حضرت عيسى عليہ السلام اور حضرت مريم عليہا السلام

''حنہ'' اور ''اشياع'' دوبہنيں تھيں_ پہلى حضرت عمران كے نكاح ميں آئيں_ حضرت عمران بنى اسرائيل كى بہت اہم شخصيت تھے_ دوسرى كو اللہ كے ايك نبى زكريا(ع) نے اپنى زوجيت كے لئے منتخب فرمايا_

كئي سال گزر گئے_حنہ كے يہاں كوئي بچہ پيدا نہ ہوا_ايك روزوہ ايك درخت كے نيچے بيٹھى تھيں _ ديكھا كہ ايك پرندہ اپنے بچوں كو غذا دے رہا ہے_يہ منظر ديكھا تو اولاد كى خواہش ان كے دل ميں آگ كى طرح بھڑك اٹھي_ انہوں نے خلوص دل سے بارگاہ خداوندى ميں بيٹے كى درخواست كي،تھوڑا ہى عرصہ گزرا تھا يہ مخلصانہ دعا ہدف اجابت كو پہنچى اور وہ حاملہ ہوگئيں_

بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے حنہ كے شوہر حضرت عمران كى طرف وحى كى تھى كہ انہيں ايك بابركت لڑكا عطا كيا جائے گا،جو لاعلاج مريضوں كو شفا دے گا_ حكم خدا سے مردوں كو زندہ كرے گا اور بنى اسرائيل كے لئے پيغمبرى كے فرائض بھى انجام دے گا_انہوں نے يہ واقعہ اپنى بيوى سے بيان كيا_وہ حاملہ ہوئيں تو ان كا خيال تھا كہ يہى وہ لڑكا ہے جو اس وقت ان كے رحم ميں ہے_وہ بے خبر تھيں كہ ان كے رحم ميں تو اس لڑكے كى والدہ جناب مريم(ع) ہيں_اسى لئے انہوں نے نذر كى تھى كہ بيٹے كو خانہ خدا بيت المقدس كا خدمت گزار بنائيں گي_

قرآن ميں زوجہ عمران كى نذر كا تذكرہ ہے_ وہ حاملہ ہوئيں تو انہوں نے نذر كى كہ اپنے بچے كو بيت المقدس كا خدمت گزار بنائيں گى كيونكہ اللہ نے ان كے شوہر عمران كو جو اطلاع دى تھى اس سے وہ يہ سمجھے بيٹھى تھيں كہ ان كے يہاں لڑكا ہوگا_ ''محرراً''استعمال كيا ہے اور ''محررة''نہيں كہا،انھوں نے خدا سے درخواست كى وہ ان كى نذر قبول كرے،''محرر'' ''تحرير''كے مادے سے ليا گيا ہے جس كا معنى ہے''آزاد كرنا''اس زمانے ميں يہ لفظ ايسى اولاد كے لئے بولا جاتا تھا جو عبادت خانے كى خدمت كے لئے معين كئے جائے تا كہ وہ عبادت خانے كى صفائي اور دوسرى خدمات انجام ديں اور فراغت كے وقت پروردگار كى عبادت ميں مشغول رہيں_''محرر''ان خدمت گزاروں كو اس لئے كہتے تھے كہ وہ ماں باپ كى ہر قسم كى خدمت سے آزاد ہوتے تھے اور عبادت خانے كى خدمت كو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے تھے_

بعض كہتے ہيں جب بچے خدمت كے كچھ قابل ہو جاتے،بالغ ہونے تك ماں باپ كى نگرانى ميں خدمت انجام ديتے تھے اور بعد ازاں خود سے كام كرنے لگتے تھے چاہتے تو عبادت خانے ميں اپنا كام ختم كركے باہر چلے جاتے اور چاہتے تو كام جارى ركھتے_

پالنے والے يہ تو لڑكى ہے

جب پيدائشے ہوئي تو مادر مريم(ع) نے ديكھا كہ وہ لڑكى تھي_اب وہ پريشان ہوئيں_سوچنے لگيں كہ كيا كروں كيونكہ بيت المقدس كى خدمت تو لڑكے كيا كرتے ہيں_قبل ازيں كبھى كسى لڑكى كو بيت المقدس كى خدمت گزارى كے لئے منتخب نہيں كيا گيا تھا _

قرآن ميں بچى كى ولادت كے بعد مادر مريم(ع) كى كيفيت كو بيان كيا گيا ہے_ انہوں نے پريشان ہوكر كہا:خداوندميں نے بچى كو جنم ديا ہے اور تو جانتا ہے كہ جو نذرميں نے كى ہے اس كے لئے لڑكى لڑكے كى طرح نہيں ہوسكتى اور لڑكى لڑكے كى طرح ان فرائض كو انجام نہيں دے سكتي_(1)


(1)سورہ آل عمران 26

ليكن قرآن كہتا ہے كہ'' خدا تعالى نے مريم(ع) كو حسن قبول سے نوازا اور ان كى پرورش اچھے پودے كى طرح كي''_(1)

در حقيقت جيسا كہ ہم نے اشارہ كيا ہے كہ جناب مريم(ع) كى والدہ كو يقين نہيں آتا تھا كہ كسى لڑكى كوخانہ خدا بيت المقدس كى خدمت كے لئے قبول كرليا جائےگا لہذا وہ چاہتى تھيں كہ ان كے شكم ميں جو بچہ ہے وہ لڑكا ہو كيونكہ قبل ازيں كبھى كسى لڑكى كو اس مقصد كے لئے منتخب نہيں كيا گيا تھا_

ليكن كہ خدا تعالى نے اس پاكيزہ لڑكى كو پہلى مرتبہ اس روحانى اور معنوى خدمت كے لئے قبول كرليا_

بعض مفسرين كہتے ہيں:قبوليت كى نشانى يہ تھى كہ حضرت مريم(ع) بيت المقدس كى خدمت كے دوران ميں ماہوارى ميں كبھى مبتلا نہيں ہوئيں كہ انہيں اس روحانى مركز سے دور ہونا پڑتا_ ممكن ہے اس نذر كى قبوليت اور جناب مريم(ع) كا قبول بارگاہ ہونا،اس كے بارے ميں ان كى والدہ كو الہام كے ذريعے مطلع كيا گيا ہو_

قرآن كہتا ہے:خدا نے زكريا كو مريم(ع) كى كفالت كے لئے منتخب كيا تھا'' كيونكہ جيسا كہ تاريخ ميں آيا ہے،مريم(ع) كے والد ان كى پيدائشے سے پہلے وفات پاچكے تھے''_

حضرت مريم(ع) كا يہ نام ان كى والدہ كے ذريعے سے وضع حمل كے وقت ہى ركھ ديا گيا تھا_ ےاد رہے كہ''مريم(ع) '' ان كى لغت ميں''عبادت گزار خاتون''كو كہتے تھے_

يہ نام حضرت مريم(ع) كى پاكباز والدہ كے اس انتہائي عشق اور لگائو كا مظہر ہے جو انہيں اپنے بچے كو عبادت الہى كے لئے وقف كرنے كے لئے تھا لہذا انہوں نے نام ركھنے كے ساتھ ہى خدا سے درخواست كى كہ وہ اس نومولود بچى اور اس كى آئندہ اولاد كو شيطانى وسوسوں سے بچائے ركھے اور انہيں اپنے لطف و كرم كى پناہ ميں ركھے_


(1)سورہ آل عمران آيت 37

مريم عليہا السلام كى پرورش كے لئے قرعہ كشي

جناب مريم(ع) كى والدہ پيدائشے كے بعد اپنى نوزائيدہ بچى كو ايك كپڑے ميں لپيٹ كر عبادت خانے ميں لے آئيں_وہاں بنى اسرائيل كے علماء اور بزرگوں سے كہنے لگيں:يہ نو مولود بچى خانہ خدا كى خدمت كے لئے نذر كى گئي ہے اس كى سرپرستى اپنے ذمے لے ليں_

جناب مريم(ع) چونكہ حضرت عمران عليہ السلام كے خاندان سے تھيں اور يہ ايك بزرگ خاندان تھا اس لئے بنى اسرائيل كے علماء اور عباد ان كى سرپرستى كا منصب حاصل كرنے كے لے ايك دوسرے پر سبقت لے جانے كے كوشش كرتے تھے_

قرعہ ڈال كر فيصلہ كرنے پر ان كا اتفاق ہوگيا_وہ ايك نہر كے كنارے گئے وہاں انہوں نے اپنى قرعہ ڈالنے كى لكڑياں پيش كيں_ان ميں سے ہر ايك لكڑى يا قلم پر ان ميں سے ايك ايك كانام لكھا گيا _جو قلم پانى ميں ڈوب جاتى اس كا قرعہ نكلتا صرف جس كى قلم سطح آب پر رہتى اس كے نام قرعہ شمار ہوتا _جس قلم پر حضرت زكريا(ع) كا نام تھا پہلے پانى كى گہرائي ميں چلى گئي اور پھر پانى پر ابھر آئي_

يوں حضرت مريم(ع) كى سر پرستى كا منصب حضرت زكريا(ع) كے حصے آيا اور حقيقت ميں بھى وہى اس كام كے لئے اہل تر تھے كيونكہ ايك تو وہ پيغمبر خدا تھے اور دوسرے ان كى بيوى حضرت مريم(ع) كى خالہ تھيں_

پھر ا س واقعے كے ايك حصے كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ارشاد فرمايا گيا ہے:مريم(ع) كى سرپرستى كے تعين كے لئے جب وہ اپنى قلميں پانى ميں ڈال رہے تھے تم موجود نہ تھے_

''يونہى جب وہ كفالت مريم(ع) پر جھگڑرہے تھے تم پا س نہ تھے اوريہ سب كچھ تم پر صرف وحى كے ذريعے نازل ہوا ہے''_(1)


(1)آل عمران آيت44

جناب مريم كے سرپرست حضرت زكريا(ع)

جناب مريم(ع) حضرت زكريا(ع) كى سرپرستى ميں پروان چڑھيں اور خدا كى عبادت و بندگى ميں اس طرح مستغرق ہوئيں كہ ابن عباس كے بقول جب وہ نو سال كى ہوئيں تو دن كو روزہ ركھتيں اور رات كو عبادت كرتيں_ پرہيزگارى اور معرفت الہى ميں انہوں نے اتنى ترقى كى كہ اس دور كے احبار اور پارسا علماء سے بھى سبقت لے گئيں_

حضرت زكرياعليہ السلام ان كے محراب كے پاس آكر ديكھتے تو خاص غذائيں ركھى رہتى تھيں_انہيں بہت حيرانى ہوتي_ايك دن پوچھنے لگے: ''يہ كھانے كہاں سے لائي ہو؟''_

مريم(ع) بوليں: ''يہ خدا كى طرف سے ہے اور وہ تو جسے چاہتا ہے بے حساب رزق ديتا ہے''_(1)

يہ غذا كيسى تھي؟اور جناب مريم(ع) كے لئے كہاں سے آتى تھي؟اس بارے ميں قران ميں كچھ بيان نہيں كيا گيا ليكن بہت سى شيعہ و سنى كتب كى روايات سے جو تفسير عياشى وغيرہ ميں مذكورہ ہيں،معلوم ہوتا ہے كہ جنت كے پھلوں كى ايك قسم تھى جو بے موسم حكم پروردگار سے جناب مريم(ع) كے محراب كے پاس پہنچ جاتے اور يہ بات كوئي باعث تعجب نہيں ہے كہ خدامتعال اپنے كسى پرہيزگار بندے كى يوں پذيرائي كرے_

ايك روايت امام باقر عليہ السلام سے منقول ہے:ايك روز پيغمبر اكرم (ص) جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كے گھر تشريف لائے_حالت يہ تھى كہ كئي روز سے ان كے يہاں ٹھيك سے كھانا بھى ميسر نہ تھا اچانك آپ(ص) نے ان كے پاس مخصوص غذا ديكھي_آپ(ص) نے پوچھا:''يہ كھانا كہاں سے آيا ہے؟''

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے عرض كيا:

''خد اكے يہاں سے،كيونكہ وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رز ق ديتا ہے''_

اس پر پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:


(1)سورہ عمران37

''يہ واقعہ حضرت زكريا(ع) كے واقعے كى طرح ہے،وہ جناب مريم (ع) كے محراب كے پاس آئے تھے،وہاں كھانے كى كوئي خاص چيز ديكھى تو پوچھنے لگے :يہ كھانا كہاں سے آيا ہے تو انہوں نے جواب ميں كہا كہ خدا كے يہاں سے آيا ہے_

فرشتے جناب مريم سے باتيں كرتے ہيں

جناب مريم(ع) كى ايك بلند فضيلت يہ تھى كہ فرشتے ان سے باتيں كيا كرتے تھے جس سے آپ(ع) كى عظمت واضح ہوجاتى ہے_

''فرشتے حضرت مريم(ع) كو بشارت ديتے ہيں كہ خدا نے انہيں برگزيدہ كيا اور چن ليا ہے اور انہيں پاك قرار ديا''_(1)

يعنى تقوى ،پرہيزگاري،ايمان اور عبادت كے نتيجے ميں وہ خدا كے برگزيدہ اور پاك لوگوں ميں سے ہوگئي ہيں اور انہيں حضرت عيسى عليہ السلام جيسے پيغمبر كى پيدائشے كے لئے چن ليا گيا ہے_

پہلا حصہ جناب مريم(ع) كى اعلى انسانى صفات كى طرف اشارہ كرتا ہے اور برگزيدہ انسان كے طور پراپ كانام ليتا ہے اور دوسرے حصے ميں''اصطفك'' ان كے اپنے زمانے كى تمام عورتوں پر برترى كى طرف اشارہ ہے_

يہ قرآنى گفتگو اس بات پر گواہ ہے كہ حضرت مريم(ع) اپنے زمانے ميں عظيم ترين منزلت كى مالك خاتون تھيں_(2)


(1)سورہ آل عمران42

(2)يہ امربانوئے اسلام حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ عليہا كے بارے ميں منقول ان روايات كى نفى نہيں كرتا جن ميں ان كے لئے فرمايا گياہے كہ آپ(ع) تمام جہانوں كى عورتوں سے برتر اور افضل ہيں كيونكہ متعدد روايات ميں پيغمبر اسلام (ص) اور امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے:

''جناب مريم(ع) تو اپنے زمانے كى عورتوں كى سردار تھي،ليكن جناب فاطمہ زہراسلام اللہ عليہا اولين و آخرين تمام زمانوں كى عورتوں كى سردار ہيں''_ -->

قرآن ميں حضرت مريم(ع) سے فرشتوں كى گفتگو كى تفصيل بيان كى گئي ہے_ انہو ںنے حضرت مريم(ع) كو خدا كى طرف سے برگزيدہ ہونے كى بشارت دينے كے بعد كہا:''اب پروردگار كے حضور خضوع كرو اور سجدہ و قيام بجالائو''_(1)

يہ درحقيقت اس عظيم نعمت پر شكرانہ تھا_

حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كا سراغاز

قرآن حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كے واقعہ كو اس طرح بيان كرتا ہے:

''آسمانى كتاب قرآن ميں مريم(ع) كى بات كرو كہ جس وقت اس نے اپنے گھروالوں سے جدا ہوكر مشرقى حصہ ميں قيام كيا''_(2)

درحقيقت وہ ايك ايسى خالى اور فارغ جگہ چاہتى تھى جہاں پر كسى قسم كا كوئي شور و غل نہ ہوتا كہ وہ اپنے خدا سے راز و نياز ميں مشغول رہ سكے،اور كوئي چيز اسے ياد محبوب سے غافل نہ كرے،اسى مقصد كے لئے ا س نے عظيم عبادت گاہ بيت المقدس كى مشرقى سمت كو جو شايد زيادہ آرام و سكون كى جگہ تھى يا سورج كى روشنى كے لحاظ سے زيادہ پاك و صاف اور زيادہ مناسب تھي،انتخاب كيا_

اس وقت مريم(ع) نے''اپنے اور دوسروں كے درميان ايك پردہ ڈال ليا''_(3)

تاكہ اس كى خلوت گاہ ہر لحاظ سے كامل ہوجائے_


<-- ''العالمين'' كا لفظ بھى اس بات كے منافى نہيں ہے كيونكہ يہ لفظ قرآن حكيم ميں اور ديگر عبارات ميں ايسے لوگوں كے معنى ميں استعمال ہوا ہے جو ايك وقت اور ايك زمانے ميں زندگى بسر كرتے تھے_ جيسا كہ بنى اسرائيل كے بارے ميں ہے:

''اور ميں نے تمہيں عالمين پر فضيلت دي_

واضح ہے يہاں مراد يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے مو منين كو اپنے زمانے كے لوگوں پر فضيلت حاصل تھي_

(1)سورہ آل عمران آيت 43

(2)سورہ مريم 16

(3)سورہ مريم(ع) آيت17

بہر حال اس وقت ہم نے اپني''روح''(جو بزرگ فرشتوں ميں سے ايك فرشتہ ہے)اس كى طرف بھيجى اور وہ بے عيب خوبصورت اور كامل انسان كى شكل ميں مريم(ع) كے سامنے ظاہر ہوئي_(1)(2)

ظاہر ہے ايسے موقع پر مريم(ع) كى كيا حالت ہوگي_وہ مريم (ع) كہ جس نے ہميشہ پاكدامنى كى زندگى گزاري،پاكيزہ افراد كے دامن ميں پرورش پائي اور تمام لوگوں كے درميان عفت و تقوى كى ضرب المثل تھي،اس پر اس قسم كے منظر كو ديكھ كر كيا گزرى ہوگي_ ايك خوبصورت اجنبى آدمى اس كى خلوت گاہ ميں پہنچ گيا تھا_اس پر برى وحشت طارى ہوئي_فوراًپكاريں كہ'' ميں خدائے رحمن كى پناہ چاہتى ہوں كہ مجھے تجھ سے بچائے_ اگر تو پرہيزگار ہے''_(3)

اور يہ خوف ايسا تھا كہ جس نے مريم عليہا السلام كے سارے وجود كو ہلا كر ركھ ديا_ خدائے رحمان كا نام لينا اور اس كى رحمت عامہ كے ساتھ توصيف كرنا ايك طرف اور اسے تقوى اور پرہيزگارى كى تشويق كرنا دوسرى طرف،يہ سب كچھ اس لئے تھا كہ اگر وہ اجنبى آدمى كوئي برا ارادہ ركھتا ہو تو اس پر كنڑول كرے اور سب سے بڑھ كر خدا كى طرف پناہ لينا،وہ خدا كہ جو انسان كے لئے سخت ترين حالات ميں سہارا اور جائے پناہ ہے اور كوئي قدرت اس كى قدرت كے سامنے كچھ حيثيت نہيں ركھتي_

حضرت مريم عليہا السلام يہ بات كہنے كے ساتھ اس اجنبى آدمى كے ردّ عمل كى منتظر تھيں_ ايسا انتظار جس ميں بہت پريشانى اور وحشت كا رنگ تھا_ليكن يہ حالت زيادہ دير تك باقى نہ رہي،اس اجنبى نے گفتگو كے


(1)سورہ مريم(ع) آيت17

(2)اس ميں شك نہيں ہے،كہ اس گفتگو كا يہ معنى نہيں ہے كہ جبرئيل صورت اور سيرت كے اعتبار سے بھى ايك انسان ميں بدل گيا تھا كيونكہ اس قسم كاانقلاب اور تبديلى ممكن نہيں ہے،بلكہ مراد يہ ہے كہ وہ(بظاہر)انسان كى شكل ميں نمودار ہوا،اگرچہ اس كى سيرت وہى فرشتے جيسى تھي،ليكن حضرت مريم(ع) كو ابتدائي امر ميں چونكہ يہ خبر نہيں تھى لہذا انہوں نے يہى خيال كيا تھا كہ ان كے سامنے ايك ايساانسان ہے جو باعتبار صورت بھى انسان ہے اور باعتبار سيرت بھى انسان ہے_

(3)سورہ مريم ايت18

لئے زبان كھولى اور اپنى عظيم ذمہ دارى اور ماموريت كواس طرح سے بيان كيا''اس نے كہاكہ ميں تيرے پروردگار كا بھيجا ہوا ہوں''_(1)

اس جملہ نے اس پانى كى طرح جو آگ پر چھڑكا جائے حضرت مريم عليہا السلام كے پاكيزہ دل كو سكون بخشا ليكن يہ سكون زيادہ دير تك قائم نہ رہ سكا_

كيونكہ اس نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے مزيد كہا:''ميں اس لئے آيا ہوں كہ تمہيں ايك ايسا لڑكا بخشوں جو جسم و روح اور اخلاق و عادات كے لحاظ سے پاك و پاكيزہ ہو''_(2)

يہ بات سنتے ہى مريم عليہا السلام كانپ اٹھيں وہ پھر ايك گہرى پريشانى ميں ڈوب گئيں اور''كہا كہ يہ بات كيسے ممكن ہے كہ ميرے كوئي لڑكا ہو حالانكہ كسى انسان نے اب تك مجھے چھواتك نہيں اور ميں ہرگز كوئي بدكار عورت بھى نہيں ہوں''_(3)

وہ اس حالت ميںصرف معمول كے اسباب كے مطابق سوچ رہى تھيں كيونكہ كوئي عورت صاحب اولاد ہو،اس كے لئے صرف دو ہى راستے ہيں يا تو وہ شادى كرے يا بدكارى اور انحراف كا راستہ اختيار كرے، ميں تو خود كو كسى بھى دوسرے شخص سے بہتر طور پر جانتى ہوں،نہ تو ابھى تك ميرا كوئي شوہر ہے اور نہ ہى ميں كبھى منحرف عورت رہى ہوں_اب تك تو يہ بات ہرگز سننے ميں نہيں آئي كہ كوئي عورت ان دونوں صورتوں كے سوا صاحب اولاد ہوئي ہو_

ليكن جلدى ہى اس نئي پريشانى كا طوفا ن بھى پروردگار عالم كے قاصد كى ايك دوسرى بات سننے سے تھم گيا اس نے مريم عليہاالسلام سے صراحت كے ساتھ كہا:''مطلب تو يہى ہے كيونكہ تيرے پروردگار نے فرمايا ہے كہ يہ كام ميرے لئے سہل اور آسان ہے''_(4)


(1)سورہ مريم آيت19

(2)سورہ مريم آيت 19

(3)سورہ مريم آيت20

(4)سورہ مريم آيت 21

تو تو اچھى طرح ميرى قدرت سے آگا ہ ہے،تو نے تو بہشت كے وہ پھل جو دنيا ميں اس فصل ميں ہوتے ہى نہيں اپنے محراب عبادت كے پاس ديكھے ہيں،تو نے تو فرشتو ںكى وہ آوازيں سنى ہيں جو تيرى پاكيزگى كى شہادت كے لئے تھيں_ تجھے تو يہ حقيقت اچھى طرح معلوم ہے كہ تيرے جد امجد آدم(ع) مٹى سے پيدا ہوئے_ پھر يہ كيسا تعجب ہے كہ جو تجھے اس خبر سے ہورہا ہے_

اس كے بعد اس نے مزيد كہا:''ہم چاہتے ہيں كہ اسے لوگوں كے لئے آيت اور ايك معجزہ قرارديں''_اور ہم چاہتے ہيں كہ اسے اپنے بندوں كے لئے اپنى طرف سے رحمت قرار ديں_''بہر حال ''يہ فيصلہ شدہ امر ہے(1) اور اس ميں گفتگوںكى گنجائشے نہيں ہے_

''روح خدا'' سے كيا مراد ہے؟

تقريباًتمام مشہور مفسرين نے يہاں پر روح كى خداوند متعال كے بزرگ فرشتے جبرئيل(ع) سے تفسير كى ہے اور اسے روح سے تعبير كرنے كى وجہ يہ ہے كہ وہ روحانى ہے_ وہ ايك ايسا وجود ہے جو حيات بخش ہے_ چونكہ وہ انبياء و مرسلين كے پاس خداوند متعال كى رسالت كا پہنچانے والا ہے لہذا تمام لائق انسانوں كے لئے حيات بخش ہے اور يہاں پر روح كى خدا كى طرف اضافت اس روح كى عظمت و شرافت كى دليل ہے_كيونكہ اضافت كى ايك قسم اضافت تشريفيہ ہے_

مريم عليہا السلام سخت طوفانوں كے تھپيڑوں ميں

''سر انجام مريم عليہا السلام حاملہ ہوگئي(2) اور اس موعود بچے نے اس كے رحم ميں جگہ پائي_

اس بارے ميں كہ يہ بچہ كس طرح وجود ميں آيا،كيا جبرئيل(ع) نے مريم عليہا السلام كے پيراہن ميں پھونكا يا ان كے منہ ميں،قرآن مجيد ميں اس كے متعلق كوئي بات نہيں ہے كيونكہ اس كى ضرورت نہيں تھي_اگر چہ مفسرين كے اس بارے ميں مختلف اقوال ہيں_


(1)سورہ مريم آيت 21

(2)سورہ مريم آيت22

بہر حال'' اس امر كے سبب وہ بيت المقدس سے كسى دور دراز مقام پر چلى گئي''_(1)

وہ اس حالت ميں ايك اميد وبيم كے درميان پريشانى و خوشى كى ملى جلى كيفيت كے ساتھ وقت گزار رہى تھي،كبھى وہ ےہ خيال كرتى كہ آخر كار يہ حمل ظاہر ہوئے گا،مانا كہ چند يا چند مہينے ان لوگوں سے دور رہ لوں گى اور اس مقام پر ايك اجنبى كى طرح زندگى بسر كرلوں گى مگر آخر كار كيا ہوگا،كون ميرى بات قبول كرے گا كہ ايك عورت بغير شوہر كے حاملہ ہوگئي_سوائے اس كے كہ اس كا دامن آلودہ ہو،ميں اس اتہام كے مقابلہ ميں كيا كروں گي_واقعاًوہ لڑكى جو سالہا سال سے پاكيزگى و عفت اور تقوى و پرہيزگارى كى علامت تھى _

اور خدا كى عبادت و بندگى ميں نمونہ تھي،جس كے بچپنے ميں كفالت كرنے پر بنى اسرائيل كے زاہد و عابد فخر كرتے تھے_ اور جس نے ايك عظيم پيغمبر كے زير نظر پرورش پائي تھي،خلاصہ يہ ہے كہ جس كے اخلاق كى دھوم اور پاكيزگى كى شہرت ہر جگہ پہنچى ہوئي تھى اس كے لئے يہ بات بہت ہى درد ناك تھى كہ ايك دن وہ يہ محسوس كرے كہ اس كا يہ سب معنوى سرمايہ خطرے ميں پڑگيا ہے،اور وہ ايك ايسى تہمت كے گرداب ميں پھنس گئي ہے كہ جو بدترين تہمت شمار ہوتى ہے_ اور يہ تيسرا لرزہ تھا كہ جو اس كے جسم پر طارى ہوا_

ليكن دوسرى طرف وہ يہ محسوس كرتى تھى كہ يہ فرزند خداوند تعالى كا موعود پيغمبر ہے_ يہ ايك عظيم آسمانى تحفہ ہوگا،وہ خدا كہ جس نے مجھے ايسے فرزند كى بشارت دى ہے اور ايسے معجزانہ طريقے سے اسے پيدا كيا ہے مجھے اكيلا كيسے چھوڑے گا؟كيا يہ ہوسكتا ہے كہ وہ اس قسم كے اتہام كے مقابلہ ميں ميرا دفاع نہ كرے؟ميں نے تو اس كے لطف وكرم كو ہميشہ آزمايا ہے اور اس كا دست رحمت ہميشہ اپنے سر پر ديكھا ہے_

اس بات پر كہ مريم عليہا السلام كى مدت حمل كس قدر تھي،مفسرين كے درميان اختلاف ہے،اگرچہ قرآن ميں سربستہ طور پر بيان ہوا ہے(پھر بھي)بعض نے اسے ايك گھنٹہ،بعض نے نو گھنٹے بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ بعض نے آٹھ ماہ اور بعض نے دوسرى عورتوں كى طرح نو مہينے كہا ہے،ليكن يہ موضوع اس وقعے كے مقصد پر اثر نہيں ركھتا_ روايات بھى اس سلسلہ ميں مختلف ہيں_


(1)سورہ مريم آيت22

اس بارے ميں كہ يہ جگہ''اقصي''(دور دراز)كہاں تھي،بہت سے لوگوں كا نظريہ يہ ہے كہ يہ شہر''ناصرہ''تھا اور شايد اس شہر ميں بھى وہ مسلسل گھر ہى ميں رہتى تھيں اور بہت كم باہر نكلتى تھيں_

جو كچھ بھى تھا مدت حمل ختم ہوگئي اور مريم عليہا السلام كى زندگى كے طوفانى لمحات شروع ہوگئے انہيں سخت درد زہ كا آغاز ہوگيا_ ايسا درد جو انہيں آبادى سے بيابان كى طرف لے گيا_ ايسا بيابان جو انسانوں سے خالي،خشك اور بے آب تھا_جہاں كوئي جائے پناہ نہ تھي_

اگر چہ اس حالت ميں عورتيں اپنے قريبى اعزاء كى پناہ ليتى ہيں تا كہ وہ بچے كى پيدائشے كے سلسلے ميںان كى مدد كريں،ليكن مريم عليہا السلام كى حالت چونكہ ايك استثنائي كيفيت تھي،وہ ہرگز نہيں چاہتى تھيں كہ كوئي ان كے وضع حمل كو ديكھے، لہذا درد زہ كے شروع ہوتے ہى انہوں نے بيابان كى راہ لي_

قرآن اس سلسلے ميں كہتا ہے:'' وضع حمل كا وہ درد اسے كھجور كے درخت كے پاس كھينچ لے گيا''_(1)قرآن ميں ''جذع النخلة'' كا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ ''جذع'' درخت كے تنا كے معنى ميں ہے،يہ نشاندہى كرتا ہے كہ:اس درخت كا صرف تنا باقى رہ گيا تھا يعنى وہ خشك شدہ درخت تھا_

اے كاش اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتي!

اس حالت ميں غم و اندوہ كا ايك طوفان تھا جو مريم عليہا السلام كے پورے وجود پر طارى تھا،انہوں نے محسوس كيا كہ جس لمحے كاخوف تھا وہ آن پہنچا ہے ايسا لحظہ كہ جس ميں وہ سب كچھ آشكار ہوجائے گا جو اب تك چھپا ہوا ہے اور بے ايمان لوگوں كى طرف سے ان پر تہمت كے تيروں كے بارش شروع ہو جائے گي_

يہ طوفان اس قدر سخت تھا اور يہ باران كے دوش پر اتنا سنگين تھا كہ بے اختيار ہوكر بوليں:''اے كاش ميں اس سے پہلے ہى مرگئي ہوتى اور بالكل بھلادى جاتي''(2)


(1)سورہ مريم آيت23

(2)سورہ مريم آيت 23

يہ بات صاف طور پر ظاہر ہے كہ حضرت مريم عليہا السلام كو صرف آئندہ كى تہمتو ںكا خوف ہى نہيں تھا كہ جو ان كے دل كو بے چين كيے ہوئے تھا،بلكہ انہيں سب سے زيادہ فكر اس بات كى تھى كہ دوسرى مشكلات بھى تھيں_ كسى دايہ اور ہمدم و مددگار كے بغير وضع حمل، سنسان بيابان ميں بالكل تنہائي، آرام كے لئے كوئي جگہ نہ ہونا، پينے كے لئے پانى اور كھانے كے لئے غذا كا فقدان اور نومولود كے لئے نگہداشت كے كسى وسيلے كا نہ ہونا يہ ايسے امور تھے كہ جنہوں نے انہيں سخت پريشان كر ركھا تھا_

اور وہ لوگ جو يہ كہتے ہيں كہ حضرت مريم عليہا السلام نے ايمان اور توحيد كى ايسى معرفت كے ہوتے ہوئے اور خداوند متعال كے اتنے لطف و كرم اور احسانات ديكھنے كے باوجود ايسا جملہ زبان پر كيسے جارى كيا كہ''اے كاش ميں مرگئي ہوتى اور فراموش ہوچكى ہوتي''

انہوں نے اس وقت ميں جناب مريم عليہا السلام كى حالت كا تصور ہى نہيں كيا_اور وہ خود ان مشكلات ميں سے كسى چھوٹى سى مشكل ميں بھى گرفتار ہوجائيں تو ان كے ايسے ہاتھ پائوں پھول جائيں گے كہ انہيں خود اپنى بھى خبر نہ رہے گى اور وہ خود كو بھى بھول جائيں گے_

ليكن يہ حالت زيادہ دير تك باقى نہ رہى اور اميد كا وہى روشن نقطہ جو ہميشہ ان كے دل كى گہرائيوں ميں رہتا تھا چمكنے لگا ''يكا يك ايك اواز ان كے كانوں ميں ائي جو ان كے پاو ں كے نيچے سے بلند ہو رہى تھى كہ غمگين نہ ہو،ذرا غور سے ديكھ تيرے پروردگار نے تيرے پاو ں كے نيچے ايك خوشگوار پانى كا چشمہ جارى كر ديا ہے''_(1)

ايك نظر اپنے سر كے اوپر ڈالو اور غور سے ديكھو كہ كس طرح خشك تنہ بار اور كھجور كے درخت ميں تبديل ہو گيا ہے ،كہ پھلوں نے اس كى شاخوں كو زينت بخشى ہے'' اور اس كھجور كو ہلاو تاكہ تازہ كھجور يں تم پر گرنے لگيں _اس لذيذ اور قوت بخش غذا ميں سے كھاو اور اس كے خوشگوار پانى ميں سے پيو_اور اپنى انكھوں كو اس نو مولود سے روشن ركھو_اور اگر ائندہ كے حالات سے پريشانى ہے تو مطمئن رہو ،جب تم كسى بشر كوديكھو اور


(1)سورہ مريم ايت 24

وہ تم سے اس بارے ميں وضاحت چاہے تو اشارہ كے ساتھ اس سے كہہ دينا كہ ميں نے خدا ئے رحمن كے لئے روزہ ركھا ہوا ہے ،خاموشى كا روزہ اور اس سبب سے ميں اج كسى سے بات نہيں كروں گي''_(1)

خلاصہ يہ ہے كہ تمہيں اس بات كى كوئي ضرورت نہيں ہے كہ تم اپ اپنا دفاع كرو،وہ ذات كہ جس نے يہ مولود تمہيں عطا كيا ہے ،اس نے تيرے دفاع كى ذمہ دارى بھى اپنے ذمہ لى ہے اس لئے تم ہر طرح سے مطمئن رہو اور غم و اندوہ كو اپنے دل ميں جگہ نہ دو_ان پے در پے واقات نے جو ايك انتہائي تاريك فضا ميں روشن شعلوں كى طرح چمكنے لگے تھے ،ا ن كے دل كو پورى طرح روشن كر ديا تھا اور انھيں ايك سكون بخش ديا تھا_

حضرت مسيح عليہ السلام كى گہورے ميں باتيں

''اخر كار حضرت مريم (ع) اپنے بچے كو گود ميں لئے ہوئے بيابان سے ابادى كى طرف لوٹيں اور اپنى قوم اور رشتہ داروں كے پاس ائيں ''_(2)

جو نہى انھوں نے ايك نو مولود بچہ ان كى گود ميں ديكھا تعجب كے مارے ان كا منہ كھلا كا كھلا رہ گيا ،وہ لوگ كہ جو مريم (ع) كى پاكدامنى سے اچھى طرح واقف تھے اور ان كے تقوى و كرامت كى شہرت كو سن چكے تھے ،سخت پريشان ہوئے ،يہاں تك كہ ان ميں سے كچھ تو شك وشبہ ميں پڑ گئے اور بعض ايسے لوگ كہ جو فيصلہ كرنے ميں جلد باز تھے انھوں نے اسے بُر ابھلا كہنا شروع كرديا اور كہنے لگلے اس بد كارى كے ساتھ تمہارے روشن ماضى پر بہت افسوس اور صد افسوس اس پاك خاندان پر كہ جو اس طرح بدنام ہوا''كہنے لگے :اے مريم (ع) تونے يقينا بہت ہى عجيب اور بُرا كام انجا م ديا ہے ''_(3)

بعض نے ان كى طرف رخ كيا اور كہا :''اے ہارون كى بہن تيرا باپ تو كوئي بُرا ادمى نہيں تھا اور تيرى ماں بھى بدكار نہيں تھي''_(4)


(1)سورہ مريم ايت 25تا 26

(2)سورہ مريم ايت27

(3)سورہ مريم ايت27

(4)سورہ مريم ايت28

ايسے پاك و پاكيزہ ماں باپ كے ہوتے ہوئے ہم يہ تيرى كيا حالت ديكھ رہے ہيں ،تونے اپنے باپ كے طريقہ اور ماں كے چلن ميں كون سى بُرائي ديكھى تھى كہ تونے اس سے رو گردانى كر لى (1)

اس وقت جناب مريم (ع) نے خدا وند متعال كے حكم سے خاموشى اختيار كى ،صرف ايك كام جو انھوں نے انجام ديا يہ تھاكہ اپنے نو مولود بچے عيسى عليہ السلام كى طرف اشارہ كيا _

ليكن اس كام نے ان كے تعجب كو اور بھى بر انگيختہ كر ديا اور شايد ان ميں سے بعض نے اس بات كو ان كے ساتھ ٹھٹھہ كرنے پر محمول كيا اور وہ غصے ميںاكر بولے :اے مريم (ع) ايسا كا م كركے تو اپنى قوم كا مذاق اڑا رہى ہے _

بہر حال انھوں نے اس سے كہا :''ہم ايسے بچے كے ساتھ جو كہ ابھى گہورے ميں ہے كيسے باتيں كريں ''_(2)

بہر حال وہ لوگ اس كى بات سن كر پريشان ہو گئے ،بلكہ شايد غضب ناك ہوگئے ،جيسا كہ بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ انھوں نے ايك دوسرے سے يہ كہا كہ اس تمسخر اورا ستہزاء كرنا،جادہ عفت و پاكدامنى سے اس كے انحراف كى نسبت ہمارے لئے زيادہ سخت اور سنگين تر ہے _ليكن يہ حالت زيادہ دير تك قائم نہ رہى ،كيونكہ اس نومولود بچے نے بات كرنے كے لئے زبان كھولى اور كہا :

''ميں اللہ كا بندہ ہوں ،اس نے مجھے اسمانى كتاب مرحمت فرمائي ہے ،اور مجھے پيغمبر قرا ر ديا ہے''_


(1)يہ بات كہ جو انھوں نے مريم (ع) سے كہى كہ ''اے ہارون كى بہن ''مفسرين كے درميان مختلف تفاسير كا موجب نبى ہے ،ليكن جو بات سب سے زيادہ صحيح نظر اتى ہے وہ يہ ہے كہ ہارون ايك ايسا پاك و صالح ادمى تھا كہ وہ بنى اسرائيل كے درميان ضرب المثل ہوگيا تھا_

وہ جس شخص كا پاكيزگى كے ساتھ تعارف كروانا چاہتے تھے تو اس كے بارے ميں كہتے تھے كہ وہ ہارون كا بھائي ہے يا ہارون كى بہن ہے ،مرحوم طبرسى نے مجمع البيان ميں اس معنى كو ايك مختصر حديث ميں پيغمبر اسلام (ص) سے نقل كيا ہے

(2)سورہ مريم ايت29

''اور خدا نے ايك بابركت وجود قرار ديا ہے ،خواہ ميں كہيں بھى ہوں ،ميرا وجود بندوں كے لئے ہر لحاظ سے مفيد ہے ''_

''اور اس نے مجھے تاحيات نماز پڑھتے رہنے اور زكوة دينے كى وصيت كى ہے ''_

''اور اس كے علاوہ مجھے اپنى والدہ كے بارے ميں نيكو كار ،قدردانى كرنے والا اور خيرخواہ قرار ديا ہے'' _

''اور اس نے مجھے جبار و شقى قرار نہيں ديا ہے ''_(1)

اخر ميں يہ نومولودكہتا ہے :''خدا كا مجھ پر سلام و درود ہو اس دن كہ جب ميں پيدا ہوا اور اس دن جب ميں مروں گا اور اس دن كہ جب ميں زندہ كر كے اٹھا يا جاو ں گا'' _(2)

يہ تين دن انسان كى زندگى ميں __زندگى ساز اور خطرناك دن ہيں كہ ،جن ميں سوائے لطف خدا كے سلامتى ميسر نہيں ہوتى ،اسى لئے حضرت يحى عليہ السلام كے بارے ميں بھى يہ جملہ ايا ہے اور حضرت عيسى مسيح عليہ السلام كے بارے ميں بھى ،ليكن اس فرق كے ساتھ كہ پہلے موقع پر خدا وند متعال نے يہ بات كہى ہے اور دوسرے موقع پر حضرت مسيح عليہ السلام نے يہ تقاضا كيا ہے _(3)


(1)سورہ مريم ايت30تا32''جبار اس شخص كو بھى كہتے ہيں كہ جو غيظ و غضب كے عالم ميں لوگوں كو مارتا اور نابود كرتا ہو ،اور فرمان عقل كى پيروى كرتا ہو_

(2)سورہ مريم ايت33

(3)باكرہ سے بچہ پيدا ہونا:

يہاں پر ايك سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا علمى لحاظ سے يہ بات ممكن ہے كہ باپ كے بغير بچہ پيدا ہو ،كيا حضرت عيسى عليہ السلام كا صرف اكيلى ماں سے پيدا ہونے كا مسئلہ ،اس بارے ميں سائنس دانوں كى تحقيقات كے مخالف نہيں ہے ؟

اس ميں شك نہيں كہ يہ كام معجزانہ طورپر پذير ہواتھا ،ليكن موجودہ زمانے كا علم اور تحقيق اس قسم كے امر كے امكان كى نفى نہيں كرتا،بلكہ اس كے ممكن ہونے كى تصريح كرتا ہے _

خاص طورپر نر كے بغير بچہ پيدا ہونا بہت سے جانوروں ميں ديكھا گيا ہے ،اس بات كى طرف توجہ كرتے ہوئے كہ نطفے كے انعقاد كا مسئلہ صرف انسانو ں كے ساتھ ہى مخصوص نہيں ہے ،اس امر كے امكان كو عمومى حيثيت سے ثابت كرتا ہے _ -->


<-- ''ڈاكٹر الكسيس كارل''مشہور فرانسيسى ''فزيالوجسٹ ''اور حيات شناس اپنى كتاب ''انسان موجودناشناختہ''ميں لكھتا ہے :

''جس وقت ہم اس بارے ميں غور كرتے ہيں كہ توليد مثل ميں ماں اور باپ كا كتنا كتنا حصہ ہے تو ہميں ''لوب''اور ''باٹايون''كے تجربوں كو بھى نظر ميں ركھنا چاہئے كہ قورباغہ كے بارور نہ ہوتے ہوئے چھوٹے سے تخم كو'' سپر ماٹوز'' كے دخل كے بغير ہى خاص ٹكنيك كے ذريعہ ايك جديد قورباغہ كو وجود ميں لايا جاسكتا ہے _

اس ترتيب سے كہ ممكن ہے كہ كيمسٹرى يا فزكس كے ايك عامل كو ''نرسل''كا جانشين بنا ديا جائے ليكن ہر حالت ميں ہميشہ ايك عامل مادہ كا وجود ضرورى ہے _

اس بناء پر وہ چيز كہ جو سائنسى لحاظ سے بچے كے تولد ميں قطعيت ركھتى ہے وہ ماں كے نطفہ ''اوول''كا وجود ہے ،ورنہ نر كے نطفہ(سپر ماٹوز ا)كى جگہ پر دوسرا عامل كو جانشين بنايا جا سكتا ہے ،اسى بناء پر نر كے بغير بچے كى پيدائشے كا مسئلہ ايك ايسى حقيقت ہے كہ جو اج كى دنيا ميں ڈاكٹروں كے نزديك قابل قبول قرار پاچكى ہے،اگر چہ ايسااتفاق شاذ و نادر ہى ہوتا ہے _

ان سب سے قطع نظر يہ مسئلہ خدا وند متعال كے قوانين افرينش كے سامنے ايساہے جيسا كہ قران كہتا ہے :

عيسى كى مثال خدا كے نزديك ادم جيسى ہے كہ اسے مٹى سے پيدا كيا پھر اس كو حكم ديا كہ ہو جا تو وہ بھى ايك كامل موجود ہو گيا ،(سورہ ال عمران 59)

يعنى يہ خارق عادت اس خارق عادت سے زيادہ اہم نہيں ہے

نو زائيدہ بچہ كس طرح بات كر سكتا ہے ؟

دوسرا سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ :كوئي نو زائيدہ بچہ تولد كے ابتدائي گھنٹوں يا دنوں ميں بات نہيںكرتا ،كيونكہ بات كرنا دماغ كى كافى نشو نما اور اس كے بعد زبان وحنجرہ كے عضلات كا بڑھنا اور انسانى بدن كے مختلف اعضاء كى ايك دوسرے كے ساتھ ہم اہنگى كا محتاج ہے،اور ان امور كے لئے حسب معمول كئي مہينے گزرنے چاہئيں تاكہ يہ بتدريج اور اہستہ اہستہ بچوں ميں فراہم ہوں_

ليكن پھر بھى كوئي علمى دليل اس امر كے محال ہونے پر ہمارے پاس نہيں ہے ،صرف يہ ايك غير معمولى كام ہے اور تمام معجزات اسى قسم كے ہوتے ہيں يعنى سب ہى غير معمولى كام ہوتے ہيں نہ كہ محال عقلى _

جناب عيسى عليہ السلام كى ماموريت كا اغاز

جو افراد خدا كى طرف سے لوگوںكى ہدايت كے لئے مامور ہوتے ہيں ان كے لئے ضرورى ہے كہ پہلے مر حلے ميں علم و دانش كے ذريعے لوگوں كو دعوت ديں ،اور زندہ و انسان ساز ائين و قوانين پيش كريں ،پھر دوسرے مرحلے ميں خدا سے اپنے ارتباط كے لئے واضح اسناد دكھائيں اور يوں خدا كى طرف سے منصوب ہونے كا ثبوت پيش كريں _

اس مقصد كے لئے ہر پيغمبر اپنے زمانے كے ترقى يافتہ علوم كى قسم كے معجزے سے ليس ہوتا ہے تاكہ جہان ماوراء طبيعت سے ان كا ارتباط زيادہ واضح ہوجائے اور ہر زمانے كے علماء ان كے مقابلے ميں اپنے عجزكى وجہ سے ان كى دعوت كى حقانيت كاا عتراف كريں_

يہ بات ايك حديث ميں حضرت على بن موسى الرضا عليہ السلام سے منقول ہے، ان سے سوال كيا گيا تھا : ہر پيغمبر كے پاس كچھ نہ كچھ معجزات كيوں ہوتے تھے، اس سوال كے جواب ميں آپ نے وضاحت فرمائي جس كا خلاصہ كچھ يوں ہے:

''حضرت موسى عليہ السلام كے زمانہ ميں جادوگربہت زيادہ دتھے_حضرت موسى عليہ السلام نے ايسا عمل انجام ديا جس كے مقابلے ميں تمام جادوگر عاجز آگئے_حضرت مسيح عليہ السلام كے زمانے ميں اور دعوت كے موقع پر اطباء بيماروںكے علاج ميں مہارت ركھتے تھے ،لہذا حضرت عيسى (ع) بھى بيماروں كو مادى مسائل كے بغير شفاء ديكر اپنى حقانيت كو ثابت كرديتے، پيغمبر اسلام (ص) كے زمانے ميں خطبائ،شعراء اور سخنور بہت زيادہ فصاحت و بلاغت كے مالك تھے اور ان سب نے قرآنى فصاحت و بلاغت كے سامنے گھٹنے ٹيك ديئے

قرآن ميں حضرت مسيح عليہ السلام كى ماموريت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے خداوند عالم نے پہلے فرمايا ہے:''خدا نے اسے كتاب و حكمت كى تعليم دى '' اور اس كے بعد كتاب و حكمت كے مصداق كى نشاندہى كى گئي ہے_فرمايا:''توريت و انجيل سكھائي ،اور اس كے بعد بنى اسرائيل كے منحرف لوگوں كى ہدايت كے لئے

ان كى ماموريت كى طرف اشارہ فرمايا گيا ہے،كيونكہ وہ ان دنوں طرح طرح كے خرافات،آلودگيوں اور اختلافات ميں گرفتار تھے،فرمايا:''ہم نے ان كو بنى اسرائيل كى طرف رسول بنا كر بھيجا ''_(1)

معجزات عيسى عليہ السلام

درحقيقت انبياء كى دعوت حقيقى زندگى كى طرف دعوت ہے اس لئے قران ميں حضرت مسيح عليہ السلام كے معجزات كى تفصيل كے موقع پر سب سے پہلے حكم خدا سے بے جان چيزوں ميں زندگى پيدا كرنے كا تذكرہ ہے اور حضرت عيسى عليہ السلام كى زبان فرمايا گياہے:

'' ميں تمہارے پروردگار كى طرف سے تمہارے لئے نشانى لايا ہوں،ميں گيلى مٹى سے پرندے كى شكل كى كوئي چيز بناتا ہوں اوراس ميں پھونكتا ہوں تو وہ حكم خدا سے پرندہ بن جاتا ہے''_(2)

حكم خدا سے ايجاد حيات كا مسئلہ كوئي پيچيدہ مسئلہ نہيں ہے كيونكہ ہم جانتے ہيں كہ دنيا كے تمام زندہ موجودات مٹى اور پانى سے وجود ميں آئے ہيں،

زيادہ سے زيادہ اسے تدريجى تحول و تغير كہہ سكتے ہيں اوريہ تبديلى عرصہ دراز ميں وقوع پذير ہوجائيں اور مٹى زندہ موجود ميں بدل جائے_جب كہ يہ معجزہ پيش كرنے والے كا ربط ماوراء الطبيعات اور پروردگار كى لامتناہى قدرت كے ساتھ ہے_

اس كے بعد ان بيماريوں كے علاج كا تذكرہ ہے جن كا علاج بہت مشكل ہے يا جو معمول كے طريقوںسے قابل علاج نہيں ہيں_

ارشاد ہوتا ہے:''ميں مادر زاد اندھے اور ابرص(برص اور سفيد داغ والى بيمارى )ميں مبتلا لوگوں كا علاج كرسكتا ہوں اور مردوں كو بھى لباس حيات پہنا سكتاہوں''_(3)

واضح ہے كہ يہ امور خصوصاً اس زمانے كے اطباء اور علماء كے لئے ناقابل انكار معجزات تھے_


(1)سورہ آل عمران آيت49

(2)سورہ آل عمران آيت 49

(3)سورہ آل عمران آيت 49

بعد كے مرحلے ميں لوگوں كے پوشيد ہ اسرار كى خبر دينے كى بات كى گئي ہے كيونكہ ہر شخص كى اپنى انفرادى اور شخصى زندگى سے كچھ ايسے اسرار اور راز ہوتے ہيں جن سے دوسرے لوگ آگاہ نہيں ہوتے_ اب اگر كوئي شخص كسى قسم كے سابقہ روابط كے بغيرايسے امور كى اطلاع ديدے مثلاً جو كھانے انہوں نے كھائے ہيں ان كى خبردے يا جو كچھ انہوں نے پس انداز كر ركھا ہے اس كى تمام تفصيلات بتادے تو يہ اس امر كى دليل ہوگى كہ اس نے غيبى منبع عالم سے الہام حاصل كيا ہے، جناب مسيح عليہ السلام كہتے ہيں:''ميں ان امور سے آگاہ ہوں اور تمہيں ان كى خبر ديتا ہوں''_(1)


(1)كيا يہ معجزات باعث تعجب ہيں؟

تفسير المنار كے مو لف اور بعض ديگر مفسرين اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ قران ميں مذكورہ معجزاتى امور جو حضرت مسيح عليہ السلام كے بارے ميں قرآن نے بيان كيے ہيں ان كى كچھ نہ كچھ توجيہ كى جانا چاہئے_ مثلاً وہ كہتے ہيں كہ حضرت عيسى عليہ السلام نے تو فقط دعوى كيا تھا كہ ميں حكم خدا سے ايسا كرسكتا ہوں ليكن عملى طور پر يہ كام ہرگز انجام نہيں ديئےالانكہ اگر فرض كريں كہ اس آيت ميں يہ احتمال ہو پھر بھى سورہ مائدہ آيت(110)ميں ہے:''واذ تخلق من الطين كھيئة الطير''_ ''(اے عيسى )خدا كى نعمتوں ميں سے ايك نعمت تم پر يہ بھى تھى كہ تم گيلى مٹى سے پرندہ بناتے تھے،اس ميں پھونكتے تھے اور وہ حكم خدا سے زندہ ہو جاتا تھا_ لہذا مندرجہ بالا دليل قابل قبول نہيں كيونكہ سورہ مائدہ كى مذكورہ آيت ميں تو پورى صراحت سے ان كے عملاً كر گزرنے كا ذكر ہے_

علاوہ ازيں ايسى توجيہات پر اصرار كے لئے كوئي وجہ بھى نہيں كيونكہ اگر مراد انبياء كے خارق عادت افعال كا انكار ہے تو قرآن نے بہت سے مواقع پر اس كى تصريح كى ہے اور بالفرض ايك آدھ جگہ پر توجيہ كر بھى ليں تو بقيہ مواقع پر كيا كيا كريں گے_

ان سب پہلوئوں سے صرف نظر كرتے ہوئے جب ہم خدا كو تمام قوانين فطرت و طبيعت پر حاكم جانتے ہيں نہ كہ ان كا محكوم، تو پھر كيا مانع ہے كہ اس كے حكم سے استثنائي مواقع پر طبيعت كے معمول كے قوانين ميں غير معمولى طريقے سے تبديلى وقوع پذير ہوجائے_اگر وہ يہ تصور كرتے ہيں كہ يہ امر خدا كى توحيد افعالي،كى خالقيت اور لا شريك ہونے كے ساتھ سازگار نہيں ہيںتو قرآن نے اس كا جواب ديا ہے كيونكہ تمام جگہوں پر ان واقعات كے وقوع كو حكم خدا سے مشروط قرار ديا ہے يعنى كوئي شخص بھى اپنى ذاتى قوت و طاقت كے ذريعے ايسے كاموں ميں ہاتھ نہيں ڈال سكتا مگر يہ كہ حكم خدا اور اس كى بے پاياں قدرت كو منظور ہو اور يہ عين توحيد ہے شرك نہيں_

ميں خدا كا بندہ ہوں

حضرت عيسى عليہ السلام ہر قسم كے ابہام اوراشتباہ كے خاتمے كے لئے اور اس لئے كہ آپ كى استثنائي ولادت كو آپ(ع) كى الوہيت پر سند نہ سمجھ ليں بار بار كہتے تھے:''اللہ ہى ميرا اور تمہارا پروردگار ہے'' نيز كہتے:''ميں اس كا بندہ ہوں اور اس كا بھيجا ہوا ہوں''_ (1)

اس كے برخلاف موجودہ تحريف شدہ انجيلوں ميں حضرت مسيح عليہ السلام كى زبان سے خدا كے بارے ميں باپ كا لفظ نقل كيا گيا ہے،قرآن ميں ايسے مقامات پر لفظ''رب''يا اس جيسے الفاظ نقل ہوئے ہيں_

''ان اللہ ربى و ربكم''_

اور يہ چيز دعوائے الوہيت كے خلاف اور اس كے مقابلے ميں حضرت مسيح عليہ السلا م كى انتہائي توجہ كى نشاندہى كرتى ہے_

پيغمبر اكرم (ص) سے عيسائيوں كى گفتگو

نجران كے عيسائيوں كے سوال كے جواب كے طور پر وحى نازل ہوئي، وہ ايك ساٹھ ركنى وفد كى صورت ميں پيغمبر اسلام(ص) كے پاس مدينہ ميں آئے_اس ميں ان كے چند نمائندہ رو سا اور بزرگ شامل تھے_

انہوں نے جو مسائل پيغمبر اكرم(ص) كے سامنے پيش كئے ان ميں سے ايك مسئلہ يہ تھا كہ وہ پوچھنے لگے كہ آپ ہميںكس چيز كى طرف دعوت ديتے ہيں؟_ رسول اللہ(ص) نے فرمايا:خدائے يگانہ كى طرف اور يہ كہ ميں اس كى طرف سے ہدايت مخلوق كى خاطر رسالت كے منصب پر فائز ہوں_ نيز يہ كہ مسيح(ع) اس كے بندوں ميں سے ايك تھے،حالات بشرى ركھتے تھے اور دوسرے لوگوں كى طرح غذا كھاتے تھے_


(1)سورہ آل عمران آيت51

انہوں نے يہ بات نہ مانى اور باپ كے بغير حضرت عيسى عليہ السلام كى ولادت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے اسے ان كى الوہيت كے لئے دليل كے طور پر پيش كيا_ اس پر وحى الہى نازل ہوئي_

درحقيقت قرآن كا يہ ايك مختصر اور واضح استدلال ہے جس ميں نجران كے عيسائيوں كے حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں دعوى الوہيت كا جواب ہے_ فرمايا گيا ہے كہ اگر حضرت عيسى عليہ السلام باپ كے بغير پيدا ہوئے تو يہ امر اس كى دليل كبھى نہيں بن سكتا كہ وہ خدا كے بيٹے يا خود خدا تھے،كيونكہ يہ بات تو حضرت آدم(ع) كے بارے ميں عجيب ترين صورت ميں محقق اور ثابت ہوچكى ہے_ وہ تو ماں باپ دونوں كے بغير دنيا ميں آئے تھے،اس لئے جيسے حضرت آدم كى مٹى سے پيدائشے كوئي تعجب كى بات نہيں ہے، اور وہ خدا جو كام انجام دينا چاہے اس كا فعل اور ارادہ ہم آہنگ ہيں، اسى طرح حضرت عيسى عليہ السلام كا اپنى والدہ سے بغير باپ كے پيدا ہونا كوئي محال مسئلہ نہيں ہے، بلكہ حضرت آدم كى پيدائشے كئي لحاظ سے زيادہ تعجب خيز ہے، پس اگر بغير باپ كے حضرت عيسى عليہ السلام كى پيدائشے ان كى الوہيت كى دليل ہے تو حضرت آدم اس امر كے زيادہ مستحق ہيں_

خيالى تثليث

قرآن ميں كفار اور اہل كتاب كے بارے ميں جارى مباحث كے حوالے سے مسيحى معاشرے كے اہم ترين انحراف كا ذكر كيا گيا ہے اور وہ ہے تثليث يا تين خدائوں كامسئلہ_

مختصر سے استدلالى جملوں كے ساتھ انھيںاس عظيم انحراف كے انجام بد سے ڈرايا گيا ہے_

قرآن پہلے انھيں خطرے سے آگاہ كرتے ہوئے كہتا ہے:''اپنے دين ميں غلو كى راہ نہ چلو اور حق كے علاوہ خداكے بارے ميں كچھ نہ كہو_''(1)

تثليث اور الوہيت مسيح(ع) كا ابطال

اس سلسلے ميں چند نكات پيش خدمت ہيں:


(1)سورہ نساء آيت171

1_عيسى عليہ السلام مريم كے بيٹے ہيں:

قرآن حكيم ميں عيسى عليہ السلام كانام ان كى والدہ كے نام كے ساتھ سولہ مرتبہ آيا ہے يعني'' عيسى (ع) صرف مريم كے بيٹے ہيں'' يہ اس بات كى نشاندہى ہے كہ مسيح(ع) بھى ديگر انسانوں كى طرح رحم مادر ميں رہے اور ان پر بھى جنين كادور گذرا وہ ديگرانسانوں كى طرح پيدا ہوئے،دودھ پيا اور آغوش مادرى ميں پرورش پائي_

يعنى تمام بشرى صفات ان ميں موجود تھيں_لہذا كيسے ممكن ہے كہ ايسا شخص جو قوانين طبيعت اور عالم مادہ كا متمول و محكوم ہو، وہ خدائے ازلى وابدى بن جائے_

خصوصاً لفظ ''انما''جوقرآن ميں آيا ہے وہ اس وہم كا جواب ہے كہ اگر عيسى (ع) كا باپ نہيں تو اس كا يہ معنى نہيں كہ وہ خدا كا بيٹا ہے بلكہ وہ صرف اور صرف مريم(ع) كا بيٹا ہے_

2_عيسى (ع) خدا كے رسول ہيں:

عيسى (ع) خدا كے فرستادہ اور رسول ہيں ''رسول الله ''، عيسى (ع) كا يہ مقام اور حيثيت بھى ان كى الوہيت سے مناسبت نہيں ركھتا_

يہ بات قابل توجہ ہے كہ حضرت عيسى (ع) كى مختلف باتيں جن ميں سے كچھ اناجيل موجودہ ميں بھى ہيں،سب كى سب انسانى ہدايت كے لئے ان كى نبوت و رسالت كى حكايت كرتى ہيں نہ كہ ان كى الوہيت اور خدائي كي_

3_عيسى (ع) خدا كا كلمہ ہيں:

عيسى (ع) خدا كا كلمہ ہيں جو مريم(ع) كى طرف القاء ہوا _قرآن كى چند آيات ميں عيسى (ع) كو كلمہ كہا گيا ہے،يہ تعبير مسيح كے مخلوق ہونے كى طرف اشارے كے لئے ہے جيسے ہمارے كلمات،ہمارى مخلوق اور ايجاد ہيں،اسى طرح عالم آفرينش كے موجودات بھى خدا كى مخلوق ہيں_نيز جيسے ہمارے كلمات ہمارے اندورنى اسرار كا مظہر ہوتے ہيںاور ہمارے جذبات و صفات كے ترجمان ہوتے ہيں اسى طرح مخلوقات عالم بھى خدا كى صفات جمال و جلال كو واضح كرتى ہيں_ يہى وجہ ہے كہ آيات قرآنى ميں متعدد مقامات پر تمام مخلوقات كے لئے

لفظ''كلمہ''استعمال كيا گيا ہے(1)

البتہ يہ كلمات آپس ميں مختلف ہيں، بعض بہت اہم اور بلند ہيں اور بعض نسبتاًمعمولى اور كم تر ہيں_ حضرت عيسى (ع) آفرينش كے لحاظ سے خصوصيت كے ساتھ مقام رسالت كے علاوہ يہ امتياز بھى ركھتے تھے كہ وہ بغير باپ كے پيدا كئے گئے_

4_عيسى عليہ السلام روح ہيں:

حضرت عيسى (ع) روح ہيں،جنہيں خدا نے پيدا كيا ہے ،يہ تعبير قرآن حكيم ميں حضرت آدم(ع) كے بارے ميں بھى آئي ہے_ ايك معنى كے لحاظ سے تمام نوع انسانى كے بارے ميں ہے يہ اس روح كى عظمت كى طرف اشارہ ہے جسے خدا نے ديگر انسانوں ميں عموماً اور حضرت مسيح(ع) اور باقى انبياء ميں خصوصيت سے پيدا كيا_

علاوہ ازيں يہ امر تعجب خيز ہے كہ عيسائي حضرات، والد كے بغير حضرت عيسى (ع) كى ولادت كو ان كى الوہيت كى دليل قرار ديتے ہيں حالانكہ وہ بھول جاتے ہيں كہ حضرت آدم(ع) ماں اور باپ دونوں كے بغير پيدا ہوئے اس مخصوص خلقت كو كوئي بھى ان كى الوہيت كى دليل نہيں سمجھتا_

اس بيان كے بعد قرآن كہتا ہے:''اب جبكہ ايسا ہے تو خدائے يگانہ اور اس كے پيغمبروں پر ايمان لے آئو اور يہ نہ كہو كہ تين خدا ہيں اور اگر اس بات سے اجتناب كرو ،ا س ميں تمہارا ہى فائدہ ہے''_(2)

يہودى حضرت عيسى عليہ السلام كے انتظار ميں

اہل يہود حضرت عيسى عليہ السلام كے آنے سے پہلے حضرت موسى عليہ السلام كى پيشن گوئي اور بشارت كے مطابق حضرت مسيح عليہ السلام كے ظہور كے منتظر تھے_ ليكن جب انہوں نے ظہور فرمايا اور بنى اسرائيل كے ايك ستمگر اور منحرف گروہ كو اپنے منافع خطرے ميں نظر آئے تو صرف تھوڑے سے لوگ آپ كے گرد جمع ہوئے اور جن لوگوں كا خيال تھا كہ حضرت مسيح عليہ السلام كى دعوت قبول كرنے اور احكام كى پيروى سے


(1)مثلاًسورہ كہف آيت109،سورہ لقمان آيت29

(2)سورہ نساء آيت171

ان كى حيثيت اور قدر و منزلت خطرے سے دوچار ہوجائے گى انہوں نے قوانين الہى كو قبول كرنے سے منہ پھير ليا_

دليل و برہان سے انہيں كافى دعوت دينے كے بعد حضرت عيسى عليہ السلام اس نتيجے پر پہنچے كہ بنى اسرائيل كا ايك گروہ مخالفت اور گناہ پر مصر ہے اور وہ كسى انكار اور كجروى سے دستبردار نہيں ہوگا، لہذا انہوں نے پكار كر كہا:''كون ہے جو دين خدا كى حمايت اور ميرا دفاع كرے؟''_(1)

صرف تھوڑے سے افراد نے اس كا مثبت جواب ديا_ يہ چند پاك باز افراد تھے جنہيں قرآن نے ''حواريين ''كا نام ديا ہے_

انہوں نے حضرت مسيح عليہ السلام كى پكار كا جواب ديا اور ہر لحاظ كى مدد كى ان كے مقدس مقاصد كى پيش رفت كى راہ ميں دفاع كرنے سے دريغ نہ كيا_

حواريوں نے حضرت عيسى عليہ السلام كى ہر طرح سے مدد كا اعلان كيا اور جيسا كہ قرآن نے ان سے نقل كيا ہے، كہنے لگے:''ہم خدا كے ياور و مددگار ہيں،خدا پر ايمان لائے ہيں اور آپ (ع) كو اپنے اسلام پر گواہ بناتے ہيں''_(2)

يہ امر قابل تو جہ ہے كہ حواريوں نے حضرت عيسى عليہ السلام كى دعوت كے جواب ميں يہ نہيں كہا كہ ہم آپ(ع) كے مددگار ہيں بلكہ اپنى انتہائي توحيد پرستى اور خلوص كے ثبوت كے لئے اور اس مقصد كے لئے كہ ان كى بات سے كسى شرك كى بو نہ آئے،وہ كہنے لگے:ہم خدا كے مددگار اور ساتھى ہيں اور اس كے دين كى مدد كريں گے اور آپ(ع) كو اس حقيقت پر گواہ بناتے ہيں_گويا وہ بھى يہ محسوس كرتے تھے كہ منحرف اور كج روافراد آئندہ حضرت مسيح عليہ السلام كى الوہيت كا دعوى كريں گے لہذا وہ ان كے ہاتھوں ميں كوئي دليل نہيں دينا چاہتے تھے_


(1)سورہ آل عمران آيت 52

(2)سورہ ال عمران ايت 52

حوارى كون تھے؟

''حواريين''''حواري''كى جمع ہے اس كا مادہ''حور''ہے جس كا معنى ہے''دھونا اور سفيد كرنا''ہے،كبھى كبھى يہ لفظ ہر سفيد چيز كے لئے بھى بولا جاتا ہے اسى لئے سفيد غذا كو عرب لوگ''حواري''كہتے ہيں_ بہشت كى حوروں كو بھى ان كے سفيد رنگ كى وجہ سے''حور''كہتے ہيں_

حضرت عيسى عليہ السلام كے شاگردوں كو''حواري''كيوں كہا گيا،اس كے لئے بہت سے احتمالات پيش كيے گئے ہيں مگر جوچيزيں زيادہ قريب عقل ہے اور دين كے عظيم رہبروں سے منقول احاديث ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے يہ ہے كہ وہ پاك دل لوگ تھے اورروح باصفا كے مالك تھے اس كے علاوہ وہ دوسروں كے افكار كو پاكيزہ اور روشن كرنے،لوگوں كے دامن كو آلودگى اور گناہ سے دھونے اور انہيں پاك كرنے ميں بہت كوشاں رہتے تھے_

عيون الرضا ميں امام على بن موسى عليہما السلام سے منقول ہے:

آپ(ع) سے سوال كيا گيا:

حواريوں كا يہ نام كيوں ركھا گيا؟

آپ(ع) نے فرمايا:''بعض لوگ كہتے ہيں كہ ان كا مشغلہ كپڑے دھونا تھا، ليكن ہمارے نزديك اس كى علت يہ ہے كہ انھوں نے خود كو بھى گناہ كى الودگى سے پاك ركھا تھا اور دوسروں كو بھى پاك كرنے ميں كوشاں رہتے تھے ''_

حوارى قرآن اور انجيل كى نظر ميں

قرآن نے حواريوں كے بارے ميں گفتگو كى ہے اور ان كے ايمان كا تذكرہ كيا ہے_(1)


(1)سورہ صف آيت14

ليكن انجيل ميں حواريوں كے بارے ميں جو جملے ہيں ان سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ سب حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں لغزش كرتے تھے_انجيل متى اور لوقا كے باب 6 ميں حواريوں كے نام اس طرح بيان كيے گئے ہيں_

1_پطرس،2_اندرياس،3_يعقوب،4_يوحنا،5_فيلوپس،6_برتولولما،7_ثوما،8_متي،9_يعقوب بن حلفا،10_شمعون(جن كالقب غيور تھا)11_يہودا(جو يعقوب كے بھائي تھے)12_يہودائے اسخر يوطي(جس نے حصرت مسيح عليہ السلام سے خيانت كي)

مشہور مفسر طبرسى مجمع البيان ميں لكھتے ہيں:

حوارى حضرت عيسى عليہ السلام كے ساتھ سفركرتے تھے_جب كبھى انہيں بھوك يا پياس لگتي،حكم خدا سے آب و غذا ان كے لئے مہيا ہوجاتا _ وہ اسے اپنے لئے عظيم افتخار اور بڑا اعزاز سمجھتے،وہ حضرت عيسى عليہ السلام سے پوچھتے:كيا ہم سے بڑھ كربھى كوئي افضل و بالا تر ہے،تو وہ كہتے:ہاں''وہ شخص تم سے افضل ہے جو اپنے ہاتھ سے كماتا ہے اور اپنى كمائي كھاتا ہے''_اس كے بعد وہ لوگوں كے كپڑے دھوتے تھے اور اس كام سے اجرت ليتے تھے(يوں عملاً انہوں نے سب لوگوں كو درس ديا كہ كام او ركوشش كرنا كوئي ننگ و عار نہيں ہے)_

حضرت مسيح عليہ السلام كى دعوت قبول كرلينے كے بعد حواريوں نے ان كا ساتھ ديا،ان كى مدد كى اور انہيں اپنے ايمان پر گواہ بنايا_پھر بارگاہ الہى كى طرف متوجہ ہوئے اور اپنا ايمان پيش كيا اور كہنے لگے:''پروردگارجو كچھ تو نے بھيجا ہے ہم اس پر ايمان لائے ہيں''_(1)

ليكن ايمان كا چونكہ دعوى ہى كافى نہيں تھا،اس لئے ساتھ ہى آسمانى احكام پر عمل كرنے اور پيغمبر خدا(حضرت عيسى عليہ السلام )كى پيروى كا ذكر كرنے لگے اور كہنے لگے:''ہم نے تيرے بھيجے ہوئے مسيح كى پيروى كي''_(2)


(1)سورہ آل عمران 53

(2)سورہ آل عمران53

اور يہ ہمارے ايمان راسخ كا زندہ ثبوت ہے_

اس كے بعد انہو ںنے تقاضا كيا كہ خدا ان كے نام شہادت دينے والوں اور گواہوں كے زمرے ميں شمار كرے_يہ گواہ وہى لوگ ہيں جو اس دنيا ميں امتوں كى رہبرى كرتے ہيں اور قيامت ميں لوگوں كے نيك و بداعمال كے گواہ ہوں گے_

حواريوں پر مائدہ كے نزول كا واقعہ

قرآن ان نعمات كى طرف اشارہ كرتا ہے جو حواريوں يعنى حضرت عيسى عليہ السلام كے نزديكى اصحاب و انصار كو بخشى گئي ہيں_

پہلے فرماتا ہے:اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے حواريوں كى طرف وحى بھيجى كہ مجھ پر اور ميرے بھيجے ہوئے مسيح پر ايمان لے آئو تو انہوں نے ميرى دعوت كو قبول كرليا اور كہا كہ ہم ايمان لے آئے،خدا ياگواہ رہنا كہ ہم مسلمان ہيں اور تيرے حكم كے سامنے سر تسليم خم كئے ہوئے ہيں_

اس كے بعد مائدہ آسمانى كے نزول كے مشہور واقعہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے:''مسيح كے اصحاب خاص نے حضرت عيسى عليہ السلام سے كہا كيا تيرا پروردگار ہمارے لئے آسمان سے غذا بھيج سكتا ہے؟''_(1)

حضرت مسيح عليہ السلام نے اس مطالبہ پر كہ جس ميں ايسے ايسے معجزات و آيات دكھانے كے باوجود شك اور ترديد كى بو آرہى تھي،غور كيا اور انہيں تنبيہ كى اور كہا كہ:'' اگر تم ايمان ركھتے ہو تو خدا سے ڈرو''_(2)

ليكن انہوں نے جلد ہى حضرت عيسى عليہ السلام كو بتاديا كہ ہمارا اس مطالبہ سے كوئي غلط مقصد نہيںہے اور نہ ہى اس ميں ہمارى كسى ہٹ دھرمى كى غرض پوشيدہ ہے'' بلكہ ہمارى تمنايہ ہے كہ ہم اس مائدہ ميں سے كھائيں(اور آسمانى غذا كے كھانے سے نورانيت ہمارے دل ميں پيدا ہوگى ،كيونكہ غذا مسلمہ طور پر روح


(1)سورہ مائدہ آيت 112

(2)سورہ مائدہ آيت112

انسانى پر اثر انداز ہوتى ہے،اس كے علاوہ)ہمارے دلوں ميں راحت پيدا ہوگى اور اطمينان حاصل ہوگا اور يہ عظيم معجزہ ديكھنے سے ہم'' علم اليقين ''كى سر حد تك پہنچ جائيں گے اور يہ جان ليں گے كہ آپ نے جو كچھ ہم سے كہا ہے وہ سچ ہے تا كہ ہم اس پر گواہى دے سكيں''_(1)

جب حضرت عيسى عليہ السلام ان كے اس مطالبہ ميں ان كى حسن نيت سے آگاہ ہوئے توان كى درخواست كو بارگاہ خداوندى ميں اس طرح سے بيان فرمايا :''كہ خداوندا ہمارے لئے آسمان سے مائدہ بھيج جو ہمارے اول و آخر كے لئے عيد ہو اور تيرى طرف سے ايك نشانى شمار ہو اور ہميں رزق عطا فرما كہ تو ہى بہترين روزى رساں ہے''_(2)

اس ميں يہ بات خاص طور پر قابل توجہ ہے كہ حضرت عيسى عليہ السلام نے ان كى درخواست كو بہت ہى عمدہ طريقے سے بارگاہ خداوندى ميں پيش كيا،جس ميں حق طلبى كى روح كا اظہار بھى پايا جاتا ہے اور اجتماعى و عمومى مصالح كو بھى ملحوظ ركھا گيا ہے_

خداوند متعال نے اس دعا كو كہ جو حسن نيت او رخلوص كے ساتھ دل سے نكلى تھى قبول كرليا اور ان سے فرمايا كہ:''ميںاس قسم كا مائدہ تم پر نازل كروں گا ليكن اس بات پر بھى توجہ رہنى چاہيئےہ اس مائدہ كے اترنے كے بعد تمہارى ذمہ دارى بہت سخت ہوجائے گى اور اس قسم كاواضح معجزہ ديكھنے كے بعد جس شخص نے راہ كفر اختيار كى تو اسے ايسى سزادوںگا كہ عالمين ميں سے كسى كو ايسى سزانہيں دى ہوگي''_(3)

يہ آسمانى مائدہ كيا تھا

يہ آسمانى مائدہ جن چيزوں پر مشتمل تھا ان كے بارے ميں قرآن ميں كوئي تذكرہ نہيں ہے ليكن احاديث ميں ہے كہ جن ميں سے ايك حديث امام محمدباقر عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس طرح معلوم ہوتا ہے كہ وہ كھانا چند روٹياں اور چند مچھلياں تھيں_


(1)سورہ مائدہ آيت113

(2)سورہ مائدہ آيت114

(3)سورہ مائدہ آيت 115

شايد اس قسم كے معجزے كے مطالبے كا سبب يہ تھا كہ انہوں نے سن ركھا تھا كہ حضرت موسى عليہ السلام كے معجزہ سے بنى اسرائيل پر مائدہ آسمانى اترا تھا_ لہذا انہوں نے بھى حضرت عيسى عليہ السلام سے اسى قسم كاتقاضا كيا_

عہد جديد اور مائدہ

موجودہ چاروں انجيلوں ميں مائدہ كے بارے ميں اس طرح كى گفتگو نہيں ہے جس طرح كہ ہم قرآن مجيد ميں ديكھتے ہيں_اگر چہ انجيل يوحنا باب21 ميں ايك بيان ايسا موجود ہے كہ جس ميں حضرت عيسى عليہ السلام كى طرف سے لوگوں كو كھانا كھلانے اوران كى طرف سے روٹى مچھلى كے ساتھ معجزانہ طور پر دعوت كا ذكر كيا گيا ہے ليكن تھوڑى سى توجہ سے معلوم ہو جاتاہے كہ اس مائدہ آسمانى اور حواريوں كے مسئلے سے كوئي ربط نہيں ہے_

كتاب ''اعمال رسولان''ميں بھى جو''عہد جديد'' كى ايك كتاب ہے،پطرس نامى ايك حوارى پر نزول مائدہ كا ذكر كيا گيا ہے،وہ بھى اس بحث سے الگ چيز ہے كہ جس كے بارے ميں ہم گفتگو كررہے ہيں،ليكن كيونكہ ہميں معلوم ہے كہ بہت سے ايسے حقائق ہيں كہ جو حضرت عيسى عليہ السلام پر نازل ہوئے تھے مگر وہ موجودہ انجيلوں ميں نہيں ہيں،ايسے ہى جيسا كہ بہت سے ايسے مطالب ہيں جو انجيلوں ميں لكھے ہوئے ہيں مگر وہ حضرت عيسى عليہ السلام پر نازل نہيں ہوئے تھے لہذا اس حقيقت كو مد نظر ركھتے ہوئے نزول مائدہ كے واقعہ كے سلسلے ميں كوئي مشكل پيدا نہيں ہوگي_

انجيل يا اناجيل؟

''انجيل''اصل ميں يونانى لفظ ہے_ اس كا معنى ہے''بشارت''يا ''جديدتعليم''يہ اس كتاب كا نام جو حضرت عيسى عليہ السلام پر نازل ہوئي تھي، يہ امر قابل ذكر ہے كہ قرآن نے محل گفتگو ميں اور ديگر آيات كہ جن ميں حضرت عيسى عليہ السلام كى كتاب كا نام ليا ہے،يہ لفظ مفرد ہى استعمال ہوا ہے اور اسے خدا كى طرف سے

نازل شدہ قرار ديا ہے، اب وہ بہت سى اناجيل جو عيسائيوں ميں مروج ہيں،وحى الہى نہيں ہيں_ ان اناجيل ميں يہ چار زيادہ مشہور ہيں:

1_لوقا2_مرقس3_متي4_يوحنا

ان كے وحى الہى نہ ہونے كا خود عيسائي بھى انكار نہيں كرتے_موجودہ انجيليں سب حضرت عيسى عليہ السلام كے شاگردوں يا ان كے شاگردوں كى ہيں اور آپ سے كافى مدت بعد لكھى گئي ہيں_عيسائيوں كادعوى زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ حضرت مسيح عليہ السلام كے شاگردوں نے يہ اناجيل الہام الہى سے لكھى ہيں_

يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے كہ عہد جديد اور اناجيل كے بارے ميں تحقيق كرتے ہوئے ان كے مصنفين سے واقفيت حاصل كريں_

عيسائيوں كى اہم ترين مذہبى كتاب عہد جديد كامجموعہ ہے جس پر تمام عيسائي فرقے ايك آسمانى كتاب كى حيثيت سے ايمان ركھتے ہيں_

عہد جديد كا مجموعہ عہد قديم كے تيسرے حصے سے زيادہ نہيں ہے_ يہ 27/متفرق كتب و رسائل پر مشتمل ہے_ يہ بالكل مختلف موضوعات كى حامل ہيں_ ان كى ترتيب يہ ہے:

1_انجيل متى : متى حضرت مسيح عليہ السلام كے بارہ شاگردوں ميں سے ايك تھا_ يہ انجيل اس نے 38 عيسوى ميں يا بعض كے نظريہ كے مطابق سنہ ميلادي50سے ليكر سنہ ميلادى 60 كے درميان لكھي_

2_انجيل مرقس:كتاب قاموس مقدس كے صفحہ 792 پر ہے كہ مرقس حواريوں ميں سے نہ تھا_اس نے اپنى انجيل پطرس كى زير نگرانى تصنيف كي_ مرقس سنہ ميلادي68ميں قتل ہوگيا_

3_انجيل لوقا:''لوقا پولس''رسول كا رفيق اور ہمسفر تھا_ پولس نے حضرت عيسى عليہ السلام كى وفات كے ايك عرصہ بعد عيسائيت قبول كي، يہ آپ كے زمانے ميں متعصب يہودى تھا_لوقا كى وفات سنہ ميلادي70كے قريب ہوئي ہے قاموس مقدس كے مو لف نے اپنى تاليف كے صفحہ 772پر لكھا ہے كہ انجيل لوقاكى تاليف عالم خيال كے مطابق تقريباً سنہ ميلادي63ميں ہوئي_

4_انجيل يوحنا:يوحنا مسيح عليہ السلام كے شاگردوں ميں سے تھا اور پولس كادوست اور ہمسفر تھا_مو لف مذكور كے بقول اس كى تاليف زيادہ تر ناقدين كے نزديك پہلى صدى كے آخر ى حصے ميں لكھى گئي_

يہ اناجيل عموماً حضرت مسيح عليہ السلام كو سولى ديے جانے اور اسكے بعد كے حوادث كے ذكر سے معمور ہيں_ اس سے اچھى طرح ثابت ہوتا ہے كہ يہ سب اناجيل حضرت مسيح عليہ السلام كے سالہا سال بعد لكھى گئي ہيں، اور ان ميں كوئي بھى كتاب آسمانى نہيں ہے جو حضرت مسيح عليہ السلام پر نازل ہوئي ہو_

5_اعمال رسولانہ:(صدر اول ميں حضرت عيسى عليہ السلام كے حوارى اور مبلغين كے اعمال_)

6_14 رسالے:مختلف افراد اور اقوام كے نام پولس كے خطوط_

7_رسالہ يعقوب: (عہد جديد كے ستائيس كتب و رسائل ميں سے يہ بيسواں رسالہ ہے_)

8_پطرس كے خطوط:يہ عہد جديد كے اكيسويں اور بائيسويں رسالے پر مشتمل ہيں_

9_يوحنا كے خطوط:(يہ تين رسالوں پر مشتمل ہيں 23،24 اور 25 رسالوں ميں يہى خطوط ہيں_)

10_نامہ يہودا:(يہ عہد جديد كا چھبيسواں رسالہ_)

11_مكاشفہ يوحنا:(يہ عہد جديد كا آخرى حصہ ہے_)

لہذا عيسائي مو رخين كى تصريح،نيز اناجيل اور عہد جديد كى ديگر كتب و رسائل كے مطابق ان ميں سے كوئي بھى آسمانى كتاب نہيں ہے_مزيد يہ كہ يہ تمام كتب حضرت عيسى عليہ السلام كے بعد لكھى گئي ہيں_اس گفتگو سے ہم اس نتيجے پر پہنچے ہيں كہ حضرت مسيح عليہ السلام پرنازل ہونے والى آسمانى كتاب درميان ميں سے اٹھ گئي ہے اور آج دستياب نہيں ہے_ اس كے كچھ حصے جو حضرت مسيح عليہ السلام كے شاگردوں نے اپنى اناجيل ميں بيان كئے ہيں باعث تاسف ہيں كہ ان ميں بھى خرافات شامل ہوچكى ہيں_

حضرت عيسى مسيح عليہ السلام كے قتل كا منصوبہ

ہم نے كہا ہے كہ يہوديوں نے بعض جرائم پيشہ عيسائيوں كى مدد سے حضرت مسيح عليہ السلام كے قتل كا مصمم ارادہ كرليا تھا ليكن خدا متعال نے ان كى سازشوں كو نقش بر آب كرديا اور اپنے پيغمبر كو ان كے چنگل سے

رہائي بخشي_ قرآن ميں اللہ تعالى نے اس سے پہلے جواحسان حضرت مسيح عليہ السلام پر كيے ہيں ان كا ذكر ہوا ہے _ ارشاد ہوتا ہے: ''اے عيسى ميں تمہيں لے لوں گا او راپنى طرف اٹھالوں گا)_(1)

سورہ نساء كى آيت 157سے استثناد كرتے ہوئے مفسرين ميں يہ مشہور ہے كہ حضرت عيسى عليہ السلام قتل نہيں ہوئے اور خدا انہيں آسمان كى طرف لے گيا_ ليكن خود عيسائي موجودہ اناجيل كے مطابق كہتے ہيں كہ حضرت عيسى عليہ السلام قتل ہوئے اور بعد ازاں انہيں دفن كرديا گيا،پھر وہ مردوں كے درميان سے اٹھے،تھوڑى مدت زمين پر رہے اور آسمان كى طرف اٹھ گئے_(2)


(1)آل عمران آيت 55

(2)المنار كے مو لف كى طرح بعض مفسرين اسلام كا عقيدہ ہے كہ حضرت مسيح عليہ السلام قتل ہوئے اور خدا صرف ان كى روح كو آسمان كى طرف لے گيا_

يہاں جس بات كى طرف توجہ ضرورى ہے،يہ ہے كہ محل بحث آيت حضرت عيسى عليہ السلام كى موت پر دلالت نہيں كرتى اگر چہ بعض يہ تصور كرتے ہيں كہ ''متوفيك'' كا مادہ ''وفات'' ہے اور يہ موت كے معنى ميں ہے_اس لئے ان كا خيال ہے كہ جو عقيدہ مسلمانوں ميں مشہور ہے كہ حضرت عيسى عليہ السلام نے وفات نہيں پائي اور وہ زندہ ہيں اس مفہوم كے منافى ہے حالانكہ احاديث بھى اس عقيدے كى تائيد كرتى ہيں نيز فوت ہاتھ سے نكل جانے كے معنى ميں ہے او رتوفى (بروزن ترقي) ''وفي''كے مادہ سے ہے جس كا مطلب ہے''كسى چيز كى تكميل كرنا'' عہد و پيمان كرنے كو''وفا''بھى تكميل كرنے اور اسے انجام پہنچانے كى وجہ سے كہتے ہيں_اسى بناء پر اگر كوئي شخص كامل طور پر اپنا حق دوسرے سے اپنى تحويل ميں لے لے تو عرب كہتے ہيں''توفى دينہ'' يعنى اپنا حق پورا پورا وصول كرليا_آيات قرآنى ميں بھي''توفى ''بارہا''لينے''كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_مثلاً: ''وہو الذى يتوفكم باليل و يعلم ماجرحتم بالنھار_''

وہ ذات وہ ہے جو تمہارى روح كو رات كے وقت لے ليتى ہے اور جو كچھ تم دن كو انجام ديتے ہو اس سے آگاہ ہے_(انعام_60) اس آيت ميں نيند كو''توفى روح'' كہا گيا ہے_يہى معنى سورہ زمر كى آيہ 42 ميں بھى آيا ہے_ قرآن كى متعدد ديگر آيات ميں بھى لفظ''توفي''''لينے''كے معنى ميں نظر آتا ہے_

يہ صحيح ہے كہ''توفي''بعض اوقات ''موت'' كے معنى ميں بھى استعمال ہوا ہے ليكن وہاں بھى درحقيقت موت كے مفہوم ميں نہيں بلكہ روح كو اپنى تحويل ميں لے لينے كے معنى ميں ہے_ اصولى طور پر''توفي''كے معنى ميں''موت''پوشيدہ نہيں ہے_ اور ''فوت'' كا مادہ ''وفي'' كے مادہ سے بالكل جدا ہے_

مسيح عليہ السلام قتل نہيں ہوئے،افسانہ صليب

قرآن كہتا ہے:''مسيح قتل نہيں ہوئے اور نہ سولى پر چڑھے بلكہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگيا اور انھوں نے خيال كيا كہ انھيں سولى پر لٹكاديا ہے حالانكہ يقينا انھوں نے انھيں قتل نہيں كيا''_(1)

موجودہ چاروں اناجيل(متى ،لوقا،مرقس اور يوحنا)ميں حضرت مسيح عليہ السلام كو سولى پر لٹكائے جانے اور ان كے قتل كا ذكر ہے_يہ بات چاروں انجيلوں كے آخرى حصوں ميں تشريح و تفصيل سے بيان كى گئي ہے_ آج كے عام مسيحيوں كا بھى يہى عقيدہ ہے_بلكہ ايك لحاظ سے تو قتل مسيح عليہ السلام اور انھيں مصلوب كيا جانا موجودہ مسيحيت كے اہم ترين بنيادى مسائل ميں سے ہے كيونكہ ہم جانتے ہيں كہ موجودہ عيسائي حضرت مسيح عليہ السلام كو ايسا پيغمبر نہيں مانتے جو مخلوق كى ہدايت،تربيت اور ارشاد كے لئے آيا ہو بلكہ وہ انھيں خدا كا بيٹا اور تين خدائوں ميںسے ايك كہتے ہيں جس كا اس دنيا ميں آنے كا اصلى ہدف ہى خدا ہونا ہے اور اپنى قربانى كے عوض نوع بشر كے گناہوں كا سودا كرتا ہے_

عيسائي كہتے ہيں كہ وہ اس لئے آئے تاكہ ہمارے گناہوں كا فديہ بن جائيں وہ سولى چڑھے اور قتل ہوئے تاكہ نوع بشر كے گناہوں كو دھوڈاليں اور عالمين كو سزا سے نجات دلائيں_ اس لئے وہ سمجھتے ہيں كہ راہ نجات مسيح عليہ السلام سے رشتہ جوڑنے اوران كے مصلوب ہونے كا عقيدہ ركھنے ميں منحصر ہے_

يہى وجہ ہے كہ وہ مسيحيت كو''مذہب نجات''يا''مذہب خدا'' كہتے ہيں اور مسيح عليہ السلام كو''ناجي''يا''فادي'' كہتے ہيں يہ جو ہم ديكھتے ہيں كہ عيسائي صليب كا نشان بہت زيادہ استعمال كرتے ہيں،اور صليب ان كا شعار ہے اسى كى وجہ ان كا يہى عقيدہ ہے_

يہ تھا حضرت مسيح عليہ السلام كے بارے ميں عيسائيوں كے عقيدے كا خلاصہ،ليكن كوئي مسلمان بھى اس ميں شك نہيں ركھتا كہ يہ عقيدہ باطل ہے اس كى وجوہات يہ ہيں_


(1)سورہ نساء آيت157

1_حضرت مسيح عليہ السلام ديگر انبياء كى طرح ايك پيغمبر تھے نہ وہ خداتھے نہ خدا كے بيٹے_ خدا يكتا و يگانہ ہے اس كا كوئي شبيہ و نظير مثل و مانند اور بيوى بيٹا نہيں ہے_

2_گناہوں كا فديہ بننا بالكل غير منطقى بات ہے، ہر شخص اپنے اعمال كا جوابدہ اور ذمہ دارہے اور راہ نجات خود انسان كا اپنا ايمان اور عمل صالح ہے_

3_گناہ گاروں كے فديہ كا عقيدہ فساد،تباہى اور آلودگى كى ترغيب و تشويق كرتا ہے يہ جو ہم ديكھتے ہيں كہ قرآن خصوصيت سے مسيح عليہ السلام كے مصلوب نہ ہونے كا ذكر كرتا ہے حالانكہ ظاہراًايك معمولى سى بات نظر آتى ہے تو اس كى وجہ يہى ہے كہ فديے اور امت كے گناہ خريد نے كے بے ہودہ اور فضول عقيدے كى سختى سے سركوبى كى جائے اور عيسائيوں كو اس خرافاتى عقيدے سے نكالا جائے تا كہ وہ نجات كے لئے اپنے اعمال كو درست كريں نہ كہ عقيدہ صليب كا سہارا ليں_

4_بہت سے قرائن ايسے موجود ہيں جو حضرت عيسى عليہ السلام كو صليب ديئے جانے كے عقيدے كى كمزورى پر دلالت كرتے ہيں،مثلاً:

الف:ہم جانتے ہيں كہ موجودہ چارووں انجيليں جو حضرت عيسى عليہ السلام كے مصلوب ہونے كا ذكر كرتى ہيں سب كى سب حضرت عيسى عليہ السلام كے بعد ان كے شاگردوں يا شاگردوں كے شاگردوں كے ذريعے لكھى گئي ہيں اور اس بات كا مسيحى مو رخ بھى اعتراف كرتے ہيں_

نيز ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ جناب مسيح عليہ السلام كے شاگرددشمنوں كے حملے كے وقت بھاگ گئے تھے اور اناجيل بھى اس بات كى گواہ ہيں_ لہذا انھوں نے مسيح عليہ السلام كے مصلوب ہونے كے بارے ميں عوام ميں گردش كرتى ہوئي افواہ يا شہرت سنى اور وہيں سے يہ بات حاصل كى اور جيسا كہ بعد ميں بيان كيا جائے گا كہ حالات ايسے پيش آئے كہ مسيح عليہ السلام كى جگہ دوسرا شخص اشتباہ ميں پكڑليا گيا_

ب:دوسراعامل جو يہ امكاں ظاہر كرتا ہے كہ حضرت عيسى عليہ السلام كى بجائے اشتباہ ميں دوسرا شخص پكڑا گيا ہويہ ہے كہ شہر كے باہر'' جستيماني'' باغ ميں جو لوگ جناب عيسى عليہ السلام كو گرفتار كرنے كے لئے گئے

وہ رومى لشكر كاايك دستہ تھايہ لوگ چھائونى ميں اپنى فوجى ذمہ داريوں ميں مشغول تھے يہ لوگ نہ يہوديوں كو پہچانتے تھے نہ وہاں كى زبان اورنہ آداب و رسوم جانتے تھے اور نہ ہى يہ لوگ حضرت عيسى عليہ السلام كو ان كے شاگردوں ميں سے پہچان سكتے تھے_

ج:اناجيل كے مطابق حملہ رات كے وقت حضرت عيسى عليہ السلام كى رہائشے گاہ پر ہوا اس صورت ميں تو اور بھى آسان ہے كہ تاريكى ميں اصل انسان نكل جائے اور كوئي دوسرا اس كى بجائے گرفتار ہوجائے_

د:تمام انجيلوں كى عبارت سے معلوم ہوتا ہے كہ گرفتار شدہ شخص نے رومى حاكم ''پيلاطس'' كے سامنے خاموشى اختيار كى اور اس كى گفتگو كے جواب ميں اپنے دفاع كے لئے بہت كم ہى كچھ كہا_ يہ بات بہت بعيد ہے كہ حضرت عيسى عليہ السلام اپنے آپ كو خطرے ميں ديكھيں اور اپنے بيان رسا،قوت گويائي اور شجاعت اور شہامت كے باوجود اپنا دفاع نہ كريں_

تو كيا اس سے يہ احتمال پيدا نہيں ہوتا كہ كوئي شخص ان كى جگہ پكڑاگيا ہو اور وحشت و اضطراب كا ايسا شكار ہوا ہو كہ اپنے دفاع ميں كچھ بھى نہ كہہ سكا ہو،قوى احتمال يہ ہے كہ وہ'' اسخريوطى نامى يہودى ''تھا جس نے حضرت مسيح عليہ السلام سے خيانت كى اور ان كے خلاف جاسوسى كا كردار ادا كيا، كہتے ہيںكہ وہ جناب عيسى عليہ السلام سے بہت مشابہت ركھتا تھا خصوصاً جبكہ موجودہ اناجيل ميں ہے كہ اسخريوطى يہودى اس واقعے كے بعد ديكھا نہيں گيا اور اناجيل ہى كے مطابق اس نے خود كشى كرلى تھي_

ر:جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں كہ حضرت مسيح عليہ السلام كے شاگرد اناجيل كى شہادت كے مطابق خطرہ محسوس كرتے ہى بھاگ كھڑے ہوئے_ ظاہر ہے كہ دوسرے دوست احباب بھى اس دن چھپ گئے ہوں گے اور دور سے حالات پر نظر ركھے ہوں گے_لہذا گرفتار شدہ شخص رومى فوجيوں كے محاصرے ميں تھا اور اس كے دوستوں ميں سے كوئي اس كے گرد موجود نہيں تھا_ اس ميں كون سے تعجب كى بات ہے كہ اشتباہ ہوگيا ہو_

س:اناجيل ميں ہے كہ جس شخص كو تختہ دار پر لٹكانے كاحكم ديا گيا اس نے تختہ دار پر خدا سے شكايت كي_

تونے مجھے كيوں تنہا چھوڑ ديا اور كيوں مجھے قتل ہونے كے لئے دشمن كے ہاتھ ميںدے ديا_

لہذا اگرحضرت مسيح عليہ السلام دنيا ميں اس لئے آئے تھے كہ وہ سولى پر لٹكائے جائيں اور نوع انسان كے گناہوں كا فديہ ہوجائيں تو پھر ايسى نارواباتيں نہيں كرنا چاہئے تھيں_يہ جملہ واضح طور پر نشاندہى كرتا ہے كہ وہ شخص نہايت كمزور،ڈرپوك اور عاجزو ناتواں تھا اسى لئے ايسى باتيں كررہا تھا ور نہ مسيح عليہ السلام ہوتے تو ايسى باتيں ہرگز نہ كرتے_

ش_مسيحوں كے نزديك قابل قبول چار انجيلوں كے علاوہ موجودہ بعض اناجيل مثلاً انجيل ''برنابا'' ميں واضح طور پر حضرت عيسى عليہ السلام كے مصلوب ہونے كى نفى كى گئي ہے_يہاں تك كہ بعض محققين كا يہ نظريہ ہے كہ عيسى عليہ السلام نام كے دو شخص تھے ايك عيسى كو سولى دى گئي تھى اوردوسرے كو نہيں دى گئي تھى اور دونوں ميں پانچ سوسال كا فاصلہ تھا_

جو كچھ بيان كيا گيا ہے،يہ قرائن مجموعى طور پر حضرت مسيح عليہ السلام كے قتل اور صليب ديئے جانے كے بارے ميں قرآن كے ''دعوي اشتباہ'' كو واضح كرتے ہيں_

پيغمبر اسلام(ص) كى بشارت، جناب عيسى كى زباني

قرآن ميں حضرت عيسى عليہ السلام كى رسالت اوراس كے مقابلے ميں بنى اسرائيل كى كارشكنى اور تكذيب كے مسئلہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے:''اس وقت كو ياد كرو جب عيسى ابن مريم نے كہا:اے بنى اسرائيل ميں تمھارى طرف خدا كا بھيجا ہوا رسول ہوں،جبكہ ميں اس كتاب كى جو مجھ سے پہلے بھيجى گئي(يعنى تورات)كى تصديق كرنے والا ہوں_

''اور ميں اس رسول كى بشارت دينے والا بھى ہوں جو ميرے بعدآئے گا_ اس كانام احمد(ص) ہے''_(1)


(1) سورہ صف آيت6

عہدين كى بشارتيں اور ''فارقليطا '' كى تعبير

اس ميں شك نہيں كہ موجودہ زمانہ ميں يہود و نصارى كے پاس جو كچھ توريت و انجيل كے نام سے موجود ہے،وہ خدا كے عظيم پيغمبروں يعنى موسى و عيسى عليہ السلام پر نازل شدہ كتابيں نہيں ہيں_بلكہ يہ ان كتابوں كا ايك ايسا مجموعہ ہے جو ان كے اصحاب يا ان كے بعد آنے والوں كے ذريعے تاليف ہوا ہے_ان كتابوں كا ايك اجمالى مطالعہ اس بات كا زندہ گواہ ہے اور خودعيسائيوں اور يہوديوں كا بھى اس كے سوا اور كوئي دعوى نہيں ہے_

ليكن اس كے باوجود اس ميں بھى شك نہيں ہے كہ موسى عليہ السلام و عيسى عليہ السلام كى تعليمات اور كتب آسمانى كے مضامين ومطالب كا كچھ حصہ ان كے پيروكاروں كے كلام كے ضمن ميں منتقل ہوگيا ہے_اسى بناء پر جو كچھ عہد قديم(توريت اور اس سے وابستہ كتابوں )اور عہد جديد(انجيل اور اس سے وابستہ كتابوں)ميں آيا ہے،نہ تو اس سارے كے سارے كو قبول ہى كيا جاسكتا ہے اور نہ ہى وہ سب كا سب قابل انكار ہے_ بلكہ يہ دونوں كتابيں ان دوعظيم پيغمبروں كى تعليمات اور دوسرے لوگوں كے افكار و تصورات سے وجود ميں آئي ہيں_

بہر حال موجودہ كتب ميں بہت سى ايسى تعبيريںنظر آتى ہيں جو ايك عظيم ظہور كى بشارت ديتى ہيں كہ جس كى نشانياں سوائے اسلام اوراسكے لانےوالے كے اور كسى پر منطبق نہيں ہوتيں_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ وہ پيشگوئياں جو ان كتابوں ميں نظرآتى ہيں اور پيغمبر اسلام كى ذات پر صادق آتى ہيں، ان كے علاوہ انجيل ''يوحنا''كے تين موارد ميں لفظ''فارقليطا ''آيا ہے_ اس كا فارسى نسخوں ميں''تسلى دينے والا''كے ساتھ ترجمہ ہوا ہے_اب آپ انجيل يوحنا كى طرف رجوع كريں:

''ميں باپ سے درخواست كروں گا تو وہ تمھيں دوسرا''تسلى دينے والا''دےگا جو ابد تك تمہارے ساتھ رہے گا_''

بعد والے باب ميں آيا ہے:

''اور جب وہ تسلى دينے والا''آئے گا جسے ميں باپ كى طرف سے تمہارى طرف بھيجوں گا،يعنى سچائي كى روح جو باپ كى طرف سے آئے گي،وہ ميرے بارے ميں شہادت دے گي''_

پھر اس كے بعد والے باب ميں آيا ہے:

''ليكن ميں تم سے سچ كہتا ہوں كہ ميرا جانا تمہارے لئے مفيد ہے،كيونكہ اگر ميں نہ جائوں گا تو وہ ''تسلى دينے والا''تمہارے پاس نہيں آئے گا،ليكن اگر ميں چلا جائوں تو اسے تمہارے پاس بھيج دوں گا''_

اہم بات يہ ہے كہ سريانى اناجيل كے متن ميں جو اصل يونانى سے لى گئي ہيں''تسلى دينے والے''كے بجائے ''پارقليطا''آيا ہے_اور يونانى متن ميں''پير كلتوس''آيا ہے كہ جو يونانى لغت كے لحاظ سے''لائق تعريف شخص'' كے معنى ميں ہے جو''محمد (ص) ''و ''احمد(ص) '' كا معادل ہے_

ليكن جب ارباب كليسا (عيسائي پادريوں ) نے يہ ديكھا كہ اس قسم كے ترجمہ كى نشرواشاعت ان كے گھڑے ہوئے نظريات پر ضرب شديد لگائے گى تو ''پير كلتوس'' كى بجائے '' پاراكلتوس'' لكھ ديا كہ جو ''تسلى دينے والے'' كے معنى ميں ہے اس واضح تحريف كے ذريعے انھوں نے اس زندہ سند كو بدل كر ركھ ديا اگرچہ اس تحريف كے باوجود بھى مستقبل كے عظيم ظہور كى ايك واضح بشارت موجود ہے _

يہاں ہم آپ كو اس لفظ كے اس ترجمہ كى طرف متوجہ كرتے ہيں جو اس سلسلہ ميں دائرة المعارف كے بزرگ نے فرانسہ ميں كيا ہے:

'' محمد مو سس دين اسلام ، خدا كا بھيجا ہوا اورخاتم انبياء ہے لفظ محمد(ص) بہت زيادہ تعريف كئے گئے كے معنى ميں ہے اور مادہ حمد سے مشتق ہوا ہے جو تجليل وتمجيد كے معنى ميں ہے عجب اتفاق كے زير اثر ايك اور نام ذكر ہوا كہ اس كا مادہ بھى حمد ہى ہے اور لفظ محمد كا مترادف اور ہم معنى ميں ہے عجيب اتفاق فوق يہ ہے كہ عرب كے عيسائي اس لفظ كو'' فار قليط'' كے بجائے استعمال كرتے تھے احمد يعنى زيادہ تعريف كيا ہوا اور لفظ ''پير كلتوس'' كا بہت عمدہ ترجمہ ہے كہ جس كى بجائے غلطى سے لفظ ''پارا كلتوس'' ركھ ديا گيا ہے ،مسلمان مذہبى مولفين نے يہ بارہا گوشزد كيا ہے كہ اس لفظ سے مراد پيغمبر اسلام كے ظہور كى بشارت ہے اور قرآن مجيد بھى سورہ صف كى

حيرت انگيز آيت ميں اس موضوع كى طرف واضح طور پر اشارہ كرتا ہے ''_(1)

خلاصہ يہ ہے كہ '' فار قليطا'' كا معنى روح القدس يا تسلى دينے والا نہيں ہے ،بلكہ يہ'' احمد'' كے معادل مفہوم ركھتاہے_

ايك اور زندہ گواہ

''فخر الاسلام ''جو كتاب ''انيس الاعلام ''كے مو لف ہيں علماء نصارى ميں سے تھے ،انھوں نے اپنى تعليم عيسائي پادريوں اور علماء ہى ميں مكمل كى تھى اور ان كے يہاں ايك بلند مقام پيدا كيا تھا وہ اس كتاب كے مقدمے ميں اپنے مسلمان ہونے كے عجيب و غريب واقعے كو اس طرح بيان كرتے ہيں:

بڑى جستجو ،زحمتوں اور كئي ايك شہر وں ميں گردش كے بعد ميں ايك عظيم پادرى كے پاس پہنچا جو زہد و تقوى ميں ممتاز تھا ،''كيتھولك 'فرقے كے بادشاہ و غيرہ اپنے مسائل كے لئے اسى سے رجوع كرتے تھے ،ايك مدت تك ميں اس كے پاس نصارى كے مختلف مذاہب كى تعليم حاصل كرتا رہا ،اس كے بہت سے شاگر د تھے ليكن اتفاقاً مجھ سے اسے خاص ہى لگاو تھا ،اس كے گھر كى سب چابياں ميرے ہاتھ ميں تھيں ،صرف ايك صندوق خانے كى چابى اس كے اپنے پاس ہوا كرتى تھى ،اس دوران ميں ايك دن اس پادرى كو كوئي بيمارى پيش ائي تو مجھ سے كہا كہ شاگردوں سے جاكر كہہ دو كہ اج ميں درس نہيں دے سكتا ،جب ميں طالب علموں كے پاس ايا تو ديكھا كہ وہ بحث و مباحثے ميں مصروف ہيں يہ بحث سريانى كے لفظ ''فارقليطا ''اور يونانى زبان كے لفظ ''پريكلتوس ''كے معنى تك جاپہنچى اور وہ كافى دير تك جھگڑتے رہے ،ہر كسى كى الگ رائے تھى ،واپس انے پر استاد نے مجھ سے پوچھا اج كيا مباحثہ كرتے رہے ہو تو ميں نے لفظ فارقيلطا كا اختلاف اس كے سامنے بيان كيا وہ كہنے لگا :تونے ان ميں كس قول كا انتخاب كيا ہے ،ميں كہا فلاں مفسر كے قول كا ميں نے پسند كيا ہے _

استاد پادرى كہنے لگا تونے كوتاہى تو نہيں كى ليكن حق اور واقعہ اس تمام اقوال كے خلاف ہے كيونكہ


(1)دائرة المعارف برزگ فرانسہ جلد 23 ص 4176

اس كى حقيقت كو'' راسخون فى العلم'' كے علاوہ دوسرے لوگ نہيں جانتے اور ان ميں سے بھى بہت كم اس حقيقت سے اشنا ہيں ،ميں نے اصرار كيا كہ اس كے معنى مجھے بتايئےے ،وہ بہت رويا اور كہنے لگا:ميں كوئي چيز تم سے نہيں چھپاتا ،ليكن اس نام كے معنى معلوم ہو جانے كا نتيجہ تو بہت سخت ہوگا كيونكہ اس كے معلوم ہونے كے ساتھ ہى مجھے اور تمہيں قتل كر ديا جائے گا،اب اگر تم وعدہ كرو كہ كسى سے نہيں كہو گے تو ميں اسے ظاہر كر ديتا ہوں_

ميں نے تمام مقدسات مذہبى كى قسم كھائي كہ اسے فاش نہيں كروں گا تو اس نے كہا كہ يہ مسلمانوں كے پيغمبر كے ناموں ميںسے ايك نام ہے اور اس كے معنى ''احمد''اور ''محمد''ہيں ،اس كے بعد اس نے اس چھوٹے كمرے كى چابى مجھے دى اور كہا كہ فلاں صندوق كا دروازہ كھولو اور فلاں فلاں كتاب لے او ،ميں كتابيں اس كے پاس لے ايا ، يہ دونوں كتابيں رسول اسلام (ص) كے ظہور سے پہلے كى تھيں اور چمڑے پر لكھى ہوئي تھيںدونوں كتب ميں لفظ ''فارقليطا''كا ترجمہ ''احمد''اور'' محمد''كيا گيا تھا اس كے بعد استاد نے مزيد كہا كہ انحضرت كے ظہور سے پہلے علماء نصارى ميں كوئي اختلاف نہ تھا كہ فارقليطا كے معنى احمد و محمد ہيں، ليكن ظہور محمد (ص) كے بعد اپنى سردارى اور مادى فوائد كى بقا كے لئے اس كى تاويل كر دى اور اس كے لئے دوسرے معنى گھڑ لئے حالانكہ وہ معنى يقينا صاحب انجيل كى مراد نہيں _

ميں نے سوال كيا كہ دين نصارى كے متعلق اپ كيا كہتے ہيں ،اس نے كہا دين اسلام كے انے سے منسوخ ہوگيا ہے اس جملے كى اس نے تين مرتبہ تكرار كى _

پس ميں نے كہا كہ اس زمانے ميں طريق نجات اور صراط مستقيم ،كون ساہے _

اس نے كہا :مختصر ہے محمد (ص) كى پيروى و اتباع ميں _

ميں نے كہا كيا اس كى پيروى كرنے والے اہل نجات ہيں ،اس نے كہا ہاں خدا كى قسم (اور تين مرتبہ قسم كھائي )

پھر استاد نے گريہ كيا اور ميں بھى بہت رويا اور اس نے كہا اگر اخرت اور نجات چاہتے ہوتو ضرور

دين حق قبول كر لو،ميں ہميشہ تمہارے لئے دعا كروں گا اس شرط كے ساتھ كہ قيامت كے دن گواہى دو كہ ميں باطن ميں مسلمان اور حضرت محمد (ص) كا پيروكار ہوں اور علماء نصارى كے ايك گروہ كى باطن ميںمجھ جيسى حالت ہے اور ميرى طرح ظاہر اً اپنے دنياوى مقام سے دست كش نہيں ہو سكتے ورنہ كوئي شك و شبہ نہيں كہ اس وقت روئے زمين پر دين خدا دين اسلام ہى ہے _''

اپ ديكھيں كہ علماء اہل كتاب نے پيامبراسلام كے ظہور كے بعد اپنے شخصى منافع كى خاطر انحضرت (ص) كے نام اور نشانيوںكى اور توجيہات كر دى ہيں_

* * * * *