ديگر قرآنى واقعات

حضرت لقمان

حضرت لقمان كا نام سورہ لقمان كى دوايا ت ميں ايا ہے ،ايا وہ پيغمبر تھے يا صرف ايك دانا اور صاحب حكمت انسان تھے ؟قران ميں اس كى كوئي وضاحت نہيں ملتى ،ليكن ان كے بارے ميں قران كالب ولہجہ نشان دہى كرتا ہے كہ وہ پيغمبر نہيں تھے كيونكہ عام طور پر پيغمبروں كے بارے ميں جو گفتگو ہوتى ہے اس ميں رسالت; توحيد كى طرف دعوت ،شرك اور ماحول ميں موجود بے راہ روى سے نبر دازمائي ،رسالت كى ادائيگى كے سلسلہ ميں كسى قسم كى اجرت كا طلب نہ كرنا نيز امتوں كو بشارت و انذار كے مسائل وغيرہ ديكھنے ميں اتے ہيں ،جب كہ لقمان كے بارے ميں ان مسائل ميں سے كوئي بھى بيان نہيں ہوا، صرف انكے پند نصائح بيان ہوئے ہيں جو اگر چہ خصوصى طورپر تو ان كے اپنے بيٹے كے لئے ہيں ليكن ان كا مفہوم عمومى حيثيت كا حامل ہے اور يہى چيز اس بات پر گواہ ہے كہ وہ صرف ايك مرد حكيم و دانا تھے _

جو حديث پيغمبر گرامى اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے اس طرح درج ہے :

'' سچى بات يہ ہے كہ لقمان پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ اللہ كے ايسے بندے تھے جو زيادہ غور وفكر كيا كرتے ، ان كا ايمان و يقين اعلى درجے پر تھا، خدا كو دوست ركھتے تھے اور خدا بھى انھيں دوست ركھتا تھا اور اللہ نے انھيں اپنى نعمتوں سے مالا مال كرديا تھا ''_

بعض تواريخ ميں ہے لقمان مصر اور سوڈان كے لوگوںميں سے سياہ رنگ كے غلام تھے باوجود يكہ ان كا چہرہ خوبصورت نہيں تھا ليكن روشن دل اور مصفا روح كے مالك تھے وہ ابتدائے زندگى سے سچ بولتے اورا

مانت كو خيانت سے الودہ نہ كرتے اور جو امور ان سے تعلق نہيں ركھتے تھے ان ميں دخل اندازى نہيں كرتے تھے _

بعض مفسرين نے ان كى نبوت كا احتما ل ديا ہے ليكن جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں اس پر كوئي دليل موجود نہيں ہے بلكہ واضح شواہد اس كے خلاف موجود ہيں _

يہ تمام حكمت كہاں سے

بعض روايات ميں ايا ہے كہ ايك شخص نے لقمان سے كہا كيا ايسا نہيں ہے كہ اپ ہمارے ساتھ مل كر جانور چراياكرتے تھے ؟

اپ نے جواب ميں كہا ايسا ہى ہے اس نے كہا تو پھر اپ كو يہ سب علم و حكمت كہاں سے نصيب ہوئے ؟

لقمان نے فرمايا:اللہ كى قدر ت،امانت كى ادائيگى ،بات كى سچائي اور جو چيز مجھ سے تعلق نہيں ركھتى اس كے بارے ميں خاموشى اختيار كرنے سے

حديث بالا كے ذيل ميں انحضرت سے ايك روايت يوں بھى نقل ہوئي ہے كہ :

''ايك دن حضرت لقمان دوپہر كے وقت ارام فرمارہے تھے كہ اچانك انھوں نے ايك اواز سنى كہ اے لقمان كيا اپ چاہتے ہيں كہ خداوند عالم اپ كو زمين ميں خليفہ قرار دے تاكہ لوگوں كے درميان حق كے ساتھ فيصلہ كريں ؟

لقمان نے اس كے جواب ميںكہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اختيار دےدے تو ميں عافيت كى راہ قبول كروں گا كيونكہ ميں جانتا ہوںكہ اگر اس قسم كى ذمہ دارى ميرے كندھے پر ڈال دے گا تو يقينا ميرى مدد بھى كرے گا اور مجھے لغزشوں سے بھى محفوظ ركھے گا _

فرشتوں نے اس حالت ميں كہ لقمان انھيں ديكھ رہے تھے كہا اے لقمان كيوں (ايسا نہيں كرتے؟)

تو انھوں نے كہا اس لئے كيونكہ لوگوں كے درميان فيصلہ كرنا سخت ترين منزل اور اہم ترين مرحلہ ہے

اور ہر طرف سے ظلم و ستم كى موجيں اس كى طرف متوجہ ہيں اگر خدا انسان كى حفاظت كرے تو وہ نجات پاجائے گا ليكن اگر خطا كى راہ پر چلے تو يقينا جنت كى راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص كا سر دنيا ميںجھكا ہوا اور اخرت ميں بلند ہو اس سے بہتر ہے كہ جس كا سر دنياميںبلند اور اخرت ميں جھكا ہو اہو اور جو شخص دنيا كو اخرت پر ترجيح دے تو نہ تو وہ دنيا كو پاسكے گا اور نہ ہى اخرت كو حاصل كر سكے گا _

فرشتے لقمان كى اس دلچسپ گفتگو اور منطقى باتوں سے متعجب ہوئے ،لقمان نے يہ بات كہى اور سوگئے اور خدانے نور حكمت ان كے دل ميں ڈال ديا جس وقت بيدار ہوئے تو ان كى زبان پر حكمت كى باتيں تھيں ''_

* * * * *

اصحاب كہف

چند بيدار فكر اور باايمان نوجوان تھے ،وہ نازو نعمت كى زندگى بسر كر رہے تھے ،انھوں نے اپنے عقيدے كى حفاظت اور اپنے زمانے كے طاغوت سے مقابلے كے لئے ان سب نعمتوں كو ٹھوكر ماردى پہاڑ كے ايك ميں جا پناہ لى ،وہ جس ميں كچھ بھى نہ تھا ،يہ اقدام كر كے انھوں نے راہ ايمان ميں اپنى استقامت اور پا مردى ثابت كردى _

يہ بات لائق توجہ ہے كہ اس مقام پر قران فن فصاحت و بلاغت كے ايك اصول سے كام ليتے ہوئے پہلے ان افراد كى سر گزشت كو اجمالى طورپر بيان كرتا ہے تاكہ سننے والوں كا ذہن مائل ہو جائے ،اس سلسلے ميں چار ايات ميں واقعہ بيان كيا گيا ہے اور اس كے بعد ميں تفصيل بيان كى گئي ہے _

اصحاب كہف كى زندگى كا اجمالى جائزہ

پہلے فرمايا گيا ہے :''كيا تم سمجھتے ہو كہ اصحاب كہف و رقيم ہمارى عجيب ايات ميں سے تھے ''_(1)

زمين و اسمان ميں ہمارى بہت سى عجيب ايا ت ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك عظمت تخليق كا ايك نمونہ ہے ،خود تمہارى زندگى ميں عجيب اسرار موجود ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك تمہارى دعوت كى حقانيت كى نشانى ہے اور اصحاب كہف كى داستان مسلما ً ان سے عجيب تر نہيں ہے _


(1)سورہ كہف ايت 9

''اصحاب كہف''(اصحاب )كو يہ نام اس لئے ديا گيا ہے كيونكہ انھوں نے اپنے جان بچانے كے لئے ميں پناہ لى تھى جس كى تفصيل انكى زندگى كے حالات بيان كرتے ہوئے ائے گى _

ليكن ''رقيم ''دراصل ''رقم ''كے مادہ سے'' لكھنے ''كے معنى ميں ہے ،زيادہ تر مفسرين كا نظريہ ہے كہ يہ اصحاب كہف كا دوسرا نام ہے كيونكہ اخر كا ر اس كا نام ايك تختى پر لكھا گيا اور اسے كے دروزاے پر نصب كيا گيا _

بعض اسے اس پہاڑ كا نام سمجھتے ہيںكہ جس ميں يہ تھى اور بعض اس زمين كانام سمجھتے ہيں كہ جس ميں وہ پہاڑ تھا بعض كا خيال ہے كہ يہ اس شہر كانام ہے جس سے اصحاب كہف نكلے تھے ليكن پہلا معنى زيادہ صحيح معلوم ہوتا ہے _(1)

اس كے بعد فرمايا گيا ہے :

''اس وقت كا سوچو جب چند جوانوں نے ايك ميں جاپناہ لي''_(2)(3)


(1)رہا بعض كا يہ احتمال كہ اصحاب كہف اور تھے اور اصحاب رقيم اور تھے بعض روايت ميںان كے بارے ميں ايك داستان بھى نقل كى گئي ہے ،يہ ظاہر ايت سے ہم اہنگ نہيں ہے كيونكہ زير قران كا ظاہرى مفہوم يہ ہے كہ اصحاب كہف و رقيم ايك ہى گروہ كا نام ہے يہى وجہ ہے كہ ان دو الفاظ كے استعمال كے بعد صرف ''اصحاب كہف ''كہہ كر داستان شروع كى گئي ہے اور انكے علاوہ ہر گز كسى دوسرے گروہ كا ذكر نہيں كيا گيا ،يہ صورت حال خود ايك ہى گروہ ہونے كى دليل ہے

(2)سورہ كہف آيت10

(3)جيسا كہ قرآن ميں موجود ہے: ''اذا وى الفتية الى الكھف''

(فتية) فتى كى جمع ہے_در اصل يہ نوخيز و سرشار جوان كے معنى ميں ہے البتہ كبھى كبھار بڑى عمر والے ان افراد كے لئے بھى بولاجاتا ہے كہ جن كے جذبے جوان اور سرشار ہوں_اس لفظ ميں عام طورپر جوانمردى حق كے لئے ڈٹ جانے اور حق كے حضور سر تسليم خم كرنے كا مفہوم بھى ہوتا ہے_

اس امر كى شاہد وہ حديث ہے جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے_

امام(ع) نے اپنے ايك صحابى سے پوچھا:''فتى ''كس شخص كو كہتے ہيں؟-->

جب وہ ہر طرف سے مايوس تھے،انہوں نے بارگاہ خدا كا رخ كيا اور عرض كي:''پروردگاراہميں اپنى رحمت سے بہرہ ور كر''_(1)

اور ہمارے لئے راہ نجات پيدا كردے_

ايسى راہ كہ جس سے ہميں اس تاريك مقام سے چھٹكارا مل جائے اور تيرى رضا كے قريب كردے_ ايسى راہ كہ جس ميں خير و سعادت ہو اور ذمہ دارى ادا ہوجائے_

ہم نے ان كى دعا قبو ل كي''ان كے كانوں پر خواب كے پردے ڈال ديئے اور وہ سالہا سال تك ميں سوئے رہے''_

''پھر ہم نے انہيں اٹھايا اور بيدار كيا تا كہ ہم ديكھيں كا ان ميں سے كون لوگ اپنى نيند كى مدت كا بہتر حساب لگاتے ہيں''_(2)

داستان اصحاب كہف كى تفصيل

جيسا كہ ہم نے كہا ہے اجمالى طور پر واقعہ بيا ن كرنے كے بعد ميں اس كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ گفتگو كا آغازيوں كيا گياہے: ''ان كى داستان،جيسا كہ ہے،ہم تجھ سے بيان كرتے ہيں''_(3)

ہم اس طرح سے واقعہ بيان كرتے ہيں كہ وہ ہر قسم كى فضول بات بے بنياد چيزوں اور غلط باتو ں سے پاك ہوگا_


<-- اس نے جواباً عرض كيا:''فتى '' نوجوان كو كہتے ہيں_

امام(ع) نے فرمايا: كيا تجھے نہيں پتہ كہ اصحاب كہف پكى عمر كے آدمى تھے ليكن اللہ نے انہيں''فتية''كہا ہے اس لئے كہ وہ اللہ پر ايمان ركھتے تھے_

اس كے بعد مزيد فرمايا: جو اللہ پرايمان ركھتا ہو اور تقوى اختيار كيے ہو وہ''فتى ''(جوانمرد) ہے_

(1)سورہ كہف آيت 10

(2)سورہ كہف آيت11تا12

(3)سورہ كہف آيت13

''وہ چند جوانمرد تھے كہ جو اپنے رب پر ايمان لائے تھے اور ہم نے ان كى ہدايت اور بڑھا دى تھي''_(1)

قرآن سے اجمالى طور پر اور تاريخ سے تفصيلى طور پر يہ حقيقت معلوم ہوتى ہے كہ اصحاب كہف جس دور اور ماحول ميں رہتے تھے اس ميں كفر و بت پرستى كا دوردورہ تھا_ايك ظالم حكومت كہ جو عام طور پر شرك،كفر،جہالت،ت گرى اور ظلم كى محافظ تھى لوگوں كے سروں پر مسلط تھي_

ليكن يہ جوانمرد كہ جو ہوش و صداقت كے حامل تھے آخر كار اس دين كى خرابى كو جان گئے_ انہوں نے اس كى خلاف قيام كامصصم ارادہ كرليا اور فيصلہ كيا كہ اگر اس دين كے خاتمے كى طاقت نہ ہوئي تو ہجرت كرجائيں گے_اسى لئے گزشتہ بحث كے بعد قرآن كہتا ہے:''جب انہوں نے قيام كيا اور كہا كہ ہمارا رب آسمان و زمين كا پروردگار ہے،ہم نے ان كے دلوں كو مضبوط كرديا_انہوں نے كہا كہ ہم اس كے علاوہ كسى معبود كى ہرگز پرستش نہيں كريں گے''_(2)

''اگر ہم ايسى بات كريں اور اس كے علاوہ كسى كو معبود سمجھيں تو ہم نے بے ہودہ اور حق سے دور بات نہيں كہي''_(3)

ان با ايمان جوانمردوں نے واقعاً توحيد كے اثبات اور ''الھہ'' كى نفى كے لئے واضح دليل كا سہارا ليا اوروہ يہ كہ ہم واضح طور پر ديكھ رہے ہيں كہ آسمان و زمين كا كوئي مالك اور پروردگار بھى وہى آسمانوں اورزمين كا پروردگار ہے_

اس كے بعد وہ ايك اور دليل سے متوسل ہو ئے اور وہ يہ كہ''ہمارى اس قوم نے خدا كے علاوہ معبود بناركھے ہيں''(4)


(1)سورہ كہف آيت 13

(2)سورہ كہف آيت 14

(3)سورہ كہف آيت 15

(4)سورہ كہف آيت 15

تو كيا دليل وبرہان كے بغير بھى اعتقاد ركھا جاسكتا ہے''وہ ان كى الوہيت كے بارے ميں كوئي واضح دليل پيش كيوں نہيں كرے''_(1)

كيا تصور،خيال يااندھى تقلےد كى بناء پر ايسيا عقيدہ اختيار كيا جاسكتا ہے؟يہ كيسا كھلم كھلا ظلم اور عظيم انحراف ہے؟

ان توحيد پرست جواں مردوں نے بہت كوشش كى كہ لوگوں كے دلوں سے شرك كا زنگ اتر جائے اور ان كے دلوں ميں توحيد كى كونپل پھوٹ پڑے ليكن وہاں تو بتوں اور بت پرستى كاايسا شور تھا اور ظالم بادشاہ كے ظلم بے داد كا ايسا خوف تھا كہ گويا سانس مخلوق خدا كے سينے ميں گھٹ كے رہ گئي تھى اور نغمہ توحيد ان كے حلق ميں ہى اٹك كررہ گيا تھا_

لہذا انھوں نے مجبوراًاپنى نجات كے لئے اور بہتر ماحول كى تلاش كے لئے ہجرت كا عزم كيا_لہذا باہمى مشورے ہونے لگے كہ كہاں جائيں،كس طرف كوكوچ كريں_ آپس ميں كہنے لگے:''جب اس بت پرست قوم سے كنارہ كشى اختيار كرلو خدا كو چھوڑ كر جنہيں يہ پوجتے ہيں ان سے الگ ہوجائو اور اپنا حساب كتاب ان سے جدا كرلو تو ميں جاپناہ لو_''

تا كہ تمہارا پروردگار تم پر اپنى رحمت كا سايہ كردے اور اس مشكل سے نكال كر تمہيں نجات كى راہ پر لگا دے_

''غار''ايك پناہ گاہ

''كہف''ايك معنى خيز لفظ ہے،اس سے انسان كى بالكل ابتدائي طرز زندگى كى طرف ذہن چلا جاتا ہے،وہ ماحول كہ جب راتيں تاريك اور سرد تھيں_ روشنى سے محروم انسان جانكاہ دروں ميں زندگى بسر كرتے تھے_ وہ زندگى جس ميں مادى آسائشےوں كا كوئي پتہ نہ تھا_ جب نہ نرم بستر تھے نہ خوشحالي_


(1)سورہ كہف آيت15

اب جب اس طرف توجہ كہ جيسا تاريخ ميں منقول ہے اصحاب كہف اس دور ميں بادشاہ كے وزير اور بہت بڑے اہل منصب تھے_ انہوں نے بادشاہ اور اس كے مذہب كے خلاف قيام كيا_ اس سے واضح ہو تا ہے كہ ناز و نعمت سے بھرى اس زندگى كو چھوڑنا اور اس پر نشينى كو ترجيح دينا كس قدر عزم،حوصلہ دليرى اور جانثارى كا غماز ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ان كى روح كتنى عظيم تھي_

يہتاريك غار،سرد اور خاموش ضرور تھى اور اس ميں موذى جانوروں كا خطرہ بھى تھا ليكن يہاں نور و صفا اور توحيد و معنويت كى ايك دنيا آباد تھي_

رحمت الہى كے نور كى لكيروں نے اس كى ديواروں پر گويا نقش و نگار كرديا تھا اور لطف الہى كے آثار اس ميں موجزن تھے_ اس ميں طرح طرح كے مضحكہ خيز بت نہيں تھے اورظالم بادشاہ كا ہاتھ وہاں نہيں پہنچ سكتا تھا_ اس كى فضا نے جہل و جرم كے دم گھٹنے والے ماحول سے نجات عطا كردى تھى اور يہاں انسانى فكر پر كوئي پابندى نہ تھي،فكر وآزادى اپنى پورى وسعتوں كے ساتھ موجود تھي_

جى ہاںان خدا پرست جوانمردوں نے اس دنيا كو ترك كرديا كہ جو اپنى وسعت كے باوجود ايك تكليف دہ قيد خانہ كى مانند تھى اور اس كو انتخاب كرليا كہ جو اپنى تنگى و تاريكى كے باوجود وسيع تھي_

باكل پاكباز يوسف عليہ السلام كى طرح كہ جنہوں نے عزيز مصر كى خوبصورت بيوى كے شديد اصرار كے باوجودد اس كى سركش ہوس كے سامنے سر نہ جھكايا اور تاريك وخوف ناك قيد خانے ميں جانا قبول كرليا_اللہ نے ان كى استقامت و پامردى ميںاضافہ كرديا اور آخر كار انہوں نے بارگاہ خداوندى ميں يہ حيران كن جملہ كہا: ''پروردگارايہ قيد خانہ اپنى جانكاہ تنگى و تاريكى كے باوجود مجھے اس گناہ سے زيادہ محبوب ہے كہ جس كى طرف يہ عورتيں مجھے دعوت ديتى ہيں اور اگر تو ان كے وسوسوں كو مجھ سے دفع نہ كرے تو ميں ان كے دام ميںگرفتار ہوجائوں گا''_(1)


(1)سورہ يوسف آيت33

اصحاب كہف كا اہم مقام

قران اصحاب كہف كى عجيب و غريب زندگى كى كچھ تفصيلات بيان كررہا ہے_ان كى زندگى كى ايسى منظر كشى كى گئي ہے كہ گويا كوئي شخص كے سامنے بيٹھا ہے اور ميں سوئے ہوئے افراد كو اپنى آنكھوں سے ديكھ رہا ہے_

سورہ كہف ميں چھ نشانياں اور خصوصيات بيان كى گئي ہيں:

1_ كا دہانہ شمال كى طرف ہے اور چونكہ زمين كے شمالى نصف كرہ ميں واقع تھى لہذا سورج كى روشنى مستقيم اس ميں نہيں پڑتى تھي_جيسا كہ قرآن كہتا ہے:''اگر تو وقت طلوع سورج كو ديكھتا تو وہ كى دائيں جانب جھك كے گزرتا ہے اور غروب كے وقت بائيں جانب''_(1)

كا دہانہ شمال كى طرف ہونے كى وجہ سے اس ميں اچھى ہوائيں آتى تھيں كيونكہ يہ ہوائيں عموماً شمال كى جانب سے چلتى ہيں_ لہذا تازہ ہوا آسانى سے ميں داخل ہوجاتى اور ايك تازگى قائم ركھتي_

2_''وہ كى ايك وسيع جگہ ميں تھے''_(2)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ وہ كے دہانے پر موجود نہ تھے كيونكہ وہ تو عموماً تنگ ہوتا ہے_ وہ كے وسطى حصے ميں تھے تا كہ ديكھنے والوں كى نظروں سے بھى اوجھل رہيں اور سورج كى براہ راست چمك سے بھي_

3_''ان كى نيند عام نيند كى سى نہ تھي_''اگر تو انہيں ديكھتا تو خيال كرتا كہ وہ بيدار ہيں حالانكہ وہ گہرى نيند ميں سوئے ہوئے تھے''_(3)

يہ بات ظاہر كرتى ہے كہ ان كى آنكھيں بالكل ايك بيدار شخص كى طرح پورى طرح كھلى تھيں_ يہ استثنائي حالت شايد اس بناء پر تھى كہ موذى جانور قريب نہ آئيں كيونكہ وہ بيدار آدمى سے ڈرتے ہيں_يا اس كى وجہ يہ تھى كہ ماحول رعب انگيز رہے تا كہ كوئي انسان ان كے پاس جانے كى جرا ت نہ كرے اور يہ


(1)سورہ كہف آيت17

(2)سورہ كہف آيت17

(3)سورہ كہف آيت 18

صورت حال ان كے لئے ايك سپر كا كام دے_

4_''اس بناء پر كہ سالہا سال سوئے رہنے كى وجہ سے ان كے جسم بوسيدہ نہ ہوجائيں''_ہم انہيں دائي بائيں كروٹيںبدلواتے رہتے تھے_(1)

تا كہ ان كے بدن كا خون ايك ہى جگہ نہ ٹھہر جائے اور طويل عرصہ تك ايك طرف ٹھہرنے كى وجہ سے ان كے اعصاب خراب نہ ہوجائيں_

5_''اس دوران ميں ان كا كتا كہ جو ان كے ہمراہ تھا كے دہانے پر اپنے اگلے پائوں پھيلائے ہوئے تھا اور پہرہ دے رہا تھا''_(2)

اس سے پہلے ابھى تك قرآنى آيات ميں اصحاب كہف كے كتے كے بارے ميںكوئي بات نہيں ہوئي تھى ليكن قرآن واقعات كے دوران بعض اوقات ايسى باتيں كرجاتا ہے كہ جن سے دوسرے مسائل بھى واضح ہوجاتے ہيں_اسى طرح يہاں اصحاب كہف كے كتے كا ذكر آيا ہے،يہاں سے ظاہر ہوا كہ ان كے ہمراہ ايك كتابھى تھا جو ان كے ساتھ ساتھ رہتا تھا اور ان كى حفاظت كرتا تھا_

يہ كہ يہ كتا ان كے ساتھ كہاں سے شامل ہوا تھا،كيا ان كا شكارى كتا تھا يا اس چرواہے كا كتاتھا كہ جس سے ان كى راستے ميں ملاقات ہوئي تھى اور جب چرواہے نے انہيں پہچان ليا تھا تو اس نے اپنے جانور آبادى كى طرف روانہ كرديئے تھے اور خود ان پاكباز لوگوں كے ساتھ ہولياتھا كيونكہ وہ ايك حق تلاش اور ديدار الہى كا طالب انسان تھا_اس وقت كتا ان سے جدا نہ ہوا اور ان كے ساتھ ہوليا_

كيا اس بات كا يہ مفہوم نہيں ہے كہ تمام عاشقان حق اس تك رسائي كے لئے اس كے راستے ميں قدم ركھ سكتے ہيںاور كوئے يار كے دروازے كسى كے لئے بند نہيں ہيں_ظالم بادشاہ كے تائب ہونے والے وزيروں سے لے كر چرواہے تك بلكہ اس كے كتے تك كے لئے بارگاہ الہى كے دروازے كھلے ہيں_


(1)سورہ كہف آيت 18

(2)سورہ كہف آيت 18

كيا ايسا نہيں ہے؟، قرآن كہتا ہے :

''زمين و آسمان كے تمام ذرے،سارے درخت اور سب چلنے پھرنے والے ذكر الہى ميں مگن ہيں،سب كے سر ميں اس كے عشق كا سودا سمايا ہے اور سب كے دلوں ميں اس كى محبت جلوہ گر ہے''_(1)

6_ غار ميں اصحاب كہف كا منظر ايسا رعب دار تھا كہ اگر تو انہيں جھانك كے ديكھ ليتا تو بھاگ كھڑا ہوتا اور تيرا وجود سرتا پاخوفزدہ ہوجاتا''_(2)

''يہ ايك ہى موقع نہيں كہ خدامتعال نے رعب اور خوف كو اپنے باايمان بندوں كے لئے ڈھال بناياتھا_ بلكہ دوسرى جگہ بھى اس طرح كا خطاب ہوا ہے_ ''ہم جلد ہى كافروں كے دلوں پر رعب ڈال ديں گے_''(3)

دعائے ندبہ اور پيغمبر اسلام (ص) كے بارے ميں منقول ہے:

''خداونداپھر تونے اپنے پيغمبر كى مدد اس طرح كى كہ اس كے دشمنوں كے دلوں ميں رعب ڈال ديا''_

ليكن يہ رعب كہ جو اصحاب كہف كو ديكھنے والے كو سرتاپا لرزا ديتا،ان كى جسمانى حالت كے باعث تھا يا يہ كہ پراسرار روحانى طاقت تھى كہ جو اس سلسلے ميں كام كررہى تھي_اس سلسلے ميں آيات قرآنى ميں كوئي وضاحت نہيں ہے''_

ايك طويل نيند كے بعد بيداري

اصحاب كہف كى نيند اتنى لمبى ہوگئي كہ وہ تين سو نو سال تك سوئے رہے اور ان كى نيند موت سے بالكل ملتى جلتى تھى اور ان كى بيدارى بھى قيامت كى مانند تھي_ لہذا قرآن كہتا ہے:''اور ہم نے انہيں اسى طرح اٹھا كھڑا كيا''_(4)


(1)بنى اسرائيل 44

(2)سورہ كہف آيت18

(3)سورہ ال عمران ايت 151

(4)سورہ كہف آيت 19

يعنى اسى طرح كہ جيسے ہم اس پر قادر تھے كہ انہيںلمبى مدت تك سلائے ركھتے اورانہيں پھر سے بيدار كرنے پربھى قادر تھے_

ہم نے انہيں نيند سے بيدار كرديا، تاكہ وہ ايك دوسرے سے پوچھيں، ان ميں سے ايك نے پوچھا_ تمہارا خيال ہے كتنى مدت سوئے ہو؟انہوں نے كہا:''ايك دن يا دن كا كچھ حصہ''_(1)

اس ميں تردد شايدانہيں اس لے ہوا كہ جيسے مفسرين نے كہا ہے كہ وہ جب ميں آئے تھے تو دن كاابتدائي حصہ تھا اور آكر وہ سوگئے تھے اور جب اٹھے تو دن كا آخرى حصہ تھا_ يہى وجہ ہے كہ پہلے انہوں نے سوچا كہ شايد ايك دن سوگئے اور جب انہوں نے سورج كى طرف ديكھا تو انہيںخيال آيا كہ شايد دن كا كچھ حصہ سوئے ہيں_

ليكن آخركار چونكہ انہيں صحيح طرح سے معلوم نہ ہو سكا كہ كتنى دير سوئے ہيں لہذا كہنے لگے:تمہارا رب بہتر جانتا ہے كہ كتنى دير سوئے ہو_(2)

بعض كا كہنا ہے كہ يہ بات ان ميں سے بڑے نے كہى جس كا نام ''تمليخا'' تھا اور يہاںپر ''قالوا'' كا لفظ استعمال كيا گياہے كہ جو جمع كا صيغہ ہے اس كا استعمال ايك معمول كى سى بات ہے_

يہ بات انہوں نے شايد اس لئے كہى كہ ان كے چہرے سے،ناخنوں سے،بالوںسے اور لباس سے بالكل شك نہيں پڑتا تھا كہ وہ كوئي غير معمولى طور پر نيند ميں رہے ہيں_

بہر حال انہيں بھوك اور پياس كا احساس ہوا كيونكہ ان كے بدن ميں جو غذا تھى وہ توتمام ہوچكى تھي،لہذاپہلے انہوں نے يہى تجويز كى كہ''تمہارے پاس چاندى كا جو سكہ ہے اپنے ميں سے ايك كو دو تا كہ وہ جائے اور ديكھے كہ كس كے پاس اچھى پاكيزہ غذا ہے اور جتنى تمہيں چاہئے تمہارے لئے لے آئے''_(3)

''ليكن بہت احتياط سے جائے،كہيں ايسا نہ ہو كہ كسى كو تمہارے بارے ميں كچھ بتا بيٹھے''_(4)


(1)سورہ كہف آيت 19

(2)سورہ كہف آيت 19

(3)سورہ كہف آيت 19

(4)سورہ كہف آيت19

''كيونكہ اگر انہيں تمہارے بارے ميں پتہ چل گيا اور انہوں نے تمہيں آليا تو سنگسار كرديں گے يا پھر تمہيں اپنے دين(بت پرستي)كى طرف موڑ لے جائيں گے،''اور اگر ايسا ہوگيا تو تم نجات اور فلاح كا منہ نہ ديكھ پائوگے''_(1)

پاكيزہ ترين غذا

يہ بات بہت جاذب نظر ہے كہ اس داستان ميں ہم نے پڑھا ہے كہ اصحاب كہف جب بيدار ہوئے تو ظاہر ہے انہيں بہت بھوك لگ رہى تھى اور اس طويل مدت كے دوران ان كے جسم ميں جو غذا تھى ،وہ ختم ہو چكى تھى ليكن اس كے باوجود انھوں نے جسے كھانا لانے كے لئے بھيجا اسے نصيحت كى كہ ہر غذا نہ خريد لائے بلكہ ديكھ بھال كر كھانا بيچنے والوں كے پاس سے جو سب سے زيادہ پاكيزہ ہواسى كولے كر آئے_

بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ اس سے ذبح شدہ جانور كى طرف اشارہ تھا كيونكہ وہ جانتے تھے كہ اس شہر ميں ايسے لوگ رہتے ہيں كہ جو نجس و ناپاك اور كبھى مردہ كا گوشت بيچتے ہيں يا بعض لوگوں كا كام ہى حرام كا تھا لہذا انہوں نے نصيحت كى ايسے لوگوں سے كھانا نہ خريدنا_

ليكن ظاہراًاس جملے كا وسيع مفہوم ہے كہ جس ميں ہر قسم كى ظاہرى اور باطنى پاكيزگى شامل ہے_

بہرحال جلدہى لوگو ں ميں ان عظيم جوانمردوں كى ہجرت كى داستان پھيل گئي_ظالم بادشاہ سيخ پا ہوگياكہ كہيں ايسا نہ ہوكہ ان كى ہجرت يا بھاگ نكلنالوگوں كى بيدارى اور آگاہى كا سبب بن جائے، اسے يہ بھى خطرہ تھا كہ كہيں وہ دور يا نزديك كے علاقے ميں جاكر لوگوں كو دين توحيد كى تبليغ نہ كرنے لگيں اور شرك و بت پرستى كے خلاف جدوجہد شروع كرديں_ لہذا اس نے خاص افراد كو مامور كيا كہ انہيں ہر جگہ تلاش كيا جائے اور ان كا كچھ اتہ پتہ معلوم ہو تو گرفتار كے لئے تعاقب كيا جائے اور انہيں سزادى جائے_

ليكن انہوں نے جتنى بھى كوشش كى كچھ نہ پايا اور يہ امر خود علاقے كے لوگوں كے لئے ايك معمہ اور


(1)سورہ كہف آيت20

ان كے دل و دماغ كے لئے ايك خاص نقطہ بن گيا_ نيز يہ امر كہ حكومت كے نہايت اہم چند اراكين نے ہر چيز كو ٹھوكر ماردى اور طرح طرح كے خطرات مول لے لئے شايد بعض لوگوں كى بيدارى اور آگاہى كا سرچشمہ بن گيا_

بہر حال ان افراد كى يہ حيران كن داستان ان كى تاريخ ميں ثبت ہوگئي اور ايك نسل سے دوسرى نسل كى طرف منتقل ہونے لگي_اور اسى طرح اس مسئلے كو صدياں گزرگئيں_

سامان خريدنے والے پر كيا گزري

آيئےب ديكھتے ہيں كہ اس پر كيا گزرى جو غذا لينے كے لئے آيا _وہ شہر ميں داخل ہوا تو اس كا منہ تعجب سے كھلے كا كھلا رہ گيا، شہر كى عمارتوں كى شكل و صورت تمام تبديل ہوچكى تھي،سب چہرے ناشناس تھے،لباس نئے انداز كے تھے اور جہاں پہلے محل تھے وہاں ويرانے تھے_

شايد تھوڑى دير كے لئے اس نے سوچا ہوكہ ابھى ميں نيند ميںہوں اور يہ جو كچھ ديكھ رہا ہوں سب خواب ہے_اس نے اپنى آنكھوں كو ملا_وہ سب چيزوں كو پھٹى پھٹى نگاہوں سے ديكھ رہا تھا_ اس نے سوچا كہ يہ كيسى حقيقت ہے كہ جس پريقين نہيں كيا جاسكتا_

اب وہ سوچنے لگا كہ وہ ميں ايك يا آدھا دن سوئے ہيں تو پھر يہ اتنى تبديلياں اتنى مدت ميں كيسے ممكن ہيں؟

دوسرى طرف اس كا چہرہ مہرہ اور حالت لوگوں كے لئے بھى عجيب اور غير مانوس تھي_ اس كا لباس،اس كى گفتار اور اس كا چہرہ سب نيا معلوم ہوتا تھا شايد اسى وجہ سے كچھ لوگ اسكى طرف متوجہ ہوئے اور اس كے پيچھے چل پڑے_

اس وقت لوگوں كا تعجب انتہاء كو پہنچ گيا جب اس نے جيب ميں ہاتھ ڈالا تا كہ اس كھانے كى قيمت ادا كرے جو اس نے خريدا تھا،دكاندار كى نگاہ سكتے پر پڑى وہ تين سو سال سے زيادہ پرانے دور كا تھا اور شايد اس زمانے كے ظالم بادشاہ دقيانوس كا نام بھى اس پر كنندہ تھا_ جب اس نے وضاحت چاہى تو خريدار نے جواب

ميں كہا:ميرے ہاتھ ميں تو يہ سكہ ابھى تازہ ہى آيا ہے_

قرائن اور احوال سے لوگو ںكو آہستہ آہستہ يقين ہوگيا كہ يہ شخص تو انہى افراد ميں سے ہے جن كا ذكر ہم نے تين سو سال پہلے كى تاريخ ميں پڑھا ہے اور بہت سى محفلوں ميں ہم نے جن كى پر اسرار داستان سنى ہے_

خود اسے بھى احساس ہوا كہ وہ اور اس كے ساتھى گہرى اور طولانى نيند ميں مستغرق رہے ہيں_ اس بات كى خبر جنگل كى آگ كى طرح سارے شہر ميں آن كى آن ميں پھيل گئي_

مو رخين لكھتے ہيں كہ اس زمانے ميں ايك نيك اور خدا پرست بادشاہ حكومت كرتا تھا ليكن معاد جسمانى اور موت كے بعد مردوں كے جى اٹھنے كے مسئلہ پر يقين كرنا وہاں كے لوگوں كے لئے مشكل تھا_ان ميں سے ايك گروہ كو اس بات پر يقين نہيں آتا تھا كہ انسان مرنے كے بعد پھر جى اٹھے گا ليكن اصحاب كہف كى نيند كا واقعہ معاد جسمانى كے طرفداروں كے لئے ايك دندان شكن دليل بن گيا_

اسى لئے قرآن كہتا ہے:''جيسے ہم نے انہيں سلاديا تھا اسى طرح انہيں اس گہرى اور طويل نيند سے بيدار كيا اور لوگوں كو ان كے حال كى طرف متوجہ كيا تا كہ وہ جان ليں كہ قيامت كے بارے ميں خدا كا وعدہ حق ہے_اور دنيا كے خاتمے اور قيام قيامت ميں كوئي شك نہيں''_(1)

كيونكہ صديوں پر محيط يہ لمبى نيند موت سے غير مشابہ نہيں ہے اور ان كا بيدار ہونا قبروں سے اٹھنے كى مانند ہے بلكہ كہا جاسكتا ہے كہ يہ سونا اور جاگنا كئي حوالوںسے مرنے اور پھر جى اٹھنے سے عجيب تر ہے كيونكہ وہ صديوں سوئے رہے ليكن ان كا بدن بوسيدہ نہ ہوا جبكہ انہوں نے كچھ كھايا نہ پيا،تو پھروہ اتنى لمبى مدت زندہ كس طرح رہے_

كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ خدا ہرچيز اور ہر كام پر قادر ہے _ايسے منظر كى طرف نظر كى جائے تو موت كے بعد زندگى كا مسئلہ كوئي عجيب معلوم نہيں ہوتا بلكہ يقينى طور پر ممكن دكھائي ديتا ہے_


(1)سورہ كہف آيت21

اصحاب كہف كے واقعہ كا اختتام

جو شخص غذا لينے شہر ميں آيا تھا اس نے يہ صورت ديكھى تو جلدى سے كى طرف پلٹا اور اپنے دوستوں كو سارا حال سنايا،وہ سب كے سب گہرے تعجب ميں ڈوب گئے_اب انہيں احساس ہوا كہ ان كے تمام بچے،بھائي اوردوست كوئي بھى باقى نہيں رہا اور ان كے احباب و انصار ميں سے كوئي نہيں رہا_ ايسے ميں ان كو يہ زندگى بہت سخت اور ناگوار لگي_لہذا انہوں نے اللہ سے دعا كى كہ اس جہان سے ہمارى آنكھيں بند ہوجائيں اور ہم جوار رحمت حق ميں منتقل ہوجائيں_

ايسا ہى ہوا،اس دنيا سے انہوں نے آنكھيں بند كرليں_ ان كے جسم ميں پڑے تھے كہ لوگ ان كى تلا ش كو نكلے_(1)

اس مقام پر معاد جسمانى كے طرفداروں اور مخالفوں كے درميان كشمكش شروع ہوگئي_

مخالفين كى كوشش تھى كہ لوگ اصحاب كہف كے سونے اور جاگنے كے مسئلہ كو جلد بھول جائيں ''لہذا انہوں نے تجويز پيش كى كہ كا دروازہ بند كرديا جائے تاكہ وہ ہميشہ كے لئے لوگوں كى نگاہوں سے اوجھل ہوجائيں''_(2)

وہ لوگوں كو خاموش ہونے كے لئے كہتے تھے كہ ان كے بارے ميں زيادہ باتيں نہ كرو،ان كى داستان اسرار آميز ہے''ان كا پروردگار ان كى كيفيت سے زيادہ آگاہ ہے''_(3)

لہذا ان كا قصہ ان تك رہنے دو اورانہيں ان كے حال پر چھوڑ دو_

جبكہ حقيقى مومن كہ جنہيں اس واقعے كى خبر ہوئي اور جو اسے قيامت كے حقيقى مفہوم كے اثبات كے لئے ايك زندہ دليل سمجھتے تھے،ان كى كوشش تھى كہ يہ واقعہ ہر گز فراموش نہ ہونے پائے_ لہذا انہوں نے كہا: ''ہم ان كے مدفن كے پاس مسجد بناتے ہيں''_(4)


(1)سورہ كہف آيت21

(2)سورہ كہف آيت 21

(3)سورہ كہف آيت21

(4)سورہ كہف آيت21

تا كہ لوگ انہيں اپنے دلوں سے ہر گز فراموش نہ كريں علاوہ ازيں ان كى ارواح پاك سے لوگ استمداد كريں_

قرآن ميں ان چند اختلافات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے،كہ جو اصحاب كہف كے بارے ميں لوگوںميںپائے جاتے ہيں،ان ميں سے ايك ان كى تعداد كے بارے ميں ہے_ ارشاد ہوتا ہے:''بعض لوگ كہتے ہيں كہ وہ تين تھے اورچوتھا ان كا كتا تھا''_

بعض كہتے ہيں كہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان كا كتا تھا_

يہ سب بلادليل باتيں ہيں اور اندھيرے ميں تير چلانے كے مترادف ہيں_

اور بعض كہتے ہيں كہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان كا كتّا تھا_

كہہ دے:ميرا رب ان كى تعداد بہتر جانتا ہے_

صرف تھوڑے سے لوگ ان كى تعداد جانتے ہيں_(1)

قرآن نے ان جملوں ميں اگر چہ صراحت سے ان كى تعداد بيان نہيں كى ليكن آيت ميں موجود بعض اشاروں سے سمجھا جاسكتا ہے كہ تيسرا قول صحيح اور مطابق حقيقت ہے كيونكہ پہلے اور دوسرے قول كے بعد (اندھيرے ميں تير مارنا) آيا ہے كہ جو ان اقوال كے لئے بے بنياد ہونے كى طرف اشارہ ہے ليكن تيسرے قول كے بارے ميں نہ صرف ايسى كوئي تعبير نہيں بلكہ اس كے ساتھ ہى فرمايا گيا ہے:كہہ دے:''ميرا رب ان كى تعداد سے بہتر طور پر آگاہ ہے''_اور يہ بھى فرمايا گيا ہے''ان كى تعداد كو تھوڑے سے لوگ جانتے ہيں ''_يہ جملے بھى اس تيسرے قول كى صداقت پر دلالت كرتے ہيں_

بہر حال آيت كے آخر ميں مزيد فرمايا گيا ہے:''استدلالى اور منطقى گفتگو كے علاوہ ان كے بارے ميں بحث نہ كر''_(2)


(1) سورہ كہف آيت 22

(2)سورہ كہف آيت22

بہر حال اس گفتگو كا مفہوم يہ ہے كہ وحى خدا پر بھروسہ كرتے ہوئے_ تو ان كے ساتھ بات كر كيونكہ اس سلسلے ميں محكم ترين دليل يہى ہے_'' لہذا جو لوگ بغير دليل كے اصحاب كہف كى تعداد كے بارے ميں بات كرتے ہيں ان سے اس بارے ميں سوال نہ كر''_(1)

اصحاب كہف كى نيند

قرآن ميں موجودہ قرائن سے اجمالاً معلوم ہوتا ہے كہ اصحاب كہف كى نيند بہت لمبى تھي_يہ بات ہر شخص كى حس جستجو كو ابھارتى ہے_ ہر شخص جاننا چاہتا ہے كہ وہ كتنے برس سوئے رہے_

قرآن اس داستان كے متعلق تردد كو ختم كرتے ہوئے آخر ميں اس سوال كا جوا ب ديتا ہے_

ارشاد ہوتا ہے:''وہ اپنى ميں تين سو سے نو برس زيادہ سوتے رہے''_(2)

اس لحاظ سے وہ كل تين سو نو سال ميں سوئے رہے_

بعض لوگوں كا خيال ہے كہ تين سو نو سال كہنے كى بجائے يہ جو كہا300/سال ،نوسال اس سے زيادہ،يہ شمسى اور قمرى سالوں كے فرق كى طرف اشارہ ہے كيونكہ شمسى حساب سے وہ تين سو سال رہے جو قمرى حساب سے تين سو نو سال ہوئے اور يہ تعبير كاا يك لطيف پہلو ہے كہ ايك جزوى تعبير كے ذريعے عبارت ميں ايك اور وضاحت طلب حقيقت بيان كردى جائے_

اس كے بعد اس بارے ميں لوگوں كے اختلاف آراء كو ختم كرنے كے لئے فرمايا گيا ہے:''كہہ ديجئے:خدا ان كے قيام كى مدت كو بہتر جانتا ہے_ كيونكہ آسمانو ں اور زمين كے غيب كے احوال اس كے سامنے ہيں ''_(3)اور وہ ہر كسى كى نسبت انہيں زيادہ جانتا ہے_

اور جو كل كائنات ہستى سے باخبر ہے كيونكر ممكن ہے كہ وہ اصحاب كہف كے ميں قيام كى مدت سے آگاہ نہ ہو_


(1)سورہ كہف آيت22

(2)سورہ كہف آيت 25

(3)سورہ كہف آيت26

غار كہاں ہے؟

يہ كہ اصحاب كہف كس علاقے ميں رہتے تھے اور يہ غار كہاں تھي؟اس سلسلے ميں علماء اور مفسرين كے درميان بہت اختلاف ہے،البتہ اس واقعے كے مقام كو صحيح طور پر جاننے كا اصل داستان،اس كے تربيتى پہلوئوں اور تاريخى اہميت پر كوئي خاص اثر نہيں پڑتا، يہ كوئي واحد واقعہ نہيں كہ جس كى اصل داستان تو ہميں معلوم ہے ليكن اس كى زيادہ تفصيلات معلوم نہيںہيں، ليكن مسلم ہے كہ اس واقعے كا مقام جاننے سے اس كى خصوصيات كو مزيد سمجھنے كے لئے مفيد ہوسكتا ہے_

بہر حال اس سلسلے ميں جو احتمالات ذكر كيے گئے اور جو اقوال نظرسے گزرے ہيںان ميں سے دو زيادہ صحيح معلوم ہوتے ہيں_

پہلا يہ كہ يہ واقعہ شہر''افسوس''ميں ہوا اور يہ اس شہر كے قريب واقع تھي_تركى ميں اب بھى اس شہر كے كھنڈرات ''ازمير'' كے قريب نظر آتے ہيں_ وہاں قريب ايك قصبہ ہے جس كا نام''اياصولوك''ہے اس كے پاس ايك پہاڑ ہے''ينايرداغ''_ اب بھى اس ميں ايك نظر آتى ہے جو افسوس شہر سے كوئي زيادہ فاصلہ پر نہيں ہے،يہ ايك وسيع ہے،كہتے ہيں اس ميں سينكڑوں قبروں كے آثار نظر آتے ہيں، بہت سے لوگوں كا خيال ہے كہ اصحاب كہف كى يہى ہے_

جيساكہ جاننے والوں نے بيان كيا ہے كہ اس كا شمال مشرق كى جانب ہے_اس وجہ سے بعض بزرگ مفسرين نے اس بارے ميں شك كيا ہے كہ يہ وہى غارہے، حالانكہ اس كى يہى كيفيت اس كے اصلى ہونے كى مو يد ہے كيونكہ طلوع كے وقت سورج كا دائيں طرف اور غروب كے وقت بائيں طرف ہونے كا مفہوم يہ ہے كہ كا دہانہ شمال يا كچھ شمال مشرق كى جانب ہو_

اس وقت وہاں كسى مسجد يا عبادت خانہ كا نہ ہونابھى ا سكے وہى ہونے كى نفى نہيں كرتا كيونكہ تقريباًسترہ صدياں گزرنے كے بعد ممكن ہے اس كے آثار مٹ گئے ہوں_

دوسرا قول يہ ہے كہ يہ وہ ہے كہ جو'' اردن'' كے دارالحكومت'' عمان'' ميں واقع ہے_يہ ''رجيب''نامى ايك بستى كے قريب ہے اس كے اوپر گرجے كے آثار نظر آتے ہيں_بعض قرائن كے مطابق ان كا تعلق پانچويں صدى عيسوى سے ہے _جب اس علاقے پر مسلمانو ںكا غلبہ ہوا تو اسے مسجد ميں تبديل كرليا گيا تھا اور وہاں محراب بنائي گئي تھى اور اذان كى جگہ كا اضافہ كيا گيا تھا_يہ دونوں اس وقت موجود ہيں_

اصحاب كہف كا واقعہ ديگر تواريخ ميں

يہ بات مسلم ہے كہ اصحاب كہف كا واقعہ كسى گزشتہ آسمانى كتاب ميں نہيں تھا(چاہے وہ اصلى ہو يا موجودہ تحريف شدہ)اور نہ اسے كتابوں ميں ہونا ہى چاہيئےھا كيونكہ تاريخ كے مطابق يہ واقعہ ظہور مسيح عليہ السلام كے صديوں بعد كا ہے_

يہ واقعہ''دكيوس''كے دور كا ہے،جسے عرب''دقيانوس''كہتے ہيں_ اس كے زمانے ميں عيسائيوں پر سخت ظلم ہوتا تھا_

يورپى مو رخين كے مطابق يہ واقعہ49 تا 152عيسوى كے درميان كا ہے_ان مو رخين كے خيال ميں اصحاب كہف كى نيند كى مدت 157سال ہے_يورپى مو رخين انہيں''افسوس كے 7 سونے والے ''كہتے ہيں_ جبكہ ہمارے ہاں انہيں''اصحاب كہف''كہا جاتا ہے_

اب ديكھتے ہيں كہ''افسوس''شہر كہاںہے؟سب سے پہلے كن علماء نے ان سونے والوں كے بارے ميں كتاب لكھى اور وہ كس صدى كے تھے؟

''افسوس''يا''اُفسُس''ايشيائے كوچك كا ايك شہر تھا (موجودہ تركى جو قديم مشرقى روم كا ايك حصہ تھا)يہ ''دريائے كاستر ''كے پاس''ازمير''شہر كے تقريباًچاليس ميل جنوب مشرق ميں واقع تھا_يہ''الوني'' بادشاہ كا پايہ تخت شمار ہوتا تھا_

افسوس اپنے مشہور بت خانے اور ''طاميس'' كى وجہ سے بھى عالمى شہرت ركھتا تھا_يہ دنيا كے سات عجائبات ميںسے تھا_

كہتے ہيں كہ اصحاب كہف كى داستان پہلى مرتبہ پانچويں صدى عيسوى ميں ايك عيسائي عالم نے لكھي_اس كا نام''اك''تھا_وہ شام كے ايك گرجے كا متولى تھا_ اس نے سريانى زبان كے ايك رسالے ميں اس كے بارے ميں لكھا تھا_اس كے بعد ايك اور شخص نے اس كاانگريزى زبان ميں ترجمہ كيا_اس كا نام ''گوگويوس''تھا ترجمے كا نام اس نے''جلال شہداء''كا ہم معنى ركھا تھا_

اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ ظہور اسلام سے ايك دوصدياں پہلے يہ واقعہ عيسائيوں ميں مشہور تھا اور گرجوں كى مجالس ميں اس كا تذكرہ ہوتا تھا_

البتہ جيسا كہ اشارہ كيا گيا ہے،اسلامى مصادر ميں اس كى جو تفصيلات آئي ہيں وہ مذكورہ عيسائيوںكے بيانات سے كچھ مختلف ہيں_جيسے ان كے سونے كى مدت كيونكہ قرآن نے صراحت كے ساتھ يہ مدت 309سال بيان كى ہے_

''ياقوت حمومي'' نے اپنى كتاب''معجم البلدان ج2ص806پر'' خرداد ''بہ نے اپنى كتاب ''المسالك والممالك''ص106تا110ميں اور ''ابوريحان بيروني'' نے اپنى كتاب''الاثار الباقيہ''ص290پر نقل كياہے كہ قديم سياحوں كى ايك جماعت نے شہر''آبس''ميں ايك ديكھى ہے جس ميں چند انسانى ڈھانچے پڑے ہيں_ ان كا خيال ہے كہ ہوسكتا ہے يہ بات اسى داستان سے مربوط ہو_

سورہ كہف ميں قرآن كے لب و لہجہ سے اور اس سلسلے ميں اسلامى كتب ميں منقول شانہائے نزو ل سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان يہودى علماء ميں بھى ايك تاريخى واقعے كے طور پر مشہور تھي،اس سے يہ بات ثابت ہوجاتى ہے كہ طولانى نيند كا يہ واقعہ مختلف قوموں كى تاريخى ماخذ ميں موجود رہا ہے_(1)

* * * * *


(1)اصحاب كہف كا واقعہ كيا سائنس كے لحاظ سے قابل قبول ہے؟رجوع كريںتفسير نمونہ جلد7 ص86.

ذوالقرنين

ذوالقرنين كى عجيب كہاني

چند قريشيوں نے رسول اللہ (ص) كو آزمانا چاہا،اس مقصد كے لئے انہوں نے مدينے كے يہوديوں كے مشورے سے تين مسئلے پيش كيے_ ايك اصحاب كہف كے بارے ميں تھا_ دوسرا مسئلہ روح كا تھا اور تيسرا ذوالقرنين كے بارے ميں _ذوالقرنين كى داستان ايسى ہے كہ جس پر طويل عرصے سے فلاسفہ اور محققين غور و خوض كرتے چلے آئے ہيں اور ذوالقرنين كى معرفت كے لئے انہوں نے بہت كوشش كى ہے_

اس سلسلے ميں پہلے ہم ذوالقرنين سے مربوط جو قرآن ميں بيان ہوا ہے وہ بيان كرتے ہيں_كيونكہ تاريخى تحقيق سے قطع نظر ذوالقرنين كى ذات خود سے ايك بہت ہى تربيتى درس كى حامل ہے اور اس كے بہت سے قابل غور پہلو ہيں_اس كے بعد ذوالقرنين كى شخصيت كو جاننے كے لئے ہم آيات،روايات اورمو رخين كے اقوال كا جائزہ ليںگے_

دوسرے لفظوں ميں پہلے ہم اس كى شخصيت كے بارے ميں گفتگو كريں گے اور پہلا موضوع وہى ہے جو قرآن كى نظر ميں اہم ہے_ اس سلسلے ميں قرآن كہتا ہے:''تجھ سے ذوالقرنين كے بارے ميں سوال كرتے ہيں:كہہ دو عنقريب اس كى سرگزشت كا كچھ حصہ تم سے بيان كروںگا''_(1)


(1)سورہ كہف آيت83

بہر حال يہاں سے معلوم ہوتاہے كہ لوگ پہلے بھى ذوالقرنين كے بارے ميں بات كيا كرتے تھے_البتہ اس سلسلے ميں ان ميں اختلاف اور ابہام پايا جاتا تھا_ اسى لئے انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) سے ضرورى وضاحتيں چاہيں_

اس كے بعد فرمايا گيا ہے:''ہم نے اسے زمين پر تمكنت عطا كي(قدرت،ثبات قوت اور حكومت بخشي)_اور ہر طرح كے وسائل اور اسباب اس كے اختيار ميں ديئے_اس نے بھى ان سے استفادہ كيا_يہاں تك كہ وہ سورج كے مقام غروب تك پہنچ گيا_وہاں اس نے محسوس كيا كہ سورج تاريك اور كيچڑ آلود چشمے يا درياميںڈوب جاتا ہے''_(1)

وہاں اس نے ايك قوم كو ديكھا (كہ جس ميں اچھے برے ہر طرح كے لوگ تھے)''تو ہم نے ذوالقرنين سے كہا:كہ تم انہيں سزادينا چاہوگے يا اچھى جزا''_(2)(3)

ذوالقرنين نے كہا:''وہ لوگ كہ جنہوں نے ظلم كيے ہيں،انہيں تو ہم سزاديںگے _ اور وہ اپنے پروردگار كى طرف لوٹ جائيں گے اور اللہ انہيں شديد عذاب كرے گا''_(4)

يہ ظالم و ستمگر دنيا كا عذاب بھى چكھيں گے اور آخرت كا بھي_

''اور رہا وہ شخص كہ جو باايمان ہے اور عمل صالح كرتا ہے اسے اچھى جزاء ملے گي_اور اسے ہم آسان كام سونپيں گے''_(5)

اس سے بات بھى محبت سے كريں گے اور اس كے كندھے پر سخت ذمہ دارياں بھى نہيں ركھيںگے اور اس سے زيادہ خراج بھى وصول نہيں كريںگے_


(1)سورہ كہف آيت84

(2)سورہ كہف آيت86

(3)بعض مفسرين نے لفظ''قلنا''(ہم نے ذوالقرنين سے كہا)سے ان كى نبوت پر دليل قرار ديا ہے ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ اس جملے سے قلبى الہام مراد ہو كہ جو غير انبياء ميں بھى ہوتا ہے ليكن اس بات كا انكار نہيں كيا جاسكتا كہ تفسير زيادہ تر نبوت كو ظاہر كرتى ہے_

(4)سورہ كہف آيت87

(5)سورہ كہف آيت88

ذوالقرنين كے اس بيان سے گويا يہ مراد تھى كہ توحيد پرايمان اور ظلم و شرك اور برائي كے خلاف جدوجہد كے بارے ميں ميرى دعوت پر لوگ دوگروہوں ميں تقسيم ہوجائيں گے_ايك گروہ تو ان لوگوں كا ہوگا جو اس الہى تعميرى پروگرام كو مطمئن ہوكر تسليم كرليں گے انہيں اچھى جزا ملے گى اور وہ آرام و سكون سے زندگى گزاريں گے جبكہ دوسرا گروہ ان لوگوں كا ہوگا جو اس دعوت سے دشمنى پر اتر آئيں گے اور شرك و ظلم اور برائي كے راستے پر ہى قائم رہيں گے انہيں سزادى جائے گي_

ذوالقرنين نے اپنا مغرب كا سفر تمام كيا اور مشرق كى طرف جانے كا عزم كيا اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے:''جو وسائل اس كے اختيار ميں تھے اس نے ان سے پھر استفادہ كيا_اور اپنا سفر اسى طرح جارى ركھا يہاں تك كہ سورج كے مركز طلوع تك جاپہنچا _وہاں اس نے ديكھا سورج ايسے لوگوں پرطلوع كررہا ہے كہ جن كے پاس سورج كى كرنوں كے علاوہ تن ڈھاپنے كى كوئي چيز نہيں ہے''_(1)

يہ لوگ بہت ہى پست درجے كى زندگى گزارتے تھے يہاں تك كہ برہنہ رہتے تھے يا بہت ہى كم مقدار لباس پہنتے تھے كہ جس سے ان كا بدن سورج سے نہيں چھپتا تھا_(2)

جى ہاںذوالقرنين كا معاملہ ايسا ہى ہے اور ہم خوب جانتے ہيں كہ اس كے اختيار ميں(اپنے اہداف كے حصول كے لئے)كيا وسائل تھے_(3)

بعض مفسرين نے يہاں يہ احتمال ذكر كيا ہے كہ يہ جملہ ذوالقرنين كے كاموں اور پروگراموں ميں اللہ كى ہدايت كى طرف اشارہ ہے_


(1)سورہ كہف آيت 89_90

(2)بعض مفسرين نے اس احتمال كو بھى بعيد قرار نہيں ديا كہ ان كے پاس رہنے كو كوئي گھر بھى نہ تھے كہ وہ سورج كى تپش سے بچ سكتے_ اس سلسلے ميں ايك اور احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے اور وہ يہ كہ وہ لوگ ايسے بيابان ميں رہتے تھے كہ جس ميں كوئي پہاڑ،درخت،پناہ گاہ اور كوئي ايسى چيز نہ تھى كہ وہ سورج كى تپش سے بچ سكتے گويا اس بيابان ميں ان كے لئے كوئي سايہ نہ تھا_

(3)سورہ كہف آيت91

ذوالقرنين نے ديوار كيسے بنائي؟

قرآن ميں حضرت ذوالقرنين(ع) كے ايك اور سفر كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے:

''اس كے بعد اس نے حاصل وسائل سے پھر استفادہ كيا''_(1)

''اور اس طرح اپنا سفر جارى ركھا يہاں تك كہ وہ دوپہاڑوں كے درميان پہنچا وہاں ان دوگروہوں سے مختلف ايك اور گروہ كو ديكھا_ يہ لوگ كوئي بات نہيں سمجھتے تھے''_(2)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ وہ كوہستانى علاقے ميں جاپہنچے_مشرق اور مغرب كے علاقے ميں وہ جيسے لوگوں سے ملے تھے يہاں ان سے مختلف لوگ تھے،يہ لوگ انسانى تمدن كے اعتبار سے بہت ہى پسماندہ تھے كيونكہ انسانى تمدن كى سب سے واضح مظہر انسان كى گفتگو ہے_(3)

اس وقت يہ لوگ ياجوج ماجوج نامى خونخوار اور سخت دشمن سے بہت تنگ اور مصيبت ميںتھے_ ذوالقرنين كہ جو عظيم قدرتى وسائل كے حامل تھے،ان كے پاس پہنچے تو انہيں بڑى تسلى ہوئي _انہوں نے ان كا دامن پكڑليا اور''كہنے لگے:اے ذوالقرنينياجوج ماجوج اس سرزمين پر فساد كرتے ہيں_كيا ممكن ہے كہ خرچ آپ كو ہم دے ديںاور آپ ہمارے اور ان كے درميان ايك ديوار بناديں''_(4)

وہ ذوالقرنين كى زبان تو نہيں سمجھتے تھے اس لئے ہوسكتا ہے يہ بات انہوں نے اشارے سے كى ہو يا پھر ٹوٹى پھوٹى زبان ميں اظہار مدعا كيا ہو_(5)


(1)سورہ كہف آيت92

(2)سورہ كہف آيت93

(3)بعض نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ يہ مراد نہيں كہ وہ مشہور زبانوں ميں سے كسى كو جانتے نہيں تھے بلكہ وہ بات كا مفہوم نہيں سمجھ سكتے تھے يعنى فكرى لحاظ سے وہ بہت پسماندہ تھے_

(4)سورہ كہف آيت94

(5)يہ احتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ ہوسكتا ہے كہ ان كے درميان مترجمين كے ذريعے بات چيت ہوئي ہو يا پھر خدائي الہام كے ذريعے حضرت سليمان نے ان كى بات سمجھى ہو جيسے حضرت ذوالقرنين بعض پرندوں سے بات كرليا كرتے تھے_

بہر حال اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ ان لوگوں كى اقتصادى حالت اچھى تھى ليكن سوچ بچار، منصوبہ بندي، اور صنعت كے لحاظ سے وہ كمزور تھے_لہذا وہ اس بات پر تيار تھے كہ اس اہم ديوار كے اخراجات اپنے ذمہ لے ليں، اس شرط كے ساتھ ذوالقرنين نے اس كى منصوبہ بندى اور تعمير كى ذمہ دارى قبول كرليں_

اس پر ذوالقرنين نے انہيں جواب ديا:''يہ تم نے كيا كہا؟اللہ نے مجھے جو كچھ دے ركھا ہے،وہ اس سے بہتر ہے كہ جو تم مجھے دينا چاہتے''_(1)

اور ميں تمہارى مالى امداد كا محتاج نہيں ہوں_

''تم قوت و طاقت كے ذريعے ميرى مدد كرو تا كہ ميں تمہارے اور ان دو مفسد قوموں كے درميان مضبوط اور مستحكم ديوار بنادوں''_(2)

پھر ذوالقرنين نے حكم ديا:''لوہے كى بڑى بڑى سليں ميرے پاس لے آئو''_(3)

جب لوہے كى سليں آگئيں تو انہيں ايك دوسرے پر چننے كا حكم ديا''يہاں تك كہ دونوں پہاڑوں كے درميان كى جگہ پورى طرح چھپ گئي''_(4)

تيسرا حكم ذوالقرنين نے يہ ديا كہ آگ لگانے كا مواد (ايندھن وغيرہ)لے آئو اور اسے اس ديوار كے دونوں طرف ركھ دو اور اپنے پاس موجود وسائل سے آگ بھڑكائو اور اس ميں دھونكو يہاں تك كہ لوہے كى سليں انگاروں كى طرح سرخ ہوكر آخر پگھل جائيں_(5)

درحقيقت وہ اس طرح لوہے كے ٹكڑوں كو آپس ميں جوڑكر ايك كردينا چاہتے تھے_ يہى كام آج كل خاص مشينوں كے ذريعے انجام ديا جاتا ہے، لوہے كى سلوں كو اتنى حرارت دى گئي كہ وہ نرم ہوكر ايك دوسرے سے مل گئيں_


(1)سورہ كہف آيت 95

(2)سورہ كہف آيت96

(3)سورہ كہف آيت96

(4)سورہ كہف آيت96

(5)سورہ كہف آيت96

پھر ذوالقرنين نے آخرى حكم ديا:''كہا كہ پگھلا ہوا تانبا لے آئو تاكہ اسے اس ديوار كے اوپرڈال دوں''_(1)

اس طرح اس لوہے كى ديوار پر تانبے كا ليپ كركے اسے ہوا كے اثر سے اور خراب ہونے سے محفوظ كرديا_بعض مفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ موجودہ سائنس كے مطابق اگر تانبے كى كچھ مقدار لوہے ميں ملادى جائے تو اس كى مضبوطى بہت زيادہ ہوجاتى ہے_ ذوالقرنين چونكہ اس حقيقت سے آگاہ تھے اس لئے انہوں نے يہ كام كيا_آخر كار يہ ديوار اتنى مضبوط ہوگئي كہ اب وہ مفسد لوگ نہ اس كے اوپر چڑھ سكتے تھے اور نہ اس ميں نقب لگا سكتے تھے_(2)

يہاں پرذوالقرنين نے بہت اہم كا م انجام ديا تھا_مستكبرين كى روش تو يہ ہے كہ ايسا كام كركے وہ بہت فخر وناز كرتے ہيں يا احسان جتلاتے ہيں ليكن ذوالقرنين چونكہ مرد خدا تھے_

'' لہذا انتہائي ادب كے ساتھ كہنے لگے:يہ ميرے رب كى رحمت ہے''_(3)

اگر ميرے پاس ايسا اہم كام كرنے كے لئے علم و آگاہى ہے تو يہ خدا كى طرف سے ہے اور اگر مجھ ميں كوئي طاقت ہے اور ميں بات كرسكتا ہوں تو وہ بھى اس كى طرف سے ہے اور اگر يہ چيزيں اور ان كا ڈھالنا ميرے اختيار ميں ہے تو يہ بھى پروردگار كى وسيع رحمت كى بركت ہے ميرے پاس كچھ بھى ميرى اپنى طرف سے نہيں ہے كہ جس پر ميں فخر و ناز كروں اور ميں نے كوئي خاص كا م بھى نہيں كيا كہ اللہ كے بندوں پر احسان جتاتا پھروں_ اس كے بعد مزيد كہنے لگے:''يہ نہ سمجھنا كہ يہ كوئي دائمى ديوار ہے''جب ميرے پروردگار كا حكم آگيا تو يہ درہم برہم ہوجائے گى اور زمين بالكل ہموار ہوجائے گى ،اور ميرے رب كا وعدہ حق ہے''_(4)

يہ كہہ كر ذوالقرنين نے اس امر كى طرف اشارہ كيا كہ اختتام دنيا اور قيا مت كے موقع پر يہ سب كچھ درہم برہم ہوجائے گا_


(1)سورہ كہف آيت96

(2)سورہ كہف آيت 97

(3)سورہ كہف آيت97

(4)سورہ كہف آيت 98

ذوالقرنين كون تھے؟

جس ذوالقرنين كا قرآن مجيد ميں ذكر ہے،تاريخى طور پر وہ كون شخص ہے،تاريخ كى مشہور شخصيتوں ميں سے يہ داستان كس پر منطبق ہوتى ہے،اس سلسلے ميں مفسرين كے مابين اختلاف ہے_ اس سلسلے ميں جو بہت سے نظريات پيش كيے گئے ہيں ان ميں سے يہ تين زيادہ اہم ہيں_(1)

جديد ترين نظريہ يہ ہے جو ہندوستان كے مشہور عالم ابوالكلام آزاد نے پيش كيا ہے_ ابوالكلام آزاد كسى دور ميں ہندوستان كے وزير تعليم تھے_اس سلسلے ميں انہوں نے ايك تحقيقى كتاب لكھى ہے_ اس نظريہ كے مطابق ذوالقرنين،''كورش كبير'' ''بادشاہ ہخامنشى ''ہے_(2)(3)


(1) پہلا:بعض كا خيال ہے كہ''ا سكندر مقدوني'' ہى ذوالقرنين ہے_

لہذا وہ اسے اسكندر ذوالقرنين كے نام سے پكارتے ہيں_ ان كا خيال ہے كہ اس نے اپنے باپ كى موت كے بعد روم،مغرب اور مصر پر تسلط حاصل كيا_اس نے اسكندريہ شہر بنايا_ پھر شام اور بيت المقدس پر اقتدار قائم كيا_وہاں سے ارمنستان گيا_عراق و ايران كو فتح كيا_پھر ہندوستان اور چين كا قصد كيا وہاں سے خراسان پلٹ آيا_ اس نے بہت سے نئے شہروں كى بنياد ركھي_پھر وہ عراق آگيا_ اس كے بعد وہ شہر'' زور'' ميں بيمار پڑا اور مرگيا_بعض نے كہا ہے كہ اس كى عمر چھتيس سال سے زيادہ نہ تھي_ اس كا جسد خاكى اسكندريہ لے جاكر دفن كرديا گيا_

دوسرا:مو رخين ميں سے بعض كا نظريہ ہے كہ ذوالقرنين يمن كاايك بادشاہ تھا_

اصمعى نے اپنى تاريخ'' عرب قبل از اسلام'' ميں،ابن ہشام نے اپنى مشہور تاريخ''سيرة''ميں اورا بوريحان بيرونى نے''الاثار الباقيہ''ميں يہى نظريہ پيش كيا ہے_

يہاں تك كہ يمن كى ايك قوم''حميري''كے شعراء اور زمانہ جاہليت كے بعض شعراء كے كلام ميں ديكھا جا سكتا ہے كہ انہوں نے ذوالقرنين كے اپنے ميں سے ہونے پر فخر كيا ہے_

(2)فارسى ميں اس كتاب كے ترجمے كا نام''ذوالقرنين يا كورش كبير'' ركھا گيا ہے_

(3)اس سلسلے ميں مزيد آگاہى كيلئے رجوع كريں تفسير نمونہ جلد 7 صفحہ 197

ذوالقرنين كو يہ نام كيوں ديا گيا؟

پہلى بات تو يہ ہے كہ''ذوالقرنين''كامعنى ہے_''دوسينگوں والا''سوال پيدا ہوتا ہے كہ انہيں اس نام سے كيوں موسوم كيا گيا_ بعض كا نظريہ ہے كہ يہ نام اس لئے پڑا كہ وہ دنيا كے مشرق و مغرب تك پہنچے كہ جسے عرب''قرنى الشمس''(سورج كے دوسينگ)سے تعبير كرتے ہيں_

بعض كہتے ہيں كہ يہ نام اس لئے ہوا كہ انہو ںنے دوقرن زندگى گزارى يا حكومت كي_اورپھر يہ كہ قرن كى مقدار كتنى ہے،اس ميں بھى مختلف نظريات ہيں_ بعض كہتے ہيں كہ ان كے سر كے دونوں طرف ايك خاص قسم كا ابھار تھا ا س وجہ سے ذوالقرنين مشہور ہوگئے_ آخر كار بعض كا نظريہ يہ ہے كہ ان كا خاص تاج دوشاخوں والا تھا_

جناب ذوالقرنين كے ممتاز صفات

قرآن مجيدسے اچھى طرح معلوم ہوتا ہے كہ ذوالقرنين ممتاز صفات كے حامل تھے _اللہ تعالى نے كاميابى كے اسباب ان كے اختيار ميں ديئےھے،انہوں نے تين اہم لشكر كشياں كيں_پہلے مغرب كى طرف،پھر مشرق كى طرف اور آخر ميں ايك ايسے علاقے كى طرف كہ جہاں ايك كوہستانى درہ موجود تھا، ان مسافرت ميں وہ مختلف اقوام سے ملے_ وہ ايك مرد مومن،موحد اور مہربان شخص تھے_ وہ عدل كا دامن ہاتھ سے نہيں چھوڑتے تھے_ اسى بناء پر اللہ كا لطف خاص ان كے شامل حال تھا_ وہ نيكوں كے دوست او رظالموں كے دشمن تھے_ انہيں دنيا كے مال و دولت سے كوئي لگائو نہ تھا_ وہ اللہ پر بھى ايمان ركھتے تھے اور روز جزاء پر بھي_ انہو ں نے ايك نہايت مضبوط ديوار بنائي ہے،يہ ديوار انہوں نے اينٹ اور پتھر كے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائي(اور اگر دوسرے مصالحے بھى استعمال ہوئے ہوں تو ان كى بنيادى حيثيت نہ تھي)_اس ديواربنانے سے ان كا مقصد مستضعف اور ستم ديدہ لوگوں كى ياجوج و ماجوج كے ظلم و ستم كے مقابلے ميں مدد كرنا تھا_

وہ ايسے شخص تھے كہ نزول قرآن سے قبل ان كا نام لوگوں ميں مشہور تھا_لہذا قريش اور يہوديوں نے ان كے بارے ميں رسول اللہ (ص) سے سوال كيا تھا، جيسا كہ قرآن كہتا ہے: ''تجھ سے ذوالقرنين كے بارے ميں پوچھتے ہيں :'' رسول اللہ (ص) اور ائمہ اہل بيت عليہم السلام سے بہت سى ايسى روايات منقول ہيں جن ميںہے كہ: ''وہ نبى نہ تھے بلكہ اللہ كے ايك صالح بندے تھے'' _

ديوار ذوالقرنين كہاں ہے ؟

بعض لوگ چاہتے ہيں كہ اسے مشہور ديوار چين پر منطبق كريں كہ جو اس وقت موجود ہے اور كئي سو كلو ميٹر لمبى ہے ليكن واضح ہے كہ ديوار چين لوہے اور تانبے سے نہيں بنى ہے اور نہ وہ كسى چھوٹے كو ہستانى درے ميں ہے ،وہ ايك عام مصالحے سے بنى ہوئي ديوار ہے ،اورجيسا كہ ہم نے كہا ہے كئي سو كلو ميٹر لمبى ہے اور اب بھى موجود ہے _ بعض كااصرار ہے كہ يہ وہى ديوار'' ما رب'' ہے كہ جو يمن ميں ہے ،يہ ٹھيك ہے كہ ديوار ما رب ايك كوہستانى درے ميں بنائي گئي ہے ليكن وہ سيلاب كو روكنے كے لئے اور پانى ذخيرہ كر نے كے مقصد سے بنائي گئي ہے اور ويسے بھى وہ لوہے اور تانبے سے بنى ہوئي نہيںہے_

جب كہ علماء و محققين كى گواہى كے مطابق سرزمين ''قفقاز'' ميں دريائے خزر اور دريائے سياہ كے درميان پہاڑوں كا ايك سلسلہ ہے كہ جو ايك ديوار كى طرح شمال اور جنوب كو ايك دوسرے سے الگ كرتا ہے اس ميں ايك ديوار كى طرح كا درہ كاموجود ہے جو مشہور درہ ''داريال'' ہے ،يہاں اب تك ايك قديم تاريخى لوہے كى ديوار نظر اتى ہے ،اسى بناء پر بہت سے لوگوں كا نظريہ ہے كہ ديوار ذوالقرنين يہى ہے _

يہ بات جاذب نظر ہے كہ وہيں قريب ہى ''سائرس''نامى ايك نہر موجود ہے اور ''سائرس''كا معنى ''كورش''ہى ہے (كيونكہ يونانى ''كورش'' كو''سائرس''كہتے تھے)_ ارمنى كے قديم اثار ميں اس ديوار كو''بھاگ گورائي''كے نام سے ياد كيا گيا ہے ،اس لفظ كا معنى ہے ''درہ كورش''يا''معبر كورش''( كورش كے عبور كرنے كى جگہ) ہے يہ سند نشاندہى كرتى ہے كہ اس ديوار كا بانى ''كورش'' ہى تھا_

ياجوج ماجوج(1) كون تھے ؟

قران واضح طورپر گواہى ديتا ہے كہ يہ دو وحشى خونخوار قبيلوں كے نام تھے ،وہ لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بہت زيادتياں اور ظلم كرتے تھے _ عظيم مفسر علامہ طباطبائي نے الميزان ميں لكھا ہے كہ توريت كى سارى باتوں سے مجموعى طورپر معلوم ہوتا ہے كہ ماجوج يا ياجوج و ما جوج ايك يا كئي ايك بڑے بڑے قبيلے تھے ،يہ شمالى ايشيا كے دور دراز علاقے ميںرہتے تھے ،يہ جنگجو ،ت گر اور ڈاكو قسم كے لوگ تھے _

تاريخ كے بہت سے دلائل كے مطابق زمين كے شمال مشرق'' مغولستان'' كے اطراف ميں گزشتہ زمانوں ميںانسانوں كا گويا جوش مارتا ہو اچشمہ تھا، يہاں كے لوگوں كى ابادى بڑى تيزى سے پھلتى اورپھولتى تھى ،ابادى زيادہ ہونے پر يہ لوگ مزرق كى سمت يا نيچے جنوب كى طرف چلے جاتے تھے اور سيل رواں كى طرح ان علاقوں ميں پھيل جاتے تھے اور پھر تدريجاً وہاں سكونت اختيار كر ليتے تھے ،تاريخ كے مطابق سيلاب كى مانند ان قوموں كے اٹھنے كے مختلف دور گزرے ہيں _(2)

كورش كے زمانے ميں بھى ان كى طرف ايك حملہ ہوا ،يہ تقريباً پانچ سو سال قبل مسيح كى بات ہے ليكن اس زمانے ميں ''ماد'' اور'' فارس'' كى متحد ہ حكومت معرض وجود ميں اچكى تھى لہذا حالات بد ل گئے اور مغربى ايشيا ان قبائل كے حملوں سے اسودہ خاطر ہوگيا_ لہذا يہ زيادہ صحيح لگتا ہے كہ ياجوج اور ماجوج انہى وحشى قبائل ميں سے تھے ،جب كورش ان علاقوں كى طرف گئے تو قفقاز كے لوگوں نے درخواست كى كہ انھيں ان قبائل كے حملوں سے بچايا جائے ،لہذ اس نے وہ مشہور ديوار تعمير كى ہے جسے ديوار ذوالقرنين كہتے ہيں _


(1)قران مجيد كى دو سورتوں ميں ياجوج ماجوج كا ذكر ايا ہے ايك سورہ كہف ايت 94 ميں اور دوسرا سورہ انبياء كى ايت 96 ميں _

(2)ان ميں ايك حملہ ان وحشى قبائل نے چوتھى صدى عيسوى ميں'' اتيلا'' كى كمان ميں كيا،اس حملے ميں روم كا شاہى تمدن خاك ميں مل گيا _ايك اور دور كہ جو ان كے حملوں كا تقريباً اخرى دور شمار ہوتا ہے ،وہ بارہويں صدى ہجرى ميں چنگيز خاں كى سر پرستى ميں ہوا ،انھوں نے مسلمان اور عرب ممالك پر حملہ كيا ،اس حملے ميں بغداد سميت بہت سے شہر تباہ بر باد ہو گئے

* * * * *

قوم تُبّع

سر زمين يمن جزيرة العرب ميں واقع ہے اور اس كا شمار دنيا كى ايسى آباد اور بابركت زمينوں ميں ہوتا ہے، جو ماضى ميں درخشندہ تمدن كى حامل تھي، اس سر زمين پر ايسے بادشاہ حكومت كيا كرتے تھے جن كا نام ''تُبّع''(جس كى جمع ''تبايعہ'' ہے) تھا چونكہ لوگ ان كى ''اتباع'' كيا كرتے تھے، اس لئے ان كو'' تُبّع'' كہتے تھے يا پھر اس لئے كہ وہ كئي پشتوں تك يكے بعد ديگرے بر سر اقتدار آتے رہے_

قوم تُبّع كون تھي؟

قرآن مجيد ميں صرف دو مقام پر'' تُبّع''كا لفط استعمال ہوا ہے ،ايك تو سورہ دخان ايت 37ميںاور دوسرے سورہ ''ق ''كى 14ويں ايت ميں جہاں پر ارشاد ہوتا ہے :

''گھنے درختوں كى سر زمين والى قوم شعيب اور قوم تبع ،ايك نے خدا كے رسولوں كو جھٹلايا تو خدا كى تہديد بھى ان كے بارے ميں سچ ثابت ہوگئي''_

''تبع''يمن كے بادشاہوں كا ايك عمومى لقب تھا،جس طرح ايران كے بادشاہوں كو كسرى ،ترك سلاطين كو خاقان ،مصر كے بادشاہون كو فرعون اور روم كے شہنشاہوں كو قيصر كہا جاتا تھا_

يمن كے بادشاہوں كو''تبع''يا تو اس لئے كہا جاتا تھا كہ يہ لوگوں كو اپنى پيروى كى دعوت ديا كرتے

تھے ،يا پھر اس كے لئے كہ وہ يكے بعد ديگرے بر اہ مملكت ہوا كرتے تھے _

بظاہر تو يہى معلوم ہوتا ہے كہ قران مجيد نے يمن كے تمام بادشاہوں كى بات نہيں كي،بلكہ كسى خاص بادشاہ كا ذكر كيا ہے (جيسا كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معاصر خاص فرعون كى بات كى ہے )_

بعض روايات ميں ايا ہے كہ اس كا نام ''اسعد ابو كرب ''تھا_

بعض مفسرين كا يہ نظريہ ہے كہ وہ بذات خود حق طلب اور صاحب ايمان شخص تھا،انھوں نے قران مجيد كى دونوں ايات سے استدلال كيا ہے، كيونكہ قران پاك كى مذكورہ دونو ں ايا ت ميں اس كى ذات كى مذمت نہيں كى گئي بلكہ اس كى قوم كى مذمت كى گئي ہے _

پيغمبر اسلام (ص) سے نقل كى جانے والى روايت بھى اسى بات كى شاہد ہے ،كيونكہ انحضرت (ص) فرماتے ہيں: ''تبع'' كو بر امت كہو كيونكہ وہ ايمان لاچكا تھا_''

تُبّع مدينہ كے نزديك

ايك اور روايت ميں ہے كہ جب ''تبع'' اپنے كشور كشائي كے ايك سفر ميں مدينہ كے قريب پہنچا تو وہاں كے ساكن يہودى علماء كو پيغام بھيجا كہ اس سرزمين كو ويران كرنا چاہتا ہوں تاكہ كوئي بھى يہودى اس جگہ نہ رہنے پائے ،اور عرب قانون حكم فرماہو_

يہوديوں كا سب سے بڑا عالم ''شامول ''تھا،اس نے كہا :يہ وہ شہر ہے جو حضرت اسماعيل كى نسل سے پيد ا ہونے والے ايك پيغمبر كى ہجرت گاہ بنے گا،پھر اس نے پيغمبر اسلام (ص) كى چند صفات گنوائيں، متبع جس كے ذہن ميں گويا اس بارے ميں كچھ معلومات تھيں اس نے كہا :''تو پھر اس شہر كو ويران نہيں كروں گا''_

حتى كہ ايك اور روايت ميں اسى داستان كے ذيل ميں يہ بات بھى بيان ہوئي ہے كہ اس نے ''اوس''اور ''خزرج ''كے بعض قبائل كو جو اس كے ہمراہ تھے حكم ديا كہ وہ اسى شہر ميں رہ جائيں اور جب پيغمبر موعود ظہور كريں تو وہ ان كى امداد كريں اوراپنى اولاد كو بھى وہ اسى بات كى وصيت كرتا رہا ،حتى كہ اس نے ايك

خط بھى تحرير كر كے اس كے سپرد كر ديا ،جس ميں پيغمبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كا اظہار كيا گيا تھا_

تُبّع شہر مكہ ميں

صاحب ''اعلام القران ''رقمطراز ہيں :

''تبع ''يمن كے عالمگيربادشاہوں ميں سے ايك تھا كہ جس نے ہندوستان تك فوج كشى كى اور اس علاقے كى تمام حكومتوں كو اپنى زير نگرانى كر ليا، اپنى فوج كشى كى ايك مہم كے دوران ميں وہ مكہ معظمہ پہنچا اور اس نے خانہ كعبہ كے منہدم كر نے كا ارادہ كر ليا ،ليكن وہ ايك ايسى بيمارى ميں مبتلا ہو گيا كہ طبيب اس كے معالجے سے عاجز اگئے _

اس كے ہمركابوں ميں كچھ اہل علم بھى موجود تھے جس كا سرپرست'' شامول'' نامى ايك حكيم تھا،اس نے كہا:اپ كى بيمارى كا اصل سبب خانہ كعبہ كے بارے ميں بُرى نيت ہے _

''تبع''اپنے مقصد سے باز اگيا اور نذر مانى كہ وہ خانہ كعبہ كا احترام كرے گا اور صحت ياب ہونے كے بعد خانہ كعبہ پر يمانى چادر كا غلاف چڑھائے گا _

دوسرى تاريخوں ميں بھى خانہ كعبہ پر غلاف چڑھانے كى داستان منقول ہے جو تو اتركى حد تك پہنچى ہوئي ہے يہ فوج كشى اور كعبہ پر غلاف چڑھانے كا مسئلہ 5 عيسوى ميں وقوع پذير ہوا ،اب بھى شہر مكہ ميں ايك جگہ موجود ہے جس كا نام ''دارالتبابعہ'' ہے_

بہرحال يمن كے بادشاہوں (تبابعہ يمن)كى داستان كا ايك بہت بڑا حصہ تاريخى لحاظ سے ابہام سے خالى نہيں ہے ،كيونكہ ان كى تعداد اور ان كى حكومت كے عرصہ كے بارے ميں زيادہ معلومات مہيا نہيں ہيں، اس بارے ميں بعض متضاد روايتيں بھى ملتى ہيں ،جو كچھ اسلامى روايات ميں ہے وہ تفسيرى مواد ہو يا تاريخى اور حديثى ،صرف بادشاہ كے بارے ميں ہے ،_جس كا قران ميں دو مرتبہ ذكر ہوا ہے _

* * * * *

اصحاب القريہ

انطاكيہ كے رسول

''انطاكيہ ''شام كے علاقہ كا ايك قديم شہر ہے بعض كے قول كے مطابق يہ شہر مسيح عليہ السلام سے تين سو سال پہلے تعمير ہوا،يہ شہر قديم زمانے ميں دولت و ثروت اور علم و تجارت كے لحاظ سے مملكت روم كے تين بڑے شہروں ميں سے ايك شمار ہوتا تھا_

شہر انطاكيہ ،حلب سے ايك سو كلو ميٹر سے كچھ كم اور اسكندريہ سے تقريبا ساٹھ كلو ميٹر كے فاصلے پر واقع ہے _

يہ خليفہ ثانى كے زمانہ ميں ''ابو عبيدہ جراح'' كے ہاتھوں فتح ہوااور روميوں كے ہاتھوں سے نكل گيا اس ميں رہنے والے لوگ عيسائي تھے انھوں نے جزيہ دينا قبول كر ليا اور اپنے مذہب پر باقى رہ گئے _

پہلى عالمى جنگ كے بعد يہ شہر'' فرانسيسيوں'' نے اسے چھوڑنے كا فيصلہ كيا تو اس بات كے پيش نظر كہ ان كے شام سے نكلنے كے بعد اس ملك ميں ہونے والے فتنہ و فساد سے عيسائيوں كو كوئي گزند نہ پہنچے، انھوں نے اسے تركى كے حوالے كرديا_

انطاكيہ عيسائيوں كى نگاہ ميں اسى طرح دوسرا مذہبى شہر شمار ہوتا ہے جس طرح مسلمانوں كى نظر ميں

مدينہ ہے اور ان كا پہلا شہر بيت المقدس ہے جس سے حضرت عيسى عليہ السلام نے اپنى دعوت كى ابتداء كى او راس كے بعد حضرت عيسى (ع) پر ايمان لانے والوں ميں سے ايك گروہ نے انطاكيہ كى طرف ہجرت كى اور'' پولس'' اور'' برنابا'' شہروں كى طرف گئے، انھوں نے لوگوں كو اس دين كى طرف دعوت دى ،يہاں سے دين عيسوى نے وسعت حاصل كي، اسى بناء پرقرآن ميں اس شہر كے بارے ميں خصوصيت كے ساتھ گفتگو ہوئي ہے_

قرآن اس واقعہ كو بيان كرتے ہوئے فرماتا ہے:

''تم ان سے بستى والوں كى مثال بيان كرو كہ جس وقت خدا كے رسول ان كى طرف آئے_''(1)

قرآن اس اجمالى بيان كے بعد ان كے قصے كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتا ہے: '' وہ وقت كہ جب ہم نے دو رسولوںكو ان كى طرف بھيجا ليكن انھوں نے ہمارے رسولوں كى تكذيب كى ،لہذا ہم نے ان دو كى تقويت كے لئے تيسرا رسول بھيجا ،ان تينوں نے كہا كہ ہم تمہارى طرف خدا كى طرف سے بھيجے ہوئے ہيں''_(2)

اس بارے ميں كہ يہ رسول كون تھے ،مفسرين كے درميان اختلا ف ہے ،بعض نے كہا ہے كہ ان دو كے نام'' شمعون ''اور ''يوحنا''تھے اور تيسرے كا نام ''پولس ''تھا اور بعض نے ان كے دوسرے نام ذكر كئے ہيں_

اس بارے ميں بھى مفسرين ميں اختلاف ہے كہ وہ خدا كے پيغمبراور رسول تھے يا حضرت مسيح عليہ السلام كے بھيجے ہوئے اور ان كے نمائند ے تھے (اور اگر خدا يہ فرماتا ہے كہ ہم نے انھيں بھيجا تواس كى وجہ يہ ہے كہ مسيح عليہ السلام كے بھيجے ہوئے بھى خدا ہى كے رسول ہيں )_يہ اختلافى مسئلہ ہے اگر چہ قران ظاہر پہلى تفسير كے موافق ہے اگر چہ اس نتيجہ ميں كہ جو قران لينا چاہتا ہے كوئي فرق نہيں پڑتا _

اب ہميں يہ ديكھنا ہے كہ اس گمراہ قوم نے ان رسولوں كى دعوت پر كيا رد عمل ظاہر كيا ؟قران كہتا ہے:


(1)سورہ ى س آيت 13

(2)سورہ ى س آيت 14

انھوں نے بھى وہى بہانہ كياكہ جو بہت سے سركش كافروں نے گزشتہ خدائي پيغمبروں كے جواب ميں كيا تھا: ''انھوں نے كہا ،تم تو ہم ہى جيسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے كوئي چيز نازل نہيں كى ہے، تمہارے پاس جھوٹ كے سوا اور كچھ نہيں ہے _''(1)

اگر خدا كى طرف سے كوئي بھيجا ہوا ہى انا تھا تو كوئي مقرب فرشتہ ہونا چاہئے تھا ،نہ كہ ہم جيسا انسان اور اسى امر كو انھوں نے رسولوں كى تكذيب اور فرمان الہى كے نزول كے انكار كى دليل خيال كيا _

حالانكہ وہ خود بھى جانتے تھے كہ پورى تاريخ ميں سب رسول نسل ادم عليہ السلام ہى سے ہوئے ہيں ان ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام بھى تھے كہ جن كى رسالت سب مانتے تھے ،يقينا وہ انسان ہى تھے اس سے قطع نظر كيا انسانوں كى ضروريات ،مشكلات اور تكليفيں انسان كے علاوہ كوئي اور سمجھ سكتا ہے_؟(2)

بہر حال يہى پيغمبر اس گمراہ قوم كى شديد اور سخت مخالفت كے باوجود مايوس نہ ہوئے اور انھوں نے كمزورى نہ دكھائي اور ان كے جواب ميں ''كہا:ہمارا پروردگار جانتا ہے كہ يقينا ہم تمہارى طرف اس كے بھيجے ہوئے ہيں _''

''اور ہمارے ذمہ تو واضح اور اشكار طورپر ابلاغ رسالت كے علاوہ اور كوئي چيز نہيں ہے _''(وما علينا الا البلاغ المبين)


(1)سورہ ى س آيت 15

(2)يہاں پر خدا كى صفت رحمانيت كا ذكر كيوں كياگيا ہے ؟ممكن ہے كہ يہ اس لحاظ سے ہو كہ خدا ان كى بات كو نقل كرتے ہوئے خصوصيت سے اس صفت كاذكر كرتا ہے تاكہ ان كا جواب خود ان كى بات ہى سے حل ہو جائے ،كيونكہ يہ بات كيسے ممكن ہو سكتى ہے كہ وہ خدا كہ جس كى رحمت عامہ نے سارے عالم كو گھيرركھا ہے وہ انسانوں كى تربيت اور رشد و تكامل كى طر ف دعوت دينے كے لئے پيغمبر نہ بھيجے _ يہ احتمال بھى ہے كہ انھوں نے خصوصيت كے ساتھ وصف رحمن كا اس لئے ذكر كيا ہے كہ وہ يہ كہيں كہ خدا وند مہربان اپنے بندوں كا كام پيغمبروں كے بھيجنے اور مشكل ذمہ دارياں عائد كرنے سے نہيں كرتا وہ تو ازاد ركھتا ہے ،يہ كمزور اور بے بنياد منطق اس گروہ كے انكار كے ساتھ ہم اہنگ تھي_

مسلمہ طورپر انھوں نے صرف دعوى ہى نہيں كيا اور قسم پر ہى قناعت نہيں كي، بلكہ''بلاغ مبين ''ان كا ابلاغ ''بلاغ مبين ''كا مصداق نہ ہونا كيونكہ ''بلاغ مبين''تو اس طرح ہونا چاہئے كہ حقيقت سب تك پہنچ جائے اور بات يقينى اور محكم دلائل اور واضح معجزات كے سوا ممكن نہيں ہے _ بعض روايات ميں بھى ايا ہے كہ انھوں نے حضرت مسيح عليہ السلام كى طرح بعض ناقابل علاج بيماروںكو حكم خدا سے شفا بخشي_

ہم اپ كو سنگسار كر ديں گے

ليكن يہ دل كے اندھے واضح منطق اور معجزات كے سامنے نہ صرف جھكے نہيں بلكہ انھوں نے اپنى خشونت اور سختى ميں اضافہ كر ديا اور تكذيب كے مرحلے سے قدم اگے بڑھاتے ہوئے تہديد اور شدت كے مرحلے ميں داخل ہوگئے ''انھوں نے كہا:ہم تو تمہيں فال بد سمجھتے ہيں تمہارا وجود منحوس ہے اور تم ہمارے شہر كے بد بختى كا سبب ہو_''(1)

ممكن ہے كہ ان انبياء الہى كے انے كے ساتھ ہى ا س شہر كے لوگوں كى زندگى ميں ان كے گناہوں كے زير اثر يا خدائي تنبيہ كے طورپر بعض مشكلات پيش ائي ہوں ،جيسا كہ بعض مفسرين نے نقل بھى كيا ہے كہ ايك مدت تك بارش كا نزول منقطع رہا،ليكن انھوں نے نہ صرف يہ كہ كوئي عبرت حاصل نہيں كى بلكہ اس امر كو پيغمبروں كى دعوت كے ساتھ وابستہ كرديا_

پھر اس پر بس نہيں كى بلكہ كھلى دھمكيوں كے ساتھ اپنى قبيح نيتوں كو ظاہر كيا اور كہا:''اگر تم ان باتوں سے دستبردار نہ ہوئے تو ہم يقينى طورپر سنگسار كرديں گے اور ہمارى طرف سے تمہيں دردناك سزاملے گي''_(2) يہ وہ مقام تھا كہ خدا كے پيغمبر اپنى منہ بولتى منطق كے ساتھ ان كى فضول ہذيانى باتوں كا جواب دينے كے لئے تيار ہوگئے اور ''انھوں نے كہا : تمہارى بد بختى اور نحوست خود تمہارى ہى طرف سے ہے اور اگر تم ٹھيك طرح سے غور كرو تو اس حقيقت سے واقف ہو جاو گے ''_(3)


(1)سورہ ى س آيت 18

(2)سورہ ى س آيت 18

(3)سورہ ى س ايت 18

اگر بدبختى اور منحوس حوادث تمہارے معاشرے كو گھيرے ہوئے ہيں اور بركات الہيہ تمہارے درميان ميں سے اٹھ گئي ہيں تو اس كا عامل اپنے اندر اپنے پست افكار اور قبيح اعمال ميں تلاش كرو نہ كہ ہمارى دعوت ميں ،يہ تمہيں ہى ہو كہ جنھوں نے بت پرستى ،خود غرضى ،ظلم اور شہوت پر ستى سے اپنے زندگى كى فضا كو تاريك بناڈالا ہے اور خدا كى بر كات كو اپنے سے منقطع كر كے ركھ ديا ہے ''_

تمہارى اصلى بيمارى وہى تمہارا حد سے تجاوزہے اگر تم تو حيد كا انكار كرتے ہوئے شرك كى طرف رخ كرتے ہو تو اس كى وجہ حق سے تجاوز ہے اور اگر تمہار ا معاشرہ بُرے انجام ميں گرفتار ہوا ہے تو اس كا سبب بھى گناہ ميں زيادتى اور شہوات ميں الودگى ہے خلاصہ يہ كہ اگر خيرخواہوں كى خير خواہى كے جواب ميں تم انھيں موت كى دھمكى ديتے ہو تو يہ بھى تمہارے تجاوز كى بناپر ہے_

ايك جاں بكف مجاہد

قران ميں ان رسولوں كى جدوجہد كا ايك اور حصہ بيان كيا گيا ہے اس حصے ميں بتايا گيا ہے كہ ان ميں سے تھوڑے سے مومنين نے بڑى شجاعت سے ان انبياء كى حمايت كى اور وہ كا فر و مشرك اور ہٹ دھرم اكثريت كے مقابلے ميں كھڑے ہوئے اور جب تك جان باقى رہى انبياء الہى كا ساتھ ديتے رہے _

پہلے ارشاد ہوتا ہے :''ايك (باايمان )مرد شہر كے دور دراز مقام سے بڑى تيزى كے ساتھ بھاگتا ہوا كافر گروہ كے پاس ايا اور كہا :اے ميرى قوم مرسلين خدا كى پيروى كرو _''(1)

اس شخص كا نام اكثر مفسرين نے ''حبيب نجار ''بيان كيا ہے وہ ايسا شخص تھا كہ جو پروردگار كے پيغمبروں كى پہلى ہى ملاقات ميں ان كى دعوت كى حقانيت اور ان كى تعليمات كى گہرائي كو پا گيا تھا وہ ايك ثابت قدم اور مصمم كا ر مومن ثابت ہوا جس وقت اسے خبر ملى كہ وسط شہرميں لو گ ان انبياء الہى كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے ہيں اور شايد انھيں شہيد كر نے كا ارادہ ركھتے ہيں تو اس نے خاموش رہنے كو جائز نہ سمجھا چنانچہ


(1)سورہ يس ايت 20

''يسعى ''كے لفظ سے معلوم ہوتا ہے كہ بڑى تيزى اورجلدى كے ساتھ مركز شہر تك پہنچا اور جو كچھ اس كے بس ميں تھا حق كى حمايت اور دفاع ميں فرو گزاشت نہ كى _

''رجل'' كى تعبير نا شناختہ شكل ميں شايد اس نكتے كى طرف اشارہ ہے كہ وہ ايك عام ادمى تھا ،كوئي قدرت و شوكت نہيں ركھتا تھا اور اپنى راہ ميں يك و تنہا تھا ليكن اس كے باوجود ايمان كے نور و حرارت نے اس كا دل اس طرح سے روشن اور مستعد كر ركھاتھا كہ راہ توحيد كے مخالفين كى سخت مخالفت كى پرواہ نہ كرتے ہوئے ميدان ميں كودپڑا _

''اقصى المدينة''كى تعبير اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ ان رسولوں كى دعوت شہر كے دور دراز كے مقامات تك پہنچ گئي تھى اور امادہ دلوں ميں اثر كر چكى تھى ،اس سے قطع نظر كہ شہر كے دور دراز كے علاقے ہميشہ ايسے مستضعفين كے مركز ہوتے ہيں كہ جو حق كو قبول كرنے كے لئے زيادہ و تيار ہوتے ہيں ،اس كے بر عكس شہروں ميں نسبتا ً خوشحال لوگ زندگى بسر كرتے ہيں جن كو حق كى طرف راغب كرنا اسانى كے ساتھ ممكن نہيں ہے _

ايئے اب ديكھتے ہيں كہ يہ مومن مجاہد اپنے شہر والوں كى توجہ حاصل كرنے كے لئے كس منطق اور دليل كو اختيار كرتا ہے _ اس نے پہلے يہ دليل اختيار كى كہ :''ايسے لوگوں كى پيروى كرو جو تم سے اپنى دعوت كے بدلے ميں كوئي اجر طلب نہيں كرتے ''_(1)

يہ ان كى صداقت كى پہلى نشانى ہے كہ ان كى دعوت ميں كسى قسم كى مادى منفعت نہيں ہے ،وہ تم سے نہ كوئي مال چاہتے ہيں اور نہ ہى جاہ ومقام ،يہاں تك كہ وہ تو تشكر و سپاس گزارى بھى نہيں چاہتے اور نہ ہى كوئي اور صلہ _ اس كے بعد قران مزيد كہتا ہے :(علاوہ ازين )يہ رسول جيسا ان كى دعوت كے مطالب اور ان كى باتوں سے معلوم ہوتا ہے ''كہ وہ ہدايت يافتہ افرا د ہيں ''_(2)


(1)سورہ ى س ايت21

(2)سورہ ى س ايت22

يہ اس بات كا اشارہ ہے كہ كسى كى دعوت كو قبول نہ كرنا يا تو اس بناپر ہوتا ہے كہ اس كى دعوت حق نہيں ہے اور وہ بے راہ روى اور گمراہى كى طرف كھينچ رہا ہے يا يہ كہ ہے توحق ليكن اس كو پيش كرنے والے اس كے ذريعے كوئي خاص مفاد حاصل كر رہے ہيں كيونكہ يہ بات خود اس قسم كى دعوت كے بارے ميں بد گمانى كا ايك سبب ہے ،ليكن جب نہ وہ بات ہو اور نہ يہ ،تو پھر تامل و تردد كے كيا معنى ؟

اس كے بعد قران ايك اور دليل پيش كرتا ہے اور اصل توحيد كے بارے ميں بات كرتا ہے كيونكہ يہى انبياء كى دعوت كا اہم ترين نكتہ ہے ،كہتا ہے: ''ميں اس ہستى كى پرستش كيوں نہ كروں كہ جس نے مجھے پيدا كياہے _''(1)

وہ ہستى پرستش كے لائق ہے كہ جو خالق و مالك ہے اور نعمات بخشنے والى ہے ،نہ كہ يہ بت كہ جن سے كچھ بھى نہيں ہو سكتا ،فطرت سليم كہتى ہے كہ خالق كى عبادت كرنا چاہئے نہ كہ اس بے قدر و قيمت مخلوق كى _

اس كے بعد خبردار كرتا ہے كہ ياد ركھو ''تم سب كے سب اخر كار اكيلے ہى اس كى طرف لوٹ كر جاو گے _''(2)

اپنے تيسرے استدلال ميں بتوں كى كيفيت بيان كرتا ہے اور خدا كے لئے عبوديت كے اثبات كو ،بتوں كى عبديت كى نفى كے ذريعے تكميل كرتے ہوئے كہتا ہے :''كيا ميں خدا كے سوا اور معبود اپنالوں ،جب كہ خدائے رحمن مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو ان كى شفاعت مجھے معمولى سا فائدہ بھى نہ دے دے گى اور وہ مجھے اس كے عذا ب سے نہ بچا سكيں گے_''(3)

اس كے بعد يہ مجاہد مومن مزيد تاكيد و توضيح كے لئے كہتا ہے :''اگر ميں اس قسم كے بتوں كى پرستش كروں اورا نھيں پروردگار كا شريك قرار دوںتو ميں كھلى ہوئي گمراہى ميں ہوں گا _''(4)


(1)سورہ ى س ايت 22

(2)سورہ ى س ايت 22

(3)سورہ ى س ايت 23

(4)سورہ ى سين 24

اس سے بڑھ كر كھلى گمراہى كيا ہوگى كہ عاقل و باشعور انسان ان بے شعور موجودات كے سامنے گھٹنے ٹيك دے اور انھيں زمين و اسمان كے خالق كے برابر جانے_

اس مجاہد مومن نے ان استدلالات اور مو ثر و وسيع تبليغات كے بعد ايك پراثر تاثير اواز كے ساتھ سب لوگوں كے درميان اعلان كيا:ميں تمہارے پرور دگار پر ايمان لے ايا ہوں اور ان رسولوں كى دعوت كو قبول كيا ہے _ ''اس بناء پر ميرى باتوں كو سنو_''(1)

اور جان لو كہ ميں ان رسولوں كى دعوت پر ايمان ركھتا ہوں اور تم ميرى بات پر عمل كرو كہ يہى تمہارے فائدہ كى بات ہے _

اس مر د مومن كے مقابلہ ميں قوم كا ردّعمل

ايئے اب ديكھتے ہيں كہ اس پاكباز مومن كے جواب ميں اس ہٹ دھرم قوم كا رد عمل كيا تھا ،قران نے اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كہى ليكن قران بعد كے لب و لہجہ سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اس كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے اور اسے شہيد كر ديا _

ہاں اس كى پر جوش اور ولولہ انگيز گفتگو قوى اور طاقتور استدلالات اور ايسے عمدہ و دلنشين نكات كے ساتھ تھى ،مگر اس سے نہ صرف يہ كہ ان سياہ دلوں اور مكرو غرور سے بھرے ہوئے سروں پر كوئي مثبت اثر نہيں ہوا بلكہ كينہ و عداوت كى اگ ان كے دلوں ميں ايسے بھڑكى كہ وہ اپنى جگہ سے كھڑے ہوئے اور انتہائي سنگدلى اور بے رحمى سے اس شجاع مرد مومن كى جان كے پيچھے پڑگئے ،ايك روايت كے مطابق انھوں نے اسے پتھر مارنے شروع كئے اور اس كے جسم كو اس طرح سے پتھروں كا نشانہ بنايا كہ وہ زمين پر گر پڑ ااور جان جان افرين كے سپرد كردى ،اس كے لبوں پر مسلسل يہ بات تھى كہ ''خدا وند اميرى اس قوم كو ہدايت فرماكہ وہ جانتے نہيں ہيں ''_


(1)سورہ ى س ايت 25

ايك اور روايت كے مطابق اسے اس طرح پاو ں كے نيچے روندا كہ اس كى روح پرواز كر گئي _

ليكن قران اس حقيقت كو ايك عمدہ اور سر بستہ جملہ كے ساتھ بيان كرتے ہوئے كہتا ہے :''اسے كہا گيا كہ جنت ميں داخل ہوجا''(1)

يہ وہى تعبير ہے كہ جوراہ خدا كے شہيدوں كے بارے ميں قران كى دوووسرى ايات ميں بيان ہوئي ہے : ''يہ گمان نہ كرو كہ جو لوگ راہ خدا ميں قتل كئے گئے ہيںو ہ مردہ ہيں بلكہ وہ توزندہ جاويد ہيں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہيں _''(2)

جاذب توجہ بات يہ ہے كہ يہ تعبير اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ يہ مرد مومن شہادت پاتے ہى جنت ميں داخل ہوگيا ،ان دونوں كے درميان اس قدر كم فاصلہ تھا كہ قران مجيد نے اپنى لطيف تعبير ميں اس كى شہادت كا ذكر كرنے كے بجائے اس كے بہشت ميں داخل ہونے كو بيان كيا ،شہيدوں كى منز ل يعنى بہشت و سعادت __كس قدر نزديك ہے _

بہر حال اس شخص كى پاك روح اسمانوں كى طرف ،رحمت الہى كے قرب اور بہشت نعيم كى طرف پرواز كر گئي اور وہاں اسے صرف يہ ارزو تھى كہ :''اے كاش ميرى قوم جان ليتى _''اے كاش وہ جان ليتے كہ ميرے پروردگار نے مجھے اپنى بخشش اور عفو سے نوازا ہے اور مجھے مكرم لوگوں كى صف ميں جگہ دى ہے _''(3)

ايك حديث ميں ہے كہ پيغمبر گرامى اسلام (ص) نے فرمايا : ''اس باايمان شخص نے اپنى زندگى ميں بھى اپنى قوم كى خير خواہى كى اور موت كے بعد بھى اس كى ہدايت كى ارزو ركھتاتھا _''

بہر حال يہ تو اس مومن اور سچے مجاہد كا انجام تھا كہ جس نے اپنى ذمہ دارى كى انجام دہى اور خدا كے پيغمبروں كى حمايت ميں كوئي كوتاہى نہيں كى اور اخر كار شربت شہادت نو ش كيا اور جوار رحمت ميں جگہ پائي _


(1)سورہ ى س ايت 26

(2)سورہ ال عمران ايت 169

(3)سورہ ى س ايت 26تا 27

تين پيغمبروں (ع) كا انجام كار

اگر چہ قران ميں ان تين پيغمبروں كے انجام كار كے متعلق كوئي بات نہيں كى گئي كہ جو ا قوم كى طرف مبعوث ہوئے _ليكن بعض مفسرين نے لكھا ہے كہ اس قوم نے ،اس مر د مومن كو شہيد كرنے كے علاوہ اپنے پيغمبروں كو بھى شہيد كر ديا جب كہ بعض نے تصريح كى ہے كہ اس مرد مومن نے لوگوں كو اپنے ساتھ مشغول ركھاتا كہ وہ پيغمبر اس سازش سے بچ جائيں ،كہ جو ان كے خلاف كى گئي تھى ،اور كسى پر امن جگہ منتقل ہو جائيں _

اس ظالم اور سركش قوم كا سرانجام

ہم نے ديكھا كہ شہر انطاكيہ كے لوگوں نے خدا كے پيغمبروں كى كيسے مخالفت كى ،اب ہم يہ ديكھتے ہيں كہ ان كا انجام كيا ہوا_

قران اس بارے ميں كہتا ہے :''ہم نے اس كے بعد اس كى قوم پر كوئي لشكر اسمان سے نہيں بھيجا اور اصولاً ہمارا يہ طريقہ ہى نہيں ہے كہ ايسى سركش اقوام كو نابود كرنے كے لئے ان امور سے كام ليں _''(1)

ہم ان امور كے محتاج نہيں ہيںصر ف ايك اشارہ ہى كافى ہے كہ جس سے ہم ان سب كو خاموش كر ديں اور انھيں ديا رعد م كى طرف بھيج ديں اور ان كى زندگى كو درہم برہم كرديں _

صرف ايك اشارہ ہى كافى ہے كہ ان كے حيات كے عوامل ہى ان كى موت كے عامل ميں بدل جائيں اور مختصر سے وقت ميں ان كى زندگى كا دفتر لپيٹ كر ركھ ديں _ پھر قران مزيد كہتا ہے :''صرف ايك اسمانى چيخ پيدا ہوئي ،ايسى چيخ كہ جو ہلادينے والى اور موت كا پيغام تھى اچانك سب پر موت كى خاموشى طارى ہوگئي ''،(2)

كيا يہ چيخ بجلى كى كڑك تھى كہ جو بادل سے اٹھى اور زمين پر جاپڑى اور ہر چيز كو لرزہ بر اندام كر ديا اور


(1)سورہ ى س ايت 28

(2)سورہ ى س ايت 29

تمام عمارتوں كو تباہ كرديا اور وہ سب خوف كى شدت سے موت كى اغوش ميں چلے گئے ؟

يا يہ ايسى چيخ تھى كہ جو زمين كے اندر سے ايك شديد زلزلے كى صورت ميں اٹھى اور فضا ميںدھماكہ ہوا اور اس دھماكے كى لہرنے انھيں موت كى آغوش ميں سلاديا _

ايك چيخ وہ جو كچھ بھى تھى لمحہ بھر سے زيادہ نہ تھى ،وہ ايك ايسى اواز تھى كہ جس نے سب اوازوں كو خاموش كرديا اور ايسى ہلا دينے والى تھى كہ جس نے تمام حركتوں كو بے حركت كر ديا اور خدا كى قدرت ايسى ہى ہے اور ايك گمراہ اور بے ثمر قوم كا انجام يہى ہوتا ہے _

بسو زند چوب درختان بى بر

سزا خودہمين است مربى برى را

''بے ثمر درختوں كى لكڑى جلانے ہى كے كام اتى ہے كيونكہ بے ثمر چيز كى سزا يہى ہے _''

انطاكيہ كے رسولوںكى داستان مجمع البيان كى زباني

مفسر عالى قدر'' طبرسي'' مجمع البيان ميں كہتے ہيں :حضرت عيسى عليہ السلام نے حواريوں ميں سے اپنے دو نمائندے انطاكيہ كى طرف بھيجے جس وقت وہ شہر كے پاس پہنچے تو انھوں نے ايك بوڑھے ادمى كو ديكھا كہ جو چند بھيڑيں چرانے كے لئے لايا تھا ،يہ ''حبيب''صاحب ''يس ''تھا ،انھوں نے اسے سلام كيا ، بوڑھے نے جواب ديا اور پوچھا كہ تم كون ہو؟انھوں نے كہا كہ ہم عيسى عليہ السلام كے نمائندے ہيں ،ہم اس لئے ائے ہيں كہ تمہيں بتوں كى عبادت كے بجائے خدا ئے رحمان كى طرف دعوت ديں_

بوڑھے نے كہا كہ تمہارے پاس كوئي معجزہ يا نشانى بھى ہے؟

انھوں نے كہا :ہاں اہم بيماروں كو شفا ديتے ہيں اور مادر زاد اندھوں اور برص ميں مبتلالوگوں كو حكم خدا سے صحت و تندرستى بخشتے ہيں _

بوڑھے نے كہا :ميرا ايك بيمار بيٹا ہے كہ جو سالہاسا ل سے بستر پر پڑا ہے _

انھوں نے كہا :ہمارے ساتھ چلو تاكہ ہم تمہارے گھر جاكر اس كا حال معلوم كريں _

بوڑھا ان كے ساتھ چل پڑا ،انھوںنے اس كے بيٹے پر ہاتھ پھيرا تو وہ صحيح و سالم اپنى جگہ پر اٹھ كھڑا ہو ا_ يہ خبر پورے شہر ميں پھل گئي اور خدا نے اس كے بعد بيماروں ميں سے ايك كثير گروہ كو ان كے ہاتھ شفا بخشي_

ان كا بادشاہ بت پرست تھا جب اس تك خبر پہنچى تو اس نے انہيںبلا بھيجا اور ان سے پوچھا كہ تم كون لوگ ہو؟ انھوں نے كہا :كہ ہم عيسى عليہ السلام كے فرستادہ ہيں ،ہم اس لئے ائے ہيں كہ يہ موجودات جو نہ سنتے ہيں اور نہ ديكھتے ہيں ان كى عبادت كے بجائے ہم تمہيں اس كى عبادت كى طرف دعوت ديں جو سنتا بھى ہے اور ديكھتا بھى ہے _

بادشاہ نے كہا:كيا ہمارے خداو ں كے علاوہ كوئي معبود بھى موجود ہے ؟

انھوں نے كہا :ہاں وہى كہ جس نے تجھے اور تيرے معبودوں كو پيدا كيا ہے _

بادشاہ نے كہا: اٹھ جاو كہ ميں تمہارے بارے ميں كچھ سوچ بچار كروں _

يہ ان كے لئے ايك دھمكى تھى ،اس كے بعد لوگوں نے ان دونوں نمائندوں كوبازار ميں پكڑ كر مارا پيٹا_

ليكن ايك دوسرى روايت ميں ہے كہ عيسى عليہ السلام كے ان دونوں نمائندوں كو بادشاہ تك رسائي حاصل نہ ہوئي اور ايك مدت تك وہ اس شہر ميں رہے ايك دن بادشاہ اپنے محل سے باہر ايا ہوا تھا تو انھوں نے تكبير كى اواز بلند كى _اور ''اللہ''كا نام عظمت كے ساتھ ليا ،بادشاہ غضب ناك ہوا اور انھيں قيد كر نے كا حكم دے ديا اور ہر ايك كو سو كوڑے مارے_

جس وقت حضرت عيسى عليہ السلام كے ان دونوں نمائندوں كى تكذيب ہوگئي اور نھيں زوود كوب كيا گيا تو حضرت عيسى عليہ السلام نے'' شمعون الصفا ''كو ان كے پيچھے روانہ كيا ،وہ جو حواريوں كے بزرگ تھے _

شمعون اجنبى صورت ميں شہر ميں پہنچے اور بادشاہ كے اطرافيوں سے دوستى پيدا كر لى ،انھيں ان كى

دوستى بہت بھائي اور ان كے بارے ميں بادشاہ كو بھى بتا يا ،بادشاہ نے بھى ان كو دعوت دى اور انھيں اپنے ہمنشينوں ميں شامل كر ليا ،بادشاہ ان كا احترام كرنے لگا _

شمعون نے ايك دن بادشاہ سے كہا:ميں نے سنا ہے كہ دو ادمى اپ كى قيد ميں ہيں اور جس وقت انھوں نے اپ كو اپ كے دين كے بجائے كسى دوسرے دين كى دعوت دى تو اپ نے انھيں مارا پيٹا؟كيا كبھى اپ نے ان كى باتيں سنى بھى ہيں ؟

بادشاہ نے كہا:مجھے ان پر تنا غصہ اياكہ ميں نے ان كى كوئي بات نہيں سنى _

شمعون نے كہا :اگر بادشاہ مصلحت سمجھيںتو انھيں بلا ليں تاكہ ہم ديكھيں تو سہى كہ ان كے پلے ہے كيا_ بادشاہ نے انھيں بلا ليا ،شمعون نے يوں ظاہر كيا جيسے انھيں پہچانتے ہى نہ ہوں اور ان سے كہا :تمہيں يہاں كس نے بھيجا ہے ؟

انھوں نے كہا :''اس خدا نے كہ جس نے سب كو پيدا كيا ہے اور جس كاكوئي شريك نہيں ہے _''

شمعون نے كہا:تمہارا معجزہ اور نشانى كيا ہے ؟

انھوںنے كہا:جو كچھ تم چاہو

بادشاہ نے حكم ديا اور ايك اندھے غلام كو لايا گيا جسے انھوں نے حكم خدا سے شفا بخشى ،بادشاہ كو بہت تعجب ہوا ،اس مقام پر شمعون بول اٹھے اور بادشاہ سے كہا:اگر اپ اس قسم كى درخواست اپنے خداو ں سے كرتے تو كيا وہ بھى اس قسم كے كام كى قدرت ركھتے ہيں؟

بادشاہ نے كہا تم سے كيا چھپا ہوا ہے ہمارے يہ خدا كہ جن كى ہم پرستش كرتے ہيں نہ تو كوئي ضرر پہنچا سكتے ہيں ،نہ نفع دے سكتے ہيں اور نہ كوئي اور خاصيت ركھتے ہيں _

اس كے بعد بادشاہ نے ان دونوں سے كہا:اگر تمہارا خدا مردے كو زندہ كر سكتا ہے تو ہم اس پر اور تم پر ايمان لے ائيں گے _

انھوں نے كہا :ہمارا خدا ہر چيز پر قدرت ركھتا ہے _

بادشاہ نے كہا:يہاں ايك مردہ ہے جسے مرے ہوئے سات دن گزر چكے ہيں ابھى تك ہم نے اسے دفن نہيں كيا،ہم اس انتظار ميں ہيں كہ اس كا باپ سفر سے اجائے تم اسے زندہ كر دكھاو _

مردہ كو لايا گيا تو وہ دونوں تو اشكار دعاكر رہے تھے اور شمعون دل ہى دل ميں ،اچانك مردے ميں حركت پيدا ہوئي اور وہ اپنى جگہ سے اٹھ كھڑا ہوا اور كہا كہ ميں سات روز سے مرچكاہوں ميں نے جہنم كى اگ اپنى انكھ سے ديكھى ہے اور ميں تمہيں خبردار كرتاہوں كہ تم سب خدا ئے يگانہ پر ايمان لے او _

بادشاہ نے تعجب كيا ،جس وقت شمعون كو يقين ہو گيا كہ اس كى باتيں اس پر اثر كر گئي ہيں تو اسے خدا ئے يگانہ كى طرف دعوت دى اور وہ ايمان لے ايااور اس كے ملك كے باشندے بھى اس كے ساتھ ايمان لے آئے ،اگر چہ كچھ لوگ اپنے كفر پر باقى رہے _

اس روايت كى نظير تفسير عياشى ميں امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے بھى نقل ہوئي ہے ،اگر چہ ان كے درميان كچھ فرق ہے_

ليكن قران كے ظاہر كى طرف توجہ كرتے ہوئے اس شہر والوںكا ايمان لانا بہت بعيد نظر اتا ہے كيونكہ قران كہتا ہے كہ وہ صيحہ اسمانى كے ذريعہ ہلاك ہو گئے_

ممكن ہے كہ روايت كے اس حصہ ميں راوى سے اشتباہ ہوا ہو_

* * * * *

اصحاب الرس

''اصحاب الرس'' (1)كون ہيں (1)اس سلسلے ميں بہت اختلات ہے _(3)

وہ ايسے لوگ تھے جو'' صنوبر''كے درخت كى پوجاكرتے تھے اور اسے ''درختوں كا بادشاہ ''كہتے تھے يہ وہ درخت تھا جسے جناب نوح عليہ السلام كے بيٹے ''يافث'' نے طوفان نوح كے بعد ''روشن اب''كے كنارے كاشت كيا تھا ''رس''نامى نہر كے كنارے انھوں نے بارہ شہر اباد كر ركھے تھے جن كے نا م يہ ہيں: ابان ،اذر،دي،بہمن ،اسفند ،فروردين،اردبہشت ،خرداد ،تير،مرداد، شہريور،اور مہر،ايرانيوں نے اپنے كلنڈر كے بارہ مہينوں كے نام انہى شہروں كے نا م پر ركھے ہوئے ہيں _


(1)سورہ فرقان ايت 38 ميں اس ظالم وستمگر قوم كا ذكر موجود ہے

(2)''رس''كا لفظ در اصل مختصر اور تھوڑے سے اثر كے معنى ميں ہے جيسے كہتے ہيں :''رس الحديث فى نفسي''(مجھے اس كى تھوڑى سى بات ياد ہے )يا كہا جاتا ہے ''وجد رسا من حمي''(اس نے اپنے اندر بخار كا تھوڑا سا اثر پايا)_ كچھ مفسرين كا نظريہ يہ ہے كہ ''رس'' كا معنى ''كنواں'' ہے_ معنى خواہ كچھ بھى ہو اس قوم كو اس نام سے موسوم كرنے كى وجہ يہ ہے كہ اس كا اب تھوڑا سا اثر يا بہت ہى كم نام اور نشان باقى رہ گيا ہے يا اس وجہ سے انھيں ''اصحاب الرس''كہتے ہيں كہ وہ بہت سے كنوو ں كے مالك تھے يا كنوو ں كا پانى خشك ہو جانے كى وجہ سے ہلاك و برباد ہو گئے

(3)رجوع كريں تفسير نمونہ ج8ص386

چونكہ وہ درخت صنوبر كا احترام كرتے تھے لہذا انھوں نے اس كے بيج كو دوسرے علاقوں ميں بھى كاشت كيا اور ابپاشى كے لئے ايك نہر كو مختص كرديا انھوں نے اس نہر كاپانى لوگوں كے لئے پينا ممنوع قرار دے ديا تھا ،حتى كہ اگر كوئي شخص اس سے پى ليتا اسے قتل كر ديتے تھے وہ كہتے تھے كيونكہ يہ ہمارے خداو ں كا سرمايہ حيات ہے لہذا مناسب نہيں ہے كہ كوئي اس سے ايك گھونٹ پانى كو كم كردے _

وہ سال كے بارہ مہينوں ميں سے ہر ماہ ايك ايك شہر ميں ايك دن كے لئے عيد منايا كرتے تھے اور شہر سے باہر صنوبر كے درخت كے پاس چلے جاتے اس كے لئے قربانى كرتے اور جانوروں كو ذبح كركے اگ ميں ڈال ديتے جب اس سے دھواں اٹھتا تو وہ درخت كے اگے سجدے ميں گر پڑتے اور خوب گريہ كيا كرتے تھے _ہر مہينے ان كا يہى طريقہ كار تھا چنانچہ جب ''اسفند ''كى ابادى اتى تو تمام بارہ شہروں كے لوگ يہاں جمع ہو تے اور مسلسل بارہ دن تك وہاں عيد منايا كرتے كيونكہ يہ ان كے بادشاہوں كا دارالحكومت تھا يہيں پر وہ مقدور بھر قربانى بھى كيا كرتے اور درخت كے اگے سجدے بھى كيا كرتے _

جب وہ كفر اور بت پرستى كى انتہا كو پہنچ گئے تو خدا وند عالم نے بنى اسرائيل ميں سے ايك نبى ان كى طرف بھيجا تاكہ وہ انھيں شرك سے روكے اور خدائے وحدہ لاشريك كى عبادت كى دعوت دے ليكن وہ اس نبى پر ايمان نہ لائے اب اس نبى نے فساد اور بت پرستى كى اصل جڑ يعنى اس درخت كے قلع قمع كرنے كى خدا سے دعا كى اور بڑا درخت خشك ہو گيا ،جب ان لوگوں نے يہ صور ت ديكھى تو سخت پريشان ہوگئے اور كہنے لگے كہ اس شخص نے ہمارے خداو ں پر جادو كر ديا ہے كچھ كہنے لگے كہ ہمارے خدا اس شخص كى وجہ سے ہم پر ناراض ہو گئے ہيں كيونكہ وہ ہميں كفر كى دعوت ديتا ہے_ اب بحث مباحثے كے بعد سب لوگوں نے اللہ كے اس نبى كو قتل كر نے كى ٹھان لى اور گہرا كنوں كھوداجس ميں اسے ڈال ديا اور كنوئيں كامنہ بند كر كے اس كے اوپر بيٹھ گئے اور اس كے نالہ و فرياد كى اواز سنتے رہے يہاں تك كہ اس نے جان جان افريں كے سپرد كردى ،خدا وند عالم نے انھيں ان برائيوں اور ظلم و ستم كى وجہ سے سخت عذاب ميں مبتلا كر كے نيست و نابود كر ديا _

* * * * *

اصحاب الجنہ

سر سبز باغات كے مالك

قران ميں پہلے زمانہ كے كچھ دولتمندوں كے بارے ميںجو ايك سر سبز و شاداب باغ كے مالك تھے اور اخر كار وہ خود سرى كى بناء پر نابود ہوگئے تھے،ايك داستان بيان كرتا ہے ،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ داستان اس زمانہ لوگوں ميں مشہور و معروف تھي،اور اسى بناء پر اس كو گواہى كے طورپر پيش كيا گيا ہے جيساكہ ارشاد ہوتا ہے:

''ہم نے انھيں ازمايا ،جيساكہ ہم نے باغ والوں كى ازمائشے كى تھى _''

يہ باغ كہاں تھا ،عظيم شہر صنعا ء كے قريب سر زمين يمن ميں ؟يا سر زمين حبشہ ميں ؟يا بنى اسرائيل كى سر زمين شام ميں ؟يا طائف ميں ؟اس بارے ميں اختلاف ہے ،ليكن مشہور يمن ہى ہے _

اس كا قصہ يہ ہے كہ يہ باغ ايك بوڑھے مر د مومن كى ملكيت تھا ،وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس ميں سے لے ليا كرتا اور باقى مستضعفين اور حاجت مندوں كو دے ديتا تھا ،ليكن جب اس نے دنيا سے انكھ بند كر لى (اور مر گيا )تو اس كے بيٹوں نے كہا ہم اس باغ كى پيداوار كے زيادہ مستحق ہيں ،چونكہ ہمارے عيال واطفال زيادہ ہيں ،لہذا ہم اپنے باپ كى طرح عمل نہيں كر سكتے ،اس طرح انھوں نے يہ ارادہ كر ليا كہ ان تمام حاجت مندوں كو جوہر سال اس سے فائدہ اٹھاتے تھے محروم كرديں ،لہذا ان كى سر نوشت وہى ہوئي جو قران ميں بيان

ہوئي _

ارشاد ہوتاہے :''ہم نے انھيں ازمايا ،جب انھوں نے يہ قسم كھائي كہ باغ كے پھلوں كو صبح كے وقت حاجت مندوں كى نظريں بچا كر چنيں گے _''اور اس ميں كسى قسم كا استشناء نہ كريں گے اور حاجت مندوں كے لئے كوئي چيز بھى نہ رہنے ديں _''(1)

ان كا يہ ارادہ اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ يہ كام ضرورت كى بناپر نہيں تھا ،بلكہ يہ ان كے بخل اور ضعيف ايمان كى وجہ سے تھاكيونكہ انسان چاہے كتناہى ضرورت مند كيوں نہ ہو اگر وہ چاہے تو كثيرپيداو ار والے باغ ميں سے كچھ نہ كچھ حصہ حاجت مندوں كے لئے مخصوص كرسكتاہے _

اس كے بعد اسى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہتا ہے :

''رات كے وقت جب كہ وہ سوئے ہوئے تھے تيرے پروردگار كا ايك گھيرلينے والا عذاب ان كے سارے باغ پر نازل ہوگيا ''(2)

ايك جلانے والى اگ اور مرگ بار بجلى اس طرح سے اس كے اوپر مسلط ہوئي كہ :''وہ سر سبز و شاداب باغ رات كى مانند سياہ اور تاريك ہوگيا _(3)اور مٹھى بھر راكھ كے سوا كچھ بھى باقى نہ بچا_

بہر حال باغ كے مالكوں نے اس گمان سے كہ يہ پھلوںسے لدے درخت اب تيار ہيں كہ ان كے پھل توڑ لئے جائيں :''صبح ہوتے ہى ايك دوسرے كو پكارا_انھوں نے كہا:''اگر تم باغ كے پھلوں كو توڑنا چاہتے ہو تو اپنے كھيت اور باغ كى طرف چلو_''(4)

''اسى طرح سے وہ اپنے باغ كى طرف چل پڑے اور وہ اہستہ اہستہ ايك دوسرے سے باتيں كر رہے تھے _كہ اس بات كا خيال ركھو كہ ايك بھى فقير تمہارے پاس نہ انے پائے _''(5)


(1)سورہ قلم ايت 17_18

(2)سورہ قلم ايت 19

(3)سورہ قلم ايت 20

(4)سورہ قلم ايت 21

(5)سورہ قلم ايت 21و22

اور وہ اس طرح اہستہ اہستہ باتيں كر رہے تھے كہ ان كى اواز كسى دوسرے كے كانوں تك نہ پہنچ جائے ،كہيں ايسا نہ ہو كہ كوئي فقير خبردار ہو جائے اور بچے كچے پھل چننے كے لئے يا اپنا پيٹ بھر نے كے لئے تھوڑا سا پھل لينے ان كے پاس اجائے _

ايسا دكھائي ديتا ہے كہ ان كے باپ كے سابقہ نيك اعمال كى بناء پر فقراء كا ايك گروہ ايسے دنوںكے انتظار ميں رہتا تھا كہ باغ كے پھل توڑنے كا وقت شروع ہوتو اس ميں سے كچھ حصہ انھيں بھى ملے ،اسى لئے يہ بخيل اور ناخلف بيٹے اس طرح سے مخفى طورپر چلے كہ كسى كو يہ احتمال نہ ہو كہ اس قسم كا دن اپہنچا ہے ،اور جب فقراء كو اس كى خبر ہو تو معاملہ ختم ہو چكا ہو _

''اسى طرح سے وہ صبح سويرے اپنے باغ اور كھيت ميںجانے كے ارادے سے حاجت مندوں اور فقراء كو روكنے كے لئے پورى قوت اور پختہ ارادے كے ساتھ چل پڑے _''(1)

سرسبز باغ كے مالكوں كا دردناك انجام

وہ باغ والے اس اميد پر كہ باغ كى فراواں پيدا وار كو چنيں اور مساكين كى نظريں بچاكر اسے جمع كر ليں اور يہ سب كچھ اپنے لئے خاص كر ليں ،يہاں تك كہ خدا كى نعمت كے اس وسيع دسترخوان پر ايك بھى فقير نہ بيٹھے ،يوں صبح سويرے چل پڑے ليكن وہ اس بات سے بے خبر تھے كہ رات كے وقت جب كہ وہ پڑے سو رہے تھے ايك مرگبار صاعقہ نے باغ كو ايك مٹھى بھر خاكستر ميں تبديل كر ديا ہے _

قران كہتا ہے : ''جب انھوں نے اپنے باغ كو ديكھاتو اس كا حال اس طرح سے بگڑ ا ہوا تھا كہ انھوں نے كہا يہ ہمارا باغ نہيں ہے ،ہم تو راستہ بھول گئے ہيں ،''(2)

پھر انھوں نے مزيد كہا :''بلكہ ہم توحقيقت ميں محروم ہيں _''(3)

ہم چاہتے تھے كہ مساكين اور ضرور ت مندوںكو محروم كريں ليكن ہم تو خود سب سے زيادہ محروم ہو


(1)سورہ قلم ايت 23و24

(2)سورہ قلم ايت 26

(3)سورہ قلم ايت 27

گئے ہيں مادى منافع سے بھى محروم ہو گئے ہيں اور معنوى بركات سے بھى كہ جو راہ خدا ميں خرچ كرنے اور حاجت مندوں كو دينے سے ہمارے ہاتھ اتيں _

''اس اثنا ميں ان ميں سے ايك جو سب سے زيادہ عقل مند تھا ،اس نے كہا:''كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ تم خدا كى تسبيح كيوں نہيں كرتے_''(1)

كيا ميں نے نہيں كہاتھا كہ خدا كو عظمت كے ساتھ ياد كرو اور اس كى مخالفت سے بچو ،اس كى نعمت كا شكريہ بجالاو اور حاجت مندوں كو اپنے سوال سے بہرہ مند كرو ليكن تم نے ميرى بات كو توجہ سے نہ سنا اور بدبختى كے گڑھے ميں جاگرے_

يہاں سے معلوم ہوتاہے كہ ان ميں ايك مرد مومن تھا جو انھيں بخل اور حرص سے منع كيا كرتاتھا ،چونكہ وہ اقليت ميں تھا لہذاكوئي بھى اس كى بات پركان نہيںدھرتا تھا ليكن اس درد ناك حادثہ كے بعد اس كى زبان كھل گئي ،اس كى منطق زيادہ تيز اور زيادہ كاٹ كرنے والى ہو گئي ،اور وہ انھيں مسلسل ملامت اور سر زنش كرتا رہا_

وہ بھى ايك لمحہ كےلئے بيدار ہوگئے اور انھوں نے اپنے گناہ كا اعتراف كر ليا :''انھوں نے كہا :ہمارا پرورددگار پاك اور منزہ ہے ،يقينا ہم ہى ظالم و ستمگر تھے ،(2)ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا اور دوسروں پر بھى _''

ليكن مطلب يہيں پر ختم نہيں ہوگيا:''انھوں نے ايك دوسرے كى طرف رخ كيا او ر ايك دوسرے كى ملامت و سر زنش كرنے لگے ''_(3)

احتمال يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك اپنى خطا كے اعتراف كے باوجود اصلى گناہ كو دوسرے كے كندھے پر ڈالتا اور شدت كے ساتھ اس كى سرز نش كرتا تھا كہ ہمارى بربادى كا اصل عامل تو ہے ورنہ ہم خدا اور اس كى عدالت سے اس قدر بيگانے نہيں تھے_


(1)سورہ قلم ايت 28

(2)سورہ قلم ايت 29

(3)سورہ قلم ايت 30

اس كے بعد مزيد كہتا ہے كہ جب وہ اپنى بدبختى كى انتہاء سے اگاہ ہوئے تو ان كى فرياد بلند ہوئي اور انھوں نے كہا:''وائے ہو ہم پر كہ ہم ہى سركشى اور طغيان كرنے والے تھے _''(1)

اخر كار انھوں نے اس بيدارى ،گناہ كے اعتراف اور خدا كى بازگشت كے بعد اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كيا اور كہا :اميد ہے كہ ہمارا پروردگار ہمارے گناہوں كو بخش دے گا اور ہميں اس سے بہتر باغ دے گا،كيونكہ ہم نے اس كى طرف رخ كرليا ہے اور اس كى پاك ذات كے ساتھ لولگالى ہے _لہذا اس مشكل كا حل بھى اسى كى بے پاياں قدرت سے طلب كرتے ہيں _''(2)

كيا يہ گروہ واقعا ً اپنے فعل پر پشيمان ہوگيا تھا ،اس نے پرانے طرز عمل ميں تجديد نظر كر لى تھى اور قطعى اور پختہ ارادہ كر ليا تھا كہ اگر خدا نے ہميں ائندہ اپنى نعمتوں سے نوازا تو ہم اس كے شكر كا حق ادا كريں گے ؟يا وہ بھى بہت سے ظالموں كى طرح كہ جب وہ عذاب ميں گرفتار ہوتے ہيں تو وقتى طورپر بيدار ہو جاتے ہيں ،ليكن جب عذاب ختم ہو جاتا ہے تو وہ دوبارہ انھيں كاموں كى تكرار كرنے لگتے ہيں _

اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے كہ ايت كے لب و لہجہ سے احتمالى طورپر جو كچھ معلوم ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ ان كى توبہ شرائط كے جمع نہ ہونے كى بناء پر قبول نہيں ہوئي ،ليكن بعض روايات ميں ايا ہے كہ انھوں نے خلوص نيت كے ساتھ تو بہ كى ،خدا نے ان كى توبہ قبول كر ليا اورا نھيں اس سے بہتر باغ عنايت كيا جس ميں خاص طورپر بڑے بڑے خوشوں والے انگور كے پُر ميوہ درخت تھے _

قران اخر ميں كلى طورپر نكالتے ہوئے سب كے لئے ايك درس كے عنوان سے فرماتا ہے :''خدا كا عذاب اس طرح كا ہوتا ہے اور اگر وہ جانيں تو اخرت كا عذاب تو بہت ہى بڑا ہے :''(3)

* * * * *


(1)سورہ قلم ايت 31

(2)سورہ قلم ايت 32

(3)سورہ قلم ايت 33