حضرت عزير عليہ السلام

يہ گفتگو ايك نبى كى ہے جو اثنا سفر ايك سوارى پر سوار تھا ،كھانے پينے كا كچھ سامان اس كے ہمراہ تھا اور وہ ايك ابادى ميں سے گزر رہا تھا جو وحشتناك حالت ميں گرى پڑى تھى اور ويران ہو چكى تھى اور اس كے باسيوں كے جسم اور بوسيدہ ہڈياں نظر ارہى تھيں ،جب اس نے يہ وحشتناك منظر ديكھا تو كہنے لگا :''خدا ان مردوں كو كس طرح زندہ كرے گا ''_ البتہ اس كى يہ بات شك اورا نكار كے طورپر نہ تھى بلكہ از روئے تعجب تھى كيونكہ قرآن ميں موجود قرائن نشاندہى كرتے ہيں كہ وہ ايك نبى تھے،جيسا كہ خدا نے اس سے گفتگو كي،روايات بھى اس حقيقت كى تائيد كرتى ہيں جس كى طرف ہم بعد ميں اشارہ كريں گے_

خداوندعالم نے اسى وقت اس كى روح قبض كر لى اور پھر ايك سو سال بعد اسے زندہ كيا ،اب اس سے سوال كيا كہ اس بيابان ميں كتنى دير ٹھہرے رہے ہو ؟ وہ تو يہ خيال كرتا تھا كہ يہاںتھوڑى دير ہى توقف كيا ہے،فوراً جواب عرض كيا :ايك دن يا اس سے بھى كم _اسے خطاب ہوا:تم ايك سوسال يہاں رہے ہو _

ليكن اپنے كھانے پينے كى چيزوں كى طرف ديكھو، كيسے طويل مدت ميں حكم خدا كى وجہ سے ان ميں تغيرنہيں ايا _ يعنى وہ خدا جو تمہارى جلد خراب ہونے والى غذاكو صحيح و سالم ركھ سكتا ہے ا س كے لئے مردوںكو زندہ كرنا آسان ہے كيونكہ يہايك سرح سے زندگى كا ادامہ ہے، اور غذا كو صحيح و سالم ركھنا جس كى عمر كم ہوتى ہے مردوںكو زندہ كرنے سے آسان ہے_ يہاں پر سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ اس پيغمبر كے ساتھ كونسى غذا تھي_ قرآن نے نہيں بيان كيا،بعض مفسرين كا كہنا ہے كہ ان كى غذا''انجير''اور پھلوں كا رس تھا،جبكہ ہم جانتے ہيں

كہ يہ دونوں چيزيں بہت جلد خراب ہوجاتى ہےں،لہذا ان دونوں كا باقى رہنا ايك اہم موضوع ہے_

اس كے بعد دوبارہ حكم ہواكہ اب اس دليل كے لئے كہ تم جان لو كہ تمہيں سوسال موت كے عالم ميں گزرگئے ذرا اپنى سوارى كى طرف نگاہ كرو اور ديكھو كہ كھانے پينے كى چيزوں كے بر عكس وہ ريزہ ريزہ ہو كر بكھر چكى ہے اور طبيعت كے عام قوانين اسے اپنى لپيٹ ميں لے چكے ہيں ،اور موت نے اس كے جسم كو منتشر كر ديا ہے_

اب ديكھو كہ ہم اس كے پر اگندہ اجزاء كو كيسے جمع كركے اسے زندہ كرتے ہيں ،اس نے يہ منظر ديكھا توكہنے لگا :ميں جانتاہوں كہ خدا ہر چيز پر قدرت ركھنے والا ہے يعنى ميں مطمئن ہو چكا ہوں اور مردوں كے دوبارہ اٹھنے كا معاملہ متشكل ہو كے ميرے سامنے اگيا ہے _ اس بارے ميں كہ وہ پيغمبر كون تھے ،مختلف احتمالات ديئے گئے ہيں ،بعض نے ''ارميا(ع) '' كہا ہے اور بعض ''خضر''سمجھتے ہيں ليكن مشہور يہ ہے كہ وہ ''عزير(ع) ''تھے _

امام جعفر صاد ق عليہ السلام سے منقول ايك حديث ميں بھى حضرت عزير عليہ السلام كے نام كى تائيد ہوتى ہے _ يہ بھى سوال اٹھتا ہے كہ يہ ابادى كہاں تھى ،بعض اسے بيت المقدس سمجھتے ہيں جو'' بخت النصر'' كے حملوںكى وجہ سے ويران اور برباد ہو چكا تھا،ليكن يہ احتمال بعيد نظر ايا ہے _(1)

حضرت عزير(ع) نے دين يہود كى بہت خدمت كي

عربى زبان ميں ''عزير ''انہى كو كہاجاتا ہے جو يہوديوں كى لغت ميں ''عزرا''كہلاتے ہيں ،عرب چونكہ جب غير زبان كا كوئي نام اپناتے ہيں تو عام طورپر اس ميں تبديلى كر ديتے ہيں خصوصا ًاظہار محبت كے لئے اسے صيغہ تصغير ميں بدل ليتے ہيں_''عزرا''كو بھى ''عزير''ميں تبديل كيا گيا ہے جيسا كہ'' عيسى ''كے اصل نام كو جو در اصل ''يسوع ''تھا اور ''يح ''كو جو كہ ''يوحنا''تھا بدل ديا _


(1)يہ واقعہ سورہ بقرہ كى ايت 259 كى ذيل ميں بيان ہو اہے

بہرحال عزير يا عزرا يہوديوں كى تاريخ ميں ايك خاص حيثيت ركھتے ہيں يہاں تك كہ ان ميں سے بعض ملت و قوم كى بنياد اور اس جمعيت كى تاريخ كى درخشندگى كى نسبت ان كى طرف ديتے ہيں _درحقيقت حضرت عزير عليہ السلام نے اس دين كى بڑى خدمت كى ہے كيونكہ ''بخت النصر''بادشاہ ''بابل''نے يہود كو نيست و نابود كرديا تھا اور ان كے شہر اس كى فوج كے ہاتھ اگئے ،ان كا عبادت خانہ ويران ہوگيا اور ان كى كتاب توريت جلادى گئي ،ان كے مرد قتل كر ديئے گئے اور ان كى عورتيں اور بچے قيد كر كے بابل كى طرف منقتل كر ديئے گئے اور وہ تقريباً ايك سوسال وہيں رہے_

پھر جب ايران كے بادشاہ'' كو رش ''نے بابل فتح كيا تو عزرا جو اس وقت كے يہوديوں كے ايك سردار اور بزرگ تھے اس كے پاس ائے اور اسے ان كے بارے ميں سفارش كي،''كورش'' نے ان سے موافقت كى كہ يہودى اپنے شہروں كى طرف پلٹ جائيں اور نئے سرے سے توريت لكھى جائے، اسى لئے يہودى انھيں ايك نجات دہندہ اور اپنے دين كا زندہ كرنے والا سمجھتے ہيں ،اسى بناء پر ان كا حد سے زيادہ احترام كرتے ہيں_

اسى امر كے سبب يہوديوں كے ايك گروہ نے انھيں ''ابن اللہ ''(اللہ كا بيٹا)كا لقب ديا،اگر چہ بعض روايات سے مثلا احتجاج طبرسى كى روايت سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ يہ لقب حضرت عزير كے احترام كے طورپر استعمال كرتے تھے ليكن اسى روايت ميں ہے كہ جب پيغمبر اسلام (ص) نے ان سے پوچھا كہ اگر تم حضرت عزير كا ان عظيم خدمات كى وجہ سے احترام كرتے ہو اور اس بناء پر انھيں اس نام سے پكارتے ہو تو پھر يہ لقب حضرت موسى عليہ السلام كو كيوں نہيں ديتے جب كہ انھوں نے حضرت عزير كى نسبت تمہارى بہت زيادہ خدمت كى ہے تو وہ اس كا كوئي جواب نہ دے سكے اور نہ ہى اس كا كوئي جواب تھا _

بہر حال اس نام سے بعض لوگوں كے اذہان ميں حترام سے بالا تر صورت ہو گئي اور جيسا كہ عوام كى روش ہے كہ اس سے اپنى فطرت كے مطابق حقيقى مفہوم ليتے تھے اورا نھيں واقعا خداكا بيٹا خيال كرتے تھے كيونكہ ايك تو حضرت عزير نے انھيں در بدر كى زندگى سے نجات دى تھى اور دوسرا توريت لكھ كر ان كے دين كو

ايك نئي زندگى بخشى تھى ،البتہ ان كا يہ عقيدہ نہ تھاليكن قران سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ميں سے ايك گروہ خصوصيت سے جو پيغمبر اسلام (ص) كے زمانے ميں تھا كہ يہى نظر فكر تھى يہى وجہ ہے كہ كسى تاريخ ميں يہ نہيں ہے كہ انھوں نے ايت كو سن كر كہ ''يہود كہتے ہيں: عزير اللہ كا بيٹا ہے''(1)انكا كيا ہو يا انھوں نے كوئي اواز بلند كى ہو،اگر ايسا ہوتا تو يقينا وہ كوئي ردّعمل ظاہر كرتے_

* * * * *