next index  

حضرت رسول اكرم (ص)

حضرت رسول اكرم (ص)

نبوت سے پہلے آنحضرت (ص) كس دين پر تھے؟

اس بات ميں تو شك كى گنجائشے ہى نہيں كہ بعثت سے پہلے آنحضرت(ص) نے نہ تو كسى بت كو سجدہ كيا اور نہ ہى تو حيد كى راہ سے سر موانحراف كيا،ليكن سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ وہ كس دين پر پابندتھے؟ تو اس بارے ميں علماء كى آراء مختلف ہيں_

بعض كہتے ہيں كہ آپ(ص) دين مسيح(ع) پر تھے،كيونكہ آنحضرت(ص) كى بعثت سے پہلے جو مستقل،قانونى اور غير منسوخ دين تھا وہ حضرت عيسى (ع) كا دين ہى تھا_

بعض علماء آپ(ص) كو دين ابراہيمى پرپا بند سمجھتے ہيں_ كيونكہ جناب ابراہيم(ع) شيخ الانبياء اور ابوالانبياء تھے اور قرآن كى بعض آيات ميں بھى دين اسلام كا دين ابراہيم(ع) كے نام سے تعارف كروايا گيا ہے_ (1)

بعض علماء نے اس بارے ميں اپنى لا علمى كا اظہار كيا ہے اور دليل يہ دى ہے كہ يقينا آپ(ص) كسى دين پر تو پا بند تھے ليكن يہ نہيں معلوم كہ وہ كونسا دين تھا؟


(1)''ملة ابيكم ابراھيم'' (سورہ حج ايت 78)

اگر چہ ان احتمالات ميں سے ہر ايك كى اپنى جگہ پر دليل تو ہے ليكن مسلم كوئي بھى نہيں_ البتہ ان تينوں اقوال سے ہٹ كر ايك چوتھااحتمال زيادہ مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ يہ كہ''آنحضرت(ص) خداوند عالم كى طرف سے اپنے لئے ايك خاص پروگرام ركھتے تھے،اور اسى پر عمل پيرا تھے اور درحقيقت يہ آپ(ص) كى ذات كے ليے مخصوص ايك دين تھا،جب تك كہ اسلام نازل نہيں ہوگيا''_

اس قول پر وہ حديث شاہد ہے جو نہج البلاغہ ميں موجود ہے :

''جس وقت سے پيغمبر(ص) كى دودھ بڑھائي ہوئي،اللہ نے اپنے فرشتوں ميں سے ايك عظيم فرشتے كو آپ(ص) كے ساتھ ملاديا،جوشب وروز مكارم الاخلاق اور نيك راستوں پر آپ(ص) كو اپنے ساتھ ركھتا''_

اس قول كا ايك اور گواہ يہ ہے كہ كسى بھى تاريخ ميں نہيں ملتاكہ پيغمبر اسلام(ص) يہوديا نصارى ياكسى اور مذہب كے عبادت خانوں ميں عبادت كے ليے تشريف لے گئے ہوں،نہ تو كفار كے ساتھ مل كر كبھى كسى بت خانے ميںگئے اور نہ ہى اہل كتاب كے ساتھ كسى عبادت خانے ميں بلكہ ہميشہ راہ توحيد پر گامزن رہے اور آپ(ص) اخلاقى اصولوں اور عبادت الہى كے سخت پابند تھے_

بحار الانوار ميں علامہ مجلسي كے مطابق ،بہت سى اسلامى روايات اس بات كا پتہ ديتى ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) اپنى عمر كے آغاز ہى سے روح القدس كے ساتھ مو يد تھے اور اس تائيد كے ساتھ يقيناوہ روح القدس كى راہنمائي كے مطابق عمل كيا كرتے تھے_

علامہ مجلسي ذاتى طور پر اس بات كے معتقد ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) رسالت كے مرتبے پر فائز ہونے سے پہلے مقام نبوت پر فائز تھے،اور كبھى آپ(ص) ان كى آواز سنا كرتے تھے اور كبھى سچے خواب كى صورت ميں آپ(ص) پر خدائي الہام ہوا كرتاتھا_ چاليس سال كے بعد اعلان رسالت كا حكم ہوا اور اسلام و قرآن با قاعدہ طور پر آپ(ص) پر نازل ہوئے_

علامہ مجلسي نے اپنے اس مدعا پر چھ دلائل ذكر كئے ہيں جن ميں سے كچھ ان دلائل كے ساتھ ملتے جلتے اور ہم آہنگ ہيں جو ہم اوپر بيان كرچكے ہيں_

آغاز وحي

پيغمبر اكرم (ص) كوہ حرا پر گئے ہوئے تھے كہ جبرئيل آئے اور كہا : اے محمد پڑھ:پيغمبر (ص) نے فرمايا ميں پڑھا ہوانہيں ہوں _ جبرئيل نے انہيں آغوش ميں لے كردبايا اور پھر دوبارہ كہا : پڑھ، پيغمبر (ص) نے پھر اسى جواب كو دہرايا_ اس كے بعد جبرئيل نے پھر وہى كام كيا اور وہى جواب سنا ، اور تيسرى باركہا: ( اقراباسم ربك الذى خلق)(1)

جبرئيل (ع) يہ بات كہہ كر پيغمبر (ص) كى نظروں سے غائب ہوگئے رسول خدا (ص) جو وحى كى پہلى شعاع كو حاصل كرنے كے بعد بہت تھكے ہوئے تھے خديجہ كے پاس آئے اور فرمايا : '' زملونى ودثرونى '' مجھے اڑھادو اور كوئي كپڑا ميرے اوپر ڈال دوتاكہ ميں آرام كروں _

''علامہ طبرسي'' بھى مجمع البيان ميں يہ نقل كرتے ہيں كہ رسو لخدا (ص) نے خديجہ سے فرمايا :

''جب ميں تنہا ہوتا ہوں تو ايك آواز سن كر پريشان ہوجاتاہوں '' _ حضرت خديجہ(ع) نے عرض كيا : خداآپ كے بارے ميں خير اور بھلائي كے سواكچھ نہيں كرے گا كيونكہ خدا كى قسم آپ امانت كو ادا كرتے ہيں اور صلہ رحم بجالاتے ہيں 'اور جوبات كرتے ہيں اس ميں سچ بولتے ہيں_


(1) سورہ علق آيت 1

''خديجہ''(ع) كہتى ہيں : اس واقعہ كے بعد ہم ورقہ بن نوفل كے پاس گئے (نوفل خديجہ كا زاد بھائي اور عرب كے علماء ميں سے تھا )رسول اللہ (ص) نے جو كچھ ديكھا تھا وہ'' ورقہ'' سے بيان كيا '' ورقہ '' نے كہا : جس وقت وہ پكارنے والا آپ كے پاس آئے تو غور سے سنو كہ وہ كيا كہتا ہے ؟ اس كے بعد مجھ سے بيان كرنا_

پيغمبر (ص) نے اپنى خلوت گاہ ميں سنا كہ وہ كہہ رہاہے :

اے محمد كہو :

'' بسم اللّہ الرحمن الرحيم الحمد للّہ رب العالمين الرحمن الرحيم مالك يوم الدين اياك نعبدواياك نستعين اھدنا الصراط المستقيم صراط الذين انعمت عليہم غيرالمغضوب عليہم ولاالضالين''_

اور كہو '' لاالہ الاالله '' اس كے بعد آپ ورقہ كے پاس آئے اور اس ماجرے كو بيان كيا _

'' ورقہ '' نے كہا : آپ كو بشارت ہو ' پھر بھى آپ كو بشارت ہو _ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ وہى ہيں جن كى عيسى بن مريم نے بشارت دى ہے' آپ موسى عليہ السلام كى طرح صاحب شريعت ہيں اور پيغمبر مرسل ہيں _ آج كے بعد بہت جلدہى جہاد كے ليے مامور ہوں گے اور اگر ميں اس دن تك زندہ رہا تو آپ كے ساتھ مل كر جہاد كروں گا '' جب '' ور قہ دنيا سے رخصت ہو گيا تو رسول خدا (ص) نے فرمايا:

''ميں نے اس روحانى شخص كو بہشت (برزخى جنت ) ميں ديكھا ہے كہ وہ جسم پر ريشمى لباس پہنے ہوئے تھا' كيونكہ وہ مجھ پر ايمان لايا تھا اور ميرى تصديق كى تھي_ ''(1)


(1)يقينى طورپر مفسرين كے بعض كلمات يا تاريخ كى كتابوں ميں پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى كى اس فصل كے بارے ميں ايسے ناموزوںمطالب نظرآتے ہيں جو مسلمہ طور پر جعلي' وضعى ' گھڑى ہوئي روايات اور اسرائيليات سے ہيں ' مثلاًيہ كہ پيغمبر (ص) نزول وحى كے پہلے واقعہ كے بعد بہت ہى ناراحت ہوئے اور ڈرگئے كہ كہيں يہ شيطانى القاآت نہ ہوں ' يا آپ نے كئي مرتبہ

پہلا مسلمان(1)

اس سوال كے جواب ميں سب نے متفقہ طور پر كہا ہے كہ عورتوں ميں سے جو خاتون سب سے پہلے مسلمان ہوئيں وہ جناب خديجہ(ع) تھيں جو پيغمبر اكرم (ص) كى وفاداراور فدا كار زوجہ تھيں باقى رہا مردوں ميں سے تو تمام شيعہ علماء ومفسرين اور اہل سنت علماء كے ايك بہت بڑے گروہ نے كہا ہے كہ حضرت على (ع) وہ پہلے شخض تھے جنہوںنے مردوں ميں سے دعوت پيغمبر (ص) پر لبيك كہى علماء اہل سنت ميں اس امركى اتنى شہرت ہے كہ ا ن ميں سے ايك جماعت نے اس پر اجماع واتفاق كا دعوى كيا ہے ان ميں سے حاكم نيشاپورى (2)نے كہا ہے :

مورخين ميں اس امر پر كوئي اختلاف نہيں كہ على ابن ابى طالب اسلام لانے والے پہلے شخص ہيں _ اختلاف اسلام قبول كرتے وقت انكے بلوغ كے بارے ميں ہے _

جناب ابن عبدالبر(3) لكھتے ہيں : اس مسئلہ پر اتفاق ہے كہ خديجہ(ع) وہ پہلى خاتون ہيںجو خدا اور


اس بات كا پختہ ارادہ كرليا كہ خود كو پہاڑ سے گراديں ' اور اسى قسم كے فضول اور بے ہودہ باتيں جو نہ تو نبوت كے بلند مقام كے ساتھ سازگار ہيں اور نہ ہى پيغمبر (ص) كى اس عقل اور حد سے زيادہ دانش مندى ' مدبريت ' صبر وتحمل وشكيبائي ' نفس پر تسلط اور اس اعتماد كو ظاہر كرتى ہيں جو تاريخوں ميں ثبت ہے _

ايسا دكھائي ديتا ہے كہ اس قسم كى ضعيف وركيك روايات دشمنان اسلام كى ساختہ وپرداختہ ہيں جن كا مقصد يہ تھا كہ اسلام كو بھى مورد اعتراض قراردے ديں اور پيغمبر اسلام (ص) كى ذات گرامى كو بھى _

(1)اس سوال كو اكثر مفسرين نے سورہ توبہ ايت100''السابقون الاولون''كے ضمن ميں بيان كيا ہے

(2)مستدرك على صحيحين كتاب معرفت ص22

(3)استيعاب ،ج 2 ص457

اس كے رسول پر ايمان لائيں اور جو كچھ وہ لائے تھے اسى كى تصديق كى _ پھر حضرت على نے ان كے بعد يہى كام انجام ديا _(1)

ابوجعفر الكافى معتزلى لكھتا ہے : تمام لوگوں نے يہى نقل كيا ہے كہ سبقت اسلام كا افتخار على سے مخصوص ہے _(2) قطع نظر اس كے كہ پيغمبر اكرم (ص) سے،خود حضرت على (ع) سے اور صحابہ سے اس بارے ميں بہت سى روايات نقل ہوئي ہيں جو حد تواتر تك پہنچى ہوئي ہيں،ذيل ميں چند روايات ہم نمونے كے طور پر نقل كرتے ہيں : پيغمبر اكر م(ص) نے فرمايا :

1_پہلا شخص جو حوض كوثر كے كنارے ميرے پاس پہنچے گا وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اسلام لايا اور وہ على بن ابى طالب ہے_ (3)

2_ علماء اہل سنت كے ايك گروہ نے پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے حضرت على (ع) كا ہاتھ پكڑكر فرمايا :

يہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ايمان لايا اور پہلا شخص ہے جو قيامت ميں مجھ سے مصافحہ كرے گا اور يہ ''صديق اكبر'' ہے _(4)

3_ابو سعيد خدرى رسول اكرم (ص) سے نقل كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے حضرت على عليہ السلام كے دونوں شانوں كے درميان ہاتھ ماركر فرمايا :''اے على (ع) : تم سات ممتاز صفات كے حامل ہو كہ جن كے بارے ميں روز قيامت كوئي تم سے حجت بازى نہيں كرسكتا _ تم وہ پہلے شخص ہو جو خدا پر ايمان لائے اور خدائي پيمانوں كے زيادہ وفادار ہو اور فرمان خداكى اطاعت ميں تم زيادہ قيام كرنيوالے ہو ''(5)


(1)الغدير ج ،3ص237

(2)الغدير ج ،3ص237

(3)الغديرميں يہ حديث مستدرك حاكم ج2ص6 13 ،استيعاب ج2 ص 457 اور شرح ابن ابى الحديد ج 3 ص 258 سے نقل كى گئي ہے

(4) الغدير ہى ميں يہ حديث طبرانى اور بيہقى سے نقل كى گئي ہے نيز بيہقى نے مجمع ميں، حافظ گنجى نے كفايہ اكمال ميں اور كنز العمال ميں نقل كى ہے

(5) الغدير ميں يہ حديث حليتہ الاولياء ج اص 66 كے حوالے سے نقل كى گئي ہے

تحريف تاريخ

يہ امر لائق توجہ ہے كہ بعض لوگ ايسے بھى جوايمان اوراسلام ميں حضرت على كى سبقت كا سيدھے طريقے سے تو انكار نہيں كرسكے ليكن كچھ واضح البطلان علل كى بنياد پر ايك اور طريقے سے انكار كى كوشش كى ہے يا اسے كم اہم بنا كر پيش كيا ہے بعض نے كو شش كى ہے ان كى جگہ حضرت ابوبكر كو پہلا مسلمان قرار ديں يہ لوگ كبھى كہتے ہيں كہ على اس وقت دس سال كے تھے لہذا طبعاًنا با لغ تھے اس بناء پر ان كا اسلام ايك بچے كے اسلام كى حيثيت سے دشمن كے مقابلے ميںمسلمانوں كے محاذ كے ليے كوئي اہميت نہيں ركھتا تھا_(1)

يہ بات واقعاً عجيب ہے اور حقيقت ميں خود پيغمبر خدا پر اعتراض ہے كيونكہ ہميں معلوم ہے كہ يوم الدار(دعوت ذى العشيرہ كے موقع پر )رسول اللہ (ص) نے اسلام اپنے قبيلے كے سامنے پيش كيا اور كسى نے حضرت علي(ع) كے سوا اسے قبول نہ كيا اس وقت حضرت على كھڑے ہوگئے اور اسلام كا اعلان كيا تو آپ نے ان كے اسلام كو قبول كيا بلكہ يہاں تك اعلان كيا كہ تو ميرے بھائي ،ميرا وصى اور ميرا خليفہ ہے _

يہ وہ حديث ہے جو شيعہ سنى حافظان حديث نے كتب صحاح اور مسانيد ميںنقل كى ہے، اسى طرح كئي مورخين اسلام نے اسے نقل كيا ہے يہ نشاندہى كرتى ہے كہ رسول اللہ (ص) نے حضرت على (ع) كى اس كم سنى ميں نہ صرف ان كا اسلام قبول كيا ہے بلكہ ان كا اپنے بھائي ، وصى اور جانشين كى حيثيت سے تعارف بھى كروايا ہے _(2)

كبھى كہتے ہيں كہ عورتوں ميں پہلى مسلمان خديجہ تھيں ، مردوں ميں پہلے مسلمان ابوبكر تھے اور بچوں


(1)يہ بات فخرالدين رازى نے اپنى تفسير ميںسورہ توبہ آيت 100 كے ذيل ميں ذكر كى ہے

(2)يہ حديث مختلف عبارات ميں نقل ہوئي ہے اور جو كچھ ہم نے بيان كيا ہے اسے ابو جعفر اسكافى نے كتاب ''نہج العثمانيہ'' ميں ،برہان الدين نے'' نجبا الانبا'' ميں ،ابن اثير نے كامل ميں اور بعض ديگر علماء نے نقل كيا ہے (مزيد وضاحت كے لئے الغدير،عربى كى جلد دوم ص278 تا286كى طرف رجوع كريں)

ميں پہلے مسلمان على تھے يوں دراصل وہ اس امر كى اہميت كم كرنا چاہتے ہيں (1)

حالانكہ اول تو جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں حضرت على عليہ السلام كى اہميت اس وقت كى سن سے اس امر كى اہميت كم نہيں ہوسكتى خصوصاً جب كہ قرآن حضرت يحيي(ع) كے بارے ميں كہتا ہے : ''ہم نے اسے بچپن كے عالم ميں حكم ديا''_ (2)

حضرت عيسى عليہ السلام كے بارے ميں بھى ہے كہ وہ بچپن كے عالم ميں بھى بول اٹھے اور افراد ان كے بارے ميں شك كرتے تھے ان سے كہا : ''ميں اللہ كا بندہ ہوں مجھے اس نے آسمانى كتاب دى اور مجھے نبى بنايا ہے ''_(3)

ايسى آيات كو اگر ہم مذكورہ حديث سے ملاكرديكھيں كہ جس ميں آپ نے حضرت على (ع) كو اپنا وصي، خليفہ اور جانشين قرار ديا ہے توواضح ہوجاتاہے كہ صاحب المنار كى متعصبانہ گفتگو كچھ حيثيت نہيں ركھتى _

دوسرى بات يہ ہے كہ يہ امرتاريخى لحاظ سے مسلم نہيں ہے كہ حضرت ابوبكر اسلام لانے والے تيسرے شخص تھے بلكہ تاريخ وحديث كى بہت سى كتب ميں ان سے پہلے بہت سے افراد كے اسلام قبول كرنے ذكر ہے _ يہ بحث ہم اس نكتے پر ختم كرتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے خود اپنے ارشادات ميں اس امر كى طرف اشارہ كيا ہے كہ ميں پہلا مومن ، پہلا مسلمان اور سول اللہ (ص) كے ساتھ پہلا نماز گذارہوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام وحيثيت كو واضح كيا ہے يہ بات آپ سے بہت سى كتب ميں منقول ہے_

علاوہ ازيں ابن ابى الحديد مشہور عالم ابو جعفر اسكافى معتزلى سے نقل كرتے ہيں كہ يہ جو بعض لوگ كہتے ہيں كہ ابوبكر اسلام ميں سبقت ركھتے تھے اگر يہ امر صحيح ہے تو پھر خود انھوں نے اس سے كسى مقام پر اپنى فضيلت كے ليے استدلال كيوں نہيں كيا اور نہ ہى ان كے حامى كسى صحابى نے ايسا دعوى كيا ہے_(4)


(1)يہ تعبير مشہور اور متعصب مفسر مو لف المنارنے بھى سورہ توبہ آيت 100كے ذيل ميں ذكر ہے

(2)سورہ مريم آيت12

(3)سورہ مريم آيت 30

(4)الغدير ج2 ص 240

دعوت ذوالعشيرة

تاريخ اسلام كى رو سے آنحضرت (ص) كو بعثت كے تيسرے سال اس دعوت كا حكم ہوا كيونكہ اب تك آپ كى دعوت مخفى طورپرجارى تھى اور اس مدت ميں بہت كم لوگوں نے اسلام قبول كيا تھا ،ليكن جب يہ آيت نازل ہوئي '' وانذر عشيرتك الا قربين '' (1)

اور يہ آيت بھى '' فاصدع بما تومرواعرض عن المشركين '' (2) تو آپ كھلم كھلا دعوت دينے پر مامور ہوگئے اس كى ابتداء اپنے قريبى رشتہ داروں سے كرنے كا حكم ہوا _

اس دعوت اور تبليغ كى اجمالى كيفيت كچھ اس طرح سے ہے : آنحضرت (ص) نے اپنے قريبى رشتہ داروں كو جناب ابوطالب كے گھر ميں دعوت دى اس ميںتقريباً چاليس افراد شريك ہوئے آپ كے چچائوں ميں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولہب نے بھى شركت كى _

كھانا كھالينے كے بعد جب آنحضرت (ص) نے اپنا فريضہ ادا كرنے كا ارادہ فرمايا تو ابولہب نے بڑھ كر كچھ ايسى باتيں كيں جس سے سارا مجمع منتشر ہوگيالہذا آپ نے انھيں كل كے كھانے كى دعوت دے دى _

دوسرے دن كھانا كھانے كے بعد آپ نے ان سے فرمايا : '' اے عبد المطلب كے بيٹو: پورے عرب ميں مجھے كوئي ايسا شخص دكھائي نہيں ديتا جو اپنى قوم كے ليے مجھ سے بہتر چيز لايا ہو ، ميں تمہارے ليے دنيا اور آخرت كى بھلائي لے كر آيا ہوں اور خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمھيں اس دين كى دعوت دوں ، تم ميں سے كون


(1) سورہ شعراء آيت 214

(2)سورہ حجرات آيہ 94

ہے جو اس كام ميں ميرا ہاتھ بٹائے تاكہ وہ ميرا بھائي ، ميرا وصى اور ميرا جانشين ہو'' ؟ سب لوگ خاموش رہے سوائے على بن ابى طالب كے جو سب سے كم سن تھے، على اٹھے اور عرض كى : ''اے اللہ كے رسول اس راہ ميں ميں آپ(ص) كا ياروومددگار ہوں گا'' آنحضرت (ص) نے اپنا ہاتھ على (ع) كى گردن پر ركھا اور فرمايا : ''ان ھذا اخى ووصى وخليفتى فيكم فاسمعوالہ واطيعوہ ''_ يہ (على (ع) ) تمہارے درميان ميرا بھائي ، ميرا وصى اور ميرا جانشين ہے اس كى باتوں كو سنو اور اس كے فرمان كى اطاعت كرو _ يہ سن كر سب لوگ اٹھ كھڑے ہوئے اور تمسخر آميز مسكراہٹ ان كے لبوں پر تھى ، ابوطالب (ع) سے سے كہنے لگے، ''اب تم اپنے بيٹے كى باتوں كو سنا كرو اور اس كے فرمان پر عمل كيا كرنا''_(1)

اس روايت سے معلوم ہوتا ہے كہ آنحضرت (ص) ان دنوں كس حدتك تنہا تھے اور لوگ آپ كى دعوت كے جواب ميں كيسے كيسے تمسخرآميزجملے كہا كرتے تھے اور على عليہ السلام ان ابتدائي ايام ميں جب كہ آپ بالكل تنہا تھے كيونكر آنحضرت (ص) كے مدافع بن كر آپ كے شانہ بشانہ چل رہے تھے_

ايك اور روايت ميں ہے كہ پيغمبراكرم (ص) نے اس وقت قريش كے ہر قبيلے كا نام لے لے كر انھيں بلايا اور انھيں جہنم كے عذاب سے ڈرايا، كبھى فرماتے:'' يابنى كعب انقذواانفسكم من النار ''_

اے بنى كعب : خود كو جہنم سے بچائو، كبھى فرماتے : ''يا بنى عبد الشمس'' __ كبھى فرماتے :'' يابنى عبدمناف'' _كبھى فرماتے : ''يابنى ہاشم ''_كبھى فرماتے : ''يابنى عبد المطلب انقذ وانفسكم النار ''_ تم خودہى اپنے آپ كو جہنم سے بچائو ، ورنہ كفر كى صورت ميں ميں تمہارا دفاع نہيں كرسكوں گا _


(1)اس روايت كو بہت سے اہل سنت علماء نے نقل كيا ہے جن ميں سے چند ايك كے نام يہ ہيں :

ابن ابى جرير، ابن ابى حاتم ، ابن مردويہ ، ابونعيم ، بيہقى ، ثعلبى اور طبرى مورخ ابن اثير نے يہ واقعہ اپنى كتاب '' كامل '' ميں اور '' ابوالفداء '' نے اپنى تاريخ ميں اور دوسرے بہت سے مورخين نے اپنى اپنى كتابوں ميں اسے درج كيا ہے مزيد اگاہى كے لئے كتاب'' المرجعات ''ص130 كے بعد سے اور كتاب ''احقاق الحق''ج2،ص62 ملاحظہ فرمائيں

ايمان ابوطالب

تمام علمائے شيعہ اور اہل سنت كے بعض بزرگ علماء مثلاً ''ابن ابى الحديد''شارح نہج البلاغہ نے اور''قسطلاني'' نے ارشاد السارى ميں اور'' زينى دحلان'' نے سيرةحلبى كے حاشيہ ميں حضرت ابوطالب كو مومنين اہل اسلام ميں سے بيان كيا ہے_اسلام كى بنيادى كتابوں كے منابع ميں بھى ہميںاس موضوع كے بہت سے شواہد ملتے ہيں كہ جن كے مطالعہ كے بعد ہم گہرے تعجب اور حيرت ميں پڑجاتے ہيں كہ حضرت ابوطالب پرايك گروہ كى طرف سے اس قسم كى بے جا تہميںكيوں لگائي گئيں ؟

جو شخص اپنے تمام وجود كے ساتھ پيغمبر اسلام كا دفاع كيا كرتا تھا اور بار ہا خوداپنے فرزند كو پيغمبراسلام كے وجود مقدس كو بچانے كے لئے خطرات كے مواقع پر ڈھال بناديا كرتا تھايہ كيسے ہوسكتا ہے كہ اس پر ايسى تہمت لگائي جائے_

يہى سبب ہے كہ دقت نظر كے ساتھ تحقيق كرنے والوں نے يہ سمجھا ہے كہ حضرت ابوطالب كے خلاف، مخالفت كى لہر ايك سياسى ضرورت كى وجہ سے ہے جو '' شجرہ خبيثہ بنى اميّہ'' كى حضرت على عليہ السلام كے مقام ومرتبہ كى مخالفت سے پيداہوئي ہے_

كيونكہ يہ صرف حضرت ابوطالب كى ذات ہى نہيں تھى كہ جو حضرت على عليہ السلام كے قرب كى وجہ سے ايسے حملے كى زد ميں آئي ہو ،بلكہ ہم ديكھتے ہيں كہ ہر وہ شخص جو تاريخ اسلام ميں كسى طرح سے بھى اميرالمومنين حضرت على عليہ السلام سے قربت ركھتا ہے ايسے ناجو انمردانہ حملوں سے نہيں بچ سكا، حقيقت ميں

حضرت ابوطالب كا كوئي گناہ نہيں تھا سوائے اس كے وہ حضرت على عليہ السلام جيسے عظيم پيشوائے اسلام كے باپ تھے_

ايمان ابو طالب پر سات دليل

ہم يہاں پر ان بہت سے دلائل ميں سے جو واضح طور پر ايمان ابوطالب كى گواہى ديتے ہيں كچھ دلائل مختصر طور پر فہرست وار بيان كرتے ہيں تفصيلات كے لئے ان كتابوں كى طرف رجوع كريں جو اسى موضوع پر لكھى گئي ہيں_

1_ حضرت ابوطالب پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت سے پہلے خوب اچھى طرح سے جانتے تھے كہ ان كا بھتيجا مقام نبوت تك پہنچے گا كيونكہ مورخين نے لكھا ہے كہ جس سفر ميں حضرت ابوطالب قريش كے قافلے كے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتجے محمد (ص) كو بھى اپنے ساتھ لے گئے تھے _ اس سفر ميں انہوں نے آپ سے بہت سى كرامات مشاہدہ كيں_

ان ميں ايك واقعہ يہ ہے كہ جو نہيں قافلہ ''بحيرا''نامى راہب كے قريب سے گزرا جو قديم عرصے سے ايك گرجے ميں مشغول عبادت تھا اور كتب عہدين كا عالم تھا ،تجارتى قافلے اپنے سفر كے دوران اس كى زيارت كے لئے جاتے تھے، توراہب كى نظريں قافلہ والوں ميں سے حضرت محمد (ص) پر جم كررہ گئيں، جن كى عمراس وقت بارہ سال سے زيادہ نہ تھى _

بحيرانے تھوڑى دير كے لئے حيران وششدر رہنے اور گہرى اور پُرمعنى نظروں سے ديكھنے كے بعد كہا:يہ بچہ تم ميں سے كس سے تعلق ركھتا ہے؟لوگوں نے ابوطالب كى طرف اشارہ كيا، انہوں نے بتايا كہ يہ ميرا بھتيجا ہے_

'' بحيرا'' نے كہا : اس بچہ كا مستقبل بہت درخشاں ہے، يہ وہى پيغمبر ہے كہ جس كى نبوت ورسالت كى آسمانى كتابوں نے خبردى ہے اور ميں نے اسكى تمام خصوصيات كتابوں ميں پڑھى ہيں _

ابوطالب اس واقعہ اور اس جيسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھى پيغمبر اكرم (ص) كى

نبوت اور معنويت كو سمجھ چكے تھے _

اہل سنت كے عالم شہرستانى (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء كى نقل كے مطابق: ''ايك سال آسمان مكہ نے اپنى بركت اہل مكہ سے روك لى اور سخت قسم كى قحط سالى نے لوگوں كوگھير لياتو ابوطالب نے حكم ديا كہ ان كے بھتيجے محمد كو جو ابھى شير خوارہى تھے لاياجائے، جب بچے كو اس حال ميں كہ وہ ابھى كپڑے ميں لپيٹا ہوا تھا انہيں ديا گيا تو وہ اسے لينے كے بعد خانہ كعبہ كے سامنے كھڑے ہوگئے اور تضرع وزارى كے ساتھ اس طفل شير خوار كو تين مرتبہ اوپر كى طرف بلند كيا اور ہر مرتبہ كہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ كے حق كا واسطہ ہم پر بركت والى بارش نازل فرما _

كچھ زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ افق كے كنارے سے بادل كا ايك ٹكڑا نمودار ہوا اور مكہ كے آسمان پر چھا گيا اور بارش سے ايسا سيلاب آيا كہ يہ خوف پيدا ہونے لگا كہ كہيں مسجد الحرام ہى ويران نہ ہوجائے ''_

اس كے بعد شہرستانى لكھتا ہے كہ يہى واقعہ جوابوطالب كى اپنے بھتيجے كے بچپن سے اس كى نبوت ورسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت كرتا ہے ان كے پيغمبر پر ايمان ركھنے كا ثبوت بھى ہے اور ابوطالب نے بعد ميں اشعار ذيل اسى واقعہ كى مناسبت سے كہے تھے :

و ابيض يستسقى الغمام بوجہہ

ثمال اليتامى عصمة الارامل

'' وہ ايسا روشن چہرے والا ہے كہ بادل اس كى خاطر سے بارش برساتے ہيں وہ يتيموں كى پناہ گاہ اور بيوائوں كے محافظ ہيں ''

يلوذ بہ الہلاك من آل ہاشم

فہم عندہ فى نعمة و فواضل

'' بنى ہاشم ميں سے جوچل بسے ہيں وہ اسى سے پناہ ليتے ہيں اور اسى كے صدقے ميں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہيں ،،

وميزان عدلہ يخيس شعيرة

ووزان صدق وزنہ غير ہائل

'' وہ ايك ايسى ميزان عدالت ہے كہ جو ايك جَوبرابر بھى ادھرادھر نہيں كرتا اور درست كاموں كا ايسا وزن كرنے والا ہے كہ جس كے وزن كرنے ميں كسى شك وشبہ كا خوف نہيں ہے ''

قحط سالى كے وقت قريش كا ابوطالب كى طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب كا خدا كو آنحضرت كے حق كا واسطہ دينا شہرستانى كے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظيم مورخين نے بھى نقل كيا ہے _''(1)

اشعار ابوطالب زندہ گواہ

2_اس كے علاوہ مشہور اسلامى كتابوں ميں ابوطالب كے بہت سے اشعار ايسے ہيں جو ہمارى دسترس ميں ہيں ان ميں سے كچھ اشعار ہم ذيل ميں پيش كررہے ہيں :

والله ان يصلواليك بجمعھم

حتى اوسدفى التراب دفينا

''اے ميرے بھتيجے خدا كى قسم جب تك ابوطالب مٹى ميںنہ سوجائے اور لحد كو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تك نہيں پہنچ سكيں گے''

فاصدع بامرك ماعليك غضاضتہ

وابشربذاك وقرمنك عيونا

''لہذا كسى چيز سے نہ ڈراور اپنى ذمہ دارى اور ماموريت كا ابلاع كر، بشارت دے اور آنكھوں كو ٹھنڈا كر''_


(1) علامہ امينى نے اسے اپنى كتاب''الغدير'' ميں'' شرح بخاري'' ،''المواہب اللدنيہ'' ،'' الخصائص الكبرى '' ،'' شرح بہجتہ المحافل'' ،''سيرہ حلبي''، '' سيرہ نبوي'' اور '' طلبتہ الطالب'' سے نقل كيا ہے

ودعوتنى وعلمت انك ناصحي

ولقد دعوت وكنت ثم امينا

''تونے مجھے اپنے مكتب كى دعوت دى اور مجھے اچھى طرح معلوم ہے كہ تيرا ہدف ومقصد صرف پندو نصيحت كرنا اور بيدار كرنا ہے، تو اپنى دعوت ميں امين اور صحيح ہے''

ولقد علمت ان دين محمد(ص)

من خير اديان البرية ديناً

'' ميں يہ بھى جانتا ہوں كہ محمد كا دين ومكتب تمام دينوں اور مكتبوں ميں سب سے بہتردين ہے''_

اور يہ اشعار بھى انہوں نے ہى ارشاد فرمائے ہيں :

الم تعلمواانا وجدنا محمد اً

رسولا كموسى خط فى اول الكتب

'' اے قريش كيا تمہيں معلوم نہيں ہے كہ محمد( (ص) )موسى (عليہ السلام) كى مثل ہيں اور موسى عليہ السلام كے مانند خدا كے پيغمبر اور رسول ہيں جن كے آنے كى پيشين گوئي پہلى آسمانى كتابوں ميں لكھى ہوئي ہے اور ہم نے اسے پالياہے''_

وان عليہ فى العباد محبة

ولاحيف فى من خصہ اللہ فى الحب

'' خدا كے بندے اس سے خاص لگائو ركھتے ہيں اور جسے خدا وندمتعال نے اپنى محبت كے لئے مخصوص كرليا ہو اس شخص سے يہ لگائوبے موقع نہيں ہے_''

ابن ابى الحديد نے جناب ابوطالب كے كافى اشعار نقل كرنے كے بعد (كہ جن كے مجموعہ كو ابن شہر آشوب نے '' متشابہات القرآن'' ميں تين ہزار اشعار كہا ہے) كہتا ہے : ''ان تمام اشعار كے مطالعہ سے ہمارے لئے كسى قسم كے شك وشبہ كى كوئي گنجائشے باقى نہيں رہ جاتى كہ ابوطالب اپنے بھتيجے كے دين پر ايمان

ركھتے تھے''_

3_ پيغمبر اكرم (ص) سے بہت سى ايسى احاديث بھى نقل ہوئي ہيں جو آنحضرت (ص) كى ان كے فدا كار چچا ابوطالب كے ايمان پر گواہى ديتى ہيں منجملہ ان كے كتاب '' ابوطالب مومن قريش'' كے مولف كى نقل كے مطابق ايك يہ ہے كہ جب ابوطالب كى وفات ہوگئي تو پيغمبر اكرم (ص) نے ان كى تشيع جنازہ كے بعد اس سوگوارى كے ضمن ميں جو اپنے چچا كى وفات كى مصيبت ميں آپ كررہے تھے آپ يہ بھى كہتے تھے:

''ہائے ميرے بابا ہائے ابوطالب ميں آپ كى وفات سے كس قدر غمگين ہوں كس طرح آپ كى مصيبت كو ميں بھول جائوں ، اے وہ شخص جس نے بچپن ميں ميرى پرورش اور تربيت كى اور بڑے ہونے پر ميرى دعوت پر لبيك كہى ، ميں آپ كے نزديك اس طرح تھا جيسے آنكھ خانہ چشم ميں اور روح بدن ميں''_

نيز آپ ہميشہ يہ كيا كرتے تھے :'' مانالت منى قريش شيئًااكرھہ حتى مات ابوطالب ''

''اہل قريش اس وقت تك كبھى ميرے خلاف ناپسنديدہ اقدام نہ كرسكے جب تك ابوطالب كى وفات نہ ہوگئي''_

4_ ايك طرف سے يہ بات مسلم ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كو ابوطالب كى وفات سے كئي سال پہلے يہ حكم مل چكا تھا كہ وہ مشركين كے ساتھ كسى قسم كا دوستانہ رابطہ نہ ركھيں ،اس كے باوجود ابوطالب كے ساتھ اس قسم كے تعلق اور مہرو محبت كا اظہار اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) انھيں مكتب توحيد كا معتقد جانتے تھے، ورنہ يہ بات كس طرح ممكن ہوسكتى تھى كہ دوسروں كو تو مشركين كى دوستى سے منع كريں اور خود ابوطالب سے عشق كى حدتك مہرومحبت ركھيں_

5_ان احاديث ميں بھى كہ جو اہل بيت پيغمبر كے ذريعہ سے ہم تك پہنچى ہيں حضرت ابوطالب كے ايمان واخلاص كے بڑى كثرت سے مدارك نظر آتے ہيں، جن كا يہاں نقل كرنا طول كا باعث ہوگا، يہ احاديث منطقى استدلالات كى حامل ہيں ان ميں سے ايك حديث چوتھے امام عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس ميں امام عليہ السلام نے اس سوال كے جواب ميں كہ كيا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دينے كے بعد ارشاد فرمايا:

''ان ھنا قوماً يزعمون انہ كافر'' ، اس كے بعد فرماياكہ: '' تعجب كى بات ہے كہ بعض لوگ يہ كيوں خيال كرتے ہيں كہ ابوطالب كا فرتھے_ كيا وہ نہيں جانتے كہ وہ اس عقيدہ كے ساتھ پيغمبر(ص) اور ابوطالب پر طعن كرتے ہيں كيا ايسا نہيں ہے كہ قرآن كى كئي آيات ميں اس بات سے منع كيا گيا ہے (اور يہ حكم ديا گيا ہے كہ ) مومن عورت ايمان لانے كے بعد كافر كے ساتھ نہيں رہ سكتى اور يہ بات مسلم ہے كہ فاطمہ بنت اسدرضى اللہ عنہا سابق ايمان لانے والوں ميں سے ہيں اور وہ ابوطالب كى زوجيت ميں ابوطالب كى وفات تك رہيں_''

ابوطالب تين سال تك شعب ميں

6_ان تمام باتوں كو چھوڑتے ہوئے اگرانسان ہر چيز ميں ہى شك كريں تو كم از كم اس حقيقت ميں تو كوئي شك نہيں كرسكتا كہ ابوطالب اسلام اور پيغمبر اكرم (ص) كے درجہ اول كے حامى ومددگار تھے ، ان كى اسلام اور پيغمبر كى حمايت اس درجہ تك پہنچى ہوئي تھى كہ جسے كسى طرح بھى رشتہ دارى اور قبائلى تعصبات سے منسلك نہيں كيا جاسكتا _

اس كا زندہ نمونہ شعب ابوطالب كى داستان ہے_ تمام مورخين نے لكھا ہے كہ جب قريش نے پيغمبر اكرم (ص) اور مسلمانوں كا ايك شديد اقتصادي، سماجى اور سياسى بائيكاٹ كرليا اور اپنے ہر قسم كے روابط ان سے منقطع كرلئے تو آنحضرت (ص) كے واحد حامى اور مدافع، ابوطالب نے اپنے تمام كاموں سے ہاتھ كھينچ ليا اور برابر تين سال تك ہاتھ كھينچے ركھا اور بنى ہاشم كو ايك درہ كى طرف لے گئے جو مكہ كے پہاڑوں كے درميان تھا اور ''شعب ابوطالب'' كے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سكونت اختيار كر لي_

ان كى فدا كارى اس مقام تك جا پہنچى كہ قريش كے حملوں سے بچانے كےلئے كئي ايك مخصوص قسم كے برج تعميركرنے كے علاوہ ہر رات پيغمبر اكرم (ص) كو ان كے بستر سے اٹھاتے اور دوسرى جگہ ان كے آرام كے لئے مہيا كرتے اور اپنے فرزند دلبند على كو ان كى جگہ پر سلاديتے اور جب حضرت على كہتے: ''بابا جان ميں تو اسى حالت ميں قتل ہوجائوں گا '' تو ابوطالب جواب ميں كہتے :ميرے پيارے بچے بردبارى اور صبر ہاتھ

سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت كى طرف رواںدواں ہے، ميں نے تجھے فرزند عبد اللہ كا فديہ قرار ديا ہے _

يہ بات اور بھى طالب توجہ ہے كہ جو حضرت على عليہ السلام باپ كے جواب ميں كہتے ہيں كہ بابا جان ميرا يہ كلام اس بناپر نہيں تھا كہ ميں راہ محمد ميں قتل ہونے سے ڈرتاہوں، بلكہ ميرا يہ كلام اس بنا پر تھا كہ ميں يہ چاہتا تھا كہ آپ كو معلوم ہوجائے كہ ميں كس طرح سے آپ كا اطاعت گزار اور احمد مجتبى كى نصرت ومدد كے لئے آمادہ و تيار ہوں_

قارئين كرام ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ جو شخص بھى تعصب كو ايك طرف ركھ كر غير جانبدارى كے ساتھ ابوطالب كے بارے ميں تاريخ كى سنہرى سطروں كو پڑھے گا تو وہ ابن ابى الحديد شارح نہج البلاغہ كا ہمصدا ہوكر كہے گا :

ولولا ابوطالب وابنہ لما مثل الدين شخصا وقاما

فذاك بمكة آوى وحامي وھذا بيثرب جس الحماما

'' اگر ابوطالب اور ان كا بيٹا نہ ہوتے تو ہرگزمكتب اسلام باقى نہ رہتا اور اپنا قدسيدھا نہ كرتا ،ابوطالب تو مكہ ميں پيغمبر كى مدد كےلئے آگے بڑھے اور على يثرب (مدينہ) ميں حمايت اسلام كى راہ ميں گرداب موت ميں ڈوب گئے''

ابوطالب كا سال وفات ''عام الحزن''

7_''ابوطالب كى تايخ زندگي، جناب رسالت مآب (ص) كے لئے ان كى عظيم قربانياں اور رسول اللہ اور مسلمانوں كى ان سے شديد محبت كو بھى ملحوظ ركھنا چاہئے ہم يہاں تك ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوطالب كى موت كے سال كا نام ''عام الحزن'' ركھا يہ سب باتيں اس امر كى دليل ہيں كہ حضرت ابوطالب كو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پيغمبر اسلام كى اس قدر مدافعت كرتے تھے وہ محض رشتہ دارى كى وجہ سے نہ تھى بلكہ اس دفاع ميں آپ كى حيثيت ايك مخلص، ايك جاں نثار اور ايسے فدا كار كى تھى جو اپنے رہبر اور پيشوا كا تحفظ كررہا ہو_''

* * * * *

ابولہب كى دشمني

اس كانام '' عبدالعزي'' (عزى بت كا بندہ ) اور اس كى كنيت ''ابولہب'' تھي_ اس كے ليے اس كنيت كا انتخاب شايد اس وجہ سے تھا كہ اس كا چہرہ سرخ اور بھڑكتا ہوا تھا، چونكہ لغت ميں لہب آگ كے شعلہ كے معنى ميں ہے _

وہ اور اس كى بيوى ''ام جميل''جو ابوسفيان كى بہن تھى ، پيغمبر اكرم (ص) كے نہايت بدزبان اور سخت ترين دشمنوں ميں سے تھے _

''طارق محارق '' نامى ايك شخص كہتاہے : ميں '' ذى المجاز '' كے بازار ميں تھا _(1)

اچانك ميں نے ايك جوان كو ديكھا جو پكار پكار كر كہہ رہا تھا: اے لوگو: لاالہ الا اللہ كا اقرار كر لو تو نجات پاجائوگے _ اور اس كے پيچھے پيچھے ميں نے ايك شخص كو ديكھا جو اس كے پائوں كے پچھلے حصہ پرپتھر مارتاجاتاہے جس كى وجہ سے اس كے پائوں سے خون جارى تھا اوروہ چلا چلا كر كہہ رہاتھا _اے لوگو يہ جھوٹاہے اس كى بات نہ ماننا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ جوان كون ہے ؟ تو لوگوں نے بتايا :'' يہ محمد، ، (ص) ہے جس كا گمان يہ ہے كہ وہ پيغمبر ہے اور يہ بوڑھا اس كا چچا ابولہب ہے جو جو اس كو جھوٹا سمجھتا ہے _


(1)ذى المجار عرفات كے نزديك مكہ سے تھوڑے سے فاصلہ پر ہے

''ربيع بن عباد'' كہتا ہے : ميں اپنے باپ كے ساتھ تھا، ميں نے رسول اللہ (ص) كو ديكھاكہ وہ قبائل عرب كے پاس جاتے اور ہر ايك كو پكار كر كہتے : ميں تمہارى طرف خدا كا بھيجا ہوا رسول ہوں : تم خدائے يگانہ كے سوا اور كسى كى عبادت نہ كرو اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائو _

جب وہ اپنى بات سے فارغ ہوجاتاتو ايك خوبرو بھينگا آدمى جو ان كے پيچھے پيچھے تھا، پكاركركہتا : اے فلاں قبيلے : يہ شخص يہ چاہتاہے كہ تم لات وعزى بت اور اپنے ہم پيمان جنوں كو چھوڑدو اور اس كى بدعت وضلالت كى پيروى كرنے لگ جائواس كى نہ سننا، اور اس كى پيروى نہ كرنا ''_

ميں نے پوچھا كہ يہ كون ہے ؟ تو انہوں نے بتايا كہ يہ '' اس كا چچا ابولہب ہے ''_

ابولہب پيغمبر كا پيچھا كرتارہا

جب مكہ سے باہر كے لوگوں كا كوئي گروہ اس شہر ميں داخل ہوتا تھا تو وہ پيغمبر (ص) سے اس كى رشتہ دارى اور سن وسال كے لحاظ سے بڑاہونے كى بناپر ابولہب كے پاس جاتاتھا اور رسول اللہ (ص) كے بارے ميں تحقيق كرتا تھا وہ جواب ديتا تھا: محمد ايك جادوگر ہے ،وہ بھى پيغمبر سے ملاقات كئے بغير ہى لوٹ جاتے اسى اثناء ميں ايك ايسا گروہ آيا جنہوں نے يہ كہا كہ ہم تو اسے ديكھے بغير واپس نہيں جائيں گے ابولہب نے كہا : ''ہم مسلسل اس كے جنون كا علاج كررہے ہيں : وہ ہلاك ہوجائے ''_

وہ اكثر مواقع پر سايہ كى طرح پيغمبر كے پيچھے لگارہتا تھا اور كسى خرابى سے فروگذاشت نہ كرتا تھا خصوصاً اس كى زبان بہت ہى گندى اور آلودہ ہوتى تھى اور وہ ركيك اورچبھنے والى باتيں كيا كرتا تھا اور شايد اسى وجہ سے پيغمبر اسلام (ص) كے سب دشمنوں كا سرغنہ شمار ہوتا تھا اسى بناء پر قرآن كريم اس پر اور اس كى بيوى ام جميل پر ايسى صراحت اور سختى كے ساتھ تنقيد كررہاہے وہى ايك اكيلا ايسا شخص تھا جس نے پيغمبر اكرم (ص) سے بنى ہاشم كى حمايت كے عہد وپيمان پر دستخط نہيں كئے تھے اور اس نے آپ كے دشمنوں كى صف ميں رہتے ہوئے دشمنوں كے عہد وپيمان ميں شركت كى تھي_

ابو لہب كے ہاتھ كٹ جائيں

''ابن عباس ''سے نقل ہوا ہے كہ جس وقت آيہ ''ونذر عشيرتك الاقربين''_نازل ہوئي اور پيغمبر (ص) اپنے قريبى رشتہ داروں كو انذار كرنے اور اسلام كى دعوت دينے پر مامور ہوئے،تو پيغمبر(ص) كوہ صفا پرآئے اور پكار كر كہا''يا صباحاہ''(يہ جملہ عرب اس وقت كہتے تھے جب ان پر دشمن كى طرف سے غفلت كى حالت ميں حملہ ہو جاتا تھاتا كہ سب كو با خبر كرديں اور وہ مقابلہ كے ليے كھڑے ہو جائيں،لہذا كوئي شخص''يا صباحاہ''كہہ كر آواز ديتا تھا''صباح''كے لفظ كا انتخاب اس وجہ سے كيا جاتا تھا كہ عام طور پر غفلت كى حالت ميں حملے صبح كے دقت كيے جاتے تھے_

مكہ كے لوگوں نے جب يہ صدا سنى تو انہوں نے كہا كہ يہ كون ہے جو فرياد كررہا ہے_

كہا گيا كہ يہ''محمد'' (ص) ہيں_ كچھ لوگ آپ(ص) كے پاس پہنچے تو آپ(ص) نے قبائل عرب كو ان كے نام كے ساتھ پكارا_ آپ(ص) كى آواز پر سب كے سب جمع ہوگئے تو آپ(ص) نے ان سے فرما يا:

''مجھے بتلائو اگر ميں تمہيں يہ خبر دوں كہ دشمن كے سوار اس پہاڑ كے پيچھے سے حملہ كرنے والے ہيں،تو كيا تم ميرى بات كى تصديق كروگے''_

انہوں نے جواب ديا:''ہم نے آپ(ص) سے كبھى بھى جھوٹ نہيں سنا''_

آپ (ص) نے فرمايا:

''انى نذير لكم بين يدى عذاب شديد''_

''ميں تمہيں خدا كے شديد عذاب سے ڈراتا ہوں''_

(''ميں تمہيںتوحيدكا اقرار كرنے او ربتوں كو ترك كرنے كى دعوت ديتا ہوں'')جب ابو لہب نے يہ بات سنى تو اس نے كہا:

''تبالكا ما جمعتنا الا لھذا؟''_

تو ہلاك ہو جائے كيا تو نے ہميں صرف اس بات كے ليے جمع كيا ہے''؟

اس مو قع پر يہ سورہ نازل ہوا :

(تبت يداا بى لھب وتب_)(1)

اے ابو لہب تو ہى ہلاك ہو اور تيرے ہاتھ ٹوٹيں،تو ہى زياں كار اور ہلاك ہونے والاہے،اس كے مال وثروت نے اور جو كچھ اس نے كمايا ہے اس نے، اسے ہر گز كوئي فائدہ نہيں ديا اور وہ اسے عذاب الہى سے نہيں بچائے گا''_

اس تعبير سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك دولت مند مغرور شخص تھا جواپنى اسلام دشمن كوششوں كے لئے اپنے مال ودولت پر بھروسہ كرتاتھا_

بعدميں قرآن مزيے كہتا ہے،''وہ جلدى ہى اس آگ ميں داخل ہوگا جس كے شعلے بھڑكنے والے ہيں''_(2)

اگر اس كا نام ''ابو لہب''ہے تو اس كے لئے عذاب بھي''بو لہب''ہے يعنى اس كے لئے بھڑگتے ہوئے اگ كے شعلہ ہيں_

ايندھن اٹھائے ہوئے

قرآن كريم نے اس كے بعد اس كى بيوى ''ام جميل '' كى كيفيت بيان كرتے ہوئے فرماياہے :''اس كى بيوى بھى جہنم كى بھڑكتى ہوئي آگ ميں داخل ہوگى ، جو اپنے د وش پر ايندھن اٹھاتى ہے''_ (3)

''اور اس كى گردن ميں خرماكى چھال كى رسى يا گردن بند ہے ''_(4)''فى جيدھا حبل من مسد''


(1)سورہ مسد آيت1 تا 2

(2)سورہ مسدآيت3

(3)سورہ مسد آيت 4

(4)سورہ مسد آيت 4

''مسد'' (بروزن حسد) اس رسى كے معنى ميں ہے جو كھجور كے پتوں سے بنائي جاتى ہے _ بعض نے يہ كہا ہے كہ ''مسد'' وہ رسى ہے جو جہنم ميں اس كى گردن ميں ڈاليںگے جس ميں كھجور كے پتوں جيسى سختى ہوگى اور اس ميں آگ كى حرارت اور لوہے كى سنگينى ہوگى _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ چونكہ بڑے لوگوں كى عورتيں اپنى شخصيت كو آلات وزيورات خصوصا ًگردن كے قيمتى زيورات سے زينت دينے ميں خاص بات سمجھتى ہيں ،لہذا خدا قيامت ميں اس مضراوروخود پسند عورت كى تحقير كے ليے ليف خرما كا ايك گردن بند اس كى گردن ميں ڈال دے گايا يہ اصلا اس كى تحقير سے كنايہ ہے _

بعض نے يہ بھى كہا ہے كہ اس تعبير كے بيان كرنے كا سبب يہ ہے كہ '' ام جميل '' كے پاس جواہرات كا ايك بہت ہى قيمتى گردن بند تھااور اس نے يہ قسم كھائي تھى كہ وہ اسے پيغمبراكرم (ص) كى دشمنى ميں خرچ كرے گى لہذا اس كے اس كام كے بدلے ميں خدا نے بھى اس كے لئے ايسا عذاب مقرر كرديا ہے _

ابولہب كاعبرت ناك انجام

روايات ميں ايا ہے كہ جنگ''بدر''اور سخت شكست كے بعد ،جو مشركين قريش كو اٹھانى پڑى تھى ، ابولہب نے جوخود ميدان جنگ ميں شريك نہيں ہوا تھا ،ابوسفيان كے واپس آنے پر اس ماجرے كے بارے ميںسوال كيا،ابو سفيان كے قريش كے لشكر كى شكست اور سركوبى كى كيفيت بيان كي، اس كے بعد اس نے مزيد كہا :خدا كى قسم ہم نے اس جنگ ميں آسمان وزمين كے درميان ايسے سوار ديكھے ہيں جو محمد كى مدد كے ليے آئے تھے _

اس موقع پر'' عباس '' كے ايك غلام ''ابورافع ''نے كہا :ميں وہاں بيٹھاہوا تھا ،ميں نے اپنے ہاتھ بلند كيے اور كہا كہ وہ آسمانى فرشتے تھے _

اس سے ابولہب بھڑك اٹھا اور اس نے ايك زوردار تھپڑميرے منہ پر دے مارا ، مجھے اٹھاكر زمين پر

پٹخ ديا اور اپنے دل كى بھڑاس نكالنے كے ليے مجھے پيٹے چلے جارہا تھا وہاں عباس كى بيوي''ام الفضل'' بھى موجود تھى اس نے ايك چھڑى اٹھائي اور ابولہب كے سرپر دے مارى اور كہا :''كيا تونے اس كمزور آدمى كو اكيلاسمجھا ہے ؟''

ابولہب كا سرپھٹ گيا اور اس سے خون بہنے لگا سات دن كے بعد اس كے بدن ميں بدبو پيدا ہوگئي ، اس كى جلد ميں طاعون كى شكل كے دانے نكل آئے اور وہ اسى بيمارى سے واصل جہنم ہوگيا _

اس كے بدن سے اتنى بدبو آرہى تھى كہ لوگ اس كے نزديك جانے كى جرات نہيں كرتے تھے وہ اسے مكہ سے باہر لے گئے اور دور سے اس پر پانى ڈالا اور اس كے بعد اس كے اوپر پتھر پھينكے يہاں تك كہ اس كا بدن پتھروں اور مٹى كے نيچے چھپ گيا _

* * * * *

ابوسفيان وابوجہل چھپ كر قرآن سنتے ہيں

ايك شب ابوسفيان ،ابوجہل اور مشركين كے بہت سے دوسرے سردارجدا گانہ طور پر اور ايك دوسرے سے چھپ كر آنحضرت (ص) سے قرآن سننے كے لئے آگئے آپ اس وقت نماز پڑھنے ميں مشغول تھے اور ہر ايك ، ايك دوسرے سے بالكل بے خبر عليحدہ عليحدہ مقامات پر چھپ كر بيٹھ گئے چنانچہ وہ رات گئے تك قرآن سنتے رہے اور جب واپس پلٹنے لگے تو اس وقت صبح كى سفيدى نمودار ہوچكى تھى _اتفاق سے سب نے واپسى كے ليے ايك ہى راستے كا انتخاب كيا اور ان كى اچانك ايك دوسرے سے ملاقات ہوگئي اور ان كا بھانڈا وہيں پر پھوٹ گيا انھوں نے ايك دوسرے كوملامت كى اور اس بات پر زورديا كہ آئندہ ايسا كام نہيں كريںگے ، اگر نا سمجھ لوگوں كو پتہ چل گيا تو وہ شك وشبہ ميں پڑجائيں گے _

دوسرى اور تيسرى رات بھى ايسا ہى اتفاق ہوا اور پھروہى باتيں دہرائي گئيں اور آخرى رات تو انھوں نے كہا جب تك اس بات پر پختہ عہد نہ كرليں اپنى جگہ سے ہليں نہيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور پھر ہر ايك نے اپنى راہ لى _اسى رات كى صبح اخنس بن شريق نامى ايك مشرك اپنا عصالے كر سيدھا ابوسفيان كے گھر پہنچا اور اسے كہا : تم نے جو كچھ محمدسے سناہے اس كے بارے ميں تمہارى كيا رائے ہے ؟

اس نے كہا:خدا قسم : كچھ مطالب ايسے سنے ہيں جن كا معنى بخوبى سمجھ سكاہوں اور كچھ مسائل كى مراد اور معنى كو نہيںسمجھ سكا _ اخنس وہاںسے سيدھا ابوجہل كے پاس پہنچا اس سے بھى وہى سوال كيا : تم نے جو كچھ محمد سے سنا ہے اس كے بارے ميں كيا كہتے ہو ؟

ابوجہل نے كہا :سناكياہے، حقيقت يہ ہے كہ ہمارى اور اولاد عبدمناف كى قديم زمانے سے رقابت

چلى آرہى ہے انھوں نے بھوكوں كو كھانا كھلايا، ہم نے بھى كھلايا ، انھوں نے پيدل لوگوں كو سوارياں ديں ہم نے بھى ديں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ كيا، سوہم نے بھى كيا گويا ہم دوش بدوش آگے بڑھتے رہے_جب انھوں نے دعوى كيا ہے كہ ان كے پاس وحى آسمانى بھى آتى ہے تو اس بارے ميں ہم ان كے ساتھ كس طرح برابرى كرسكتے ہيں ؟ اب جب كہ صورت حال يہ ہے تو خداكى قسم ہم نہ تو كبھى اس پر ايمان لائيں گے اور نہ ہى اس كى تصديق كريں گے _اخنس نے جب يہ بات سنى تو وہاں سے اٹھ كر چلاگيا (1)

جى ہاں: قرآن كى كشش نے ان پر اس قدرا ثركرديا كہ وہ سپيدہ صبح تك اس الہى كشش ميں گم رہے ليكن خود خواہى ، تعصب اور مادى فوائدان پر اس قدر غالب آچكے تھے كہ انھوں نے حق قبول كرنے سے انكار كرديا _اس ميں شك نہيں كہ اس نورالہى ميں اس قدر طاقت ہے كہ ہر آمادہ دل كو وہ جہاں بھى ہو، اپنى طرف جذب كرليتا ہے يہى وجہ ہے كہ اس (قرآن)كا ان آيات ميں ''جہاد كبير'' كہہ كر تعارف كروايا گيا ہے_(2)

ايك اور روايت ميں ہے كہ ايك دن ''اخنس بن شريق'' كا ابوجہل سے آمناسامنا ہوگيا جب كہ وہاں پر اور كوئي دوسرا آدمى موجود نہيںتھا_تو اخنس نے اس سے كہا :سچ بتائو محمد سچاہے ،ياجھوٹا ؟قريش ميں سے كوئي شخص سواميرے اور تيرے يہاں موجود نہيں ہے جو ہمارى باتوں كو سنے _

ابوجہل نے كہا: وائے ہو تجھ پر خداكى قسم وہ ميرے عقيدے ميں سچ كہتا ہے اور اس نے كبھى جھوٹ نہيں بولا ليكن اگر يہ اس بات كى بناہو جائے كہ محمد كا خاندان سب چيزوں كو اپنے قبضہ ميں كرلے، حج كا پرچم ، حاجيوں كو پانى پلانا،كعبہ كى پردہ دارى اور مقام نبوت تو باقى قريش كے لئے كيا باقى رہ جائےگا_ (3)


(1)سيرت ابن ہشام جلداول ص337 ، اور تفسير فى ظلال القر،آن جلد6 ص 173

(2)تفسير نمونہ ج 8 ص 144

(3)مندرجہ بالاروايات تفسير المنار اور مجمع البيان سے سورہ انعام ايت 33/ كے ذيل ميں بيان كردہ تفسير سے لى گئي ہيں

اسلام كے پہلے مہاجرين

پيغمبر اكرم (ص) كى بعثت اور عمومى دعوت كے ابتدائي سالوں ميں مسلمان بہت ہى كم تعداد ميں تھے قريش نے قبائل عرب كو يہ نصيحت كرركھى تھى كہ ہر قبيلہ اپنے قبيلہ كے ان لوگوں پر كہ جو پيغمبر اكرم (ص) پر ايمان لاچكے ہيں انتہائي سخت دبائوڈاليں اور اس طرح مسلمانوں ميں سے ہر كوئي اپنى قوم وقبيلہ كى طرف سے انتہائي سختى اور دبائوميں مبتلا تھا اس وقت مسلمانوں كى تعداد جہادآزادى شروع كرنے كے لئے كافى نہيں تھى _پيغمبراكرم (ص) نے اس چھوٹے سے گروہ كى حفاظت اور مسلمانوں كے لئے حجاز سے باہر قيام گاہ مہياكرنے كے لئے انہيں ہجرت كا حكم دے ديا اور اس مقصد كےلئے حبشہ كو منتخب فرمايا اور كہا كہ وہاں ايك نيك دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم كرنے سے اجتناب كرتا ہے _ تم وہاں چلے جائو يہاں تك كہ خداوند تعالى كوئي مناسب موقع ہميں عطافرمائے_پيغمبر اكرم (ص) كى مراد نجاشى سے تھى (نجاشى ايك عام نام تھا جيسے ''كسرى '' جو حبشہ كے تمام بادشاہوں كا خاص لقب تھا ليكن اس نجاشى كا اصل نام جو پيغمبر اكرم (ص) كا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو كہ حبشہ كى زبان ميں عطيہ وبخشش كے معنى ميں ہے )_

مسلمانوں ميں سے گيارہ مرداور چار عورتيں حبشہ جانے كے لئے تيار ہوئے اور ايك چھوٹى سى كشتى كرايہ پر لے كر بحرى راستے سے حبشہ جانے كے لئے روانہ ہوگئے _يہ بعثت كے پانچويں سال ماہ رجب كا واقعہ ہے _كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزراتھا كہ جناب جعفر بن ابوطالب بھى مسلمانوںكے ايك دوسرے گروہ كے ساتھ حبشہ چلے گئے _ اب اس اسلامى جمعيت ميں 82/مردوں علاوہ كافى تعداد ميں عورتيںاور بچے بھى تھے _

مشركين ،مہاجرين كى تعقيب ميں

اس ہجرت كى بنيادبت پرستوں كے لئے سخت تكليف دہ تھى كيونكہ دہ اچھى طرح سے ديكھ رہے تھے كہ كچھ زيادہ عرصہ نہيں گزرے گا كہ وہ لوگ جو تدريجاً اسلام كو قبول كرچكے ہيں اور حبشہ كى سرزمين امن وامان كى طرف چلے گئے ہيں ، مسلمانوں كى ايك طاقتور جماعت كى صورت اختيار كرليں گے يہ حيثيت ختم كرنے كے لئے انہوں نے كام كرنا شروع كرديا اس مقصد كے لئے انہوں نے جوانوں ميں سے دوہوشيار، فعال، حيلہ باز اور عيار جوانوں يعنى عمروبن عاص اور عمارہ بن وليد كا انتخاب كيا بہت سے ہديے دے كر ان كو حبشہ كى طرف روانہ كيا گيا ،ان دونوں نے كشتى ميں بيٹھ كر شراب پى اور ايك دوسرے سے لڑپڑے ليكن آخركار وہ اپنى سازش كو روبہ عمل لانے كے لئے سرزمين حبشہ ميں داخل ہوگئے _ ابتدائي مراحل طے كرنے كے بعد وہ نجاشى كے دربار ميں پہنچ گئے ،دربار ميں بارياب ہونے سے پہلے انہوں نے نجاشى كے درباريوں كو بہت قيمتى ہديے دے كران كو اپنا موافق بنايا تھا اور ان سے اپنى طرفدارى اور تائيد كرنے كا وعدہ لے ليا تھا _

'' عمروعاص '' نے اپنى گفتگو شروع كى اور نجاشى سے اس طرح ہمكلام ہوا:

ہم سرداران مكہ كے بھيجے ہوئے ہيں ہمارے درميان كچھ كم عقل جوانوں نے مخالفت كا علم بلند كيا ہے اور وہ اپنے بزرگوںكے دين سے پھر گئے ہيں،اور ہمارے خدائوں كو برابھلا كہتے ہيں ،انہوں نے فتنہ وفساد برپا كرديا ہے لوگوں ميں نفاق كا بيچ بوديا ہے ،آپ كى سرزمين كى آزادى سے انہوں نے غلط فائدہ اٹھايا ہے اور انہوں نے يہاں آكر پناہ لے لى ہے ، ہميں اس بات كا خوف ہے كہ وہ يہاں بھى خلل اندازى نہ كريں بہتريہ ہے كہ آپ انہيں ہمارے سپرد كرديں تاكہ ہم انہيں اپنى جگہ واپس لے جائيں _

يہ كہہ كر ان لوگوں نے وہ ہديئےو وہ اپنے ساتھ لائے تھے پيش كيے _

نجاشى نے كہا : جب تك ميں اپنى حكومت ميں پناہ لينے والوں كے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے ميں كوئي بات نہيں كرسكتا اور چونكہ يہ ايك مذہبى بحث ہے لہذا ضرورى ہے كہ تمہارى موجودگى ميںمذہبى نمائندوں كوبھى ايك جلسہ ميں دعوت دى جائے _

جعفربن ابى طالب مہاجرين كے بہترين خطيب

چنانچہ دوسرے دن ايك اہم جلسہ منعقد ہوا، اس ميں نجاشى كے مصاحبين اور عيسائي علماء كى ايك جماعت شريك تھى جعفر بن ابى طالب مسلمانوں كے نمائندہ كى حيثيت سے موجود تھے اور قريش كے نمائندے بھى حاضر ہوئے نجاشى نے قريش كے نمائندوں كى باتيں سننے كے بعد جناب جعفر كى طرف رخ كيا اور ان سے خواہش كى كہ وہ اس سلسلے ميں اپنا نقطہ نظربيان كريں جناب جعفرا دائے احترام كے بعد اس طرح گويا ہوئے : پہلے ان سے پوچھيے كہ كيا ہم ان كے بھاگے ہوئے غلاموں ميں سے ہيں ؟

عمرو نے كہا :نہيں بلكہ آپ آزاد ہيں _

جعفر: ان سے يہ بھى پوچھئے كہ كيا ان كا كوئي قرض ہمارے ذمہ ہے كہ جس كا وہ ہم سے مطالبہ كرتے ہيں ؟

عمرو : نہيں ہمارا آپ سے ايسا كوئي مطالبہ نہيں ہے _

جعفر: كيا ہم نے تمہارا كوئي خون بہايا ہے كہ جس كا ہم سے بدلہ لينا چاہتے ہو ؟

عمرو:نہيں ايسا كچھ نہيں ہے؟

جعفر: تو پھر تم ہم سے كيا چاہتے ہو ؟تم نے ہم پر اتنى سختياں كيں اور اتنى تكليفيں پہنچائيں اور ہم تمہارى سرزمين سے جو سراسر مركز ظلم وجور تھى باہر نكل آئے ہيں _

اس كے بعد جناب جعفر نے نجاشى كى طرف رخ كيا اور كہا : ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستى كرتے تھے ،مردار كا گوشت كھاتے تھے ، طرح طرح كے برے اور شرمناك كام انجام ديتے تھے، قطع رحمى كرتے تھے ، اپنے ہمسايوں سے براسلوك كرتے تھے اور ہمارے طاقتور كمزوروں كے حقوق ہڑپ كرجاتے تھے _ ليكن خدا وند تعالى نے ہمارے درميان ايك پيغمبر كو معبوث فرمايا، جس نے ہميں حكم ديا كہ ہم خدا كا كوئي مثل اورشريك نہ بنائيں اور فحشاء ومنكر، ظلم وستم اور قماربازى ترك كرديں ہميں حكم ديا كہ ہم نماز پڑھيں ،

زكوة ادا كريں ، عدل واحسان سے كام ليں اور اپنے وابستگان كى مدد كريں _

نجاشى نے كہا : عيسى مسيح عليہ السلام بھى انہى چيزوں كے لئے مبعوث ہوئے تھے _

اس كے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آيات ميں سے جو تمہارے پيغمبر پر نازل ہوئي ہيں كچھ تہميں ياد ہيں _جعفرنے كہا : جى ہاں : اور پھر انہوں نے سورہ مريم كى تلاوت شروع كردى ،اس سورہ كى ايسى ہلادينے والى آيات كے ذريعہ جو مسيح عليہ السلام اور ان كى ماں كو ہر قسم كى نارو اتہمتوں سے پاك قرارديتى ہيں ، جناب جعفر كے حسن انتخاب نے عجيب وغريب اثر كيا يہاں تك كہ مسيحى علماء كى آنكھوں سے فرط شوق ميں آنسو بہنے لگے اور نجاشى نے پكار كر كہا : خدا كى قسم : ان آيات ميں حقيقت كى نشانياں نماياں ہيں_

جب عمرنے چاہا كہ اب يہاں كوئي بات كرے اور مسلمانوں كو اس كے سپرد كرنے كى درخواست كرے ، نجاشى نے ہاتھ بلند كيا اور زور سے عمرو كے منہ پر مارا اور كہا: خاموش رہو، خدا كى قسم اگر ان لوگوں كى مذمت ميں اس سے زيادہ كوئي بات كى تو ميںتجھے سزادوں گا ،يہ كہہ كر مامورين حكومت كى طرف رخ كيا اور پكار كر كہا : ان كے ہديے ان كو واپس كردو اور انہيں حبشہ كى سرزمين سے باہر نكال دو جناب جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا : تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسر كرو _

اس واقعہ نے جہاں جعفر اور ان كے ساتھيوں سے كہا تم آرام سے ميرے ملك ميں زندگى بسركرو_(1)

اس واقعہ نے جہاں حبشہ كے كچھ لوگوں پر اسلام شناسى كے سلسلے ميں گہرا تبليغى اثر كيا وہاں يہ واقعہ اس بات كا بھى سبب بنا كہ مكے كے مسلمان اس كو ايك اطمينان بخش جائے پناہ شماركريں اور نئے مسلمان ہونے والوں كو اس دن كے انتظارميں كہ جب وہ كافى قدرت و طاقت حاصل كريں ،وہاں پر بھيجتے رہيں _

next index