index back

سامرى كو چونكہ اس بات كا احساس تھاكہ قوم موسى عليہ السلام عرصہ دراز محرومى اور مظلومى كى زندگى بسر كررہى تھى اس وجہ سے اس ميں ماد ہ پرستى پائي جاتى تھى اور حب زر كا جذبہ بدرجہ اتم پايا جاتا تھا_ جيسا كہ آج بھى ان كى يہى صفت ہے لہذا اس نے يہ چالاكى كى كہ وہ مجسمہ سونے كا بناياكہ اس طرح ان كى تو جہ زيادہ سے زيادہ اس كى طرف مبذول كراسكے_

اب رہا يہ سوال كہ اس محروم و فقير ملت كے پاس اس روز اتنى مقدارميں زروزيور كہاں سے آگيا كہ اس سے يہ مجسمہ تيار ہوگيا؟اس كا جواب روايات ميں اس طرح ملتا ہے كہ بنى اسرائيل كى عورتوں نے ايك تہوار كے موقع پر فرعونيوں سے زيورات مستعار لئے تھے يہ اسوقت كى بات ہے جس كے بعد ان كى غرقابى عمل ميں آئي تھي_اس كے بعد وہ زيورات ان عورتوں كے پاس باقى رہ گئے تھے_

اتنا ضرور ہے كہ يہ حادثہ مثل ديگر اجتماعى حوادث كے بغير كسى آمادگى اور مقدمہ كے وقوع پذيز نہيں ہوا بلكہ اس ميں متعدد اسباب كار فرما تھے،جن ميں سے بعض يہ ہيں:

بنى اسرائيل عرصہ دراز سے اہل مصر كى بت پرستى ديكھتے آرہے تھے_

جب دريائے نيل كو عبور كيا تو انہوں نے ايك قوم كو ديكھا جو بت كى پرستش كرتى تھي_ جيسا كہ قرآن نے بھى اس كا ذكر كيا ہے اور گذشتہ ميں بھى اس كا ذكر گزرا كہ بنى اسرائيل نے حضرت موسى عليہ السلام سے ان كى طرح كا بت بنانے كى فرمائشے كى جس پر حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں سخت سرزنش كي_

حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كاپہلے تيس راتوں كا ہونا اس كے بعد چاليس راتوں كا ہوجانا اس سے بعض منافقوں كو يہ موقع ملاكہ حضرت موسى عليہ السلام كى وفا ت كى افواہ پھيلا ديں_

قوم موسى عليہ السلام ميں بہت سے افرادكا جہل و نادانى سے متصف ہونا اس كے مقابلے ميں سامرى كى مكارى و مہارت كيونكہ اس نے بڑى ہوشيارى سے بت پرستى كے پروگرام كو عملى جامہ پہنايا، بہر حال ان تمام باتوں نے اكٹھا ہوكر اس بات كے اسباب پيدا كئے كہ بنى اسرائيل كى اكثريت بت پرستى كو قبول كرے اور''گوسالہ''كے چاروں طرف اس كے ماننے والے ہنگامہ برپاكرديں_

دودن ميں چھ لاكھ گوسالہ پرست بن گئے

سب سے بڑھ كرعجيب بات يہ ہے كہ بعض مفسرين نے يہ بيان كيا ہے كہ بنى اسرائيل ميں يہ انحرافى تبديلياں صرف گنتى كے چند دنوں كے اندر واقع ہوگئيں جب موسى عليہ السلام كو ميعاد گاہ كى طرف گئے ہوئے 35/دن گزر گئے تو سامرى نے اپنا كام شروع كرديا اور بنى اسرائيل سے مطالبہ كيا كہ وہ تمام زيورات جو انہوں نے فرعونيوں سے عاريتاًلئے تھے اور ان كے غرق ہوجانے كے بعد وہ انھيں كے پاس رہ گئے تھے انہيں جمع كريں چھتيسويں ، سنتيسويں اور اڑ تيسويں دن انہيں ايك كٹھائي ميں ڈالااور پگھلاكر اس سے گوسالہ كا مجسمہ بنا ديا اور انتاليسويں دن انہيں اس كى پرستش كى دعوت دى اور ايك بہت بڑى تعداد (كچھ روايات كى بناء پر چھ لاكھ افراد) نے اسے قبول كرليااور ايك روز بعد يعنى چاليس روز گزرنے پر موسى عليہ السلام واپس آگئے _

قرآن اس طرح فرماتا ہے:

''قوم موسى نے موسى كے ميقات كى طرف جانے كے بعد اپنے زيوارات وآلات سے ايك گوسالہ بنايا جو ايك بے جان جسد تھا جس ميں سے گائے كى آواز آتى تھي_ (1)

اسے انہوں نے اپنے واسطے انتخاب كيا ''

اگرچہ يہ عمل سامرى سے سرزد ہوا تھا_(2)

ليكن اس كى نسبت قوم موسى كى طرف دى گئي ہے اس كى وجہ يہ ہے كہ ان ميں سے بہت سے لوگوں


(1)سورہ اعراف آيت 148

(2)جيسا كہ سورہ طہ كى آيات ميں آياہے

نے اس كام ميں سامرى كى مدد كى تھى اور وہ اس كے شريك جرم تھے اس كے علاوہ ان لوگوں كى بڑى تعداد اس كے فعل پر راضى تھى _

قرانى گفتگو كاظاہر يہ ہے كہ تمام قوم موسى اس گوسالہ پرستى ميں شريك تھى ليكن اگردوسرى ايت پر نظر كى جائے جس ميں آيا ہے كہ :

''قوم موسى ميں ايك امت تھى جو لوگوں كو حق كى ہدايت كرتى تھى اور اسى كى طرف متوجہ تھي''_(1)

اس سے معلوم ہوگا كہ اس سے مراد تمام امت موسى نہيں ہے بلكہ اس كى اكثريت اس گوسالہ پرستى كى تابع ہوگئي تھي، جيسا كہ آئندہ آنے والا ہے كہ وہ اكثريت اتنى زيادہ تھى كہ حضرت ہارون عليہ السلام مع اپنے ساتھيوں كے ان كے مقالے ميں ضعيف وناتواں ہوگئے تھے _

گوسالہ پرستوں كے خلاف شديد رد عمل

يہاں پر قرآن ميں اس كشمكش اور نزاع كا ماجرا بيان كيا گيا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام اور گوسالہ پرستوںكے درميان واقع ہوئي جب وہ ميعادگاہ سے واپس ہوئے جس كى طرف گذشتہ ميں صرف اشارہ كيا گيا تھا يہاں پر تفصيل كے ساتھ حضرت موسى عليہ السلام كے اس رد عمل كو بيان كيا گيا ہے جو اس گروہ كے بيدار كرنے كے لئے ان سے ظاہر ہوا _

پہلے ارشاد ہوتا :'' جس وقت موسى غضبناك ورنجيدہ اپنى قوم كى طرف پلٹے اور گوسالہ پرستى كانفرت انگيز منظر ديكھا تو ان سے كہا كہ تم لوگ ميرے بعد برے جانشين نكلے تم نے ميرا آئين ضائع كرديا ''_(2)

يہاں سے صاف معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام ميعاد گاہ پروردگار سے پلٹتے وقت قبل اس كے كہ بنى اسرائيل سے ملتے، غضبناك اور اندو ہگين تھے، اس كى وجہ يہ تھى كہ خدا نے ميعادگاہ ميں انہيں اس كى خبردے دى تھى _


(1) سورہ اعراف آيت 159

(2)سورہ اعراف آيت150

جيسا كہ قرآن كہتا ہے :ميں نے تمہارے پيچھے تمہارى قوم كى آزمائشے كى ليكن وہ اس آزمائشے ميں پورى نہ اترى اور سامرى نے انہيں گمراہ كر ديا_

اس كے بعد موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:'' آيا تم نے اپنے پروردگار كے فرمان كے بارے ميں جلدى كى ''_(1)

تم نے خدا كے اس فرمان، كہ اس نے ميعاد كا وقت تيس شب سے چاليس شب كرديا ، جلدى كى اور جلد فيصلہ كرديا ، ميرے نہ آنے كو ميرے مرنے يا وعدہ خلافى كى دليل سمجھ ليا، حالانكہ لازم تھا كہ تھوڑا صبر سے كام ليتے ، چند روز اور انتظار كرليتے تاكہ حقيقت واضح ہوجاتى _

اس وقت جبكہ حضرت موسى عليہ السلام بنى اسرائيل كى زندگى كے ان طوفانى وبحرانى لمحات سے گزر رہے تھے، سرسے پيرتك غصہ اور افسوس كى شدت سے بھڑك رہے تھے ،ايك عظيم اندوہ نے ان كے وجود پر سايہ ڈال ديا تھا اور انہيں بنى اسرائيل كے مستقبل كے بارے ميں بڑى تشويش لاحق تھي، كيونكہ تخريب اور تباہ كارى آسانى سے ہوجاتى ہے كبھى صرف ايك انسان كے ذريعے بہت بڑى خرابى اور تباہى واقع ہوجاتى ہے ليكن اصلاح اور تعمير ميں دير لگتى ہے _

خاص طور پر جب كسى نادان متعصب اورہٹ دھر م قوم كے درميان كوئي غلط سازبجاديا جائے تو اس كے بعد اس كے برے اثرات كا زائل كرنا بہت مشكل ہوتا ہے _

بے نظير غصہ

اس موقع پر حضرت موسى عليہ السلام كو غصہ كرنا چاہئے تھا اور ايك شديد ردّ عمل ظاہر كر ناچا ہئے تھا تاكہ بنى اسرائيل كے فاسد افكار كى بنياد گر اكر اس منحرف قوم ميں انقلاب برپا كرديں ،ورنہ تو اس قوم كو پلٹانا مشكل تھا_


(1)سورہ اعراف آيت 150

قرآن نے حضرت موسى عليہ السلام كا وہ شديد ردّ عمل بيان كيا ہے جو اس طوفانى و بحرانى منظركو ديكھنے كے بعد ان سے ظاہر ہوا ،موسى عليہ السلام نے بے اختيار نہ طور پر اپنے ہاتھ سے توريت كى الواح كو زمين پر ڈال ديا اور اپنے بھائي ہارون عليہ السلام كے پاس گئے اور ان كے سر اور داڑھى كے بالوں كو پكڑكر اپنى طرف كھينچا''(1)

حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے علاوہ ہارون عليہ السلام كو بڑى شدت سے سرزنش كى اور بآواز بلند چيخ كرپكارے:

كيا تم نے بنى اسرائيل كے عقائدكى حفاظت ميں كوتاہى كى اور ميرے فرمان كى مخالفت كى ؟''(2)

درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كا يہ ردّ عمل ايك طرف تو ان كى اس واردات قلبي، بے قرارى اور شديد ناراضى كى حكايت كرتا ہے تاكہ بنى اسرائيل كى عقل ميں ايك حركت پيدا ہو اور وہ اپنے اس عمل كى قباحت كى طرف متوجہ ہوجائيں _

بنابريں اگرچہ بالفرض الواح توريت كا پھينك دينا قابل اعتراض معلوم ہوتا ہو، اور بھائي كى شديد سرنش نادرست ہو ليكن اگرحقيقت كى طرف توجہ كى جائے كہ اگر حضرت موسى عليہ السلام اس شديد اور پرہيجانى ردّ عمل كا اظہار نہ كرتے تو ہر گز بنى اسرائيل اپنى غلطى كى سنگينى اور اہميت كا اندازہ نہيں كرسكتے تھے ،ممكن تھا كہ اس بت پرستى كے آثاربدان كے ذہنوں ميں باقى رہ جاتے لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے جو كچھ كيا وہ نہ صرف غلط نہ تھا بلكہ امر لازم تھا_

حضرت موسى عليہ السلام اس واقعہ سے اس قدر ناراض ہوئے كہ تاريخ بنى اسرائيل ميں كبھى اس قدر ناراض نہ ہوئے تھے كيونكہ ان كے سامنے بدترين منظر تھا يعنى بنى اسرائيل خدا پرستى كو چھوڑ كر گوسالہ پرستى اختيار كرچكے تھے جس كى وجہ سے حضرت موسى عليہ السلام كى وہ تمام زحمتيں جو انہوں نے بنى اسرائيل كى ہدايت كے لئے كى تھيں سب برباد ہورہى تھيں _


(1)سورہ اعراف 150

(2)سورہ طہ آيت 150

لہذا ايسے موقع پر الواح كا ہاتھوں سے گرجانا اور بھائي سے سخت مواخذہ كرنا ايك طبعى امر تھا_

اے ميرى ماں كے بيٹے ميں بے گناہ ہوں

اس شديد رد عمل اور غيظ وغضب كے اظہارنے بنى اسرائيل پر بہت زيادہ تربيتى اثر مرتب كيا اور منظر كو بالكل پلٹ ديا جبكہ اگر حضرت موسى عليہ السلام نرم زبان استعمال كرتے تو شايد اس كا تھوڑا سا اثر بھى مرتب نہ ہوتا _

اس كے بعد قرآن كہتا ہے : ہارون عليہ السلام نے موسى عليہ السلام كى محبت كو برانگيختہ كرنے كے لئے اور اپنى بے گناہى بيان كرنے كے لئے كہا:

''اے ميرے ماں جائے:اس نادان امت كے باعث ہم اس قدر قليل ہوگئے كہ نزديك تھا كہ مجھے قتل كرديں لہذا ميں بالكل بے گناہ ہوں لہذا آپ كوئي ايسا كام نہ كريں كہ دشمن ہنسى اڑائيں اور مجھے اس ستمگر امت كى صف ميں قرار نہ ديں ''_(1)

قرآن ميں جو '' ابن ام'' كى تعبير آئي ہے جس كے معنى (اے ميرى ماں كے بيٹے،كے ہيں )حالانكہ موسى عليہ السلام اورہارون عليہ السلام دونوں ايك والدين كى اولاد تھے يہ اس لئے تھا كہ حضرت ہارون چاہتے تھے كہ حضرت موسى كا جذبہ محبت بيدار كريں بہر حال حضرت موسى عليہ السلام كى يہ تدبير كار آمد ہوئي اور بنى اسرائيل كو اپنى غلطى كا احساس ہوا اور انہوں نے توبہ كى خواہش كا اظہار كيا _''

اب حضرت موسى عليہ السلام كى آتش غضب كم ہوئي اور وہ درگاہ خداواندى كى طرف متوجہ ہوئے اور عرض كى :

''پروردگارا مجھے اور ميرے بھائي كو بخش دے اور ہميں اپنى رحمت بے پاياں ميں داخل كردے، تو تمام مہربانوں سے زيادہ مہربان ہے''_ (2)


(1)سورہ اعراف آيت 151

(2)سورہ اعراف آيت 150

اپنے لئے اور اپنے بھائي كے لئے بخشش طلب كرنا اس بناپر نہيں تھا كہ ان سے كوئي گناہ سرزد ہوا تھا بلكہ يہ پروردگار كى بارگاہ ميں ايك طرح كا خضوع وخشوع تھا اور اس كى طرف بازگشت تھى اور بت پرستوں كے اعمال زشت سے اظہار تنفر تھا _(1)


(1)قران اور موجود ہ توريت كا ايك موازنہ

جيسا كہ آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ '' گوسالہ '' كو نہ تو بنى اسرائيل نے بنايا تھا نہ حضرت ہارون عليہ السلام نے ،بلكہ بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص سامرى نے يہ حركت كى تھي، جس پر حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے بھائي اور ان كے معاون تھے خاموش نہ بيٹھے بلكہ انہوں نے اپنى پورى كوشش صرف كي، انہوں نے اتنى كوشش كى كہ نزديك تھا كہ لوگ انہيں قتل كرديتے _

ليكن عجيب بات يہ ہے كہ موجودہ توريت ميں گوسالہ سازى اور بت پرستى كى طرف دعوت كو حضرت ہارون عليہ السلام كى طرف نسبت دى گئي ہے، چنانچہ توريت كے سفر خروج كى فصل 32 ميں يہ عبارت ملتى ہے:

جس وقت قوم موسى نے ديكھا كہ موسى كے پہاڑسے نيچے اترنے ميں دير ہوئي تو وہ ہارون كے پاس اكٹھا ہوئے اور ان سے كہا اٹھو اور ہمارے لئے ايسا خدا بنائو جوہمارے آگے آگے چلے كيونكہ يہ شخص موسى جو ہم كو مصر سے نكال كريہاں لايا ہے نہيں معلوم اس پر كيا گذري، ہارون نے ان سے كہا: طلائي بندے (گوشوارے) جو تمہارى عورتوںاور بچوں كے كانوں ميں ہيں انہيں ان كے كانوں سے اتار كر ميرے پاس لاو ،پس پورى قوم ان گوشواروںكو كانوں سے جدا كر كے ہارون كے پاس لائي، ہارون نے ان گوشواروں كو ان لوگوں كے ہاتھوں سے ليا اور كندہ كرنے كے ايك آلہ كے ذريعے تصوير بنائي اور اس سے ايك گوسالہ كا مجسمہ ڈھالااور كہا كہ اے بنى اسرائيل يہ تمہارا خدا ہے جو تمہيں سرزمين مصر سے باہر لايا ہے ''

اسى كے ذيل ميں ان مراسم كوبيان كيا گيا ہے جوحضرت ہارون نے اس بت كے سامنے قربانى كرنے كے بارے ميں بيان كئے تھے _

جو كچھ سطور بالا ميں بيان ہوا يہ بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى كى داستان كا ايك حصہ ہے جو توريت ميں مذكورہے اس كى عبارت بعينہ نقل كى گئي ہے حالانكہ خود توريت نے حضرت ہارون كے مقام بلندكومتعدد فصول ميں بيان كيا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معجزات حضرت ہارون عليہ السلام كے ذريعے ظاہر ہوئے تھے (فصل 8 از سفر خروج توريت ) اور ہارون عليہ السلام كا حضرت مو سى عليہ السلام كے ايك رسول كى حيثيت سے تعارف كروايا گيا ہے_ (فصل 8 از سفر خروج) -->

طلائي گوسالہ سے كس طرح آواز پيدا ہوئي؟

سامرى جو كہ ايك صاحب فن انسان تھا اس نے اپنى معلومات سے كام لے كر طلائي گوسالہ كے سينے ميں كچھ مخصوص نل (PIPE) اس طرح مخفى كرديئے جن كے اندر سے دبائو كى وجہ سے جب ہوا نكلتى تھى تو گائے كى آواز آتى تھى _

كچھ كاخيال ہے كہ گوسالہ كا منہ اس طرح كا پيچيدہ بنايا گيا تھا كہ جب اسے ہوا كے رخ پرركھا جاتاہے تھا تو اس كے منہ سے يہ آوازنكلتى تھي_

قرآن ميں پڑھتے ہيں كہ جناب موسى نے سامرى سے بازپرس شروع كى اور كہا :''يہ كيا كام تھا كہ جوتونے انجام ديا ہے اور اے سامرى : تجھے كس چيزنے اس بات پر آمادہ كيا_

اس نے جواب ميں كہا :''ميں كچھ ايسے مطالب سے آگاہ ہوا كہ جو انہوں نے نہيں ديكھے اور وہ اس سے آگاہ نہيں ہوئے ''_


<-- بہركيف حضرت ہارون عليہ السلام جو حضرت موسى عليہ السلام كے جانشين برحق تھے اور ان كى شريعت كے سب سے بڑے عالم وعارف تھے توريت ان كے لئے مقام بلند كى قائل ہے اب ذراان خرافات كو بھى ديكھ ليجئے كہ انہيں ايك بت سازہى نہيں بلكہ ايك مئوسس بت پرستى كى حيثيت سے روشناس كرايا ہے بلكہ ''عذر گناہ بد تراز گناہ'' كے مقولہ كے مطابق ان كى جانب سے ايك غلط عذر پيش كيا كيونكہ جب حضرت موسى عليہ السلام نے ان پر اعتراض كيا تو انہوں نے يہ عذر پيش كيا كہ چونكہ يہ قوم بدى كى طرف مائل تھى اس لئے ميں نے بھى اسے اس راہ پرلگاديا جبكہ قرآن ان دونوں بلند پايہ پيغمبروں كو ہر قسم كے شرك اور بت پرستى سے پاك وصاف سمجھتا ہے _

صرف يہى ايك مقام نہيں جہاں قرآن تاريخ انبياء ومرسلين كى پاكى وتقدس كا مظہرہے جبكہ موجودہ توريت كى تاريخ انبياء ومرسلين كى ساحت قدس كے متعلق انواع واقسام كى خرافات سے بھرى ہوئي ہے ہمارے عقيدہ كے مطابق حقانيت واصالت قرآن اور موجودہ توريت وانجيل كى تحريف كو پہچاننے كا ايك طريقہ يہ بھى ہے كہ ان دونوں ميں انبياء كى جو تاريخ بيان كى گئي ہے اس كا موازنہ كرليا جائے اس سے اپنے آپ پتہ چل جائيگا كہ حق كيا ہے اور باطل كيا ہے ؟

ميں نے ايك چيزخدا كے بھيجے ہوئے رسول كے آثار ميں سے لى اور پھر ميں نے اسے دور پھينك ديا اور ميرے نفس نے اس بات كو اسى طرح مجھے خوش نما كركے دكھايا''(1)

اس بارے ميں كہ اس گفتگو سے سامرى كى كيا مراد تھي، مفسرين كے درميان دوتفسيريں مشہور ہيں : پہلى يہ كہ اس كا مقصد يہ تھا كہ فرعون كے لشكر كے دريائے نيل كے پاس آنے كے موقع پر ميں نے جبرئيل كو ايك سوارى پر سوار ديكھا كہ وہ لشكر كو دريا كے خشك شدہ راستوں پر ورود كےلئے تشويق دينے كى خاطران كے آگے آگے چل رہاتھا ميں نے كچھ مٹى ان كے پائوں كے نيچے سے ياان كى سوارى كے پائوں كے نيچے سے اٹھالى اور اسے سنبھال كر ركھا اور اسے سونے كے بچھڑے كے اندارڈالا اور يہ صدا اسى كى بركت سے پيدا ہوئي ہے _

دوسرى تفسير يہ ہے كہ ميں ابتداء ميں ميں خدا كے اس رسول (موسى )كے كچھ آثار پر ايمان لے آيا اس كے بعد مجھے اس ميں كچھ شك اور تردد ہوا لہذا ميں نے اسے دور پھينك ديا اور بت پرستى كے دين كى طرف مائل ہوگيا اور يہ ميرى نظر ميں زيادہ پسنديدہ اورزيبا ہے _

سامرى كى سزا

يہ بات صاف طور پر واضح اور روشن ہے كہ موسى كے سوال كے جواب ميں سامرى كى بات كسى طرح بھى قابل قبول نہيں تھي،لہذا حضرت موسى عليہ السلام نے اس كے مجرم ہونے كا فرمان اسى عدالت ميں صادر كر ديا اور اسے اس گوسالہ پرستى كے بارے ميں تين حكم ديئے_

پہلا حكم يہ كہ اس سے كہا'' تو لوگوں كے درميان سے نكل جا اور كسى كے ساتھ ميل ملاپ نہ كر اور تيرى باقى زندگى ميں تيرا حصہ صرف اتنا ہے كہ جو شخص بھى تيرے قريب آئے گا تو اس سے كہے گا '' مجھ سے مس نہ ہو'' _(2)


(1)سورہ طہ آيت96

(2)سورہ طہ آيت97

اس طرح ايك قاطع اور دوٹوك فرمان كے ذريعے سامرى كو معاشرے سے باہر نكال پھينكا اور اسے مطلق گوشہ نشينى ميں ڈال ديا _

بعض مفسرين نے كہا ہے كہ '' مجھ سے مس نہ ہو'' كا جملہ شريعت موسى عليہ السلام كے ايك فوجدارى قانون كى طرف اشارہ ہے كہ جو بعض ايسے افراد كے بارے ميں كہ جو سنگين جرم كے مرتكب ہوتے تھے صادر ہوتا تھا وہ شخص ايك ايسے موجود كى حيثيت سے كہ جو پليد ونجس وناپاك ہو، قرار پاجاتا تھا كوئي اس سے ميل ملاپ نہ كرے اور نہ اسے يہ حق ہوتا تھا وہ كسى سے ميل ملاپ ركھے _

سامرى اس واقعے كے بعد مجبور ہوگيا كہ وہ بنى اسرائيل اور ان كے شہر وديار سے باہر نكل جائے اور بيابانوں ميں جارہے اور يہ اس جاہ طلب انسان كى سزا ہے كہ جو اپنى بدعتوں كے ذريعے چاہتا تھا كہ بڑے بڑے گروہوں كو منحرف كركے اپنے گرد جمع كرے، اسے نا كام ہى ہونا چاہئے يہاں تك كہ ايك بھى شخص اس سے ميل ملاپ نہ ركھے اور اس قسم كے انسان كےلئے يہ مكمل بائيكاٹ موت اور قتل ہونے سے بھى زيادہ سخت ہے كيونكہ وہ ايك پليد اور آلودہ وجود كى صورت ميں ہر جگہ سے راندہ اور دھتكارا ہوا ہوتا ہے _

بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ سامرى كا بڑا جرم ثابت ہوجانے كے بعد حضرت موسى نے اس كے بارے ميں نفرين كى اور خدا نے اسے ايك پر اسرار بيمارى ميں مبتلا كرديا كہ جب تك وہ زندہ رہا كوئي شخص اسے چھو نہيں سكتا تھا اور اگر كوئي اسے چھوليتا تو وہ بھى بيمارى ميں گرفتار ہوجاتا _يايہ كہ سامرى ايك قسم كى نفسياتى بيمارى ميں جو ہر شخص سے وسواس شديد اور وحشت كى صورت ميں تھى ;گرفتار ہوگيا، اس طرح سے كہ جو شخص بھى اس كے نزديك ہوتا وہ چلاتا كہ'' مجھے مت چھونا''_سامرى كے لئے دوسرى سزا يہ تھى كہ حضرت موسى عليہ السلام نے اسے قيامت ميں ہونے والے عذاب كى بھى خبردى اور كہا تيرے آگے ايك وعدہ گاہ ہے، خدائي دردناك عذاب كا وعدہ كہ جس سے ہرگز نہيں بچ سكے گا ''(1)


(1)سورہ طہ ايت 97

تيسرا كام يہ تھا كہ جو موسى عليہ السلام نے سامرى سے كہا: '' اپنے اس معبود كو كہ جس كى تو ہميشہ عبادت كرتا تھا ذرا ديكھ اور نگاہ كر ہم اس كو جلا رہے ہيں اور پھر اس كے ذرات كو دريا ميں بكھيرديں گے ''(تاكہ ہميشہ كے لئے نابود ہوجائے)(1)(2)

گناہ عظيم اور كم نظير توبہ

حضرت موسى عليہ السلام كے اس شديد رد عمل نے اپنا اثر دكھايا او جن لوگوں نے گوسالہ پر ستى اختيار كى تھى اور ان كى تعداد اكثريت ميں تھى وہ اپنے كام سے پشيمان ہوئے ان كى شايد مذكورہ پشيمانى كافى تھي، قرآن نے يہ اضافہ كيا ہے :باقى رہتا ہے يہ سوال كہ اس '' غضب '' اور ذلت '' سے كيا مراد ہے؟ قرآن نے اس امر كى كوئي توضيح نہيں كى ہے صرف سربستہ كہہ كر بات آگے بڑھادى ہے_


(1)سورہ طہ آيت97

(2)سامرى كون ہے ؟اصل لفظ '' سامري'' عبرانى زبان ميں '' شمرى '' ہے اور چونكہ يہ معمول ہے كہ جب عبرانى زبان كے الفاظ عربى زبان ميں آتے ہيںتو '' شين'' كا لفظ ''سين'' سے بدل جاتا ہے ، جيسا كہ '' موشى '' ''موسي'' سے اور '' يشوع'' '' يسوع'' سے تبديل ہوجاتاہے اس بناء پر سامرى بھى '' شمرون '' كى طرف منسوب تھا' اور'' شمرون'' '' يشاكر'' كا بيٹا تھا، جو يعقوب كى چوتھى نسل ہے _اسى سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ بعض عيسائيوں كا قرآن پر يہ اعتراض بالكل بے بنيادہے كہ قرآن نے ايك ايسے شخص كو كہ جو موسى عليہ السلام كے زمانے ميں رہتا تھا اور وہ گوسالہ پرستى كا سر پرست بنا تھا ،شہر سامرہ سے منسوب ''سامري''كے طورپر متعارف كرايا ہے، جب كہ شہر سامرہ اس زمانے ميں بالكل موجود ہى نہيں تھا ،كيونكہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ ''سامرى '' شمرون كى طرف منسوب ہے نہ كر سامرہ شہر كى طرف _

بہرحال سامرى ايك خود خواہ اور منحرف شخص ہونے كے باوجود بڑا ہوشيار تھا وہ بڑى جرا ت اور مہارت كے ساتھ بنى اسرائيل كے ضعف كے نكات اور كمزورى كے پہلوئوں سے استفادہ كرتے ہوئے اس قسم كا عظيم فتنہ كھڑا كرنے پرقادر ہوگيا كہ جو ايك قطعى اكثريت كے بت پرستى كى طرف مائل ہونے كا سبب بنے اور جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس نے اپنى اس خود خواہى اور فتنہ انگيزى كى سزا بھى اسى دنيا ميں ديكھ لى _''

(3)سورہ اعراف ايت 152

ليكن ممكن ہے اس سے ان بد بختيوں اور پريشانيوں كى جانب اشارہ مقصود ہوجو اس ماجرے كے بعد اور بيت المقدس ميں ان كى حكومت سے پہلے انہيں پيش آئيں _

يا اس سے مراد اللہ كا وہ حكم ہو جو اس گناہ كے بعد انہيں ديا گيا كہ وہ بطور پاداش ايك دوسرے كو قتل كريں _

قرآن اس كے بعد اس گناہ سے توبہ كے سلسلے ميں كہتا ہے:''اور ياد كرو اس وقت كو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا :اے قوم تم نے بچھڑے كو منتخب كر كے اپنے اوپر ظلم كيا ہے ،اب جو ايسا ہوگيا ہے تو توبہ كرو اور اپنے پيدا كرنے والے كى طرف پلٹ آئو''_

''تمہارى توبہ اس طرح ہونى چاہيئے كہ تم ايك دوسرے كو قتل كرو_يہ كام تمہارے لئے تمہارے خالق كى بارگاہ ميں بہتر ہے_اس ماجرے كے بعد خدا نے تمہارى توبہ قبول كرلى جو تواب و ررحيم ہے''_(1)

اس ميں شك نہيں كہ سامرى كے بچھڑے كى پرستش و عبادت كوئي معمولى بات نہ تھى وہ قوم جو خدا كى يہ تمام آيات ديكھ چكى تھى اور اپنے عظيم پيغمبر كے معجزات كا مشاہدہ كرچكى تھى ان سب كو بھول كر پيغمبر كى ايك مختصر سى غيبت ميں اصل توحيد اور آئين خداوندى كو پورے طور پر پائوں تلے رونددے اور بت پرست ہوجائے_

اب اگر يہ بات ان كے دماغ سے ہميشہ كے لئے جڑ سے نہ نكالى جاتى تو خطرناك حالت پيدا ہونے كا انديشہ تھا اور ہر موقعے كے بعدا ور خصوصاًحضرت موسى عليہ السلام كى زندگى كے بعد ممكن تھا ان كى دعوت كى تمام آيات ختم كردى جاتيں اور اس عظيم قوم كى تقدير مكمل طور پر خطرے سے دوچار ہوجاتي_

اكٹھا قتل

يہاں شدت عمل سے كام ليا گيا اور صرف پشيمانى اور زبان سے اظہار توبہ پر ہرگز قناعت نہ كى گئي_يہى وجہ ہے كہ خدا كى طرف سے ايسا سخت حكم صادر ہوا جس كى مثال تمام انبياء كى طويل تاريخ ميں كہيں


(1)سورہ بقرہ آيت54

نہيں ملتى اور وہ يہ كہ توبہ اور توحيد كى طرف باز گشت كے سلسلے ميںگناہگاروں كے كثير گروہ كے لئے اكٹھا قتل كرنے كا حكم ديا گيا_يہ فرمان بھى ايك خاص طريقے سے جارى ہونا چاہيئےھا اور وہ يہ ہوا كہ وہ لوگ خود تلواريں ہاتھ ميں لے كر ايك دوسرے كو قتل كريں كہ ايك اس كا اپنا مارا جانا عذاب ہے اور دوسرا دوستوں اور شناسائوں كا قتل كرنا_

بعض روايات كے مطابق حضرت موسى عليہ السلام نے حكم ديا كہ ايك تاريك رات ميں وہ تمام لوگ جنہوں نے بچھڑے كى عبادت كى تھى غسل كريں كفن پہن ليں اور صفيںباندھ كر ايك دوسرے پرتلوار چلائيں_

ممكن ہے يہ تصور كيا جائے كہ يہ توبہ كيوں اتنى سختى سے انجام پذير ہوئي كيا يہ ممكن نہ تھاكہ خدا ان كى توبہ كو بغير اس خونريزى كے قبول كرليتا_

اس سوال كا جواب گذشتہ گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے كيونكہ اصل توحيد سے انحراف اوربت پرستى كى طرف جھكائو كا مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہ تھا كہ اتنى آسانى سے درگذر كرديا جاتا اور وہ بھى ان واضح معجزات اور خدا كى بڑى بڑى نعمتوں كے مشاہدے كے بعد _ در حقيقت اديان آسمانى كے تمام اصولوں كو توحيد اور يگانہ پرستى ميں جمع كيا جاسكتا ہے_اس اصل كا متزلزل ہونا دين كى تمام بنيادوں كے خاتمے كے برابر ہے اگر گائو پرستى كے مسئلے كو آسان سمجھ ليا جاتا تو شايد آنے والے لوگوں كے لئے سنت بن جاتا_

خصوصاً بنى اسرائيل كے لئے جن كے بارے ميں تاريخ شاہد ہے كہ ضدى اور بہانہ باز لوگ تھے_ لہذا چاہئے تھا كہ ان كى ايسى گوشمالى كى جائے كہ اس كى چبھن تمام صديوں اور زمانوں تك باقى رہ جائے اور اس كے بعد كوئي شخص بت پرستى كى فكر ميں نہ پڑے_

خداكى آيات كو مضبوطى سے پكڑ لو

عظيم اسلامى مفسر مرحوم طبرسي،ابن زيد كا قول اس طرح نقل كرتے ہيں:جس وقت حضرت موسى عليہ السلام كوہ طور سے واپس آئے اور اپنے ساتھ توريت لائے تو اپنى قوم كو بتايا كہ ميں آسمانى كتاب لے كر آيا ہوں جو دينى احكام اور حلال و حرام پر مشتمل ہے_ يہ وہ احكام ہيں جنہيں خدا نے تمہارے لئے عملى پروگرام

قرار ديا ہے_اسے لے كر اس كے احكام پر عمل كرو_ اس بہانے سے كہ يہ ان كے لے مشكل احكام ہيں،يہودى نافرمانى اور سركشى پر تل گئے_ خدا نے بھى فرشتوں كو مامور كيا كہ وہ كوہ طور كا ايك بہت بڑا ٹكڑا ان كے سروں پر لاكر كھڑا كرديں،اسى اثناء ميں حضرت موسى عليہ السلام نے انہيں خبردى كہ عہد وپيمان باندھ لو،احكام خداپر عمل كرو،سركشى و بغاوت سے توبہ كرو تو تم سے يہ عذاب ٹل جائے گا ورنہ سب ہلاك ہو جائوگے_

اس پر انہوں نے سر تسليم خم كرديا_ توريت كو قبول كيا اور خدا كے حضور ميں سجدہ كيا_جب كہ ہر لحظہ وہ كوہ طور كے اپنے سروں پر گرنے كے منتظر تھے ليكن بالآخر ان كى توبہ كى وجہ سے عذاب الہى ٹل گيا_

يہ نكتہ ياد ركھناضرورى ہے كہ كوہ طور كے بنى اسرائيل كے سروں پر مسلط ہونے كى كيفيت كے سلسلے ميںمفسرين كى ايك جماعت كا اعتقاد ہے كہ حكم خدا سے كوہ طور اپنى جگہ سے اكھڑ گيا اور سائبان كى طرح ان كے سروں پر مسلط ہوگيا_

جبكہ بعض دوسرے مفسرين يہ كہتے ہيں كہ پہاڑميں سخت قسم كا زلزلہ آيا ،پہار اس طرح لرزنے اور حركت كرنے لگا كہ كسى بھى وقت وہ ان كے سروں پر آگرے گا ليكن خدا كے لطف و كرم سے زلزلہ رك گيا اور پہاڑ اپنى جگہ پر قائم ہوگيا_

يہ احتمال بھى ہو سكتا ہے كہ پہاڑ كا ايك بہت بڑا ٹكڑا زلزلے اور شديد بجلى كے زير اثر اپنى جگہ سے اكھڑ كر ان كے سروں كے اوپر سے بحكم خدا اس طرح گزرا ہو كہ چند لحظے انہوں نے اسے اپنے سروں پر ديكھا ہو اور يہ خيال كيا ہو كہ وہ ان پر گرناچاہتا ہے ليكن يہ عذاب ان سے ٹل گيا اور وہ ٹكڑا كہيں دور جاگرا_(1)


(1)كيا اس عہد وپيمان ميں جبر كا پہلو ہے:اس سوال كے جواب ميں بعض كہتے ہيں كہ ان كے سروں پر پہاڑ كا مسلط ہونا ڈرانے دھمكانے كے طور پر تھا نہ كہ جبر و اضطرار كے طور پر ورنہ جبرى عہد و پيمان كى تو كوئي قدرو قيمت نہيں ہے_ليكن زيادہ صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئي حرج نہيں كہ سركش او رباغى افراد كو تہديد و سزا كے ذريعے حق كے سامنے جھكاديا جائے_يہ تہديد اور سختى جو وقتى طور پر ہے ان كے غرور كو توڑدے گي_ انہيں صحيح غور و فكر پر ابھارے گى اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختيار سے اپنى ذمہ دارياں پورى كرنے لگيں گے_بہر حال يہ پيمان زيادہ تر عملى پہلوئوں سے مربوط تھا ورنہ عقائد كو تو جبرو اكراہ سے نہيں بدلا جاسكتا_

ايئے _واقعہ كى تفصيل قرآن ميں پڑھتے ہيںكہ:''اور (وہ وقت كہ)جب ہم نے تم سے عہد ليا اور كوہ طور كو تمہارے سروں كے اوپر مسلط كرديا اور تمہيں كہا كہ،جو كچھ (آيات و احكام ميں )ہم نے تمہيں ديا ہے اسے مضبوطى سے تھامو اور جو كچھ اس ميں ہے اسے ياد ركھو (اور اس پر عمل كرو)شايد اس طرح تم پرہيزگار ہوجائو''_(1)

اس كے بعد پھر تم نے روگردانى كى اور اگر تم پر خدا كا فضل و رحمت نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں ميں سے ہوتے''_(2)

اس عہد و پيمان ميں يہ چيزيں شامل تھيں:پروردگار كى توحيد پر ايمان ركھنا،ماں باپ، عزيز و اقارب،يتيم اور حاجتمندو ں سے نيكى كرنا اور خونريزى سے پرہيز كرنا_ يہ كلى طور پر ان صحيح عقائد اور خدائي پروگراموں كے بارے ميں عہد و پيمان تھا جن كا توريت ميں ذكر كيا گيا تھا_

كوہ طور

كوہ طورسے مراد يہاں اسم جنس ہے يا يہ مخصوص پہاڑ ہے_اس سلسلے ميں دو تفسيريں موجودہيں_بعض كہتے ہيں كہ طور اسى مشہور پہاڑ كى طرف اشارہ ہے جہاں حضرت موسى عليہ السلام پر وحى نازل ہوئي_

ليكن بعض كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ طور لغوى معنى كے لحاظ سے مطلق پہاڑ ہے_ يہ وہى چيز ہے جسے سورہ اعراف كى آيہ171 ميں ''جبل''سے تعبير كيا گيا ہے:

توريت كيا ہے

توريت عبرانى زبان كا لفظ ہے، اس كا معنى ہے''شريعت''اور''قانون''_يہ لفظ خداكى طرف سے


(1)سورہ بقر آيت 63

(2)سورہ بقرہ آيت 64

حضرت موسى عليہ السلام بن عمران پر نازل ہونے والى كتاب كے لئے بولا جاتا ہے_نيز بعض اوقات عہد عتيق كى كتب كے مجموعے كے لئے اور كبھى كبھى توريت كے پانچوں اسفار كے لئے بھى استعمال ہوتا ہے_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ يہوديوں كى كتب كے مجموعے كو عہد عتيق كہتے ہيں_اس ميں توريت اور چندديگر كتب شامل ہيں_

توريت كے پانچ حصے ہيں:

جنہيںسفر پيدائشے،سفر خروج،سفر لاويان،سفر اعداد اور سفر تثنيہ كہتے ہيں_ اس كے موضوعات يہ ہيں:

1)كائنات،انسان اور ديگر مخلوقات كى خلقت_

2)حضرت موسى (ع) بن عمران،گذشتہ انبياء اور بنى اسرائيل كے حالات وغيرہ_

3)اس دين كے احكام كى تشريح_

عہد عتيق كى ديگر كتابيں در اصل حضرت موسى عليہ السلام كے بعد كے مو رخين كى تحرير كردہ ہيں_ ان ميں حضرت موسى (ع) بن عمران كے بعد كے نبيوں،حكمرانوں اور قوموں كے حالات بيان كئے گئے ہيں_

يہ بات بغير كہے واضح ہے كہ توريت كے پانچوں اسفار سے اگرصرف نظر كرليا جائے تو ديگر كتب ميں سے كوئي كتاب بھى آسمانى كتاب نہيں ہے_ خود يہودى بھى اس كا دعوى نہيں كرتے_يہاں تك كہ حضرت داو د(ع) سے منسوب زبور جسے وہ ''مزامير'' كہتے ہيں،حضرت داو د(ع) كے مناجات اور پندو نصائح كى تشريح ہے_

رہى بات توريت كے پانچوں سفروں كى تو ان ميں ايسے واضح قرائن موجود ہيںجو اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ وہ بھى آسمانى كتابيں نہيں ہيں بلكہ وہ تاريخى كتاب ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام كے بعد لكھى گئي ہيں كيونكہ ان ميں حضرت موسى عليہ السلام كى وفات،ان كے دفن كى كيفيت اور ان كى وفات كے بعد كے كچھ حالات مذكور ہيں _

خصوصاً سفر تثنيہ كے آخرى حصے ميں يہ بات وضاحت سے ثابت ہوتى ہے كہ يہ كتاب حضرت موسى

بن عمران عليہ السلام كى وفات سے كافى مدت بعد لكھى گئي ہے_

علاوہ ازيں ان كتب ميں بہت سى خرافات اور ناروا باتيں انبياء و مرسلين سے منسوب كردى گئي ہيں_بعض بچگانہ باتيں بھى ہيں جو ان كے خود ساختہ اور جعلى ہونے پر گواہ ہيں نيز بعض تاريخى شواہد بھى نشاندہى كرتے ہيں كہ اصلى توريت غائب ہوگئي اور پھر حضرت موسى (ع) بن عمران عليہ السلام كے پيروكاروں نے يہ كتابيں تحرير كيں_

* * * * *

  index back