next index back

(1)بہت سے مفسرين نے نقل كيا ہے كہ سورہ مائدہ ايات 82تا86 نجاشى اور اس كے ساتھيوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں

فتح خيبركى زيادہ خوشى ہے يا جعفركے پلٹنے كي

كئي سال گزر گئے پيغمبر (ص) بھى ہجرت فرماگئے اور اسلام روزبروز ترقى كى منزليں طے كرنے لگا،عہدنامہ حديبيہ لكھا گيا اور پيغمبر اكرم (ص) فتح خيبركى طرف متوجہ ہوئے اس وقت جب كہ مسلمان يہوديوں كے سب سے بڑے اور خطر ناك مركز كے لوٹنے كى وجہ سے اتنے خوش تھے كہ پھولے نہيں سماتے تھے، دور سے انہوں نے ايك مجمع كو لشكر اسلام كى طرف آتے ہوئے ديكھا ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ معلوم ہواكہ يہ وہى مہاجرين حبشہ ہيں ، جو آغوش وطن ميں پلٹ كر آرہے ہيں ،جب كہ دشمنوں كى بڑى بڑى طاقتيںد م توڑچكى ہيں اور اسلام كا پودا اپنى جڑيںكافى پھيلا چكا ہے _

پيغمبر اكرم (ص) نے جناب جعفراور مہا جرين حبشہ كو ديكھ كر يہ تاريخى جملہ ارشاد فرمايا:

''ميں نہيں جانتا كہ مجھے خيبر كے فتح ہونے كى زيادہ خوشى ہے يا جعفر كے پلٹ آنے كى ''

كہتے ہيں كہ مسلمانوں كے علاوہ شاميوں ميں سے آٹھ افراد كہ جن ميں ايك مسيحى راہب بھى تھا اور ان كا اسلام كى طرف شديد ميلان پيدا ہوگيا تھاپيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضرہو ئے اور انہوں نے سورہ ى سين كى كچھ آيات سننے كے بعد رونا شروع كرديا اور مسلمان ہوگئے اور كہنے لگے كہ يہ آيات مسيح عليہ السلام كى سچى تعليمات سے كس قدر مشابہت ركھتى ہيں _

اس روايت كے مطابق جو تفسير المنار، ميں سعيد بن جبير سے منقول ہے نجاشى نے اپنے يارو انصار ميں سے تيس بہترين افراد كوپيغمبر اكرم (ص) اور دين اسلام كے ساتھ اظہار عقيدت كے لئے مدينہ بھيجا تھا اور يہ وہى تھے جو سورہ ى سين كى ايات سن كر روپڑے تھے اور اسلام قبول كرليا تھا_

* * * * *

معراج رسول (ص)

علماء اسلام كے درميان مشہور يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) جس وقت مكہ ميں تھے تو ايك ہى رات ميں آپ قدرت الہى سے مسجد الحرام سے اقصى پہنچے كہ جو بہت المقدس ميں ہے ، وہاں سے آپ آسمانوں كى طرف گئے ، آسمانى دسعتوں ميں عظمت الہى كے آثار مشاہدہ كئے اور اسى رات مكہ واپس آگئے _

نيزيہ بھى مشہور ہے كہ يہ زمينى اور آسمانى سير جسم اور روح كے ساتھ تھى البتہ يہ سير چونكہ بہت عجيب غريب اور بے نظير تھى لہذا بعض حضرات نے اس كى توجيہ كى اور اسے معراج روحانى قرار ديا اور كہا كہ يہ ايك طرح كا خواب تھايا مكا شفہ روحى تھا ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں يہ بات قرآن كے ظاہرى مفہوم كے بالكل خلاف ہے كيونكہ ظاہرقر آن اس معراج كے جسمانى ہونے كى گواہى ديتا ہے _

معراج كى كيفيت قرآن و حديث كى نظر سے

قرآن حكيم كى دوسورتوں ميں اس مسئلے كى طرف اشارہ كيا گيا ہے پہلى سورت بنى اسرائيل ہے اس ميں اس سفر كے ابتدائي حصے كا تذكرہ ہے _ (يعنى مكہ كى مسجد الحرام سے بيت المقدس كى مسجد الاقصى تك كا سفر) اس سلسلے كى دوسرى سورت _ سورہ نجم ہے اس كى آيت 13 تا 18 ميں معراج كا دوسرا حصہ بيان كيا گيا ہے اور يہ آسمانى سير كے متعلق ہے ارشاد ہوتا ہے :

ان چھ آيات كا مفہوم يہ ہے : رسول اللہ نے فرشتہ وحى جبرئيل كو اس كو اصلى صورت ميں دوسرى مرتبہ

ديكھا (پہلے آپ اسے نزول وحى كے آغاز ميں كوہ حرا ميں ديكھ چكے تھے) يہ ملاقات بہشت جاوداں كے پاس ہوئي ، يہ منظر ديكھتے ہوئے رسول اللہ (ص) كسى اشتباہ كا شكار نہ تھے آپ نے عظمت الہى كى عظيم نشانياں مشاہدہ كيں_

يہ آيات كہ جو اكثر مفسرين كے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہيں يہ بھى نشاندہى كرتى ہيں كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں پيش آيا خصوصا ''مازاغ البصروماطغي'' اس امر كا شاہد ہے كہ رسول اللہ (ص) كى آنكھ كسى خطا واشتباہ اور انحراف سے دوچار نہيں ہوئي _

اس واقعے كے سلسلے ميں مشہور اسلامى كتابوں ميں بہت زيادہ روايات نقل ہوئي ہيں _

علماء اسلام نے ان روايات كے تو اتر اور شہرت كى گواہى دى ہے _(1)

معراج كى تاريخ

واقعہ معراج كى تاريخ كے سلسلے ميں اسلامى مو رخين كے درميان اختلاف ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال 27 /رجب كى شب پيش آيا، بعض كہتے ہيں كہ يہ بعثت كے بارہويں سال 17/رمضان المبارك كى رات وقوع پذير ہوا جب كہ بعض اسے اوائل بعثت ميں ذكر كرتے ہيں ليكن اس كے وقوع پذير ہونے كى تاريخ ميں اختلاف،اصل واقعہ پر اختلاف ميں حائل نہيں ہوتا _

اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى ہے كہ صر ف مسلمان ہى معراج كا عقيدہ نہيں كھتے بلكہ ديگراديان كے پيروكار وں ميں بھى كم و بيش يہ عقيدہ پايا جاتا ہے ان ميں حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں يہ عقيدہ عجيب تر صورت ميں نظر آتا ہے جيسا كہ انجيل مرقس كے باب 6/ لوقاكے باب 24/ اور يوحنا كے باب ا2/ ميں ہے:

عيسى عليہ السلام مصلوب ہونے كے بعد دفن ہوگئے تو مردوں ميں سے اٹھ كھڑے ہوئے ،اور چاليس روز تك لوگوں ميں موجود رہے پھر آسمان كى طرف چڑھ گئے ( اور ہميشہ كے لئے معراج پر چلے گئے )


(1)رجوع كريں تفسير نمونہ ج

ضمناً يہ وضاحت بھى ہوجائے كہ بعض اسلامى روايات سے بھى معلوم ہوتا ہے كہ بعض گزشتہ انبياء كو بھى معراج نصيب ہوئي تھى _

پيغمبرگرامى (ص) نے يہ آسمانى سفر چند مرحلوں ميں طے كيا_

پہلا مرحلہ،مسجدالحرام اور مسجد اقصى كے درميانى فاصلہ كا مرحلہ تھا، جس كى طرف سورہ اسراء كى پہلى آيت ميں اشارہ ہوا ہے: ''منزہ ہے وہ خدا جو ايك رات ميں اپنے بندہ كو مسجد الحرام سے مسجد اقصى تك لے گيا''_ بعض معتبر روايات كے مطابق آپ(ص) نے اثناء راہ ميں جبرئيل(ع) كى معيت ميں سر زمين مدينہ ميںنزول فرمايا او روہاں نماز پڑھى _

او رمسجد الاقصى ميں بھى ابراہيم و موسى و عيسى عليہم السلام انبياء كى ارواح كى موجود گى ميں نماز پڑھى اور امام جماعت پيغمبر (ص) تھے، اس كے بعد وہاں سے پيغمبر (ص) كا آسمانى سفر شروع ہوا، اور آپ(ص) نے ساتوں آسمانوںكو يكے بعد ديگرے عبور كيا او رہر اسمان ميں ايك نياہى منظر ديكھا ، بعض آسمانوں ميں پيغمبروں اور فرشتوں سے، بعض آسمانوں ميں دوزخ او ردوزخيوں سے اور بعض ميں جنت اور جنتيوں سے ملاقات كى ،او رپيغمبر (ص) نے ان ميں سے ہر ايك سے بہت سى تربيتى اور اصلاحى قيمتى باتيں اپنى روح پاك ميں ذخيرہ كيں اور بہت سے عجائبات كا مشاہدہ كيا جن ميں سے ہر ايك عالم ہستى كے اسرار ميں سے ايك راز تھا، اور واپس آنے كے بعد ان كو صراحت كے ساتھ اور بعض اوقا ت كنايہ اور مثال كى زبان ميں امت كى آگاہى كے لئے مناسب فرصتوں ميں بيان فرماتے تھے، اور تعليم وتربيت كے لئے اس سے بہت زيادہ فائدہ اٹھاتے تھے_

يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ اس آسمانى سفر كا ايك اہم مقصد،ان قيمتى مشاہدات كے تربيتى و عرفانى نتائج سے استفادہ كرنا تھا،اور قرآن كى يہ پر معنى تعبير''لقد راى من آيات ربہ الكبرى ''(1)


(1)سورہ نجم ايت18

ان تمام امور كى طرف ايك اجمالى اور سربستہ اشارہ ہو سكتى ہ6ے_

البتہ جيسا كہ ہم بيان كرچكے ہيں كہ وہ بہشت اور دوزخ جس كو پيغمبر (ص) نے سفر معراج ميں مشاہدہ كيا اور كچھ لوگوں كو وہاں عيش ميں اور عذاب ميں ديكھا ، وہ قيامت والى جنت اور دوزخ نہيں تھيں ، بلكہ وہ برزخ والى جنت ودوزخ تھيں ، كيونكہ قرآن مجيدكے مطابق جيسا كہ كہتا ہے كہ قيامت والى جنت ودوزخ قيام قيامت اور حساب وكتاب سے فراغت كے بعد نيكو كاروں اور بدكاروں كو نصيب ہوگى _

آخر كار آپ ساتويں آسمان پر پہنچ گئے ، وہاں نور كے بہت سے حجابوں كا مشاہدہ كيا ، وہى جگہ جہاں پر ''سدرة المنتہى '' اور'' جنة الما وى '' واقع تھي، اور پيغمبر (ص) اس جہان سراسر نوروروشنى ميں، شہود باطنى كى اوج، اور قرب الى اللہ اور مقام '' قاب قوسين اوادني''پر فائز ہوئے اور خدا نے اس سفر ميں آپ كو مخالب كرتے ہوئے بہت سے اہم احكام ديئے اور بہت سے ارشادات فرمائے جن كا ايك مجموعہ اس وقت اسلامى روايات ميں'' احاديث قدسى '' كى صورت ميں ہمارے لئے يادگار رہ گيا ہے _

قابل توجہ بات يہ ہے كہ بہت سى روايات كى تصريح كے مطابق پيغمبر (ص) نے اس عظيم سفر كے مختلف حصوں ميں اچانك على عليہ السلام كو اپنے پہلو ميں ديكھا، اور ان روايات ميں كچھ ايسى تعبيريں نظر آتى ہيں، جو پيغمبر اكرم (ص) كے بعد على عليہ السلام كے مقام كى حد سے زيادہ عظمت كى گواہ ہيں _

معراج كى ان سب روايات كے باوجود كچھ ايسے پيچيدہ اور اسرار آميز جملے ہيں جن كے مطالب كو كشف كرنا آسان نہيں ہے، اور اصطلاح كے مطابق روايات متشابہ كا حصہ ہيں يعنى ايسى روايات جن كى تشريح كوخود معصومين عليہم السلام كے سپرد كردينا چاہئے _(1)

ضمنى طورپر، معراج كى روايات اہل سنت كى كتابوں ميں بھى تفصيل سے آئي ہيں،اور ان كے راويوں ميں سے تقريباً 30/افراد نے حديث معراج كو نقل كيا ہے_


(1)روايات معراج كے سلسلہ ميں مزيد اطلاع كے لئے بحارالانوار كى جلد 18 از ص 282 تاص 10 4 رجوع فرمائيں

يہاں يہ سوال سامنے آتاہے : يہ اتنا لمبا سفر طے كرنا اور يہ سب عجيب اور قسم قسم كے حادثات، اور يہ سارى لمبى چوڑى گفتگو ، اور يہ سب كے سب مشاہدات ايك ہى رات ميں ياايك رات سے بھى كم وقت ميں كس طرح سے انجام پاگئے ؟

ليكن ايك نكتہ كى طرف توجہ كرنے سے اس سوال كا جواب واضح ہوجاتاہے ، سفر معراج ہرگز ايك عام سفر نہيں تھا ، كہ اسے عام معياروں سے پركھاجائے نہ تو اصل سفر معمولى تھا اور نہ ہى آپ كى سوارى معمولى اور عام تھي،نہ آپ كے مشاہدات عام اور معمولى تھے اور نہ ہى آپ كى گفتگو ، اور نہ ہى وہ پيمانے جواس ميں استعمال ہوئے، ہمارے كرہ خاكى كے محدود اور چھوٹے پيمانوں كے مانند تھے، اور نہ ہى وہ تشبيہات جواس ميں بيان ہوئي ہيں ان مناظر كى عظمت كو بيان كرسكتى ہيں جو پيغمبر (ص) نے مشاہدہ كيے ، تمام چيزيں خارق العادت صورت ميں ، اور اس مكان وزمان سے خارج ہونے كے پيمانوں ميں، جن سے ہم آشنا نہيں، واقع ہوئيں _

اس بناپر كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ يہ امور ہمارے كرہ زمين كے زمانى پيمانوں كے ساتھ ايك رات يا ايك رات سے بھى كم وقت ميں واقع ہوئے ہوں _(1)

معراج جسمانى تھى ياروحانى ؟

شيعہ اور سنى علمائے اسلام كے درميان مشہور ہے كہ يہ واقعہ عالم بيدارى ميں صورت پذير ہوا، سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت اور سورہ نجم كى مذكورہ آيات كا ظاہرى مفہوم بھى اس امر كا شاہد ہے كہ يہ واقعہ بيدارى كى حالت ميں پيش آيا _

تواريخ اسلامى بھى اس امرپر شاہد وصادق ہيں،تاريخ كہتى ہے : جس وقت رسول اللہ (ص) نے واقعہ معراج كا ذكر كيا تو مشركين نے شدت سے اس كا انكار كرديا اور اسے آپ كے خلاف ايك بہانہ بناليا_


(1)تفسير نمونہ ج 13 ص97 تا 99

يہ بات گواہى ديتى ہے كہ رسول اللہ (ص) ہرگز خواب يا مكا شفہ روحانى كے مدعى نہ تھے ورنہ مخالفين اس قدر شور وغوغا نہ كرتے _

يہ جو حسن بصرى سے روايت ہے كہ : ''يہ واقعہ خواب ميں پيش آيا ''_

اور اسى طرح جو حضرت عائشےہ سے روايت ہے كہ : ''خداكى قسم بدن رسول اللہ (ص) ہم سے جدا نہيں ہوا صرف آپ كى روح آسمان پر گئي'' ايسى روايات ظاہر ًاسياسى پہلو ركھتى ہيں _

معراج كا مقصد

گزشتہ مباحث پر غور كرنے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ معراج كا مقصد يہ نہيں كہ رسول اكرم (ص) ديدار خدا كے لئے آسمانوں پر جائيں، جيسا كہ سادہ لوح افرادخيال كرتے ہيں، افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بعض مغربى دانشور بھى ناآگاہى كى بناء پر دوسروں كے سامنے اسلام كا چہرہ بگاڑكر پيش كرنے كے لئے ايسى باتيں كرتے ہيں ان ميں سے ايك مسڑ'' گيور گيو'' بھى ہيں وہ بھى كتاب ''محمد وہ پيغمبر ہيںجنہيں پھرسے پہچاننا چاہئے''(1) ميں كہتے ہيں:

''محمد اپنے سفر معراج ميں ايسى جگہ پہنچے كہ انہيں خدا كے قلم كى آواز سنائي دي، انہوں نے سمجھا كہ اللہ اپنے بندوںكے حساب كتاب ميں مشغول ہے البتہ وہ اللہ كے قلم كى آواز تو سننے تھے مگر انہيں اللہ دكھائي نہ ديتا تھا كيونكہ كوئي شخص خدا كو نہيں ديكھ سكتا خواہ پيغمبر ہى كيوں نہ ہوں''يہ عبارت نشاندھى كرتى ہے كہ قلم لكڑى كا تھا، ايسا كہ كاغذ پر لكھتے وقت لرزتاتھا اور اواز پيدا كرتا تھا، اسى طرح كى اور بہت سارے خرافات اس ميں موجود ہيں ''_ جب كہ مقصد معراج يہ تھا كہ اللہ كے عظيم پيغمبر كائنات ميں بالخصوص عالم بالا ميں موجود عظمت الہى كى نشانيوں كا مشاہدہ كريں اور انسانوں كى ہدايت ورہبرى كے لئے ايك نيا ادراك اور ايك نئي بصيرت حاصل كريں _


(1)مذكورہ كتاب كے فارسى ترجمے كا نام ہے '' محمد پيغمبرى كہ از نوبايد شناخت '' ص 125 ديكھئے

يہ ھدف واضح طورپر سورہ بنى اسرائيل كى پہلى ايت اور سورہ نجم كى ايت 18 ميں بيان ہوا ہے_

امام صادق عليہ السلام سے مقصد معراج پوچھاگيا تو آپ نے فرمايا :

''خدا ہرگز كوئي مكان نہيں ركھتا اور نہ اس پر كوئي زمانہ گزرتاہے ليكن وہ چاہتا تھا كہ فرشتوں اور آسمان كے باسيوں كو اپنے پيغمبر كى تشريف آورى سے عزت بخشے اور انہيں آپ كى زيارت كا شرف عطاكرے نيزآپ كو اپنى عظمت كے عجائبات دكھائے تاكہ واپس آكر آپ انہيں لوگوں سے بيان كريں''_

معراج اور سائنس

گزشتہ زمانے ميں بعض فلاسفہ بطليموس كى طرح يہ نظريہ ركھتے تھے كہ نو آسمان پياز كے چھلكے كى طرح تہہ بہ تہہ ايك دوسرے كے اوپر ہيں واقعہ معراج كو قبول كرنے ميں ان كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ان كا يہى نظريہ تھا ان كے خيال ميں اس طرح تويہ ماننا پڑتا ہے كہ آسمان شگافتہ ہوگئے اور پھر آپس ميں مل گئے_(1)

ليكن'' بطليموسى ''نظريہ ختم ہو گيا تو اسمانوںكے شگافتہ ہونے كا مسئلہ ختم ہوگيا البتہ علم ہئيت ميں جو ترقى ہوئي ہے اس سے معراج كے سلسلے ميں نئے سوالات ابھر ے ہيں مثلاً;

1)ايسے فضائي سفر ميں پہلى بار ركاوٹ كشش ثقل ہے كہ جس پر كنٹرول حاصل كرنے كے لے غير معمولى وسائل و ذرائع كى ضرورت ہے كيونكہ زمين كے مداراور مركز ثقل سے نكلنے كے لئے كم از كم چاليس ہزار كلو ميٹر فى گھنٹہ رفتار كى ضرورت ہے _

2)دوسرى ركاوٹ يہ ہے كہ زمين كے باہر خلا ميں ہوا نہيں ہے جبكہ ہوا كے بغير انسان زندہ نہيں رہ سكتا _


(1)بعض قديم فلاسفہ كا نظريہ يہ تھا كہ اسمانوں ميں ايسا ہونا ممكن نہيں ہے _اصطلاح ميں وہ كہتے تھے كہ افلاك ميں --''خرق ''(پھٹنا)اور ''التيام''(ملنا)ممكن نہيں

3)تيسرى ركاوٹ ايسے سفر ميں اس حصہ ميں سورج كى جلادينے والى تپش ہے جبكہ جس حصہ پر سورج كى مستقيماً روشنى پڑرہى ہے اور اسى طرح اس حصے ميں جان ليوا سردى ہے جس ميں سورج كى روشنى نہيں پڑرہى ہے_

4) اس سفر ميں چوتھى ركاوٹ وہ خطرناك شعاعيں ہيں كہ جو فضا ئے زمين كے اوپر موجود ہيں مثلا كا سمك ريز cosmic ravs الٹرا وائلٹ ريز ultra violet ravsاور ايكس ريز x ravsيہ شعاعيں اگر تھوڑى مقدار ميں انسانى بدن پر پڑيں تو بدن كے آرگانزم otganismكے لئے نقصان دہ نہيں ہيں ليكن فضائے زمين كے باہر يہ شعاعيں بہت تباہ كن ہوتى ہيں (زمين پر رہنے والوں كے لئے زمين كے اوپر موجود فضاكى وجہ سے ان كى تپش ختم ہوجاتى ہے )

5) ايك اور مشكل اس سلسلہ ميں يہ ہے كہ خلاميں انسان بے وزنى كى كيفيت سے دوچار ہوجاتا ہے اگرچہ تدريجاًبے وزنى كى عادت پيدا كى جاسكتى ہے ليكن اگر زمين كے باسى بغير كسى تيارى اور تمہيد كے خلا ميں جا پہنچيں تو بےوزنى سے نمٹنا بہت ہى مشكل ہے _

6) آخرى مشكل اس سلسلے ميں زمانے كى مشكل ہے اور يہ نہايت اہم ركاوٹ ہے كيونكہ دورحاضر كے سان سى علوم كے مطابق روشنى كى رفتار ہر چيز سے زيادہ ہے اور اگر كوئي آسمانوں كى سير كرنا چاہے تو ضرورى ہو گاكہ اس كى رفتار سے زيادہ ہو _

ان سوالات كے پيش نظر چندچيزوں پر توجہ

ان امور كے جواب ميں ان نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے _

1_ہم جانتے ہيں كہ فضائي سفر كى تمام تر مشكلات كے باوجود آخر كار انسان علم كى قوت سے اس پر دسترس حاصل كرچكا ہے اور سوائے زمانے كى مشكل كے باقى تمام مشكلات حل ہوچكى ہيں اور زمانے والى مشكل بھى بہت دور كے سفر سے مربوط ہے _

2_اس ميں شك نہيں كہ مسئلہ معراج عمومى اور معمولى پہلو نہيں ركھتا بلكہ يہ اللہ كى لامتناہى قدرت و طاقت كے ذريعے صورت پذير ہوا اور انبياء كے تمام معجزات اسى قسم كے تھے زيادہ واضح الفاظ ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ معجزہ عقلاً محال نہيں ہونا چاہئے اور جب معجزہ بھى عقلاً ممكن ہے ، توباقى معاملات اللہ كى قدرت سے حل ہوجاتے ہيں _

جب انسان يہ طاقت ركھتا ہے كہ سائنسى ترقى كى بنياد پر ايسى چيزيں بنالے جو زمينى مركز ثقل سے باہر نكل سكتى ہيں ، ايسى چيزيں تيار كرلے كہ فضائے زمين سے باہر كى ہولناك شعاعيں ان پر اثر نہ كرسكيں اور ايسے لباس تيار كرلے كہ جو اسے انتہائي زيادہ گرمى اور سردى سے محفوظ ركھ سكيں اور مشق كے ذريعے بے وزنى كى كيفيت ميں رہنے كى عادت پيدا كرلے ،يعنى جب انسان اپنى محدود قوت كے ذريعے يہ كام كرسكتا ہے تو پھر كيا اللہ اپنى لا محدود طاقت كے ذريعہ يہ كام نہيں كرسكتا ؟

ہميں يقين ہے كہ اللہ نے اپنے رسول كو اس سفر كے لئے انتہائي تيز رفتار سوارى دى تھى اور اس سفرميں در پيش خطرات سے محفوظ رہنے كے لئے انہيں اپنى مدد كا لباس پہنايا تھا ،ہاں يہ سوارى كس قسم كى تھى اور اس كا نام كيا تھا براق ؟ رفرف ؟ يا كوئي اور ؟يہ مسئلہ قدرت كاراز ہے، ہميں اس كا علم نہيں _

ان تمام چيزوں سے قطع نظر تيز تريں رفتار كے بارے ميں مذكورہ نظريہ آج كے سائنسدانوںكے درميان متزلزل ہوچكا ہے اگر چہ آ ئن سٹائن اپنے مشہور نظريہ پر پختہ يقين ركھتا ہے _

آج كے سائنسداں كہتے ہيں كہ امواج جاذمہrdvs of at f fionزمانے كى احتياج كے بغير آن واحد ميں دنيا كى ايك طرف سے دوسرى طرف منتقل ہوجاتى ہيں اور اپنا اثر چھوڑتى ہيں يہاں تك كہ يہ احتمال بھى ہے كہ عالم كے پھيلائو سے مربوط حركات ميں ايسے منظومے موجودہيں كہ جوروشنى كى رفتارسے زيادہ تيزى سے مركز جہان سے دور ہوجاتے ہيں (ہم جانتے ہيں كہ كائنات پھيل رہى ہے اور ستارے اور نظام ہائے شمسى تيزى كے ساتھ ايك دوسرے سے دور ہورہے ہيں )(غور كيجئے گا)مختصر يہ كہ اس سفر كے لئے جو بھى مشكلات بيان كى گئي ہيں ان ميں سے كوئي بھى عقلى طور پر اس راہ ميں حائل نہيں ہے اور ايسى كوئي بنياد نہيں كہ

واقعہ معراج كو محال عقلى سمجھا جائے اس راستے ميں درپيش مسائل كو حل كرنے كے لئے جو وسائل دركار ہيں وہ موجود ہوں تو ايسا ہوسكتا ہے _

بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلى دلائل كے حوالے سے ناممكن ہے اور نہ دور حاضر كے سائنسى معياروں كے لحاظ سے ، البتہ اس كے غير معمولى اور معجزہ ہونے كو سب قبول كرتے ہيں لہذا جب قطعى اور يقينى نقلى دليل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول كرلينا چاہئے_

شب معراج پيغمبر (ص) سے خداكى باتيں

پيغمبر نے شب معراج پروردگار سبحان سے اس طرح سوال كيا :

پروردگار ا: كونساعمل افضل ہے ؟

خدا وند تعالى نے فرمايا :

'' كوئي چيز ميرے نزيك مجھ پر توكل كرنے ، اور جو كچھ ميںنے تقسيم كركے ديا ہے اس پر راضى ہونے سے بہتر نہيں ہے ،اے محمد جولوگ ميرى خاطر ايك دوسرے كو دوست ركھتے ہيں ميرى محبت ان كے شامل حال ہوگى اور جو لوگ ميرى خاطر ايك دوسرے پر مہربان ہيں اور ميرى خاطر دوستى كے تعلقات ركھتے ہيں انھيں دوست ركھتا ہوں علاوہ بر ايں ميرى محبت ان لوكوں كے لئے جو مجھ پر توكل كريں فرض اور لازم ہے اور ميرى محبت كے لئے كوئي حد او ركنارہ اوراس كى انتہا نہيں ہے ''_

اس طرح سے محبت كى باتيں شروع ہوتى ہيں ايسى محبت جس كى كوئي انتہا نہيں ،جو كشادہ اور اصولى طور پر عالم ہستى ميںاسى محور محبت پر گردش كررہا ہے _

ايك اور ددسرے حصہ ميں يہ آيا ہے _

''اے احمد بچوں كى طرح نہ ہونا جو سبز وزرد اور زرق وبرق كو دوست ركھتے ہيں اور جب انہيں كوئي عمدہ اور شيريں غذا ديدى جاتى ہے تو وہ مغرور ہوجاتے ہيں اور ہر چيز كو بھول جاتے ہيں ''_

پيغمبرنے اس موقع پر عرض كيا :

پروردگارا :مجھے كسى ايسے عمل كى ہدايت فرماجو تيرى بارگاہ ميں قرب كا باعث ہو _

فرمايا : رات كو دن اور دن كو رات قرار دے _

عرض كيا : كس طرح ؟

فرمايا : اس طرح كے تيرا سونا نماز ہو اور ہرگز اپنے شكم كو مكمل طور پر سير نہ كرنا _

ايك اور حصہ ميں آيا ہے :

''اے احمد ميرى محبت فقيروں اور محروموں سے محبت ہے ،ان كے قريب ہوجاو اور ان كى مجلس كے قريب بيٹھو كہ ميں تيرے نزديك ہوں اور دنيا پرست اور ثروت مندوں كو اپنے سے دور ركھو اور ان كى مجالس سے بچتے رہو ''_

اہل دنيا و آخرت

ايك اور حصہ ميں آياہے:

''اے احمد دنيا كے زرق برق اور دنيا پرستوں كو مبغوض شمار كر اور آخرت كو محبوب ركھ'' عرض كرتے ہيں :

پروردگارا :اہل دنيا اور اہل آخرت كون ہيں ؟

فرمايا :''اہل دنيا تو وہ لوگ ہيں جو زيادہ كھاتے ہيں زيادہ ہنستے ہيں زيادہ سوتے ہيں اور غصہ كرتے ہيں اور تھوڑا خوش ہوتے ہيں نہ ہى تو برائيوں كے مقابلہ ميں كسى سے عذر چاہتے ہيں _اور نہ ہى كسى عذر چاہنے والے سے اس كا عذر قبول كرتے ہيں اطاعت خدا ميں سست ہيں اور گناہ كرنے ميں دلير ہيں، لمبى چوڑى آرزوئيں ركھتے ہيں حالانكہ ان كى اجل قريب آپہنچى ہے مگر وہ ہر گز اپنے اعمال كا حساب نہيں كرتے ان سے لوگوں كو بہت كم نفع ہوتا ہے، باتيں زيادہ كرتے ہيں احساس ذمہ دارى نہيں ركھتے اور كھانے پينے سے ہى غرض ركھتے ہيں _

اہل دنيا نہ تو نعمت ميں خدا كا شكريہ ادا كرتے ہيں اورنہ ہى مصائب ميں صبر كرتے ہيں _ زيادہ خدمات بھى ان كى نظر ميں تھوڑى ہيں (اور خود ان كى اپنى خدمات تھوڑى بھى زيادہ ہيں ) اپنے اس كام كے انجام پانے پر جو انہوں نے انجام نہيں ديا ہے تعريف كرتے ہيں اور ايسى چيز كا مطالبہ كرتے ہيں جو ان كا حق نہيں ہے _ ہميشہ اپنى آرزوئوں اور تمنا وں كى بات كرتے ہيں اور لوگوں كے عيوب تو بيان كرتے رہتے ہيں ليكن ان كى نيكيوں كو چھپاتے ہيں_

'' عرض كيا :پروردگارا :كيا دنيا پرست اس كے علاوہ بھى كوئي عيب ركھتے ہيں ؟

''فرمايا : اے احمد ان كا عيب يہ ہے كہ جہل اور حماقت ان ميں بہت زيادہ ہے جس استاد سے انہوں علم سيكھا ہے وہ اس سے تواضع نہيں كرتے اور اپنے آپ كو عاقل كل سمجھتے ہيں حالانكہ وہ صاحبان علم كے نزديك نادان اور احمق ہيں'' _

اہل بہشت كے صفات

خدا وند عالم اس كے بعد اہل آخرت اور بہشتيوں كے اوصاف كو يوں بيان كرتا ہے : ''وہ ايسے لوگ ہيں جو با حيا ہيں ان كى جہالت كم ہے ، ان كے منافع زيادہ ہيں ،لوگ ان سے راحت و آرام ميں ہوتے ہيں اور وہ خود اپنے ہاتھوں تكليف ميں ہوتے ہيں اور ان كى باتيں سنجيدہ ہوتى ہيں''_

وہ ہميشہ اپنے اعمال كا حساب كرتے رہتے ہيں اور اسى وجہ سے وہ خود كو زحمت ميں ڈالتے رہتے ہيں ان كى آنكھيں سوئي ہوئي ہوتى ہيں ليكن ان كے دل بيدار ہوتے ہيں ان كى آنكھ گرياں ہوتى ہے اور ان كا دل ہميشہ ياد خدا ميں مصروف رہتا ہے جس وقت لوگ غافلوں كے زمرہ ميں لكھے جارہے ہوں وہ اس وقت ذكر كرنے والوں ميں لكھے جاتے ہيں _

نعمتوں كے آغاز ميں حمد خدا بجالاتے ہيں اور ختم ہونے پر اس كا شكر ادا كرتے ہيں، ان كى دعائيں بارگاہ خدا ميں قبول ہوتى ہيں اور ان كى حاجتيں پورى كى جاتى ہيں اور فرشتے ان كے وجود سے مسرور اور خوش

رہتے ہيں (غافل )لوگ ان كے نزديك مردہ ہيں اور خدا اُن كے نزديك حى و قيوم اور كريم ہے (ان كى ہمت اتنى بلند ہے كہ وہ اس كے سوا كسى كے اوپر نظر نہيں ركھتے )

لوگ تو اپنى عمر ميںصرف ايك ہى دفعہ مرتے ہيں ليكن وہ جہاد باالنفس اور ہواوہوس كى مخالفت كى وجہ سے ہر روز ستر مرتبہ مرتے ہيں (اور نئي زندگى پاتے ہيں)

جس وقت عبادت كے ليئےيرے سامنے كھڑے ہوتے ہيں تو ايك فولادى باندھ اور بنيان مرصوص كے مانند ہوتے ہيں اور ان كے دل ميںمخلوقات كى طرف كوئي توجہ نہيں ہوتى مجھے اپنى عزت و جلال كى قسم ہے كہ ميں انہيں ايك پاكيزہ زندگى بخشونگا اور عمر كے اختتام پر ميں خود ان كى روح كو قبض كروںگا اور ان كى پرواز كے لئے آسمان كے دروازوں كو كھول دوں گاتمام حجابوں كو ان كے سامنے سے ہٹا دوں گا اور حكم دوں گا كہ بہشت خود اپنے ان كے لئے آراستہ كرے ''اے احمد عبادت كے دس حصہ ہيں جن ميں سے نو حصے طلب رزق حلال ميں ہيں جب تيرا كھانا اور پينا حلال ہوگا تو تيرى حفظ و حمايت ميں ہوگا''

بہترين اور جاويدانى زندگي

ايك اور حصہ ميں آيا ہے:

''اے احمد كيا تو جانتا ہے كہ كونسى زندگى زيادہ گوارا اور زيادہ دوام ركھتى ہے''؟

عرض كيا : خداوندا: نہيں_

فرمايا: گوارا زندگى وہ ہوتى ہے جس كا صاحب ايك لمحہ كے لئے بھى ميرى ياد سے غافل نہ رہے، ميرى نعمت كو فراموش نہ كرے ، ميرے حق سے بے خبر نہ رہے اور رات دن ميرى رضا كو طلب كرے_

ليكن باقى رہنے والى زندگى وہ ہے جس ميں اپنى نجات كے لئے عمل كرے ، دنيا اس كى نظر ميں حقير ہو اور آخرت بڑى اور بزرگ ہو، ميرى رضا كو اپنى رضا پر مقدم كرے، اور ہميشہ ميرى خوشنودى كو طلب كرے، ميرے حق كو بڑا سمجھے اور اپنى نسبت ميرى آگاہى كى طرف توجہ ركھے_

ہرگناہ اور معصيت پر مجھے ياد كرليا كرے ، اور اپنے دل كو اس چيز سے جو مجھے پسند نہيں ہے پاك

ركھے، شيطانى وسو سوں كو مبغوض ركھے ،اور ابليس كو اپنے دل پر مسلط نہ كرے _

جب وہ ايسا كرے گا تو ميں ايك خاص قسم كى محبت كو اس كے دل ميں ڈال دوں گا اس طرح سے كہ اس كا دل ميرے اختيار ميں ہوگا ، اس كى فرصت اور مشغوليت اس كا ہم وغم اور اس كى بات ان نعمتوں كے بارے ميں ہوگى جو ميں اہل محبت كو بخشتا ہوں _ ميں اس كى آنكھ اور دل كے كان كھول ديتا ہوں تاكہ وہ اپنے دل كے كان سے غيب كے حقائق كو سننے اور اپنے دل سے ميرے جلال وعظمت كو ديكھے'' :

اور آخر ميں يہ نورانى حديث ان بيدار كرنے والے جملوں پر ختم ہوجاتى ہے :

'' اے احمد اگر كوئي بندہ تمام اہل آسمان اور تمام اہل زمين كے برابر نماز ادا كرے ،اور تمام اہل آسمان وزمين كے برابر روزہ ركھے، فرشتوں كى طرح كھانانہ كھائے اور كوئي فاخرہ لباس بدن پر نہ پہنے (اور انتہائي زہد اور پارسائي كى زندگى بسر كرے) ليكن اس كے دل ميں ذرہ برابر بھى دنيا پرستى يا رياست طلبى يازينت دنيا كا عشق ہو تو وہ ميرے جاودانى گھر ميں ميرے جوار ميں نہيں ہوگا اور ميںاپنى محبت كو اس كے دل سے نكال دوں گا ،ميرا سلام ورحمت تجھ پر ہو ،والحمد للہ رب العالمين ''

يہ عرشى باتيں __جو انسانى روح كو آسمانوں كى طرف بلند كرتى ہيں ، اور آستان ہ عشق وشہود كى طرف كھينچتى ہيں _حديث قدسى كا صرف ايك حصہ ہے _

مزيد براں ہميں اطمينان ہے كہ پيغمبر نے اپنے ارشادات ميں جو كچھ بيان فرمايا ہے ان كے علاوہ بھي، اس شب عشق وشوق اور جذبہ ووصال كى شب ميں ، ايسى باتيں ، اسرارورموز اور اشارے آپ كے اور اپ كے محبوب كے درميان ہوتے ہيں جن كو نہ تو كان سننے كى طاقت ركھتے ہيں اور نہ عام افكار ميں ان كے درك كى صلاحيت ہے، اور اسى بناپر وہ ہميشہ پيغمبر كے دل وجان كے اندر ہى مكتوم اور پوشيدہ رہے ، اور آپ كے خواص كے علاوہ كوئي بھى ان سے آگاہ نہيں ہوا _

* * * * *

ہجرت پيامبر اكرم (ص) (1)

مختلف قبائل قريش اور اشراف مكہ كا ايك گروہ جمع ہوا تاكہ وہ'' دار الند وہ'' ميں ميٹنگ كريں اور انہيں رسول اللہ كى طرف سے درپيش خطرے پر غور وفكر كريں _

(كہتے ہيں) اثنائے راہ ميں انہيں ايك خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شيطان تھا (يا كوئي انسان جو شيطانى روح وفكر كا حامل تھا)_

انہوں نے اس سے پوچھا : تم كون ہو؟

كہنے لگا : اہل نجد كا ايك بڑا بوڑھا ہوں، مجھے تمہارے اراداے كى اطلاع ملى تو ميں نے چاہا كہ تمہارى ميٹنگ ميں شركت كروں اور اپنا نظريہ اور خير خواہى كى رائے پيش كرنے ميں دريغ نہ كروں _

كہنے لگے : بہت اچھا اندر آجايئے _

اس طرح وہ بھي'' دارالندوة''ميں داخل ہوگيا _

حاضرين ميں سے ايك نے ان كى طرف رخ كيا اور ( پيغمبر اسلام (ص) كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ) كہا : اس شخص كے بارے ميں كوئي سوچ بچار كرو ، كيونكہ بخدا ڈر ہے كہ وہ تم پر كامياب ہوجائے ( اور تمہارے دين اور تمہارى عظمت كو خاك ميں ملادے گا )


(1)سورہ انفال ايت 30 كے ذيل ميں واقعہ ہجرت بيان ہوا ہے

ايك نے تجويز پيش كى : اسے قيد كردو يہاں تك كے زندان ہى ميں مرجائے _

بوڑھے نجدى نے اس تجويز پراعتراض كيا اور كہا : اس ميں خطرہ يہ ہے كہ اس كے طرف دار ٹوٹ پڑيں اور كسى مناسب وقت اسے قيد خانے سے چھڑا كر اس سرزمين سے باہر لے جائيں لہذا كوئي اور بنيادى بات كرو _

ايك اورشخص نے كہا: اسے اپنے شہرسے نكال دو تاكہ تمہيں اس سے چھٹكارامل جائے كيونكہ جب وہ تمہارے درميان سے چلا جائے گا تو پھر جو كچھ بھى كرتا پھرے تمہيںكوئي نقصان نہيں پہنچا سكتا اور پھر وہ دوسروں ہى سے سروكار ركھے گا _

اس بوڑھے نجدى نے كہا : واللہ يہ نظريہ بھى صحيح نہيں ہے ، كہا تم اس كى شيريں بيانى ،قدرت زبان اور لوگوں كے دلوں ميں اس كے نفوذ نہيں ديكھتے؟ اگر ايسا كروگے تو وہ تمام دنيائے عرب كے پاس جائے گا اور وہ اس كے گرد جمع ہوجائيں گے اور پھر وہ ايك انبوہ كثير كے ساتھ تمہارى طرف پلٹے گا اور تمہيں تمہارے شہروں سے نكال باہر كرے گا اور بڑوں كو قتل كردےگا _

مجمع نے كہا بخدا يہ سچ كہہ رہاہے كوئي اور تجويزسو چو_

ابوجہل كى رائے

ابوجہل ابھى تك خاموش بيٹھا تھا ، اس نے گفتگو شروع كى اور كہا : ميرا ايك نظريہ ہے اور اس كے علاوہ ميں كسى رائے كو صحيح نہيں سمجھتا _

حاضرين كہنے لگے :وہ كيا ہے ؟

كہنے لگا : ہم ہر قبيلے سے ايك بہادر شمشير زن كا انتخاب كريں اور ان ميں سے ہر ايك ہاتھ ميں ايك تيز تلوار دے ديديں اور پھر وہ سب مل كر موقع پاتے ہى اس پر حملہ كريں جب وہ اس صورت ميں قتل ہوگا تو اس كا خون تمام قبائل ميں بٹ جائے گا اور ميں نہيں سمجھتا كہ بنى ہاشم تمام قبائل قريش سے لڑسكيں گے لہذا مجبورا اس

صورت ميں خون بہا پر راضى ہوجائيں گے اور يوں ہم بھى اس كے آزار سے نجات پاليں گے_

بوڑھے نجدى نے (خوش ہوكر ) كہا: بخدا : صحيح رائے يہى ہے جو اس جواں مرد نے پيش كى ہے ميرا بھى اس كے علاوہ كوئي نظريہ نہيں _

اس طرح يہ تجويز اتفاق رائے سے پاس ہوگئي اور وہ يہى مصمم ارادہ لے كروہاںسے اٹھے _

حضرت على عليہ السلام نے اپنى جان كو بيچ ڈالي

جبرئيل نازل ہوئے اور پيغمبر اسلام (ص) كو حكم ملا كہ وہ رات كو اپنے بستر پر نہ سوئيں ،پيغمبر اكرم (ص) رات كو غار ثور كى طرف روانہ ہوگئے اور حكم دے گئے كہ على آپ كے بستر پر سوجائيں (تاكہ جو لوگ دروازے كى درازسے بستر پيغمبر (ص) پر نظر ركھے ہوئے ہيں انہيں بستر پر سويا ہوا سمجھيں اور آپ كو خطرے كے علاقہ سے دور نكل جانے كى مہلت مل جائے )_

اہل سنت كے مشہور مفسر ثعلبى كہتے ہيں كہ جب پيغمبراسلام (ص) نے ہجرت كرنے كا پختہ ارادہ كرليا تو اپنے قرضوں كى ادائيگى اور موجود امانتوں كى واپسى كے لئے حضرت على عليہ السلام كو اپنى جگہ مقرر كيا اور جس رات آپ غار ثور كى طرف جانا چاہتے تھے اس رات مشركين آپ پر حملہ كرنے كے لئے آپ كے گھر كا چاروں طرف سے محاصرہ كئے ہوے تھے، آپ نے حضرت على عليہ السلام كو حكم ديا كہ وہ آپ كے بستر پر ليٹ جائيں ، اپنى مخصوص سبز رنگ كى چادر انہيں اوڑھنے كو دى ، اس وقت خدا وند عالم نے جبرائيل اور ميكائيل پر وحى كى كہ ميں نے تم دونوں كے درميان بھائي چارہ اور اخوت قائم كى ہے اور تم ميں سے ايك كى عمر كو زيادہ مقرر كيا ہے تم ميں سے كون ہے جو ايثار كرتے ہوئے دوسرے كى زندگى كو اپنى حيات پر ترجيح دے ان ميں سے كوئي بھى اس كے لئے تيار نہ ہوا تو ان پروحى ہوئي كہ اس وقت على ميرے پيغمبر كے بستر پر سويا ہوا ہے اور وہ تيار ہے كہ اپنى جان ان پر قربان كردے، زمين پرجائو اور اس كے محافظ ونگہبان بن جائو ،جب جبرئيل ،حضرت على عليہ السلام كے سرہانے آئے اور ميكائيل پائوں كى طرف بيٹھے تو جبرئيل كہہ رہے تھے: سبحان اللہ، صدآفرين آپ پر اے على عليہ السلام كہ خدا آپ كے ذريعے فرشتوں پر فخر ومباہات كررہاہے ،اس موقع پر آيت نازل

ہوئي ''كچھ لوگ اپنى جان خدا كى خوشنودى كے بدلے بيچ ديتے ہيں اور خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے'' اور اسى بناء پروہ تاريخى رات '' ليلة المبيت''(شب ہجرت) كے نام سے مشہور ہوگئي _

ابن عباس كہتے ہيں :جب پيغمبر (ص) مشركين سے چھپ كر ابوبكر كے ساتھ غار كى طرف جارہے تھے يہ ايت على عليہ السلام كے بارے ميں نازل ہوئي جو اس وقت بستر رسول (ص) پر سوئے ہوئے تھے _

ابوجعفر اسكافى كہتے ہيں :جيسے ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ، جلد 3 ص 270 پر لكھا ہے :

پيغمبر (ص) كے بستر پر حضرت على عليہ السلام كے سونے كا واقعہ تو اتر سے ثابت ہے اور اس كا انكار غير مسلموں اور كم ذہن لوگوں كے علاوہ كوئي نہيں كرتا (1)

جب صبح ہوئي تومشركين گھر ميں گھس آئے _ انہوں نے جستجو كى تو حضرت على عليہ السلام كو پيغمبر(ص) كى جگہ پر ديكھا _ اس طرح سے خدا نے ان كى سازش كو نقش برآب كرديا _

وہ پكارے: محمد كہاں ہے ؟

آپ نے جواب ديا : ميں نہيں جانتا _

وہ آپ كے پائوں كے نشانوں پر چل پڑے يہاں تك كہ غار كے پاس پہنچ گئے ليكن (انہوں نے تعجب سے ديكھا كہ مكڑى نے غار كے سامنے جالاتن ركھاہے ايك نے دوسرے سے كہا كہ اگر وہ اس غار ميں ہوتے تو غاركے دہانے پر مكڑى كا جالا نہ ہوتا ، اس طرح وہ واپس چلے گئے )

پيغمبر (ص) تين دن تك غار كے اندر رہے ( اور جب دشمن مكہ كے تمام بيابانوں ميں آپ كو تلاش كرچكے اور تھك ہار كرمايوس پلٹ گئے تو آپ مدينہ كى طرف چل پڑے )_


(1)الغدير، جلد 2 ص45 پر ہے كہ غزالى نے احياء العلوم ج3 ص 238 پر، صفورى نے نزہتہ المجالس ج2 ،ص 209 پر، ابن صباغ مالكى نے فصول المہمہ، ميں سبط ابن جوزى نے تذكرہ الخواص ص 21 پر ، امام احمد نے مسندج ا ص 348 پر، تاريخ طبرى جلد 2 ص99 پر، سيرة ابن ہشام ج 2، ص 291 پر، سيرة حلبى ج 1 ص 29 پر، تاريخى يعقوبى ج2 ص 29 پرليلة المبيت كے واقعہ كو نقل كيا ہے

قبلہ كى تبديلي

بعثت كے بعد تيرہ سال تك مكہ ميں اور چند ماہ تك مدينہ ميں پيغمبر اسلام (ص) حكم خدا سے بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے رہے ليكن اس كے بعد قبلہ بدل گيا اور مسلمانوں كو حكم ديا گيا كہ وہ مكہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں_

مدينہ ميں كتنے ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھى جاتى رہي؟ اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے، يہ مدت سات ماہ سے لے كر سترہ ماہ تك بيان كى گئي ہے ليكن يہ جتنا عرصہ بھى تھا اس دوران يہودى مسلمانوں كو طعنہ زنى كرتے رہے كيونكہ بيت المقدس دراصل يہوديوں كا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے كہتے تھے كہ ان كا اپنا كوئي قبلہ نہيں بلكہ ہمارے قبلہ كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے ہيں اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہم حق پر ہيں _

يہ باتيں پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كے لئے ناگوار تھيں ايك طرف وہ فرمان الہى كے مطيع تھے اور دوسرى طرف يہوديوں كے طعنے ختم نہ ہوتے تھے، اسى لئے پيغمبر اكرم (ص) آسمان كى طرف ديكھتے تھے گويا وحى الہى كے منتظر تھے_

پيغمبر اكرم (ص) كا خانہ كعبہ سے خاص لگائو

پيغمبر اكرم (ص) خصوصيت سے چاہتے تھے كہ قبلہ، كعبہ كى طرف تبديل ہوجائے اور آپ انتظار

ميں رہتے تھے كہ خدا كى طرف سے اس سلسلہ ميں كوئي حكم نازل ہو، اس كى وجہ شايد يہ تھى كہ آنحضرت (ص) كو حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان كے آثار سے عشق تھا، علاوہ از ايں كعبہ توحيد كا قديم ترين مركز تھا، آپ(ص) جانتے تھے كہ بيت المقدس تو وقتى قبلہ ہے ليكن آپ كى خواہش تھى كہ حقيقى و آخرى قبلہ جلد معين ہوجائے_

آپ چونكہ حكم خدا كے سامنے سر تسليم خم تھے،پس اپ يہ تقاضا زبان تك نہ لاتے صرف منتظر نگاہيں آسمان كى طرف لگائے ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ آپ كو كعبہ سے كس قدر عشق اور لگائو تھا_

اس انتظار ميں ايك عرصہ گذرگيا يہاں تك كہ قبلہ كى تبديلى كا حكم صادر ہوا ايك روز مسجد ''بنى سالم'' ميں پيغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے دوركعتيں پڑھ چكے تھے كہ جبرئيل كو حكم ہوا كہ پيغمبر كا بازو تھام كر ان كارخ انور كعبہ كى طرف پھيرديں_

مسلمانوں نے بھى فوراً اپنى صفوں كا رخ بدل ليا،يہاں تك كہ ايك روايت ميں منقول ہے كہ عورتوں نے اپنى جگہ مردوں كو دى اور مردوں نے اپنے جگہ عورتوں كو ديدى ،(توجہ رہے كہ بيت المقدس شمالى سمت ميں تھا ،اور خانہ كعبہ جنوبى سمت ميں تھا_)

اس واقعے سے يہودى بہت پريشان ہوئے اور اپنے پرانے طريقہ كے مطابق ،ڈھٹائي، بہانہ سازى اور طعنہ بازى كا مظاہرہ كرنے لگے پہلے تو كہتے تھے كہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہيں كيونكہ ان كا كوئي اپنا قبلہ نہيں، يہ ہمارے پيروكار ہيں ليكن جب خدا كى طرف سے قبلہ كى تبديلى كا حكم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض درازكى چنانچہ قرآن كہتا ہے_

''بہت جلد كم عقل لوك كہيں گے ان (مسلمانوں) كو كس چيز نے اس قبلہ سے پھيرديا جس پر وہ پہلے تھے''_(1)

مسلمانوںنے اس سے كيوں اعراض كيا ہے جو گذشتہ زمانہ ميںانبيائے ماسلف كا قبلہ رہا ہے، اگر


(1) سورہ بقرہ آيت 142

پہلا قبلہ صحيح تھا تو اس تبديلى كا كيا مقصد،اور اگر دوسرا صحيح ہے تو پھرتير ہ سال اور پندرہ ماہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے كيوں نماز پڑھتے رہے ہيں_؟

چنانچہ خدا وند عالم نے اپنے پيغمبر كو حكم ديا:

''ان سے كہہ دو عالم كے مشرق ومغرب اللہ كے لئے ہيں وہ جسے چاہتا ہے سيدھے راستے كى ہدايت كرتا ہے''_ (1)

تبديلى قبلہ كا راز

بيت المقدس سے خانہ كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى ان سب كے لئے اعتراض كا موجب بنى جن كا گمان تھا كہ ہر حكم كو مستقل رہنا چاہئے تھااگر ہمارے لئے ضرورى تھا كہ كعبہ كى طرف نماز پڑھيں تو پہلے دن يہ حكم كيوں نہ ديا گيا اور اگر بيت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبياء كا بھى قبلہ شمار ہوتا ہے توپھراسے كيوں بدلاگيا_؟

دشمنوں كے ہاتھ بھى طعنہ زنى كا موقع آگيا، شايد وہ كہتے تھے كہ پہلے تو انبياء ماسبق كے قبلہ كى طرف نماز پڑھتا تھا ليكن كاميابيوں كے بعد اس پر قبيلہ پرستى نے غلبہ كرليا ہے لہذا اپنى قوم اور قبيلے كے قبلہ كى طرف پلٹ گيا ہے ياكہتے تھے كہ اس نے دھوكا دينے اور يہودو نصارى كى توجہ اپنى طرف مبذول كرنے كے لئے پہلے بيت المقدس كو قبول كرليا اور جب يہ بات كار گرنہ ہوسكى تو اب كعبہ كى طرف رخ كرليا ہے _

واضح ہے كہ ايسے وسوسے اور وہ بھى ايسے معاشرے ميں جہاں ابھى نور علم نہ پھيلا ہو اور جہاں شرك وبت پرستى كى رسميں موجود ہوں كيسا تذبذب واضطراب پيدا كرديتے ہيں اسى لئے قرآن صراحت سے كہتا ہے كہ'' يہ مومنين اورمشركين ميں امتياز پيدا كرنے والى ايك عظيم آزمائشے تھي''_(2)

ممكن ہے كہ قبلہ كى تبديلى كے اہم اسباب ميں سے درج ذيل مسئلہ بھى ہو خانہ كعبہ اس وقت


(1)سورہ بقرہ آيت142

(2)سورہ بقرہ ايت 143

مشركين كے بتوں كامركز بنا ہوا تھا لہذا حكم ديا گيا كہ مسلمان وقتى طور پر بيت المقدس كى طرف رخ كركے نمازپڑھ ليا كريں تاكہ اس طرح مشركين سے اپنى صفيں الگ كرسكيں_

ليكن جب مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد اسلامى حكومت وملت كى تشكيل ہوگئي اور مسلمانوں كى صفيں دوسروں سے مكمل طور پر ممتاز ہوگئيں تو اب يہ كيفيت برقرار ركھنا ضرورى نہ رہا ،لہذا اس وقت كعبہ كى طرف رخ كرليا گيا جو قديم ترين مركز توحيد اور انبياء كا بہت پرانا مركز تھا _

ايسے ميں ظاہر ہے كہ جو كعبہ كو اپنا خاندانى معنوى اور روحانى سرمايہ سمجھتے تھے بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ان كے لئے مشكل تھا اور اسى طرح بيت المقدس كے بعد كعبہ كى طرف پلٹنا، لہذا اس ميں مسلمانوں كى سخت آزمائشے تھى تاكہ شرك كے جتنے آثار ان ميں باقى رہ گئے تھے اس كٹھالى ميں پڑكر جل جائيں اور ان كے گذشتہ شرك آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائيں_

جيسا كہ ہم پہلے كہہ چكے ہيں اصولى طور پر تو خدا كے لئے مكان نہيں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں ميں اتحاد كا ايك رمزہے اور اس كى تبديلى كسى چيز كود گرگوں نہيں كرسكتى ، اہم ترين امر تو خدا كے حكم كے سامنے سر تسليم خم كرنا ہے اور تعصب اورہٹ دھرمى كے بتوں كو توڑناہے _

* * * * *

جنگ بدر(1)

جنگ بدركى ابتداء يہاں سے ہوئي كہ مكہ والوں كا ايك اہم تجارتى قافلہ شام سے مكہ كى طرف واپس جارہا تھا اس قافلے كو مدينہ كى طرف سے گزرنا تھا اہل مكہ كا سردار ابوسفيان قافلہ كا سالار تھا اس كے پاس ہزار دينار كا مال تجارت تھا پيغمبر اسلام نے اپنے اصحاب كو اس عظيم قافلے كى طرف تيزى سے كوچ كا حكم ديا كہ جس كے پاس دشمن كا ايك بڑا سرمايہ تھا تاكہ اس سرمائے كو ضبط كركے دشمن كى اقتصادى قوت كو سخت ضرب لگائي جائے تاكہ اس كا نقصان دشمن كى فوج كو پہنچے _(2)


(1)واقعہ جنگ بدر سورہ انفال آيات 5 تا 18كے ذيل ميں بيان ہوئي ہے _

(2)پيغمبراور ان كے اصحاب ايسا كرنے كا حق ركھتے تھے كيونكہ مسلمان مكہ سے مدينہ كى طرف ہجرت كركے آئے تو اہل مكہ نے ان كے بہت سے اموال پر قبضہ كرليا تھا جس سے مسلمانوں كو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہذا وہ حق ركھتے تھے كہ اس نقصان كى تلافى كريں _اس سے قطع نظر بھى اہل مكہ نے گذشتہ تيرہ برس ميں پيغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں سے جو سلوك رواركھا اس سے بات ثابت ہوچكى تھى وہ مسلمانوں كو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے كے لئے كوئي موقع ہاتھ سے نہيں گنوائيں گے يہاں تك كہ وہ خودپيغمبر اكرم (ص) كو قتل كرنے پر تل گئے تھے ايسا دشمن پيغمبر اكرم (ص) كے ہجرت مدينہ كى وجہ سے بے كار نہيں بيٹھ سكتا تھا واضح تھا كہ وہ قاطع ترين ضرب لگانے كے لئے اپنى قوت مجتمع كرتا پس عقل ومنطق كا تقاضا تھا كہ پيش بندى كے طورپر ان كے تجارتى قافلے كو گھير كر اس كے اتنے بڑے سرمائے كو ضبط كرليا جاتا تاكہ اس پر ضرب پڑے اور اپنى فوجى اور اقتصادى بنياد مضبوط كى جاتى ايسے اقدامات آج بھى اور گذشتہ ادوار ميں بھى عام دنيا ميں فوجى طريق كار كا حصہ رہے ہيں ،جولوگ ان پہلوئوں كو نظر اندازكركے قافلے كى طرف پيغمبر كى پيش قدمى كو ايك طرح كى غارت گرى كے طور پر پيش كرنا چاہتے ہيں ياتو وہ حالات سے آگاہ نہيں اور اسلام كے تاريخى مسائل كى بنيادوں سے بے خبر ہيںاور يا ان كے كچھ مخصوص مقاصد ہيں جن كے تحت وہ واقعات وحقائق كو توڑمروڑكر پيش كرتے ہيں

بہرحال ايك طرف ابوسفيان كو مدينہ ميں اس كے ذريعے اس امر كى اطلاع مل گئي اور دوسرى طرف اس نے اہل مكہ كو صورت حال كى اطلاع كے لئے ايك تيز رفتار قاصد روانہ كرديا كيونكہ شام كى طرف جاتے ہوئے بھى اسے اس تجارتى قافلہ كى راہ ميں ركاوٹ كا انديشہ تھا _

قاصد ،ابوسفيان كى نصيحت كے مطابق اس حالت ميں مكہ ميں داخل ہوا كہ اس نے اپنے اونٹ كى ناك كوچير ديا تھا اس كے كان كاٹ ديئے تھے ، خون ہيجان انگيز طريقہ سے اونٹ سے بہہ رہا تھا ،قاصد نے اپنى قميض كو دونوں طرف سے پھاڑديا تھا اونٹ كى پشت كى طرف منہ كركے بيٹھا ہوا تھا تاكہ لوگوں كو اپنى طرف متوجہ كرسكے ، مكہ ميں داخل ہوتے ہى اس نے چيخنا چلانا شروع كرديا :

اے كا مياب وكامران لوگو اپنے قافلے كى خبر لو، اپنے كارواں كى مدد كرو _ ليكن مجھے اميد نہيں كہ تم وقت پر پہنچ سكو ، محمد اور تمہارے دين سے نكل جانے والے افراد قافلے پر حملے كے لئے نكل چكے ہيں _

اس موقع پر پيغمبر (ص) كى پھوپھى عاتكہ بنت عبدالمطلب كا ايك عجيب وغريب خواب تھا مكہ ميں زبان زد خاص وعام تھا اور لوگوں كے ہيجان ميںاضافہ كرہا تھا _ خواب كا ماجرايہ تھا كہ عاتكہ نے تين روزقبل خواب ميں ديكھاكہ :

ايك شخص پكاررہا ہے كہ لوگو اپنى قتل گاہ كى طرف جلدى چلو، اس كے بعد وہ منادى كوہ ابوقيس كى چوٹى پر چڑھ گيا اس نے پتھر كى ايك بڑى چٹان كو حركت دى تو وہ چٹان ريزہ ريزہ ہوگئي اور اس كا ايك ايك ٹكڑا قريش كے ايك ايك گھرميں جاپڑا اور مكہ كے درے سے خون كا سيلاب جارى ہوگيا _

عاتكہ وحشت زدہ ہوكر خواب سے بيدار ہوئي اور اپنے بھائي عباس كو سنايا _ اس طرح خواب لوگوں تك پہنچاتو وہ وحشت وپريشانى ميں ڈوب گئے _ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا : يہ عورت دوسرا پيغمبر ہے جو اولادعبدالمطلب ميں ظاہر ہوا ہے لات وعزى كى قسم ہم تين دن كى مہلت ديتے ہيں اگر اتنے عرصے ميں اس خواب كى تعبير ظاہر نہ ہوئي تو ہم آپس ميں ايك تحرير لكھ كر اس پر دستخط كريں گے كہ بنى ہاشم قبائل عرب ميں سے سب سے زيادہ جھوٹے ہيں تيسرا دن ہوا تو ابوسفيان كا قاصد آپہنچا ، اس كى پكار نے تمام اہل مكہ كو ہلاكو ركھ ديا_

اور چونكہ تمام اہل مكہ كا اس قافلے ميں حصہ تھا سب فوراً جمع ہوگئے ابوجہل كى كمان ميں ايك لشكر تيار ہوا ، اس ميں 50 9/ جنگجو تھے جن ميں سے بعض انكے بڑے اور مشہور سردار اور بہادر تھے 700/ اونٹ تھے اور 100/ گھوڑے تھے لشكر مدينہ كى طرف روانہ ہوگيا _

دوسرى طرف چونكہ ابو سفيان مسلمانوں سے بچ كر نكلنا چاہتاتھا ،لہذا اس نے راستہ بدل ديا اور مكہ كى طرف روانہ ہو گيا_

313/ وفادار ساتھي

پيغمبر اسلام (ص) 313 /افراد كے ساتھ جن ميں تقريباً تمام مجاہدين اسلام تھے سرزمين بدركے پاس پہنچ گئے تھے يہ مقام مكہ اور مدينہ كے راستے ميں ہے يہاں آپ كو قريش كے لشكر كى روانگى كى خبر ملى اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ كيا كہ كيا ابوسفيان كے قافلہ كا تعاقب كيا جائے اور قافلہ كے مال پر قبضہ كيا جائے يا لشكر كے مقابلے كے لئے تيار ہواجائے؟ ايك گروہ نے دشمن كے لشكر كامقابلہ كرنے كو ترجيح دى جب كہ دوسرے گروہ نے اس تجويز كو ناپسند كيا اور قافلہ كے تعاقب كو ترجيح دى ،ان كى دليل يہ تھى كہ ہم مدينہ سے مكہ كى فوج كا مقابلہ كرنے كے ارادہ سے نہيں نكلے تھے اور ہم نے اس لشكر كے مقابلے كے لئے جنگى تيارى نہيں كى تھى جب كہ وہ ہمارى طرف پورى تيارى سے آرہا ہے _

اس اختلاف رائے اور تردد ميں اس وقت اضافہ ہوگيا جب انہيں معلوم تھاكہ دشمن كى تعداد مسلمانوں سے تقريبا تين گنا ہے اور ان كا سازوسامان بھى مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ ہے، ان تمام باتوں كے باوجود پيغمبر اسلام (ص) نے پہلے گروہ كے نظريے كو پسند فرمايا اور حكم ديا كہ دشمن كى فوج پر حملہ كى تيارى كى جائے _

جب دونوں لشكر آمنے سامنے ہوئے تودشمن كو يقين نہ آيا كہ مسلمان اس قدر كم تعداد اور سازو سامان كے ساتھ ميدان ميں آئے ہوں گے ،ان كا خيال تھا كہ سپاہ اسلام كا اہم حصہ كسى مقام پر چھپاہوا ہے تاكہ وہ غفلت ميں كسى وقت ان پر حملہ كردے لہذا انہوں نے ايك شخص كو تحقيقات كے لئے بھيجا، انہيں جلدى معلوم

ہوگيا كہ مسلمانوں كى جمعيت يہى ہے جسے وہ ديكھ رہے ہيں _

دوسرى طرف جيسا كہ ہم نے كہا ہے مسلمانوںكاايك گروہ وحشت وخوف ميں غرق تھا اس كا اصرار تھا كہ اتنى بڑى فوج جس سے مسلمانوں كا كوئي موازنہ نہيں ، خلاف مصلحت ہے، ليكن پيغمبر اسلام (ص) نے خدا كے وعدہ سے انہيں جوش دلايا اور انہيں جنگ پر اُبھارا، آپ نے فرمايا :كہ خدا نے مجھ سے وعدہ كيا ہے كہ دوگرو ہوں ميں سے ايك پر تمہيں كا ميابى حاصل ہوگى قريش كے قافلہ پر يا لشكر قريش پراور خداكے وعدہ كے خلاف نہيں ہوسكتا _

خدا كى قسم ابوجہل اور كئي سرداران قريش كے لوگوں كى قتل گاہ كو گويا ميں اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہوں _

اس كے بعد آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ بدر كے كنوئيں كے قريب پڑا ئو ڈاليں _

رسول اللہ (ص) نے پہلے سے خواب ميں اس جنگ كا منظر ديكھا تھا، آپ نے د يكھا كہ دشمن كى ايك قليل سى تعداد مسلمانوں كے مقابلہ ميں آئي ہے، يہ در اصل كاميابى كى ايك بشارت تھى آپ نے بعينہ يہ خواب مسلمانوں كے سامنے بيان كرديا، يہ بات مسلمانوں كے ميدان بدر كى طرف پيش روى كے لئے ان كے جذبہ اور عزم كى تقويت كا باعث بني_

البتہ پيغمبر اكرم (ص) نے يہ خواب صحيح ديكھا تھا كيونكہ دشمن كى قوت اور تعداد اگرچہ ظاہراً بہت زيادہ تھى ليكن باطناً كم، ضعيف اور ناتواں تھي، ہم جانتے ہيں كہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبير كا پہلو ركھتے ہيں، اور ايك صحيح خواب ميں كسى مسئلے كا باطنى چہرہ آشكار ہوتا ہے_

قريش كا ايك ہزار كا لشكر

اس ہنگامے ميں ابوسفيان اپنا قافلہ خطرے كے علاقے سے نكال لے گيا _اصل راستے سے ہٹ كردريائے احمر كے ساحل كى طرف سے وہ تيزى سے مكہ پہنچ گيا _ اس كے ايك قاصدكے ذريعے لشكر كو پيغام

بھيجا:

خدانے تمہارا قافلہ بچاليا ہے ميرا خيال ہے كہ ان حالات ميں محمد كامقابلہ كرنا ضرورى نہيں كيونكہ اس كے اتنے دشمن ہيں جو اس كا حساب چكاليں گے _

لشكر كے كمانڈرابوجہل نے اس تجويز كو قبول نہ كيا ، اس نے اپنے بتوں لات اور عزى كى قسم كھائي كہ نہ صرف ان كا مقابلہ كريں گے بلكہ مدينہ كے اندر تك ان كا تعاقب كريں گے يا انہيں قيدكرليں گے اور مكہ ميں لے آئيں گے تاكہ اس كاميابى كا شہرہ تمام قبائل عرب كے كانوں تك پہنچ جائے _ آخر كارلشكر قريش بھى مقام بدر تك آپہنچا، انہوں نے اپنے غلام كوپانى لانے كے لئے كنويں كى طرف بھيجے ،اصحاب پيغمبر نے انہيں پكڑليا اور ان سے حالات معلوم كرنے كے لئے انہيں خدمت پيغمبر (ص) ميں لے آئے حضرت نے ان سے پوچھا تم كون ہو ؟ انہوں نے كہا : ہم قريش كے غلام ہيں ، فرمايا: لشكر كى تعداد كيا ہے ؟ انہوں نے كہا : ہميں اس كا پتہ نہيں، فرمايا : ہرروز كتنے اونٹ كھانے كے لئے نحركرتے ہيں ؟ انہوں نے كہا : نو سے دس تك، فرمايا: ان كى تعداد 9/ سوسے لے كر ايك ہزار تك ہے (ايك اونٹ ايك سو فوجى جوانوںكى خواراك ہے ) _

ماحول پُر ہيبت اور وحشت ناك تھا لشكر قريش كے پاس فراواں جنگى سازوسامان تھا _ يہاں تك كہ حوصلہ بڑھانے كے لئے وہ گانے بجانے والى عورتوں كو بھى ساتھ لائے تھے _ اپنے سامنے ايسے حريف كو ديكھ رہے تھے كہ انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ ان حالات ميں وہ ميدان جنگ ميں قدم ركھے گا_

مسلمانو! فرشتے تمہارى مدد كريں گے

پيغمبر اكرم (ص) ديكھ رہے تھے كہ ممكن ہے آپ كے اصحاب خوف ووحشت كى وجہ سے رات ميں آرام سے سونہ سكيں اور پھر كل دن كو تھكے ہوئے جسم اور روح كے ساتھ دشمن كے مقابل ہوں لہذا خدا كے وعدے كے مطابق ان سے فرمايا:

تمہارى تعداد كم ہوتو اس كا غم نہ كر، آسمانى فرشتوں كى ايك عظيم جماعت تمہارى مدد كے لئے آئے گي، آپ نے انہيں خدائي وعدے كے مطابق اگلے روز فتح كى پورى تسلى دے كر مطمئن كرديا اور وہ رات

آرام سے سوگئے_

دوسرى مشكل جس سے مجاہدين كو پريشانى تھى وہ ميدان بدر كى كيفيت تھى ،ان كى طرف زمين نرم تھى اور اس ميں پائوں دھنس جاتے تھے اسى رات يہ ہوا كہ خوب بارش ہوئي ،اس كے پانى سے مجاہدين نے وضو كيا ، غسل كيا اور تازہ دم ہوگئے ان كے نيچے كى زمين بھى اس سے سخت ہوگئي ،تعجب كى بات يہ ہے كہ دشمن كى طرف اتنى زيادہ بارش ہوئي كہ وہ پريشان ہوگئے _

دشمن كے لشكر گاہ سے مسلمان جاسوسوں كى طرف سے ايك نئي خبر موصول ہوئي اور جلد ہى مسلمانوں ميں پھيل گئي ، خبريہ تھى كہ فوج قريش اپنے ان تمام وسائل كے باوجود خو فزدہ ہے گويا وحشت كا ايك لشكر خدا نے ان كے دلوں كى سرزمين پر اتار ديا تھا ،اگلے روز چھوٹا سا اسلامى لشكر بڑے ولولے كے ساتھ دشمن كے سامنے صف آراء ہوا، پيغمبر اكرم (ص) نے پہلے انہيں صلح كى تجويز پيش كى تاكہ عذر اور بہانہ باقى نہ رہے، آپ نے ايك نمائندے كے ہاتھ پيغام بھيجا كہ ميں نہيں چاہتا كہ تم وہ پہلا گروہ بن جائو كہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ، بعض سردار ان قريش چاہتے تھے يہ صلح كا ہاتھ جوان كى طرف بڑھايا گيا ہے اسے تھام ليں اور صلح كرليں، ليكن پھر ابوجہل مانع ہوا_

next index back