next index back

پھر نعيم مخفى طور پر قريش كے پاس گيا اور ابو سفيان اور قريش كے چندسرداروں سے كہا كہ تم اپنے ساتھ ميرى دوستى كى كيفيت سے اچھى طرح آگاہ ہو، ايك بات ميرے كانوںتك پہنچى ہے، جسے تم تك پہنچا نا ميں اپنا فريضہ سمجھتا ہوں تا كہ خير خواہى كا حق اداكر سكوں ليكن ميرى خواہش يہ ہے كہ يہ بات كسى او ركو معلو م نہ ہونے پائے _

انھوں نے كہا كہ تم بالكل مطمئن رہو _

نعيم كہنے لگے : تمہيں معلوم ہو نا چاہيے كہ يہودى محمد(ص) كے بارے ميںتمھارے طرز عمل سے اپنى برائت كا فيصلہ كر چكے ہيں ،يہوديوں نے محمد(ص) كے پاس قاصد بھيجا ہے او ركہلوايا ہے كہ ہم اپنے كئے پر پشيمان ہيں اور كيا يہ كافى ہو گا كہ ہم قبيلہ قريش او رغطفان كے چندسردار آپ(ص) كے لئے يرغمال بناليں اور ان كو بندھے ہاتھوں آپ كے سپرد كرديں تاكہ آپ ان كى گردن اڑاديں، اس كے بعد ہم آپ كے ساتھ مل كر ان كى بيخ كنى كريں گے ؟محمد(ص) نے بھى ان كى پيش كش كوقبول كرليا ہے، اس بنا ء پر اگر يہودى تمہارے پاس كسى كو بھيجيں او رگروى ركھنے كا مطالبہ كريں تو ايك آدمى بھى ان كے سپرد نہ كر نا كيونكہ خطرہ يقينى ہے _

پھر وہ اپنے قبيلہ غطفان كے پاس آئے اور كہا :تم ميرے اصل اور نسب كو اچھى طرح جانتے ہو_

ميں تمھاراعاشق او رفريفتہ ہوں او رميں سوچ بھى نہيں سكتا كہ تمھيں ميرے خلوص نيت ميںتھوڑا سابھى شك اور شبہ ہو _

انھوںنے كہا :تم سچ كہتے ہو ،يقينا ايسا ہى ہے _

نعيم نے كہا : ميںتم سے ايك بات كہنا چاہتا ہوں ليكن ايسا ہو كہ گو يا تم نے مجھ سے بات نہيں سنى _

انھوں نے كہا :مطمئن رہويقينا ايسا ہى ہو گا ،وہ بات كيا ہے ؟

نعيم نے وہى بات جو قريش سے كہى تھى يہوديوں كے پشيمان ہونے او رير غمال بنانے كے ارادے كے بارے ميں حرف بحرف ان سے بھى كہہ ديا او رانھيں اس كام كے انجام سے ڈرايا _

اتفاق سے وہ ( ماہ شوال سن 5 ہجرى كے ) جمعہ او رہفتہ كى درميانى رات تھى _ ابو سفيان او رغطفان كے سرداروں نے ايك گروہ بنى قريظہ كے يہوديوںكے پاس بھيجا او ركہا : ہمارے جانور يہاں تلف ہو رہے ہيں اور يہاں ہمارے لئے ٹھہر نے كى كو ئي جگہ نہيں _ كل صبح ہميں حملہ شروع كرنا چاہيے تاكہ كام كو كسى نتيجے تك پہنچائيں _

يہوديوں نے جواب ميں كہا :كل ہفتہ كا دن ہے او رہم اس دن كسى كام كو ہاتھ نہيں لگاتے ،علاوہ ازيں ہميں اس بات كا خوف ہے كہ اگر جنگ نے تم پر دبائو ڈالا تو تم اپنے شہروں كى طرف پلٹ جائو گے او رہميں يہاں تنہاچھوڑدوگے _ ہمارے تعاون او رساتھ دينے كى شرط يہ ہے كہ ايك گروہ گروى كے طور پر ہمارے حوالے كردو، جب يہ خبر قبيلہ قريش او رغطفان تك پہنچى تو انھوں نے كہا :خداكى قسم نعيم بن مسعود سچ كہتا تھا،دال ميں كالا ضرو رہے _

لہذا انھوںنے اپنے قاصد يہوديوں كے پاس بھيجے اور كہا : بخدا ہم تو ايك آدمى بھى تمھارے سپرد نہيں كريں گے او راگر جنگ ميں شريك ہو تو ٹھيك ہے شروع كرو _

بنى قريظہ جب اس سے با خبر ہوئے تو انھوں نے كہا :واقعا نعيم بن مسعود نے حق بات كہى تھى يہ جنگ نہيں كرنا چاہتے بلكہ كوئي چكر چلا رہے ہيں، يہ چا ہتے ہيں كہ لوٹ مار كر كے اپنے شہروں كو لوٹ جائيں او

رہميں محمد(ص) كے مقابلہ ميں اكيلا چھوڑجا ئيں پھر انہوں نے پيغام بھيجا كہ اصل بات وہى ہے جو ہم كہہ چكے ہيں ،بخدا جب تك كچھ افرادگروى كے طور پر ہمارے سپرد نہيں كروگے ،ہم بھى جنگ نہيں كريں گے ،قريش اورغطفان نے بھى اپنى بات پراصرار كيا، لہذا ان كے درميان بھى اختلاف پڑ گيا _ اور يہ وہى موقع تھا كہ رات كو اس قدر زبردست سرد طوفانى ہوا چلى كہ ان كے خيمے اكھڑگئے اور ديگيں چو لہوں سے زمين پر آپڑيں _

يہ سب عوامل مل ملاكر اس بات كا سبب بن گئے كہ دشمن كو سر پر پائوں ركھ كر بھا گنا پڑا اور فرار كو قرار پر ترجيح دينى پڑى _ يہاں تك كہ ميدان ميں انكا ايك آدمى بھى نہ رہا_

حذيفہ كا واقعہ

بہت سى تواريخ ميں آيا ہے ،كہ حذيفہ يمانى كہتے ہيں كہ ہم جنگ خندق ميں بھوك او رتھكن ،وحشت اوراضطراب اس قدر دو چار تھے كہ خدا ہى بہتر جانتا ہے ،ايك رات (لشكر احزاب ميں اختلاف پڑ جانے كے بعد )پيغمبر (ص) نے فرمايا:كيا تم ميں سے كوئي ايسا شخص ہے جو چھپ چھپا كر دشمن كى لشكر گاہ ميں جائے اور ان كے حالات معلوم كر لائے تا كہ وہ جيت ميں ميرا رفيق اور ساتھى ہو_

حذيفہ كہتے ہيں: خدا كى قسم كوئي شخض بھى شدت وحشت ، تھكن اور بھوك كے مارے اپنى جگہ سے نہ اٹھا _

جس وقت آنحضرت(ص) نے يہ حالت ديكھى تو مجھے آوازدي، ميں آپ كى خدمت ميں حاضر ہوا تو فرماياجائو اور ميرے پاس ان لوگوں كى خبر لے آئو _ ليكن وہاںكوئي اور كام انجام نہ دينا يہاں تك كہ ميرے پاس آجائو _

ميںايسى حالت ميں وہاںپہنچا جب كہ سخت آندھى چل رہى تھى اور طوفان برپا تھا اور خدا كا يہ لشكر انھيں تہس نہس كررہا تھا _ خيمے تيز آندھى كے سبب ہوا ميںاڑ رہے تھے _ آگ بيابان ميں پھيل چكى تھي_ كھانے كے برتن الٹ پلٹ گئے تھے اچانك ميںنے ابو سفيان كا سايہ محسوس كياكہ وہ اس تاريكى ميں بلند آواز سے كہہ رہا تھا: اے قريش تم ميں سے ہر ايك اپنے پہلو ميں بيٹھے ہوئے كو اچھى طرح سے پہچان لے تا

كہ يہاں كوئي بے گانہ نہ ہو ، ميںنے پہل كر كے فوراًہى اپنے پاس بيٹھنے والے شخص سے پوچھا كہ تو كون ہے ؟ اس نے كہا ، فلاں ہوں ، ميں نے كہابہت اچھا _

پھر ابو سفيان نے كہا:خدا كى قسم يہ ٹھہرنے كى جگہ نہيں ہے، ہمارے اونٹ گھوڑے ضائع ہو چكے ہيں اور بنى قريظہ نے اپنا پيمان توڑ ڈالا ہے اور اس طوفان نے ہمارے لئے كچھ نہيں چھوڑا _

پھر وہ بڑى تيزى سے اپنے اونٹ كى طرف بڑھا اور سوار ہو نے كے لئے اسے زمين سے اٹھا يا، اور اس قدر جلدى ميں تھا كہ اونٹ كے پائوںميں بندھى ہوئي رسى كھولنا بھول گيا ،لہذا اونٹ تين پائوں پر كھڑا ہو گيا، ميں نے سوچا ايك ہى تيرسے اسكا كام تمام كردوں،ابھى تير چلہ كمان ميں جوڑا ہى تھا كہ فوراًآنحضرت(ص) كا فرمان يادآگيا كہ جس ميں آپ (ص) نے فرمايا تھا كچھ كاروائي كے بغير واپس آجا نا،تمہارا كام صرف وہاں كے حالات ہمارے پاس لانا ہے، لہذا ميں واپس پلٹ گيا اور جا كر تمام حا لات عرض كئے _ پيغمبر اكرم (ص) نے بارگاہ ايزدى ميں عرض كيا :

''خداوندا تو كتاب كو نازل كرنے والا او رسريع الحساب ہے ، توخود ہى احزاب كو نيست و نا بو دفرما خدايا انہيں تباہ كردے اور ان كے پائوں نہ جمنے دے ''_

جنگ احزاب قرآن كى روشنى ميں

قرآن اس ماجرا تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتا ہے: ''اے وہ لوگ جو ايمان لائے ہو، اپنے اوپر خدا كى عظيم نعمت كو ياد كرو،اس موقع پر جب كہ عظيم لشكر تمہارى طرف آئے ''_(1)

''ليكن ہم نے ان پر آندھى اور طوفان بھيجے اور ايسے لشكر جنہيں تم نہيں ديكھتے رہے تھے اور اس ذريعہ سے ہم نے ان كى سركوبى كى اور انھيں تتر بتر كرديا ''_(2)

'' نہ دكھنے والے لشكر '' سے مراد جو رسالت ماب (ص) كى نصرت كے لئے آئے تھے ، وہى فرشتے


(1)سورہ احزاب آيت 9

(2) سورہ احزاب آيت 9

تھے جن كا مومنين كى جنگ بدر ميں مدد كرنا بھى صراحت كے ساتھ قرآن مجيد ميں آيا ہے ليكن جيسا (كہ سورہ انفال كى آيہ 9 كے ذيل ميں) ہم بيان كرچكے ہيں ہمارے پاس كوئي دليل نہيں ہے كہ يہ نظر نہ آنے والا فرشتوں كا خدائي لشكر باقاعدہ طور پر ميدان ميں داخل ہوا اور وہ جنگ ميں بھى مصروف ہوا ہو بلكہ ايسے قرائن موجود ہيں جو واضح كرتے ہيں كہ وہ صرف مومنين كے حوصلے بلند كرنے اور ان كا دل بڑھانے كے لئے نازل ہوئے تھے _

بعد والى آيت جو جنگ احزاب كى بحرانى كيفيت ، دشمنوں كى عظيم طاقت اور بہت سے مسلمانوں كى شديد پريشانى كى تصوير كشى كرتے ہوئے يوں كہتى ہے '' اس وقت كو ياد كرو جب وہ تمہارے شہر كے اوپر اور نيچے سے داخل ہوگئے ،اور مدينہ كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا) اور اس وقت كو جب آنكھيں شدت وحشت سے پتھرا گئي تھيں اور جاںبلب ہوگئے تھے اور خدا كے بارے ميں طرح طرح كى بدگمانيان كرتے تھے ''_(1)

اس كيفيت سے مسلمانوں كى ايك جماعت كے لئے غلط قسم كے گمان پيدا ہوگئے تھے كيونكہ وہ ابھى تك ايمانى قوت كے لحاظ سے كمال كے مرحلہ تك نہيں پہنچ پائے تھے يہ وہى لوگ ہيں جن كے بارے ميں بعد والى آيت ميں كہتا ہے كہ وہ شدت سے متزلزل ہوئے _

شايدان ميں سے كچھ لوگ گمان كرتے تھے كہ آخر كار ہم شكست كھا جائيں گے اور اس قوت و طاقت كے ساتھ دشمن كا لشكر كامياب ہوجائے گا، اسلام كے ز ندگى كے آخر ى دن آپہنچے ہيں اور پيغمبر (ص) كا كا ميابى كا وعدہ بھى پورا ہوتا دكھا ئي نہيںديتا _

البتہ يہ افكار اور نظريات ايك عقيدہ كى صورت ميں نہيں بلكہ ايك وسوسہ كى شكل ميں بعض لوگوںكے دل كى گہرائيوں ميں پيدا ہو گئے تھے بالكل ويسے ہى جيسے جنگ احد كے سلسلہ ميں قرآن مجيد ان كا ذكر كرتے ہو ئے كہتا ہے :''يعنى تم ميں سے ايك گروہ جنگ كے ان بحرانى لمحات ميںصرف اپنى جان كى فكر ميں تھا اور


(1)سورہ احزاب ايت10

دورجا ہليت كے گمانوں كى مانند خدا كے بارے ميں بدگمانى كررہے تھے ''_

يہى وہ منزل تھى كہ خدائي امتحان كا تنور سخت گرم ہوا جيسا كہ بعد والى آيت كہتى ہے كہ ''وہاں مومنين كو آزمايا گيا اور وہ سخت دہل گئے تھے_(1)

فطرى امر ہے كہ جب انسان فكرى طوفانوںميںگھر جاتا ہے تو اس كا جسم بھى ان طوفانوں سے لا تعلق نہيں رہ سكتا ،بلكہ وہ بھى اضطراب اور تزلزل كے سمندر ميں ڈوبنے لگتا ہے ،ہم نے اكثر ديكھا ہے كہ جب لوگ ذہنى طور پر پريشان ہوتے ہيں تو وہ جہاں بھى بيٹھتے ہيں اكثر بے چين رہتے ہيں، ہاتھ ملتے كاپنتے رہتے ہيں اور اپنے اضطراب اور پريشانيوںكو اپنى حركات سے ظاہر كرتے رہتے ہيں _

اس شديد پريشانى كے شواہد ميں سے ايك يہ بھى تھا جسے مورخين نے بھى نقل كيا ہے كہ عرب كے پانچ مشہور جنگجو پہلوان جن كا سردار عمرو بن عبدود تھا ،جنگ كا لباس پہن كر اورمخصوص غرور اور تكبر كے ساتھ ميدان ميں آئے اور ''ھل من مبارز''( ہے كو ئي مقابلہ كرنے والا )كى آواز لگانے لگے ، خاص كر عمرو بن عبدود رجز پڑھ كر جنت اور آخرت كا مذاق اڑا رہا تھا ،وہ كہہ رہا تھا كہ ''كيا تم يہ نہيںكہتے ہوكہ تمہارے مقتول جنت ميں جائيں گے ؟تو كيا تم ميں سے كوئي بھى جنت كے ديدار كا شوقين نہيںہے ؟ليكن اس كے ان نعروں كے برخلاف لشكر اسلام پر بُرى طرح كى خاموشى طارى تھى اور كوئي بھى مقابلہ كى جر ائت نہيںركھتا تھا سوائے على بن ابى طالب عليہ السلام كے جو مقابلہ كے لئے كھڑے ہوئے اور مسلمانوں كو عظيم كاميابى سے ہم كنار كرديا _اس كى تفصيل نكات كى بحث ميںآئےگي_

جى ہاں جس طرح فولاد كو گرم بھٹى ميں ڈالتے ہيں تا كہ وہ نكھر جائے اسى طرح اوائل كے مسلمان بھى جنگ احزاب جيسے معركوں كى بھٹى ميں سے گزريں تا كہ كندن بن كر نكليںاو رحوادثات كے مقابل ميں جرا ت اور پا مردى كا مظاہرہ كر سكيں _


(1)سورہ احزاب آيت 11

منافقين او رضعيف الايمان جنگ احزاب ميں

ہم كہہ چكے ہيں كہ امتحان كى بھٹى جنگ احزاب ميں گرم ہوئي او رسب كے سب اس عظيم امتحان ميں گھر گئے_ واضح رہے كہ اس قسم كے بحرانى دور ميں جولوگ عام حالات ميں ظاہراًايك ہى صف ميں قرارپاتے ہيں ،كئي صفوںميںبٹ جاتے ہيں،يہاں پربھى مسلمان مختلف گروہوںميں بٹ گئے تھے، ايك جماعت سچے مومنين كى تھى ،ايك گروہ ہٹ دھرم اور سخت قسم كے منافقين كا تھا اور ايك گروہ اپنے گھر بار ،زندگى اور بھاگ كھڑے ہونے كى فكر ميں تھا ،اور كچھ لوگوں كى يہ كوشش تھى كہ دوسرے لوگوں كو جہاد سے روكيں _ اور ايك گروہ اس كوشش ميں مصروف تھا كہ منافقين كے ساتھ اپنے رشتہ كو محكم كريں _

خلاصہ يہ كہ ہر شخص نے اپنے باطنى اسراراس عجيب ''عرصہ محشر''اور ''يوم البروز''ميںآشكار كرديئے_

ميں نے ايران، روم اور مصركے محلوں كو ديكھا ہے

خندق كھودنے كے دوران ميں جب ہر ايك مسلمان خندق كے ايك حصہ كے كھودنے ميں مصروف تھا تو ايك مرتبہ پتھر كے ايك سخت اوربڑے ٹكڑے سے ان كا سامنا ہوا كہ جس پر كوئي ہتھوڑا كار گر ثابت نہيں ہورہا تھا ،حضرت رسالت مآب (ص) كو خبر دى گئي تو آنحضرت (ص) بنفس نفيس خندق ميں تشريف لے گئے او راس پتھر كے پاس كھڑے ہو كراورہتھوڑا لے كر پہلى مرتبہ ہى اس كے دل پر ايسى مضبوط چوٹ لگائي كہ اس كا كچھ حصہ ريزہ ريزہ ہو گيا اور اس سے ايك چمك نكلى جس پر آپ(ص) نے فتح وكامرانى كى تكبير بلند كي_ آپ(ص) كے ساتھ دوسرے مسلمانوںنے بھى تكبيركہي_

آپ(ص) نے ايك اورسخت چوٹ لگائي تو اس كا كچھ حصہ او رٹوٹا اوراس سے بھى چمك نكلي_اس پر بھى سروركونين (ص) نے تكبيركہى اور مسلمانوں نے بھى آپ(ص) (ص) (ص) كے ساتھ تكبيركہى آخر كاآپ(ص) نے تيسرى چوٹھى لگائي جس سے بجلى كوند ى اورباقى ماندہ پتھر بھى ٹكڑے ٹكڑے ہو گيا ،حضوراكرم (ص) نے پھر تكبير كہى او

رمسلمانوںنے بھى ايسا ہى كيا، اس موقع پر جناب سلمان فارسي نے اس ماجرا كے بارے ميں دريافت كيا تو سركاررسالت مآب (ص) نے فرمايا :''پہلى چمك ميں ميںنے ''حيرہ''كى سرزمين او رايران كے بادشاہوں كے قصر ومحلات ديكھے ہيں او رجبرئيل نے مجھے بشارت دى ہے كہ ميرى امت ان پر كاميابى حاصل كرے گي،دوسرى چمك ميں ''شام او رروم''كے سرخ رنگ كے محلات نماياں ہوئے او رجبرئيل نے پھر بشارت دى كہ ميرى امت ان پرفتح ياب ہوگي، تيسرى چمك ميں مجھے ''صنعا و يمن ''كے قصور ومحلات دكھائي ديئےورجبرئيل نے نويد دى كہ ميرى امت ان پربھى كاميابى حاصل كرے گي، اے مسلمانوتمھيں خوشخبرى ہو

منافقين نے ايك دوسرے كى طرف ديكھا او ركہا: كيسى عجيب و غريب باتيںكر رہے ہيں اور كيا ہى باطل اور بے بنياد پروپيگنڈاہے ؟مدينہ سے حيرہ او رمدائن كسرى كو تو ديكھ كر تمہيں ان كے فتح ہونے كى خبرديتا ہے حالانكہ اس وقت تم چند عربوں كے چنگل ميں گرفتا رہو (او رخو ددفاعى پوزيشن اختيار كئے ہوئے ہو )تم تو'' بيت الحذر''(خوف كى جگہ ) تك نہيں جا سكتے ( كيا ہى خيال خام او رگمان باطل ہے _

الہى وحى نازل ہوئي او ركہا:

''يہ منا فق او ردل كے مريض كہتے ہيں كہ خدا او راس كے رسو ل نے سوائے دھوكہ و فريب كے ہميں كوئي وعدہ نہيں ديا، (وہ پر و ردگاركى بے انتہا قدرت سے بے خبر ہيں''_)(1)

اس وقت اس قسم كى بشارت او رخوشخبرى سوائے آگاہ او ربا خبر مو منين كى نظر كے علاوہ ( باقى لوگوں كے لئے )دھوكا او ر فريب سے زيادہ حيثيت نہيںركھتى تھى ليكن پيغمبر (ص) كى ملكوتى آنكھيں ان آتشيں چنگاريوں كے درميان سے جو كدالوں او رہتھوڑوں كے خندق كھودنے كے لئے زمين پرلگنے سے نكلتى تھيں، ايران روم او ريمن كے بادشاہوں كے قصرو محلات كے دروازوں كے كھلنے كو ديكھ سكتے تھے او رآئندہ كے اسرارو رموز سے پردے بھى اٹھاسكتے تھے_


(1)سورہ احزاب آيت 12

منافقانہ عذر

جنگ احزاب كے واقعہ كے سلسلے ميں قرآن مجيدمنافقين او ردل كے بيمارلوگوں ميں سے ايك خطرناك گروہ كے حالات تفصيل سے بيان كرتا ہے جو دوسروں كى نسبت زيادہ خبيث او رآلودہ گناہ ہيں، چنانچہ كہتا ہے: ''او راس وقت كو بھى يا دكرو، جب ان ميں سے ايك گروہ نے كہا: اے يثرب (مدينہ )كے رہنے والويہاں تمہارے رہنے كى جگہ نہيں ہے ،اپنے گھروںكى طرف لوٹ جائو''(1)

خلاصہ يہ كہ دشمنوںكے اس انبوہ كے مقابلہ ميں كچھ نہيں ہو سكتا، اپنے آپ كو معركہ كار زار سے نكال كرلے جائو او راپنے آپ كو ہلاكت كے اور بيوى بچوں كو قيد كے حوالے نہ كرو_ اس طرح سے وہ چاہتے تھے كہ ايك طرف سے تو وہ انصار كے گروہ كو لشكر اسلام سے جدا كرليں اوردوسرى طرف ''انہيں منافقين كا ٹولہ جن كے گھر مدينہ ميں تھے ،نبى اكرم (ص) سے اجازت مانگ رہے تھے كہ وہ واپس چلے جا ئيں او راپنى اس واپسى كے لئے حيلے بہانے پيش كررہے تھے ، وہ يہ بھى كہتے تھے كہ ہمارے گھردل كے دروديوارٹھيك نہيں ہيں حالانكہ ايسا نہيں تھا ،اس طرح سے وہ ميدان كو خالى چھوڑكر فراركرنا چاہتے تھے''_(2)

منافقين اس قسم كا عذر پيش كركے يہ چاہتے تھے كہ وہ ميدان جنگ چھوڑكر اپنے گھروں ميں جاكرپناہ ليں _

ايك روايت ميں آيا ہے كہ قبيلہ ''بنى حارثہ ''نے كسى شخص كو حضور رسالت پناہ (ص) كى خدمت ميں بھيجااو ركہا كہ ہمارے گھر غير محفوظ ہيں اور انصار ميں سے كسى كا گھر بھى ہمارے گھروں كى طرح نہيں اور ہمارے او رقبيلہ ''غطفان ''كے درميان كوئي ركا وٹ نہيں ہے جو مدينہ كى مشرقى جانب سے حملہ آور ہو رہے ہيں، لہذا اجا زت ديجئے تا كہ ہم اپنے گھروں كو پلٹ جا ئيں او راپنے بيوى بچوں كا دفاع كريں تو سركار رسالت (ص) (ص) نے انھيں اجازت عطا فرمادى _


(1)سورہ احزاب آيت 12

(2)سورہ احزاب آيت 13

جب يہ بات انصار كے سردار ''معد بن معاذ ''كے گوش گذارہوئي توانھوںنے پيغمبراسلام (ص) كى خدمت ميں عرض كيا ''سركا رانہيں اجازت نہ ديجئے ،بخدا آج تك جب بھى كوئي مشكل درپيش آئي تو ان لوگوں نے يہى بہانہ تراشا،يہ جھوٹ بولتے ہيں''_(1)

چنانچہ آنحضرت (ص) نے حكم ديا كہ واپس آجائيں _(2)

قرآن ميں خداوندعالم اس گروہ كے ايمان كى كمزورى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے: ''وہ اسلام كے اظہار ميں اس قدر ضعيف اور ناتواں ہيں كہ اگر دشمن مدينہ كے اطراف و جوانب سے اس شہر ميں داخل ہوجائيں اور مدينہ كو فوجى كنٹرول ميں لے كر انھيں پيش كش كريں كہ كفر و شرك كى طرف پلٹ جائيں توجلدى سے اس كو قبول كرليں گے اور اس راہ كے انتخاب كرنے ميں ذراسا بھى توقف نہيں كريں گے''_(3)

ظاہر ہے كہ جو لوگ اس قدرت ضعيف، كمزور اور غير مستقل مزاج ہوں كہ نہ تو دشمن سے جنگ كرنے


(1)سورہ احزاب14

(2)''يثرب ''مدينہ كا قديمى نام ہے ،جناب رسالت مآب (ص) كے اس شہر كى طرف ہجرت كرنے سے پہلے تك اس كا نام ''يثرب''رہا پھر آہستہ آہستہ اس كا نام ''مدينةالرسول''(پيغمبركا شہر )پڑگيا جس كا مخفف''مدينہ ''ہے_ اس شہركے كئي ايك نام او ربھى ہيں _ سيد مرتضى نے ان دو ناموں ( مدينہ او ريثرب)كے علاوہ اس شہر كے گيارہ او رنام بھى ذكركيے ہيں ،منجملہ ان كے ''طيبہ''''طابہ''''سكينہ''''محبوبہ''''مرحومہ '' اور''قاصمہ''ہيں _ (اوربعض لوگ اس شہر كى زمين كو ''يثرب''كا نام ديتے ہيں)

چند ايك روايات ميں آياہے كہ رسالت مآب (ص) نے فرمايا كہ ''اس شہر كو يثرب نہ كہا كرو شايد اسكى وجہ يہ ہو كہ يثرب اصل ميں ''ثرب''(بروزن حرب)كے مادہ سے ملامت كرنے كے معنى ميں ہے اور آپ(ص) اس قسم كے نام كو اس بابركت شہر كے لئے پسند نہيں فرماتے تھے_

بہرحال منافقين نے اہل مدينہ كو ''يااہل يثرب''كے عنوان سے جو خطاب كيا ہے وہ بلاوجہ نہيں ہے او رشايد اس كى وجہ يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو اس نام سے نفرت ہے ،يا چاہتے تھے كہ اسلام او ر''مدينةالرسو(ص) ل''كے نام كو تسليم نہ كرنے كااعلان كريں _يالوگوںكو زمانہ جاہليت كى يادتازہ كرائيں _

(3) سورہ احزاب آيت 14

كے لئے تيار ہوں اور نہ ہى راہ خدا ميں شہادت قبول كرنے كے لئے، ايسے لوگ بہت جلد ہتھيار ڈال ديتے ہيں اور اپنى راہ فوراً بدل ديتے ہيں_

پھر قرآن اس منافق ٹولے كو عدالت كے كٹہرے ميں لاكر كہتا ہے: ''انھوں نے پہلے سے خدا كے ساتھ عہد و پيمان باندھا ہوا تھا كہ دشمن كى طرف پشت نہيں كريں گے اور اپنے عہد و پيمان پر قائم رہتے ہوئے توحيد، اسلام اور پيغمبر كے لئے دفاع ميں كھڑے ہوں گے، كيا وہ جانتے نہيں كہ خدا سے كئے گئے عہد و پيمان كے بارے ميں سوال كيا جائے گا''_(1)

جب خدا نے منافقين كى نيت كو فاش كرديا كہ ان كا مقصد گھروں كى حفاظت كرنا نہيں ، بلكہ ميدان جنگ سے فرار كرنا ہے تو انھيں دود ليلوں كے ساتھ جواب ديتا ہے_

پہلے تو پيغمبر (ص) سے فرماتا ہے: ''كہہ ديجئے كہ اگر موت يا قتل ہونے سے فرار كرتے ہو تو يہ فرار تمہيں كوئي فائدہ نہيں پہونچائے گااور تم دنياوى زندگى كے چند دن سے زيادہ فائدہ نہيں اٹھاپائو گے''_(2)

دوسرا يہ كہ كيا تم جانتے ہوكہ تمہارا سارا انجام خدا كے ہاتھ ميں ہے اور تم اس كى قدرت و مشيت كے دائرہ اختيار سے ہرگز بھاگ نہيں سكتے_

''اے پيغمبر (ص) ان سے كہہ ديجئے : كون شخص خدا كے ارادہ كے مقابلہ ميں تمہارى حفاظت كرسكتا ہے، اگر وہ تمہارے لئے مصيبت يا رحمت چاہتا ہے''_(3)

روكنے والا ٹولہ

اس كے بعد قران مجيد منافقين كے اس گروہ كى طرف اشارہ كرتا ہے جو جنگ احزاب كے ميدان سے خودكنارہ كش ہوا اور دوسروں كو بھى كنار كشى كى دعوت ديتا ہو فرماتا ہے: '' خدا تم ميں سے اس گروہ كو جانتا ہے جو كوشش كرتے تھے كہ لوگوں كو جنگ سے منحرف كرديں ،اور اسى طرح سے ان لوگوں كو بھى جانتا ہے جو


(1) سورہ احزاب آيت 15

(2) سورہ احزاب آيت 16

(3) سورہ احزاب آيت 17

اپنے بھائيوں سے كہتے تھے كہ ہمارى طرف آئو'' اور اس خطرناك جنگ سے دستبردار ہوجائو _

وہى لوگ جواہل جنگ نہيں ہيں اور سوائے كم مقدار كے اور وہ بھى بطور جبر واكراہ ياد كھاوے كے; جنگ كے لئے نہيں جاتے_ (1)

ہم ايك روايت ميں پڑھتے ہيں كہ ايك صحابى رسول كسى ضرورت كے تحت ميدان'' احزاب '' سے شہر ميں آيا ہوا تھا اس نے اپنے بھائي كو ديكھا كہ اس نے اپنے سامنے روٹى ، بھنا ہوا گوشت اور شراب ركھے ہوئے تھے ، تو صحابى نے كہا تم تو يہاں عيش وعشرت ميں مشغول ہواور رسول خدا نيزوں اور تلواروں كے درميان مصروف پيكار ہيں اس نے جواب ميں كہا ، اے بے وقوف : تم بھى ہمارے ساتھ بيٹھ جائو اور مزے اڑائو اس نے كہا:اس خدا كى قسم جس كى محمد كھاتا ہے وہ اس ميدان سے ہرگز پلٹ كر واپس نہيں آئے گا اور يہ عظيم لشكر جو جمع ہوچكا ہے اسے اور اس كے ساتھيوں كو زندہ نہيں چھوڑے گا _

يہ سن كر وہ صحابى كہنے لگے :تو بكتا ہے،خدا كى قسم ميں ابھى رسول اللہ كے پاس جاكر تمہارى اس گفتگو سے باخبر كرتا ہوں، چنانچہ انھوں نے بارگاہ رسالت ميں پہنچ كر تمام ماجرا بيان كيا _

وہ ہرگز ايمان نہيں لائے

قرآن فرماتاہے :'' ان تمام ركاوٹوں كا باعث يہ ہے كہ وہ تمہارى بابت تمام چيزوں ميںبخيل ہيں''_(2)

نہ صرف ميدان جنگ ميں جان قربان كرنے ميں بلكہ وسائل جنگ مہيا كرنے كے لئے مالى امداد اور خندق كھودنے كے لئے جسمانى امداد حتى كہ فكرى امداد مہيا كرنے ميں بھى بخل سے كام ليتے ہيں، ايسا بخل جو حرص كے ساتھ ہوتا ہے اور ايسا حرص جس ميں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے _

ان كے بخل اور ہر قسم كے ايثارسے دريغ كرنے كے بيان كے بعد ان كے ان دوسرے اوصاف كو جو


(1)سورہ احزاب ايت18

(2)سورہ احزاف ايت19

ہر عہد اور ہر دور كے تمام منافقين كے لئے تقريباً عمو ميت كا درجہ ركھتے ہيں بيان كرتے ہوئے كہتا ہے :'' جس وقت خوفناك اور بحرانى لمحات آتے ہيں تو وہ اس قدر بزدل اور ڈرپوك ہيں كہ آپ ديكھيں گے كہ وہ آپ كو ديكھ رہے ہيں حالانكہ ان كى آنكھوں ميں ڈھيلے بے اختيار گردش كررہے ہيں ، اس شخص كى طرح جو جاں كنى ميں مبتلا ہو '' (1)

چونكہ وہ صحيح ايمان كے مالك نہيں ہيں اور نہ ہى زندگى ميں ان كا كوئي مستحكم سہارا ہے ، جس وقت كسى سخت حادثہ سے دوچار ہوتے ہيں تو وہ لوگ بالكل اپنا توازن كھوبيٹھتے ہيں جيسے ان كى روح قبض ہى ہوجائے گي_

پھر مزيد كہتا ہے: '' ليكن يہى لوگ جس وقت طوفان رك جاتاہے اور حالات معمول پر آجاتے ہيں تو تمہارے پاس يہ توقع لے كر آتے ہيں كہ گويا جنگ كے اصلى فاتح يہى ہيں اور قرض خواہوں كى طرح پكار پكار كر سخت اور درشت الفاظ كے ساتھ مال غنيمت سے اپنے حصہ كا مطالبہ كرتے ہيں اور اس ميں سخت گير، بخيل اور حريص ہيں ''_(2)

آخر ميں ان كى آخرى صفت كى طرف جو درحقيقت ميں ان كى تمام بد بختيوں كى جڑ اور بنياد ہے ، اشارہ كرتے ہوئے فرماتاہے '' وہ ہر گز ايمان نہيں لائے_اور اسى بناپر خدانے ان كے اعمال نيست ونابود كرديئےيںكيونكہ ان كے اعمال خدا كے لئے نہيں ہيں اور ان ميں اخلاص نہيں پايا جاتا_(3)

''وہ اس قدر وحشت زدہ ہو چكے ہيں كہ احزاب اور دشمن كے لشكروں كے پر اگندہ ہوجانے كے بعد بھى يہ تصور كرتے ہيں كہ ابھى وہ نہيں گئے''_(4)

وحشتناك اور بھيانك تصور نے ان كى فكر پر سايہ كر ركھا ہے گويا كفر كى افواج پے درپے ان كي


(1)سورہ احزاب 19

(2)سورہ احزاب 19

(3)سورہ احزاب آيت 19

(4)سورہ احزاب ايت 20

آنكھوں كے سامنے قطاردر قطار چلى جارہى ہيں ، ننگى تلواريں اور نيزے تانے ان پر حملہ كررہى ہيں_

يہ بزدل جھگڑالو ، ڈرپوك منافق اپنے سائے سے بھى ڈرتے ہيں ، جب كسى گھوڑے كے ہنہنانے يا كسى اونٹ كے بلبلانے كى آواز سنتے ہيں تو مارے خوف كے لرزنے لگتے ہيں كہ شايد احزاب كے لشكر واپس آرہے ہيں _

اس كے بعدكہتا ہے '' اگر احزاب دوبارہ پلٹ كر آجائے تو وہ اس بات پر تيار ہيں كہ بيابان كا رخ كرليں اور باديہ نشين بدوو ںكے درميان منتشر ہو كر پنہاں ہو جائيں ہاں، ہاں وہ چلے جائيں اور وہاں جاكر رہيں'' اور ہميشہ تمہارى خبروں كے جويا رہيں ''_(1)

ہر مسافر سے تمہارى ہر ہر پل كى خبر كے جويا رہيں ايسا نہ ہوكہ كہيں احزاب ان كى جگہ قريب آجائيں اور ان كا سايہ ان كے گھر كى ديواروں پر آپڑے اور تم پر يہ احسان جتلائيں كہ وہ ہمشہ تمہارى حالت اور كيفيت كے بارے ميں فكر مند تھے _

اور آخرى جملہ ميں كہتا ہے:

''بالفرض وہ فراربھى نہ كرتے اور تمہارے درميان ہى رہتے ، پھر بھى سوائے تھوڑى سى جنگ كے وہ كچھ نہ كرپاتے''_(2)

نہ ان كے جانے سے تم پريشان ہونا اور نہ ہى ان كے موجود رہنے سے خوشى منانا، كيونكہ نہ تو ان كى قدر وقيمت ہے اور نہ ہى كوئي خاص حيثيت، بلكہ ان كا نہ ہونا ان كے ہونے سے بہتر ہے _

ان كى يہى تھوڑى سى جنگ بھى خدا كےلئے نہيں بلكہ لوگوں كى سرزنش اور ملامت كے خوف اور ظاہردارى يارياكارى كےلئے ہے كيونكہ اگر خدا كے لئے ہوتى تو اس كى كوئي حدو انتہا نہ ہوتى اور جب تك جان ميں جان ہوتى وہ اس ميدان ميں ڈٹے رہتے _


(1)سورہ احزاب ايت 20

(2) سورہ احزاب ايت20

جنگ احزاب ميں سچے مومنين كا كردار

اب تك مختلف گر وہوںاور ان كے جنگ احزاب ميں كارناموں كے بارے ميں گفتگو ہورہى تھى جن ميں ضعيف الايمان مسلمان ، منافق، كفر ونفاق كے سرغنے اور جہد سے روكنے والے شامل ہيں _

قرآن مجيد اس گفتگو كے آخر ميں '' سچے مئومنين '' ان كے بلند حوصلوں ، پامرديوں ، جرائتوں اور اس عظيم جہاد ميں ان كى ديگر خصوصيات كے بارے ميں گفتگو كرتا ہے _

اس بحث كى تمہيد كو پيغمبر اسلام (ص) كى ذات سے شروع كرتا ہے جو مسلمانوں كے پيشوا ، سرداراور اسوہ كامل تھے، خدا كہتا ہے: '' تمہارے لئے رسول اللہ (ص) كى زندگى اور (ميدان احزاب ميں ) ان كا كردار ايك اچھا نمونہ اوراسوہ ہے ، ان لوگوں كے لئے جورحمت خدا اور روز قيامت كى اميد ركھتے ہيں اور خدا كو بہت زيادہ ياد كرتے ہيں _''(1)

تمہارے لئے بہترين اسوہ اور نمونہ ،نہ صرف اس ميدان ميں بلكہ سارى زندگى پيغمبراسلام كى ذات والا صفات ہے آپ كے بلند حوصلے، صبرو استقامت ،پائمردى ،زير كى ، دانائي ، خلوص ، خدا كى طرف تو جہ، حادثات پر كنڑول، مشكلات اور مصائب كے آگے سر تسليم خم نہ كرنا ، غرضكہ ان ميں سے ہر ايك چيز مسلمانوں كے لئے نمونہ كامل اور اسوہ حسنہ ہے _

وہ ايسا عظيم نا خدا ہے كہ جب اس كى كشتى سخت ترين طوفانوں ميں گھر جاتى ہے تو ذرہ برابر بھى كمزوري،گھبراہٹ اور سراسيمگى كا مظاہرہ نہيں كرتا وہ كشتى كانا خدا بھى ہے اور اس كا قابل اطمينان لنگر اور چراغ ہدايت بھى وہ اس ميں بيٹھنے والوں كے لئے آرام وسكون كا باعث بھى ہے اور ان كے لئے راحت جان بھى _

وہ دوسرے مئومنين كے ساتھ مل كر كدال ہاتھ ميں ليتا ہے اور خندق كھودتا ہے،بليچے كے ساتھ پتھر اكھاڑكركے خندق سے باہر ڈال آتا ہے اپنے اصحاب كے حوصلے بڑھانے اور ٹھنڈے دل سے سوچنے كے


(1)سورہ احزاب آيت 21

لئے ان سے مزاح بھى كرتا ہے ان كے قلب و روح كو گرمانے كے حربى اور جوش وجذبہ دلانے والے اشعار پڑھ كر انھيں ترغيب بھى دلاتاہے، ذكر خدا كرنے پرمسلسل اصرار كرتا ہے اور انھيں درخشاں مستقبل اور عظيم فتوحات كى خوشخبرى ديتاہے انہيں منافقوں كى سازشوں سے متنبہ كرتا ہے اور ان سے ہميشہ خبردار رہنے كا حكم ديتا ہے _

صحيح حربى طريقوں اور بہترين فوجى چالوں كو انتخاب كرنے سے ايك لمحہ بھى غافل نہيں رہتا اس كے باوجود مختلف طريقوں سے دشمن كى صفوں ميںشگاف ڈالنے سے بھى نہيںچوكتا _

جى ہاں: وہ مو منين كا بہترين مقتدا ہے اور ان كے لئے اسوہ حسنہ ہے اس ميدان ميں بھى اور دوسرے تمام ميدانوں ميں بھي_

مومنين كے صفات

اس مقام پر مومنين كے ايك خاص گروہ كى طرف اشارہ ہے:

'' جو پيغمبر اكرم (ص) كى اقتداء ميں سب سے زيادہ پيش قدمى كرتے تھے وہ خدا سے كئے ہوئے اپنے اس عہدو پيمان پرقائم تھے كہ وہ آخرى سانس اور آخرى قطرہ خون تك فداكارى اور قربانى كے لئے تيار ہيں فرمايا گيا ہے مومنين ميں ايسے بھى ہيں جواس عہدوپيمان پر قائم ہيں جو انھوںنے خدا سے باندھا ہے ان ميں سے كچھ نے تو ميدان جہاد ميں شربت شہادت نوش كرليا ہے اوربعض انتظار ميں ہيں _ور انھوں نے اپنے عہدوپيمان ميں كسى قسم كى كوئي تبديلى نہيں كى '' _(1)

اور نہ ہى ان كے قدموں ميں لغزش پيدا ہوئي ہے_

مفسرين كے درميان اختلاف ہے كہ يہ آيت كن افراد كے بارے ميں نازل ہوئي ہے _


(1)سورہ احزاب آيت 23

اہل سنت كے مشہور عالم ، حاكم ابوالقاسم جسكانى سند كے ساتھ حضرت على عليہ السلام سے نقل كرتے ہيں كہ آپ نے فرمايا :

آيہ ''رجال صدقوا ما عاھدوا اللّہ عليہ '' ہمارے بارے ميں نازل ہوئي ہے اور بخدا ميں ہى وہ شخص ہوں جو(شہادت كا) انتظار كررہاہوں(اور قبل از ايں ہم ميں حمزہ سيد الشہداء جيسے لوگ شہادت نوش كرچكے ہيں )اور ميں نے ہرگز اپنى روش اور اپنے طريقہ كار ميں تبديلى نہيں كى اور اپنے كيئے ہوے عہدوپيمان پر قائم ہوں _

* * * * *

جنگ بنى قريظہ

مدينہ ميں يہوديوں كے تين مشہور قبائل رہتے تھے : بنى قريظہ، بنى النضير اور بنى قينقاع_

تينوں گروہوں نے پيغمبر اسلام (ص) سے معاہدہ كر ركھا تھا كہ آپ(ص) كے دشمنوں كا ساتھ نہيں ديں گے، ان كے لئے جاسوسى نہيں كريں گے، اور مسلمانوں كے ساتھ مل جل كر امن و آشتى كى زندگى گزاريں گے، ليكن قبيلہ بنى قينقاع نے ہجرت كے دوسرے سال اور قبيلہ بنى نضير نے ہجرت كے چوتھے سال مختلف حيلوں بہانوں سے اپنا معاہدہ توڑ ڈالا، اور پيغمبر اكرم (ص) سے مقابلہ كے لئے تيار ہوگئے آخر كار ان كى مزاحمت اور مقابلہ كى سكت ختم ہوگئي اور وہ مدينہ سے باہر نكل گئے_

بنى قينقاع'' اذر عات'' شام كى طرف چلے گئے اور بنى نضير كے كچھ لوگ تو خيبر كى طرف اور كچھ شام كى طرف چلے گئے _

اسى بناء پر ہجرت كے پانچويں سال جب كہ جنگ احزاب پيش آئي تو صرف قبيلہ بنى قريظہ مدينہ ميں باقى رہ گيا تھا ، وہ بھى اس ميدان ميں اپنے معاہدہ كو توڑكر مشركين عرب كے ساتھ مل گئے اور مسلمانوں كے مقابلہ ميں تلواريں سونت ليں _

جب جنگ احزا ب ختم ہوگئي اور قريش، بنى غطفان اور ديگر قبائل عرب بھى رسوا كن شكست كے بعد مدينہ سے پلٹ گئے تو اسلامى روايات كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) اپنے گھر لوٹ آئے اور جنگى لباس اتاركر نہانے دھونے ميں مشغول ہوگئے تو اس موقع پر جبرئيل حكم خدا سے آپ پر نازل ہوئے اور كہا : كيوں آپ نے

ہتھيار اتار ديئے ہيں جبكہ فرشتے ابھى تك آمادہ پيكار ہيں آپ فوراً بنى قريظہ كى طرف جائيں اور ان كا كام تمام كرديں _

واقعاً بنى قريظہ كا حساب چكانے كے لئے اس سے بہتر كوئي اور موقع نہيں تھا مسلمان اپنى كاميابى پر خوش خرم تھے، بنى قريظہ شكست كى شديد وحشت ميں گرفتار تھے اور قبائل عرب ميں سے ان كے دوست اور حليف تھكے ماندے اور بہت ہى پست حوصلوں كے ساتھ شكست خوردہ حالت ميں اپنے اپنے شہروںاور علاقوں ميں جاچكے تھے اور كوئي نہيں تھا جوان كى حمايت كرے _

بہرحال منادى نے پيغمبر اكرم (ص) كى طرف سے ندادى كہ نماز عصر پڑھنے سے پہلے بنى قريظہ كى طرف چل پڑو مسلمان بڑى تيزى كے ساتھ ہى بنى قريظہ كے محكم ومضبوط قلعوںكو مسلمانوں نے اپنے محاصرے ميں لے ليا _

پچيس دن تك محاصرہ جارى رہا چنانچہ لكھتے ہيں كہ مسلمانوں نے بنى قريظہ كے قلعوں پر حملہ كرنے كے لئے اتنى جلدى كى كہ بعض مسلمان نماز عصر سے غافل ہوگئے كہ مجبوراً بعد ميں قضا كي،خداوند عالم نے ان كے دلوں ميں سخت رطب و دبدبہ طارى ہوگيا_

تين تجاويز

''كعب بن اسد'' كا شمار يہوديوں كے سرداروں ميں ہوتا تھا اس نے اپنى قوم سے كہا : مجھے يقين ہے كہ محمد ہميں اس وقت تك نہيں چھوڑيں گے جب تك ہم جنگ نہ كريں لہذا ميرى تين تجاويز ہيں ، ان ميں سے كسى ايك كو قبول كرلو ،پہلى تجويز تويہ ہے كہ اس شخص كے ہاتھ ميں ہاتھ دے كر اس پر ايمان لے او اور اس كى پيروى اختيار كرلو كيونكہ تم پر ثابت ہوچكا ہے كہ وہ خدا كا پيغمبر ہے اوراس كى نشانياں تمہارى كتابوں ميں پائي جاتى ہيں تو اس صورت ميں تمہارے مال ، جان، اولاد اور عورتيں محفوظ ہوجائيں گي_

وہ كہنے لگے كہ ہم ہرگز حكم توريت سے دست بردار نہيں ہوں گے اور نہ ہى اس كا متبادل اختيار كريں گے _

اس نے كہا : اگر يہ تجويز قبول نہيں كرتے تو پھر آئو اور اپنے بچوں اور عورتوں كو اپنے ہاتھوں سے قتل كرڈالو تاكہ ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوكر ميدان جنگ ميں كود پڑيں اور پھر ديكھيں كہ خدا كيا چاہتا ہے ؟ اگر ہم مارے گئے تو اہل وعيال كى جانب سے ہميں كوئي پريشانى نہيں ہوگى اور اگر كامياب ہوگئے تو پھر عورتيں بھى بہت بچے بھى بہت _

وہ كہنے لگے كہ ہم ان بے چاروں كو اپنے ہى ہاتھوں سے قتل كرديں ؟ان كے بعد ہمارے لئے زندگى كى قدرو قيمت كيارہ جائے گى ؟

كعب بن اسد نے كہا : اگر يہ بھى تم نے قبول نہيں كيا تو آج چونكہ ہفتہ كى رات ہے محمد (ص) اور اس كے ساتھى يہ خيال كريں گے كہ ہم آج رات حملہ نہيں كريں گے انھيں اس غفلت ميں ڈال كر ان پر حملہ كرديں شايد كاميابى حاصل ہوجائے _

وہ كہنے لگے كہ يہ كام بھى ہم نہيں كريں گے كيونكہ ہم كسى بھى صورت ميںہفتہ كا احترام پامال نہيں كريں گے _

كعب كہنے لگا : پيدائشے سے لے كر آج تك تمہارے اندر عقل نہيں آسكى _

اس كے بعد انھوں نے پيغمبر اكرم (ص) سے بات كى كہ'' ابولبابہ'' كو ان كے پاس بھيجا جائے تاكہ وہ ان سے صلاح مشورہ كرليں _

ابولبابہ كى خيانت

جس وقت ابولبابہ ان كے پاس آئے تو يہوديوں كى عورتيں اور بچے ان كے سامنے گريہ وزارى كرنے لگے اس بات كا ان كے دل پر بہت اثر ہوا اس وقت لوگوں نے كہا كہ آپ ہميں مشورہ ديتے ہيں كہ ہم محمد كے آگے ہتھيار ڈال ديں ؟ ابولبابہ نے كہا ہاں اور ساتھ ہى اپنے گلے كى طرف اشارہ كيا يعنى تم سب كو قتل كرديں گے _

ابولبابہ كہتے ہيں، جيسے ہى ميں وہاں سے چلا تو مجھے اپنى خيانت كا شديد احساس ہوا پيغمبر اكرم (ص) كے پاس نہ گيا بلكہ سيدھا مسجد كى طرف چلا اور اپنے آپ كو مسجد كے ايك ستون كے ساتھ باندھ ديا اور كہا اپنى جگہ سے اس وقت تك حركت نہيں كروں گا جب تك خدا ميرى توبہ قبول نہ كرلے _

سات دن تك اس نے نہ كھانا كھايا نہ پانى پيا اور يونہى بے ہوش پڑا رہا يہاں تك كہ خدا نے اس كى توبہ قبول كر لي،جب يہ خبر بعض مومنين كے ذريعہ اس تك پہنچى شتو اس ننے قسم كھائي ميں خود رہنے كو اس ستون سے نہيں كھولوں گا يہاں تك كہ پيغمبر(ص) آكر كھوليں_

پيغمبر اكرم (ص) آئے اور اس كو كھولا ابولبابہ نے كہا كہ اونى توبہ كو كامل ہونے كے لئے اپنا سارا مال راہ خدا ميں ديتا ہوں_اس وقت پيغمبر(ص) نے كہا:ايك سوم مال كافى ہے،''آخركار خدانے اس كا يہ گناہ اس كى صداقت كى بنا ء پربخش ديا (1)

ليكن آخر كار بنى قريظہ كے يہوديوں نے مجبور ہوكر غير مشروط طور پر ہتھيار ڈال ديئے_

جناب پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا سعد بن معاذ تمہارے بارے ميں جو فيصلہ كرديں كيا وہ تمہيں قبول ہے ؟وہ راضى ہوگئے _

سعدبن معاذ نے كہا كہ اب وہ موقع آن پہنچا ہے كہ سعد كسى ملامت كرنے والے كى ملامت كو نظر ميں ركھے بغير حكم خدا بيان كرے _

سعد نے جس وقت يہوديوں سے دوبارہ يہى اقرار لے ليا تو آنكھيں بند كرليں اور جس طرف پيغمبر (ص) كھڑے ہوئے تھے ادھر رخ كركے عرض كيا : آپ بھى ميرا فيصلہ قبول كريں گے ؟ آنحضرت (ص) نے فرمايا ضرور: تو سعد نے كہا : ميں كہتا ہوں كہ جو لوگ مسلمانوں كے ساتھ جنگ كرنے پر آمادہ تھے (بنى قريظہ كے مرد ) انھيں قتل كردينا چاہئے ، ان كى عورتيں اور بچے قيد اور ان كے اموال تقسيم كرديئے جائيں البتہ ان ميں سے ايك


(1)سورہ توبہ آيت 102

گروہ اسلام قبول كرنے كے بعد قتل ہونے سے بچ گيا_

قران اس ماجرا كى طرف مختصر اور بليغ اشارہ كرتا ہے اور اس ماجراكا تذكرہ خداكى ايك عظيم نعمت او رعنايت كے طور پر ہوا ہے _

پہلے فرمايا گيا ہے:''خدا نے اہل كتاب ميں سے ايك گروہ كو جنہوںنے مشركين عرب كى حمايت كى تھى ،ان كے محكم و مضبوط قلعوں سے نيچے كھينچا _(1)

يہاں سے واضح ہو جا تا ہے كہ يہو ديوں نے اپنے قلعے مدينہ كے پاس بلند او راونچى جگہ پربنا ركھے تھے او ران كے بلند برجوں سے اپنا دفاع كرتے تھے ''انزل ''(نيچے لے آيا ) كى تعبير اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے _

اس كے بعد مزيد فرمايا گيا ہے : ''خدا نے ان كے دلوں ميں خوف او ررعب ڈال ديا '':

آخر كار ان كا مقابلہ يہاں تك پہنچ گيا كہ ''تم ان ميں سے ايك گروہ كو قتل كررہے تھے او ردوسرے كو اسير بنا رہے تھے _''او ران كى زمينيں گھر اور مال و متاع تمھارے اختيارميں دے ديا ''_(2)

يہ چند جملے جنگ بنى قريظہ كے عام نتائج كا خلاصہ ہيں _ ان خيانت كاروںميں سے كچھ مسلمانوںكے ہاتھوںقتل ہو گئے،كچھ قيد ہوگئے اوربہت زيادہ مال غنيمت جس ميں ان كى زمينيں ،گھر ،مكا نات او رمال و متاع شامل تھا ،مسلمانوں كو ملا _

* * * * *


(1)سورہ احزاب آيت 26

(2)سورہ احزاب ايت 26،27

صلح حديبيہ

چھٹى ہجرى كے ماہ ذى قعدہ ميں پيغمبر اكرم (ص) عمرہ كے قصد سے مكہ كى طرف روانہ ہوئے ،مسلمانوں كو رسول اكرم(ص) كے خواب كى اطلاع مل چكى تھى كہ رسول اكرم(ص) نے اپنے تمام اصحاب كے ساتھ ''مسجد الحرام''ميں وارد ہونے كو خواب ميں ديكھا ہے ،او رتمام مسلمانوں كو اس سفرميں شركت كا شوق دلايا،اگر چہ ايك گروہ كنارہ كش ہو گيا ،مگر مہاجرين و انصار او رباديہ نشين اعراب كى ايك كثير جماعت آپ كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہو گئي _

يہ جمعيت جو تقريباًايك ہزار چار سوافراد پر مشتمل تھى ،سب كے سب نے لباس احرام پہنا ہوا تھا ،او رتلوار كے علاوہ جو مسافروں كا اسلحہ شمار ہو تى تھى ،كوئي جنگى ہتھيار ساتھ نہ ليا تھا _

جب مسلمان ''ذى الحليفہ'' مدينہ كے نزديك پہونچے،اور بہت اونٹوں كو قربانى كے لئے لے ليا_

پيغمبر(ص) (اور آپ (ع) كے اصحاب كا)طرز عمل بتارہا تھا كہ عبادت كے علاوہ كوئي دوسرا قصد نہيں تھا_جب پيغمبر(ص) مكہ كے نزديكى مقام آپ كو اطلاع ملى كہ قريش نے يہ پختہ ارادہ كرليا ہے كہ آپ(ص) كو مكہ ميں داخل نہ ہونے ديں گے ،يہاں تك كہ پيغمبر(ص) مقام'' حديبيہ''ميں پہنچ گئے ( حديبيہ مكہ سے بيس كلو مٹر كے فاصلہ پر ايك بستى ہے ،جو ايك كنويں يا درخت كى مناسبت سے اس نام سے مو سوم تھى )حضرت(ص) نے فرمايا: كہ تم سب اسى جگہ پر رك جائو،لوگوں نے عرض كى كہ يہاں تو كوئي پانى نہيں ہے پيغمبر(ص) نے معجزانہ طور پر اس كنويںسے جو وہاںتھا ،اپنے اصحاب كے لئے پانى فراہم كيا _

اسى مقام پر قريش او رپيغمبر(ص) كے درميان سفراء آتے جاتے رہے تاكہ كسى طرح سے مشكل حل ہو جائے ، آخركا ر''عروہ ابن مسعودثقفي''جو ايك ہوشيا ر آدمى تھا ،قريش كى طرف سے پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا ،پيغمبر (ص) نے فرمايا ميں جنگ كے ارادے سے نہيں آيا او رميرا مقصد صرف خانہ خدا كى زيارت ہے ،ضمناًعروہ نے اس ملاقات ميں پيغمبر(ص) كے وضو كرنے كا منظربھى ديكھا،كہ صحابہ آپ(ص) كے وضو كے پانى كا ايك قطرہ بھى زمين پرگرنے نہيں ديتے تھے ،جب وہ واپس لوٹا تو اس نے قريش سے كہا :ميں قيصر وكسرى او رنجاشى كے دربارميں گيا ہوں _ميں نے كسى سربراہ مملكت كو اس كى قوم كے درميان اتنا با عظمت نہيں ديكھا ،جتنا محمد(ص) كى عظمت كو ان كے اصحاب كے درميان ديكھا ہے _ اگر تم يہ خيال كرتے ہو كہ محمد(ص) كو چھوڑ جائيںگے تويہ بہت بڑى غلطى ہو گى ،ديكھ لو تمھارا مقابلہ ايسے ايثار كرنے والوں كے ساتھ ہے _يہ تمہارے لئے غور و فكر كا مقام ہے _

بيعت رضوان

اسى دوران پيغمبر(ص) نے عمر سے فرمايا: كہ وہ مكہ جائيں ، او ر اشراف قريش كو اس سفركے مقصد سے آگاہ كريں ،عمر نے كہاقريش مجھ سے شديد دشمنى ركھتے ہيں ،لہذامجھے ان سے خطرہ ہے ، بہتر يہ ہے كہ عثمان كو اس كام كے لئے بھيجا جائے ،عثمان مكہ كى طرف آئے ،تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ مسلمانوں كے ورميان يہ افواہ پھيل گئي كہ ان كو قتل كر دياہے _ اس مو قع پرپيغمبر(ص) نے شدت عمل كا ارادہ كيا او رايك درخت كے نيچے جو وہاں پرموجودتھا ،اپنے اصحاب سے بيعت لى جو ''بيعت رضوان'' كے نام سے مشہو رہوئي ،او ران كے ساتھ عہد وپيمان كيا كہ آخرى سانس تك ڈٹيں گے،ليكن تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ عثمان صحيح و سالم واپس لوٹ آئے او رانكے پيچھے پيچھے قريش نے''سہيل بن عمر''كو مصالحت كے لئے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں بھيجا ،ليكن تاكيد كى كہ اس سال كسى طرح بھى آپ(ص) كا مكہ ميںورود ممكن نہيں ہے _

بہت زيادہ بحث و گفتگو كے بعد صلح كا عہد و پيمان ہوا،جس كى ايك شق يہ تھى كہ مسلمان اس سال عمرہ سے باز رہيں او ر آئندہ سال مكہ ميں آئيں،اس شرط كے ساتھ كہ تين دن سے زيادہ مكہ ميں نہ رہيں ،او

رمسافرت كے عام ہتھياركے علاوہ او ركوئي اسلحہ اپنے ساتھ نہ لائيں_اورمتعددمواد جن كا دارومداران مسلمانوںكى جان و مال كى امنيت پر تھا،جو مدينہ سے مكہ ميں واردہوں،او راسى طرح مسلمانوں اورمشركين كے درميان دس سال جنگ نہ كرنے او رمكہ ميں رہنے والے مسلمانوںكے لئے مذہبى فرائض كى انجام دہى بھى شامل كى گئي تھي_

يہ پيمان حقيقت ميں ہر جہت سے ايك عدم تعرض كا عہد و پيمان تھا ،جس نے مسلمانوںاو رمشركين كے درميان مسلسل اوربار با ركى جنگوں كو وقتى طور پر ختم كرديا _

صلح نامہ كى تحرير

''صلح كے عہدو پيمان كا متن ''اس طرح تھاكہ پيغمبر (ص) نے على عليہ السلام كوحكم ديا كہ لكھو:

''بسم اللہ الرحمن الرحيم'':سہيل بن عمرنے،جو مشركين كانمائندہ تھا ،كہا :ميںاس قسم كے جملہ سے آشنا نہيں ہو ں،لہذا''بسمك اللھم'' لكھو:پيغمبر(ص) نے فرمايا لكھو :''بسمك اللھم''

اس كے بعد فرمايا: لكھويہ وہ چيز ہے جس پر محمدرسو ل اللہ (ص) نے سہيل بن عمرو سے مصالحت كى ، سہيل نے كہا : ہم اگر آپ كو رسول اللہ(ص) سمجھتے تو آپ سے جنگ نہ كرتے ،صرف اپنا او راپنے والد كا نام لكھئے،پيغمبر(ص) نے فرمايا كو ئي حرج نہيں لكھو :''يہ وہ چيز ہے جس پرمحمد (ص) بن عبد اللہ نے سہيل بن عمرو سے صلح كى ،كہ دس سال تك دو نو ں طرف سے جنگ مترو ك رہے گى تاكہ لو گوں كو امن و امان كى صورت دوبارہ ميسرآئے_

علاوہ ازايں جو شخص قريش ميں سے اپنے ولى كى اجازت كے بغير محمد(ص) كے پاس آئے (او رمسلمان ہو جائے )اسے واپس كرديں اورجو شخص ان افراد ميں سے جو محمد(ص) كے پاس ہيں ،قريش كى طرف پلٹ جائے تو ان كو واپس لوٹانا ضرورى نہيں ہے _

تمام لوگ آزاد ہيں جو چاہے محمد (ص) كے عہد و پيمان ميں داخل ہو او رجو چاہے قريش كے عہد و پيمان ميں داخل ہو،طرفين اس بات كے پابندہيں كہ ايك دوسرے سے خيانت نہ كرےں،او رايك دوسرے كى

جان و مال كو محترم شمار كريں _

اس كے علاوہ محمد(ص) اس سال واپس چلے جائيں او رمكہ ميں داخل نہ ہوں،ليكن آئندہ سال ہم تين دن كے لئے مكہ سے باہر چلے جائيں گے او ران كے اصحاب آجائيں ،ليكن تين دن سے زيادہ نہ ٹھہريں ، (اور مراسم عمرہ كے انجام دے كر واپس چلے جائيں )اس شرط كے ساتھ كہ سواے مسافركے ہتھيار يعنى تلوار كے،وہ بھى غلاف ميں كو ئي ہتھيار ساتھ نہ لائيں _

اس پيمان پر مسلمانوں او رمشركين كے ايك گروہ نے گواہى دى او راس عہد نامہ كے كاتب على (ع) ابن ابى طالب عليہ السلام تھے _

مرحو م علامہ مجلسى نے بحار الانوارميں كچھ او رامور بھى نقل كئے ہيں ،منجملہ ان كے يہ كہ :

''اسلام مكہ ميں آشكارا ہوگا اوركسى كو كسى مذہب كے انتخاب كرنے پر مجبورنہيںكريں گے ،اورمسلمان كو اذيت و آزارنہيں پہنچائيںگے''_

اس موقع پرپيغمبراسلام (ص) نے حكم ديا كہ قربانى كے وہ اونٹ جووہ اپنے ہمراہ لائے تھے ،اسى جگہ قربان كرديںاور اپنے سروں كو منڈوائيں اور احرام سے باہرنكل آئيں ،ليكن يہ بات كچھ مسلمانوں كو سخت ناگوار معلوم ہوئي ،كيونكہ عمرہ كے مناسك كى انجام دہى كے بغير ان كى نظرميں احرام سے باہر نكل آنا ممكن نہيںتھا ،ليكن پيغمبر (ص) نے ذاتى طور پرخودپيش قدمى كى او رقربانى كے اونٹوںكو نحر كيا او راحرام سے باہرنكل آئے اورمسلمانوںكو سمجھاياكہ يہ احرام اور قربانى كے قانون ميں استثناء ہے جو خداكى طرف سے قرارديا گيا ہے _

مسلمانوں نے جب يہ ديكھا تو سر تسليم خم كرديا ،او رپيغمبر (ص) كا حكم كامل طورسے مان ليا،اوروہيںسے مدينہ كى راہ لي،ليكن غم واندوہ كا ايك پہاڑ ان كے دلوںپر بوجھ ڈال رہا تھا ،كيونكہ ظاہر ميں يہ سارے كا ساراسفرايك نا كامى اور شكست تھى ،ليكن اسى وقت سورہ فتح نازل ہوئي اورپيغمبرگرامى اسلام (ص) كو فتح كى بشارت ملى _

صلح حديبيہ كے سياسى ،اجتماعى او رمذہبى نتائج

ہجرت كے چھٹے سال (صلح حديبيہ كے وقت )مسلمانوں كى حالت ميں او ردو سال بعد كى حالت ميںفرق نماياں تھا ،جب وہ دس ہزار كے لشكر كے ساتھ فتح مكہ كے لئے چلے تاكہ مشركين كو پيمان شكنى كا دندان شكن جواب ديا جائے،جنانچہ انھوںنے فوجوں كو معمولى سى جھڑپ كے بغيرہى مكہ كوفتح كرليا ،اس وقت قريش اپنے اندر مقابلہ كرنے كى معمولى سى قدرت بھى نہيں ركھتے تھے _ايك اجمالى موازنہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ ''صلح حديبيہ'' كا عكس العمل كس قدر وسيع تھا _

خلاصہ كے طور پر مسلمانوں نے ا س صلح سے چند امتياز او راہم كاميابياںحاصل كيں ،جنكى تفصيل حسب ذيل ہے _

1)عملى طور پر مكہ كہ فريب خوردہ لوگوں كو يہ بتا ديا كہ وہ جنگ و جدال كا ارادہ نہيںركھتے ،او رمكہ كے مقدس شہر اور خانہ خداكے لئے بہت زيادہ احترام كے قائل ہيں،يہى بات ايك كثيرجماعت كے دلوںكے لئے اسلام كى طرف كشش كا سبب بن گئي _

2)قريش نے پہلى مرتبہ اسلام او رمسلمانوں كى رسموں كو تسليم كيا ،يہى وہ چيز تھى جو جزيرةالعرب ميں مسلمانوں كى حيثيت كو ثابت كرنے كى دليل بنى _

3)صلح حديبيہ كے بعد مسلمان سكون واطمنان سے ہر جگہ آجا سكتے تھے او رانكا جان و مال محفوظ ہوگيا تھا ،او رعملى طورپرمشركين كے ساتھ قريبى تعلق اورميل جول پيدا ہوا،ايسے تعلقات جس كے نتيجہ ميں مشركين كو اسلام كى زيادہ سے زيادہ پہچان كے ساتھ ان كى توجہ اسلام كى طرف مائل ہو ئي _

4)صلح حديبيہ كے بعد اسلام كى نشر واشاعت كے لئے سارے جزيرةالعرب ميں راستہ كھل گيا ،او رپيغمبر (ص) كى صلح طلبى كى شرط نے مختلف اقوام كو،جو پيغمبر (ص) كى ذات او راسلام كے متعلق غلط نظريہ ركھتے تھے ،تجديد نظر پر آمادہ كيا ،او رتبليغاتى نقطہ نظرسے بہت سے وسيع امكانات ووسائل مسلمانوںكے ہاتھ آئے _

5)صلح حديبيہ نے خيبر كو فتح كرنے او ريہوديوں كے اس سرطانى غدہ كو نكال پھينكنے كے لئے،جوبالفعل اوربالقوہ اسلام او رمسلمانوں كے لئے ايك اہم خطرہ تھا ،راستہ ہموار كرديا_

6)اصولى طو رپر پيغمبر(ص) كى ايك ہزار چار سو افراد كى فوج سے ٹكرلينے سے قريش كى وحشت جن كے پاس كسى قسم كے اہم جنگى ہتھياربھى نہيں تھے، او رشرائط صلح كو قبول كرلينا اسلام كے طرفداروں كے دلوں كى تقويت ،او رمخالفين كى شكست كے لئے ،جنہوں نے مسلمانوں كو ستاياتھا خود ايك اہم عامل تھا_

7)واقعہ حديبيہ كے بعد پيغمبر(ص) نے بڑے بڑے ملكو ں،ايران وروم وحبشہ كے سربراہوں ،او ردنيا كے بڑے بڑے بادشاہوںكو متعددخطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دى او ريہ چيزاچھى طرح سے اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ صلح حديبيہ نے مسلمانوں ميں كس قدر خود اعتمادى پيداكردى تھي،كہ نہ صرف جزيرہ عرب ميں بلكہ اس زمانہ كى بڑى دنيا ميں ان كى راہ كو كھول ديا_

اب تك جو كچھ بيان كيا گيا ہے ،اس سے يہ بخوبى معلوم كيا جا سكتا ہے ،كہ واقعاً صلح حديبيہ مسلمانوں كے لئے ايك عظيم فتح او ركاميابى تھى ،اور تعجب كى بات نہيں ہے كہ قرآن مجيدا سے فتح مبين كے عنوان سے ياد كرتا ہے :

صلح حديبيہ يا عظيم الشان فتح

جس و قت پيغمبر (ص) حديبيہ سے واپس لوٹے (او رسورہ فتح نازل ہوئي )تو ايك صحابى نے عرض كيا :''يہ كيا فتح ہے كہ ہميں خانہ خدا كى زيارت سے بھى رو ك ديا ہے او رہمارى قربانى ميں بھى ركاوٹ ڈال دي''؟

پيغمبر (ص) نے فرمايا:''تو نے بہت برى بات كہى ہے ،بلكہ يہ تو ہمارى عظيم ترين فتح ہے كہ مشركين اس بات پر راضى ہوگئے ہيں كہ تمھيں خشونت آميز طريقہ سے ٹكر لئے بغير اپنى سرزمين سے دور كريں، اور تمہارے سامنے صلح كى پيش كش كريں اوران تمام تكاليف او ررنج وغم كے باو جود جو تمہارى طرف سے انھوں

نے اٹھائے ہيں ،ترك تعرض كے لئے تمہارى طرف مائل ہوئے ہيں _

اس كے بعد پيغمبر (ص) نے وہ تكاليف جو انھوں نے بدر واحزاب ميں جھيلى تھيں انھيں ياد دلائيں، تو مسلمانوں نے تصديق كى كہ يہ سب سے بڑى فتح تھى او رانھوں نے لا علمى كى بناء پر يہ فيصلہ كيا تھا _

''زہرى ''جو ايك مشہور تابعى ہے، كہتا ہے:كوئي بھى فتح صلح حديبيہ سے زيادہ عظيم نہيں تھى ،كيونكہ مشركين نے مسلمانوں كے ساتھ ارتباط اور تعلق پيدا كيا او راسلام ان كے دلوں ميں جاں گزيں ہوا ،او رتين ہى سال كے عرصہ ميں ايك عظيم گروہ اسلام لے آيا او رمسلمانوں ميں ان كى وجہ سے اضافہ ہوا''_

پيغمبر (ص) كا سچا خواب

جيسا كہ ہم نے شروع ميں عرض كيا كہ پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ ميں ايك خواب ديكھا كہ آپ اپنے صحابہ كے ساتھ عمرہ كے لئے مناسك ادا كرنے كے لئے مكہ ميں داخل ہورہے ہيں اور اس خواب كو صحابہ كے سامنے بيان كرديا ، وہ سب كے سب شاد و خوش حال ہوئے ليكن چونكہ ايك جماعت يہ خيال كرتى تھى كہ اس خواب كى تعبير اسى سال پورى ہوگي، تو جس وقت قريش نے مكہ ميں ان كے دخيل ہونے كا راستہ حديبيہ ميں ان كے آگے بند كرديا تو وہ شك و ترديد ميں مبتلا ہوگئے، كہ كيا پيغمبر (ص) كا خواب غلط بھى ہوسكتا ہے، كيا اس كا مطلب يہ نہيں تھا كہ ہم خانہ خدا كى زيارت سے مشرف ہوں؟ پس اس وعدہ كا كيا ہوا؟ اور وہ رحمانى خواب كہاں چلا گيا؟

پيغمبر اكرم (ص) نے اس سوال كے جواب ميں فرمايا:كيا ميں نے تمہيںيہ كہا تھا كہ يہ خواب اسى سال پورا ہوگا؟ اسى بارے ميں مدينہ كى طرف بازگشت كى راہ ميں وحى الہى نازل ہوئي اور تاكيد كى كہ يہ خواب سچا تھا او رايسا مسئلہ حتمى و قطعى اور انجام پانے والا ہے_

ارشاد خدا وندعالم ہوتا ہے:''خد نے اپنے پيغمبر كو جو كچھ دكھلايا تھا وہ سچ اور حق تھا''_(1)


(1)سورہ فتح آيت27

اس كے بعد مزيد كہتا ہے: ''انشاء اللہ تم سب كے سب قطعى طور پر انتہائي امن وامان كے ساتھ اس حالت ميں كہ تم اپنے سروں كو منڈوائے ہوئے ہوں گے، يا اپنے ناخنوں كو كٹوائے ہوئے ہوں گے مسجد الحرام ميں داخل ہوں گے اور كسى شخص سے تمہيں كوئي خوف ووحشت نہ ہوگي''_(1)

مومنين كے دلوں پرنزول سكينہ

next index back