حضرت صالح عليہ السلام

قوم ثمود اور اس كے پيغمبر جناب صالح(ع) كى جو''وادى القرى '' ميں رہتے تھے جو''مدينہ '' اور'' شام'' كے درميان واقع ہے يہ قوم اس سرزمين ميںخوشحال زندگى بسر كررہى تھى ليكن اپنى سركشى كى بناء پرصفحہ ہستى سے يوں مٹ گئي كہ آج اس كا نام ونشان تك باقى نہيں رہا_

قرآن اس سلسلے ميں فرماتا ہے : ''قوم ثمودنے (خدا كے )رسولوں كو جھٹلايا ''_(1)

كيونكہ تمام انبياء كى دعوت حق ايك جيسى تھى اور اس قوم كا اپنے پيغمبر جناب صالح كى تكذيب كرنا در حقيقت تمام رسولوں كى تكذيب كے مترادف تھا_

''جبكہ ان كے ہمدرد پيغمبر صالح نے ان لوگوں سے كہاآيا تقوى اختيار نہيں كرتے ہو ؟''(2)

وہ جو كہ تمہارے بھائي كى طرح تمہاراہادى اورراہبر تھا اس كى نظر ميں نہ برترى جتانا تھا اور نہ ہى مادى مفادات ، اسى لئے قرآن نے جناب صالح(ع) عليہ السلام كو '' اخوہم '' سے تعبير كيا ہے جناب صالح نے بھى دوسرے انبياء كى مانند اپنى دعوت كا آغاز تقوى اور فرض كے احساس سے كيا _

پھر اپنا تعارف كرواتے ہوئے فرماتے ہيں :''ميں تمہارے لئے امين پيغمبر ہوں ''(3)

ميرا ماضى ميرے اس دعوى كى بين دليل ہے _


(1)سورہ شعراء آيت 141

(2)سورہ شعراء ايت 142

(3) سورہ شعراء ايت143

'' اسى لئے تم تقوى اختيار كرو ،خداسے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ''(1)

كيونكہ ميرے مد نظر رضائے الہي، تمہارى خيرو خوبى اور سعادت كے سوا اور كچھ نہيں _

بنابريں '' اس دعوت كے بدلے ميں تم سے كوئي اجرت نہيں مانگتا_''(2)

ميں تو كسى اور كے لئے كام كرتاہوں اور ميرا اجر بھى اسى كے پاس ہے '' ہاںتو ميرا اجر صرف عالمين كے پروردگار كے پاس ہے '' (3)

يہ جناب صالح عليہ السلام كى داستان كا ابتدائي حصہ تھا جو دو جملوں ميں بيان كيا گيا ہے ايك دعوت كا پيش كرنا اوردوسرے رسالت كو بيان كرنا _

پھر دوسرے حصے ميں افراد قوم كى زندگى كے قابل تنقيد اور حساس پہلوئوں كى نشاندہى كرتے ہوئے انھيںضمير كى عدالت كے كٹہرے ميں لاكھڑاكيا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے: ''آيا تم يہ سمجھتے ہو كہ ہميشہ امن وسكون اور نازونعمت كى زندگى بسركرتے رہوگے ''_(4)

كيا تم يہ سمجھتے ہو كہ تمہارى يہ مادى اور غفلت كى زندگى ہميشہ كے لئے ہے اور موت ، انتقام اور سزا كا ہاتھ تمہارے گريبانوں تك نہيں پہنچے گا ؟

''كياتم گمان كرتے ہو كہ يہ باغات اور چشمے ميں اور يہ كھيت اور كھجور كے درخت جن كے پھل شيريں وشاداب اور پكے ہوئے ہيں ، ہميشہ ہميشہ كے لئے باقى ر ہيںگے _''(5)

پھر ان پختہ اور خوشحال گھروں كو پيش نظر ركھتے ہوئے كہتے ہيں: ''تم پہاڑوں كو تراش كر گھر بناتے ہو اور اس ميں عياشى كرتے ہو _''(6)

جبكہ قوم ثمودشكم كى اسيراور نازو نعمت بھرى خوشحال زندگى سے بہرہ مند تھى _


(1)سورہ شعراء ايت145

(2)سورہ شعراء آيت145

(3) سورہ شعراء آيت5 4 1

(4)سورہ شعراء آيت 145

(5)سورہ شعراء آيت47اتا 148

(6)سورہ شعراء آيت 149

فاسداوراسراف كرنے والوں كى اطاعت نہ كرو

حضرت صالح عليہ السلام اس تنقيد كے بعد انھيں متبنہ كرتے ہو ئے كہتے ہيں : '' حكم خدا كى مخالفت سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ،اور مسرفين كا حكم نہ مانو، وہى جو زمين ميں فساد كرتے ہيں اور اصلاح نہيں كرتے_'' (1) ''يہ دھيان ميںرہے كہ خدانے قوم ''عاد'' كے بعد تمہيں ان كا جانشين اور خليفہ قرار ديا ہے اور زمين ميں تمہيں جگہ دى ہے '' (2)

يعنى ايك طرف تو تم كواللہ كى نعمتوں كا خيال رہناچاہيئے، دوسرے يہ بھى ياد رہے كہ تم سے پہلے جو قوم تھى وہ اپنى سركشى اور طغيانى كے باعث عذاب الہى سے تباہ وبرباد ہوچكى ہے_

پھر اس كے بعد انہيں عطا كى گئي كچھ نعمتوں كا ذكر كياگيا ہے ،ارشاد ہوتا ہے: '' تم ايك ايسى سرزمين ميں زندگى بسر كرتے ہو جس ميں ہموار ميدان بھى ہيں جن كے اوپر تم عاليشان قصر اور آرام دہ مكانات بناسكتے ہو ، نيز اس ميں پہاڑى علاقے بھى ہيں جن كے دامن ميں تم مضبوط مكانات تراش سكتے ہو (جو سخت موسم ، اورسرديوںكے زمانے ميں) تمہارے كام آسكتے ہيں ''_(3)

اس تعبير سے يہ پتہ چلتاہے كہ وہ لوگ (قوم عاد )سردى اور گرمى ميں اپنى سكونت كى جگہ بدل ديتے تھے فصل بہار اور گرميوں ميں وسيع اور پربركت ميدانوںميں زراعت كرتے تھے اور پرندے اور چوپائے پالنے ميں مشغول رہا كرتے تھے اس وجہ سے وہ وہاں خوبصورت اور آرام دہ مكانات بناتے تھے جو انہوں نے پہاڑوں پر تراش كربنائے تھے اور يہ مكانات انہيں سيلابوں اور طوفانوں سے محفوظ ركھتے تھے يہاں وہ اطمينان سے سردى كے دن گزار ديتے تھے_ آخر ميں فرمايا گيا ہے :

'' خداوندكريم كى ان سب نعمتوں كو ياد كرو اور زمين ميں فسادنہ كرو اور كفران نعمت نہ كرو''_ (4)


(1) سورہ شعراء آيات 150 تا 152

(2) سورہ اعراف آيت 74 (3)سورہ اعراف آيت 74

(4)سورہ اعراف آيت74

قوم صالح كى ہٹ دھرمي

آپ حضرات، گمراہ قوم كے سامنے حضرت صالح عليہ السلام كى منطقى اور خيرخواہى پر مبنى گفتگو ملاحظہ فرماچكے ہيں جناب صالح(ع) كے جواب ميں اس قوم كى گفتگو بھى سينے_

انھوں نے كہا:''اے صالح : تم سحرزدہ ہوكر اپنى عقل كھوچكے ہو، لہذا غير معقول باتيں كرتے ہو '' (1)

ان كا يہ عقيدہ تھا كہ بسا اوقات جادو گر لوگ جادو كے ذريعے انسان كى عقل و ہوش كو بيكار بناديتے ہيں صرف انھوں نے جناب صالح پر ہى يہ تہمت نہيں لگائي بلكہ اور لوگوں نے بھى دوسرے انبياء پر ايسى تہمتيں لگائي ہيں ،حتى كہ خود پيغمبر اسلام (ص) كى ذات تك كو متہم كيا_

جى ہاں ان كے نزديك عقل مند انسان وہ ہوتا ہے جو ماحول ميں ڈھل جائے ابن الوقت بن جائے اور خود تمام برائيوں پر منطبق ہو جائے اگر كوئي انقلابى مرد خدا فاسد عقائد اور غلط نظام كے بطلان كے لئے قيام كرتا تو وہ اپنى اس منطق كى رو سے اسے ديوانہ ،مجنون اور سحر زدہ كہتے_

اسى طرح قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے'' اس خود پسند طبقے نے اللہ كى وحدانيت كا انكار كيا كہ آخرت كى ملاقات كو جھٹلايا،حالانكہ ہم نے انہيں دنيا كى بہت سى نعمتوں سے مالا مال كرركھا تھا وہ كہنے لگے كہ يہ تمہارى ہى طرح كا انسان ہے جو تم كھاتے ہو يہ بھى كھاتاہے_ اور جو تم پيتے ہو يہ بھى پيتا ہے''_( 2)

بے شك وہ اشراف كا خوشحال طبقہ جو قرآن مجيد كى اصطلاح ميں صرف ظاہربين تھا اور كور باطن تھا وہ اس عظيم پيغمبر كے مشن كو اپنے مفاد كا مخالف ،ناجائز منافع خوارى ، استحصال اور بے جابالادستى سے متصادم ديكھ رہاتھا ،يہ طبقہ اپنى پر عيش زندگى كى وجہ سے اللہ سے كوسوں دور چلاگيا تھا اور آخرت كا منكرتھا _

انہوں نے اللہ كے نمائندوں كے انسان ہونے اور ديگرانسانوں كى طرح كھانے پينے كو ان كى رسالت كى نفى كى دليل قرارديا حالانكہ يہ بات ان مايہ ناز شخصيتوں كى نبوت ورسالت كى پرزور تائيد تھى كہ وہ


(1)سورہ شعراء آيت53

(2)سورہ مومنون آيت33

عام لوگوں ميں سے ہوں تاكہ انسان كى ضروريات اور مسائل سے اچھى طرح آگاہ ہوں ،مزيد برآں وہ ايك دوسرے سے كہتے تھے:''اگر تم اپنے ہى جيسے آدمى كے مطيع بنوگے تويہ بڑى نقصان دہ بات ہوگى ''_(1)

يہ كور باطن اتنا نہيں سمجھتے تھے كہ خود تويہ توقع كررہے ہيں كہ لوگ ان كے شيطانى عزائم كى تكميل اور پيغمبر سے مقابلے كے لئے ان كى پيروى كريں،مگر اس شخصيت كى اطاعت وپيروى كو جومركز وحى سے وابستہ ہے اور جس كا دل نور علم پروردگارعالمين سے منور ہے انسان كے لئے ذلت ،ننگ وعار اور حريت كے منافى بتارہے تھے _

كيا ہم دوبارہ زندہ كئے جائيں گے

اس كے بعد انھوں نے معاد اور قيامت كا انكار كيا ، جس كو ماننا ہميشہ سے خود سراور ہواو ہوس كے رہبر وں كے لئے مشكل رہا ہے اور كہا :

''كيا يہ شخص تم سے يہ وعدہ كرتا ہے كہ مرنے كے بعد مٹى اور بوسيدہ ہڈى ہوجانے كے بعد تم ايك بار پھر قبروں سے نكلوگے اور ايك نئي زندگى پائو گے _''(يہ بہت دور اور بہت دور كى بات ہے وہ و عدے جو تم سے كئے گئے ہيں وہ، بالكل بے بنياد اور كھوكھلے ہيں )(2)

مجموعى طورپر كيا يہ ممكن ہے كہ ايك آدمى جو مرگيا ہو ،مٹى كے ساتھ مٹى ہوگيا ہو ، اس كے اجزاء ادھر ادھر بكھرگئے ہوں ، وہ دوبارہ زندہ ہوسكتا ہے ؟ نہيں يہ محال ہے ،يہ محال بات ہے _

آخرميں اپنے نبى پر ايك مجموعى الزام لگاتے ہوئے انہوں نے كہا يہ ايك جھوٹا شخص ہے ، جس نے اللہ پر بہتان باندھا ہے اور ہم اس پر ہرگز ايمان نہيں لائيںگے ''(3)

نہ اس كى رسالت اللہ كى طرف سے ہے نہ قيامت سے متعلق اس كے وعدے سچے ہيں اور نہ ہى دوسرے احكام ايسے ہيں ،كوئي عقلمند آدمى اس پر كيسے ايمان لاسكتا ہے _


(1) سورہ مومنون آيت34

(2) سورہ مومنون 35 تا36

(3) سورہ مومنون آيت37

اے صالح(ع) ہم تم پراميد ركھتے تھے

انہوں نے حضرت صالح كو غير موثر بنانے كے لئے يا كم از كم ان كى باتوں كو بے تاثير كرنے كے لئے ايك نفسياتى حربہ استعمال كيا وہ آپ كو دھوكا دينا چاہتے تھے ، كہنے لگے :''اے صالح اس سے پہلے تو ہمارى اميدوں كا سرمايہ تھا _''(1)

مشكلات ميں ہم تيرى پناہ ليتے تھے، تجھ سے مشورہ كرتے تھے، تيرے عقل وشعور پر ايمان ركھتے تھے، اور تيرى خير خواہى اور ہمدردى ميں ہميں ہرگز كوئي شك نہ تھا _

ليكن افسوس كہ تم نے ہمارى اميدوں پر پانى پھيرديا ،دين بت پرستى كى اور ہمارے خدائوں كى مخالفت كركے كہ جو ہمارے بزرگوں كا رسم ورواج تھا اور ہمارى قوم كے افتخارات ميں سے تھا تونے ظاہر كرديا كہ تو بزرگوں كے احترام كا قائل نہيں ہے نہ ہمارى عقل پر تمہيں كوئي اعتماد ہے اور نہ ہى تو ہمارے طور طريقوں كا حامى ہے _''كيا سچ مچ تو ہميں ان كى پرستش سے روك ديناچاہتا ہے جن كى عبادت ہمارے آبائو اجداكيا كرتے تھے_''(2)

تم كتنے نحس قدم ہو

بہرحال اس سركش قوم نے اس عظيم پيغمبر كى ہمدردانہ نصيحتوں كو دل كے كانوں سے سننے اور ان پر عمل درآمد كرنے كى بجائے واہيات اور بے كار باتوں كے ذريعے ان كا مقابلہ كرنے كى ٹھان لي، منجملہ اور باتوں كے انھوں نے كہا:'' ہم تمھيں اور جو لوگ تمہارے ساتھ ہيں سب كو ايك برى فال سمجھتے ہيں''_(3)

معلوم ايسا ہوتا ہے كہ وہ سال خشك سالى اور قحط سالى كا تھا اسى لئے وہ صالح عليہ السلام سے كہنے لگے: ''كہ يہ سب كچھ تمہارے اور تمہارے ساتھيوں كے نامبارك قدموں كى بدولت ہوا ہے ''_تم منحوس لوگ


(1)سورہ ہودآيت62

(2) سورہ ہودآيت 62

(3) سورہ نمل آيت 47

ہو، ہمارے معاشرے ميں تم ہى بد بختى اور نحوست لائے ہو ،وہ برى فال كو اس بہانے سے جو درحقيقت بے كار اور شرير لوگوں كا بہانہ ہوتا ہے ،جناب صالح عليہ السلام كے بہترين دلائل كو كمزور كرنا چاہتے تھے _

ليكن جناب صال(ع) ح نے جواب ميں كہا : ''برى فال ( اور تمہارا نصيب )تو خدا كے پاس ہى ہے''_(1)

اسى نے تمہارے اعمال كى وجہ سے تمہيں ان مصائب ميں ڈال ديا ہے اور تمہارے اعمال ہى تمہارى اس سزا كا سبب بنے ہيں _

در حقيقت تمہارے لئے يہ خدا كى ايك عظيم آزمائشے ہے جى ہاں :'' تم ہى ايسے لوگ ہو جن كى آزمائشے كى جائے گى ''_ (2)

يہ خدا كى آزمائشے ہوتى ہے اور خبردار كرنے والى چيزيں ہوتى ہيں تاكہ جو لوگ سنبھل جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں وہ سنبھل جائيں ، خواب غفلت سے بيدار ہوجائيں ، غلط راستے كو چھوڑكر خدائي راستے كو اختيار كرليں _

ناقہ صالح(ع)

اس كے بعد آپ نے اپنى دعوت كى حقانيت كے لئے معجزے اور نشانى كى نشاندہى كى ،ايسى نشانى جو انسانى قدرت سے ماورا ہے اور صرف قدرت الہى كے سہارے پيش كى گئي ہے ان سے كہا :''اے ميرى قوم : يہ ناقہ الہى تمہارے لئے آيت اور نشانى ہے ''اسے چھوڑدو كہ يہ بيابانوں چراگاہوں ميں گھاس پھوس كھائے''، ''اوراسے ہر گز كوئي تكليف نہ پہنچانا اگر ايسا كروگے تو فورا تمہيں درناك عذاب الہى گھيرلے گا ''_(3)

لغت ميں '' ناقة'' اونٹنى كے معنى ميں ہے _ يہاں قرآن اور ميں يہاں اور قران كى بعض ديگر آيات ميں اس كى اضافت خدا كى طرف سے كى گئي ہے يہ امر نشاندہى كرتاہے كہ يہ اونٹنى كچھ خصوصيات ركھتى تھي


(1) سورہ نمل آيت 47

(2) سورہ نمل آيت47

(3)سورہ ہود ايت 64

اس طرف توجہ كرتے ہوئے كہ يہاں پر اس كا ذكر آيت الہى اور دليل حقانيت كے طور پر آيا ہے، واضح ہوجاتاہے كہ يہ اونٹنى ايك عام اونٹنى نہ تھى اور ايك حوالے سے يا كئي حوالوں سے معجزہ كے طور پر تھى ليكن قرآن ميں يہ مسئلہ تفصيل كے ساتھ نہيں آيا كہ اس ناقہ كى خصوصيات كيا تھيں اس قدر معلوم ہوتا ہے كہ يہ كوئي عام اونٹنى نہ تھى _ بس يہى ايك چيز قرآن ميں دو مواقع پر موجود ہے كہ حضرت صالح(ع) نے اس ناقہ كے بارے ميں اپنى قوم كو بتايا كہ اس علاقے ميں پانى كى تقسيم ہونا چاہئے ايك دن پانى ناقہ كا حصہ ہے اور ايك دن لوگوں كا''_(1)

ليكن يہ بات پورى طرح مشخص نہيں ہوسكى كہ پانى كى يہ تقسيم كس طرح خارق العادت تھى ايك احتمال يہ ہے كہ وہ اوٹنى بہت زيادہ پانى پيتى تھى اس طرح چشمہ كا تمام پانى اس كے لئے مخصوص ہوجاتا دوسرا احتمال يہ ہے كہ جس وقت وہ پانى پينے كے لئے آتى تو دوسر ے جانورپانى پينے كى جگہ پر آنے كى جرا ت نہ كرتے _

ايك سوال يہ ہے كہ يہ جانور تمام پانى سے كس طرح استفادہ كرتا تھا اس سلسلے ميں يہ احتمال ہے كہ اس بستى كا پانى كم مقدار ميں ہو جيسے بعض بستيوں ميں ايك ہى چھوٹا سا چشمہ ہوتا ہے اور بستى والے مجبور ہوتے ہيں كہ دن بھر كا پانى ايك گڑھے ميںا كٹھاكريں تاكہ كچھ مقدار جمع ہوجائے اور اسے استعمال كيا جاسكے _

ليكن دوسرى طرف قران كى بعض آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ'' قوم ثمود تھوڑے پانى والے علاقے ميں زندگى بسر نہيں كرتى تھى بلكہ وہ لوگ تو باغوں ، چشموں ،كھيتوں اور نخلستان كے مالك تھے''_ (2)

بہرحال جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ ناقہ صالح كے بارے ميں اس مسئلہ پر قرآن نے اجمالا ذكر كيا


(1) (ھذہ ناقة لھا شرب ولكم شرب يوم معلوم ) (سورہء شعراء آيت155)

نيز سورہ قمر كى آيت 28 ميں ہے:

( ونبئھم ان الماء قسمة بينھم كل شرب محتضر _)

سورہ شمس ميں بھى اس امر كى طرف اشارہ موجود ہے :

(فقال لھم رسول الله ناقة اللہ وسقياھا_) (سورہ شمس آيت 13)

(2) سورہ شعراء آيت 146 تا 148

ہے ليكن بعض روايات جو شيعہ اور سنى دونوں فريقوں كے يہاں نقل ہوئي ہيں ان ميںبيان ہوا ہے كہ اس ناقہ كے عجائب خلقت ميں سے يہ تھا كہ وہ پہاڑكے اندر سے با ہر نكلي اس كے بارے ميں كچھ اور خصوصيات بھى منقول ہيں _

بہر كيف حضرت صالح جيسے عظيم نبى نے اس ناقہ كے بارے ميں بہت سمجھايا بجھايا مگر انہوں نے آخركار ناقہ كو ختم كردينے كا مصمم ارادہ كرليا كيونكہ اس كى خارق عادت اور غير معمولى خصوصيات كى وجہ سے لوگوں ميں بيدارى پيدا ہورہى تھى اور وہ حضرت صالح كى طرف مائل ہورہے تھے لہذا قوم ثمود كے كچھ سركشوں نے جو حضرت صالح كى دعوت كے اثرات كو اپنے مفادات كے خلاف سمجھتے تھے اور وہ ہرگز لوگوں كى بيدارى نہيں چاہتے تھے كيونكہ خلق خدا كى بيدارى سے ان كے استعمارى مفادات كو نقصان پہنچتا،لہذا انھوں نے ناقہ كو ختم كرنے كى سازش تيار كى كچھ افراد كو اس كام پر مامور كيا گيا آخر كار ان ميں سے ايك نے ناقہ پر حملہ كيا اور اس پر ايك يا كئي وار كئے '' اور اسے مار ڈالا''_ (1)

اگر تم سچے ہو تو عذاب ميں جلدى كرو

انہوں نے صرف اسى پر اكتفانہ كى بلكہ اس كے بعد وہ حضرت '' صالح ''كے پاس آئے اور اعلانيہ ان سے كہنے لگے : ''اگر تم واقعاً خدا كے رسول ہوتو جتنى جلد ہوسكے عذاب الہى لے آئو ''_(2)

ليكن صالح عليہ السلام نے كہا : اے ميرى قوم : تم نيكيوں كى كوشش اور ان كى تلاش سے پہلے ہى عذاب اور برائيوں كے لئے جلدى كيوں كرتے ہو ؟ ''(3)

تم اپنى تمام ترفكر عذاب الہى كے نازل ہونے پر ہى كيوں مركوز كرتے ہو ؟ اگر تم پر عذاب نازل ہوگيا توپھر تمہارا خاتمہ ہوجائے گا اور ايمان لانے كا موقع بھى ہاتھ سے چلاجائے گا _ آئو اور خدا كى بركت اور اس كى رحمت كے ساتھ ايمان كے زيرسايہ ميرى سچائي كو آزمائو تم خدا كى بارگاہ سے اپنے گناہوں كى بخشش كا


(1) سورہ اعراف آيت 77

(2)سورہ اعراف آيت 77

(3)سورہ نمل آيت46

سوال كيوں نہيں كرتے ہو؟ تاكہ اس كى رحمت ميں شامل ہوجائو صرف برائيوں اور عذاب نازل ہونے كا تقاضاكيوں كرتے ہو؟يہ ہٹ دھرمى اور پاگل پن كى باتيں آخر كس لئے ؟ يہ بات واقعاً عجيب ہے كہ انسان دعوائے محبت كى صداقت كو تباہ كن عذاب كے ذريعہ جانچ رہا ہے نہ كہ رحمت كا سوال كركے اور حقيقت يہ ہے كہ وہ قلبى طور پر انبياء كرام عليہم السلام كى صداقت كے معترف تھے ليكن زبان سے اس كا انكار كيا كرتے تھے _

اس كى مثال يوں ہے كہ جيسے كوئي شخص علم طب كا مدعى ہو اور اسے معلوم ہو كہ فلاں دوا سے صحت اور شفا حاصل ہوتى ہے اور فلاں چيزسے انسان كى موت واقع ہوجاتى ہے ليكن وہ ايسى دوا حاصل كرنے كى كوشش كرے جو مہلك ہے نہ كہ جو مفيد اور شفاء بخش _ يہ تو واقعاً جہالت و نادانى كى حد ہے ،كيونكہ يہ سب جہالت ہى كا نتيجہ ہے_

حضرت صالح(ع) نے قوم كى سركشي، نافرمانى اور اس كے ہاتھوں قتل ناقہ كے بعد اسے خطرے سے آگاہ كيا اور كہا:

'' پورے تين دن تك اپنے گھروں ميں جس نعمت سے چاہواستفادہ كرو اور جان لوكہ ان تين دنوں كے بعد عذاب الہى آكے رہے گا '' _(1)

قوم ثمود كا انجام

قرآن كريم ميں اس سركش قوم (قوم ثمود ) پر تين دن كى مدت ختم ہونے پر نزول عذاب كى كيفيت بيان كى گئي ہے :''اس گروہ پر عذاب كے بارے ميں جب ہمارا حكم آپہنچا تو صالح اور اس پر ايمان لانے والوں كو ہم نے اپنى رحمت كے زير سايہ نجات بخشى ''_(2)

انہيں نہ صرف جسمانى ومادى عذاب سے نجات بخشى بلكہ ''رسوائي ،خوارى اور بے آبروئي سے بھى انہيں نجات عطا كى كہ جو اس روز اس سركش قوم كو دامنگير تھى '' _(3)


(1) سورہ ہود آيت 65

(2) سورہ ہود آيت 66

(3)سورہ ہود آيت 66

كيونكہ تمہارا پروردگار ہر چيز پر قادر اور ہر كام پر تسلط ركھتا ہے اس كے لئے كچھ محال نہيں ہے اور اس كے ارادے كے سامنے كوئي طاقت كچھ بھى حيثيت نہيں ركھتي،''لہذا اكثرجمعيت كے عذاب الہى ميں مبتلا ہونے سے صاحب ايمان گروہ كو كسى قسم كى كوئي مشكل اور زحمت پيش نہيں ہوگى يہ رحمت الہى ہے جس كا تقاضا ہے كہ بے گناہ، گنہگاروں كى آگ ميں نہ جليں اور بے ايمان افراد كى وجہ سے مومنين گرفتار بلانہ ہوں_

''ليكن ظالموں كو صيحہ آسمانى نے گھيرليا اس طرح سے كہ يہ چيخ نہايت سخت اور وحشت ناك تھى اس كے اثر سے وہ سب كے سب گھروں ہى ميں زمين پر گركر مرگئے ،وہ اس طرح مرے اور نابود ہوئے اور ان كے آثار مٹ گئے كہ گويا وہ اس سرزمين ميں كبھى رہتے ہى نہ تھے ''_(1)

جان لوكہ قوم ثمود نے اپنے پروردگار سے كفر كيا تھا اور انہوں نے احكام الہى كو پس پشت ڈال ديا تھا_ ''دور ہو قوم ثمود، اللہ كے لطف ورحمت سے اور ان پر لعنت ہو''_(2)

''صيحة'' سے كيا مرادہے ؟

''صيحة''لغت ميں ''بہت بلند آواز '' كو كہتے ہيں جو عام طور پر كسى انسان يا جانور كے منہ سے نكلتى ہے ليكن اس كا مفہوم اسى سے مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر قسم كى '' نہايت بلند آواز ''اس كے مفہوم ميں شامل ہے _

آيات قرآنى كے مطابق صيحہ آسمانى كے ذريعہ چند ايك گنہگارقوموں كوسزا دى گئي ہے ان ميں سے ايك يہى قوم ثمود تھي، دوسرى قوم لوط ،(3)اور تيسرى قوم شعيب _(4)

قرآن كى دوسرى آيات سے قوم ثمود كے بارے ميں معلوم ہوتا ہے كہ اسے صاعقہ كے ذريعہ سزا ہوئي ارشاد الہى ہے : ''اگر وہ منھ پھير ليں تو پھر كہہ دو كہ ميں ايسى بجلى سے ڈراتا ہوں جيسى عاد و ثمود پر گري''_(5)


(1) سورہ ہود ايت 67_68

(2)سورہ ہود آيت 86

(3)سورہ حجرآيت 73

(4)سورہ ہودآيت 94

(5)سورہ فصلت آيت13

يہ چيز نشاندہى كرتى ہے كہ ''صيحہ'' سے مراد '' صاعقہ '' كى وحشتناك آوازہے _(1)

آيات قرآنى كے مطابق اس دنيا كا اختتام بھى ايك عمومى صيحہ كے ذريعے ہوگا _

حضرت صالح(ع) كے ساتھ نجات پانے والے افراد

بعض مفسرين كہتے ہيں كہ حضرت صالح عليہ السلام كے دوستوں كى تعداد چار ہزار تھي_جوآپ كے ساتھ عذاب سے بچ گئے تھے اور حكم پرردگار كے مطابق فساد و گناہ سے لبريز اس علاقہ سے كوچ كركے ''حضر موت'' جاپہنچے تھے_

وادى القرى ميں نو(9)مفسدٹولوں كى سازش

يہاں پر حضرت صالح اور ان كى قوم كى داستان كا ايك اور حصہ بيان كيا گيا ہے جو درحقيقت گزشتہ حصے كا تتمہّ ہے اور اسى پر اس داستان كا اختتام ہوتا ہے _اس ميں حضرت صالح عليہ السلام كے قتل كے منصوبے كا ذكر ہے جو نوكا فراورمنافق لوگوں نے تيار كيا تھا اور خدا نے ان كے اس منصوبے كو ناكام بناديا_


(1)سوال پيدا ہوتا ہے كہ كيا صاعقہ كى وحشت ناك آواز كسى جمعيت كو نابود كرسكتى ہے ؟ اس كا جواب مسلما ًمثبت ہے_ كيونكہ ہم جانتے ہيںكہ آوازكى لہريں جب ايك معين حدسے گزرجائيں تو وہ شيشے كو توڑديتى ہيں يہاں تك كہ بعض عمارتوں كو تباہ كرديتى ہيںاورا نسانى بدن كے لئے اندر كے آرگا نزم كو بيكار كرديتى ہيں _

ہم نے سنا ہے كہ جب ہوائي جہازصوتى ديوارتوڑديتے ہيں (اور آواز كى لہروں سے تيز رفتار سے چلتے ہيں )توكچھ لوگ بے ہوش ہوكر گرجاتے ہيں يا عورتوں كے حمل ساقط ہوجاتے ہيں يا ان علاقوں ميں موجود عمارتوں كے تمام شيشے ٹوٹ جاتے ہيں _

فطرى اور طبيعى ہے كہ اگر آواز كى لہروں كى شدت اس سے بھى زيادہ ہوجائے تو آسانى سے ممكن ہے كہ اعصاب ميں،دماغ كى رگوں ميں اور دل كى دھڑكن ميں تباہ كن اختلال پيدا ہوجائے جو انسانوں كى موت كا سبب بن جائے _آيات قرآنى كے مطابق اس دنيا كا اختتام ميں تباہ كن اختلال پيدا ہوجائے جو انسانوں كى موت كا سبب بن جائے گا_

فرمايا گيا ہے :''اس شہر ( وادى القرى ) ميں نوٹولے تھے جو زمين ميں فساد برپا كرتے تھے اور اصلاح نہيں كرتے تھے _''(1)

ان نوميں سے ہرگروہ كا ايك ايك سربراہ بھى تھا اور شايدان ميں سے ہر ايك كسى نہ كسى قبيلے كى طرف منسوب بھى تھا _ ظاہر ہے كہ جب صالح عليہ السلام نے ظہور فرمايا اور اپنا مقدس اور اصلاحى آئين لوگوں كے سامنے پيش كيا تو ان ٹولوں پر عرصہ حيات تنگ ہونے لگا يہى وجہ ہے كہ قرآن كے مطابق انھوں نے كہا :'' آئو خدا كى قسم اٹھا كر عہد كريں كہ صالح(ع) اور ان كے خاندان پر شب خون ماركر انھيں قتل كرديں گے پھر ان كے خون كے وارث سے كہيں گے كہ ہميں اس كے خاندان كے قتل كى كوئي خبر نہيں اور اپنى اس بات ميں ہم بالكل سچے ہيں_'' (2)

پھر لائق غور بات يہ ہے كہ انھوں نے قسم بھى ''اللہ '' كى كھائي تھى جس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ بتوںكو پوجنے كے علاوہ زمين وآسمان كے خالق اللہ پر بھى عقيدہ ركھتے تھے اور اپنے اہم مسائل ميں اسى كے نام كى قسم كھاتے تھے يہ بھى واضح ہوتاہے كہ وہ اتنے مغرور اور بدمست ہوچكے تھے كہ اس قدر ہولناك جرم كے ارتكاب كے لئے بھى انھوں نے خدا ہى كا نام ليا گوياوہ كوئي اہم عبادت يا كوئي ايسا كام انجام دينے لگے ہوں جو اللہ كو بہت منظور ہے خدا سے بے خبر مغروراور گمراہ لوگوں كا وطيرہ ايساہى ہوا كرتا ہے _

وہ صالح(ع) عليہ السلام كے ہمنوائوں اور ان كے قوم وقبيلہ سے خوف كھاتے تھے لہذا انھوں نے ايسا منصوبہ بنايا كہ جس سے وہ اپنے مقصد ميں بھى كامياب ہوجائيں اور صالح(ع) كے طرفداروں كے غيظ وغضب كابھى شكار نہ ہوں_ گويا وہ ايك تير سے دو شكار كرنا چاہتے تھے بنابر اين انھوں نے رات كے وقت حملہ كى تركيب سوچى اور طے كرليا كہ جب بھى كوئي شخص ان سے پوچھ گچھ كرے گا تو سب متفق ہوكر قسم اٹھائيں گے كہ اس منصوبے ميں ان كا كوئي عمل دخل نہيں تھا يہاں تك كہ وہ اس وقت موجود بھى نہيں تھے _ (كيونكہ ان كي


(1) سورہ نمل آيت 48

(2)سورہ نمل آيت 49

صالح(ع) كے ساتھ مخالفت پہلے سے دنيا كو معلوم تھى )_

تاريخوں ميں ہے كہ ان كى سازش كچھ يوں تھى كہ شہر كے اطراف ميں ايك پہاڑ تھا اور پہاڑميں ايك غار تھى جس ميں جناب صالح عليہ السلام عبادت كيا كرتے تھے اور كبھى كبھار وہ رات كو بھى اسى غار ميں جاكر اپنے پروردگار كى عبادت كرتے تھے اور اس سے رازونياز كيا كرتے تھے _

انھوں نے طے كرليا كہ وہاں كمين لگا كر بيٹھ جائيں گے جب بھى صالح وہاں آئيں گے انھيں قتل كرديں گے _ان كى شہادت كے بعد ان كے اہل خانہ پر حملہ كركے انھيں بھى راتوں رات موت كے گھاٹ اتارديں گے پھر اپنے اپنے گھروں كو واپس چلے جائيں گے اگر ان سے اس بارے ميں كسى نے پوچھ بھى ليا تو اس سے لاعلمى كا اظہار كرديں گے _

يہ خالى گھران كے ہيں ؟

ليكن خداوندعالم نے ان كى اس سازش كو عجيب وغريب طريقے سے ناكام بناديا اور ان كے اس منصوبے كو نقش برآب كرديا _

جب وہ ايك كونے ميں گھات لگائے بيٹھے تھے تو پہاڑسے پتھر گرنے لگے اور ايك بہت بڑا ٹكڑاپہاڑكى چوٹى سے گرا اور آن كى آن ميں اس نے ان سب كا صفايا كرديا _

پھر قرآن پاك ان كى ہلاكت كى كيفيت اور ان كے انجام كو يوں بيان كرتاہے :''ديكھويہ ان لوگوں ہى كے گھر ہيں كہ جو اب ان كے ظلم وستم كى وجہ سے ويران پڑے ہيں ''_(1)

نہ وہاں سے كوئي آوازسنائي ديتى ہے _

نہ كسى قسم كا شور شرابہ سننے ميں آتا ہے _

اور نہ ہى وہ زرق برق گناہ بھرى محفليں دكھائي ديتى ہيں _


(1)سورہ نمل آيت 52

جى ہاں : وہاں پر ظلم وستم كى آگ بھڑكى جس نے سب كو جلاكر راكھ كرديا _

ظالموں كے اس انجام ميں خداوندعالم كى قدرت كى واضح نشانى اور درس عبرت ہے ان لوگوں كے لئے جو علم وآگہى ركھتے ہيں ''_(1)

ليكن اس بھٹى ميں سب خشك وترنہيں جلے بلكہ بے گناہ افراد، گناہگاروں كى آگ ميں جلنے سے بچ گئے ہم نے ان لوگوں كو بچاليا جو ايمان لاچكے تھے اور تقوى اختيار كرچكے تھے_

بنابريں حضرت صالح كے قتل كى سازش كے بعد ہى عذاب نازل نہيں ہوا بلكہ قوى احتمال يہ ہے كہ خدا كے اس پيغمبر كے قتل كى سازش كے واقعے ميں فقط سازشى ٹولے ہلاك ہوئے اور دوسرے ظالموں كو سنبھل جانے كے لئے مہلت دى گئي ، ليكن ناقہ كے قتل كے بعد تمام ظالم اور بے ايمان گناہگار فناہوگئے جيسا كہ سورہ ہود اور سورہ اعراف كى آيات كے ملانے سے يہى نكلتاہے _

* * * * *


(1) سورہ نمل آيت 52