پيغمبر (ص) كے خطوط دنيا كے بادشاہوںكے نام

تاريخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے كہ جب سرزمين حجاز ميںاسلام كافى نفوذ كرچكا تو پيغمبراكرم(ص) نے اس زمانے كے بڑے بڑے حكمرانوں كے نام كئي خطوط روانہ كيے _ ان ميں بعض خطوط ميں كا سہارا ليا گيا ہے ،جس ميں آسما نى اديان كى قدر مشترك كا تذكرہ ہے_

مقوقس(1) كے نام خط

مقوقس مصر كا حاكم تھا پيغمبر اسلام (ص) نے دنيا كے بڑے بڑے بادشاہوں او رحكام كو خطوط لكھے او رانہيں اسلام كى طرف دعوت دي،حاطب بن ابى بلتعہ كو حاكم مصر مقوقس كى طرف يہ خط دے كرروانہ كيا_

بسم اللّہ الرحمن الرحيم

من: محمد بن عبداللّہ

الي: المقوقس عظيم القبط

سلام على من اتبع الھدى ،اما بعد:''فانى ادعوك بدعايةالاسلام

اسلم تسلم،يو تك اللّہ اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم


(1)''مقوقس''(بہ ضم ميم وبہ فتحہ ہردو ''قاف'')''ہرقل ''بادشاہ روم كى طرف سے مصر كا والى تھا_

القبط ، . . . يا اھل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّہ ولا نشرك بہ شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون''_

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے _

از _ _ _ محمد بن عبد اللہ

بطرف_ _ _ قبطيوں كے مقوقس بزرگ _

حق كے پيروكاروں پر سلام ہو_

ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں_ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو قبطيوں كے گناہ تيرے ذمہ ہوں گے __اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں''_

پيغمبر (ص) كا سفير مصر كى طرف روانہ ہوا، اسے اطلاع ملى كہ حاكم مصر اسكندريہ ميں ہے لہذا وہ اس وقت كے ذرائع آمد ورفت كے ذريعے اسكندريہ پہنچا او رمقوقس كے محل ميں گيا، حضرت كا خط اسے ديا ، مقوقس نے خط كھول كر پڑھا كچھ دير تك سوچتا رہا، پھر كہنے لگا:''اگر واقعاً محمد(ص) خدا كا بھيجا ہوا ہے تو اس كے مخالفين اسے اس كى پيدائشے كى جگہ سے باہر نكالنے ميں كيوں كامياب ہوئے او روہ مجبور ہوا كہ مدينہ ميں سكونت اختيار كرے؟ ان پر نفرين او ربد دعا كيوں نہيںكى تاكہ وہ نابود ہو جاتے؟''

پيغمبر (ص) كے قاصد نے جواباً كہا:

''حضرت عيسى عليہ السلام خدا كے رسول تھے اور آپ بھى ان كى حقانيت كى گواہى ديتے ہيں، بنى اسرائيل نے جب ان كے قتل كى سازش كى توآپ نے ان پر نفرين اور بد دعا كيوں نہيں كى تاكہ خدا انہيں

ہلاك كرديتا؟

يہ منطق سن كر مقو قس تحسين كرنے لگا اور كہنے لگا :

''احسنت انت حكيم من عند حكيم ''

''افرين ہے ،تم سمجھ دار ہو اور ايك صاحب حكمت كى طرف سے ائے ہو ''

حاطب نے پھر گفتگو شروع كى اور كہا :

''اپ سے پہلے ايك شخص (يعنى فرعون )اس ملك پر حكومت كرتا تھا ،وہ مدتوں لوگوں ميں اپنى خدائي كا سودا بيچتا رہا ،بالاخر اللہ نے اسے نابود كر ديا تاكہ اس كى زندگى اپ كے لئے باعث عبرت ہو ليكن اپ كوشش كريں كہ اپ كى زندگى دوسروں كے لئے نمونہ بن جائے''_

''پيغمبر (ص) نے ہميں ايك پاكيزہ دين كى طرف دعوت دى ہے ، قريش نے ان سے بہت سخت جنگ كى او ران كے مقابل صف آراء ہوئے، يہودى بھى كينہ پرورى سے ان كے مقابلے ميں آكھڑے ہوئے او راسلام سے زيادہ نزديك عيسائي ہيں _ ''

مجھے اپنى جان كى قسم جيسے حضرت موسى عليہ السلام نے حضرت عيسى عليہ السلام كى نبوت كى بشارت دى تھى اس طرح حضرت عيسى عليہ السلام حضرت محمد كے مبشر تھے ، ہم آپ لوگوں نے تو ريت كے ماننے والوں كو انجيل كى دعوت دى تھى ،جوقوم پيغمبرحق كى دعوت كو سنے اسے چاہئے كہ اس كى پيروى كرے ،ميں نے محمد كى دعوت آپ كى سرزمين تك پہنچادى ہے، مناسب يہى ہے كہ آپ او رمصرى قوم يہ دعوت قبول كر لے''_

حاطب كچھ عرصہ اسكندريہ ہى ميں ٹھہرا تاكہ رسول اللہ (ص) كے خط كا جواب حاصل كرے ،چند روز گزر گئے، ايك دن مقوقس نے حاطب كو اپنے محل ميں بلايا او رخواہش كى كہ اسے اسلام كے بارے ميں كچھ مزيد بتايا جائے_

حاطب نے كہا:

''محمد (ص) ہميں خدانے يكتا ئي پرستش كى دعوت ديتے ہيں او رحكم ديتے ہيں كہ لوگ روزوشب

ميں پانچ مرتبہ اپنے پروردگار سے قريبى رابطہ پيدا كريں او رنماز پڑھيں ،پيمان پورے كريں ،خون او رمردار كھانے سے اجتناب كريں''_

علاوہ ازيں حاطب نے پيغمبر اسلام (ص) كى زندگى كى بعض خصوصيات بھى بيان كيں_

مقوقس كہنے لگا:

''يہ تو بڑى اچھى نشانياں ہيں_ ميرا خيال تھا كہ خاتم النبيين سرزمين شام سے ظہور كريں گے جو انبياء عليہم السلام كى سرزمين ہے،اب مجھ پر واضح ہوا كہ وہ سر زمين حجاز سے مبعوث ہوئے ہيں''_

اس كے بعد اس نے اپنے كاتب كو حكم ديا كہ وہ عربى زبان ميں اس مضمون كا خط تحرير كرے:

بخدمت : محمد بن عبد اللہ _

منجانب: قبطيوں كے بزرگ مقوقس _

''آپ پر سلام ہو،ميںنے آپ كاخط پڑھا ،آپ كے مقصد سے باخبر ہوااو رآپ كى دعوت كى حقيقت كو سمجھ ليا،ميں يہ تو جانتا تھا كہ ايك پيغمبر (ص) ظہور كرے گا ليكن ميرا خيال تھا كہ وہ خطہ شام سے مبعوث ہوگا، ميں آ پ كے قاصد كا احترام كرتا ہوں''_

پھر خط ميں ان ہديوں اور تحفوں كى طرف اشارہ كيا جواس نے آپ كى خدمت ميں بھيجے ،خط اس نے ان الفاظ پر تمام كيا_

''آپ پر سلام ہو''

تاريخ ميں ہے كہ مقوقس نے كوئي گيارہ قسم كے ہديے پيغمبر (ص) كے لئے بھيجے ، تاريخ اسلام ميں ان كى تفصيلات موجود ہيں،ان ميں سے ايك طبيب تھا تاكہ وہ بيما ر ہونے والے مسلمانوں كا علاج كرے، نبى اكرم (ص) نے ديگر ہديئے قبول فرمايائے ليكن طبيب كو قبول نہ كيا او رفرمايا:''ہم ايسے لوگ ہيں كہ جب تك بھوك نہ لگے كھانا نہيں كھاتے او رسير ہونے سے پہلے كھانے سے ہاتھ روك ليتے ہيں، يہى چيز ہمارى صحت و سلامتى كے لئے كافى ہے، شايد صحت كے اس عظيم اصول كے علاوہ پيغمبر اسلام (ص) اس طبيب كى وہاں

موجودگى كو درست نہ سمجھتے ہوں كيونكہ وہ ايك متعصب عيسائي تھا لہذا آپ نہيںچاہتے تھے كہ اپنى او رمسلمانوں كى جان كا معاملہ اس كے سپرد كرديں_

مقوقس نے جو سفير پيغمبر (ص) كا احترام كيا،آپ كے لئے ہديے بھيجے او رخط ميں نام محمد اپنے نام سے مقدم ركھا يہ سب اس بات كى حكايت كرتے ہيں كہ اس نے آپ كى دعوت كو باطن ميں قبول كرليا تھا يا كم از كم اسلام كى طر ف مائل ہوگيا تھا ليكن اس بناء پركہ اس كى حيثيت او روقعت كو نقصان نہ پہنچے ظاہرى طو رپراس نے اسلام كى طرف اپنى رغبت كا اظہار نہ كيا _

قيصر روم كے نام خط

بسم اللّہ الرحمن الرحيم

من:محمد بن عبداللّہ

الي: ہرقل عظيم الرّوم

سلام على من اتبع الھدى

اما بعد:فانى ادعوك بدعايةالاسلام_

اسلم تسلم،يو تك اللّہ اجرك مرتين، فان توليت فانما عليكم اثم القبط،___يا اھل الكتب تعالواالى كلمة سواء بيننا و بينكم'' ان لا نعبد الا اللّہ ولا نشرك بہ شيئاً ولا تتخذ بعضنا بعضاً ارباباً من دون اللّہ ،فان تولوا فقولوا اشھدوا بانا مسلمون''_

اللہ كے نام سے جو بخشنے والا بڑا مہربان ہے_

منجانب: محمدبن عبد اللہ _

بطرف: ہرقل بادشاہ روم_

''اس پر سلام ہے جو ہدايت كى پيروى كرے_ميں تجھے اسلام كى دعوت ديتا ہوں_ اسلام لے آئو تاكہ سالم رہو _ خدا تجھے دوگنا اجر دے گا _ (ايك خود تمہارے ايمان لانے پر اوردوسراان لوگوں كى وجہ سے جو تمہارى پيروى كركے ايمان لائيں گے ) او راگر تو نے قانون اسلام سے روگردانى كى تو اريسوں كا گناہ بھى تيرى گردن پر ہوگا_اے اہل كتاب ہم تمہيں ايك مشترك بنيادكى طرف دعوت ديتے ہيں او روہ يہ كہ ہم خدائے يگانہ كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور كسى كو اس كا شريك قرار نہ ديں حق سے روگردانى نہ كريں تو ان سے كہو كہ گواہ رہو ہم تم مسلمان ہيں''_

قيصر كے پاس نبى اكرم (ص) كا پيغام پہنچانے كے لئے ''دحيہ كلبي'' مامور ہوا سفيرپيغمبر(ص) عازم روم ہوا_

قيصركے دارالحكومت قسطنطنيہ پہنچنے سے پہلے اسے معلوم ہوا كہ قيصربيت المقدس كى زيارت كے ارادے سے قسطنطنيہ چھوڑ چكا ہے، لہذا اس نے بصرى كے گور نر حادث بن ابى شمر سے رابطہ پيداكيا اور اسے اپنامقصد سفر بتايا ظاہراً پيغمبر اكرم (ص) نے بھى اجازت دے ركھى تھى كہ دحيہ وہ خط حاكم بصرى كو ديدے تاكہ وہ اسے قيصرتك پہنچادے سفير پيغمبر (ص) نے گورنر سے رابطہ كيا تو اس نے عدى بن حاتم كو بلايا اور اسے حكم ديا كہ وہ دحيہ كے ساتھ بيت المقدس كى طرف جائے اور خط قيصر تك پہنچا دے مقام حمص ميں سفير كى قيصر سے ملاقات ہوئي ليكن ملاقات سے قبل شاہى دربار كے كاركنوں نے كہا:

''تمہيں قيصر كے سامنے سجدہ كرنا پڑے گا ورنہ وہ تمہارى پرواہ نہيں كرے گا ''

دحيہ ايك سمجھدار آدمى تھا كہنے لگا :

''ميں ان غير مناسب بدعتوں كوختم كرنے كے لئے اتنا سفر كر كے آيا ہوں _ ميں اس مراسلے كے بھيجنے والے كى طرف سے آيا ہوں تا كہ قيصر كو يہ پيغام دوں كہ بشر پرستى كو ختم ہونا چاہئے او رخدا ئے واحد كے سواكسى كى عبادت نہيں ہونى چاہيے ، اس عقيدے كے باوجود كيسے ممكن ہے كہ ميںغير خدا كے لئے سجدہ

كروں''_

پيغمبر (ص) كے قاصد كى قوى منطق سے وہ بہت حيران ہوئے ،درباريوں ميں سے ايك نے كہا:

''تمہيں چاہئے كہ خط بادشاہ كى مخصوص ميز پر ركھ كر چلے جائو، اس ميز پر ركھے ہوئے خط كو قيصر كے علاوہ كوئي نہيں اٹھا سكتا''_

دحيہ نے اس كا شكريہ اداكيا ،خط ميز پر ركھا اورخودواپس چلا گيا،قيصر نے خط كھولا ،خط نے جو''بسم اللہ'' سے شروع ہوتا تھا اسے متوجہ كيا اور كہنے لگا_

''حضرت سليمان عليہ السلام كے خط كے سوا آج تك ميں نے ايسا خط نہيں ديكھا ''

اس نے اپنے مترجم كو بلايا تا كہ وہ خط پڑھے او راس كا ترجمہ كرے ،بادشاہ روم كو خيال ہوا كہ ہو سكتا ہے خط لكھنے والا وہى نبى ہو جس كاوعدہ انجيل او رتوريت ميں كيا گيا ہے، وہ اس جستجو ميں لگ گيا كہ آپ كى زندگى كى خصوصيات معلوم كرے، اس نے حكم ديا كہ شام كے پورے علاقے ميں چھان بين كى جائے،شايد محمد كے رشتہ داروںميں سے كوئي شخص مل جائے جو ان كے حالات سے واقف ہو ،اتفاق سے ابوسفيان او رقريش كا ايك گروہ تجارت كے لئے شام آيا ہوا تھا، شام اس وقت سلطنت روم كامشرقى حصہ تھا، قيصر كے آدميوں نے ان سے رابطہ قائم كيا او رانہيں بيت المقدس لے گئے،قيصر نے ان سے سوال كيا :

كيا تم ميں سے كوئي محمد كا نزديكى رشتہ دار ہے ؟

ابو سفيان نے كہا :

ميںاور محمد ايك ہى خاندان سے ہيں او رہم چوتھى پشت ميں ايك درسرے سے مل جاتے ہيں_

پھرقيصر نے اس سے كچھ سوالات كئے دونوں ميں يوں گفتگو ہوئي''

قيصر: اس كے بزرگوں ميںسے كوئي حكمران ہوا ہے؟

ابوسفيان: نہيں _

قيصر: كيا نبوت كے دعوى سے پہلے وہ جھوٹ بولنے سے اجتناب كرتا تھا؟

ابوسفيان: ہاں محمد راست گو او رسچا انسان ہے_

قيصر: كونسا طبقہ اس كا مخالف ہے اور كونسا موافق؟

ابوسفيان: اشراف اس كے مخالف ہيں، عام او رمتوسط درجے كے لوگ اسے چاہتے ہيں_

قيصر: اس كے پيروكاروں ميں سے كوئي اس كے دين سے پھرا بھى ہے؟

ابوسفيان: نہيں_

قيصر: كيا اس كے پيروكار روز بروز بڑھ رہے ہيں ؟

ابوسفيان:ہاں _

اس كے بعد قيصر نے ابوسفيان او راس كے ساتھيوں سے كہا:

''اگر يہ باتيں سچى ہيں تو پھر يقينا وہ پيغمبر موعود ہيں، مجھے معلوم تھا كہ ايسے پيغمبر كا ظہور ہوگا ليكن مجھے يہ پتہ نہ تھا كہ وہ قريش ميں سے ہوگا، ميں تيار ہوں كہ اس كے لئے خضوع كروں او راحترام كے طور پر اس كے پائوں دھوو ں ،ميں پيش گوئي كرتا ہوں كہ اس كا دين او رحكومت سرزمين روم پر غالب آئے گي''_

پھر قيصر نے دحيہ كو بلايا او راس سے احترام سے پيش آيا، پيغمبر اكرم (ص) كے خط كا جواب لكھا او رآپ كے لئے دحيہ كے ذريعے ہديہ بھيجااورآپ كے نام اپنے خط ميں آپ سے اپنى عقيدت او رتعلق كا اظہار كيا_

يہ بات جاذب نظر ہے كہ جس وقت پيغمبرا كرم (ص) كا قاصد آنحضرت(ص) كا خط لے كر قيصر روم كے پاس پہونچا تو اس نے خصوصيت كے ساتھ آپ كے قاصد كے سامنے اظہار ايمان كيا يہاں تك كہ وہ روميوں كو اس دين توحيد و اسلام كى دعوت دينا چاہتا تھا، اس نے سوچا كہ پہلے ان كى آزمائشے كى جائے، جب اس كى فوج نے محسوس كيا كہ وہ عيسائيت كو ترك كردينا چاہتا ہے تو اس نے اس كے قصر كا محاصرہ كرليا، قيصر نے ان سے فوراً كہا كہ ميں تو تمہيں آزمانا چاہتا تھا اپنى جگہ واپس چلے جائو_

* * * * *

جنگ ذات السلاسل

ہجرت كے آٹھويں سال پيغمبراكرم (ص) كو خبر ملى كہ بارہ ہزار سوار سرزمين ''يابس''ميں جمع ہيں، اور انہوں نے ايك دوسرے كے ساتھ يہ عہد كيا ہے كہ جب تك پيغمبراكرم (ص) او رعلى عليہ السلام كو قتل نہ كرليں او رمسلمانوں كى جماعت كو منتشر نہ كرديں آرام سے نہيں بيٹھيں گے _ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اصحاب كى ايك بہت بڑى جماعت كو بعض صحابہ كى سركردگى ميں ان كى جانب روانہ كيا ليكن وہ كافى گفتگو كے بعد بغير كسى نتيجہ كے واپس آئے_

آخر كار پيغمبر اكرم (ص) نے على عليہ السلام كو مہاجرين وانصار كے ايك گروہ كثير كے ساتھ ان سے جنگ كرنے كے لئے بھيجا، وہ بڑى تيزى كے ساتھ دشمن كے علاقہ كى طرف روانہ ہوئے او ررات بھر ميں سارا سفر طے كر كے صبح دم دشمن كو اپنے محاصرہ ميںلے ليا، پہلے تو ان كے سامنے اسلام كو پيش كيا، جب انہوں نے قبول نہ كيا تو ابھى فضا تاريك ہى تھى كہ ان پر حملہ كرديا اور انہيں درھم برھم كر كے ركھ ديا،ان ميں سے كچھ لوگوں كو قتل كيا ، ان كى عورتوں اور بچوں كو اسير كرليا او ربكثرت مال غنيمت كے طور پر حاصل كيا_

سورہ ''والعاديات''نازل ہوئي حالانكہ ابھى سربازان اسلام مدينہ كى طرف لو ٹ كر نہيں آئے تھے ،پيغمبر خدا (ص) اس دن نماز صبح كے لئے آئے تو اس سورہ كى نماز ميں تلاوت كي،نمازكے بعد صحابہ نے عرض كيا، يہ تو ايسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تك سنا نہيں ہے_ آپ نے فرمايا: ہاں على عليہ السلام دشمنوں پر فتح ياب ہوئے ہيں اور جبرئيل نے گزشتہ رات يہ سورہ لاكر مجھے بشارت دى ہے_ كچھ دن كے بعد على عليہ السلام غنائم او رقيديوں كے ساتھ مدينہ ميں وارد ہوئے_(1)


(1)بعض كا نظريہ يہ ہے كہ يہ واقعہ اس سورہ كے واضح مصاديق ميں سے ايك ہے،يہ اس كا شان نزول نہيں ہے_

جنگ حنين (1)

اس جنگ كى ابتداء يوں ہوئي كہ جب ''ہوازن'' جو بہت بڑا قبيلہ تھا اسے فتح مكہ كى خبر ہوئي تو اس كے سردار مالك بن عوف نے افراد قبيلہ كو جمع كيا او ران سے كہا كہ ممكن ہے فتح مكہ كے بعد محمد ان سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑے ہو، كہنے لگے كہ مصلحت اس ميں ہے كہ اس سے قبل كہ وہ ہم سے جنگ كرے ہميں قدم آگے بڑھا نا چاہئے _

رسول اللہ (ص) كو يہ اطلاع پہونچى تو آپ نے مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ سر زمين ہوازن كى طرف چلنے كو تيار ہو جائيں _

1 ہجرى رمضان المبارك كے آخرى دن تھے يا شوال كا مہينہ تھا كہ قبيلہ ہوازن كے افراد سردار ''مالك بن عوف ''كے پاس جمع ہوئے اور اپنا مال ، اولاد او رعورتيں بھى اپنے ساتھ لے آئے تاكہ مسلمانوں سے جنگ كرتے دقت كسى كے دماغ ميں بھاگنے كا خيال نہ آئے،اسى طرح سے وہ سرزمين ''اوطاس'' ميں وارد ہوئے_

پيغمبر اسلام (ص) نے لشكر كا بڑا علم باندھ كر على عليہ السلام كے ہاتھ ميں ديا او روہ تمام افراد جو فتح مكہ كے موقع پر اسلامى فوج كے كسى دستے كے كمانڈر تھے آنحضرت (ص) كے حكم سے اسى پرچم كے نيچے حنين


(1)ذيل آيات 25 تا 27 سورہ توبہ

كے ميدان كى طرف روانہ ہوئے _

رسول اللہ (ص) كو اطلاع ملى كہ ''صفوان بن اميہ'' كے پاس ايك بڑى مقدار ميں زرہيں ہيں آپ نے كسى كو اس كے پاس بھيجا اور اس سے سو زرہيں عاريتاً طلب كي، صفوان نے پوچھا واقعاً عاريتاً يا غصب كے طور پر _ رسول اللہ (ص) نے فرمايا: عاريتاً ہيں اور ہم ان كے ضامن ہيں كہ صحيح و سالم واپس كريں گے _

صفوان نے زرہيں عاريتاً پيغمبر اكرم (ص) كودےديں اورخود بھى آنحضرت (ص) كے ساتھ چلا _

فوج ميں كچھ ايسے افراد تھے جنہوں نے فتح مكہ كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا، ان كے علاوہ دس ہزار وہ مجاہدين اسلام تھے جو پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ فتح مكہ كے لئے آئے تھے ، يہ تعداد مجموعاً بارہ ہزار بنتى ہے، يہ سب ميدان جنگ كى طرف چل پڑے _

دشمن كے لشكر كا مورچہ

''مالك بن عوف'' ايك مرد جرى او رہمت و حوصلے والا انسان تھا، اس نے اپنے قبيلے كو حكم ديا كہ اپنى تلواروں كے نيام توڑ ڈاليں او رپہاڑ كى غاروں ميں ، دروں كے اطراف ميں او ردرختوں كے درميان لشكر اسلام كے راستے ميں كمين گاہيں بنائيں اور جب اول صبح كى تاريكى ميں مسلمان وہاں پہنچيں تو اچانك اور ايك ہى بار ان پر حملہ كرديں اور اسے فنا كرديں _

اس نے مزيد كہا :محمد كا ابھى تك جنگجو لوگوں سے سامنا نہيں ہوا كہ وہ شكست كا مزہ چكھتا _

رسول اللہ (ص) اپنے اصحاب كے ہمراہ نماز صبح پڑھ چكے تو آپ (ص) نے حكم ديا كہ سر زمين حنين كى طرف چل پڑيں ،اس موقع پر اچانك لشكر'' ہوازن'' نے ہر طرف سے مسلمانوں پرتيروں كى بوچھار كر دي، وہ دستہ جو مقدمہ لشكر ميں تھا (اور جس ميں مكہ كے نئے نئے مسلمان بھى تھے ) بھاگ كھڑا ہوا، اس كے سبب باقى ماندہ لشكر بھى پريشان ہوكر بھاگ كھڑا ہوا _

خداوندمتعال نے اس موقع پر دشمن كے ساتھ انہيں ان كى حالت پر چھوڑ ديا او روقتى طور پر ان كى

نصرت سے ہاتھ اٹھاليا كيونكہ مسلمان اپنى كثرت تعداد پر مغرور تھے، لہذا ان ميں شكست كے آثار اشكار ہوئے، ليكن حضرت على عليہ السلام جو لشكر اسلام كے علمبردار تھے وہ مٹھى بھر افراد سميت دشمن كے مقابلے ميں ڈٹے رہے او راسى طرح جنگ جارى ركھے رہے _

اس وقت پيغمبر اكرم (ص) قلب لشكر ميں تھے، رسول اللہ كے چچا عباس بنى ہاشم كے چند افراد كے ساتھ آپ (ص) كے گرد حلقہ باندھے ہوئے تھے، يہ كل افراد نو سے زيادہ نہ تھے دسويں ام ايمن كے فرزند ايمن تھے، مقدمہ لشكر كے سپاہى فرار كے موقع پر رسول اللہ (ص) كے پاس سے گزرے تو آنحضرت(ص) نے عباس كو جن كى آواز بلند او رزور دار تھى كو حكم ديا كہ اس ٹيلے پر جو قريب ہے چڑھ جائيں او رمسلمانوں كو پكاريں :

''يا معشر المھاجرين والانصار يا اصحاب سورةالبقرة يا اھل بيعت الشجرة الى اين تفرون ھذا رسول اللہ _ ''

اے مہاجرين وانصار اے سورہ بقرہ كے ساتھيو

اے درخت كے نيچے بيعت كرنے والوكہاں بھاگے جارہے ہو؟ رسول اللہ (ص) تو يہاں ہيں _ مسلمانوں نے جب عباس كى آواز سنى تو پلٹ آئے اور كہنے لگے:لبيك لبيك

خصوصاً لوٹ آنے والوںميں انصار نے پيش قدمى كى او رفوج دشمن پر ہر طرف سے سخت حملہ كيا اور نصرت الہى سے پيش قدمى جارى ركھى يہاں تك كہ قبيلہ ہوازن وحشت زدہ ہوكر ہر طرف بكھر گيا، مسلمان ان كا تعاقب كررہے تھے، لشكر دشمن ميں سے تقريباً ايك سو افراد مارے گئے ،ان كے اموال غنيمت كے طور پر مسلمانوںكے ہاتھ لگے او ركچھ ان ميں سے قيدى بنا لئے گئے _

لكھا ہے كہ اس تاريخى واقعہ كے آخر ميں قبيلہ ہوازن كے نمائندے رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے او راسلام قبول كرليا،پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے بہت محبت و الفت فرمائي، يہاںتك كہ ان كے سر براہ مالك بن عوف نے بھى اسلام قبو كر ليا، آپ (ص) نے اس كا مال او رقيدى اسے واپس كرديئےو راس كے قبيلہ كے مسلمانوں كى سردارى بھى اس كے سپرد كردى _

درحققت ابتداء ميں مسلمانوں كى شكست كا اہم عامل غرور و تكبر جو كثرت فوج كى وجہ سے ان ميں پيدا ہوگيا تھا، اسكے علاوہ دو ہزا رنئے مسلمانوں كا وجود تھا جن ميں سے بعض فطرى طور پر منافق تھے ، كچھ ان ميں مال غنيمت كے حصول كے لئے شامل ہوگئے تھے او ربعض بغير كسى مقصد كے ان ميں شامل ہوگئے تھے_

نہائي كاميابى كا سبب حضرت رسول اكرم (ص) ، حضرت على عليہ السلام اور بعض اصحاب كا قيام تھا، اور پہلے والوںكا عہد و پيمان اور خدا پر ايمان اور اس كى مدد پر خاص توجہ باعث بنى كہ مسلمانوں كو اس جنگ ميں كاميابى ملي_

بھاگنے والے كون تھے ؟

اس بات پر تقريباً اتفاق ہے كہ ميدان حنين ميں سے اكثريت ابتداء ميں بھاگ گئي تھي، جو باقى رہ گئے تھے ان كى تعداد ايك روايت كے مطابق دس تھى او ربعض نے تو ان كى تعداد چار بيان كى ہے بعض نے زيادہ سے زيادہ سو افراد لكھے ہيں _

بعض مشہور روايات كے مطابق چونكہ پہلے خلفاء بھى بھاگ جانے والوں ميں سے تھے لہذا بعض اہل سنت مفسرين نے كوشش كى ہے كہ اس فرار كو ايك فطرى چيز كے طور پر پيش كيا جائے _ المنار كے مو لف لكھتے ہيں : ''جب دشمن كى طرف سے مسلمانوں پر تيروں كى سخت بوچھارہوئي توجو لوگ مكہ سے مسلمانوں كے ساتھ مل گئے تھے، اورجن ميں منافقين اورضعيف الايمان بھى تھے اور جو مال غنيمت كے لئے آگئے تھے وہ بھاگ كھڑے ہوئے اور انہوں نے ميدان ميں پشت دكھائي تو باقى لشكر بھى فطرى طور پر مضطرب او رپريشان ہوگيا وہ بھى معمول كے مطابق نہ كہ خوف و ہراس سے ،بھاگ كھڑے ہوئے اوريہ ايك فطرى بات ہے كہ اگر ايك گروہ فرار ہو جائے تو باقى بھى بے سوچے سمجھے متزلزل ہو جاتے ہيں، لہذا ان كا فرار ہونا پيغمبر (ص) كى مدد ترك كرنے او رانہيں دشمن كے ہاتھ ميں چھوڑ جانے كے طور پر نہيں تھا كہ وہ خداكے غضب كے مستحق ہوں، ہم اس بات كى تشريح نہيں كرتے او راس كا فيصلہ پڑھنے والوں پر چھوڑتے ہيں ''_

* * * * *

جنگ تبوك

''تبوك''(1)كا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جہاں پيغمبر (ص) نے اپنى جنگوں ميں پيش قدمى كى _ ''تبوك''اصل ميںايك محكم اور بلند قلعہ كا نام تھا _ جو حجاز او رشام كى سرحد پر واقع تھا اسى وجہ سے اس علاقے كو سر زمين تبوك كہتے تھے _

جزيرہ نمائے عرب ميں اسلام كے تيز رفتار نفوذ كى وجہ سے رسول اللہ (ص) كى شہرت اطراف كے تمام ممالك ميں گونجنے لگى باوجود يہ كہ وہ اس وقت حجازكى اہميت كے قائل نہيں تھے ليكن طلوع اسلام اور لشكر اسلام كى طاقت كہ جس نے حجاز كو ايك پرچم تلے جمع كرليا، نے انھيں اپنے مستقبل كے بارے ميں تشويش ميں ڈال ديا _

مشرقى روم كى سرحد حجاز سے ملتى تھى اس حكومت كو خيال ہوا كہ كہيں اسلام كى تيز رفتار ترقى كى وہ پہلى قربانى نہ بن جائے لہذا اس نے چاليس ہزار كى زبردست مسلح فوج جو اس وقت كى روم جيسى طاقتور حكومت كے شايان شان تھي' اكھٹى كى اور اسے حجاز كى سرحد پر لاكھڑا كيا يہ خبر مسافروں كے ذريعے پيغمبر اكرم (ص) كے كانوں تك پہنچى رسول اللہ (ص) نے روم اور ديگر ہمسايوں كودرس عبرت دينے كے لئے توقف كئے بغير تيارى كا حكم صادر فرماياآپ كے مناديوںنے مدينہ اور دوسرے علاقوں تك آپ(ص) كا پيغام پہنچايا تھوڑے ہى عرصہ


(1) واقعہ جنگ تبوك سورہ توبہ آيت 117 كے ذيل ميں بيان ہوا ہے

ميں تيس ہزار افراد روميوں سے جنگ كرنے كے لئے تيار ہوگئے ان ميں دس ہزار سوار اور بيس ہزار پيادہ تھے _

موسم بہت گرم تھا، غلے كے گودام خالى تھے اس سال كى فصل ابھى اٹھائي نہيں گئي تھى ان حالات ميں سفر كرنا مسلمانوں كے لئے بہت ہى مشكل تھا ليكن چونكہ خدا اور رسول كافرمان تھا لہذا ہر حالت ميں سفر كرنا تھا اور مدينہ اور تبوك كے درميان پرُ خطر طويل صحرا كو عبور كرنا تھا _

لشكر ى مشكلات

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ ''جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر ) كے نام سے مشہور ہوا _

تاريخ اسلام نشاندہى كرتى ہے كہ مسلمان كبھى بھى جنگ تبوك كے موقع كى طرح مشكل صورت حال، دبائو اور زحمت ميں مبتلا نہيں ہوئے تھے كيونكہ ايك تو سفر سخت گرمى كے عالم ميں تھا دوسرا خشك سالى نے لوگوں كو تنگ اور ملول كرركھا تھا اور تيسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے كے دن تھے اور اسى پر لوگوں كى سال بھر كى آمدنى كا انحصار تھا_

ان تمام چيزوں كے علاوہ مدينہ اور تبوك كے درميان بہت زيادہ فاصلہ تھا اور مشرقى روم كى سلطنت كا انھيں سامنا تھا جو اس وقت كى سپر پاور تھي_

مزيد برآں سوارياں اور رسد مسلمانوں كے پاس اتنا كم تھا كہ بعض اوقات دوافراد مجبور ہوتے تھے كہ ايك ہى سوارى پربارى بارى سفر كريں بعض پيدل چلنے والوں كے پاس جوتاتك نہيںتھا اور وہ مجبور تھے كہ وہ بيابان كى جلانے والى ريت پرپا برہنہ چليں آب وغذا كى كمى كا يہ عالم تھا كہ بغض اوقات خرمہ كا ايك دانہ چند آدمى يكے بعد ديگرے منہ ميں ركھ كر چوستے تھے يہاں تك كہ اس كى صرف گٹھلى رہ جاتى پانى كا ايك گھونٹ كبھى چند آدميوں كو مل كر پينا پڑتا _

يہ واقعہ نوہجرى يعنى فتح مكہ سے تقريبا ايك سال بعد رونماہوا _مقابلہ چونكہ اس وقت كى ايك عالمى سوپر طاقت سے تھا نہ كہ عرب كے كسى چھوٹے بڑے گروہ سے لہذا بعض مسلمان اس جنگ ميں شركت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال ميں منافقين كے زہريلے پر وپيگنڈے اور وسوسوں كے لئے ماحول بالكل ساز گار تھا اور وہ بھى مومنين كے دلوں اور جذبات كوكمزور كرنے ميں كوئي دقيقہ فروگذاشت نہيں كررہے تھے _

پھل اتارنے اور فصل كاٹنے كا موسم تھا جن لوگوں كى زندگى تھوڑى سى كھيتى باڑى اور كچھ جانور پالنے پر بسر ہوتى تھى يہ ان كى قسمت كے اہم دن شمار ہوتے تھے كيونكہ ان كى سال بھر كى گزر بسر انہيں چيزوں سے وابستہ تھےں_

جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں مسافت كى دورى اور موسم كى گرمى بھى روكنے والے عوامل كى مزيد مدد كرتى تھى اس موقع پر آسمانى وحى لوگوں كى مدد كے لئے آپہنچى اور قرآنى آيات يكے بعد ديگر ے نازل ہوئيں اور ان منفى عوامل كے سامنے آكھڑى ہوئيں_

تشويق ، سرزنش، اور دھمكى كى زبان

قرآن جس قدر ہوسكتى ہے اتنى سختى اور شدت سے جہاد كى دعوت دتياہے _ كبھى تشويق كى زبان سے كبھى سرزنش كے لہجے ميں اوركبھى دھمكى كى زبان ميں ان سے بات كرتا ہے،اور انہيںآمادہ كرنے كے لئے ہر ممكن راستہ اختيار كرتا ہے_ پہلے كہتا ہے:'' كہ خدا كى راہ ميں ،ميدان جہاد كى طرف حركت كرو تو تم سستى كا مظاہرہ كرتے ہو اور بوجھل پن دكھاتے ہو ''_(1)

اس كے بعد ملامت آميز لہجے ميں قرآن كہتا ہے : ''آخرت كى وسيع اور دائمى زندگى كى بجائے اس دنياوى پست اور ناپائيدار زندگى پر راضى ہوگئے ہو حالانكہ دنياوى زندگى كے فوائد اور مال ومتاع آخرت كى زندگى كے مقابلے ميں كوئي حيثيت نہيں ركھتے اور بہت ہى كم ہيں ''_(2)


(1)سورہ توبہ آيت 38

(2)سورہ توبہ آيت 38

ايك عقلمند انسان ايسے گھاٹے كے سودے پر كيسے تيار ہوسكتا ہے اور كيونكہ وہ ايك نہايت گراں بہامتاع اور سرمايہ چھوڑكر ايك ناچيز اور بے وقعت متاع كى طرف جاسكتاہے _

اس كے بعد ملامت كے بجائے ايك حقيقى تہديد كا اندازاختيار كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے :'' اگر تم ميدان جنگ كى طرف حركت نہيں كرو گے تو خدا دردناك عذاب كے ذريعے تمہيں سزادے گا''_ (1)

''اور اگر تم گمان كرتے ہو كہ تمہارے كنارہ كش ہونے اور ميدان جہاد سے پشت پھيرنے سے اسلام كى پيش رفت رك جائے گى اور آئينہ الہى كى چمك ماند پڑجائے گى تو تم سخت اشتباہ ميں ہو ،كيونكہ خدا تمہارے بجائے ايسے صاحبان ايمان كو لے آئے گا جو عزم مصمم ركھتے ہوں گے اور فرمان خدا كے مطيع ہوں گے''_ (2)

وہ لوگ كہ جو ہر لحاظ سے تم سے مختلف ہيں نہ صرف ان كى شخصيت بلكہ انكا ايمان، ارادہ،دليرى اور فرماں بردارى بھى تم سے مختلف ہے لہذا '' اس طرح تم خدا اور اس كے پاكيزہ دين كو كوئي نقصان نہيں پہنچا سكتے'' _(3)

تنہاوہ جنگ جس ميں حضرت على نے شركت نہ كي

اس لشكر كو چونكہ اقتصادى طور پر بہت زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اس كا راستہ بھى طولانى تھا راستے ميں جلانے والى زہريلى ہوائيں چلتى تھيں سنگريزے اڑتے تھے اور جھكّڑچلتے تھے سوارياں بھى كافى نہ تھيں اس لئے يہ'' جيش العسرة'' (يعنى سختيوں والا لشكر )كے نام سے مشہور ہوا اس نے تمام سختيوں كو جھيلا اور ماہ شعبان كى ابتداء ميں ہجرت كے نويں سال سرزمين ''تبوك'' ميں پہنچا جب كہ رسول اللہ حضرت على كو اپنى جگہ پر مدينہ ميں چھوڑآئے تھے يہ واحد غزوہ ہے جس ميں حضرت على عليہ السلام شريك نہيں ہوئے _

رسول اللہ كايہ اقدام بہت ہى مناسب اور ضرورى تھا كيونكہ بہت احتمال تھا كہ بعض پيچھے رہنے


(1) سورہ توبہ آيت 39

(2)سورہ توبہ آيت 39

(3)سور ہ توبہ آيت 39

والے مشركين يامنا فقين جو حيلوں بہانوں سے ميدان تبوك ميں شريك نہ ہوئے تھے، رسول اللہ اور ان كى فوج كى طويل غيبت سے فائدہ اٹھائيں اور مدينہ پر حملہ كرديں، عورتوں اور بچوں كو قتل كرديں اور مدينہ كو تاراج كرديں ليكن حضرت على كا مدينہ ميں رہ جانا ان كى سازشوں كے مقابلے ميں ايك طاقتور ركاوٹ تھى _

بہرحال جب رسول اللہ تبوك ميں پہنچے تو وہاں آپ كو رومى فوج كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا عظيم سپاہ اسلام چونكہ كئي جنگوں ميں اپنى عجيب وغريب جرا ت وشجاعت كا مظاہرہ كرچكى تھي، جب ان كے آنے كى كچھ خبر روميوں كے كانوں تك پہنچى تو انھوں نے اسى كو بہتر سمجھا كہ اپنے ملك كے اندرچلے جائيں اور اس طرح سے ظاہر كريں كہ مدينہ پر حملہ كرنے كے لئے لشكر روم كى سرحدوں پر جمع ہونے كى خبر ايك بے بنياد افواہ سے زيادہ كچھ نہ تھى كيونكہ وہ ايك ايسى خطرناك جنگ شروع كرنے سے ڈرتے تھے جس كا جواز بھى ان كے پاس كوئي نہ تھا ليكن لشكر اسلام كے اس طرح سے تيز رفتارى سے ميدان تبوك ميں پہنچنے نے دشمنان اسلام كو كئي درس سكھائے، مثلاً:

1_يہ بات ثابت ہوگئي كہ مجاہدين اسلام كا جذبہ جہاد اس قدر قوى ہے كہ وہ اس زمانے كى نہايت طاقت ور فوج سے بھى نہيں ڈرتے_

2_ بہت سے قبائل اور اطراف تبوك كے امراء پيغمبر اسلام (ص) كى خدمت ميں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ كرنے كے عہدوپيمان پر دستخط كيے اس طرح مسلمان ان كى طرف سے آسودہ خاطر ہوگئے _

3_ اسلام كى لہريں سلطنت روم كى سرحدوں كے اندر تك چلى گئيں اور اس وقت كے ايك اہم واقعہ كے طور پر اس كى آواز ہر جگہ گونجى اور روميوں كے اسلام كى طرف متوجہ ہونے كے لئے راستہ ہموار ہوگيا _

4_ يہ راستہ طے كرنے اور زحمتوں كو برداشت كرنے سے آئندہ شام كا علاقہ فتح كرنے كے لئے راہ ہموار ہوگئي اور معلوم ہوگيا كہ آخركار يہ راستہ طے كرنا ہى ہے _

يہ عظيم فوائد ايسے تھے كہ جن كے لئے لشكر كشى كى زحمت برداشت كى جاسكتى تھى _

بہرحال پيغمبر اكرم (ص) نے اپنى سنت كے مطابق اپنى فوج سے مشورہ كيا كہ كيا پيش قدمى جارى ركھى جائے ياواپس پلٹ جايا جائے؟

اكثريت كى رائے يہ تھي، كہ پلٹ جانا بہتر ہے اور يہى اسلامى اصولوں كى روح سے زيادہ مناسبت ركھتا تھا خصوصاً جبكہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے كى مشقت وزحمت كے باعث اسلامى فوج كے سپاہى تھكے ہوئے تھے اور ان كى جسمانى قوت مزاحمت كمزور پڑچكى تھي، رسول اللہ نے اس رائے كو صحيح قرار ديا اور لشكر اسلام مدينہ كى طرف لوٹ آيا_

ايك عظيم درس

''ابو حثيمہ ''(1) اصحاب پيغمبر (ص) ميں سے تھا ،منافقين ميں سے نہ تھا ليكن سستى كى وجہ سے پيغمبراكرم (ص) كے ساتھ ميدان تبوك ميںنہ گيا _

اس واقعہ كو دس دن گذر گئے ،ہوا گرم او رجلانے والى تھي،ايك دن اپنى بيويوں كے پاس آيا انھوں نے ايك سائبان تان ركھا تھا ، ٹھنڈا پانى مہيا كر ركھا تھا او ربہترين كھانا تيار كر ركھا تھا، وہ اچانك غم و فكر ميں ڈوب گيا او راپنے پيشوا رسول اللہ (ص) كى ياد اسے ستانے لگى ،اس نے كہا:رسول اللہ(ص) كہ جنھوںنے كبھى كوئي گناہ نہيں كيا او رخدا ان كے گذشتہ اور آئندہ كا ذمہ دار ہے ،بيابان كى جلا ڈالنے والى ہوائوں ميں كندھے پر ہتھيار اٹھائے اس دشوار گذار سفر كى مشكلات اٹھارہے ہيں او رابو حثيمہ كو ديكھو كہ ٹھنڈے سائے ميں تيار كھانے اور خوبصورت بيويوں كے پاس بيٹھا ہے ،كيا يہ انصاف ہے ؟

اس كے بعد اس نے اپنى بيويوں كى طرف رخ كيا او ركہا:

خدا كى قسم تم ميں سے كسى كے ساتھ ميں بات نہ كروں گا او رسائبان كے نيچے نہيں بيٹھوں گا جب تك


(1)يہ شخص انہيں افراد ميں سے تھا جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ سورہ توبہ آيت117/نازل ہوئي _

پيغمبر (ص) سے نہ جاملوں _

يہ بات كہہ كر اس نے زادراہ ليا ،اپنے اونٹ پر سوار ہوااور چل كھڑا ہوا ،اس كى بيويوںنے بہت چاہا كہ اس سے بات كريں ليكن اس نے ايك لفظ نہ كہا او راسى طرح چلتا رہا يہاں تك كہ تبوك كے قريب جا پہنچا _

مسلماان ايك دوسرے سے كہنے لگے :يہ كوئي سوار ہے جو سڑك سے گذررہا ہے، ليكن پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا:اے سوار تم ابو حثيمہ ہو تو بہتر ہے_

جب وہ قريب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان ليا تو كہنے لگے : جى ہاں ; ابو حثيمہ ہے _

اس نے اپنا اونٹ زمين پر بٹھايا او رپيغمبراكرم (ص) كى خدمت ميں سلام عرض كيا او راپنا ماجرابيان كيا _

رسول اللہ (ص) نے اسے خوش آمديد كہا اور اس كے حق ميں دعا فرمائي _

اس طرح وہ ايك ايسا شخص تھا جس كا دل باطل كى طرف مائل ہوگيا تھا ليكن اس كى روحانى آمادگى كى بنا ء پر خدا نے اسے حق كى طرف متوجہ كيا اور ثبات قدم بھى عطا كيا _

جنگ تبوك ميںشركت نہ كرنے والے تين لوگ

مسلمانوں ميں سے تين افراد كعب بن مالك ،مرارہ بن ربيع او ربلال بن اميہ نے جنگ تبوك ميںشركت نہ كى او رانھوںنے پيغمبر خدا (ص) كے ہمراہ سفر نہ كيا وہ منافقين ميں شامل نہيں ہو نا چاہتے تھے بلكہ ايسا انھوںنے سستى اور كاہلى كى بنا پر كيا تھا،تھوڑا ہى عرصہ گذرا تھا كہ وہ اپنے كئے پر نادم اور پشيمان ہوگئے_

جب رسول اللہ (ص) ميدان تبوك سے مدينہ لوٹے تو وہ آنحضرت (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور معذرت كى ليكن رسول اللہ(ص) نے ان سے ايك لفظ تك نہ كہا اور مسلمانوں كو بھى حكم ديا كہ كوئي شخص ان سے بات چيت نہ كرے وہ ايك عجيب معاشرتى دبائو كا شكار ہوگئے يہاں تك كہ ان كے چھوٹے بچے او رعورتيں رسول اللہ (ص) كے پاس آئيں او راجازت چاہى كہ ان سے الگ ہو جائيں ،آپ (ص) نے

انھيں عليحدگى كى اجازت تو نہ دى ليكن حكم ديا كہ ان كے قريب نہ جائيں،مدينہ كى فضااپنى وسعت كے باوجود ان پر تنگ ہو گئي ،وہ مجبور ہوگئے كہ اتنى بڑى ذلت اوررسوائي سے نجات حاصل كرنے كے لئے شہر چھوڑديں اوراطراف مدينہ كے پہاڑوں كى چوٹى پر جاكر پناہ ليں_

جن باتوںنے ان كے جذبات پر شديد ضرب لگائي ان ميں سے ايك يہ تھى كہ كعب بن مالك كہتا ہے :ميںايك دن بازار مدينہ ميں پريشانى كے عالم ميں بيٹھا تھاكہ ايك شامى عيسائي مجھے تلاش كرتا ہوا آيا، جب اس نے مجھے پہچان ليا تو بادشاہ غسان كى طرف سے ايك خط ميرے ہاتھ ميںديا ، اس ميں لكھاتھا كہ اگر تيرے ساتھى نے تجھے دھتكارديا ہے تو ہمارى طرف چلے آئو، ميرى حالت منقلب اور غير ہوگئي ،اور ميں نے كہا وائے ہو مجھ پر ميرا معاملہ اس حد تك پہنچ گيا ہے كہ دشمن ميرے بارے ميں لالچ كرنے لگے ہيں، خلاصہ يہ كہ ان كے اعزا ء واقارب ان كے پاس كھانالے آتے مگر ان سے ايك لفظ بھى نہ كہتے ،كچھ مدت اسى صورت ميں گزر گئي او روہ مسلسل انتظار ميں تھے كہ اس كى توبہ قبول ہو اوركوئي آيت نازل ہو جو ان كى توبہ كى دليل بنے ، مگر كوئي خبر نہ تھى _

اس دوران ان ميں سے ايك كے ذہن ميںيہ بات آئي او راس نے دوسروں سے كہا اب جبكہ لوگوں نے ہم سے قطع تعلق كر ليا ہے ،كيا ہى بہتر ہے كہ ہم بھى ايك دوسرے سے قطع تعلق كرليں (يہ ٹھيك ہے كہ ہم گنہ گار ہيں ليكن مناسب ہے كہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضى نہ ہوں)_

انھوں نے ايسا ہى كيا يہاں تك كہ ايك لفظ بھى ايك دوسرے سے نہيںكہتے تھے اوران ميںسے كوئي ايك دوسرے كے ساتھ نہيں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزارى كى او رآخر كار ان كى توبہ قبول ہوگئي _(1)

* * * * *


(1)سورہ توبہ:آيت 118_ اس سلسلے ميں نازل ہوئي ہے

مسجد ضرار(1)

كچھ منافقين رسول اللہ (ص) كے پاس آئے او رعرض كيا، ہميں اجازت ديجيئے كہ ہم قبيلہ ''بنى سالم'' كے درميان''مسحد قبا''كے قريب ايك مسجد بناليں تاكہ ناتواں بيمار اور بوڑھے جو كوئي كام نہيں كرسكتے اس ميں نماز پڑھ ليا كريں_ اسى طرح جن راتوں ميں بارش ہوتى ہے ان ميں جو لوگ آپ(ص) كى مسجد ميں نہيں آسكتے اپنے اسلامى فريضہ كو اس ميں انجام دے ليا كريں_

يہ اس وقت كى بات ہے جب پيغمبر خد (ص) جنگ تبوك كا عزم كرچكے تھے آنحضرت(ص) نے انھيں اجازت دےدي_

انھوں نے مزيد كہا: كيا يہ بھى ممكن ہے كہ آپ(ص) خود آكر اس ميں نماز پڑھيں؟نبى اكرم(ص) نے فرمايا: اس وقت تو ميں سفر كا ارادہ كر چكا ہوں البتہ واپسى پر خدا نے چاہا تو اس مسجد ميں آكر نماز پڑھوں گا_

جب آپ(ص) جنگ تبوك سے لوٹے تو يہ لوگ آپ(ص) كے پاس آئے اور كہنے لگے ہمارى درخواست ہے كہ آپ(ص) ہمارى مسجد ميں آكر اس ميں نماز پڑھائيں اورخدا سے دعا كريں كہ ہميں بركت دے _

يہ اس وقت كى بات ہے جب ابھى آنحضرت(ص) مدينہ كے دروازے ميں داخل نہيںہوئے تھے اس وقت وحى خدا كا حامل فرشتہ نازل ہوا اور خدا كى طرف سے پيغام لايا او ران كے كرتوت سے پردہ اٹھايا_


(1)مسجد ضرار كے سلسلے ميں سورہ توبہ 107 تا110 ميں بيان ہوا ہے

اس كے فوراً بعد رسول اللہ (ص) نے حكم ديا كہ مذكورہ مسجد كو جلا ديا جائے او راسكے باقى حصے كو مسماركرديا جائے او راس كى جگہ كوڑاكركٹ ڈالاجايا كرے_

ان لوگوںكے ظاہراًكام كو ديكھا جائے تو ہميں شروع ميں تو اس حكم پر حيرت ہوئي كہ كيا بيماروں اوربوڑھوں كى سہولت كے لئے اوراضطرارى مواقع كے لئے مسجد بنانا برا كام ہے جبكہ يہ ايك دينى او رانسانى خدمت معلوم ہوتى ہے كيا ايسے كام كے بارے ميں يہ حكم صادر ہوا ہے؟ليكن اگر ہم اس معاملہ كى حقيقت پر نظر كريں گے تو معلوم ہوگا كہ يہ حكم كس قدر بر محل اور جچاتلا تھا_

اس كى وضاحت يہ ہے كہ'' ابو عامر''نامى ايك شخص نے عيسائيت قبول كرلى تھى اور راہبوں كے مسلك سے منسلك ہوگيا تھا _ اس كا شمار عابدوں ميں ہوتا تھا ، قبيلہ خزرج ميں اس كا گہرا اثرورسوخ تھا _

رسول اللہ(ص) نے جب مدينہ كى طرف ہجرت كى او رمسلمان آپ(ص) كے گرد جمع ہوگئے تو ابو عامر جو خودبھى پيغمبر(ص) كے ظہور كى خبر دينے والوں ميں سے تھا،اس نے ديكھا كہ اس كے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ہيں اس پر وہ اسلام كے مقابلے كے لئے اٹھ كھڑا ہوا ،وہ مدينہ سے نكلا اور كفار مكہ كے پاس پہنچا،اس نے ان سے پيغمبر اكرم(ص) كے خلاف جنگ كے لئے مدد چاہى اور قبائل عرب كو بھى تعاون كى دعوت دى ،وہ خود مسلمانوں كے خلاف جنگ احد كى منصوبہ بندى ميںشريك رہا تھا،اور راہنمائي كرنے والوں ميں سے تھا،اس نے حكم ديا كہ لشكر كى دو صفوں كے درميان گڑھے كھوددے جائيں _اتفاقاً پيغمبر اسلام(ص) ايك گڑھے ميں گر پڑے ،آپ(ص) كى پيشانى پر زخم آئے اور دندان مبارك ٹوٹ گئے _

جنگ احد ختم ہوئي،مسلمانوں كو اس ميدان ميں آنے والى مشكلات كے باوجود اسلام كى آواز بلند تر ہوئي او رہر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگي، تو وہ مدينہ سے بھاگ گيا او ربادشاہ روم ہرقل كے پاس پہنچا تاكہ اس سے مددچاہے اور مسلمانوں كى سركوبى كے لئے ايك لشكر مہيا كرے_

اس نكتے كا بھى ذكر ضرورى ہے كہ اس كى ان كارستانيوں كى وجہ سے پيغمبر اسلام(ص) نے اسے ''فاسق''كالقب دے ركھاتھا_

بعض كہتے ہيں كہ موت نے اسے مہلت نہ دى كہ وہ اپنى آرزو ہرقل سے كہتا ليكن بعض دوسرى كتب ميں ہے كہ وہ ہرقل سے جاكر ملا اور اس كے وعدوں سے مطمئن اورخوش ہوا_

بہر حال اس نے مرنے سے پہلے مدينہ كے منافقين كو ايك خط لكھا اور انھيں خوشخبرى دى كہ روم كے ايك لشكر كے ساتھ وہ ان كى مدد كوآئے گا_اس نے انھيں خصوصى تاكيد كى كہ مدينہ ميں وہ اس كے لئے ايك مركز بنائيں تاكہ اس كى آئندہ كى كارگذاريوں كے لئے وہ كام دے سكے ليكن ايسا مركز چونكہ مدينہ ميں اسلام دشمنوں كى طرف سے اپنے نام پر قائم كرنا عملى طور پر ممكن نہ تھا_ لہذا منافقين نے مناسب يہ سمجھا كہ مسجد كے نام پر بيماروں اور معذوروں كى مدد كى صورت ميں اپنے پروگرام كو عملى شكل ديں_

آخر كار مسجد تعمير ہوگئي يہاں تك كہ مسلمانوں ميں سے ''مجمع بن حارثہ'' (يا مجمع بَن جاريہ)نامى ايك قرآن فہم نوجوان كو مسجد كى امامت كے لئے بھى چن ليا گيا ليكن وحى الہى نے ان كے كام سے پردہ اٹھاديا_

يہ جو پيغمبر اكرم(ص) نے جنگ تبوك كى طرف جانے سے قبل ان كے خلا ف سخت كاروائي كا حكم نہيں ديا اس كى وجہ شايد ايك تو ان كى حقيقت زيادہ واضح ہوجائے او ردوسرا يہ كہ تبوك كے سفر ميں اس طرف سے كوئي او رذہنى پريشانى نہ ہو_ بہر حال جو كچھ بھى تھا رسول اللہ(ص) نے نہ صرف يہ كہ مسجد ميں نماز نہيں پڑھى بلكہ بعض مسلمانوں (مالك بن دخشم،معنى بن عدى اور عامر بن سكر يا عاصم بن عدي)كو حكم ديا كہ مسجدكو جلاديں او رپھر اس كى ديواروں كو مسمار كرواديا_ او رآخر كار اسے كوڑاكركٹ پھيكنے كى جگہ قرار دےديا_

* * * * *

مسجد قباء

يہ بات قابل توجہ ہے كہ خدا وند عالم اس حيات بخش حكم كى مزيد تاكيد كے لئے خداوند متعال فرماتا ہے كہ اس مسجد ميں ہرگز قيام نہ كرو اور اس ميں نمازنہ پڑھو_(1)

''بلكہ اس مسجدكے بجائے زيادہ مناسب يہ ہے كہ اس مسجد ميں عبادت قائم كرو جس كى بنياد پہلے دن سے تقوى پر ركھى گئي ہے'' (2)

نہ يہ كہ يہ مسجد جس كى بنياد روز اول ہى سے كفر،نفاق،بے دينى اور تفرقہ پر ركھى گئي ہے_

''مفسرين نے كہا ہے كہ جس مسجد كے بارے ميں مندرجہ بالا جملے ميں كہا گيا ہے كہ زيادہ مناسب يہ ہے كہ پيغمبر(ص) اس ميں نماز پڑھيں اس سے مراد'' مسجد قبا ''ہے كہ جس كے قريب منافقين نے مسجد ضرار بنائي تھي''_

اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے :''كہ علاوہ اس كے كہ اس مسجد كى بنياد تقوى پر ركھى گئي ہے ،مردوں كا ايك گروہ اس ميں مشغول عباد ت ہے جو پسند كرتا ہے كہ اپنے آپ كو پاك وپاكيزہ ركھے اور خدا پاكباز لوگوں كو دوست ركھتا ہے ''_(3)


(1)سورہ توبہ آيت 108

(2)سورہ توبہ آيت 108

(3)سورہ توبہ آيت 108

سب سے پہلى نماز جمعہ

پہلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ (ص) نے اپنے اصحاب كے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گيا جب آپ نے مدينہ كى طرف ہجرت فرمائي _ جب آپ(ص) مدينہ ميں وارد ہوئے تو اس دن پير كا دن بارہ ربيع الاول او رظہر كا وقت تھا_ حضرت چار دن تك''قبا ''ميں رہے او رمسجد قبا كى بنياد ركھى ، پھر جمعہ كے دن مدينہ كى طرف روانہ ہوئے(قبااور مدينہ كے درميان فاصلہ بہت ہى كم ہے اور موجودہ وقت ميںقبا مدينہ كا ايك داخلى محلہ ہے)

اور نماز جمعہ كے وقت آپ(ص) محلہ''بنى سالم''ميں پہنچے وہاں نماز جمعہ ادا فرمائي اور يہ اسلام ميں پہلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ (ص) نے اداكيا_ جمعہ كى نماز ميں آپ(ص) نے خطبہ بھى پڑھا_ جو مدينہ ميں آنحضرت(ص) كا پہلا خطبہ تھا_

* * * * *

واقعہ غدير

پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كا آخرى سال تھا''حجة الوداع ''كے مراسم جس قدر باوقار و پرشكوہ ہو سكتے تھے اس قدر پيغمبر اكرم(ص) كى ہمراہى ميں اختتام پذير ہوئے_ سب كے دل روحانيت سے سرشار تھے ابھى ان كى روح اس عظيم عبادت كى معنوى لذت كا ذائقہ محسوس كررہى تھى _ اصحاب پيغمبر(ص) جن كى تعداد بہت زيادہ تھى اس عظيم نعمت سے فيض ياب ہوئے او راس سعادت كے حاصل ہونے پر جامے ميں پھولے نہيں سماتے تھے_

نہ صرف مدينہ كے لوگ اس سفر ميں پيغمبر(ص) كے ساتھ تھے بلكہ جزيرہ نمائے عرب كے ديگر مختلف حصوں كے مسلمان بھى يہ عظيم تاريخى اعزازوافتخار حاصل كرنے كے لئے آپ(ص) كے ہمراہ تھے_

سرزمين حجاز كا سورج دروں اور پہاڑوںپر آگ برسارہا تھا ليكن اس سفركى بے نظير روحانى مٹھاس تمام تكليفوں كو آسان بنارہى تھي_ زوال كا وقت نزديك تھا_ آہستہ آہستہ ''حجفہ ''كى سرزمين او راس كے بعد خشك اور جلانے والے''غديرخم'' كے بيابان نظر آنے لگے_

در اصل يہاں پر ايك چوراہا ہے جو حجاز كے لوگوں كوايك دوسرے سے جدا كرتا ہے_ شمالى راستہ مدينہ كى طرف دوسرا مشرقى راستہ عراق كى طرف،تيسرا مغربى ممالك او رمصر كى طرف اور چوتھا جنوبى راستہ سرزمين يمن كو جاتا ہے يہى وہ مقام ہے جہاں پر آخرى مقصد او راس عظيم سفر كااہم ترين كام انجام پذير ہوتا تھا

تاكہ مسلمان پيغمبر(ص) كى اہم ذمہ داريوںميںسے ان كا آخرى حكم جان كر ايك دوسرے سے جداہوں _

جمعرات كا دن تھا اورہجرت كا دسواں سال_ آٹھ دن عيد قربان كو گزرے تھے كہ اچانك پيغمبر(ص) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كو ٹھہر جانے كا حكم ديا گيا_ مسلمانوں نے بلندآواز سے ان لوگوں كو جو قافلے كے آگے چل رہے تھے واپس لوٹنے كے لئے پكارا اوراتنى دير كے لئے ٹھہر گئے كہ پيچھے آنے والے لوگ بھى پہنچ جائيں_ آفتاب خط نصف النہار سے گزر گيا تو پيغمبر(ص) كے مو ذن نے ''اللہ اكبر ''كى صداكے ساتھ لوگوں كونماز ظہر پڑھنے كى دعوت دى _ مسلمان جلدى جلدى نماز پڑھنے كے لئے تيار ہوگئے _ ليكن فضاء اتنى گرم تھى كہ بعض لوگ مجبور تھے كہ وہ اپنى عبا كا كچھ حصہ پائوں كے نيچے اور باقى سر كے اوپر لے ليں،ورنہ بيابان كى گرم ريت اور سورج كى شعاعيں ان كے سر اور پائوں كو تكليف دے رہى تھيں_

اس صحراء ميں كوئي سائبان نظر نہ آتا تھا اور نہ ہى كوئي سبزہ ياگھاس صرف چند بے برگ وبار بيابانى درخت تھے جو گرمى كا سختى كے ساتھ مقابلہ كر رہے تھے كچھ لوگ انہى چند درختوں كا سہارا لئے ہوئے تھے اور انہوں نے ان برہنہ درختوں پر ايك كپڑاڈال ركھا تھا اور پيغمبر(ص) كے لئے ايك سائبان سا بنا ركھا تھا ليكن گرم ہوا اس سائبان كے نيچے سے گزرتى ہوئي سورج كى جلانے والى گرمى كو اس سائبان كے نيچے بھى پھيلا رہى تھي_ بہر حال ظہر كى نماز پڑھ لى گئي_

خطبہ غدير

مسلمان ارادہ كررہے تھے كہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خيموں ميں جاكر پناہ ليں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھاركھے تھے ليكن رسول اللہ(ص) نے انہيں آگاہ كيا كہ وہ سب كے سب خداوندتعالى كا ايك نيا پيغام سننے كے لئے تيار ہوں جسے ايك مفصل خطبے كے ساتھ بيان كيا جائے گا_

جو لوگ رسول اللہ (ص) سے دور تھے وہ پيغمبر(ص) كا ملكوتى چہرہ اس عظيم اجتماع ميں دور سے ديكھ نہيں پارہے تھے لہذا اونٹوں كے پالانوں كا منبر بنايا گيا_پيغمبر(ص) اس كے اوپر تشريف لے گئے_پہلے پروردگار عالم كى حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے يوں خطاب فرمايا:ميں عنقرب خداوندمتعال كى دعوت پر لبيك

كہتے ہوئے تمہارے درميان سے جارہا ہوں ،ميں بھى جوابدہ ہوںاورتم بھى جوابدہ ہو ،تم ميرے بارے ميں كيا گواہى دوگے لوگوں نے بلند آواز ميں كہا :

''ہم گواہى ديں گے كہ آپ(ص) نے فريضہ رسالت انجام ديا اورخير خواہى كى ذمہ دارى كو انجام ديا اور ہمارى ہدايت كى راہ ميں سعى و كوشش كي،خدا آپ(ص) كوجزا ئے خير دے''_

اس كے بعد آپ(ص) نے فرمايا كيا تم لوگ خدا كى وحدانيت،ميرى رسالت اور روز قيامت كى حقانيت اوراس دن مردوں كے قبروں سے مبعوث ہونے كى گواہى نہيں ديتے؟

سب نے كہا:كيوں نہيں ہم سب گواہى ديتے ہيں_

آپ(ص) نے فرمايا: خداوندگواہ رہنا_

آپ(ص) نے مزيد فرمايا:اے لوگو كيا تم ميرى آواز سن رہے ہو؟

انہوںنے كہا: جى ہاں_

اس كے بعد سارے بيابان پر سكوت كا عالم طارى ہوگيا_ سوائے ہوا كى سنسناہٹ كے كوئي چيز سنائي نہيں ديتى تھى _ پيغمبر(ص) نے فرمايا:ديكھو ميں تمہارے درميان دوگرانمايہ اور گرانقدر چيزيں بطور يادگار چھوڑے جارہا ہوں تم ان كے ساتھ كيا سلوك كروگے؟

حاضرين ميں سے ايك شخص نے پكار كر كہا:يا رسول اللہ (ص) وہ دو گرانمايہ چيزيں كونسى ہيں؟

تو پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا: پہلى چيز تو اللہ تعالى كى كتاب ہے جو ثقل اكبر ہے_ اس كا ايك سرا تو پروردگار عالم كے ہاتھ ميں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاتھ ميں ہے،اس سے ہاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ ہو جائوگے_ دوسرى گرانقدر يادگار ميرے اہل بيت ہيں اور مجھے خدائے لطيف وخبير نے خبردى ہے كہ يہ دونوں ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے يہاں تك كہ بہشت ميں مجھ سے آمليںگے_

ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز كرنے) كى كوشش نہ كرنا اور نہ ہى ان سے پيچھے رہنا كہ اس صورت ميں بھى تم ہلاك ہو جائوگے_

اچانك لوگوں نے ديكھا كہ ر سول اللہ(ص) اپنے ارد گرد نگاہيں دوڑارہے ہيں گويا كسى كو تلاش كر رہے ہيں جو نہى آپ(ص) كى نظر حضرت على عليہ السلام پر پڑى فوراً ان كا ہاتھ پكڑليا اور انہيں اتنا بلند كيا كہ دونوں كى بغلوں كے نيچے كى سفيدى نظر آنے لگى اور سب لوگوں نے انہيں ديكھ كر پہچان لياكہ يہ تو اسلام كا وہى سپہ سالار ہے كہ جس نے كبھى شكست كا منہ نہيں ديكھا_

اس موقع پر پيغمبر(ص) كى آواز زيادہ نماياں اوربلند ہوگئي اور آپ(ص) نے ارشاد فرمايا:

''ايھا الناس من اولى الناس بالمو منين من انفسھم''

يعنى اے لوگو بتائو وہ كون ہے جو تمام لوگوں كى نسبت مومنين پر خود ان سے زيادہ اوليت ركھتا ہے ؟ اس پر سب حاضرين نے بہ يك آواز جواب ديا كہ خدا اور اس كا پيغمبر(ص) بہتر جانتے ہيں_

تو پيغمبر(ص) نے فرمايا: خداا ميرا مولا اوررہبر ہے اور ميں مومنين كا مولااوررہبر ہوں اور ان كے اوپر ان كى نسبت خود ان سے زيادہ حق ركھتا ہوں(اور ميرا ارادہ ان كے ارادے سے مقدم ہے)_

اس كے بعد فرمايا:

''فمن كنت مولاہ فہذا على مولاہ''.

''يعنى جس جس كا ميں مولاہ ہوں على (ع) بھى اس اس كے مولاہ اوررہبر ہے''_

پيغمبر اكرم(ص) نے اس جملے كى تين مرتبہ تكرار كى او ربعض راويوں كے قول كے مطابق پيغمبر(ص) نے يہ جملہ چار مرتبہ دہرايا اور اس كے بعد آسمان كى طرف سر بلند كر كے بارگاہ خداوندى ميں عرض كي:_

''اللّھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصرمن نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حيث دار.''

يعنى بار الہا جو اس كو دوست ركھے تو اس كو دوست ركھ او رجو اس سے دشمنى كرے تو اس سے دشمنى ركھ_ جو اس سے محبت كرے تو اس سے محبت كر اور جو اس سے بغض ركھے تو اس سے بغض ركھ_ جو اس كى مدد كرے تو اس كى مددكر _ جو اس كى مدد سے كنارہ كشى كرے تو اسے اپنى مددسے محروم ركھ اور حق كو ادھرپھيردے

جدھر وہ رخ كرے_

اس كے بعد فرمايا:

'' تمام حاضرين آگاہ ہوجائيں اس بات پر كہ يہ ان كى ذمہ دارى ہے كہ وہ اس بات كوان لوگوں تك پہنچائيں جو يہاں پر اور اس وقت موجود نہيں ہيں ''_

روز اكمال دين

پيغمبر(ص) كا خطبہ ختم ہوگيا پيغمبر(ص) پسينے ميں شرابور تھے حضرت على عليہ السلام بھى پسينے ميں نہائے ہوئے تھے_ دوسرے تمام حاضرين كے بھى سر سے پائوں تك پسينہ بہہ رہا تھا_

ابھى اس جمعيت كى صفيں ايك دوسرے سے جدا نہيں ہوئي تھيں كہ جبرئيل (ع) امين وحى لے كر نازل ہوئے اور تكميل دين كى پيغمبر(ص) كو بايں الفاظ بشارت دي:

''اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتى ''_(1)

''آج كے دن ميں نے تمہارے لئے تمہارے دين اور آئين كو كامل كرديا اور اپنى نعمت كو تم پر تمام كرديا''_

اتمام نعمت كا پيغام سن كر پيغمبر(ص) نے فرمايا:

''اللّہ اكبر اللّہ اكبر على اكمال الدين واتمام النعمة ورضى الرب برسالتى والولايةلعلى من بعدي''.

''ہر طرح كى بزرگى وبڑائي خداہى كے لئے ہے كہ جس نے اپنے دين كو كامل فرمايا اور اپنى نعمت كو ہم پر تمام كيا اور ميرى نبوت ورسالت اور ميرے بعد كے لئے على (ع) كى ولايت كے لئے خوش ہوا_''


(1) سورہ مائدہ آيت 3

اميرالمو منين على ابن ابى طالب عليہما السلام كى ولايت كا پيغمبر(ص) كى زبان مبارك سے اعلان سن كر حاضرين ميں مبارك باد كا شور برپا ہوا لوگ بڑھ چڑھ كر اس اعزازومنصب پر حضرت على (ع) كو اپنى طرف سے مبارك باد پيش كررہے تھے _ معروف شخصيتوں ميں سے حضرت ابو بكر اور حضرت عمر كى طرف سے مبارك باد كے يہ الفاظ تاريخ كے اوراق ميں محفوظ ہيں كہ انہوں نے كہا:

''بخ: بخ: لك يا بن ابى طالب اصبحت وامسيت مولائي و مولاكل مو من و مو منة:''

''مبارك ہو مبارك ہو اے فرزند ابى طالب كہ آپ(ع) ميرے اور تمام صاحبان ايمان مردوں اورعورتوں كے مولا اور رہبر ہوگئے''_

اس وقت ابن عباس نے كہا :بخدا يہ عہد وپيمان سب كى گردنوں ميں باقى رہے گا''_(1)

* * * * *


(1) اس سلسلے ميں مزيد آگہى كے لئے كتاب الغدير، علامہ اميني ،احقاق الحق ،قاضى نوراللہ شوشتري ،المراجعات شرف الدين اور دلائل الصدق محمدحسين مظفر پر رجوع كريں

فدك

فدك اطراف مدينہ ميں تقريباً ايك سو چاليس كلو ميٹر كے فاصلہ پر خيبر كے نزديك ايك آباد قصبہ تھا_جب سات ہجرى ميں خيبر كے قلعے يكے بعد ديگر افواج اسلامى نے فتح كرلئے اور يہوديوں كى مركزى قوت ٹوٹ گئي تو فدك كے رہنے والے يہودى صلح كے خيال سے بارگاہ پيغمبر(ص) ميں سرتسليم خم كرتے ہوئے آئے اور انہوں نے اپنى آدھى زمينيں اور باغات آنحضرت (ص) كے سپرد كرديئےور آدھے اپنے پاس ركھے _ اس كے علاوہ انہوں نے پيغمبر اسلام(ص) كے حصہ زمينوں كى كاشتكارى بھى اپنے ذمہ لي_ اپنى كاشتكارى كى زحمت كى اجرت وہ پيغمبر اسلام(ص) سے وصول كرتے تھے،(سورہ حشر آيت)كے پيش نظراس كى طرف توجہ كرتے ہوئے يہ زمينيں پيغمبر اسلام(ص) كى ملكيت خاص تھيں _ ان كى آمدنى كو آپ(ص) اپنے مصرف ميں لاتے تھے يا ان مدات ميں خرچ كرتے تھے جن كى طرف اس سورہ كى آيت نمبر7 ميں اشارہ ہوا ہے _

لہذا پيغمبر(ص) نے يہ سارى زمينيں اپنى بيٹى حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ عليہا كوعنايت فرماديں_ يہ ايسى حقيقت ہے جسے بہت سے شيعہ اور اہل سنت مفسرين نے تصريح كے ساتھ تحرير كيا ہے_منجملہ ديگر مفسرين كے تفسير درالمنثور ميں ابن عباس سے مروى ہے كہ جس وقت آيت (فات ذاالقربى حقہ)(1) نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كو فدك عنايت فرمايا:


(1) سورہ روم ايت 38

كتاب كنزالعمال جو مسند احمد كے حاشيہ پر لكھى گئي ہے،ميں صلہ رحم كے عنوان كے ماتحت ابو سعيد خدرى سے منقول ہے كہ جس وقت مذكورہ بالاآيت نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے فاطمہ سلام اللہ عليہا كو طلب كيا اور فرمايا:

'' يا فاطمة لك فدك'' ''اے فاطمہ(ع) فدك تيرى ملكيت ہے''_

حاكم نيشاپورى نے بھى اپنى تاريخ ميں اس حقيقت كو تحريركيا ہے_

ابن ابى الحديد معتزلى نے بھى نہج البلاغہ كى شرح ميں داستان فدك تفصيل كے ساتھ بيان كى ہے اور اسى طرح بہت سے ديگر مورخين نے بھي،ليكن وہ افراد جو اس اقتصادى قوت كو حضرت على عليہ السلام كى زوجہ محترمہ كے قبضہ ميں رہنے دينا اپنى سياسى قوت كے لئے مضر سمجھتے تھے،انہوں نے مصصم ارادہ كيا كہ حضرت على عليہ السلام كے ياور وانصار كو ہر لحاظ سے كمزور اور گوشہ نشيں كرديں_ حديث مجہول(نحن معاشر الانبياء ولا نورث) كے بہانے انہوں نے اسے اپنے قبضہ ميں لے ليا اور باوجود يكہ حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا قانونى طور پر اس پر متصرف تھيں اور كوئي شخص ''ذواليد''(جس كے قبضہ ميں مال ہو)سے گواہ كا مطالبہ نہيں كرتا،جناب سيدہ سلام اللہ عليہا سے گواہ طلب كيے گئے _ بى بى نے گواہ پيش كيے كہ پيغمبر اسلام (ص) نے خود انہيں فدك عطا فرمايا ہے ليكن انہوں نے ان تمام چيزوں كى كوئي پرواہ نہيں كي_بعد ميں آنے والے خلفاء ميں سے جو كوئي اہلبيت سے محبت كا اظہار كرتا تو وہ فدك انہيں لوٹا ديتا ليكن زيادہ دير نہ گزرتى كہ دوسرا خليفہ اسے چھين ليتا اور دوبارہ اس پر قبضہ كرليتا _ خلفائے بنى اميہ اور خلفائے بنى عباس بارہا يہ اقدام كرتے رہے _

واقعہ فدك اور اس سے تعلق ركھنے والے مختلف النوع حوادث جو صدر اسلام ميں اور بعد كے ادوار ميں پيش آئے،زيادہ دردناك اورغم انگيز ہيں اور وہ تاريخ اسلام كا ايك عبرت انگيز حصہ بھى ہيں جو محققانہ طور پر مستقل مطالعہ كا متقاضى ہے تا كہ تاريخ اسلام كے مختلف حوادث نگاہوں كے سامنے آسكيں_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اہل سنت كے نامور محدث مسلم بن حجاج نيشاپورى نے اپنى مشہور و معروف كتاب ''صحيح مسلم'' ميں جناب فاطمہ (سلام اللہ عليہا) كا خليفہ اول سے فدك كے مطالبہ كا واقعہ تفصيل سے

بيان كيا ہے، اور جناب عائشےہ كى زبانى نقل كيا ہے كہ جناب فاطمہ كو جب خليفہ اول نے فدك نہيں ديا تو بى بى ان سے ناراض ہوگئي اور آخر عمر ان سے كوئي گفتگو نہيں كي_(صحيح مسلم،كتاب جہاد ج3ص1380حديث 52)

''نحن معاشر الانبياء لا نورث''

اہل سنت كى مختلف كتابوں ميں پيغمبراسلام (ص) كى طرف منسوب ايك حديث موجود ہے جو اس طرح كے مضمون پر مشتمل ہے:

''نحن معاشر الانبياء لا نورث ما تركناہ صدقة''

''ہم پيغمبر(ص) لوگ اپنى ميراث نہيں چھوڑتے جو ہم سے رہ جائے اسے راہ خدا ميں صدقے كے طور پر خرچ كرديا جائے''_

اور بعض كتابوں ميں ''لا نورث''كا جملہ نہيں ہے بلكہ''ما تركناہ صدقة''كى صورت ميں نقل كيا گيا ہے _

اس روايت كى سند عام طور پر ابوبكر تك جا كر ختم ہوجاتى ہے جنھوں نے آنحضرت (ص) كے بعد مسلمانوں كى زمام امور اپنے قبضے ميں لے لى تھي_ اور جب حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا يا پيغمبر اكرم (ص) كى بعض بيويوں نے ان سے پيغمبر(ص) كى ميراث كا مطالبہ كيا تو انھوں نے اس حديث كا سہارا لےكر انھيں ميراث سے محروم كرديا_

اس حديث كو مسلم نے اپنى صحيح (جلد 3 كتاب الجھاد والسير ص1379)ميں ،بخارى نے جزو ہشتم كتاب الفرائض كے صفحہ 185پر اور اسى طرح بعض ديگر افراد نے اپنى اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے_

يہ بات قابل توجہ ہے كہ مذكورہ كتابوں ميں سے بخارى ميں بى بى عائشےہ سے ايك روايت نقل كى گئي ہے:فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور جناب عباس بن عبد المطلب (رسول (ص) كى وفات كے بعد )ابو بكر كے پاس آئے اور ان سے اپنى ميراث كا مطالبہ كيا _ اس وقت انھوں نے اپنى فدك كى اراضى اور خيبر سے ملنے والى

ميراث كا مطالبہ كيا تو ابو بكر نے كہا ميں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا_''ہم ميراث ميں كوئي چيز نہيں چھوڑتے،جو كچھ ہم سے رہ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے''_

جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے جب يہ سنا تو نا راض ہو كر وہاں سے واپس آگئيں اور مرتے دم تك ان سے بات نہيں كي_

البتہ يہ حديث مختلف لحاظ سے تجزيہ و تحليل كے قابل ہے ليكن اس تفسير ميں ہم چند ايك نكات بيان كريں گے:

1_يہ حديث،قرآنى متن كے مخالف ہے اور اس اصول اور كليہ قاعدہ كى رو سے نا قابل اعتبار ہے كہ جو بھى حديث كتاب اللہ كے مطابق نہ ہو اس پر اعتبار نہيں كرنا چاہيے اور ايسى حديث كو پيغمبر اسلام (ص) يا ديگر معصومين عليھم السلام كا قول سمجھ كر قبول نہيں كيا جا سكتا_

ہم قرآنى آيات ميں پڑھتے ہيں كہ حضرت سليمان(ع) جناب دائود (ع) كے وارث بنے اورآيت كا ظاہر مطلق ہے كہ جس ميں اموال بھى شامل ہيں_ جناب يحيى (ع) اور زكريا (ع) كے بارے ميں ہے:

''يرثنى ويرث من ال يعقوب''

''خداوندا مجھے ايسا فرزند عطا فرما جو ميرا اور آل يعقوب كا وارث بنے''_(سورہ مريم آيت 6)

حضرت''زكريا(ع) ''كے بارے ميں تو بہت سے مفسرين نے مالى وراثت پر زور ديا ہے_

اس كے علاوہ قرآن مجيدميں''وراثت''كى آيات كا ظاہر بھى عمومى ہے كہ جو بلا استثناء سب كے لئے ہے_

شايد يہى وجہ ہے كہ اہل سنت كے مشہور عالم علامہ قرطبى نے مجبور ہوكر اس حديث كو غالب اور اكثر فعل كى حيثيت سے قبول كيا ہے نہ كہ عمومى كليہ كے طور پر اور اس كے لئے يہ مثال دى ہے كہ عرب ايك جملہ كہتے ہيں:

''انا معشرالعرب اقرى الناس للضيف''_

ہم عرب لوگ دوسرے تمام افراد سے بڑھ كر مہمان نوازہيں (حالانكہ يہ كوئي عمومى حكم نہيں ہے)_

ليكن ظاہر ہے كہ يہ بات اس حديث كى اہميت كى نفى كررہى ہے كيونكہ حضرت سليمان(ع) اور يحيى (ع) كے بارے ميں اس قسم كا عذر قبول كرلئے تو پھر دوسرے كے لئے بھى يہ قطعى نہيں رہ جاتي_

2_مندرجہ بالا روايت ان كے خلاف ہے جن سے معلوم ہوتا ہو كہ ابو بكر نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كو فدك واپس لوٹا نے كا پختہ ارادہ كر كيا تھا ليكن دوسرے لوگ اس ميںحائل ہوگئے تھے چنانچہ سيرت حلبى ميں ہے:

فاطمہ(ص) بنت رسول(ص) ،ابو بكر كے پاس اس وقت آئيں جب وہ منبر پر تھے _ انھوں نے كہا:

''اے ابو بكر كيا يہ چيز قرآن ميں ہے كہ تمھارى بيٹى تمہارى وراث بنے ليكن ميں اپنے باپ كى ميراث نہ لوں''؟

يہ سن كر ابو بكر رونے لگے اور ان كى آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے پھر وہ منبر سے نيچے اترے اور فدك كى واپسى كا پروانہ فاطمہ (ص) كو لكھ ديا_ اسى اثناء ميں عمر آگئے _ پوچھا يہ كيا ہے؟انھوں نے كہاكہ ميں نے يہ تحرير لكھ دى ہے تا كہ فاطمہ كو ان كے باپ سے ملنے والى وراثت واپس لوٹا دوں

عمر نے كہا: اگرآپ يہ كام كريں گے تو پھر دشمنوں كے ساتھ جنگى اخراجات كہاں سے پورے كريں گے؟

جبكہ عربوں نے آپ كے خلاف قيام كيا ہوا ہے _ يہ كہا اور تحرير لے كر اسے پارہ پارہ كرديا_(1)

يہ كيونكر ممكن ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے تو صريحى طور پر ممانعت كى ہو اور ابو بكر اس كى مخالفت كى جرا ت كريں؟اور پھر عمر نے جنگى اخراجات كا تو سہارا ليا ليكن پيغمبر اكرم(ص) كى حديث پيش نہيں كي_

مندرجہ بالا روايت پر اگر اچھى طرح غور كيا جائے تو معلوم ہوگاكہ يہاں پر پيغمبر اسلام(ص) كى طرف سے


(1)سيرہ حلبى ج3/ص361

ممانعت كا سوال نہيں تھا_ بلكہ سياسى مسائل آڑے تھے اور ايسے موقع پر معتزلى عالم ابن ابى الحديد كى گفتگو يادآجاتى ہے_ وہ كہتے ہيں:

ميںنے اپنے استاد'' على بن فارقي'' سے پوچھا كہ كيا فاطمہ(ص) اپنے دعوى ميں سچى تھيں ؟ تو انھوں نے كہا جى ہاں پھر ميں نے پوچھا تو ابوبكر انھيں سچا اور بر حق بھى سمجھتے تھے _

اس موقع پر ميرے استاد نے معنى خيز تبسم كے ساتھ نہايت ہى لطيف اور پيارا جواب ديا حالانكہ انكى مذاق كى عادت نہيں تھي،انھوں نے كہا:

اگر وہ آج انھيں صرف ان كے دعوى كى بناء پر ہى فدك دےديتے تو پھر نہ تو ان كے لئے كسى عذر كى گنجائشے باقى رہتى اور نہ ہى ان سے موافقت كا امكان ''_(1)

3_پيغمبر اسلام (ص) كى ايك مشہور حديث ہے جسے شيعہ اور سنى سب نے اپنى اپنى كتابوں ميں درج كيا ہے،حديث يہ ہے: ''العلماء ورثة الانبياء''_ ''علماء انبياء كے وارث ہوتے ہيں''_

نيز يہ قول بھى آنحضرت(ص) ہى سے منقول ہے: ''ان الانبياء لم يورثوا ديناراً ولا درھماً''_ ''انبياء اپنى ميراث ميں نہ تودينار چھوڑتے ہيں اور نہ ہى درہم''_

ان دونوں حديثوں كو ملا كر پڑھنے سے يوں معلوم ہوتا ہے كہ آپ(ص) كا اصل مقصد يہ تھا كہ لوگوں كو يہ بات باور كرائيں كہ انبياء كے لئے سرمايہ افتخار ان كا علم ہے اور اہم ترين چيز جو وہ يادگاركے طور پر چھوڑ جاتے ہيں ان كا ہدايت و راہنمائي كا پروگرام ہے اور جو لوگ علم و دانش سے زيادہ بہرہ مند ہوں گے وہى انبياء كے اصلى وارث ہوں گے_ بجائے اس كے كہ ان كى مال پر نگاہ ہو اور اسے يادگار كے طور پر چھوڑجائيں _ اس كے بعد اس حديث كے نقل بہ معنى كرديا گيا اور اس كى غلط تعبيريں كى گئيں اور شايد''ماتركناہ صدقة'' والے جملے كا بعض روايات ميںاس پر اضافہ كرديا گيا_


(1)شرح نہج البلاغہ،ابن ابى الحديد جلد_16ص284

مباہلہ

خداوندعالم نے اپنے پيغمبر(ص) كو حكم ديا ہے كہ ان واضح دلائل كے بعد بھى كوئي شخص تم سے حضرت عيسى (ع) كے بارے ميں گفتگو اور جھگڑا كرے تو اسے''مباھلہ''كى دعوت دو اور كہو كہ وہ اپنے بچوں،عورتوں اور نفسو ںكو لے آئے اور تم بھى اپنے بچوںكو عورتوں اور نفسں كو بلا لو پھر دعا كرو تاكہ خدا جھوٹوں كو رسوا كردے_

بغير كہے يہ بات واضح ہے جب كہ مباہلہ سے مراد يہ نہيں كہ طرفين جمع ہوں ،اور ايك دوسرے پر لعنت اور نفرين كريں اور پھر منتشر ہو جائيں كيونكہ يہ عمل تو نتيجہ خيز نہيں ہے_

بلكہ مراد يہ ہے كہ دعا او رنفرين عملى طور پر اپنا اثر ظاہر كرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذاب ميں گرفتار ہو جائے_

آيات ميں مباہلہ كا نتيجہ تو بيان نہيں كيا گيا ليكن چونكہ يہ طريقہ كار منطق و استدلال كے غير موثر ہونے پر اختيار كيا گيا تھا اس لئے يہ خود اس بات كى دليل ہے كہ مقصود صرف دعا نہ تھى بلكہ اس كا خاجى اثر پيش نظر تھا_

مباہلہ كا مسئلہ عرب ميں كبھى پيش نہيں آيا تھا،اور اس راستہ سے پيغمبر اكرم(ص) كو صدقت و ايمان كو اچھى سرح سمجھا جاسكتا تھا،كيسے ممكن ہے كہ جو شخص كامل ارتباط كے ساتھ خدا پر ايمان نہ ركھتا ہو وہ ايسے ميدان كى طرف آئے اور مخالفين كو دعوت دى كہ آئو اكھٹے درگاہ خدا ميں چليں،اس سے درخواست كريں اور دعا كريسيں كہ وہ جھوٹے كو رسو اكردے اور پھر يہ بھى كہے كہ تم عنقريب اس كا نتيجہ خودديكھ لو گے كہ خدا كس طرح

جھوٹوں كو سزا ديتا ہے او رعذاب كرتا ہے_

يہ مسلم ہے كہ ايسے ميدان كا رخ كرنا بہت خطرناك معاملہ ہے كيونكہ اگر دعوت دينے والے كى دعا قبول نہ ہوئي اور مخالفين كو ملنے والى سزا كا اثر واضح نہ ہوا تو نتيجہ دعوت دينے والے كى رسوائي كے علاوہ كچھ نہ ہوگا_

كيسے ممكن ہے كہ ايك عقلمند اورسمجھ دار انسان نتيجے كے متعلق اطمينان كئے بغير اس مرحلے ميں قدم ركھے _ اسى لئے تو كہا جاتا ہے كہ پيغمبراكرم(ص) كى طرف سے دعوت مباھلہ اپنے نتائج سے قطع نظر،آپ (ص) كى دعوت كى صداقت اور ايمان كى دليل بھى ہے_

اسلامى روايات ميں ہے كہ''مباھلہ''كى دعوت دى گئي تو نجران كے عيسائيوں كے نمائندے پيغمبر اكرم(ص) كے پاس آئے اور آپ(ص) سے مہلت چاہى تا كہ اس بارے ميں سوچ بچار كرليں اور اس سلسلے ميں اپنے بزرگوں سے مشورہ كرليں_ مشورہ كى يہ بات ان كى نفسياتى حالت كى چغلى كھاتى ہے_

بہر حال مشورے كا نتيجہ يہ نكلا كہ عيسائيوں كے ما بين يہ طے پاياكہ اگر محمد(ص) شور وغل،مجمع اور دادوفريادكے ساتھ''مباھلہ''كے لئے آئيں تو ڈرا نہ جائے اورمباہلہ كرليا جائے كيونكہ اگر اس طرح آئيں تو پھر حقيقت كچھ بھى نہيں ،جب بھى شوروغل كا سہارا ليا جائے گا اور اگر وہ بہت محدود افراد كے ساتھ آئيں،بہت قريبى خواص اور چھوٹے بچوں كو لے كر وعدہ گاہ ميں پہنچيں تو پھر جان لينا چاہيے كہ وہ خدا كے پيغمبرہيں اور اس صورت ميں اس سے ''مباھلہ''كرنے سے پرہيز كرنا چاہيے كيونكہ اس صورت ميں معاملہ خطرناك ہے_

طے شدہ پروگرام كے مطابق عيسائي ميدان مباہلہ ميں پہنچے تو اچانك ديكھا كہ پيغمبر(ص) اپنے بيٹے حسين(ع) كو گود ميں لئے حسن(ع) كا ہاتھ پكڑے اور على (ع) اور فاطمہ(ع) كو ہمراہ لئے آپہنچے ہيں اور انہيں فرمارہے ہيں كہ جب ميں دعاكروں ،تم آمين كہنا_

عيسائيوں نے يہ كيفيت ديكھى تو انتہائي پريشان ہوئے اور مباہلہ سے رك گئے اور صلح و مصالحت كے لئے تيار ہوگئے اور اہل ذمہ كى حيثيت سے رہنے پر آمادہ ہوگئے _

عظمت اہل بيت كى ايك زندہ سند

شيعہ اورسنى مفسرين اور محدثين نے تصريح كى ہے كہ آيہ مباہلہ اہل بيت رسول عليہم السلام كى شان ميں نازل ہوئي ہے اور رسول اللہ (ص) جن افراد كو اپنے ہمراہ وعدہ گاہ كى طرف لے گئے تھے وہ صرف ان كے بيٹے امام حسن(ع) اور امام حسين(ع) ،ان كى بيٹى فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور حضرت على (ع) تھے _ اس بناء پر آيت ميں ''ابنائنا ''سے مراد صرف امام حسن(ع) اور امام حسين(ع) ہيں_''نسائنا''سے مراد جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا ہيں اور''انفسنا'' سے مراد صرف حضرت على (ع) ہيں_

اس سلسلے ميں بہت سى احاديث نقل ہوئي ہيں_ اہل سنت كے بعض مفسرين نے جوبہت ہى تعداد ميں ہيں_ اس سلسلے ميں وارد ہونے والى احاديث كا انكار كرنے كى كوشش كى ہے_ مثلاًمولف''المنار''نے اس آيت كے ذيل ميں كہا ہے:

''يہ تمام روايات شيعہ طريقوں سے مروى ہيں،ان كا مقصد معين ہے،انہوں نے ان احاديث كى نشرو اشاعت اور ترويج كى كوشش كى ہے_ جس سے بہت سے علماء اہل سنت كو بھى اشتباہ ہوگيا ہے''_

ليكن اہل سنت كى بنيادى كتابوں كى طرف رجوع كيا جائے تو وہ نشاندہى كرتى ہيں كہ ان ميں سے بہت سے طريقوں كا شيعوں يا ان كى كتابوں سے ہرگز كوئي تعلق نہيںہے اور اگر اہل سنت كے طريقوںسے مروى ان احاديث كا انكار كيا جائے تو ان كى باقى احاديث اوركتب بھى درجہ اعتبار سے گرجائيں گي_

اس حقيقت كو زيادہ واضح كرنے كے لئے اہل سنت كے طريقوں سے كچھ روايات ہم يہاںپيش كريں گے_

قاضى نوراللہ شوسترى اپنى كتاب نفيس ''احقاق الحق''(1)ميں لكھتے ہيں:


(1) جلد سوم طبع جديد صفحہ46

''مفسرين اس مسئلے ميں متفق ہيں كہ ''ابنائنا''سے اس آيت ميں امام حسن(ع) او رامام حسين(ع) مراد ہيں،''نسائنا''سے ''حضرت فاطمہ سلام اللہ عليہا''اور''انفسنا''ميں حضرت على عليہ السلام كى طرف اشارہ كيا گيا ہے''_

اس كے بعد كتاب مذكور كے حاشيے پر تقريباً ساٹھ بزرگان اہل سنت كى فہرست دى گئي ہے جنہوں نے تصريح كى ہے كہ آيت مباہلہ اہل بيت رسول عليہم السلام كى شان ميں نازل ہوئي ہے_(1)


(1) ان كے نام او ران كى كتاب كى خصوصيات صفحہ _46 سے ليكر صفحہ76 تك تفصيل سے بيان كى گئي ہے ان شخصيتوں ميں سے يہ زيادہ مشہور ہيں.

1_مسلم بن حجاج نيشاپوري،مو لف صحيح مسلم جو نامور شخصيت ہيں اور ان كى حديث كى كتاب اہل سنت كى چھ قابل اعتماد صحاح ميں سے ہے ملا حظہ ہو مسلم،ج7ص120طبع مصر زير اہتمام محمد على صبيح.

2_احمد بن حنبل نے اپني''مسند''ميں لكھاہے ملاحظہ ہو ،ج2ص185طبع مصر.

3_طبرى نے اپنى مشہور تفسير ميں اسى آيت كے ضمن ميں لكھا ہے_ ديكھئے ج3ص192طبع ميمنيہ مصر.

4_حاكم نے اپني''مستدرك''ميںلكھا ہے،ديكھئےج3ص15مطبوعہ حيدرآباد دكن.

5_حافظ ابو نعيم اصفہاني،كتاب ''دلائل النبوة''ص297مطبوعہ حيدرآباد دكن.

6_واحدى نيشاپوري،كتاب''اسباب النزول''ص74طبع ہند.

7_فخر رازي، نے اپنى مشہور تفسير كبير ميں لكھاہے،ديكھئےج8ص85طبع بہيہ،مصر.

8_ابن اثير،''جامع الاصول''جلد9ص470طبع سنتہ المحمديہ،مصر.

9_ابن جوزي''تذكرة الخواص'' صفحہ17طبع نجف.

10_قاضى بيضاوي،نے اپنى تفسير ميں لكھا ہے،ملاحظہ كريں ج2ص22طبع مصطفى محمد،مصر.

11_آلوسى نے تفسير''روح المعاني''ميں لكھا ہے_ ديكھئے _ج 3ص167طبع منيريہمصر.

12_معروف مفسر طنطاوى نے اپنى تفسير ''الجواھر''ميں لكھا ہے _ج2ص120مطبوعہ مصطفى اليابى ال.حلبي،مصر.

13_زمخشرى نے تفسير''كشاف''ميں لكھا ہے،ديكھئے_ج1ص193،مطبوعہ مصطفى محمد،مصر.

14_حافظ احمد ابن حجر عسقلانى ،''الاصابة''_ج2ص503،مطبوعہ مصطفى محمد،مصر. -->

''غاية المرام'' ميں صحيح مسلم كے حوالے سے لكھا'':

''ايك روز معاويہ نے سعد بن ابى وقاص سے كہا:''

تم ابو تراب ( على (ع) ) كو سب وشتم كيوں نہيں كرتے_وہ كہنے لگا_

جب سے على (ع) كے بارے ميں پيغمبر(ص) كى كہى ہوئي تين باتيں مجھے ياد آتى ہيں،ميں نے اس كام سے صرف نظركرليا ہے_ان ميں سے ايك يہ تھى كہ جب آيت مباہلہ نازل ہوئي تو پيغمبر(ص) نے فاطمہ(ع) ،حسن(ع) ،حسين(ع) ،اور على (ع) كو دعوت دي_اس كے بعد فرمايا''اللھم ھو لاء اھلي''(يعنى خدايا يہ ميرے نزديكى اور خواص ہيں)_

تفسير''كشاف''كے مو لف اہل سنت كے بزرگوں ميں سے ہيں_ وہ اس آيت كے ذيل ميں كہتے ہيں_''يہ آيت اہل كساء كى فضيلت كو ثابت كرنے كے لئے قوى ترين دليل ہے''_

شيعہ مفسرين،محدثين اور مو رخين بھى سب كے سب اس آيت كے ''اھل بيت ''كى شان ميں نازل ہونے پر متفق ہيں چنانچہ''نورالثقلين'' ميں اس سلسلے ميں بہت سى روايات نقل كى گئي ہيں_ ان ميں سے ايك كتاب''عيون اخبار الرضا''ہے_ اس ميں ايك مجلس مناظرہ كا حال بيان كيا گيا ہے،جو مامون نے اپنے دربار ميں منعقد كى تھي_

اس ميں ہے كہ امام على بن موسى رضا عليہ السلام نے فرمايا:

''خدا نے اپنے پاك بندوں كو آيت مباہلہ ميں مشخص كرديا ہے اور اپنے پيغمبر(ص) كو حكم ديا ہے:

''فمن حاجك فيہ من بعد ما جاء ك من العلم فقل''

اس آيت كے نزول كے بعد پيغمبر(ص) ،على (ع) ،فاطمہ(ع) ،حسن(ع) ،اور حسين(ع) كو اپنے ساتھ مباھلہ كے لئے لے


<-- 15_ابن صباغ،''فصول المہمة''_ص108مطبوعہ نجف. 

16_علامہ قرطبي،''الجامع الاحكام القرآن''_ج3ص104مطبوعہ مصر 1936.

گئے اور يہ ايسى خصوصيت اور اعزاز ہے كہ جس ميں كوئي شخص اہل بيت عليہم السلام پر سبقت حاصل نہيں كرسكا اور يہ ايسى منزلت ہے جہاں تك كوئي شخص بھى نہيں پہنچ سكا اور يہ ايسا شرف ہے جسے ان سے پہلے كوئي حاصل نہيں كرسكا''_

تفسير''برہان''،''بحارالانوار''اور تفسير''عياشي''ميں بھى اس مضمون كى بہت سى روايات نقل ہوئي ہيں جو تمام اس امر كى حكايت كرتى ہيں كہ مندرجہ بالا آيت''اہل بيت''عليہم السلام كے حق ميں نازل ہوئي ہے_

* * * * *

زينب سے آنحضرت (ص) كى شادي(1)

زمانہ بعثت سے پہلے اور اس كے بعد جب كہ حضرت خديجة الكبرى (ع) نے پيغمبر اسلام سے شادى كى تو حضرت خديجہ (ع) نے ''زيد'' نامى ايك غلام خريدا،جسے بعد ميں آنحضرت(ص) كو ہبہ كرديا_

آپ(ص) نے اسے آزاد كرديا_ چونكہ اس كے قبيلے نے اسے اپنے سے جدا كرديا تھا،لہذا رسول رحمت نے اسے اپنا بيٹا بناليا تھا،جسے اصطلاح ميں''تبنّي'' كہتے ہيں_

ظہور اسلام كے بعد زيد مخلص مسلمان ہوگيا اور اسلام كے ہر اول دستے ميں شامل ہوگئے اور اسلام ميں ايك ممتاز مقام حاصل كرليا_ آخر ميں جنگ موتہ ميں ايك مرتبہ لشكر اسلام كے كمانڈر بھى مقرر ہوئے اور اسى جنگ ميں شربت شہادت نوش كيا_

جب سركار رسالت (ص) نے زيد كا عقد كرنا چاہا تو اپنى پھوپھى زاد،بہن زينب بنت حجش ''بنت اميہ بنت عبد المطلب سے اس كے لئے خواستگارى كي_ زينب نے پہلے تو يہ خيال كيا كہ آنحضرت(ص) اپنے لئے اسے انتخاب كرناچاہتے ہيں_لہذا وہ خوش ہوگئي اور رضا مندى كا اظہار كرديا،ليكن بعدميں جب اسے پتہ چلا كہ آپ(ص) كى يہ خواستگارى تو زيد كے لئے تھى تو سخت پريشان ہوئيںاور انكار كرديا _ اس كے بھائي عبداللہ نے بھى اس چيز كى سخت مخالفت كي_


اكثر مفسرين و مورخين اسلامى كے بقول سورہ احزاب كى آيات 36تا38/اس سلسلے ميں نازل ہوئي ہيں

يہى وہ مقام تھا جس كے بارے ميںوحى الہى نازل ہوئي او رزينب اور عبداللہ جيسے افراد كو تنبيہ كى كہ جس وقت خدا اور اس كا رسول كسى كام كو ضرورى سمجھيں تو وہ مخالقت نہيں كر سكتے_

جب انھوں نے يہ بات سنى تو سر تسليم خم كرديا _ (البتہ آگے چل كرمعلوم ہوگا كہ يہ شادى كوئي عام شادى نہيں تھى بلكہ يہ زمانہ جاہليت كى ايك غلط رسم كو توڑنے كے لئے ايك تمہيد تھى كيونكہ زمانہ جاہليت ميں كسى باوقار اور مشہور خاندان كى عورت كسى غلام كے ساتھ شادى كرنے كے لئے تيار نہيں ہوتى تھي،چاہے وہ غلام كتنا ہى اعلى قدر وقيمت كا مالك كيوں نہ ہوتا_

ليكن يہ شادى زيادہ ديرتك نہ نبھ سكى اور طرفين كے درميان اخلاقى نا اتفاقيوں كى بدولت طلاق تك نوبت جا پہنچى _ اگر چہ پيغمبر اسلام(ص) كا اصرار تھا كہ يہ طلاق واقع نہ ہو ليكن ہوكر رہي_

اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) نے شادى ميں اس نا كامى كى تلافى كے طور پر زينب كو حكم خدا كے تحت اپنے حبالہ عقد ميں لے ليا اور يہ بات يہيں پر ختم ہوگئي_

ليكن دوسرى باتيں لوگوں كے درميان چل نكليں جنہيں قرآن نے مربوط آيات كے ذريعے ختم كرديا_اسكے بعد زيد اور اس كى بيوى زينب كى اس مشہور داستان كو بيان كيا گيا ہے جو پيغمبر اسلام(ص) كى زندگى كے حساس مسائل ميں سے ايك ہے اور ازواج رسول(ص) كے مسئلہ سے مربوط ہے _

چنانچہ ارشاد ہوتاہے كہ:''اس وقت كو ياد كرو جب اس شخص كو جسے خدا نے نعمت دے ركھى تھى اور ہم نے ابھى ،اے رسول(ص) اسے نعمت دى تھى او رتم كہتے تھے كہ اپنى بيوى كو روكے ركھو اور خدا سے ڈرو''_(1)

نعمت خدا سے مراد وہى ہدايت اور ايمان كى نعمت ہے جو زيد بن حارثہ كو نصيب ہوئي تھى اور پيغمبر(ص) كى نعمت يہ تھى كہ آپ(ص) نے اسے آزاد كيا تھا اور اپنے بيٹے كى طرح اسے عزت بخشى تھي_

اس سے معلوم ہوتا ہے كہ زيد او رزينب كے درميان كوئي جھگڑا ہوگيا تھا اور يہ جھگڑا اس قدرطول پكڑ


(1)سورہ احزاب آيت 37

گيا كہ نوبت جدائي اور طلاق تك جاپہنچى _ اگرآيت ميںلفظ''تقول''كى طرف توجہ كى جائے تو معلوم ہوگا كہ يہ فعل مضارع ہے او راس بات پر دلالت كررہا ہے كہ آنحضرت(ص) بارہا بلكہ ہميشہ اسے نصيحت كرتے اور روكتے تھے_

كيا زينب كا يہ نزاع زيد كى سماجى حيثيت كى بناء پر تھا جو زينب كى معاشرتى حيثيت سے مختلف تھي؟كيونكہ زينب كا ايك مشہور ومعروف قبيلہ سے تعلق تھا اور زيد آزاد شدہ تھا_ يا زيد كى اخلاقى سختيوں كى وجہ سے تھا؟يا ان ميں سے كوئي بات بھى ،نہيں تھى بلكہ دونوں ميں روحانى او راخلاقى موافقت اور ہماآہنگى نہيں تھي؟كيونكہ ممكن ہے دو افراد اچھے تو ہوں ليكن فكر ونظر اور سليقہ كے لحاظ سے ان ميں اختلاف ہوجس كى بناء پر اپنى ازدواجى زندگى كوآئندہ كے لئے جارى نہ ركھ سكتے ہوں؟

پيغمبر(ص) كى نظر ميں تھا كہ اگر ان مياں بيوى كے درميان صلح صفائي نہيں ہوپائي اور نوبت طلاق تك جاپہنچتى ہے تو وہ اپنى پھوپھى زادبہن زينب كى اس نا كامى كى تلافى اپنے ساتھ نكاح كى صورت ميں كرديں گے،اس كے ساتھ آپ(ص) كو يہ خطرہ بھى لاحق تھا كہ لوگ دو وجوہ كى بناء پر آپ(ص) پر اعتراض كريں گے اور مخالفين ايك طوفان بدتميزى كھڑا كرديں گے_

اس سلسلے ميں قرآن كہتا ہے :''تم اپنے دل ميں ايك چيز كو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا آشكار كرتا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہوحالانكہ تمہارا پروردگارزيادہ حق ركھتا ہے كہ اس سے ڈرو''_(1)

پہلى وجہ تويہ تھى كہ زيد آنحضرت(ص) كا منہ بولا بيٹا تھا،اور زمانہ جاہليت كى رسم كے مطابق منہ بولے بيٹے كے بھى وہى احكام ہوتے تھے جو حقيقى بيٹے كے ہوتے ہيں _ منجملہ ان كے يہ بھى تھا كہ منہ بولے بيٹے كى مطلقہ سے بھى شادى كرنا حرام سمجھاجاتا تھا _

دوسرى يہ كہ رسول اكرم (ص) كيونكراس بات پر تيار ہوسكتے ہيں كہ وہ اپنے ايك آزاد كردہ غلام كي


(1)سورہ احزاب آيت37

مطلقہ سے عقد كريں جبكہ آپ كى شادى بہت بلندوبالاہے _

بعض اسلامى روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ آپ نے يہ ارادہ حكم خداوندى سے كيا ہوا تھا اوربعد والے حصے ميں بھى اس بات كا قرينہ موجود ہے_

اس بناء پر يہ مسئلہ ايك تو اخلاتى اور انسانى مسئلہ تھا اور دوسرے يہ زمانہ جاہليت كى غلط رسموں كو توڑنے كا ايك نہايت ہى مو ثر ذريعہ تھا (يعنى منہ بولے بيٹے كى مطلّقہ سے ازادكردہ غلام كى مطلّقہ سے عقد)_

مسلم ہے كہ پيغمبراكرم (ص) كو ان مسائل ميں نہ تو لوگوں سے ڈرنا چاہئے تھا اور نہ ہى فضا كے مكدر ہونے اور زہريلے پروپيگنڈے سے خوف ووحشت كا شكارہى ہوجاتے ،خاص كرجب يہ احتمال ہوكہ ايك جنجال كھڑاہوجائے گااور آپ اور آپ كے مقدس مشن كى ترقى اور اسلام كى پيش رفت كےلئے ركاوٹ كھڑى ہوجائے گى اور يہ بات ضعيف الايمان افراد كو متزلزل كردے گى اور ان كے دل ميں شك وشبہات پيدا ہوجائيں گے _

اس لئے قرآن ميںاس سلسلہ كے آخرميں فرمايا گيا ہے:

'' جس وقت زيد نے اپنى حاجت كو پورا كرليا اور اپنى بيوى كو چھوڑديا تو ہم اسے تمہارى زوجيت ميں لے آئے تاكہ منہ بولے بيٹوں كى بيويوں كے مطلّقہ ہونے كے بعد مومنين كو ان سے شادى كرنے ميں كوئي مشكل نہ ہو''_(1)

يہ كام ايسا تھا جسے ا نجام پاجانا چاہئے تھا

''اور خدا كافرمان انجام پاكر رہتا ہے''_ (2)

قابل توجہ بات يہ ہے كہ قرآن ہرقسم كے شك وشبہ كو دور كرنے كےلئے پورى صراحت كے ساتھ اس


(1) سورہ احزاب آيت 37

(2) سورہ احزاب آيت 37

شادى كا اصل مقصد بيان كرتا ہے جو زمان ہ جاہليت كى ايك رسم توڑنے كے لئے تھى يعنى منہ بولے بيٹوں كى مطلقہ عورتوں سے شادى نہ كرنے كے سلسلے ميں يہ خود ايك كلى مسئلہ كى طرف اشارہ ہے كہ پيغمبر (ص) كا مختلف عورتوں سے شادى كرنا كوئي عام سى بات نہيں تھى بلكہ اس ميں كئي مقاصد كا ذكر كرنا مقصود تھا جو آپ كے مكتب كے مستقبل كے انجام سے تعلق ركھتا تھا _(1)


(1)پيغمبر اكرم (ص) كى زينب كے ساتھ شادى كى داستان قرآن نے پورى صراحت كے ساتھ بيان كردى ہے اور يہ بھى واضح كرديا ہے كہ اس كا ہدف منہ بولے بيٹے كى مطلقہ سے شادى كے ذريعے دور جاہليت كى ايك رسم كو توڑنا تھا، اس كے باوجود دشمنان اسلام نے اسے غلط رنگ دے كر ايك عشقيہ داستان ميں تبديل كرديا اس طرح سے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كى ذات والا صفات كو آلودہ كرنے كى ناپاك جسارت كى ہے اور اس بارے ميں مشكوك اور جعلى احاديث كا سہاراليا ہے ان داستانوں ميں ايك يہ بھى ہے كہ جس وقت رسول اكرم (ص) زيد كى احوال پرسى كے لئے اس كے گھرگئے اور جو نہى آپ نے دروازہ كھولا تو آپ كى نظر زينب كے حسن وجمال پر جا پڑى تو آپ نے فرمايا :

''سبحان اللہ خالق النور تبارك اللہ احسن الخالقين''

''منزہ ہے وہ خدا جو نور كا خالق ہے اور جاويدو بابركت ہے وہ اللہ جو احسن الخالقين ہے''_

ان لوگوں نے اس جملے كو زينب كے ساتھ آنحضرت (ص) كے لگائو كى دليل قرارديا ہے، حالانكہ ،عصمت ونبوت كے مسئلہ سے قطع نظر بھى اس قسم كے افسانوں كى تكذيب كے لئے واضح شواہد ہمارے پاس موجود ہيں :

پہلا يہ كہ حضرت زينب، رسول پاك كى پھوپھى زاد بہن تھيں اور خاندانى ماحول ميں تقريباً آپ كے سامنے پلى بڑھى تھيں اور آپ ہى نے زيد كے لئے ان كى خواستگارى كى تھى اگر زينب حد سے زيادہ حسين تھيں اور بالفرض اس كے حسن وجمال نے پيغمبر اكرم كى توجہ كو اپنى طرف جذب كرليا تھا تونہ تو اس كا حسن وجمال ڈھكا چھپا تھا اور نہ ہى اس ماجرے سے پہلے ان كے ساتھ آنحضرت كا عقد كرنا كوئي مشكل امر تھا بلكہ اگر ديكھا جائے تو زينب كو زيد كے ساتھ شادى كرنے سے دلچپى نہ تھى ، بلكہ اس بارے ميں انہوں نے اپنى مخالفت كا اظہار صراحت كے ساتھ بھى كرديا تھا اور وہ اس بات كو كا ملاً ترجيح ديتى تھيں كہ زيد كى بجائے رسول اللہ كى بيوى بنيں، كيونكہ جب آنحضرت زيد كےلئے زينب سے رشتہ دينے آئے تو وہ نہايت خوش ہوگئيں، كيونكہ وہ يہ سمجھ رہى تھيں كہ آپ ان سے اپنے لئے خواستگارى كى غرض سے تشريف لائے ہيں ،ليكن بعد ميں وحى الہى كے نزول اور خدا وپيغمبر (ص) كے سامنے سر تسليم خم كرتے ہوئے زيد كے ساتھ شادى كرنے پر راضى ہوگئيں
-->


<-- تو ان حالات كو سامنے ركھتے ہوئے توہم كى كونسى گنجائشے باقى رہ جاتى ہے كہيں آپ زينب كے حالات سے بے خبر تھے؟ يا آپ ان سے شادى كى خواہش ركھتے ہوئے بھى اقدام نہيں كرسكتے تھے؟

دوسرا يہ كہ جب زيدنے اپنى بيوى زينب كو طلاق دينے كے لئے رسول اللہ (ص) كى طرف رجوع كيا تو آپ نے بار باراسے نصيحت كى اور اطلاق دينے كے لئے روكا اور يہ چيز بجائے خود ان افسانوں كى نفى كا ايك اورشاہدہے _

پھر يہ كہ خود قرآن صراحت كے ساتھ اس شادى كا مقصد بيان كرتا ہے تاكہ كسى قسم كى دوسرى باتوں كى گنجائشے باقى نہ رہے_

چوتھا امر يہ ہے كہ قرآنى آيت ميں خداو ندعا لم اپنے پيغمبر (ص) سے فرماتاہے كہ زيد كى مطلقہ بيوى كے ساتھ شادى كرنے ميں كوئي خاص بات تھى جس كى وجہ سے آنحضرت (ص) لوگوں سے ڈرتے تھے، جبكہ انھيں صرف خدا سے ہى ڈرنا چاہئے_

خوف خدا كا مسئلہ واضح كرتا ہے كہ يہ شادى ايك فرض كى بجا آورى كے طور ر انجام پائي تھى كہ خدا كى ذات كے لئے شخصى معاملات كو ايك طرف ركھ دينا چاہئے تاكہ ايك خدائي مقدس ہدف پورا ہوجائے، اگرچہ اس سلسلے ميں كو ردل دشمنوں كى زبان كے زخم اور منافقين كى افسانہ طرازى كا پيغمبر كى ذات پر الزام ہى كيوں نہ آتا ہو پيغمبر اكرم (ص) نے حكم خدا كى اطاعت اور غلط رسم كو توڑنے كى پاداش ميں يہ ايك بہت بڑى قيمت ادا كى ہے اور اب تك كررہے ہيں _

ليكن سچے رہبروں كى زندگى ميں ايسے لمحات بھى آجاتے ہيں ، جن ميں انھيں ايثار اور فداكارى كا ثبوت دينا پڑتاہے ، اور وہ اس قسم كے لوگوں كے اتہامات اور الزامات كا نشانہ بنتے رہتے ہيں تاكہ اس طرح سے وہ اپنے اصل مقصد تك پہنچ جائيں

البتہ اگر پيغمبر گرامى قدر نے زينب كو بالكل ہى نہ ديكھا ہوتا اور نہ ہى پہچانا ہوتا اور زينب نے بھى آپ كے ساتھ ازدواج كے بارے ميں رغبت كا اظہار نہ كيا ہوتا اور زيد بھى انھيں طلاق دينے پر تيار نہ ہوتے (نبوت وعصمت كے مسئلہ سے ہٹ كر)پھر تو اس قسم كى گفتگو اور توہمات كى گنجائشے ہوتي،ليكن پيغمبر(ص) كى تو وہ ديكھى دكھائي تھيںلہذا ان تمام امكانات كى نفى كے ساتھ ان افسانوں كا جعلى اور من گھڑت ہونا واضح ہو جاتا ہے_

علاوہ ازيں نبى اكرم(ص) كى زندگى كا كوئي لمحہ يہ نہيں بتاتا كہ آپ(ص) كو زينب سے كوئي خاص لگائو او ررغبت ہو،بلكہ دوسرى بيويوں كى نسبت ان سے كوئي رغبت ركھتے تھے اور ان افسانوں كى نفى پر يہ ايك اور دليل ہے _

ثعلبہ

''ثعلبہ بن حاطب انصاري'' ايك غريب آدمى تھا،روزانہ مسجد ميں آيا كرتا تھا اس كا اصرار تھاكہ رسول اكرم(ص) دعا فرمائيں كہ خدا اس كو مالا مال كردے_ حضور (ص) نے اس سے فرمايا:

''مال كى تھوڑى مقدار جس كا تو شكر ادا كر سكے مال كى كثرت سے بہتر ہے جس كا تو شكر ادا نہ كرسكے''_

كيا يہ بہترنہيں ہے كہ تو خدا كے پيغمبر(ص) كى پيروى كرے اور سادہ زندگى بسر كرے _

ليكن ثعلبہ مطالبہ كرتا رہا او ر آخر كار اس نے پيغمبر اكرم(ص) سے عرض كيا كہ ميں آپ(ص) كو اس خدا كى قسم ديتا ہوں جس نے آپ(ص) كو حق كے ساتھ بھيجا ہے_ اگر خدا نے مجھے دولت عطا فرمائي تو ميں اس كے تمام حقوق ادا كروں گا_چنانچہ آپ(ص) نے اس كے لئے دعا فرمائي_

ايك روايت كے مطابق زيادہ وقت نہيں گذرا تھا كہ اس كا ايك چچا زاد بھائي جو بہت مال دار تھا ، وفات پاگيا اور اسے بہت سى دولت ملي_

ايك اور روايت ميں ہے كہ اس نے ايك بھيڑ خريدى جس سے اتنى نسل بڑھى كہ جس كى ديكھ بھال مدينہ ميں نہيں ہوسكتى تھى _ اس لئے انھيں مدينہ كے آس پاس كى آباديوں ميں لے گيا اور مادى زندگى ميں اس قدر مصروف ہوگيا كہ نماز با جماعت تو كيا نماز جمعہ ميں بھى نہ آتا تھا ايك مدت كے بعد رسول اكرم(ص) نے زكوةوصول كرنے والے عامل كو اس كے پاس زكوة لينے كے لئے بھيجا ليكن اس كم ظرف كنجوس نے نہ صرف

خدائي حق كى ادائيگى ميں پس وپيش كيا بلكہ شرع مقدس پر بھى اعتراض كيا اور كہا كہ يہ حكم جزيہ كى طرح ہے يعنى ہم اس لئے مسلمان ہوئے تھے كہ جزيہ دينے سے بچ جائيں_ اب زكوة دينے كى شكل ميں ہم ميں اور غير مسلموں ميں كون سافرق باقى رہ جاتا ہے_ حالانكہ اس نے نہ جزيہ كا مطلب سمجھا تھا اور نہ زكوة كا اور اگر اس نے سمجھا تھا تو دنيا پرستى جو اسے حقيقت كے بيان او راظہار حق كى اجازت نہيں ديتى تھي،غرض جب حضرت رسول اكرم (ص) نے اس كى باتيں سنيں تو فرمايا:

''يا ويح ثعلبہ يا ويح ثعلبہ''_

''وائے ہو ثعلبہ پر ہلاكت ہو ثعلبہ پر''_(1)

تمت بالخير

* * * * *

* * *


(1)مفسرين كے درميان مشہور ہے كہ سورہ توبہ كى آيت 75تا 78 اس واقعہ كو بيان كيا گيا ہے.