بھى معاوضہ نہ دے يہ ضرور كوئي ملكوتى اور الہى انسان ہوگا يا اللہ يہ كيسا عجيب اور نادر موقع ہے ؟
بيشك وہ پير مرد حضرت شعيب(ع) پيغمبر تھے انہوں نے برسوں تك اس شہر كے لوگوں كو'' رجوع الى اللہ''كى دعوت دى تھى وہ حق پرستى اور حق شناسى كا نمونہ تھے _
جب انھيں كل واقعے كا علم ہوا تو انھوں نے تہيہ كرليا كہ اس اجنبى جوان كو اپنے دين كى تبليغ كريں گے _
چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام اس جگہ سے حضرت شعيب كے مكان كى طرف روانہ ہوئے _
بعض روايات كے مطابق وہ لڑكى رہنمائي كے لئے ان كے آگے چل رہى تھى اور حضرت موسى عليہ السلام اس كے پيچھے چل رہے تھے اس وقت تيز ہوا سے اس لڑكى كا لباس اڑرہا تھا اور ممكن تھا كہ ہوا كى تيزي
(1) سورہ قصص آيت 25
لباس كو اس كے جسم سے اٹھادے حضرت موسى (ع) كى پاكيزہ طبيعت اس منظر كو ديكھنے كى اجازت نہيں ديتى تھي،اس لڑكى سے كہا:ميں آگے آگے چلتا ہوں،تم راستہ بتاتے رہنا_
جب جناب موسى عليہ السلام حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر پہنچ گئے ايسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس كے ہر گوشے سے روحانيت نماياں تھى انھوں نے ديكھا كہ ايك پير مرد، جس كے بال سفيد ہيں ايك گوشے ميں بيٹھا ہے اس نے حضرت موسى عليہ السلام كو خوش آمديد كہا اور پوچھا:
'' تم كون ہو ؟ كہاں سے آرہے ہو ؟ كيا مشغلہ ہے ؟ اس شہر ميں كيا كرتے ہو ؟ اور آنے كا مقصد كيا ہے ؟ تنہا كيوں ہو ؟
حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت شعيب عليہ السلام كے پاس پہنچے اور انھيں اپنى سرگزشت سنائي تو حضرت شعيب عليہ السلام نے كہا مت ڈرو، تمہيں ظالموں كے گروہ سے نجات مل گئي ہے _'' (1)
ہمارى سرزمين ان كى حدود سلطنت سے باہر ہے يہاں ان كا كوئي اختيار نہيں چلتا اپنے دل ميں ذرہ بھر پريشانى كو جگہ نہ دينا تم امن وامان سے پہنچ گئے ہو مسافرت اور تنہائي كا بھى غم نہ كرو يہ تمام مشكلات خدا كے كرم سے دور ہوجائيں گى _ حضرت مو سى عليہ السلام فورا ًسمجھ گئے كہ انھيں ايك عالى مرتبہ استاد مل گيا ہے، جس كے وجود سے روحانيت ، تقوى ، معرفت اور زلال عظيم كے چشمے پھوٹ رہے ہيں اور يہ استاد ان كى تشنگى تحصيل علم ومعرفت كو سيراب كرسكتا ہے _
حضرت شعيب عليہ السلام نے بھى يہ سمجھ ليا كہ انھيں ايك لائق اور مستعد شاگرد مل گيا ہے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگى بھر كے تجربات سے فيض ياب كرسكتے ہيں _
يہ مسلم ہے كہ ايك شاگرد كو ايك بزرگ اور قابل استاد پاكر جتنى مسرت ہوتى ہے استاد كو بھى ايك لائق شاگرد پاكر اتنى ہى خوشى ہوتى ہے_
(1) سورہ قصص آيت 25
اب حضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے چھٹے دور كا ذكر شروع ہوتا ہے حضرت موسى عليہ السلام جناب شعيب عليہ السلام كے گھر آگئے يہ ايك سادہ ساديہاتى مكان تھا، مكان صاف ستھرا تھا اور روحانيت سے معمور تھا جب حضرت موسى عليہ السلام نے جناب شعيب عليہ السلام كو اپنى سرگزشت سنائي تو ان كى ايك لڑكى نے ايك مختصر مگر پر معنى عبارت ميں اپنے والد كے سامنے يہ تجويز پيش كى كہ موسى عليہ السلام كو بھيڑوں كى حفاظت كے لئے ملازم ركھ ليں وہ الفاظ يہ تھے :
اے بابا : آپ اس جوان كو ملازم ركھ ليں كيونكہ ايك بہترين آدمى جسے آپ ملازم ركھ سكتے ہيں وہ ايسا ہونا چاہئے جو قوى اور امين ہو اور اس نے اپنى طاقت اور نيك خصلت دونوں كا امتحان دے ديا ہے'' _(1)
جس لڑكى نے ايك پيغمبر كے زيرسايہ تربيت پائي ہوا سے ايسى ہى مو دبانہ اور سوچى سمجھى بات كہنى چاہئے نيز چاہئے كہ مختصر الفاظ اور تھوڑى سى عبارت ميں اپنا مطلب ادا كردے _
اس لڑكى كو كيسے معلوم تھا كہ يہ جوان طاقتور بھى ہے اور نيك خصلت بھى كيونكہ اس نے پہلى باركنويں پر ہى اسے ديكھا تھا اور اس كى گزشتہ زندگى كے حالات سے وہ بے خبر تھي؟
اس سوال كا جواب واضح ہے اس لڑكى نے اس جوان كى قوت كو تو اسى وقت سمجھ ليا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑكيوں كا حق دلانے كے لئے چرواہوں كو كنويں سے ايك طرف ہٹايا تھا اور اس بھارى ڈول كو اكيلے ہى كنويں سے كھينچ ليا تھا اور اس كى امانت اور نيك چلنى اس وقت معلوم ہوگئي تھى كہ حضرت شعيب عليہ السلام كے گھر كى راہ ميں اس نے يہ گوارا نہ كيا كہ ايك جوان لڑكى اس كے آگے آگے چلے كيونكہ ممكن تھا كہ تيز ہوا سے اس كا لباس جسم سے ہٹ جائے _
علاوہ بريں اس نوجوان نے اپنى جو سرگزشت سنائي تھى اس كے ضمن ميں قبطيوں سے لڑائي كے ذكر
next | index |