next index back

قرآن ميںفرعونيوں كے خلاف بنى اسرائيل كے قيام اور انقلاب كا ايك اور مرحلہ بيان كيا گيا ہے_پہلى بات يہ ہے كہ خدا فرماتا ہے:''ہم نے موسى اور اس كے بھائي كى طرف وحى كى كہ سرزمين مصر ميں اپنى قوم كے لئے گھروں كا انتخاب كرو''_(1)

''اور خصوصيت كے ساتھ ان گھروں كو ايك دوسرے كے قريب اور آمنے سامنے بنائو''_(2)

پھر روحانى طور پر اپنى خود سازى اور اصلاح كرو''اور نماز قائم كرو_''اس طرح سے اپنے نفس كو پاك اور قوى كرو_(3)


(1)سورہ يونس آيت87

(2)سورہ يونس آيت87

(3)سورہ يونس آيت87

اور اس لئے كہ خوف اور وحشت كے آثار ان كے دل سے نكل جائيں اور وہ روحانى و انقلابى قوت پاليں''مومنين كوبشارت دو''كاميابى اور خدا كے لطف و رحمت كى بشارت_(1)

زير بحث آيات كے مجموعى مطالعے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس زمانے ميں بنى اسرائيل منتشر،شكست خوردہ،وابستہ،طفيلي،آلودہ اور خوف زدہ گروہ كى شكل ميں تھے،نہ ان كے پاس گھر تھے نہ كوئي مركز تھا،نہ ان كے پاس معنوى اصلاح كا كوئي پروگرام تھا اور نہ ہى ان ميں اس قدر شجاعت،عزم اور حوصلہ تھا جو شكست دينے والے انقلاب كے لئے ضرورى ہوتا ہے_لہذا حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام كو حكم ملاكہ وہ بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے خصوصاً روحانى حوالے سے چند امور پر مشتمل پروگرام شروع كريں_

1_مكان تعمير كريں اور اپنے مكانات فرعونيوں سے الگ بنائيں_ اس ميں متعدد فائدے تھے_

ايك يہ كہ سرزمين مصر ميں ان كے مكانات ہوں گے تو وہ اس كا دفاع زيادہ لگائو سے كريں گے_

دوسرا يہ كہ قبطيوں كے گھروں ميں طفيلى زندگى گزارنے كے بجائے وہ اپنى ايك مستقل زندگى شروع كرسكيں گے_

تيسرا يہ كہ انكے معاملات اور تدابير كے راز دشمنوں كے ہاتھ نہيں لگيں گے_

2_اپنے گھر ايك دوسرے كے آمنے سامنے اور قريب قريب بنائيں،بنى اسرائيل كى مركزيت كے لئے يہ ايك موثر كام تھا اس طرح سے وہ اجتماعى مسائل پر مل كر غور فكر كرسكتے تھے اور مذہبيمراسم كے حوالے سے جمع ہوكر اپنى آزادى كے لئے ضرورى پروگرام بنا سكتے تھے_

3_عبادت كى طرف متوجہ ہوں،خصوصاً نماز كى طرف كہ جو انسان كو بندوں كى بندگى سے جدا كرتى ہے اور اس كا تعلق تمام قدرتوں كے خالق سے قائم كرديتى ہے_ اس كے دل اور روح كو گناہ كى آلودگى سے


(1)سورہ يونس آيت 87

پاك كرتى ہے اپنے آپ پر بھروسہ كرنے كا احساس زندہ كرتى ہے اورقدرت پروردگار كا سہارا لے كر انسانى جسم ميں ايك تازہ روح پھونك ديتى ہے_

4_ايك رہبر كے طور پر حضرت موسى عليہ السلام كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ بنى اسرائيل كى روحوں ميں موجود طويل غلامى اور ذلت كے دور كا خوف ووحشت نكال باہر پھينكيں اور حتمى فتح ونصرت،كاميابى اور پروردگار كے لطف وكرم كى بشارت دے كر مومنين كے ارادے كو مضبوط كريں اور ان ميں شہامت و شجاعت كى پرورش كريں_

اس روش كو كئي سال گزر گئے اور اس دوران ميں موسى عليہ السلام نے اپنے منطقى دلائل كے ساتھ ساتھ انھيں كئي معجزے بھى دكھائے _

ہم نے انھيں باہر نكال ديا

جب موسى عليہ السلام ان لوگوں پر اتمام حجت كرچكے اور مومنين ومنكرين كى صفيں ايك دوسرے سے جدا ہوگئيں تو موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كے كوچ كرنے كا حكم دے ديا گيا، چنانچہ قرآن نے اس كى اسطرح منظر كشى كى _

سب سے پہلے فرمايا گياہے:''ہم نے موسى پر وحى كى كہ راتوںرات ميرے بندوں كو(مصر سے باہر)نكال كرلے جائو،كيونكہ وہ تمہارا پيچھا كرنے والے ہيں''_(1)

موسى عليہ السلام نے اس حكم كى تعميل كى اور دشمن كى نگاہوں سے بچ كر بنى اسرائيل كو ايك جگہ اكٹھا كرنے كے بعد كوچ كا حكم ديا اور حكم خدا كے مطابق رات كو خصوصى طور پر منتخب كيا تاكہ يہ منصوبہ صحيح صورت ميں تكميل كو پہنچے_

ليكن ظاہر ہے كہ اتنى بڑى تعداد كى روانگى ايسى چيز نہيں تھى جو زيادہ دير تك چھپى رہ جاتي_ جاسوسوں


(1)سورہ شعراء آيت 52

نے جلد ہى اس كى رپورٹ فرعون كو دے دى اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:'' فرعون نے اپنے كارندے مختلف شہروں ميں روانہ كرديئے تا كہ فوج جمع كريں''_(1)

البتہ اس زمانے كے حالات كے مطابق فرعون كا پيغام تمام شہروں ميں پہنچانے كے لئے كافى وقت كى ضرورت تھى ليكن نزديك كے شہروں ميں يہ اطلاع بہت جلد پہنچ گئي اور پہلے سے تيار شدہ لشكر فوراً حركت ميں آگئے اور مقدمة الجيش اور حملہ آور لشكر كى تشكيل كى گئي اور دوسرے لشكر بھى آہستہ آہستہ ان سے آملتے رہے_

ساتھ ہى لوگوں كے حوصلے بلند ركھنے اور نفسياتى اثر قائم ركھنے كے لئے اس نے حكم ديا كہ اس بات كا اعلان كرديا جائے كہ''وہ تو ايك چھوٹا سا گروہ ہے''_(2) (تعداد كے لحاظ سے بھى كم اور طاقت كے لحاظ سے بھى كم)_

لہذا اس چھوٹے سے كمزور گروہ كے مقابلے ميں ہم كامياب ہوجائيں گے گھبرانے كى كوئي بات نہيں_كيونكہ طاقت اور قوت ہمارے پاس زيادہ ہے لہذا فتح بھى ہمارى ہى ہوگي_

فرعون نے يہ بھى كہا:'' آخر ہم كس حد تك برداشت كريں اور كب تك ان سركش غلاموں كے ساتھ نرمى كا برتائو كرتے رہيں؟انھوں نے تو ہميں غصہ دلايا ہے''_(3)

آخر كل مصر كے كھيتوں كى كون آبپاشى كرے گا؟ہمارے گھر كون بنائے گا؟اس وسيع و عريض مملكت كا كون لوگ بوجھ اٹھائيں گے؟اور ہمارى نوكرى كون كرے گا؟

اس كے علاوہ'' ہميں ان لوگوں كى سازشو ںسے خطرہ ہے(خواہ وہ يہاں رہيں يا كہيں اور چلے جائيں)اور ہم ان سے مقابلہ كے لئے مكمل طور پر آمادہ اور اچھى طرح ہوشيار ہيں''_(4)


(1)سورہ شعراء آيت53

(2)سورہ شعراء آيت 54

(3)سورہ شعراء آيت55

(4)سورہ شعراء آيت 56

پھر قرآن پاك فرعونيوں كے انجام كا ذكر كرتا ہے اور اجمالى طور پر ان كى حكومت كے زوال اور بنى اسرائيل كے اقتدار كو بيان كرتے ہوئے كہتا ہے:''ہم نے انھيں سر سبز باغات اور پانى سے لبريز چشموں سے باہر نكال ديا''_(1) خزانوں،خوبصورت محلات اور آرام و آسائشے كے مقامات سے بھى نكال ديا_

ہاں ہاںہم نے ايسا ہى كيا اور بنى اسرائيل كو بغير كسى مشقت كے يہ سب كچھ دےديا اور انھيں فرعون والوں كا وارث بناديا_(2)(3)


(1)سورہ شعراء آيت57تا59

(2)سورہ شعراء ايت 59

(3)آيا بنى اسرائيل نے مصر ميں حكومت كى ہے؟

خدا وند عالم قران مجيد ميں فرماتا ہے كہ ہم نے بنى اسرائيل كو فرعون والوں كا وارث بنايا_ اسى تعبير كى بناء پر بعض مفسرين كى يہ رائے ہے كہ بنى اسرائيل كے افراد مصر كى طرف واپس لوٹ آئے اور زمام حكومت و اقتدار اپنے قبضے ميں لے كر مدتوں وہاں حكومت كرتے رہے_

آيات بالا كا ظاہرى مفہوم بھى اسى تفسير سے مناسبت ركھتا ہے_

جبكہ بعض مفسرين كى رائے يہ ہے كہ وہ لوگ فرعونيوں كى ہلاكت كے بعد مقدس سرزمينوں كى طرف چلے گئے البتہ كچھ عرصے كے بعد مصر واپس آگئے اور وہاں پر اپنى حكومت تشكيل دي_

تفسير كے اسى حصے كے ساتھ موجودہ توريت كى فصول بھى مطابقت ركھتى ہيں_

بعض دوسرے مفسرين كا خيال ہے كہ بنى اسرائيل دوحصوں ميں بٹ گئے_ايك گروہ مصر ميں رہ گيا اور وہيں پر حكومت كى اور ايك گروہ موسى عليہ السلام كے ساتھ سر زمين مقدس كى طرف روانہ ہو گيا_

يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ بنى اسرائيل كے وارث ہونے سے مراد يہ ہے كہ انھوںنے حضرت موسى عليہ السلام كے بعد اور جناب حضرت سليمان عليہ السلام كے زمانے ميں مصر كى وسيع و عريض سر زمين پر حكومت كي_

ليكن اگر اس بات پر غور كيا جائے كہ حضرت موسى عليہ السلام چونكہ انقلابى پيغمبر تھے لہذا يہ بات بالكل بعيد نظر آتى ہے كہ وہ ايسى سر زمين كو كلى طور پر خير باد كہہ كر چلے جائيں جس كى حكومت مكمل طور پر انھيں كے قبضہ اور اختيارميں آچكى ہو اور وہ وہاں كے بارے ميں كسى قسم كا فيصلہ كئے بغير بيابانوں كى طرف چل ديں خصوصاً جب كہ لاكھوں بنى اسرائيلى عرصہ دراز سے وہاں پر مقيم بھى تھے اور وہاں كے ماحول سے اچھى طرح واقف بھى تھے_ -->

فرعونيوں كا درناك انجام

قرآن ميں حضرت موسى عليہ السلام اور فرعون كى داستان كا آخرى حصہ پيش كيا گيا ہے كہ فرعون اور فرعون والے كيونكر غرق ہوئے اور بنى اسرائيل نے كس طرح نجات پائي؟ جيسا كہ ہم گزشتہ ميں پڑھ چكے ہيں كہ فرعون نے اپنے كارندوں كو مصر كے مختلف شہروں ميں بھيج ديا تاكہ وہ بڑى تعداد ميں لشكر اور افرادى قوت جمع كرسكيں چنانچہ انھوں نے ايسا ہى كيا اور مفسرين كى تصريح كے مطابق فرعون نے چھ لاكھ كا لشكر مقدمہ الجيش كى صورت ميں بھيج ديا اور خود دس لاكھ كے لشكر كے ساتھ ان كے پيچھے پيچھے چل ديا _

سارى رات بڑى تيزى كے ساتھ چلتے رہے اورطلوع آفتاب كے ساتھ ہى انھوں نے موسى عليہ السلام كے لشكر كو پاليا، چنانچہ اس سلسلے كى پہلى آيت ميں فرمايا گيا ہے : فرعونيووں نے ان كا تعاقب كيا اور طلوع آفتاب كے وقت انھيں پاليا_

''جب دونوں گروہوں كا آمناسامنا ہوا تو موسى عليہ السلام كے ساتھى كہنے لگے اب تو ہم فرعون والوں كے نرغے ميں آگئے ہيں اور بچ نكلنے كى كوئي راہ نظر نہيں آتى ''_ (1)

ہمارے سامنے دريا اور اس كى ٹھاٹھيں مارتى موجيں ہيں، ہمارے پيچھے خونخوارمسلح لشكر كا ٹھاٹھيں مارتا سمندر ہے لشكر بھى ايسے لوگوں كا ہے جو ہم سے سخت ناراض اور غصے سے بھرے ہوئے ہيں، جنھوں نے اپنى خونخوارى كا ثبوت ايك طويل عرصے تك ہمارے معصوم بچوں كو قتل كركے ديا ہے اور خود فرعون بھى بہت بڑا مغرور،ظالم اور خونخوار شخص ہے لہذا وہ فوراً ہمارا محاصرہ كركے ہميں موت كے گھاٹ اتارديں گے ياقيدى بنا كر تشدد كے ذريعے ہميں واپس لے جائيں گے قرائن سے بھى ايسا ہى معلوم ہورہا تھا _


<-- بنابريں يہ كيفيت دوحال سے خالى نہيں يا تو تمام بنى اسرائيلى مصر ميں واپس لوٹ آئے اور حكومت تشكيل دي،يا كچھ لوگ جناب موسى عليہ السلام كے حكم كے مطابق وہيں رہ گئے تھے اور حكومت چلاتے رہے اس كے علاوہ فرعون او رفرعون والوں كے باہر نكال دينے او ربنى اسرائيل كو ان كا وارث بنادينے كا اور كوئي واضح مفہوم نہيں ہوگا_

(1) سورہ شعراء آيت61

اپنے عصا كو دريا پر ماردو

اس مقام پر بنى اسرائيل پر كرب و بے چينى كى حالت طارى ہوگئي اور ان كا ايك ايك لمحہ كرب واضطراب ميں گزر نے لگا يہ لمحات ان كے لئے زبردست تلخ تھے شايد بہت سے لوگوں كا ايما ن بھى متزلزل ہوچكا تھا اور بڑى حدتك ان كے حوصلے پست ہوچكے تھے _

ليكن جناب موسى عليہ السلام حسب سابق نہايت ہى مطمئن اور پر سكون تھے انھيں يقين تھا كہ بنى اسرائيل كى نجات اورسركش فرعونيوں كى تباہى كے بارے ميں خدا كا فيصلہ اٹل ہے اور وعدہ يقينى ہے _

لہذا انھوں نے مكمل اطمينان اور بھرپور اعتمادكے ساتھ بنى اسرائيل كى وحشت زدہ قوم كى طرف منہ كركے كہا: ''ايسى كوئي بات نہيں وہ ہم پر كبھى غالب نہيں آسكيں گے كيونكہ ميرا خدا ميرے ساتھ ہے اور وہ بہت جلدى مجھے ہدايت كرے گا ''_(1)

اسى موقع پر شايد بعض لوگوں نے موسى كى باتو ں كو سن تو ليا ليكن انھيں پھر بھى يقين نہيں آرہا تھا اور وہ اسى طرح زندگى كے آخرى لمحات كے انتظار ميں تھے كہ خدا كا آخرى حكم صادر ہوا، قرآن كہتا ہے :'' ہم نے فوراً موسى كى طرف وحى بھيجى كہ اپنے عصا كودريا پرمارو''_(2)

وہى عصاجو ايك دن تو ڈرانے كى علامت تھا اور آج رحمت اور نجات كى نشانى _

موسى عليہ السلام نے تعميل حكم كى اور عصا فوراًدرياپر دے مارا تو اچانك ايك عجيب وغريب منظر ديكھنے ميں آيا جس سے بنى اسرائيل كى آنكھيں چمك اٹھيں اور ان كے دلو ں ميں مسرت كى ايك لہردوڑگئي، ناگہانى طور پر دريا پھٹ گيا، پانى كے كئي ٹكڑے بن گئے اور ہر ٹكڑا ايك عظيم پہاڑ كى مانند بن گيا اور ان كے درميان ميں راستے بن گئے_ (3)

بہرحال جس كا فرمان ہر چيز پر جارى اور نافذ ہے اگر پانى ميں طغيانى آتى ہے تو اس كے حكم سے اور


(1)سورہ شعراء آيت 62

(2)سورہ شعراء آيت63

(3)سورہ شعراء آيت 63

اگر طوفانوں ميں حركت آتى ہے تو اس كے امر سے ، وہ خدا كہ :

نقش ہستى نقشى ازايوان

اوست آب وبادوخاك سرگردان اوست

اسى نے دريا كى موجوں كو حكم ديا امواج دريا نے اس حكم كو فورا ًقبول كياايك دوسرے پر جمع پرہوگئيں اور ان كے درميان كئي راستے بن گئے اور بنى اسرائيل كے ہر گروہ نے ايك ايك راستہ اختيار كرليا _

فرعون اور اس كے ساتھى يہ منظر ديكھ كر حيران وششد ررہ گئے،اس قدر واضح اور آشكار معجزہ ديكھنے كے باوجود تكبر اور غرور كى سوارى سے نہيں اترے، انھوں نے موسى عليہ السلام اور بنى اسرائيل كا تعاقب جارى ركھا اور اپنے آخرى انجام كى طرف آگے بڑھتے رہے جيسا كہ قرآن فرماتاہے :''اور وہاںپر دوسرے لوگوں كو بھى ہم نے نزديك كرديا''_

اس طرح فرعونى لشكر دريائي راستوں پر چل پڑے اور وہ لوگ اپنے ان پرانے غلاموں كے پيچھے دوڑتے رہے جنھوں نے اب اس غلامى كى زنجيريں توڑدى تھيں ليكن انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ يہ ان كى زندگى كے آخرى لمحات ہيں اور ابھى عذاب كا حكم جارى ہونے والا ہے _

قرآن كہتا ہے :''ہم نے موسى اور ان تمام لوگوں كو نجات دى جوان كے ساتھ تھے _''(1)

ٹھيك اس وقت جبكہ بنى اسرائيل كا آخرى فرددريا سے نكل رہا تھا اور فرعونى لشكر كا آخرى فرد اس ميں داخل ہورہاتھا ہم نے پانى كو حكم ديا كہ اپنى پہلى حالت پر لوٹ ا،اچانك موجيں ٹھاٹھيں مارنے لگيں اور فرغون اور اس كے لشكر كو گھاس پھونس اور تنكوں كى طرح بہاكرلے گئيں اور صفحہ ہستى سے ان كانام ونشان تك مٹاديا _

قرآن نے ايك مختصرسى عبارت كے ساتھ يہ ماجرايوں بيان كيا ہے : پھر ہم نے دوسروں كو غرق كرديا_''(2)


(1)سورہ شعراء آيت65

(2)سورہ شعراء آيت 66

اے فرعون تيرا بدن لوگوں كے لئے عبرتناك ہوگا

بہر كيف يہ معاملہ چل رہا تھا '' يہاں تك كہ فرعون غرقاب ہونے لگا اور وہ عظيم دريائے نيل كى موجوں ميں تنكے كى طرح غوطے كھانے لگا تو اس وقت غرور وتكبر اور جہالت وبے خبرى كے پردے اس كى آنكھوں سے ہٹ گئے اور فطرى نور توحيد چمكنے لگا وہ پكاراٹھا :'' ميں ايمان لے آيا كہ اس كے سوا كوئي معبود نہيں كہ جس پر بنى اسرائيل ايمان لائے ہيں ''_(1)

كہنے لگا كہ نہ صرف ميں اپنے دل سے ايمان لايا ہوں'' بلكہ عملى طور پر بھى ايسے توانا پروردگار كے سامنے سرتسليم خم كرتا ہوں''_ (2)

درحقيقت جب حضرت موسى كى پيشين گوئياں يكے بعد ديگرے وقوع پذير ہوئيں اور فرعون اس عظيم پيغمبر كى گفتگو كى صداقت سے آگاہ ہوا اور اس كى قدر ت نمائي كامشاہدہ كيا تو اس نے مجبوراً اظہار ايمان كيا، اسے اميد تھى كہ جيسے ''بنى اسرائيل كے خدا'' نے انھيں كوہ پيكر موجوں سے سے نجات بخشى ہے اسے بھى نجات دے گا، لہذا وہ كہنے لگاميں اسى بنى اسرائيل كے خدا پر ايمان لايا ہوں، ليكن ظاہر ہے كہ ايسا ايمان جو نزول بلا اور موت كے چنگل ميں گرفتار ہونے كے وقت ظاہر كيا جائے، در حقيقت ايك قسم كا اضطرارى ايمان ہے، جس كا اظہار سب مجرم اور گناہگار كرتے ہيں، ايسے ايمان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہوتي، اور نہ يہ حسن نيت اور صدق گفتار كى دليل ہوسكتا ہے_

اسى بنا پر خدا وندعالم نے اسے مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:'' تو اب ايمان لايا ہے حالانكہ اس سے پہلے تو نافرمانى اورطغيان كرنے والوں ، مفسدين فى الارض اور تباہ كاروں كى صف ميں تھا'' (3)

''ليكن آج ہم تيرے بدن كو موجوں سے بچاليں گے تاكہ تو آنے والوں كے لئے درس عبرت ہو، برسراقتدار مستكبرين كے لئے، تمام ظالموں اور مفسدوں كےلئے اور مستضعف گروہوں كے لئے بھى ''


(1)سورہ يونس آيت 90

(2)سورہ يونس آيت 90

(3)سورہ يونس آيت 90

يہ كہ''بدن سے مراد يہاں كيا ہے ،اس سلسلے ميں مفسرين ميںاختلاف ہے ان ميں سے اكثر كا نظريہ ہے كہ اس سے مراد فرعون كا بے جان جسم ہے كيونكہ اس ماحول كے لوگوں كے ذہن ميں فرعون كى اس قدر عظمت تھى كہ اگر اس كے بدن كو پانى سے باہرنہ اچھالاجاتاتو بہت سے لوگ يقين ہى نہ كرتے كہ اس كا غرق ہونا بھى ممكن ہے اور ہوسكتا تھا كہ اس ماجرے كے بعد فرعون كى زندگى كے بارے ميں افسانے تراش لئے جاتے _

يہ امر جاذب توجہ ہے كہ لغت ميں لفظ '' بدن'' جيسا كہ راغب نے مفردات ميں كہا ہے '' جسد عظيم'' كے معنى ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ بہت سے خوشحال لوگوں كى طرح كہ جنكى بڑى زرق برق افسانوى زندگى تھى وہ بڑا سخت اور چاك وچوبند تھا مگر بعض دوسرے افراد نے كہاہے كہ''بدن'' كا ايك معني'' زرہ'' بھى ہے يہ اس طرف اشارہ ہے كہ خدا نے فرعون كو اس زريں زرہ سميت پانى سے باہر نكالاكہ جو اس كے بدن پر تھى تاكہ اس كے ذريعے پہچاناجائے اور كسى قسم كا شك وشبہ باقى نہ رہے _

اب بھى مصر اور برطانيہ كے عجائب گھروں ميں فرعونيوں كے موميائي بد ن موجود ہيں كيا ان ميںحضرت موسى عليہ السلام كے ہم عصر فرعون كا بدن بھى ہے كہ جسے بعد ميں حفاظت كے لئے مومياليا گيا ہويا نہيں؟ اس سلسلے ميں كوئي صحيح دليل ہمارے پاس نہيں ہے _

بنى اسرائيل كى گذرگاہ

قرآن مجيد ميں بارہا اس بات كو دہرايا گيا ہے كہ موسى عليہ السلام نے خدا كے حكم سے بنى اسرائيل كو'' بحر'' عبور كروايا اورچند مقامات پر''يم'' كا لفظ بھى ايا ہے _

اب سوال يہ ہے كہ يہاںپر ''يم'''' بحر'' اور '' يم'' سے كيا مراد ہے آيايہ نيل (NILE RIYER) جيسے وسيع وعريض دريا كى طرف اشارہ ہے كہ سرزمين مصر كى تمام آبادى جس سے سيراب ہوتى تھى يا بحيرہ احمريعنى بحر قلزم (RID SEA)كى طرف اشارہ ہے _

موجودہ تو ريت اور بعض مفسرين كے انداز گفتگو سے معلوم ہوتاہے كہ بحيرہ احمر كى طرف اشارہ ہے ليكن ايسے قرائن موجود ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد نيل كا عظيم ووسيع دريا ہے _

حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كى فرمائشے

قرآن ميں بنى اسرائيل كى سرگزشت كے ايك اور اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا گيا ہے يہ واقعہ فرعونيوں پر ان كى فتحيابى كے بعد ہوا، اس واقعہ سے بت پرستى كى جانب ان كى توجہ ظاہر ہوتى ہے _

واقعہ يہ ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام فرعون كے جھگڑے سے نكل چكے تو ايك اور داخلى مصيبت شروع ہوگئي جو بنى اسرائيل كے جاہل ، سركش اور فرعون اور فرعونيوں كے ساتھ جنگ كرنے سے بدر جہا سخت اور سنگين تر تھى اور ہر داخلى كشمكش كا يہى حال ہواكرتا ہے _قرآن ميںفرماياگيا ہے:'' ہم نے بنى اسرائيل كو دريا (نيل) كے اس پار لگا ديا :''

ليكن '' انہوں نے راستے ميں ايك قوم كو ديكھا جو اپنے بتوں كے گرد خضوع اور انكسارى كے ساتھ اكٹھا تھے'' _(1)امت موسى عليہ السلام كے جاہل افراد يہ منظر ديكھ كر اس قدر متاثر ہوئے كہ فوراً حضرت موسى كے پاس آئے اور '' وہ كہنے لگے اے موسى ہمارے واسطے بھى بالكل ويسا ہى معبود بنادو جيسا معبود ان لوگوں كا ہے''_(2)حضرت موسى عليہ السلام ان كى اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائشے سے بہت ناراض ہوئے ، آپ نے ان لوگوں سے كہا: ''تم لوگ جاہل وبے خبر قوم ہو''_(3)

بنى اسرائيل ميں ناشكر گزار افراد كى كثرت تھي،باوجود يكہ انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے اتنے معجزے ديكھے، قدرت كے اتنے انعامات ان پر ہوئے، ان كا دشمن فرعون نابود ہوا ابھى كچھ عرصہ بھى نہيں گذرا تھا، وہ غرق كرديا گيا اور وہ سلامتى كے ساتھ دريا كو عبور كرگئے ليكن انہوں نے ان تمام باتوں كو يكسر بھلاديا اور حضرت موسى عليہ السلام سے بت سازى كا سوال كربيٹھے_


(1)سورہ اعراف آيت 138

(2)سورہ اعراف آيت 138

(3)سورہ اعراف 138

ايك يہودى كو حضرت اميرالمومنين عليہ السلام كا جواب

نہج البلاغہ ميں ہے كہ ايك مرتبہ ايك يہودى نے حضرت اميرالمو منين عليہ السلام كے سامنے مسلمانوں پر اعتراض كيا:

''ابھى تمہارے نبى دفن بھى نہ ہونے پائے تھے كہ تم لوگوں نے اختلاف كرديا ''_

حضرت على عليہ السلام نے اس كے جواب ميں فرمايا :

ہم نے ان فرامين واقوال كے بارے ميں اختلاف كيا ہے جو پيغمبر سے ہم تك پہنچے ہيں، پيغمبريا ان كى نبوت سے متعلق ہم نے كوئي اختلاف نہيں كيا (چہ جائيكہ الوہيت كے متعلق ہم نے كوئي بات كہى ہو)ليكن تم (يہودي) ابھى تمہارے پير دريا كے پانى سے خشك نہيں ہونے پائے تھے كہ تم نے اپنے نبى (حضرت موسى عليہ السلام) سے يہ كہہ ديا كہ ہمارے لئے ايك ايسا ہى معبود بنادو جس طرح كہ ان كے متعدد معبود ہيں، اور اس نبى نے تمہارے جواب ميں تم سے كہا تھا كہ تم ايك ايسا گروہ ہوجو جہل كے دريا ميں غوطہ زن ہے _

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى بات كى تكميل كے لئے بنى اسرائيل سے كہا: ''اس بت پرست گروہ كو جو تم ديكھ رہے ہو ان كا انجام ہلاكت ہے اور ان كاہر كام باطل وبے بنيادہے ''_(1)

اس كے بعد مزيد تاكيد كے لئے فرمايا گيا ہے : ''آيا خدائے برحق كے علاوہ تمہارے لئے كوئي دوسرا معبود بنالوں، وہى خدا جس نے اہل جہان (ہمعصر لوگوں)پر تم كو فضيلت دى ''_(2)

اس كے بعد خداوند كريم اپنى نعمتوں ميں سے ايك بڑى نعمت كا ذكر فرماتا ہے جو اس نے بنى اسرائيل كوعطا فرمائي تھى تاكہ اس عظيم نعمت كا تصور كركے ان ميں شكر گزارارى كا جذبہ بيدار ہواور انہيں يہ احساس ہوكہ پرستش اور سجدے كا مستحق صرف خدائے يكتا ويگانہ ہے، اور اس بت كى كوئي دليل نہيں پائي جاتى كہ جو بت بے نفع اور بے ضرر ہيں ان كے سامنے سر تعظيم جھكايا جائے _


(1)سورہ اعراف آيت 139

(2)سورہ اعراف140

پہلے ارشاد ہوتا ہے :'' ياد كرو اس وقت كو جب كہ ہم نے تمہيں فرعون كے گروہ كے شرسے نجات ديدي، وہ لوگ تم كو مسلسل عذاب ديتے چلے آرہے تھے ''_(1)

اس كے بعد اس عذاب وايزارسانى كى تفصيل يوں بيان فرماتاہے:وہ تمہارے بيٹوں كو تو قتل كرديتے تھے اور تمہارى عورتوں لڑكيوں كو (خدمت اور كنيزى كے لئے ) زندہ چھوڑديتے تھے'' _(2)

بنى اسرائيل سر زمين مقدس كى طرف

قران ميںاس كے بعد سرزمين مقدس ميں بنى اسرائيل كے ورود كے بارے ميں يوں بيان كيا گيا ہے:'' موسى عليہ السلام نے اپنى قوم سے كہا كہ تم سرزمين مقدس ميں جسے خدا نے تمہارے لئے مقرر كيا ہے_داخل ہوجائو، اس سلسلے ميں مشكلات سے نہ ڈرو، فدا كارى سے منہ نہ موڑو اور اگر تم نے اس حكم سے پيٹھ پھيرى تو خسارے ميں رہوگے ''_(3)

ارض مقدسہ سے كيا مراد ہے اس، اس سلسلے ميں مفسرين نے بہت كچھ كہا ہے، بعض بيت المقدس كہتے ہيں كچھ اردن يا فلسطين كانام ليتے ہيں اور بعض سرزمين طور سمجھتے ہيں، ليكن بعيد نہيں كہ اس سے مراد منطقہ شامات ہو، جس ميں تمام مذكورہ علاقے شامل ہيں _

كيونكہ تاريخ شاہد ہے كہ يہ سارا علاقہ انبياء الہى كا گہوراہ، عظيم اديان كے ظہور كى زمين اور طول تاريخ ميں توحيد، خدا پرستى اور تعليمات انبياء كى نشرواشاعت كا مركزرہاہے_

لہذا اسے سرزمين مقدس كہاگيا ہے اگرچہ بعض اوقات خاص بيت المقدس كو بھى ارض مقدس كہاجاتاہے_

بنى اسرائيل نے اس حكم پر حضرت موسى عليہ السلام كو وہى جواب ديا جو ايسے موقع پر كمزور، بزدل اور جاہل لوگ ديا كرتے ہيں _


(1)سورہ اعراف آيت 141

(2)سورہ اعراف آيت 141

(3)سورہ مائدہ آيت21

ايسے لوگ چاہتے ہيں كہ تمام كاميابياں انھيں اتفاقا ًاور معجزانہ طور پر ہى حاصل ہوجائيں يعنى لقمہ بھى كوئي اٹھاكران كے منہ ميں ڈال دے وہ حضرت موسى عليہ السلام سے كہنے لگے :'' آپ جانتے ہيں كہ اس علاقے ميں ايك جابر اور جنگجو گروہ رہتاہے جب تك وہ اسے خالى كركے باہر نہ چلاجائے ہم تو اس علاقے ميں قدم تك نہيں ركھيں گے اسى صورت ميں ہم آپ كى اطاعت كريں گے اور سرزمين مقدس ميں داخل ہوں گے ''_(1)

بنى اسرائيل كا يہ جواب اچھى طرح نشاندہى كرتا ہے كہ طويل فرعونى استعمارنے ان كى نسلوں پر كيسا اثر چھوڑا تھا لفظ'' لن '' جود ائمى پر دلالت كرتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ لوگ سرزمين مقدس كى آزادى كے لئے مقابلے سے كس قدر خوف زدہ تھے _

چاہئے تو يہ تھا كہ بنى اسرائيل سعى وكوشش كرتے، جہادو قربانى كے جذبے سے كام اور سرزمين مقدس پر قبضہ كرليتے اگر فرض كريں كہ سنت الہى كے برخلاف بغير كسى اقدام كے ان كے تمام دشمن معجزانہ طور پر نابود ہوجاتے اور بغير كوئي تكليف اٹھائے وہ وسيع علاقے كے وارث بن جاتے تو اس كانظام چلانے اور اس كى حفاظت ميں بھى ناكام رہتے بغير زحمت سے حاصل كى ہوئي چيز كى حفاظت سے انھيں كيا سروكار ہوسكتا تھا نہ وہ اس كے لئے تيار ہوتے اور نہ اہل _

جيسا كہ تواريخ سے ظاہر ہوتا ہے آيت ميں قوم جبار سے مراد قوم ''عمالقہ'' ہے يہ لوگ سخت جان اور بلند قامت تھے يہاں تك كہ ان كى بلند قامت كے بارے ميں بہت مبالغے ہوئے اور افسانے تراشے گئے اس سلسلے ميں مضحكہ خيز باتيں گھڑى گئيں جن كے لئے كوئي عملى دليل نہيں ہے _(2)


(1)سورہ مائدہ آيت 22

(2)خصوصاً '' عوج'' كے بارے ميں خرافات سے معمور ايسى كہانياں تاريخوں ميں ملتى ہيں _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ايسے افسانے جن ميں سے بعض اسلامى كتب ميں بھى آگئے ہيں، دراصل بنى اسرائيل كے گھڑے ہوئے ہيں انھيں عام طورپر '' اسرائيليات''كہا جاتا ہے اس كى دليل يہ ہے كہ خود موجودہ توريت كے متن ميں ايسے افسانے دكھائي ديتے ہيں _

اس كے بعد قرآن كہتا ہے :''اس وقت اہل ايمان ميں سے دوافراد ايسے تھے جن كے دل ميں خوف خدا تھا اور اس بنا پر انھيں عظيم نعمتيں ميسر تھيں ان ميں استقامت وشجاعت بھى تھى ، وہ دور انديش بھى تھے اور اجتماعى اور فوجى نقطہ نظر سے بھى بصيرت ركھتے تھے انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام كى دفاعى تجويز كى حمايت كى اور بنى اسرائيل سے كہنے لگے : تم شہر كے دروازے سے داخل ہوجائو اور اگر تم داخل ہوگئے تو كامياب ہوجائو گے ''_

ليكن ہر صورت ميں تمہيں روح ايمان سے مدد حاصل كرنا چاہئے اور خدا پر بھروسہ كروتاكہ اس مقصد كو پالو _''(1)

اس بارے ميں كہ يہ دو آدمى كون تھے ؟اكثر مفسرين نے لكھا ہے كہ وہ'' يوشع بن نون'' اور'' كالب بن يوفنا''(''يفنہ ''بھى لكھتے ہيں ) تھے جو بنى اسرائيل كے نقيبوں ميں سے تھے _

جب كامياب ہو جاو تو ہميں بھى خبركرنا

بنى اسرائيل نے يہ تجويز قبول نہ كى اور ضعف وكمزورى جوان كى روح پر قبضہ كرچكى تھي، كے باعث انھوں نے صراحت سے حضرت موسى عليہ السلام سے كہا:'' جب تك وہ لوگ اس سرزمين ميں ہيں ہم ہرگز داخل نہيں ہوں گے، تم اور تمہارا پروردگار جس نے تم سے كاميابى كا وعدہ كيا ہے،جائو اور عمالقہ سے جنگ كرو اور جب كامياب ہوجائو تو ہميں بتادينا ہم يہيں بيٹھے ہيں_ (2)

بنى اسرائيل نے اپنے پيغمبر كے ساتھ جسارت كى انتہاكردى تھي، كيونكہ پہلے تو انھوں نے لفظ ''لن'' اور'' ابداً'' استعمال كركے اپنى صريح مخالفت كا اظہار كيا اورپھر يہ كہا كہ تم اور تمہارا پروردگار جائو اور جنگ كرو، ہم تو يہاں بيٹھے ہيں ،انھوں نے حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے وعدوں كي، تحقير كى يہاں تك كہ خدا كے ان دوبندوں كى تجويز كى بھى پرواہ نہيں كى اور شايد انھيں تو كوئي مختصر سا جواب تك نہيں ديا_


(1)سورہ مائدہ آيت 23

(2)سورہ مائدہ آيت24

يہ امر قابل توجہ ہے كہ موجودہ توريت سفر اعداد باب 14/ ميں بھى اس داستان كے بعض اہم حصے موجود ہيں _

حضرت موسى عليہ السلام ان لوگوں سے بالكل مايوس ہوگئے اور انھوں نے دعا كے لئے ہاتھ اٹھا ديئے اور ان سے عليحدگى كے لئے يوں تقاضا كيا : ''پروردگارميرا تو صرف اپنے آپ پر اور اپنے بھائي پر بس چلتا ہے : خدايا ہمارے اور اس فاسق وسركش گروہ ميں جدائي ڈال دے''_ (1)

بنى اسرائيل بيابان ميں سرگرداں

آخركار حضرت موسى عليہ السلام كى دعا قبول ہوئي اور بنى اسرائيل اپنے ان برے اعمال كے انجام سے دوچار ہوئے خدا كى طرف سے حضرت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي :''يہ لوگ اس مقدس سرزمين سے چاليس سال تك محروم رہيں گے جو طرح طرح كى مادى اورر وحانى نعمات سے مالامال ہے''_(2)

علاوہ ازيں ان چاليس سالوں ميں انھيں اس بيابان ميں سرگرداں رہنا ہوگا اس كے بعد حضرت موسى عليہ السلام سے فرمايا گيا ہے : ''اس قوم كے سرپر جو كچھ بھى آئے وہ صحيح ہے، ان كے اس انجام پر كبھى غمگين نہ ہونا ''_(3)

آخرى جملہ شايد اس لئے ہو كہ جب بنى اسرائيل كے لئے يہ فرمان صادر ہوا كہ وہ چاليس سال تك سزا كے طور پر بيابان ميں سرگرداںرہيں حضرت موسى عليہ السلام كے دل ميں جذب ہ مہربانى پيدا ہوا ہو اور شايد انھوں نے درگاہ خداوندى ميں ان كے لئے عفوودر گذر كى درخواست بھى كى ہوجيسا كہ موجودہ توريت ميں بھى ہے_

ليكن انھيں فوراً جواب ديا گيا كہ وہ اس سزا كے مستحق ہيں نہ كہ عفوودرگذركے، كيونكہ جيسا كہ قرآن ميں ہے كہ وہ فاسق اور سركش لوگ تھے اور جو ايسے ہوں ان كے لئے يہ انجام حتمى ہے _


(1)سورہ مائدہ آيت25

(2)سورہ مائدہ آيت26

(3)سورہ مائدہ آيت

توجہ رہے كہ ان كے لئے چاليس سال كى يہ محروميت انتقامى جذبے سے نہ تھى (جيسا كہ خدا كى طرف سے كوئي سزا بھى ايسى نہيں ہوتى بلكہ وہ يا اصلاح كے لئے ہوتى ہے اور يا عمل كا نتيجہ)درحقيقت اس كا ايك فلسفہ تھا اور وہ يہ كہ بنى اسرائيل ايك طويل عرصے تك فرعونى استعمار كى ضربيں جھيل چكے تھے،اس عرصے ميں حقارت آميز رسومات،اپنے مقام كى عدم شناخت اور احساسات ذلت كا شكار ہو چكے تھے اور حضرت موسى عليہ السلام جيسے عظيم رہبر كى سر پرستى ميں اس تھوڑے سے عرصے ميں اپنى روح كو ان خاميوں سے پاك نہيں كرسكے تھے اور وہ ايك ہى جست ميں افتخار،قدرت اور سربلندى كى نئي زندگى كے لئے تيار نہيں ہو پائے تھے_

حضرت موسى عليہ السلام نے انھيں مقدس سرزمين كے حصول كے لئے جہاد آزادى كا جو حكم ديا تھا اس پر عمل نہ كرنے كے لئے انھوں نے جو كچھ كہا وہ اس حقيقت كى واضح دليل ہے لہذا ضرورى تھا كہ وہ ايك طويل مدت وسيع بيابانو ںميں سرگرداں رہيں اور اس طرح ان كى ناتواں اور غلامانہ ذہنيت كى حامل موجودہ كمزور نسل آہستہ آہستہ ختم ہوجائے اور نئي نسل حريت و آزادى كے ماحول ميں اورخدائي تعليمات كى آغوش ميں پروان چڑھے تاكہ وہ اس قسم كے جہاد كے لئے اقدام كرسكے او راس طرح سے اس سرزمين پر حق كى حكمرانى قائم ہو سكے_

بنى اسرائيل كا ايك گروہ پشيمان ہوا

بنى اسرارئيل كا ايك گروہ اپنے كئے پر سخت پشيمان ہوا_انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا_خدا نے دوسرى مرتبہ بنى اسرائيل كو اپنى نعمتوں سے نوازا جن ميں سے بعض كى طرف قرآن ميں اشارہ كيا گيا ہے_

''ہم نے تمہارے سر پر بادل سے سايہ كيا''_(1)سر خط وہ مسافر جو صبح سے غروب تك سورج كى گرمى ميں بيابان ميں چلتا ہے وہ ايك لطيف سائے سے كيسى راحت پائے گا(وہ سايہ جو بادل كا ہو جس سے انسان كے لئے نہ تو فضا محدود ہوتى ہو اور نہ جو ہوا چلنے سے مانع ہو)_


(1)سورہء بقر آيت57

يہ صحيح ہے كہ بادل كے سايہ فگن ٹكڑوںكا احتمال ہميشہ بيابان ميں ہوتا ہے ليكن قرآن واضح طور پر كہہ رہا ہے كہ بنى اسرئيل كے ساتھ ايسا عام حالات كى طرح نہ تھا بلكہ وہ لطف خدا سے اكثر اس عظيم نعمت سے بہرہ ور ہوتے تھے_

دوسرى طرف اس خشك اور جلادينے والے بيابان ميں چاليس سا ل كى طويل مدت سرگرداں رہنے والوں كے لئے غذا كى كافى و وافى ضرورت تھي،اس مشكل كو بھى خداوند عالم نے ان كے لئے حل كرديا ،جيسا كہ اشاد ہوتا ہے:ہم نے'' من وسلوى '' جو لذيذ اور طاقت بخش غذا ہے تم پر نازل كيا_

ان پاكيزہ غذائوں سے جو تمہيں روزى كے طور پر دى گئي ہيں كھائو(اور حكم خدا كى نافرمانى نہ كرو اور اس كى نعمت كا شكر اداكرو_)

ليكن وہ پھر بھى شكر گزارى كے دروازے ميں داخل نہيں ہوئے(تاہم)''انہوں نے ہم پر كوئي ظلم نہيں كيا بلكہ اپنے اوپر ہى ظلم كيا ہے''_(1)

منّ و سلوى كيا ہے؟

نبى اكرم (ص) سے منقول ايك روايت كے مطابق،آپ نے فرمايا:

''كھمبى كى قسم كى ايك چيز تھى جو اس زمين ميں اُگتى تھي''_پس معلوم ہوا كہ ''منّ''ايك ''قارچ''تھى جو اس علاقہ ميں پيدا ہوتى تھي_(2)


(1)سورہ بقر آيت57

(2)توريت ميں ہے كہ ''منّ''دھنيے كے دانوں جيسى كوئي چيزہے جو رات كو اس سر زمين پر آگرتى تھي،بنى اسرائيل اسے اكٹھا كركے پيس ليتے اور اس سے روٹى پكاتے تھے جس كا ذائقہ روغنى روٹى جيسا ہوتا تھا_-->

ايك احتمال اور بھى ہے كہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے زمانے ميں خدا كے لطف وكرم سے جو نفع بخش بارشيں برستى تھيں ان كے نتيجے ميں درختوں سے كوئي خاص قسم كا صمغ اور شيرہ نكلتا تھا اور بنى اسرائيل اس سے مستفيد ہوتے تھے_

بعض نے كہا ہے كہ'' منّ'' سے مراد وہ تمام نعمتيں جو خدانے بنى اسرائيل كو عطا فرمائي تھيں اور سلوى وہ تمام عطيات ہيں جو ان كى راحت و آرام اور اطمينان كا سبب تھے_

''سلوى ''اگر چہ بعض مفسرين نے اسے شہد كے ہم معنى ليا ہے ليكن دوسرے تقريباًسب مفسرين نے اسے پرندے كى ايك قسم قرار ديا ہے_يہ پرندہ اطراف اور مختلف علاقوں سے كثرت سے اس علاقے ميں آتا تھا اور بنى اسرائيل اس كے گوشت سے استفادہ كرتے تھے_عہدين پر لكھى گئي تفسير ميں بھى اس نظريہ كى تائيد دكھائي ديتى ہے_(1)

البتہ بنى اسرائيل كى سرگردانى كے دنوں ميں ان پر خدا كا يہ خاص لطف وكرم تھا كہ يہ پرندہ وہاں كثرت سے ہوتا تھا تا كہ وہ اس سے استفادہ كرسكيں_ورنہ تو عام حالات ميں اس طرح كى نعمت كا وجود مشكل تھا_


<-- بعض ديگر حضرات كے نزديك''من''ايك قسم كا طبيعى شہد ہے اور بنى اسرائيل اس بيابان ميں طويل مدت تك چلتے پھرتے رہنے سے شہد كے مخزنوں تك پہنچ جاتے تھے كيونكہ ''بيابان تيہ ''كے كناروں پر پہاڑ اور سنگلاخ علاقہ تھا جس ميں كافى طبيعى شہد نظر آجاتا تھا_

عہدين(توريت اور انجيل)پر لكھى گئي تفسير سے اس تفسير كى تائيد ہوتى ہے جس ميں ہے كہ مقدس سر زمين قسم قسم كے پھولوں اور شگوفوں كى وجہ سے مشہور ہے اسى لئے شہد كى مكھيوں كے جتھے ہميشہ پتھروں كے سوراخوں،درختوں كى شاخوں اور لوگوں كے گھروں پر جا بيٹھتے ہيں اس طرح سے بہت فقير و مسكين لوگ بھى شہد كھا سكتے تھے_

(1)اس ميں لكھا ہے معلوم ہونا چاہيے كہ بہت بڑى تعداد ميں سلوى افريقہ سے چل كے شمال كو جاتے ہيں_''جزيرہ كاپري'' ميںايك فصل ميں 16ہزار كى تعداد ميں ان كا شكار كيا گيا _يہ پرندہ بحيرہ قلزم كے راستے سے آتا ہے_ خليج عقبہ اور رسويز كو عبور كرتا ہے_ ہفتے كو جزيرہ سينا ميں داخل ہوتا ہے اور راستے ميں اس قدر تكان و تكليف جھيلنے كى وجہ سے آسانى سے ہاتھ سے پكڑا جا سكتا ہے، اور جب پرواز كرتا ہے تو زمين كے قريب ہوتا ہے_اس حصے كے متعلق(توريت كے)سفر خروج اور سفر اعداد ميں گفتگو ہوئي ہے_

اس تحرير سے بھى واضح ہوتا ہے كہ سلوى سے مراد وہى پر گوشت پرندہ ہے جو كبوتر كے مشابہ اور اس كے ہم وزن ہوتا ہے اور يہ پرندہ اس سر زمين ميں مشہور ہے _

بيابانوں ميں چشمہ ابلنا

بنى اسرائيل پر كى گئي ايك اور نعمت كى نشاندہى كرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے:''ياد كرو اس وقت كو جب موسى عليہ السلام نے(اس خشك اورجلانے والے بيا بان ميں جس وقت بنى اسرائيل پانى كى وجہ سے سخت تنگى ميں مبتلا تھے)پانى كى درخواست كي''_(1)تو خدا نے اس درخواست كو قبول كيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے:ہم نے اسے حكم ديا كہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو اس سے اچانك پانى نكلنے لگا اور پانى كے بارہ چشمے زور و شور سے جارى ہوگئے_(2)بنى اسرائيل كے قبائيل كى تعداد كے عين مطابق جب يہ چشمے جارى ہوئے تو ايك چشمہ ايك قبيلے كى طرف جھك جاتا تھا جس پر بنى اسرائيل كے لوگوں''اور قبيلوں ميں سے ہر ايك نے اپنے اپنے چشمے كو پہچان ليا_(3)

يہ پتھر كس قسم كا تھا،حضرت موسى عليہ السلام كس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانى اس ميں سے كيسے جارى ہوجاتا تھا_اس سلسلے ميں بہت كچھ گفتگو كى گئي ہے_قرآن جو كچھ اس بارے ميں كہتا ہے وہ اس سے زيا دہ نہيں كہ موسى عليہ السلام نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جارى ہوگئے_

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ يہ پتھر ايك كوہستانى علاقے كے ايك حصے ميں واقع تھا جو اس بيابان كى طرف جھكا ہوا تھا_ سورہ اعراف آيہ160كى تعبيراس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ابتداء ميں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانى نكلا ،بعد ميں زيادہ ہوگيا،يہاںتك كہ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ ان كے جانور جو ان كے ساتھ تھے اور وہ كھيتى جو انہوں نے احتمالاً اس بيابان كے ايك حصے ميں تيار كى تھى سب اس سے سيراب ہوگئے،يہ كوئي تعجب كى بات نہيں كہ كوہستانى علاقے ميں پتھر كے ايك حصے سے پانى جارى ہوا البتہ يہ مسلم ہے كہ يہ سب معجزے سے رونما ہوا_(4)


(1)سورہ بقرہ آيت60

(2)سورہ بقرہ ايت 60

(3)سورہ بقرہ آيت60

(4)توريت كى سترھويں فصل ميں سفر خروج كے ذيل ميں بھى يوں لكھا ہے:

''خدا نے موسى عليہ السلام سے كہا:قوم كے آگے آگے رہو اور اسرائيل كے بعض بزرگوں كو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نہر پر مارا تھا ہاتھ ميں لے كر روانہ ہو جائو_ ميں وہاں تمہارے سامنے كوہ حوريب پر كھڑا ہوجائوں گا_ اور اسے پتھر پر مارو،اس سے پانى جارى ہوجائےگا ،تاكہ قوم پى لے اور موسى عليہ السلام نے اسرائيل كے مشائخ اور بزرگوں كے سامنے ايسا ہى كيا''_

بہر حال ايك طرف خداوند عالم نے ان پر من و سلوى نازل كيا اور دوسرى طرف انہيں فراوان پانى عطا كيا اور ان سے فرمايا:''خدا كى دى ہوئي روزى سے كھائو پيو ليكن زمين ميں خرابى اور فساد نہ كرو''_(1)

گويا انہيں متوجہ كيا گياہے كہ كم از كم ان عظيم نعمتوں كى شكر گزارى كے طور پر ضدى پن،ستمگري،انبياء كى ايذا رسانى اور بہانہ بازى ترك كردو_

مختلف كھانوں كى تمنا

ان نعمات فراوان كى تفصيل كے بعد جن سے خدا نے بنى اسرائيل كو نوازا تھا_ قرآن ميں ان عظيم نعمتوں پر ان كے كفران اور ناشكر گزارى كى حالت كو منعكس كيا گيا ہے_اس ميں اس بات كى نشاندہى ہے كہ وہ كس قسم كے ہٹ دھرم لوگ تھے_شايد تاريخ دنيا ميں ايسى كوئي مثال نہ ملے گى كہ كچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الہى ہو ليكن انہوں نے اس طرح سے اس كے مقابلے ميں ناشكر ى اور نا فرمانى كى ہو_

پہلے فرمايا گيا ہے:

''ياد كرو اس وقت كو جب تم نے كہا :اے موسى ہم سے ہر گز يہ نہيں ہوسكتا كہ ايك ہى غذا پر قناعت كرليں،(من و سلوى كتنى ہى لذيذ غذا ہو، ہم مختلف قسم كى غذا چاہتے ہيں_)(2)

''لہذا خدا سے خواہش كرو كہ وہ زمين سے جو كچھ اگايا كرتا ہے ہمارے لئے بھى اگائے سبزيوں ميں سے،ككڑي،لہسن،مسور اور پياز''_(3)

ليكن موسى عليہ السلام نے ان سے كہا:''كيا تم بہتر كے بجائے پست تر غذا پسند كرتے ہو''_(4)

''جب معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر اس بيابان سے نكلو اور كسى شہر ميں داخل ہونے كى كوشش كروكيونكہ جو كچھ تم چاہتے ہو وہ وہاں ہے''_(5)


(1)سورہ بقرہ آيت60

(2)سورہ بقرہ آيت61

(3)سورہ بقرہ آيت61

(4)سورہ بقرہ آيت61

(5)سورہ بقرہ آيت61

يعنى تم لوگ اس وقت اس بيابان ميں خود سازى اور امتحان كى منزل ميں ہو،يہاں مختلف كھانے نہيں مل سكتے ،جاو شہر ميں جاو تاكہ يہ چيزيں تمہيں مل جائيں ،ليكن يہ خود سازى كا پروگرام وہاں نہيں ہے_

اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے كہ خدا نے ان كى پيشانى پر ذلت و فقر كى مہر لگاديااور وہ دوبارہ غضب الہى ميں گرفتار ہوگئے _

يہ اس لئے ہوا كہ وہ آيات الہى كا انكار كرتے تھے اور ناحق انبياء كو قتل كرتے تھے _ يہ سب اس لئے تھا كہ وہ گناہ،سركشى اور تجاوز كے مرتكب ہوتے تھے_(1)

عظيم وعدہ گاہ

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كا ايك اور منظر بيان كيا گيا ہے_ ايك مرتبہ پھر حضرت موسى عليہ السلام كو اپنى قوم سے جھگڑنا پڑا ہے،حضرت موسى عليہ السلام كا خدا كے مقام وعدہ پر جانا،وحى كے ذريعے احكام توريت لينا،خدا سے باتيں كرنا،كچھ بزرگان بنى اسرائيل كو ميعاد گاہ ميں ان واقعات كے مشاہدہ كے لئے لانا،اس بات كا اظہار ہے كہ خدا كو ان آنكھوں سے ہر گز نہيں ديكھا جاسكتا_

پہلے فرمايا گيا ہے:''ہم نے موسى سے تيس راتوں (پورے ايك مہينہ)كا وعدہ كيا،اس كے بعد مزيد دس راتيں بڑھا كر اس وعدہ كى تكميل كي، چنانچہ موسى سے خدا كا وعدہ چاليس راتوں ميں پورا ہوا''_(2)

اس كے بعد اس طرح بيان كيا گيا ہے:''موسى نے اپنے بھائي ہارون سے كہا:ميرى قوم ميں تم ميرے جانشين بن جائو اور ان كى اصلاح كى كوشش كرو اور كبھى مفسدوں كى پيروى نہ كرنا''_(3)(4)


(1)سورہ بقرہ آيت61

(2)سورہ اعراف آيت 142

(3)سورہ اعراف آيت143

(4)پہلا سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ خدا نے پہلے ہى سے چاليس راتوں كا وعدہ كيوں نہ كيا بلكہ پہلے تيس راتوں كا وعدہ كيا اس كے بعد دس راتوں كا اور اضافہ كرديا_

مفسرين كے درميان اس تفريق كے بارے ميں بحث ہے، ليكن جو بات بيشتر قرين قياس ہے،نيز روايات -->

ديدار پرودگار كى خواہش

قرآن ميں بنى اسرائيل كى زندگى كے بعض ديگر مناظر پيش كئے گئے ہيں_ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے حضرت موسى عليہ السلام سے بڑے اصرار كے ساتھ يہ خواہش كى كہ وہ خدا كو ديكھيں گے_ اگر ان كى يہ خواہش پورى نہ ہوئي تو وہ ہر گز ايمان نہ لائيں گے_


<-- اہل بيت عليہم السلام كے بھى موافق ہے وہ يہ ہے كہ يہ ميعاد اگر چہ واقع ميں چاليس راتوں كا تھا ليكن خدا نے بنى اسرائيل كى آزمائشے كرنے كے لئے پہلے موسى عليہ السلام كو تيس راتوں كى دعوت دى پھر اس كے بعد اس كى تجديد كردى تا كہ منافقين مومنين سے الگ ہوجائيں_اس سلسلے ميں امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا:

جس وقت حضرت موسى عليہ السلام وعدہ گاہ الہى كى طرف گئے تو انہوں نے بنى اسرائيل سے يہ كہہ ركھا تھا كہ ان كى غيبت تيس روز سے زيادہ طولانى نہ ہوگى ليكن جب خدا نے اس پر دس دنوں كا اضافہ كرديا تو بنى اسرائيل نے كہا:موسى عليہ السلام نے اپنا وعدہ توڑ ديا اس كے نتيجہ ميں انہوں نے وہ كام كئے جو ہم جانتے ہيں(يعنى گوسالہ پرستى ميں مبتلا ہوگئے_)

رہا يہ سوال كہ يہ چاليس روز يا چاليس راتيں،اسلامى مہينوں ميں سے كونسا زمانہ تھا؟ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مدت ذيقعدہ كى پہلى تاريخ سے لے كر ذى الحجہ كى دس تاريخ تك تھي_ قرآن ميں چاليس راتوں كا ذكر ہے نہ كہ چاليس دنوں كا_ تو شايد اس وجہ سے ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كى اپنے رب سے جو مناجاتيں تھيں وہ زيادہ تر رات ہى كے وقت ہوا كرتى تھيں_

اس كے بعد ايك اور سوال سامنے آتا ہے،وہ يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كسطرح اپنے بھائي ہارون(ع) سے كہا كہ:قوم كى اصلاح كى كوشش كرنا اور مفسدوں كى پيروى نہ كرنا،جبكہ حضرت ہارون(ع) ايك نبى برحق اور معصوم تھے وہ بھلا مفسدوں كى پيروى كيوں كرنے لگے؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:يہ درحقيقت اس بات كى تاكيد كے لئے تھا كہ حضرت ہارون(ع) كو اپنى قوم ميں اپنے مقام كى اہميت كا احساس رہے اور شايد اس طرح سے خود بنى اسرائيل كو بھى اس بات كا احساس دلانا چاہتے تھے كہ وہ ان كى غيبت ميں حضرت ہارون(ع) كى رہنمائي كا اچھى طرح اثر ليں اور ان كا كہنا مانيں اور ان كے اوامر ور نواہي(احكامات)كو اپنے لئے سخت نہ سمجھيں،اس سے اپنى تحقير خيال نہ كريں اور انكے سامنے اس طرح مطيع و فرمانبرداررہيں جس طرح وہ خود حضرت موسى عليہ السلام كے فرمانبردار تھے_

چنانچہ حضرت موسى عليہ السلام نے ان كے ستر آدميوں كا انتخاب كيا اور انہيں اپنے ہمراہ پروردگار كى ميعادگاہ كى طرف لے گئے، وہاں پہنچ كر ان لوگوں كى درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كيا_ خدا كى طرف سے اس كا ايسا جواب ملا جس سے بنى اسرائيل كے لئے يہ بات اچھى طرح سے واضح ہوگئي_

ارشاد ہوتا ہے:'' جس وقت موسى ہمارى ميعادگاہ ميں آئے اور ان كے پروردگار نے ان سے باتيں كيں تو انہوں نے كہا:اے پروردگار خود كو مجھے دكھلادے تاكہ ميں تجھے ديكھ لوں''_(1)

ليكن موسى عليہ السلام نے فوراًخدا كى طرف سے يہ جواب سنا: تم ہز گز مجھے نہيں ديكھ سكتے _

ليكن پہاڑ كى حانب نظر كرو اگر وہ اپنى جگہ پر ٹھہرا رہا تب مجھے ديكھ سكو گے_

جس وقت خدا نے پہاڑ پر جلوہ كيا تو اسے فنا كرديا اور اسے زمين كے برابر كرديا_

موسى عليہ السلام نے جب يہ ہولناك منظر ديكھا تو ايسا اضطراب لاحق ہوا كہ بے ہوش ہو كر زمين پر گرپڑے_اور جب ہوش ميں آئے تو خدا كى بارگاہ ميں عرض كى پروردگاراتو منزہ ہے،ميں تيرى طرف پلٹتا ہوں،اور توبہ كرتا ہوں اور ميں پہلا ہوں مومنين ميںسے_(2)

حضرت موسى عليہ السلام نے رويت كى خواہش كيوں كي؟

حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولوالعزم نبى كو اچھى طرح معلوم تھا كہ ذات خداوندى قابل ديد نہيں ہے كيونكہ نہ تو وہ جسم ہے،نہ اس كے لئے كوئي مكان و جہت ہے اس كے باوجود انہوں نے ايسى خواہش كيسے كردى جو فى الحقيقت ايك عام انسان كى شان كے لئے بھى مناسب نہيں ہے؟

سب سے واضح جواب يہ ہے كہ جضرت موسى عليہ السلام نے يہ خواہش در اصل اپنى قوم كى طرف سے كى تھى كيونكہ بنى اسرائيل كے جہلاء كے ايك گروہ كا يہ اصرار تھا كہ وہ خدا كو كھلم كھلا ديكھيں گے تب ايمان لائيں گے_


(1)سورہ اعراف 143

(2)سورہ اعراف آيت143

حضرت موسى عليہ السلام كو اللہ كى جانب سے يہ حكم ملا كہ وہ اس درخواست كو خدا كى بارگاہ ميں پيش كريں تا كہ سب اس كا جواب سن ليں،كتاب عيون اخبار الرضا ميں امام رضا عليہ السلام سے جو حديث مروى ہے وہ بھى اس مطلب كى تائيد كرتى ہے_(1)

الواح توريت

آخر كار اس عظيم ميعادگاہ ميں اللہ نے موسى عليہ السلام پر اپنى شريعت كے قوانين نازل فرمائے_پہلے ان سے فرمايا:''اے موسى ميںنے تمہيں لوگوں پر منتخب كيا ہے،اور تم كو اپنى رسالتيں دى ہيں،اور تم كو اپنے ساتھ گفتگو كا شرف عطا كيا ہے''_(2)


(1)حضرت موسى عليہ السلام نے كس چيز سے توبہ كى ؟اس بارے ميں جوسوال سامنے آتا ہے يہ ہے كہ جب حضرت موسى عليہ السلام ہوش ميں آئے تو انہوں نے كيوں كہا :''ميں تو بہ كر تا ہوں''

حالانكہ انہوں نے كوئي خلاف ورزى نہيں كى تھي_كيونكہ اگر انہوں نے يہ درخواست اپنى امت كى طرف سے كى تھى تو اس ميں ان كا كيا قصور تھا،اللہ كى اجازت سے انہوں نے يہ درخواست خدا كے سامنے پيش كى اور اگر اپنے لئے شہود باطنى كى تمنا كى تھى تو يہ بھى خدا كے حكم كى مخالفت نہ تھي،لہذا توبہ كس بات كى تھي؟دوطرح سے اس سوال كا جواب ديا جا سكتا ہے:

اول:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام نے بنى اسرائيل كى نمائندگى كے طور پر خداسے يہ سوال كيا تھا،اس كے بعد جب خدا كى طرف سے سخت جواب ملا جس ميں اس سوال كى غلطى كو بتلايا گيا تھا تو حضرت موسى عليہ السلام نے توبہ بھى انہيں كى طرف سے كى تھي_

دوم:يہ كہ حضرت موسى عليہ السلام كو اگر چہ يہ حكم ديا گيا تھا كہ وہ بنى اسرائيل كى درخواست كو پيش كريں ليكن جس وقت پروردگار كى تجلى كا واقعہ رونما ہوا اور حقيقت آشكار ہوگئي تو حضرت موسى عليہ السلام كى يہ ماموريت ختم ہوچكى تھى اب حضرت موسى عليہ السلام كو چاہيئےہ پہلى حالت(يعنى قبل از ماموريت)كى طرف پلٹ جائيں اور اپنے ايمان كا اظہار كريں تاكہ كسى كے لئے جائے شبہ باقى نہ رہے،لہذا اس حالت كا اظہار موسى عليہ السلام نے اپنى توبہ اور اس جملہ ''انى تبت اليك وانا اول المو منين''سے كيا_

(2)سورہ اعراف144

اب جبكہ ايسا ہے تو''جو ميں نے تم كو حكم ديا ہے اسے لے لو اور ہمارے اس عطيہ پر شكر كرنے والوں ميں سے ہوجائو''_(1)

اس كے بعد اضافہ كيا گيا ہے كہ :ہم نے جو الواح موسى عليہ السلام پر نازل كى تھيں ان پر ہر موضوع كے بارے ميں كافى نصيحتيں تھيں اورضرورت كے مسائل كى شرح اور بيان تھا_

اس كے بعد ہم نے موسى عليہ السلام كو حكم ديا كہ''بڑى توجہ اور قوت ارادى كے ساتھ ان فرامين كو اختيار كرو_''(2)اور اپنى قوم كو بھى حكم دو كہ ان ميں جو بہترين ہيںانہيں اختيار كريں_

اور انہيں خبردار كردوكہ ان فرامين كى مخالفت اور ان كى اطاعت سے فرار كرنے كا نتيجہ دردناك ہے اوراس كا انجام دوزخ ہے اور ''ميں جلد ہى فاسقوں كى جگہ تمہيں دكھلادوںگا_''(3)(4)


(1)سورہ اعراف144

(2)سورہ اعراف آيت 145

(3)سورہ اعراف آيت145

(4)يہاں پردو چيزوں كى طرف توجہ كرنا ضرورى ہے:

1_الواح كس چيز كى بنى ہوئي تھيں:اس آيت كا ظاہر يہ ہے كہ خداوند كريم نے حضرت موسى عليہ السلام پر جو الواح نازل كى تھيں ان ميں توريت كى شريعت اور قوانين لكھے ہوئے تھے ،ايسا نہ تھا كہ يہ لوحيں حضرت موسى عليہ السلام كے ہاتھ ميں تھيں اور اس ميں فرامين منعكس ہوگئے تھے_ اب رہا يہ سوال كہ يہ لوحيں كيسى تھيں؟كس چيز كى بنى ہوئي تھيں؟ قرآن نے اس بات كى كوئي وضاحت نہيں كى ہے صرف كلمہ''الواح'' سربستہ طور پر آيا ہے_جو در اصل''لاح يلوح''كے مادہ سے ماخوذ ہے جس كے معنى ظاہر ہونے اور چمكنے كے ہيں_چونكہ صفحہ كے ايك طرف لكھنے سے حروف نماياں ہوجاتے ہيںاور مطلب آشكار ہوجاتے ہيں،اس لئے صفحہ كو جس پر كچھ لكھا جائے''لوح''كہتے ہيں_ليكن روايات و اقوال مفسرين ميں ان الواح كى كيفيت كے بارے ميں اور ان كى جنس كے بارے ميں گوناگوں احتمالات ذكر كئے گئے ہيں_ چونكہ ان ميں سے كوئي بھى يقينى نہيں ہے اس لئے ان كے ذكر سے ہم اعراض كرتے ہيں_

2_كلام كيسے ہوا:قرآن كريم كى مختلف آيات سے استفادہ ہوتا ہے كہ خداوندمتعال نے حضرت موسى عليہ السلام سے كلام كيا،خدا كا موسى عليہ السلام سے كلام كرنا اس طرح تھا كہ اس نے صوتى امواج كو فضا ميں يا كسى جسم ميں پيدا كرديا تھا_ كبھى يہ امواج صوتي''شجرہ وادى ايمن ''سے ظاہر ہوتى تھيں اور كبھي''كوہ طور'' سے حضرت موسى عليہ السلام كے كان ميں پہنچتى تھيں_ جن لوگوں نے صرف الفاظ پر نظر كى ہے اور اس پر غور نہيںكيا كہ يہ الفاظ كہاں سے نكل سكتے ہيں انہوں نے يہ خيال كيا كہ خدا كا كلام كرنا اس كے تجسم كى دليل ہے_حالانكہ يہ خيال بالكل بے بنياد ہے_

يہوديوں ميں گوسالہ پرستى كاآغاز

قرآن ميں افسوسناك اور تعجب خيز واقعات ميں سے ايك واقعہ كا ذكر ہوا ہے جو حضرت موسى عليہ السلام كے ميقات كى طرف جانے كے بعد بنى اسرائيل ميں رونما ہوا_وہ واقعہ ان لوگوں كى گوسالہ پرستى ہے_ جو ايك شخص بنام''سامري''نے زيور و آلات بنى اسرائيل كے ذريعے شروع كيا_

next index back