حضرت ہود عليہ السلام

قرآن مجيد ميں ذكر شدہ انبياء كے ناموںو ميں حضرت ہود بھى ہيں، جو قوم عاد كى طرف مبعوث ہوئے ،بعض مورخين كا نظريہ ہے كہ عاد كا اطلاق دو قبيلوں پر ہوتا ہے ايك وہ جو بہت پہلے تھا اور قرآن نے اسے عاد الاولى سے تعبير كيا،()وہ غالباً تاريخ سے پہلے موجود تھا، دوسرا قبيلہ جو تاريخ بشر كے دَور ميں اور تقريباً ولادت مسيح سے سات سو سال پہلے تھا اور وہ عاد كے نام سے مشہور تھا_ يہ احقاف يايمن ميں رہائشے پزير تھا_

اس قبيلہ كے افراد بلند قامت اور قوى الجثہ تھے اور اسى بنا پر بہت نماياں جنگجو شمار ہوتے تھے_

اس كے علاوہ و ہ متمدن بھى تھے_ان كے شہر آباد اور زمينيں سر سبز و شاداب تھيں_ان كے باغات پر بہار تھے اور انہوں نے بڑے بڑے محل تعمير كيے تھے_

بعض مو رخين كا خيال ہے كہ عاد اس قبيلے كے جد اعلى كا نام تھا اور وہ قبيلے كو اپنے جدّ(دادا) كے نام سے موسوم كر كے پكارتے تھے_

شہر ارم اور شداد كى بہشت

بعض مفسرين نے جزيرة العرب كے بيابانوں اور عدن كے صحرائوں ميں شہر ارم كے بر آمد ہونے كى ايك دلچسپ داستان بيان كى ہے جس ميں وہ اس شہر كى بلند و بالا عمارات اور سامان زينت وغيرہ كى بات كرتے ہيں_ليكن مذكورہ داستان واقعيت كى نسبت خواب يا افسانے سے زيادہ تعلق ركھتى ہے_

ليكن اس ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھي،ان كے شہر ترقى يافتہ تھے اور جيسا كہ قرآن اشارہ كرتاہے،ان جيسے شہرپھر آباد نہيں ہوسكے_

بہت سى داستانيں شداد كى جو عاد كا بيٹا تھا،زبان زد عام ہيں اور تاريخ ميں مرقوم ہيں_ يہاں تك كہ شداد كى بہشت اور اس كے باغات ضرب المثل كى شكل اختيار كر گئے ہيں_ليكن ان داستانوں كى حقيقت كچھ نہيں ہے،يہ محض افسانے ہيں_يہ ايسے افسانے ہيں كہ ان كى حقيقت پر بعد ميں حاشيہ آرائي كر لى گئي_

حضرت ہود(ع) برادر قوم عاد

قرآن نبى اللہ كے سلسلہ ميںفرماتاہے :''ہم نے قوم عاد كى طرف ان كے بھائي ہود كو بھيجا''_ (1)

يہاں حضرت ہود كو بھائي كہا گيا تھا يہ تعبير ياتو اس بناء پر ہے كہ عرب اپنے تمام اہل قبيلہ كو بھائي كہتے ہيںكيونكہ نسب كى اصل ميں سب شريك ہوتے ہيں مثلا بنى اسد كے شخص كو ''اخواسدى '' كہتے ہيں اور مذحج قبيلہ كے شخص كو ''اخومذ حج ''كہتے ہيں ،يا ہوسكتا ہے كہ يہ اس طرف اشارہ ہوكہ حضرت ہود كا سلوك اپنى قوم سے ديگر انبياء كى طرح بالكل برادرا نہ تھا نہ كہ ايك حاكم كا سابلكہ ايسا بھى نہيں جو باپ اپنى اولاد سے كرتا ہے بلكہ آپ كا سلوك ايسا تھا جو ايك بھائي دوسرے بھائيوں سے كرتا ہے كہ جس ميں كوئي امتياز اوربر ترى كا اظہار نہ ہو_

حضرت ہود كى بہترين دليل

حضرت ہود نے بھى اپنى دعوت كا آغاز ديگر انبياء كى طرح كيا آپ كى پہلى دعوت توحيد اور ہر قسم كے شرك كى نفى كى دعوت تھي،''ہود نے ان سے كہا :''اے ميرى قوم خدا كى عبادت كرو ،كيونكہ اس كے علاوہ كوئي اللہ اور معبود لائق پرستش نہيں ،بتوں كے بارے ميں تمہارا اعتقاد غلطى اور اشتباہ پرمبنى ہے اور اس ميں تم خدا پر افتراء باندھتے ہو''_(2)


(1) سورہ ہود آيت50

(2) سورہ ہود آيت 50

يہ بت خدا كے شريك نہيں ہيں، نہ خير وشر كے منشاء ومبدا ء ،ان سے كوئي كام بھى نہيں ہوسكتا اس سے بڑھ كر كيا افتراء اور تہمت ہوگى كہ اس قدر بے وقعت موجودا ت كے لئے تم اتنے بڑے مقام ومنزلت كا اعتقاد ركھتے ہو؟_

اس كے بعد حضرت ہود نے مزيد كہا :''اے ميرى قوم ميں اپنى دعوت كے سلسلے ميں تم سے كوئي توقع نہيں ركھتا تم سے كسى قسم كى اجرت نہيں چاہتا''_(1)

كہ تم يہ گمان كروكہ ميرى يہ داد وفرياد اور جوش وخروش مال ومقام كے حصول كے ليئے ہے يا تم خيال كرو كہ تمہيں مجھے كو ئي بھارى معاوضہ دينا پڑے گا جس كى وجہ سے تم تسليم كرنے كو تيار نہيں ہو، ميرى اجرت صرف اس ذات پر ہے جس نے مجھے پيدا كيا ہے ،جس نے مجھے روح وجسم بخشے ہيں اور تمام چيزيں جس نے مجھے عطا كى ہيں وہى جو ميرا خالق ورازق ہے ميں اگر تمہارى ہدايت وسعادت كے لئے كوئي قدم اٹھاتا ہوں تو وہ اصولاً اس كے حكم اطاعت ميں ہوتا ہے لہذا اجرو جزا بھى ميں اسى سے چاہتاہوںنہ كہ تم سے، علاوہ ازيں كيا تمہارے پاس اپنى طرف سے كچھ ہے جو تم مجھے دو، جو كچھ تمہارے پاس ہے اسى خدا كى طرف سے ہے، كيا تم سمجھتے نہيں ہو ؟''_(2)

آخر ميں انہيں شوق دلانے كے لئے اور اس گمراہ قوم ميں حق و حق طلبى كا جذبہ بيدار كرنے كے لئے تمام ممكن وسائل سے استفادہ كرتے ہوئے مشروط طور پر مادى جزائوں كا ذكر كيا گيا ہے كہ جو اس جہان ميں خدا مومنين كو عطافرماتا ہے ارشاد ہوتا ہے :

''اے ميرى قوم اپنے گناہوں پر خدا سے بخشش طلب كرو ،پھر توبہ كرو اور اس كى طرف لوٹ آئو اگر تم ايسا كرلو تو وہ اسمان كو حكم دے گا كہ وہ بارش كے حيات بخش قطرے پيہم تمہارى طرف بھيجے_''(3)

تاكہ تمہارے كھيت اور باغات كم آبى يا بے آبى كا شكار نہ ہوں اور ہميشہ سرسبز وشاداب رہيں علاوہ


(1) سورہ ہود آيت 51

(2) سورہ ہود آيت 51

(3)سورہ ہود آيت52

ازيں تمہارے ايمان و تقوى ، گناہ سے پرہيز اور خدا كى طرف رجوع اور توبہ كى وجہ سے'' تمہارى قوت ميں مزيد قوت كا اضافہ كرے گا_''(1)

يہ كبھى گمان نہ كرو كہ ايمان و تقوى سے تمہارى قوتميں كمى واقع ہوگى ايسا ہر گز نہيں بلكہ تمہارى جسمانى وروحانى قوت ميں اضافہ ہوگا _

اس كمك سے تمہارا معاشرہ آباد تر ہوگا ،جمعيت كثير ہوگى ،اقتصادى حالات بہتر ہونگے اور تم طاقتور، آزاداور خود مختار ملت بن جائو گے لہذا راہ حق سے روگردانى نہ كرو اور شاہراہ گناہ پر قدم نہ ركھو _

اے ہود تم ہمارے خدائوںكے غضب سے ديوانہ ہوگئے ہو

اب ديكھتے ہيں كہ اس سركش اور مغرور قوم يعنى قوم عادنے اپنے بھائي ہود ،ان كے پندو نصائح اور ہدايت ورہنمائي كے مقابلے ميں كيا ردّعمل ظاہر كيا _

انہوں نے كہا : ''اے ہود :تو ہمارے لئے كوئي واضح دليل نہيں لايا ، ہم ہرگز تيرى باتوں پر ايمان نہيں لائيں گے ''_(2)

ان تين غير منطقى جملوں كے بعد انہوں نے مزيد كہا :''ہمارا خيال ہے كہ تو ديوانہ ہوگيا ہے اور اس كا سبب يہ ہے كہ تو ہمارے خدائوں كے غضب كا شكار ہوا ہے اور انہوں نے تيرى عقل كو آسيب پہنچا ياہے ''(3)

اس ميں شك نہيں كہ (جيسے تمام انبياء كا طريقہ كارہوتا ہے اور ان كى ذمہ دارى ہے) حضرت ہود عليہ السلام نے انہيں اپنى حقانيت ثابت كرنے كے لئے كئي ايك معجزے دكھائے ہوں گے ليكن انہوں نے اپنے كبروغرور كى وجہ سے ديگر ہٹ دھرم قوموں كى طرح معجزات كا انكار كيا اور انہيں جادو قرار ديا اور انہيں اتفاقى حوادث گردانا كہ جنہيں كسى معاملے ميں دليل قرار نہيں ديا جاسكتا _

انہوں نے حضرت ہود پر ''جنون ''كى تہمت لگائي اور ''جنون ''بھى وہ جو ان كے زعم ناقص ميں ان


(1)سورہ ہود آيت 52

(2)سورہ ہود آيت 53

(3)سورہ ہود آيت54

كے خدائوں كے غضب كا نتيجہ تھا ،ان كے بےہودہ پن اور خرافات پرستى كى خود ايك بہترين دليل ہے_

بے جان اور بے شعورپتھر اور لكڑياں جو خود اپنے ''بندوں '' كى مدد كى محتاج ہيں وہ ايك عقلمند انسان سے كس طرح اس كا عقل وشعور چھين سكتى ہيں علاوہ ازيں ان كے پاس ہود كے ديوانہ ہونے كو نسى دليل تھى ،اگر يہ ديوانگى كى دليل ہے توپھر تمام مصلحين جہان اور انقلابى لوگ جو غلط روش اور طريقوں كے خلاف قيام كرتے ہيں سب ديوانے ہونے چاہئيں _

كيوں بت مجھے نابود نہيں كرتے

بہرحال حضرت ہود كى ذمہ دارى تھى كہ اس گمراہ اور ہٹ دھرم قوم كو دندان شكن جواب ديتے، ايسا جواب جو منطق كى بنياد پر بھى ہوتا اور طاقت سے بھى ادا ہوتا، قرآن كہتا ہے كہ انہوں نے ان كے جواب ميں چند جملے كہےں:''ميں خدا كو گواہى كے لئے بلاتا ہوں ،اور تم سب بھى گواہ رہو كہ ميں ان بتوں اور تمہارے خدائوں سے بيزار ہوں ''_(1)

يہ اس طرف اشارہ تھا كہ اگر يہ بت طاقت ركھتے ہيں تو ان سے كہو كہ مجھے ختم كرديں ،ميں جو على الاعلان ان كے خلاف جنگ كے لئے اٹھ كھڑہوا ہوں اور اعلانيہ ان سے بيزارى اورنفرت كا اعلان كررہا ہوں وہ كيوں خاموش اور معطل ہيں ،كس چيز كے منتظر ہيں اور كيوں مجھے نابود اور ختم نہيں كرديتے _

اس كے بعد مزيد فرمايا كہ نہ فقط يہ كہ ان سے كچھ نہيں ہو سكتا بلكہ تم بھى اتنى كثرت كے باوجود كسى چيز پر قدرت نہيں ركھتے ''اگر سچ كہتے ہو تو تم سب مل كر ميرے خلاف جوسازش كرسكتے ہو كرگز رو اور مجھے لمحہ بھر كى بھى مہلت نہ دو'' _(2)

ميں تمہارى اتنى كثير تعداد كو كيوں كچھ نہيں سمجھتا اور كيوں تمہارى طاقت كى كوئي پرواہ نہيں كرتا ،تم جو كہ ميرے خون كے پياسے ہو اور ہر قسم كى طاقت ركھتے ہو، اس لئے كہ ميرا ركھ و الا اللہ ہے، وہ جس كى قدرت


(1) سورہ ہود آيت54

(2)سورہ ہود آيت50

سب طاقتوں سے بالاتر ہے ''ميں نے خدا پر توكل كيا ہے جو ميرا اور تمہارا پروردگار ہے''_(1)

يہ خود اس بات كى دليل ہے كہ ميں جھوٹ نہيں بول رہا ہوں،يہ اس امر كى نشانى ہے كہ ميں نے دل كسى اور جگہ نہيں باندھ ركھا اگر صحيح طور پر سوچو تو يہ خود ايك قسم كا معجزہ ہے كہ ايك انسان تن تنہابہت سے لوگوں كے بے ہو دہ عقائد كے خلاف اٹھ كھڑا ہو_

جبكہ وہ طاقت ور اور متعصب بھى ہوںيہاں تك كہ انہيں اپنے خلاف قيام كى تحريك كرے اس كے باوجود اس ميں خوف وخطر كے كوئي آثار نظر نہ آئيں اور پھر نہ اس كے دشمن اس كے خلاف كچھ كرسكتے ہوں_

آخر كار حضرت ہودعليہ السلام ان سے كہتے ہيں :

''اگر تم راہ حق سے روگرانى كروگے تو اس ميں ميرا كوئي نقصان نہيں ہوگا كيونكہ ميں نے اپنا پيغام تم تك پہنچا ديا ہے ''_(2)

يہ اس طرف اشارہ ہے كہ يہ گمان نہ كرو كہ اگر ميرى دعوت قبول نہ كى جائے تو ميرے لئے كوئي شكست ہے ميں نے اپنا فريضہ انجام دے ديا ہے اور فريضہ كى انجام دہى كاميابى ہے اگر چہ ميرى دعوت قبول نہ كى جائے _

دراصل يہ سچے رہبروں اور راہ حق كے پيشوائوں كے لئے ايك درس ہے كہ انہيں اپنے كام پر كبھى بھى خستگى وپريشانى كا احساس نہيں ہونا چاہئے چاہے لوگ ان كى دعوت كو قبول نہ بھى كريں _

جيسا كہ بت پرستوں نے آپ كودھمكى دى تھى ،اس كے بعد آپ انہيں شديد طريقے پر عذاب الہى كى دھمكى ديتے ہوئے كہتے ہيں :

''اگر تم نے دعوت حق قبول نہ كى تو خدا عنقريب تمہيں نابود كردے گا اور كسى دوسرے گروہ كو تمہارا جانشين بنا دے گا اور تم اسے كسى قسم كا نقصان نہيں پہنچا سكتے_'' (3)


(1)سورہ ہود آيت56

(2)سورہ ہود ايت 57

(3)سورہ ہود آيت57

''اور يہ بھى جان لو كہ ميرا پروردگار ہر چيز كا محافظ ہے اور ہر حساب وكتاب كى نگہدارى كرتا ہے''_(1)

نہ موقع اس كے ہاتھ سے جاتا ہے اورنہ وہ موقع كى مناسبت كو فراموش كرتا ہے نہ وہ اپنے انبياء اور دوستوں كو طاق نسياں كرتا ہے اور نہ كسى شخص كا حساب وكتاب اس كے علم سے پوشيدہ ہوتا ہے بلكہ وہ ہر چيز كو جانتا ہے اور ہر چيز پر مسلط ہے_

اس ظالم قوم پر ابدى لعنت

قوم عاد اور ان كے پيغمبر حضرت ہود كى سرگذشت سے مربوط آيات كے آخرى حصے ميں ان سركشوں كى درد ناك سزا اور عذاب كى طرف اشارہ كرتے ہوئے قرآن پہلے كہتا ہے :

'' جب ان كے عذاب كے بارے ميں ہمارا حكم آپہنچا تو ہود اور جو لوگ اس كے ساتھ ايمان لاچكے تھے ہمارى ان پر رحمت اور لطف خاص نے انہيں نجات بخشي''_ (2)

پھر مزيد تاكيد كے لئے فرمايا:''ہم نے اس صاحب ايمان قوم كو شديد عذاب سے رہائي بخشي''_(3)

يہ امر جاذب نظر ہے كہ بے ايمان ،سركش اور ظالم افراد كے لئے عذاب وسزا معين كرنے سے پہلے صاحب ايمان قوم كى نجات كا ذكر كيا گيا ہے تاكہ يہ خيال پيدا نہ ہو جيسا كہ مشہور ضرب المثل ہے كہ عذاب الہى كے موقع پر خشك وترسب جل جاتے ہيں كيونكہ وہ حكيم اور عادل ہے اور محال ہے كہ وہ ايك بھى صاحب ايمان شخص كو بے ايمان اور گنہگار لوگوں كے درميان عذاب كرے، بلكہ رحمت الہى ايسے افراد كو عذاب وسزاكے نفاذ سے پہلے ہى امن وامان كى جگہ پر منتقل كرديتى ہے جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ اس سے پہلے كہ طوفان آئے،


(1) سورہ ہود ايت 57

( 2،3)سورہ ہود آيت 58

حضرت نوح كى كشتى نجات تيار تھي، اور اس سے پہلے كہ حضرت لوط كے شہر تباہ وبرباد ہوں حضرت لوط اور آپ كے انصار راتوں رات حكم الہى سے وہاں سے نكل آئے_

يہ مناسبت بھى قابل ملا حظہ ہے كہ قوم عاد كے لوگ سخت اور بلند قامت تھے ان كے قدكو كھجور كے درختوں سے تشبيہ دى گئي ہے اسى مناسبت سے ان كى عمارتيں مضبوط ،بڑى اور اونچى تھيں يہاں تك كہ قبل اسلام كى تاريخ ميں ہے كہ عرب بلند اور مضبوط عمارتوں كى نسبت قوم عاد ہى كى طرف ديتے ہوئے انہيں''عدي'' كہتے تھے، اسى لئے ان پر آنے والا عذاب بھى انہى كى طرح غليظ اور سخت تھا ،نہ صرف اخرت كا عذاب،بلكہ اس دنيا ميں سخت سے سخت عذاب ديا گيا _

عذاب الہى ايك نحس دن ميں

قرآن مجيد قوم عا د پر عذاب الہى كے بارے ميں فرماتا ہے :

''ہم نے ان پروحشت ناك ،سرداور تيز آندھى ، ايك ايسے منحوس دن ميں جو بہت طويل تھا،ان كى طرف بھيجى ''_

اس كے بعد اس تيز آندھى كى كيفيت كے بارے ميں پروردگار عالم فرماتا ہے كہ ''لوگوں كو گھن كھائے ہوئے كھجوركے تنوں كى طرح اكھاڑديا اور وہ ان كو ہرطرف پھينكتى تھي_ (1)

قوم عاد كے لوگ قوى الجثہ تھے، انہوں نے تيز آندھى سے بچنے كے لئے زمين ميں گڑھے كھود ركھے تھے اور زير زمين پناہ گا ہيں بنا ركھى تھيں ليكن اس روز آنے والى آندھى اتنى زور دار اور طاقتور تھى كہ ان كو ان كى پناہ گا ہوں سے باہر نكالتى تھى اور ادھر اُدھر پھينكتى تھى وہ ان كو اس زور سے زمين پر پٹختى تھى كہ ان كے سرتن سے جدا ہوجا تے تھے _اندھى اس قدر تيز تھى كہ پہلے ان كے ہاتھ پيروں اور سروں كو جدا كرتى تھى ،اس كے بعد ان كے اجسام كو بے شاخ و برگ كھجور كى طرح زمين سے اكھاڑتى تھى اور ادھر ادھر لئے پھرتى تھي_


(1)سورہ قمر آيت20

قرآن كريم اس قوم كے عذاب كے بارے ميں دوسرى جگہ كہتا ہے:

''قوم عاد كى سرگذشت ميں بھى ايك آيت وعبرت ہے ،جبكہ ہم نے ان پر ايك عقيم اور بغير بارش كا طوفان بھيجا ''_(1)

ہوائوں كا عقيم اور بانجھ ہونااسوقت ہوتا ہے ،جب كہ وہ بارش برسانے والے بادل اپنے ساتھ لے كر نہ چليں ، گياہ ونباتات ميں اپنے عمدہ اثرات نہ چھوڑيں ،ان ميں كوئي فائدہ اور بركت نہ ہو ،ااور ہلاكت ونابودى كے سوا كوئي چيز ہمراہ نہ لائيں _

اس كے بعد اس سخت آندھى كى خصوصيت جو قوم عادپر مسلط ہوئي تھي، بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے: '' وہ جس چيز كے پاس سے گزرتى تھى اس كو نابود كئے بغير نہ چھوڑتى تھى ،اور خشك كٹى پھٹى گھاس يا بوسيدہ ہڈيوں كى صورت ميں بدل ديتى تھى ''_(2)

يہ تعبير اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ قوم عاد كى تيز آندھى ايك عام تيز آندھى نہيں تھى ،بلكہ انہيں تباہ كرنے اور كوٹنے چھٹنے يا پھر پيٹنے كے علاوہ اور اصطلاح كے مطابق فزيكل دبائو سے ،جلانے اور زہريلابنا نے كى خاصيت ركھتى تھى ،جو طرح طرح كى اشيائوںكو بوسيدہ اور كہنہ بناديتى تھى ،جى ہاں ، اس طرح خدا كى قدرت ''نسيم سحر''كو ايك تيز اندھى ميں بدل كر بڑى بڑى طاقتور قوموں كو اس طرح درہم و برہم كر ديتى ہے كہ صرف ان كے بوسيدہ جسم باقى رہ جاتے ہيں _

كيا ان ميں سے كسى كو ديكھتے ہو

قران اس كے بعد اس تيز اور سر كوب كرنے والى آندھى كى ايك دوسرى توصيف كو بيان كرتے ہوئے مزيد كہتا ہے :''خدا نے اس كو اس قوم پر مسلسل سات راتيں اور آٹھ دن ان كى بنياديں اكھاڑنے كے لئے مسلط كئے ركھا ''(3)


(1)سورہ ذاريات ايت 41

(2)سورہ ذاريات ايت 32

(3)سورہ حاقہ آيت 7

سات راتوں اور آٹھ دنوں ميںاس عظيم قوم كى وسيع اور بارونق زندگى كوبالكل تباہ وبرباد كيا اور ان كو جڑسے اكھاڑ كر پر اگندہ كرديا _

نتيجہ يہ ہو ا كہ جيسا كہ قرآن كہتا ہے ''اگر تو وہاں ہوتا تو مشاہدہ كرتا كہ وہ سارى قوم منہ كے بل گرى پڑى ہے اور سوكھے اور كھوكھلے درختوں كى طرح ڈھير ہوگئے ہيں ''_(1)

كتنى عمدہ تشبيہہ ہے،جو ان كے طويل قدوقامت كو بھى مشخص كرتى ہے ،ان كے جڑسے اكھڑجانے كو بھى ظاہر كرتى ہے اور خدا كے عذاب كے مقابلہ ميں ان كے اندر سے خالى ہونے كو بھى بيان كرتى ہے اس طرح كہ وہ تيز آندھى جدھر چاہتى ہے انھيں آسانى كے ساتھ لے جاتى ہے _

قرآن اس واقعہ كے آخر ميں مزيد كہتا ہے '' كيا تم ان سے كسى كو باقى ديكھتے ہو''؟_(2)

ہاں :آج نہ صرف قوم عاد كا كوئي نام ونشان باقى نہيں بلكہ ان كے آباد شہروں اور پر شكوہ عمارتوں كے كھنڈرات اور ان كے سبز كھيتوں ميں سے كوئي چيز باقى نہيں ہے _

* * * * *


(1)سورہ حاقہ آيت 7

(2)سورہ حاقہ آيت 8