index | back |
يہاںگذشتہ ميں جو كچھ بيا ن ہوا ہے،وہ اتنى عظيم نعمتيں تھيں جو خدا نے فتح مبين و (صلح حديبيہ) كے سائے ميں پيغمبر اكرم (ص) كو عطا فرمائي تھيں ليكن يہاں پراس عظيم نعمت كے بارے ميں بحث كى جارہى ہے جو اس نے تمام مئومنين كو مرحمت فرمائي ہے ، فرماتاہے : وہى تو ہے ، جس نے مومنين كے دلوں ميں سكون واطمينان نازل كيا، تاكہ ان كے ايمان ميںمزيد ايمان كا اضافہ كر''
اور سكون واطمينان ان كے دلوں پر نازل كيوں نہ ہو'' در آنحاليكہ آسمانوں اور زمين كے لشكر خدا كےلئے ہيں اور وہ دا ناو حكيم ہے ''(2)
يہ سكينہ كيا تھا ؟
ضرورى ہے كہ ہم پھر''صلح حديبيہ'' كى داستان كى طرف لوٹيں اور اپنے آپ كو'' صلح حديبيہ '' كى فضا ميں اور اس فضاء ميں جو صلح كے بعد پيدا ہوئي ، تصور كريں تاكہ آيت كے مفہوم كى گہرائي سے آشنا ہوسكيں _
پيغمبر اكرم (ص) نے ايك خواب ديكھا تھا (ايك رئويائے الہى ورحماني) كہ آپ اپنے اصحاب كے ساتھ مسجد الحرام ميں داخل ہورہے ہيں اور اس كے بعد خان ہ خدا كى زيارت كے عزم كے ساتھ چل پڑے زيادہ تر صحابہ يہى خيال كرتے تھے كہ اس خواب اورر و يائے صالحہ كى تعبير اسى سفر ميں واقع ہوگي، حالانكہ مقدر ميں ايك دوسرى چيز تھى يہ ايك بات_
(1)سورہ فتح آيت27
(2)سورہ فتح آيت 4
دوسرى طرف مسلمانوں نے احرام باندھا ہوا تھا، ليكن ان كى توقع كے بر خلاف خانہ خدا كى زيارت كى سعادت تك نصيب نہ ہوئي اور پيغمبر اكرم (ص) نے حكم دے ديا كہ مقام حديبيہ ميں ہى قربانى كے اونٹوں كو نحركہ ديں ،كيونكہ ان كے آداب وسنن كا بھى اور اسلامى احكام ودستور كا بھى يہى تقاضا تھا كہ جب تك مناسك عمرہ كو انجام نہ دے ليں احرام سے باہر نہ نكليں _
تيسرى طرف حديبيہ كے صلح نامہ ميں كچھ ايسے امور تھے جن كے مطالب كو قبول كرنا بہت ہى دشوار تھا،منجملہ ان كے يہ كہ اگر قريش ميں سے كوئي شخص مسلمان ہوجائے اور مدينہ ميں پناہ لے لے تو مسلمان اسے اس كے گھروالوں كے سپرد كرديں گے،ليكن اس كے برعكس لازم نہيں تھا _
چوتھى طرف صلح نامہ كى تحرير كے موقع پر قريش اس بات پر تيار نہ ہوئے كہ لفظ '' رسول اللہ'' محمد'' كے نام كے ساتھ لكھا جائے، اور قريش كے نمائندہ '' سہيل '' نے اصرار كركے اسے حذف كرايا ، يہاں تك كہ ''بسم اللہ الرحمن الرحيم'' كے لكھنے كى بھى موافقت نہ كى ،اور وہ يہى اصرار كرتا رہا كہ اس كے بجائے ''بسمك اللھم''لكھاجائے ، جو اہل مكہ كى عادت اور طريقہ كے مطابق تھاواضح رہے، كہ ان امور ميں سے ہر ايك عليحدہ عليحدہ ايك ناگوار امرتھا_
چہ جائيكہ وہ سب كے سب مجموعى طور سے وہاں جاتے رہے، اسى لئے ضعيف الايمان ،لوگوں كے دل ڈگمگا گئے ،يہاںتك كہ جب سورہ فتح نازل ہوئي تو بعض نے تعجب كے ساتھ پوچھا :كونسى فتح ؟
يہى وہ موقع ہے جب نصرت الہى كو مسلمانوں كے شامل حال ہونا چاہئے تھا اور سكون واطمينان ان كے دلوں ميں داخل ہوتا تھا نہ يہ كہ كوئي فتور اوركمزورى ان ميں پيداہوتى تھي_
بلكہ ''ليزدادوا ايمانا مع ايمانھم''_ كے مصداق كى قوت ايمانى ميں اضافہ ہونا چاہئے تھا اوپر والى آيت ايسے حالات ميں نازل ہوئي _
ممكن ہے اس سكون ميں اعتقادى پہلو ہو اور وہ اعتقاد ميں ڈگمگا نے سے بچائے ، يا اس ميں عملى پہلو ہواس طرح سے كہ وہ انسان كو ثبات قدم ، مقاومت اور صبر و شكيبائي بخشے _
پيچھے رہ جانے والوں كى عذر تراشي
گذشتہ صفحات ميں ہم بيان كرچكے ہيں كہ پيغمبر (ص) ايك ہزار چار سو مسلمانوں كے ساتھ مدينہ سے عمرہ كے ارادہ سے مكہ كى طرف روانہ ہوئے_
پيغمبر(ص) كى طرف سے باديہ نشين قبائل ميں اعلان ہوا كہ وہ بھى سب كے سب كے ساتھ چليں ليكن ضعيف الايمان لوگوں كے ايك گروہ نے اس حكم سے رو گردانى كرلي،اور ان كا تجزيہ تھا كہ يہ كيسے ممكن ہے كہ مسلمان اس سفر سے صحيح وسالم بچ كر نكل آئيں ، حالانكہ كفار قريش پہلے ہى ہيجان واشتعال ميں تھے ، اور انھوں نے احدواحزاب كى جنگيں مدينہ كے قريب مسلمانوں پر تھوپ دى تھيں اب جبكہ يہ چھوٹا ساگروہ بغير ہتھياروں كے اپنے پائوں سے چل كر مكہ كى طرف جارہا ہے ، گويا بھڑوں كے چھتہ كے پاس خود ہى پہنچ رہا ہے ، تو يہ كس طرح ممكن ہے كہ وہ اپنے گھروں كى طرف واپس لوٹ آئيں گے ؟
ليكن جب انھوں نے ديكھا كہ مسلمان كا ميابى كے ساتھ اور قابل ملا حظہ امتيازات كے ہمراہ جو انھوں نے صلح حديبيہ كے عہد وپيمان سے حاصل كئے تھے ، صحيح وسالم مدينہ كى طرف پلٹ آئے ہيں اور كسى كے نكسير تك بھى نہيں چھوٹى ، تو انہوں نے اپنى عظيم غلطى كا احساس كيا اور پيغمبر كى خدمت ميں حاضر ہوئے تاكہ كسى طرح كى عذر خواہى كركے اپنے فعل كى توجيہ كريں ، اور پيغمبر اكرم (ص) سے استغفار كا تقاضا كريں _
ليكن وحى نازل ہوئي اور ان كے اعمال سے پردہ اٹھاديا اور انھيں رسوا كيا _
اس طرح سے منافقين اور مشركين كى سرنوشت كا ذكر كر نے كے بعد، يہاں پيچھے رہ جانے والے ضعيف الايمان لوگوں كى كيفيت كا بيان ہورہا ہے تاكہ اس بحث كى كڑياں مكمل ہوجائيں _
فرماتاہے '' عنقريب باديہ نشين اعراب ميں سے پيچھے رہ جانے والے عذر تراشى كرتے ہوئے كہيں گے: ہمارے مال ومتاع اور وہاںپر بچوں كى حفاظت نے ہميں اپنى طرف مائل كرلياتھا، اور ہم اس پرُبركت سفر ميں آپ كى خدمت ميں نہ رہ سكے، رسالتماب (ص) ہمارے عذر كو قبول كرتے ہوئے ہمارے لئے طلب
بخشش كيجئے ،وہ اپنى زبان سے ايسى چيز كہہ رہے ہيں جو ان كے دل ميں نہيں ہے ''_(1)
وہ تو اپنى توبہ تك ميں بھى مخلص، نہيں ہيں _
ليكن ان سے كہہ ديجئے : ''خدا كے مقابلہ ميں اگر وہ تمہيں نقصان پہنچانا چاہے تو كس كى مجال ہے كہ وہ تمہارا دفاع كرسكے، اور اگر وہ تمہيں كچھ نفع پہنچانا چاہے تو كس ميں طاقت ہے، كہ اسے روك سكے ''_ (2)
خدا كے لئے يہ بات كسى طرح بھى مشكل نہيں ہے ، كہ تمہيں تمہارے امن وامان كے گھروں ميں ، بيوى بچوں اور مال ومنال كے پاس ،انواع واقسام كى بلائوں اور مصائب ميں گرفتار كردے ،اور اس كےلئے يہ بھى كوئي مشكل كام نہيں ہے كہ دشمنوں كے مركز ميں اور مخالفين كے گڑھ ميں تمہيں ہر قسم كے گزندسے محفوظ ركھے، يہ تمہارى قدرت خدا كے بارے ميںجہالت اور بے خبرى ہے جو تمہارى نظر ميں اس قسم كے انكار كو جگہ ديتى ہے _
ہاں، خدا ان تمام اعمال سے جنھيں تم انجام ديتے ہو باخبر اور آگاہ ہے ''(3)
بلكہ وہ تو تمہارے سينوں كے اندر كے اسرار اور تمہارى نيتوں سے بھى اچھى طرح باخبر ہے ، وہ اچھى طرح جانتا ہے كہ يہ عذر اور بہانے واقعيت اور حقيقت نہيں ركھتے اور جو اصل حقيقت اور واقعيت ہے وہ تمہارى شك و تريد، خوف وخطر اور ضعف ايمان ہے ، اور يہ عذر تراشياں خدا سے مخفى نہيں رہتيں، اور يہ ہرگز تمہارى سزا كو نہيں روكيں گى _
قابل توجہ بات يہ ہے كہ قرآن كے لب ولہجہ سے بھى اور تواريخ سے بھى يہى معلوم ہوتا ہے كہ يہ وحى الہى پيغمبر (ص) كى مدينہ كى طرف بازگشت كے دوران نازل ہوئي، يعنى اس سے پہلے كہ پيچھے رہ جانے والے آئيں اورعذر تراشى كريں ، ان كے كام سے پردہ اٹھاديا گيا اور انھيں رسوا كرديا _
قرآن اس كے بعد مزيد وضاحت كے لئے مكمل طور پر پردے ہٹاكر مزيد كہتا ہے :''بلكہ تم نے تو يہ
(1) سورہ فتح آيت 11
(2) سورہ فتح آيت 11
(3) سورہ فتح آيت 11
گمان كرليا تھا كہ پيغمبر اكرم (ص) اور مومنين ہرگز اپنے گھروالوں كى طرف پلٹ كرنہيں آئيں گے'' _(1)
ہاں ، اس تاريخى سفر ميں تمہارے شريك نہ ہونے كا سبب ، اموال اور بيوى بچوں كا مسئلہ نہيں تھا، بلكہ اس كا اصلى عامل وہ سوء ظن تھا جو تم خدا كے بارے ميں ركھتے تھے، اور اپنے غلط اندازوں كى وجہ سے يہ سوچتے تھے كہ يہ سفر پيغمبر اكرم (ص) كے ختم ہونے كا سفر ہے اور كيونكہ شيطانى وسوسہ تمہارے دلوں ميں زينت پاچكے تھے ،اور يہ تم نے برا گمان كيا''_(2) كيونكہ تم يہ سوچ رہے تھے كہ خدا نے پيغمبر اكرم (ص) كو اس سفر ميں بھيج كر انھيں دشمن كے چنگل ميں دےديا ہے ، اور ان كى حمايت نہيں كرے گا ،'' اور انجام كار تم ہلاك ہوگئے ''_(3) اس سے بدتر ہلاكت اور كيا ہوگى كہ تم اس تاريخى سفر ميں شركت ، بيعت رضوان، اور دوسرے افتخارات واعزازات سے محروم رہ گئے، اور اس كے پيچھے عظيم رسوائي تھى اور آئندہ كے لئے آخرت كادردناك عذاب ہے ، ہاں تمہارے دل مردہ تھے اس لئے تم اس قسم كى صورت حال ميں گرفتار ہوئے_
اگر حديبيہ ميں جنگ ہوجاتي
قرآن اسى طرح سے '' حديبيہ'' كے عظيم ماجرے كے كچھ دوسرے پہلوو ں كو بيان كرتے ہوئے، اور اس سلسلہ ميں دو اہم نكتوں كى طرف اشارہ كررہا ہے_
پہلا يہ كہ يہ خيال نہ كرو كہ سرزمين '' حديبيہ '' ميں تمہارے اور مشركين مكہ كے درميان جنگ چھڑجاتى تو مشركين جنگ ميں بازى لے جاتے، ايسا نہيں ہے ، اكثر كفار تمہارے ساتھ وہاں جنگ كرتے تو بہت جلدى پيٹھ پھير كر بھاگ جاتے ، اور پھر كوئي ولى وياورنہ پاتے ''_(4)
اور يہ بات صرف تم تك ہى منحصر نہيں ہے ، '' يہ تو ايك سنت الہى ہے ،جو پہلے بھى يہى تھى اور تم سنت الہى ميں ہرگز تغيرو تبديلى نہ پائو گے_(5)
وہ اہم نكتہ جو قرآن خاص طور پر بيان كررہاہے، يہ ہے كہ كہيں قريش بيٹھ كر يہ نہ كہنے لگيں ، كہ افسوس
(1)سورہ فتح آيت 11
(2) سورہ فتح آيت 11
(3)سورہ فتح آيت 11
(4)سورہ فتح آيت 22
(5)سورہ فتح آيت 22
ہم نے جنگ كيوں نہ كى اوراس چھوٹے سے گروہ كى سركوبى كيوں نہ كي، افسوس كہ شكارہمارے گھر ميں آيا، اور اس سے ہم نے غفلت برتى ، افسوس ، افسوس _
ہرگز ايسا نہيں ہے اگر چہ مسلمان ان كى نسبت تھوڑے تھے، اور وطن اور امن كى جگہ سے بھى دور تھے، اسلحہ بھى ان كے پاس كافى مقدار ميں نہيں تھا، ليكن اس كے باوجود اگر جنگ چھڑجاتى تو پھر بھى قوت ايمانى اور نصرت الہى كى بركت سے كاميابى انھيں ہى حاصل ہوتي، كيا جنگ ''بدر '' اور'' احزاب '' ميں ان كى تعداد بہت كم اور دشمن كا سازو سامان اور لشكر زيادہ نہ تھا؟ ان دونوں مواقع پر دشمن كو كيسے شكست ہوگئي _
بہرحال اس حقيقت كا بيان مومنين كے دل كى تقويت اور دشمن كے دل كى كمزورى اور منافقين كے '' اگر '' اور '' مگر '' كے ختم ہونے كا سبب بن گئي اور اس نے اس بات كى نشاندہى كردى كہ ظاہرى طور پر حالات كے برابر نہ ہونے كے باوجود اگر جنگ چھڑجائے تو كاميابى مخلص مومنين ہى كو نصيب ہوتى ہے _
دوسرا نكتہ جو قرآن ميں بيان ہوا ہے يہ ہے كہ فرماتاہے ''وہى تو ہے جس نے كفار كے ہاتھ كو مكہ ميں تم سے باز ركھا اور تمہارے ہاتھ كو ان سے،يہ اس وقت ہوا جبكہ تمہيں ان پر كاميابى حاصل ہوگئي تھي، اور خدا وہ سب كچھ جو تم انجام دے رہے ہو ديكھ رہاہے ''_(1)
مفسرين كى ايك جماعت نے اس آيت كےلئے ايك '' شان نزول'' بيان كى ہے اور وہ يہ ہے كہ: مشركين مكہ نے ''حديبيہ ''كے واقعہ ميں چاليس افراد كو مسلمانوں پرضرب لگانے كےلئے مخفى طور پر حملہ كے لئے تيار كيا، ليكن ان كى يہ سازش مسلمانوں كى ہوشيارى سے نقش برآب ہوگئي اور مسلمان ان سب كو گرفتار كركے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں لے آئے ، اور پيغمبر (ص) نے انھيں رہا كرديا _ بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ جس وقت پيغمبر (ص) درخت كے سائے ميں بيٹھے ہوئے تھے تاكہ قريش كے نمائندہ كے ساتھ صلح كے معاہدہ كو ترتيب ديں ، اور على عليہ السلام لكھنے ميں مصروف تھے، تو جوانان مكہ ميں سے 30 /افراد اسلحہ كے ساتھ آپ پر حملہ آور ہوئے،اور معجزا نہ طورپر ان كى يہ سازش بے كار ہوگئي اور وہ سب كے سب گرفتار ہوگئے اور حضرت نے انھيں آزاد كرديا _
(1) سورہ فتح آيت 24
''عمرة القضاء''وہى عمرہ ہے جو پيغمبر (ص) نے حديبيہ سے ايك سال بعد يعنى ہجرت كے ساتويں سال كے ماہ ذى القعدہ ميں اسے( ٹھيك ايك سال بعد جب مشركين نے آپ كو مسجد الحرام ميں داخل ہونے سے روكا تھا) اپنے اصحاب كے ساتھ انجام ديا اوراس كا يہ نام اس وجہ سے ہے ، چونكہ يہ حقيقت ميں گزشتہ سال كى قضاء شمار ہوتا تھا_ اس كى وضاحت اس طرح ہے كہ : قرار داد حديبيہ كى شقوں ميں سے ايك شق كے مطابق پروگرام يہ تھا كہ مسلمان آئندہ سال مراسم عمرہ اور خانہ خدا كى زيارت كو آزادانہ طور پر انجام ديں، ليكن تين دن سے زيادہ مكہ ميں توقف نہ كريں اور اس مدت ميں قريش كے سردار اور مشركين كے جانے پہچانے افراد شہرسے باہر چلے جائيں گے تاكہ ايك تو احتمالى ٹكرائو سے بچ جائيں اور كنبہ پرورى اور تعصب كى وجہ سے جو لوگ مسلمانوں كى عبادت توحيدى كے منظر كو ديكھنے كا يارا اور قدرت نہيں ركھتے، وہ بھى اسے نہ ديكھيں)
بعض تواريخ ميں آيا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے صحابہ كے ساتھ احرام باندھا اور قربانى كے اونٹ لے كر چل پڑے اور '' ظہران''كے قريب پہنچ گئے اس موقع پر پيغمبر نے اپنے ايك صحابى كو جس كا نام '' محمد بن مسلمہ'' تھا، عمدہ سوارى كے گھوڑوں اور اسلحہ كے ساتھ اپنے آگے بھيج ديا، جب مشركين نے اس پر وگرام كو ديكھا تو وہ سخت خوف زدہ ہوئے اور انھوں نے يہ گمان كرليا كہ حضرت ان سے جنگ كرنا اور اپنى دس سالہ صلح كى قرار داد كو توڑنا چاہتے ہيں ، لوگوں نے يہ خبر اہل مكہ تك پہنچادى ليكن جب پيغمبر اكرم (ص) مكہ كے قريب پہنچے تو آپ نے حكم ديا كہ تمام تير اور نيزے اور دوسرے سارے ہتھاراس سرزمين ميں جس كا نام ''ياجج'' ہے منتقل كرديں، اور آپ خود اور آپ كے صحابہ صرف نيام ميں ركھى ہوئي تلواروں كے ساتھ مكہ ميں
دارد ہوئے _ اہل مكہ نے جب يہ عمل ديكھا تو بہت خوش ہوئے كہ وعدہ پورا ہوگيا، (گويا پيغمبر (ص) كا يہ اقدام مشركين كے لئے ايك تنبيہ تھا،كہ اگر وہ نقض عہد كرنا چاہيں اور مسلمانوں كے خلاف سازش كريں،تو ان كے مقابلہ كى قدرت ركھتے ہيں )
رئو سائے مكہ، مكہ سے باہر چلے گئے، تاكہ ان مناظر كو جوان كےلئے دل خراش تھے نہ ديكھيں ليكن باقى اہل مكہ مرد ، عورتيں اور بچے سب ہى راستوں ميں ، چھتوں كے اوپر ، اور خانہ خدا كے اطراف ميں جمع ہوگئے تھے ، تاكہ مسلمانوں اور ان كے مراسم عمرہ كو ديكھيں _ پيغمبر اكرم (ص) خاص رُعب اور دبدبہ كے ساتھ مكہ ميں وارد ہوئے اور قربانى كے بہت سے اونٹ آپ كے ساتھ تھے، اوراپ نے انتہائي محبت اور ادب كے ساتھ مكہ والوں سے سلوك كيا،اور يہ حكم ديا كہ مسلمان طواف كرتے وقت تيزى كے ساتھ چليں ، اور احرام كو ذراسا جسم سے ہٹاليں تاكہ ان كے قوى اور طاقتور اور موٹے تازے شانے آشكار ہوں ، اور يہ منظر مكہ كے لوگوں كى روح اور فكر ميں ، مسلمانوں كى قدرت وطاقت كى زندہ دليل كے طور پر اثراندز ہو _
مجموعى طور سے '' عمرة القضاء'' عبادت بھى تھا اور قدرت كى نمائشے بھى ،يہ كہنا چاہئے كہ '' فتح مكہ '' جو بعد والے سال ميں حاصل ہوئي ، اس كا بيج انہيں دنوں ميں بويا گيا ، اوراسلام كے مقابلہ ميں اہل مكہ كے سرتسليم خم كرنے كے سلسلے ميں مكمل طور پر زمين ہموار كردى _ يہ وضع وكيفيت قريش كے سرداروں كے لئے اس قدر ناگوار تھى كہ تين دن گزرنے كے بعد كسى كو پيغمبر كى خدمت ميں بھيجا كہ قرادداد كے مطابق جتنا جلدى ہو سكے مكہ كو چھوڑديجئے _ قابل توجہ بات يہ ہے ، كہ پيغمبر اكرم (ص) نے مكہ كى عورتوں ميں سے ايك بيوہ عورت كو،جو قريش كے بعض سرداروں كى رشتہ دار تھي، اپنى زوجيت ميں لے ليا، تاكہ عربوں كى رسم كے مطابق ،اپنے تعلق اور رشتے كو ان سے مستحكم كركے ان كى عداوت اور مخالفت ميں كمى كريں _
جس وقت پيغمبر (ص) نے مكہ سے باہر نكل جانے كى تجويز سنى تو آپ نے فرمايا : ميں اس ازدواج كے مراسم كے لئے كھانا كھلانا چاہتا ہوں اور تمہارى بھى دعوت كرنا چاہتاہوں ،يہ دعوت رسمى طور پررد كردى گئي _
جب پيغمبر اكرم (ص) حديبيہ سے واپس لوٹے تو تمام ماہ ذى الحجہ اور ہجرت كے ساتويں سال كے محرم كا كچھ حصہ مدينہ ميں توقف كيا، اس كے بعد اپنے اصحاب ميں سے ان ايك ہزار چار سوافراد كو جنہوں نے حديبيہ ميں شركت كى تھى ساتھ لے كر خيبر كى طرف روانہ ہوئے ،(جو اسلام كے برخلاف تحريكوں كا مركز تھا، اور پيغمبر اكرم (ص) كسى مناسب فرصت كے لئے گن گن كردن گزار رہے تھے كہ اس مركز فساد كو ختم كريں_
روايات كے مطابق جس وقت پيغمبر اكرم (ص) ''حديبيہ'' سے پلٹ رہے تھے توحكم خدا سے آپ نے حديبيہ ميں شركت كرنے والے مسلمانوں كو '' فتح خيبر'' كى بشارت دى ، اور تصريح فرمائي كہ اس جنگ ميں صرف وہى شركت كريں گے ، اور جنگ ميں حاصل شدہ مال غنيمت بھى انھيں كے ساتھ مخصوص ہوگا تخلف كرنے والوں كو ان غنائم ميں سے كچھ نہ ملے گا _
ليكن جو نہى ان ڈر پوك دنيا پرستوں نے قرائن سے يہ سمجھ ليا كہ پيغمبر اكرم (ص) اس جنگ ميں جو انھيں درپيش ہے يقينى طور پر كامياب ہوں گے اور سپاہ اسلام كو بہت سامال غنيمت ہاتھ آئے گا، تو وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور ميدان خيبر ميں شركت كى اجازت چاہى اور شايد اس عذر كو بھى ساتھ ليا كہ ہم گزشتہ غلطى كى تلافى كرنے ، اپنى ذمہ دارى كے بوجھ كو ہلكا كرنے ، گناہ سے توبہ كرنے اور اسلام وقرآن كى مخلصانہ خدمت كرنے كے لئے يہ چاہتے ہيں كہ ہم ميدان جہاد ميں آپ كے ساتھ شركت كريں ، وہ اس بات سے غافل تھے كہ وحى الہى پہلے ہى نازل ہوچكى تھيں اور ان كے
راز كو فاش كرچكى تھيں، جيسا كہ قرآن ميں بيان ہوا ہے _
'' جس وقت تم كچھ غنيمت حاصل كرنے كے لئے چلو گے تو اس وقت پيچھے رہ جانے والے كہيں گے : ہميں بھى اپنے ساتھ چلنے كى اجازت ديں اور اس جہاد ميں شركت كرنے كا شرف بخشيں ''_(1)
بہرحال قران اس منفعت اور فرصت طلب گروہ كے جواب ميں كہتا ہے :''وہ يہ چاہتے ہيں كہ خدا كے كلام كو بدل ديں ''_ (2)
اس كے بعد مزيد كہتا ہے :''ان سے كہہ و : تم ہرگز ہمارے پيچھے نہ آنا'' تمھيں اس ميدان ميں شركت كرنے كا حق نہيں ہے ،يہ كوئي ايسى بات نہيں ہے جو ميں اپنى طرف سے كہہ رہاہوں '' يہ تو وہ بات ہے جو خدا نے پہلے سے ہى كہہ دى ہے '' _(3) اور ہميں تمہارے مستقبل (كے بارے ميں ) باخبر كرديا ہے _
خدا نے حكم ديا ہے كہ '' غنائم خيبر''،''اہل حديبيہ '' كے لئے مخصوص ہيں اور اس چيز ميں كوئي بھى ان كے ساتھ شركت نہ كرے ، ليكن يہ بے شرم اور پرا دعا پيچھے رہ جانے والے پھر بھى ميدان سے نہيں ہٹتے اور تمہيں حسد كے ساتھ متہم كرتے ، اور عنقريب وہ يہ كہيں گے : كہ معاملہ اس طرح نہيں ہے بلكہ تم ہم سے حسد كررہے ہو _(4)
اور اس طرح وہ ضمنى طور پر رسول اكرم (ص) كى تكذيب بھى كرتے تھے يہى لوگ''جنگ خيبر''ميں انھيں شركت سے منع كرنے كى اصل حسد كو شمار كرتے ہيں_
''غطفان''كے قبيلہ نے شروع ميں تو خيبر كے يہوديوں كى حمايت كرنے كا ارادہ كيا تھا، ليكن بعد ميں ڈرگئے اور اس سے رك گئے _
(1) سورہ فتح آيت 15
(2) سورہ فتح آيت 15
(3) سورہ فتح آيت 15
(4) سورہ فتح آيت
پيغمبر اكرم (ص) جس وقت''خيبر'' كے قلعوں كے نزديك پہنچے تو آپ نے اپنے صحابہ كو ركنے كا حكم ديا، اس كے بعد آسمان كى طرف سربلند كيا اور يہ دعا پڑھي:
''خداوندا اے آسمانوں كے پروردگار اور جن پر انھوں نے سايہ ڈالا ہے، اور اے زمينوں كے پروردگار اور جن چيزوں كو انھوں نے اٹھاركھا ہے ميں تجھ سے اس آبادى اور اس كے اہل ميں جو خير ہے اس كا طلب گارہوں، اور تجھ سے اس كے شراور اس ميں رہنے والوں كے شر اور جو كچھ اس ميں ہے اس شرسے پناہ مانگتاہوں'' _اس كے بعد فرمايا:'' بسم اللہ ''آگے بڑھو: اور اس طرح سے رات كے وقت ''خيبر'' كے پاس جاپہنچے' اور صبح كے وقت جب ا''ہل خيبر'' اس ماجرا سے باخبر ہوئے تو خود كو لشكر اسلام كے محاصرہ ميں ديكھا، اس كے بعد پيغمبر نے يكے بعد ديگرے ان قلعوں كو فتح كيا،يہاں تك كہ آخرى قلعہ تك ، جو سب سے زيادہ مضبوط اور طاقتور تھا، اور مشہور يہودى كمانڈر''مرحب'' اس ميں رہتا تھا، پہنچ گئے _
انھيں دنوں ميں ايك سخت قسم كا دردسر، جو كبھى كبھى پيغمبر اكرم (ص) كو عارض ہوا كرتا تھا، آپ كو عارض ہوگيا ، اس طرح سے كہ ايك دو دن آپ اپنے خيمہ سے باہر نہ آسكے تو اس موقع پر (مشہور اسلامى تواريخ كے مطابق ) حضرت ابوبكر، نے علم سنبھالا اور مسلمانوں كو ساتھ لے كر يہوديوں كے لشكر پر حملہ آور ہوئے ، ليكن كوئي نتيجہ حاصل كيے بغير واپس پلٹ آئے دوسرى دفعہ '' حضرت عمر'' نے علم اٹھايا، اور مسلمان پہلے دن كى نسبت زيادہ شدت سے لڑے، ليكن بغير كسى نتيجہ كے واپس پلٹ آئے _
يہ خبر رسول اكرم (ص) تك پہنچى تو اپ نے فرمايا:''خدا كى قسم كل يہ علم ايسے مرد كو دوں گا جو خدا اور اس كے رسول كو دوست ركھتا ہے، اور خدا اور پيغمبر اس كو دوست ركھتے ہيں ،اور وہ اس سے قلعہ كو طاقت كے زورسے فتح كرے گا ''_ ہرطرف سے گردنيں اٹھنے ليگيں كہ اس سے مرادكون شخص ہے؟ كچھ لوگوں كا اندازہ تھا كہ پيغمبر (ص) كى مراد على عليہ السلام ہيںليكن على عليہ السلام ابھى وہاں موجود نہيں تھے،كيونكہ شديد آشوب چشم
انہيں لشكر ميں حاضر ہونے سے مانع تھا، ليكن صبح كے وقت على عليہ السلام اونٹ پر سوار ہوكر وارد ہوئے، اور پيغمبر اكرم (ص) كے خيمہ كے پاس اترے درحاليكہ آپ كى آنكھيں شدت كے ساتھ درد كررہى تھيں _
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا :ميرے نزديك آئو،آپ قريب گئے توانحضرت (ص) نے اپنے دہن مبارك كا لعاب على عليہ السلام كى آنكھوں پر ملا اور اس معجزہ كى بركت سے آپ كى آنكھيں بالكل ٹھيك ہوگئيں اس كے بعد آنحضرت (ص) نے علم ان كے ہاتھ ميں ديا_
على عليہ السلام لشكر اسلام كو ساتھ لے كر خيبر كے سب سے بڑے قلعہ كى طرف بڑھے تو يہوديوں ميں سے ايك شخص نے قلعہ كے اوپر سے پوچھا كہ آپ كون ہيں ؟ آپ نے فرمايا : '' ميں على بن ابى طالب'' ہوں، اس يہودى نے پكار كر كہا : اے يہوديو اب تمہارى شكست كا وقت آن پہنچا ہے ، اس وقت اس قلعہ كا كمانڈر مرحب يہودى ، على عليہ السلام سے مقابلہ كے لئے نكلا، اور كچھ دير نہ گزرى تھى كہ ايك ہى كارى ضرب سے زمين پر گرپڑا _
مسلمانوں اور يہوديوں كے درميان شديد جنگ شروع ہوگئي، على عليہ السلام قلعہ كے دروازے كے قريب آئے ، اور ايك قوى اورپُر قدرت حركت كے ساتھ دروازے كو اكھاڑا اور ايك طرف پھينك ديا، اور اس زور سے قلعہ كھل گيا اور مسلمان اس ميں داخل ہوگئے اور اسے فتح كرليا ،يہوديوں نے اطاعت قبول كرلي، اور پيغمبر (ص) سے درخواست كى كہ اس اطاعت كے عوض ان كى جان بخشى كى جائے، پيغمبر (ص) نے ان كى درخواست كو قبول كرليا، منقول غنائم اسلامى لشكر كے ہاتھ آئے اور وہاں كى زمينيں اور باغات آپ نے يہوديوں كو اس شرط كے ساتھ سپرد كرديئےہ اس كى آمدنى كا آدھا حصہ وہ مسلمانوں كو ديا كريں گے _
آخركار پيغمبر (ص) نے تواريخ كى نقل كے مطابق غنائم خيبرصرف اہل حديبيہ پر تقسيم كئے، يہاں تك كہ ان لوگوں كے لئے بھى جو حديبيہ ميں موجود تھے اور كسى وجہ سے جنگ خيبر ميں شريك نہ ہوسكے ان كے لئے بھى ايك حصہ قرارديا ، البتہ ايسا آدمى صرف ايك ہى تھا، اور وہ '' جابربن عبداللہ تھا _
فتح مكہ نے; تاريخ اسلام ميںايك ن ى فصل كا اضافہ كياہے اور تقريباً بيس سال كے بعد دشمن كى مقاومتوں كو ہميشہ كے لئے ختم كرديا، حقيقت ميں فتح مكہ سے جزيرة العرب سے شرك و بت پر ستى كى بساط لپيٹ دى گئي ،اور اسلام دنياكے دوسرے ممالك كى طرف حركت كے لئے آمادہ ہوا_
اس واقعہ كا خلاصہ يہ ہے كہ عہد وپيمان اور صلح كے بعد كفار نے عہد شكنى كى اور اس صلح نامہ كونظر انداز كرديا، اور پيغمبر (ص) كے بعض حليفوں كے ساتھ زيادتى كي، آپ(ص) كے حليفوں نے آنحضرت (ص) سے شكايت كى تورسول اللہ (ص) نے اپنے حليفوںكى مددكرنے كا ارادہ كرليا،اور دوسرى طرف مكہ ميں بت پرستى شرك اور نفاق كا جو مركز قائم تھا اس كے ختم ہونے كے تمام حالات فراہم ہوگئے تھے اور يہ ايك ايسا كام تھا جسے ہر حالت ميں انجام دينا ضرورى تھا،اس لئے پيغمبر خدا (ص) كے حكم سے مكہ كى طرف جانے كے لئے آمادہ ہوگئے ،فتح مكہ تين مراحل ميںانجام پائي _
پہلا مرحلہ مقدماتى تھا، يعنى ضرورى قوااور توانائيوں كو فراہم كرنا، زمانہ كے موافق حالات كا انتخاب اور دشمن كى جسمانى و روحانى قوت و توانائي كى مقدار وكيفيت كى حيثيت كے بارے ميں كافى اطلاعات حاصل كرنا تھا_
دوسرا مرحلہ، فتح كے مرحلہ كوبہت ہى ماہرانہ اور ضائعات و تلفات يعنى نقصان كے بغير انجام دينا تھا_ اور آخرى مرحلہ، جو اصلى مرحلہ تھا، وہ اس كے آثار و نتائج كا مرحلہ تھا_
يہ مرحلہ انتہائي دقت، باريك بينى اور لطافت كے ساتھ انجام پايا ، خصوصاً رسول اللہ (ص) نے مكہ و مدينہ كى شاہراہ كو اس طرح سے سے قرق كرليا تھا كہ اس عظيم آمادگى كى خبر كسى طرح سے بھى اہل مكہ كو نہ پہنچ سكي_ اس لئے انہوں نے كسى قسم كى تيار ى نہ كى ،وہ مكمل طور پر غفلت ميں پڑے رہے اور اسى وجہ سے اس مقد س سرزمين ميںاس عظيم حملہ اور بہت بڑى فتح ميں تقريباً كوئي خون نہيںبہا_
يہاں تك كہ وہ خط بھي،جو ايك ضعيف الايمان مسلمان ''حاطب بن ابى بلتعہ''نے قريش كو لكھا تھا اور قبيلہ ''مزينہ'' كى ايك عورت ''كفود''يا ''سارہ''نامى كے ہاتھ مكہ كى طرف روانہ كيا تھا،اعجاز آميز طريقہ سے پيغمبر اكرم (ص) كے لئے آشكار ہوگيا، على عليہ االسلام كچھ دوسرے لوگوں كے ساتھ بڑى تيزى سے اس كے پيچھے روانہ ہوئے، انہوںنے اس عورت كو مكہ و مدينہ كى ايك درميانى منزل ميںجاليا اور اس سے وہ خط لے كر،خود اسے بھى مدينہ واپس لے آئے_
بہر حال پيغمبر اكرم (ص) مدينہ ميں اپنا ايك قائم مقام مقرر كر كے ہجرت كے آٹھويں سال ماہ رمضان كى دس تاريخ كو مكہ كى طرف چل پڑے ، اور دس دن كے بعد مكہ پہنچ گئے _
پيغمبر اكرم (ص) نے راستے كے وسط ميں اپنے چچا عباس كو ديكھا كہ وہ مكہ سے ہجرت كركے آپ(ص) كى طرف آرہے ہيں _ حضرت(ص) نے ان سے فرمايا كہ اپنا سامان مدينہ بھيج ديجئے اور خود ہمارے ساتھ چليں، اور آپ آخرى مہاجر ہيں_
آخر كار مسلمان مكہ كى طرف پہنچ گئے اور شہر كے باہر،اطراف كے بيابانوں ميں اس مقام پر جسے ''مرالظہران''كہا جاتا تھا اور جو مكہ سے چند كلوميٹر سے زيادہ فاصلہ پر نہ تھا،پڑائو ڈال ديا_ اور رات كے وقت كھانا پكانے كے لئے (يا شايد اپنى وسيع پيمانہ پر موجودگى كو ثابت كرنے كے لئے) وہاں آگ روشن كردي، اہل مكہ كا ايك گروہ اس منظر كو ديكھ كر حيرت ميں ڈوب گيا_
ابھى تك پيغمبر اكرم (ص) اور لشكر اسلام كے اس طرف آنے كى خبريں قريش سے پنہاں تھيں_
اس رات اہل مكہ كا سرغنہ ابو سفيان اور مشركين كے بعض دوسرے سرغنہ خبريںمعلوم كرنے كے لئے مكہ سے باہر نكلے،اس موقع پر پيغمبر اكرم (ص) كے چچا عباس نے سوچا كہ اگر رسول اللہ (ص) قہرآلود طريقہ پر مكہ ميںوارد ہوئے تو قريش ميں سے كوئي بھى زندہ نہيں بچے گا، انہوں نے پيغمبر اكرم (ص) سے اجازت لئے اور آپ (ص) كى سوارى پر سوار ہوكر كہا ميں جاتاہوں ،شايد كوئي مل جائے تو اس سے كہوں كہ اہل مكہ كو اس ماجرے سے آگاہ كردے تا كہ وہ آكر امان حاصل كرليں_
عباس وہاںروانہ ہوكر بہت قريب پہنچ گئے_ اتفاقاً اس موقع پر انہوں نے ''ابو سفيان''كى آواز سنى جواپنے ايك دوست ''بديل'' سے كہہ رہا تھا كہ ہم نے كبھى بھى اس سے زيادہ آگ نہيں ديكھي، ''بديل'' نے كہا ميرا خيال ہے كہ يہ آگ قبيلہ''خزاعہ''نے جلائي ہوئي ہے، ابوسفيان نے كہا قبيلہ خزاعہ اس سے كہيں زيادہ ذليل وخوار ہيں كہ وہ اتنى آگ روشن كريں،اس موقع پر عباس نے ابوسفيان كو پكارا، ابوسفيان نے بھى عباس كو پہچان ليا اور كہا سچ سچ بتائو كيا بات ہے؟
عباس نے جواب ديا: يہ رسول اللہ (ص) ہيں جو دس ہزار مجاہدين اسلام كے ساتھ تمہارى طرف آرہے ہيں، ابو سفيان سخت پريشان ہوا اور كہا آپ مجھے كيا حكم ديتے ہيں_
عباس نے كہا:ميرے ساتھ آئو اور رسول اللہ (ص) سے امان لے لو ورنہ قتل كرديے جائوگے_
اس طرح سے عباس نے''ابوسفيان''كو اپنے ہمراہ رسول اللہ (ص) كى سوارى پر ہى سوار كرليا اور تيزى كے ساتھ رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں پلٹ آئے _ وہ جس گروہ اور جس آگ كے قريب سے گزرتے وہ يہى كہتے كہ يہ تو پيغمبر (ص) كے چچا ہيں جو آنحضرت (ص) كى سوارى پر سوار ہيں ،كوئي غير آدمى ہے، يہاںتك كہ وہ اس مقام پر آئے، جہاں عمر ابن خطاب تھے ،جب عمر بن خطاب كى نگاہ ابو سفيان پر پڑى تو كہا خدا كا شكر ہے كہ اس نے مجھے تجھ ( ابوسفيان) پر مسلط كيا ہے، اب تيرے لئے كوئي امان نہيں ہے اور فوراً ہى پيغمبر (ص) كى خدمت ميںآكرآپ (ص) سے ابوسفيان كى گردن اڑانے كى اجازت مانگى _
ليكن اتنے ميں عباس بھى پہنچ گئے اور كہا: كہ اے رسول خدا (ص) ميں نے اسے پنا ہ دے دى ہے
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: ميں بھى سر دست اسے امان ديتا ہوں، كل آپ (ص) اسے ميرے پاس لے آئيں اگلے دن جب عباس اسے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں لائے تو رسول اللہ (ص) نے اس سے فرمايا:''اے ابوسفيان وائے ہو تجھ پر، كيا وہ وقت ابھى نہيں آيا كہ تو خدائے يگانہ پر ايمان لے آئے''_
اس نے عرض كيا: ہاں ےا رسول خدا (ص) ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،ميں گواہى ديتاہوں كہ خدا يگانہ ہے اور اس كا كوئي شريك نہيں ہے،اگر بتوں سے كچھ ہو سكتا تو ميں يہ دن نہ ديكھتا_
آنحضرت نے فرمايا:''كيا وہ موقع نہيں آيا كہ تو جان لے كہ ميں اللہ كا رسو ل ہوں''_
اس نے عرض كي:ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ںابھى اس بارے ميں ميرے دل ميں كچھ شك و شبہ موجود ہے ليكن آخر كار ابوسفيان اور اس كے ساتھيوں ميں سے دو آدمى مسلمان ہوگئے_
پيغمبر اكرم (ص) نے عباس سے فرمايا:
''ابوسفيان كو اس درہ ميں جو مكہ كى گزرگاہ ہے، لے جائو تاكہ خدا كا لشكر وہاں سے گزرے اور يہ ديكھ لے''_
عباس نے عرض كيا:''ابوسفيان ايك جاہ طلب آدمى ہے،اسكو كوئي امتيازى حيثيت دے ديجئے''پيغمبر (ص) نے فرمايا:''جو شخص ابوسفيان كے گھر ميں داخل ہوجائے وہ امان ميں ہے،جوشخص مسجد الحرام ميں پناہ لے لے وہ امان ميں ہے،جو شخص اپنے گھر كے اندر ہے اور دروازہ بند كرلے وہ بھى امان ميں ہے''_
بہر حال جب ابوسفيان نے اس لشكر عظيم كو ديكھا تو اسے يقين ہوگيا كہ مقابلہ كرنے كى كوئي راہ باقى نہيں رہى او راس نے عباس كى طرف رخ كركے كہا:آپ كے بھتيجے كى سلطنت بہت بڑى ہوگئي ہے،عباس نے كہا: وائے ہو تجھ پر يہ سلطنت نہيں نبوت ہے_
اس كے بعدعباس نے اس سے كہا كہ اب تو تيزى كے ساتھ مكہ والوں كے پاس جاكر انہيں لشكر اسلام كا مقابلہ كرنے سے ڈرا_
ابوسفيان نے مسجدالحرام ميں جاكر پكار كر كہا:
''اے جمعيت قريش محمد ايك بہت بڑے لشكر كے ساتھ تمہارى طرف آيا ہے،تم ميں اس كا مقابلہ كرنے كى طاقت نہيں ہے، اس كے بعد اس نے كہا: جو شخص ميرے گھر ميں داخل ہوجائے وہ امان ميںہے،جو شخص مسجد الحرام ميں چلا جائے وہ بھى امان ميں ہے اور جو شخص اپنے گھر ميں رہتے ہوئے گھر كا دروازہ بندكرے وہ بھى امان ميں ہے''_
اس كے بعد اس نے چيخ كر كہا: اے جمعيت قريش اسلام قبول كرلو تا كہ سالم رہو اور بچ جائو، اس كى بيوي''ہندہ''نے اس كى داڑھى پكڑلى اور چيخ كر كہا:اس بڈھے احمق كو قتل كردو_
ابوسفيان نے كہا: ميرى داڑھى چھوڑدے_ خدا كى قسم اگر تو اسلام نہ لائي تو تو بھى قتل ہو جائے گي،جاكر گھر ميں بيٹھ جا_
اس كے بعد پيغمبر اسلام (ص) لشكر اسلام كے ساتھ روانہ ہوئے اور ''ذوى طوي''كے مقام تك پہنچ گئے،وہى بلند مقام جہاں سے مكہ كے مكانات صاف نظرآتے ہيں،پيغمبر (ص) كو وہ دن ياد آگيا جب آپ مجبور ہوكر مخفى طور پر مكہ سے باہر نكلے تھے، ليكن آج ديكھ رہے ہيں كہ اس عظمت كے ساتھ داخل ہورہے ہيں،تو آپ نے اپنى پيشانى مبارك اونٹ كے كجاوے كے اوپر ركھ دى او رسجدہ شكر بجا لائے،اس كے بعد پيغمبر اكرم(ص) ''حجون'' ميں (مكہ كے بلند مقامات ميں سے وہ جگہ جہاں خديجہ(ع) كى قبر ہے) اترے، غسل كر كے اسلحہ اور لباس جنگ پہن كر اپنى سوار ى پر سوار ہوئے،سورہ فتح كى قرائت كرتے ہوئے مسجدالحرام ميں داخل ہوئے اور آواز تكبير بلند كي، لشكر اسلام نے بھى نعرہ تكبير بلندكيا تو اس سے سارے دشت و كوہ گونج اٹھے_ اس كے بعد آپ اپنے اونٹ سے نيچے اترے اور بتوں كو توڑنے كے لئے خانہ كعبہ كے قريب آئے، آپ يكے بعد
ديگرے بتوں كو سرنگوںكرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتھے:
''جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل كان زھوقاً''
''حق آگيا اور باطل ہٹ گيا،اور باطل ہے ہى ہٹنے والا''_
كچھ بڑے بڑے بت كعبہ كے اوپر نصب تھے، جن تك پيغمبر(ص) كا ہاتھ نہيں پہنچتاتھا،آپ(ص) نے اميرالمومنين على عليہ السلام كو حكم ديا وہ ميرے دوش پر پائوں ركھ كر اوپر چڑھ جائيں اور بتوں كو زمين پر گرا كر توڑڈاليں، على عليہ السلام نے آپ كے حكم كى اطاعت كي_
اس كے بعد آپ نے خانہ كعبہ كى كليد لے كر دروازہ كھولا اور انبياء كى ان تصويروں كو جو خانہ كعبہ كے اندر دروديوار پر بنى ہوئي تھيں، محو كرديا_ اس سريع اور شاندا ركاميابى كے بعد پيغمبر (ص) نے خانہ كعبہ كے دروازے كے حلقہ ميں ہاتھ ڈالا اور وہاں پر موجود اہل مكہ كى طرف رخ كركے فرمايا:
''اب بتلائو تم كيا كہتے ہو؟ اور تمہارا كيا خيال ہے كہ ميںتمہارے بارے ميں كيا حكم دوں گا؟ انہوں نے عرض كيا: ہم آپ سے نيكى اور بھلائي كے سواراور كوئي توقع نہيںركھتےآپ(ص) ہمارے بزرگواربھائي اور ہمارے بزرگوار بھائي كے فرزند ہيں،آج آپ بر سر اقتدار آگئے ہيں، ہيں بخش ديجئے ،پيغمبر (ص) كى آنكھوں ميں آنسو ڈبڈبانے لگے اورمكہ كے لوگ بھى بلند آواز كے ساتھ رونے لگے_
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: ''ميں تمہارے بارے ميں وہى بات كہتا ہوں جو ميرے بھائي يوسف عليہ السلام نے كى تھى كہ آج تمہارے اوپر كسى قسم كى كوئي سرزنش اور ملامت نہيں ہے، خدا تمہےں بخش دے گا،وہ الرحم الراحمين ہے''_(1)
اور اس طرح سے آپ نے ان سب كو معاف كرديا اور فرمايا: ''تم سب آزاد ہو،جہاں چاہو جاسكتے ہو''_
(1)سورہ يوسف آيت 92
پيغمبر (ص) نے يہ حكم دياتھا كہ آپ كے لشكرى كسى سے نہ الجھيں اور بالكل كوئي خون نہ بہايا جائے_ ايك روايت كے مطابق صرف چھ افراد كو مستثنى كيا گيا جو بہت ہى بد زبان اور خطرناك لوگ تھے_
يہاں تك كہ جب آپ(ص) نے يہ سنا كہ لشكر اسلام كے علمدار''سعد بن عبادہ نے انتقام كا نعرہ بلند كيا ہے اور وہ يہ كہہ رہا ہے كہ:'' آج انتقام كا دن ہے'' تو پيغمبر (ص) نے على عليہ السلام سے فرمايا، ''جلدى سے جاكر اس سے علم لے كر يہ نعرہ لگائو كہ:
'' آج عفو وبخشش اور رحمت كا دن ہے''_
اور اس طرح مكہ كسى خونريزى كے بغير فتح ہوگيا،عفوورحمت اسلام كى اس كشش نے،جس كى انہيں بالكل توقع نہيں تھي،دلوں پر ايسا اثر كيا كہ لوگ گروہ در گروہ آكر مسلمان ہوگئے،اس عظيم فتح كى صدا تمام جزائر عربستان ميں جاپہنچي،اسلام كى شہرت ہر جگہ پھيل گئي اور مسلمانوں اور اسلام كى ہر جہت سے دھاك بيٹھ گئي _
جب پيغمبر اكرم (ص) خانہ كعبہ كے دروازے كے سامنے كھڑے ہوئے تھے تو آپ نے فرمايا:
''خداكے سوا اور كوئي معبود نہيںہے،وہ يكتا اور يگانہ ہے،اس نے آخر كار اپنے وعدہ كو پورا كرديا، اور اپنے بندہ كى مددكي،اور اس نے خود اكيلے ہى تمام گروہوں كو شكست دےدي، ان لوگوں كا ہر مال ،ہر امتياز ،اورہر وہ خون جس كاتعلق ماضى اور زمانہ جاہليت سے ہے،سب كے سب ميرے ان دونوں قدموں كے نيچے ہيں''_
(يعنى زمانہ جاہليت ميں ہوئے خون خرابہ كو بھول جاو ،غارت شدہ اموال كى بات نہ كرو اور زمانہ جاہليت كے تمام امتيازات كو ختم كر ڈالو، خلاصہ گذشتہ فائلوں كو بند كر ديا جائے _)
يہ ايك بہت ہى اہم اور عجيب قسم كى پيش نہاد تھى جس ميں عمومى معافى كے فرمان سے حجاز كے لوگوں كو
ان كے تاريك اور پُر ماجرا ماضى سے كاٹ كر ركھ ديا اور انہيں اسلام كے سائے ميں ايك نئي زندگى بخشى جو ماضى سے مربوط كشمكشوں اور جنجالوں سے مكمل طور پر خالى تھي_
اس كام نے اسلام كى پيش رفت كے سلسلہ ميں بہت زيادہ مد دكى اور يہ ہمارے آج اور آنے والے كل كے لئے ايك دستو رالعمل ہے_
پيغمبر اكرم (ص) نے كوہ صفا پر قيام فرمايا،او رمردوں سے بيعت لي،بعدہ مكہ كى عورتيں جو ايمان لے آئي تھيں بيعت كرنے كے لئے آپ(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئيں تووحى الہى نازل ہوئي اور ان كى بيعت كى تفصيل بيان كى _
روئے سخن پيغمبر (ص) كى طرف كرتے ہوئے فرماتا ہے :
''اے پيغمبر جب مومن عورتيں تيرے پاس آئيں او ران شرائط پر تجھ سے بيعت كرليں كہ وہ كسى چيز كو خداكا شريك قرار نہيں ديں گي، چورى نہيں كريں گى ،زنا سے آلودہ نہيں ہوںگي،اپنى اولاد كو قتل نہيں كريں گي،اپنے ہاتھوں اورپائوں كے آگے كوئي افتراء اور بہتان نہيں باندھيں گى اور كسى شائستہ حكم ميں تيرى نافرمانى نہيں كريں گى تو تم ان سے بيعت لے لو اوران كے لئے بخشش طلب كرو،بيشك خدا بخشنے ،والا اورمہربان ہے_ ''(1)
اس كے بعد پيغمبر (ص) نے ان سے بيعت لي_
بيعت كى كيفيت كے بارے ميں بعض مورخين نے لكھا ہے كہ پيغمبر (ص) نے پانى كاايك برتن لانے كا حكم ديا او راپنا ہاتھ پانى كے اس برتن ميں ركھ ديا،عورتيں اپنے ہاتھ برتن كے دوسرى طرف ركھ ديتى تھيں،جب كہ بعض نے كہا ہے پيغمبر (ص) لباس كے اوپر سے بيعت ليتے تھے _
(1)سورہ ممتنحہ آيت 12
فتح مكہ كے واقعہ ميں جن عورتوں نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر بيعت كى ان ميں سے ايك ابو سفيان كى بيوي''ہندہ''تھي، يعنى وہ عورت جس كى طرف سے تاريخ اسلام بہت سے دردناك واقعات محفوظ ركھے ہوئے ہے،ا ن ميں سے ايك ميدان احد ميں حمزہ سيدالشہداء (ع) كى شہادت كا واقعہ ہے كہ جس كى كيفيت بہت ہى غم انگيز ہے _
اگرچہ آخركاروہ مجبور ہوگئي كہ اسلام اور پيغمبر اسلام (ص) كے سامنے گھٹنے ٹيك دے او رظاہراً مسلمان ہو جائے ليكن اسكى بيعت كا ماجرا بتاتا ہے كہ وہ حقيقت ميں اپنے سابقہ عقائد كى اسى طرح وفادار تھى ،لہذا اس ميں تعجب كى كوئي بات نہيں ہے كہ بنى اميہ كا خاندان اور ہندہ كى اولادنے پيغمبر (ص) كے بعد اس قسم كے جرائم كا ارتكاب كيا كہ جن كى سابقہ زمانہ ميں كوئي نظير نہيں ملتى _
بہر حال مفسرين نے اس طرح لكھا ہے كہ ہند ہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالا ہوا تھا وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئي جب آپ كوہ صفا پر تشريف فرما تھے اور عورتوںكى ايك جماعت ہندہ كے ساتھ تھي، جب پيغمبر (ص) نے يہ فرماياكہ ميں تم عورتوںسے اس بات پر بيعت لتيا ہوں كہ تم كسى چيز كو خدا كا شريك قرار نہيں دو گي، تو ہندہ نے اعتراض كيا او ركہا:''آپ ہم سے ايسا عہد لے رہے ہيں جو آپ نے مردوں سے نہيں ليا ، (كيونكہ اس دن مردوں سے صرف ايمان اورجہاد پربيعت لى گئي تھى _)
پيغمبر (ص) نے اس كى بات كى پرواہ كئے بغير اپنى گفتگو كو جارى فرمايا:''كہ تم چورى بھى نہيں كرو گي،''ہند ہ نے كہا: ابو سفيان كنجوس اوربخيل آدمى ہے ميں نے اس كے مال ميں سے كچھ چيزيںلى ہيں، ميں نہيں جانتى كہ وہ انھيں مجھ پر حلال كرے گا يا نہيںابو سفيان موجود تھا ،اس نے كہا: جو كچھ تو نے گذشتہ زمانہ ميں ميرے مال ميںسے لے ليا ہے وہ سب ميں نے حلال كيا ،(ليكن آئندہ كے لئے پابندى كرنا _)
اس موقع پر پيغمبر (ص) ہنسے اور ہندہ كو پہچان كر فرمايا:''كيا تو ہندہ ہے''؟ اس نے كہا :جى ہاں ،يا
رسول اللہ پچھلے امور كو بخش ديجئے خدا آپ كو بخشے ''_
پيغمبر (ص) نے اپنى گفتگو كو جارى ركھا:''او رتم زنا سے آلودہ نہيں ہوگي،''ہندہ نے تعجب كرتے ہوئے كہا:''كيا آزاد عورت اس قسم كا عمل بھى انجام ديتى ہے؟''حاضرين ميںسے بعض لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اس كى حالت سے واقف تھے اس كى اس بات پر ہنس پڑے كيونكہ ہندہ كا سابقہ زمانہ كسى سے مخفى نہيں تھا_
پھر پيغمبر (ص) نے اپنى بات كو جارى ركھتے ہوئے فرمايا:
''اور تم اپنى اولاد كو قتل نہيں كروگى ''_
ہند نے كہا:''ہم نے تو انھيں بچپن ميں پالا پوسا تھا،مگر جب وہ بڑے ہوئے تو آپ نے انھيں قتل كرديا، اب آپ او روہ خود بہتر جانتے ہيں''_( اس كى مراد اس كا بيٹا ''حنظلہ''تھا جو بدر كے دن على عليہ السلام كے ہاتھوں ماراگيا تھا_)
پيغمبر (ص) نے اس كى اس بات پر تبسم فرمايا، او رجب آپ اس بات پر پہنچے او رفرمايا:
''تم بہتان او رتہمت كو روا نہيں ركھوگى ''_
تو ہندہ نے كہا:''بہتان قبيح ہے او رآپ ہميں صلاح و درستى ،نيكى او رمكارم اخلاق كے سوا او ركسى چيز كى دعوت نہيں ديتے''_
جب آپ نے يہ فرمايا:
''تم تمام اچھے كاموں ميں ميرے حكم كى اطاعت كروگى ''_تو ہندہ نے كہا:''ہم يہاں اس لئے نہيں بيٹھے ہيں كہ ہمارے دل ميں آپ كى نافرمانى كاارادہ ہو''_
(حالانكہ مسلمہ طور پر معاملہ اس طرح نہيں تھا، ليكن تعليمات اسلامى كے مطابق پيغمبر (ص) اس بات كے پابند تھے كہ ان كے بيانات كو قبول كرليں_
index | back |