بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ

بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص نا معلوم طور پر قتل ہو جاتا ہے _اس كے قاتل كا كسى طرح پتا نہيں چلتا_

تاريخ اور تفاسير سے جو كچھ ظاہر ہوتاہے وہ يہ ہے كہ قتل كا سبب مال تھا يا شادي_

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ بنى اسرائيل ميں ايك ثروت مند شخص تھا_ اس كے پاس بے پناہ دولت تھي_اس دولت كا وارث اس كے چچا زاد بھائي كے علاوہ كوئي نہ تھا_وہ دولت مند كافى عمر رسيدہ ہوچكا تھا_اس كے چچازاد بھائي نے بہت انتظار كيا كہ وہ دنيا سے چلا جائے تاكہ اس كا وارث بن سكے ليكن اس كا انتظار بے نتيجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم كردينے كا تہيہ كرليا _بالاخر اسے تنہائي ميں پاكر قتل كرديا اور اس كى لاش سڑك پر ركھ دى اور گريہ وزارى كرنے لگا اورحضرت موسى عليہ السلام كى بارگاہ ميں مقدمہ پيش كيا كہ بعض لوگوں نے ميرے چچا زاد بھائي كو قتل كرديا ہے_


<-- چاہے وہ انسان پيغمبر نہ بھى ہوں(ايسے افعال ميں اور معجزات ميں فرق ہوتا ہے)لہذا جب خارق العادت امور اور معجزات كے وقوع كو قبول كرليا جائے تو مسخ ہو جانا يا ايك انسان كا دوسرے انسان كى صورت اختيار كرلينا كوئي خلاف عقل بات نہيں ہے_

اس طرح كا خارق العادت واقعہ رونماہونا نہ تو قانون علل و اسباب ميں كوئي مستثنى ہے اور نہ ہى عقل و خرد كے برخلاف بلكہ اس ميں صرف ايك''عادي''و طبيعى كليہ كى شكست ہے جس كى نظير ہم نے بعض استثنائي انسانوں ميں بارہا ديكھى ہے_

بنابريں اس بات ميں كوئي مضائقہ نہيں كہ كلمہ''مسخ''كا جو ظاہرى مفہوم ہے اسى كو مانا جائے جو قرآن ميں آيا ہے نيزديگر مفسرين نے بھى زيادہ تر يہى معنى مراد لئے ہيں_

بعض ديگر مفسرين كہتے ہيں كہ قتل كا سبب يہ تھا كہ اپنے چچا زاد بھائي كو قتل كرنے والے نے اس سے اس كى بيٹى كارشتہ مانگاتھا ليكن اس نے يہ درخواست رد كردى اور لڑكى كو بنى اسرائيل كے ايك نيك اور پاكباز جوان سے بياہ ديا_شكست خوردہ چچازاد بھائي نے لڑكى كے باپ كو قتل كرنے كا ارادہ كرليا اور چھپ كر اسے قتل كرديا_

بنى اسرائيل كے قبائل كے درميان جھگڑا اور نزاع شروع ہوجاتا ہے _ ان ميں سے ہر ايك دوسرے قبيلے اور ديگر لوگوں كو اس كا ذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے كو برى الذمہ قرار ديتا ہے_

جھگڑا ختم كرنے كے لئے مقدمہ حضرت موسى عليہ السلام كى خدمت ميں پيش كيا جاتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشكل كشائي كى درخواست كرتے ہيں اور اس كا حل چاہتے ہيں_

چونكہ عام اور معروف طريقوں سے اس قضيہ كا فيصلہ ممكن نہ تھا اوردوسرى طرف اس كشمكش كے جارى رہنے سے ممكن تھا بنى اسرائيل ميں ايك عظيم فتنہ كھڑا ہوجاتا _

لہذا جيسا كہ آپ ان آنے والى ابحاث ميں پڑھيں گے حضرت موسى عليہ السلام پروردگار سے مدد لے كر اعجاز كے راستے اس مشكل كو كيونكر حل كرتے ہيں_

قرآن نے فرمايا:''ياد كرو اس وقت كو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا تھا(قاتل كو تلاش كرنے كے لئے)پہلى گائے(جو تمہيں مل جائے اس)كو ذبح كرو''_(1)

اور اس ذبح شدہ گائے كا ايك حصہ اس مقتول كے جسم پر لگائو جس كا قاتل معلوم نہيں ہے تا كہ وہ زندہ ہوجائے اور اپنے قاتل كو بتائے_

انہوں نے بطور تعجب كہا:''كيا تم ہم سے تمسخر كرتے ہو''_


(1)سورہ بقر آيت67

موسى عليہ السلام نے ان كے جواب ميں كہا:''ميں خدا سے پناہ مانگتاہوں كہ ميں جاہلوں ميں سے ہوجائوں''_(1)

يعنى استہزاء اور تمسخر كرنا نادان افراد اور جاہل افراد كا كام ہے_اور خدا كا رسول يقينا ايسا نہيں ہے_

بنى اسرائيل كے اعتراضات

اسكے بعد انہيں اطمينان ہوگيا كہ استہزاء مذاق نہيں بلكہ سنجيدہ گفتگو ہے تو _

''كہنے لگے:اب اگر ايسا ہى ہے تو اپنے پروردگار سے كہيئےہ ہمارے لئے مشخص و معين كرے كہ وہ گائے كس قسم كى ہو''؟(2)

بہر حال حضرت موسى عليہ السلام نے ان كے جواب ميںفرمايا:

''خدا فرماتا ہے ايسى گائے ہو جو نہ بہت بوڑھى ہو كہ بے كار ہوچكى ہو اور نہ ہى جوان بلكہ ان كے درميان ہو''_(3)

اس مقصدسے كہ وہ اس سے زيادہ اس مسئلے كو طول نہ ديں اور بہانہ تراشى سے حكم خدا ميں تاخير نہ كريں اپنے كلام كے آخر ميں مزيد كہا:''جو تمہيں حكم ديا گيا ہے_

(جتنى جلدى ہو سكے)اسے انجام دو''_(4)

ليكن انہوں نے پھر بھى زيادہ باتيں بنانے اور ڈھٹائي دكھانے سے ہاتھ نہيں اٹھايا اور كہنے لگے:

''اپنے پروردگار سے دعا كرو كہ وہ ہمارے لئے واضح كرے كہ اس كا رنگ كيسا ہو''_(5)

موسى عليہ السلام نے جواب ميں كہا:وہ گائے سارى كى سارى ز درنگ كى ہو جس كا رنگ ديكھنے والوں كو بھلا لگے_


(1)سورہ بقر آيت 67

(2)سورہ بقر آيت68

(3)سورہ بقر آيت 68

(4)سورہ بقر آيت 68

(5)سورہ بقر آيت 69

خلاصہ يہ كہ وہ گائے مكمل طور پر خوش رنگ اور چمكيلى ہو_ايسى ديدہ زيب كہ ديكھنے والوں كو تعجب ميں ڈال دے_

تعجب كى بات يہ ہے كہ انہوں نے اس پر بھى اكتفاء نہ كيا اور اسى طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئي سے كام لے كر اپنے آپ كو اور مشكل مى ڈالتے گئے_

پھر كہنے لگے اپنے پروردگار سے كہيئے كہ ہميں واضح كرے كہ يہ گائے(كام كرنے كے لحاظ سے)كيسى ہونى چاہيئےيونكہ يہ گائے ہمارے لئے مبہم ہوگئي ہے''_

حضرت موسى عليہ السلام نے پھر سے كہا:''خدا فرماتا ہے وہ ايسى گائے ہو جو اتنى سدھائي ہوئي نہ ہو كہ زمين جوتے اور كھيتى سينچے ،ہر عيب سے پاك ہو،حتى كہ اس ميں كسى قسم كا دوسرا رنگ نہ ہو''_

اب كہ بہانہ سازى كے لئے ان كے پاس كوئي سوال باقى نہ تھا جتنے سوالات وہ كرسكتے تھے_سب ختم ہوگئے تو كہنے لگے:اب تو نے حق بات كہى ہے''_''پھر جس طرح ہو سكا انہوں نے وہ گائے مہيا كى اور اسے ذبح كيا ليكن دراصل وہ يہ كا م كرنا نہيں چاہتے تھے''_

''پھر ہم نے كہا كہ اس گائے كا ايك حصہ مقتول پر مارو''_(تاكہ وہ زندہ ہو كر اپنے قاتل كا تعارف كرائے)(1)

بنى اسرائيل نے ان خصوصيات كى گائے تلاش كى اور اس كو ذبح كيااور اس كا خون مقتول كے جسم پر لگايا تو وہ زندہ ہوگيا اور اپنے قاتل (جو ا س كا چچا زاد بھائي تھا)كى شناخت كرادي_

باپ سے نيكى كا صلہ

اس قسم كى گائے اس علاقے ميں ايك ہى تھي،بنى اسرائيل نے اسے بہت مہنگے داموں خريدا، كہتے ہيں اس گائے كا مالك ايك انتہائي نيك آدمى تھا جو اپنے باپ كا بہت احترام كرتا تھا_


(1)سورہ بقر آيت 69تا73

ايك دن جب اس كا باپ سويا ہوا تھا اسے ايك نہايت نفع بخش معاملہ درپيش آيا،صندوق كى چابى اس كے باپ كے پاس تھى ليكن اس خيال سے كہ تكليف اور بے آرامى نہ ہو اس نے اسے بيدار نہ كيا لہذا اس معاملے سے صرف نظر كرليا_

بعض مفسرين كے نزديك بيچنے والا ايك جنس ستر ہزار ميں اس شرط پر بيچنے كو تيار تھا كہ قيمت فوراًادا كى جائے اور قيمت كى ادائيگى اس بات پر موقوف تھى كہ خريدنے كے لئے اپنے باپ كو بيدار كركے صندوقوں كو چابياں اس سے حاصل كرے،وہ ستر ہزار ميں خريدنے كو تيار تھا ليكن كہتا تھا كہ قيمت باپ كے بيدار ہونے پر ہى دوں گا،خلاصہ يہ كہ سودا نہ ہو سكا،خدا وند عالم نے اس نقصان اور كمى كو اس طرح پورا كيا كہ اس جوان كے لئے گائے كى فروخت كا يہ نفع بخش موقع فراہم كيا،بعض مفسرين يہ كہتے ہيں كہ باپ بيدار ہواتو اسے واقعہ سے آگاہى ہوئي،اس نيكى كى وجہ سے اس نے وہ گائے اپنے بيٹے كو بخش دى اس طرح اسے وہ بے پناہ نفع ميسر ہوا_

* * * * *