قوم سبا ايك ايسى جمعيت اور قوم تھى كہ جو جزيرہ عرب ميں رہتى تھى ،اور ايك اعلى حكومت اور درخشاں تمدن كى مالك تھى _
يمن كا علاقہ وسيع اور زر خيزتھا ليكن زر خيز علاقہ ہونے كے باوجود چونكہ وہاں كوئي اہم دريا نہيں تھا، لہذا اس سے كوئي فائدہ نہيں اٹھا يا جاتا تھا ،سيلاب اور بارشيں پہاڑوں پر برستى تھيں اور ان كا پانى بيابانوں ميں بے كار اور بے فائدہ ضائع ہوجاتاتھا ،اس سر زمين كے سمجھدار لوگ ان پانيوں سے استفادہ كرنے كى فكر ميں لگ گئے اور اہم علاقوں ميں بہت سے بند باندھے ، جن ميں سے زيادہ اہم اور سب سے زيادہ پانى كا ذخيرہ ركھنے والا بند ''مارب''(1)تھا_
''مارب''(بروزن مغرب ) ايك شہر تھاكہ جو ان دروں ميں سے ايك كے اخر ميں واقع تھا ، اور''صرا ة '' كے كو ہستانوں كے بڑے بڑے سيلاب اس كے قريب سے گزرتے تھے ،اس درہ كے دہانہ پر ''بلق'' نامى دو پہاڑوں كے دامن ميں انھوں نے ايك مضبوط باندھ بناياتھا ،اور اس ميں سے پانى كى كئي نہريں نكالى تھيں ،اس باندھ كے اندر پانى كا اس قدر ذخيرہ جمع ہو گيا تھا كہ جس سے استفادہ كرتے ہوئے وہ اس بات پر قادر ہو گئے تھے كہ اس نہر كے دونوں طرف ،كہ جو باندھ تك جاتى تھى ،بہت ہى خوبصورت و زيبا
(1)مغرب كے وزن پر
باغات لگائيں اور پر بركت كھيت تيار كريں _
اس سر زمين كى ابادبستياں ايك دوسرى سے متصل تھيں اور درختوںكے وسيع سائے ايك دوسرے سے ملے ہوئے تھے ،اور ان كى شاخوں پر اتنے پھل لگا كرتے تھے كہ كہتے ہيں كہ جب كوئي ادمى اپنے سر پر ايك ٹوكرى ركھ كر ان كے نيچے سے گزرتا تھا تو يكے بعد ديگرے اتنے پھل اس ميں اكر گرتے تھے كہ تھوڑى ہى دير ميں وہ ٹوكرى بھر جاتى تھى _
امن و امان كے ساتھ نعمت كے وفور نے پاك و صاف زندگى كے لئے بہت ہى عمدہ اور مرفہ ماحول پيدا كر ركھا تھا ،ايك ايسا ماحول جو خدا كى اطاعت اور معنوى پہلوو ں كے ارتقاء و تكامل كے لئے مہيا تھا_
ليكن انھوں نے ان تمام نعمتوں كى قدر كو نہ پہچانا اور خدا كو بھول گئے اور كفران نعمت ميں مشغول ہوگئے،اور فخر و مباہات كرنے لگے اور طبقاتى اختلاف پيدا كر ديئے _
صحرائي چو ہوں نے مغرور و مست لوگوں كى انكھوں سے دور ،مٹى كے اس باندھ كى ديوار كا رخ كيا اور اسے اندر سے كھوكھلا كر ديا ،اچانك ايسى شديد بارشيں بر سيں اور يسا عظيم سيلاب ايا كہ جس سے باندھ كى وہ ديواريں كہ جو سيلاب كے دباو كو بر داشت كر نے كے قابل نہ رہى تھيں دھڑام سے گر پڑيں اور بہت ہى زيادہ پانى كہ جو باندھ كے اندر جمع ہو رہا تھا ،اچانك باہر نكل پڑا اور تمام اباديوں ،باغات ،كھيتوں ،فصلوںاور چوپايوں كو تباہ كر كے ركھ ديا اور خوبصورت سجے سجائے قصور و محلات اور مكانات كو ويران كر ديا اور اس كے بعد اباد سر زمين كو خشك اور بے اب و گياہ صحرا ميں بدل ديا اور ان تمام سر سبز و شاداب باغوں اور پھلدار درختوں ميں سے صرف چند ''اراك''كے كڑوے شجر ،كچھ ،جھاو اور كچھ بيرى كے درخت باقى رہ گئے ،غزل خوانى كرنے والے پرندے وہاں سے كوچ كر گئے اور الوو ں اور كووّں نے ان كى جگہ لے لي_
ہاں جب خدا اپنى قدرت دكھانا چاہتا ہے تو چوہوں كے ذريعہ ايك عظيم تمدن كو برباد كر ديتا ہے، تاكہ بندے اپنے ضعف اور كمزورى سے اگاہ ہو جائيں ،اور قدرت اور اقتدار كے وقت مغرور نہ ہوں _
اس بارے ميں كہ''سبا ''كس كانام ہے؟اور يہ كيا چيز ہے ؟مورخين كے درميان اختلاف ہے،
ليكن مشہور يہ ہے كہ ''سباء''، ''يمن''كے اعراب كے باپ كا نام ہے اور اس روايت كے مطابق كہ جو پيغمبر اسلام (ص) سے نقل ہوئي ہے ،وہ ايك ادمى تھا اور ا س كانام ''سباء''تھا اور اس كے دس بيٹے تھے ،اور ان ميں سے ہر ايك سے وہاں كے قبائل ميں سے ايك قبيلہ وجود ميں ايا _(1)
ايك درخشاں تمدن جو كفران نعمت كى وجہ سے برباد ہو گيا
قران مجيد نے ان كى عبرت انگيز سر گزشت بيان كى ہے ،اور ان كى زندگى كے جزئيات و خصوصيات كے اہم حصہ كى طرف اشارہ كيا ہے _
پہلے كہتاہے :''قوم سبا كے لئے ان كے محل سكونت ميں خدائي قدرت كى ايك نشانى تھي''_(2)
جيسا كہ ہم ديكھيں گے ،خدا كى اس بزرگ ايت كا سرچشمہ يہ تھا كہ ،قوم سباء اس علاقے كے اطراف ميں واقع پہاڑوں كے محل وقوع اور ان كے خاص حالات و شرائط ،اور اپنى خدا داد ذہانت اور ہو شمندى سے استفادہ كرتے ہوئے ،ان سيلابوں كو كہ جو سوائے ويرانى و تباہى كے كوئي نتيجہ نہ ديتے تھے ،ايك قوى اور مستحكم باندھ كے پيچھے روك دينے پر قادر ہو گئے تھے اور اس كے ذريعہ انھوں نے بہت ہى اباد ملك تعمير كر ليا تھا ،يہ كتنى عظيم ايت ہے كہ ايك ويران اور برباد كر نے والا عامل ،عمران و ابادى كے اہم ترين عوامل ميں بدل جائے _
(1)بعض''سباء ''كو سر زمين يمن كا اس كے كسى علاقے كا نام سمجھتے ہيں ،سورہ نمل ميں سليمان و ہد ہد كے قصہ ميں قران مجيد كا ظا ہر بھى يہى نشاندہى كرتا ہے ''سبا ''كسى جگہ ،علاقے يامقام كا نام ہے ،جہاں پر وہ كہتا ہے كہ ''ميں سر زمين سبا سے تيرے پاس ايك يقينى خبر لے كر ايا ہوں _''
جب كہ زير بحث ايت كا ظاہر يہ ہے كہ سبا ايك قوم تھى كہ جو اس علاقے ميں رہتى تھى ،كيونكہ ضمير جمع مذكر (ھم) ان كى طرف لوٹ رہى ہے _ ليكن ان دونوں تفسيروں ميں كوئي منافات نہيں ہے ،كيونكہ ممكن ہے كہ ابتداء ميں سبا كسى شخص كا نام ہو ، پھر اس كے تما م بيٹے اور قوم اس نام سے موسوم ہوں اور اس كے بعد يہ نام اس سرزمين كى طرف بھى منتقل ہو گيا ہو
(2)سورہ سباء ايت 15
اس كے بعد قران اس خدا ئي ايت كى تفسير كى تشريح كر تے ہوئے كہ جو قوم سباء كے ا ختيار ميں قرار پائي تھى ،اس طرح كہتا ہے :''دوبڑے باغ تھے دائيں اور بائيں طرف''(1)
يہ دونوںباغ كوئي معمولى اور سادہ قسم كے باغ نہيں تھے ،بلكہ يہ ايك عظيم نہر كے دونوں طرف باغوں كا مسلسل اور ملا ہوا سلسلہ تھا ،جو اس عظيم باندھ كے ذريعہ سيراب ہوتے تھے قوم سبا ء اس عظيم باندھ كے ذريعہ ،جو انھوں نے اس علاقہ كے اہم پہاڑوں كے درميان بنايا تھا ،اس بات پر قادر ہوگئي تھى كہ ان فراواں سيلابوں كو ،جو ويرانى كا سبب بنتے تھے يا كم از كم بيابانوں ميں بے كار و فضول طورسے ضائع اور تلف ہو جاتے تھے ،اس باندھ كے پيچھے ذخيرہ كر ليں، اور اس كے اندر كھڑكياں بنا كر پانى كے اس عظيم مخزن سے استفادہ كر نے كے لئے اپنے كنٹرول ميں كر ليں اور اس طرح سے وسيع و عريض زمينوں كو زير كاشت لائيں _
وہى سيلاب كہ جو خرابى و بر بادى كا باعث بنيں ،وہ اس طرح سے ابادى كا باعث بن جائيں ،كيا يہ عجيب بات نہيں ہے ؟كيا يہ خدا كى عظيم ايت اور نشانى شما ر نہيں ہوتي_؟
يہ بات تو ابادى كے لحاظ سے ہے ،ليكن چونكہ لوگوں كى ابادى كافى نہيں ہے ،بلكہ اہم اور بنياد ى شرط امن و امان ہوتا ہے ،لہذا مزيد كہتا ہے:'' ہم نے ان اباديوں كے درميان مناسب اور نزديك نزديك فاصلے ركھے ''(تاكہ وہ اسانى اور امن وامان كے ساتھ ايك دوسرى جگہ اجاسكيں )_اور ہم نے ان سے كہا: ''تم ان بستيوں كے درميان راتوں ميں اوردنوں ميں پورے امن و امان كے ساتھ سفر كرو،اور ان اباديوں ميں چلو پھرو_''(2)
اس طرح يہ ابادياں مناسب اور جچا تلافاصلہ ركھتى تھيں ،اور و حوشى اور بيابانى درندوں ،يا چوروں اور ڈاكوو ں كے حملہ كے لحاظ سے بھى انتہائي امن و امان ميں تھيں ،اس طرح سے كہ لوگ زاد راہ ،سفر خرچ اور سوارى كے بغير ہى ،اس صورت ميں كہ نہ اكٹھے قافلوں ميں چلنے كى ضرورت تھى اور نہ ہى مسلح افراد ساتھ لينے كي
(1)سورہ سباء ايت 15
(2)سورہ سباء ايت 18
كوئي احتياج تھى ،راستے كى بے امنى كى جہت سے ،يا پانى اور غذا كى كمى كى وجہ سے كسى ڈر اور خوف كے بغير اپنا سفر جارى ركھ سكتے تھے_
اس كے بعد مزيد كہتا ہے :''ہم نے ان سے كہا كہ اپنے پروردگار كى اس فراواں روزى ميں سے كھاو اور اس كا شكر اداكرو_ ايك پاك وپاكيزہ شہر ہے اور پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے_''(1)
اس چھوٹے سے جملے نے تمام مادى و معنوى نعمتوں كے مجموعے كو زيبا ترين شكل ميں منعكس كر ديا ہے ،مادى نعمتوں كے لحاظ سے تو وہ پاك و پاكيزہ زمين ركھتے تھے كہ جو چوروں،ظالموں ،افات و بليات، خشك سالى و قحط اور بد امنى و وحشت جيسے طرح طرح كے مصائب سے پا ك تھى ،يہاں تك كہ كہا جاتا ہے كہ وہ زمين موذى حشرات سے بھى پاك و پاكيزہ تھى ،پاك وپاكيزہ ہوائيں چلتى تھيں اور فرحت بخش نسيم رواں دواں تھى ،زمين زر خيز تھى اور درخت پُر بار تھے _
اور معنوى نعمت كے لحاظ سے خدا كى بخشش و غفران ان كے شامل حال تھى ،وہ ان كى تقصير و كوتاہى پر صرف نظر كرتا تھا اور انھيں مشمول عذاب اور ان كى سر زمين كو بلا و مصيبت ميں گرفتار نہيں كرتا تھا _
ليكن ان ناشكر ے لوگوں نے ان تمام نعمتوں كى قدردانى نہيں كى اور ازمائشے كى بھٹى سے صحيح و سالم باہر نہ اسكے ،انھوں نے كفران نعمت اور روگردانى كى راہ اختيار كر لى لہذا خدا نے بھى ان كى سختى كے ساتھ گوشمالى كى _
اسى لئے خداوند عالم فرماتا ہے :''وہ خدا سے رو گرداں ہوگئے _''(2)
يہ وہ موقع تھا كہ عذاب كا كوڑا ان كے پيكر پر اكر پڑا ،جيسا كہ قران كہتا ہے :''ہم نے بنيادوں كو اكھاڑ كر پھينك دينے والا وحشتناك سيلاب ان كے پاس بھيجا ''(3)اور ان كى ابادسر زمين ايك ويرانے ميں بدل گئي _
(1)سورہ سباء ايت 15
(2)سورہ سباء ايت 16
(3)سورہ سباء ايت 16
اس كے بعد قران اس سرزمين كى باقى ماندہ حالت و كيفيت كى اس طرح سے توصيف كرتا ہے: ''ہم نے ان كے دو وسيع اور پر نعمت باغوں كو ، بے قدر و قيمت كڑوے پھلوں والے ،اور جھاو كے بے مصرف درختوں اور تھوڑے سے بيرى كے درختوں ميں بدل ديا _''(1)
اور اس طرح سے ان تمام سر سبز و شاداب درختوں كے بجائے ،بہت ہى كم قدر و قيمت والے بيابانى اور جنگلى قسم كے چند ايك درخت ،كہ شايد ان ميں سے سب زيادہ اہم درخت وہى بيرى كے درخت تھے ،كہ وہ بھى تھوڑى سى ہى مقدار ميں ،باقى رہ گئے تھے ،(اب تم اس كى اس مجمل داستان كو پڑھنے كے بعد خود ہى ان كى مفصل داستان كا انداز ہ لگا لو،كہ خود ان كے اوپر او ر ان كى اباد سر زمين پر كيا گزرى ؟)
ممكن ہے كہ ان تين قسم كے درختوں كا بيان ہے كہ جو اس سر زمين ميں باقى رہ گئے تھے ،(درختوں كے )تين مختلف گروہوں كى طرف اشارہ ہو، كہ ان درختوںميں سے ايك حصہ نقصان دہ تھا ،بعض بے مصرف تھے _اور بعض بہت ہى كم نفع دينے والے تھے _
كس قدر عمدہ تعبير ہے ،قران اس جملہ كے بعد ،كہ جو ان كے درد ناك انجام كے بارے ميں بيان كيا ہے ،كہتا ہے :''ہم نے انھيں ايسى سزا دى اور ان كى زندگى لپيٹ كو ركھ ديا كہ:''انھيں ہم نے دوسروں كے لئے داستان اور افسانہ بنا ديا _''(2)
ہاں ان كى تمام تر با رونق زندگى اور درخشاں و وسيع تمدن ميں سے زبانى قصوں،دلوںكى يادوں اور تاريخوں كے صفحات پر چند سطروں كے سوا اور كچھ باقى نہ رہا:''اور ہم نے انھيں برى طرح سے حيران و پريشان كر ديا _''(3)
ان كى سر زمين ايسى ويران ہوئي كہ ان ميں وہاں قيام كرنے كى طاقت نہ رہى ،اور زندگى كو باقي
(1)سورہ سباء ايت 16
(2)سورہ سباء ايت 9
(3)سورہ سباء ايت 9
ركھنے كے لئے وہ اس بات پر مجبور ہو گئے كہ ان ميں سے ہر گروہ كسى طرف رخ كرے اور خزاں كے پتوںكى طرح ،كہ جو تند و تيز ہواو ں كے اندر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہيں ،ہر ايك كسى گوشہ ميں جا گرے ،اس طرح سے كہ ان كى پريشانى ضرب المثل بن گئي ،كہ جب كبھى لو گ يہ كہنا چاہتے كہ فلاں جمعيت سخت پر اگندہ اور تتر بتر ہوگئي تو وہ يہ كہا كرتے تھے كہ:(وہ قوم سبا ء اور ان كى نعمتوں كى طرح پراگندہ ہوگئے ہيں )_
بعض مفسرين كے قول كے مطابق قبيلہ ''غسان ''شام كى طرف گيا اور ''اسد ''عمان كى طرف، ''خزاعہ''تہامہ كى طرف ،اور قبيلہ ''انمار''يثرب كى طرف _
اور اخرميں فرماتا ہے:''يقينا اس سر گزشت ميں ،صبر اور شكر كرنے والوں كے لئے عبرت كى ايات اور نشانياں ہيں _''(1)
(1)سورہ سباء ايت 19
قرآن ميں دو دوست يا دو بھائي كى داستان مثال كے طور پر بيان كى گئي ہے_ ان ميں سے ہر ايك مستكبرين اور، مستضعفين كا ايك نمونہ تھا_ان كى طرز فكر اور ان كى گفتار و كردار ان دونوں گروہوں كے موقف كا ترجمان تھے_ پہلے فرمايا گيا ہے:''اے رسولان سے دو شخصوں كى مثال بيان كرو كہ جن ميں سے ايك كو ہم نے انگوروں كے دوباغ ديئے تھے_جو طرح طرح كے انگور تھے_ان كے گرد اگرد كھجور كے درخت آسمان سے باتيں كررہے تھے_ان دونوں باغوں كے درميان ہرى بھرى كھيتى تھي''_(1)
ايسے باغ اور كھيتياں جن ميں ہر چيز خوب تھي_ انگور بھى تھے،كھجوريں بھى تھيں،گندم اور دوسرا اناج بھى تھا_خود كفيل كھيتياں تھيں_ يہ دونوں باغ پيداوار كے لحاظ سے بھرے پڑے تھے_درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے اور كھيتيوں كے پودے خوب خوشہ دار تھے_ان دونوں باغوں ميں كسى چيز كى كمى نہ تھي_(2)
سب سے اہم بات يہ ہے كہ پانى جو ہر چيز كے لئے مايہ حيات ہے،خصوصاً باغات و زراعت كے لئے،انہيں فراہم تھا:'' كيونكہ دونوں باغوں كے درميان ہم نے ايك نہر جارى كى تھي''_(3)
''اس طرح سے ان باغات اور كھيتيوں كے مالك كو خوب پيداروار ملتى تھي''_(4)
(1)سورہ كہف آيت 32
(2)سورہ كہف آيت 33
(3)سورہ كہف آيت33
(4)سورہ كہف آيت34
دنيا كا مقصد پورا ہورہا ہو اور تو كم ظرف اور بے وقعت انسان اپنى دنياوى مراد پاكر غرورو تكبر ميں مبتلا ہوجاتا ہے اور سركشى كرنے لگتا ہے_ پہلے وہ دوسروں كے مقابلے ميں اپنے آپ كو بڑا سمجھنے لگتا ہے_ باغات كے اس مالك نے بھى اپنے دوست سے بات كرتے ہوئے كہا:''ميں دولت اور سرمائے كے لحاظ سے تجھ سے برترہوں،ميرى آبرو، عزت اور حيثيت تجھ سے زيادہ ہے''_(1)
اور افرادى قوت بھى ميرے پاس بہت زيادہ ہے_ مال و دولت اور اثر و رسوخ ميرا زيادہ ہے_ معاشرے ميں ميرى حيثيت زيادہ ہے_ تو ميرے مقابلے ميں كيا ہے اور تو كس كھاتے ميں ہے؟
آہستہ آہستہ اس كے خيالات بڑھتے چلے گئے اور بات يہاں تك پہنچ گئي كہ وہ دنيا كو جاوداں،مال و دولت كو ابدى اور مقام وحشمت كو دائمى خيال كرنے لگا_''وہ مغرور تھا حالانكہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم كررہا تھا_ايسے ميں اپنے باغ ميں داخل ہوا اس نے ايك نگاہ سر سبز درختوں پر ڈالى جن كى شاخيں پھلوں كے بوجھ سے خم ہوگئي تھيں_اس نے اناج كى ڈاليوں كو ديكھا،نہر كے آب رواں كى لہروں پر نظر كى كہ جو چلتے چلتے درختوں كو سيراب كررہا تھا_ ايسے ميں وہ سب كچھ بھول گيا اور كہنے لگا''ميرا خيال نہيں ہے كہ ميرا باغ بھى كبھى اجڑے گا''_(2)
پھر اس نے اس سے بھى آگے كى بات كي_اس جہان كا دائمى ہونا چونكہ عقيدہ قيامت كے منافى ہے لہذا وہ انكار قيامت كا سوچنے لگا_اس نے كہا:ميرا ہر گز نہيں خيال كہ كوئي قيامت بھى ہے_(3)
پھر مزيد كہنے لگا:فرض كياجائے كہ قيامت ہو بھي'' اور ميں اپنى اس حيثيت اور مقام كے ساتھ اپنے رب كے پاس جائوں بھى تو يقينا اس سے بہتر جگہ پائوں گا''_(4)
وہ ان خام خيالوں ميں غرق تھا اور ايك كے بعد دوسر ى فضول بات كرتا جاتا تھا _
(1)سورہ كہف آيت34
(2)سورہ كہف آيت35
(3)سورہ كہف آيت36
(4)سورہ كہف آيت36
قرآن ميں اس مغرور،بے ايمان،خود غرض دولت مند كى بے بنياد باتوں كا جواب اس كے مومن دوست كى زبانى ديا گيا ہے_ پہلے وہ خاموشى سے اس كوتاہ فكر انسان كى باتيں سنتا رہا تاكہ جو كچھ اس كے اندر ہے باہر آجائے اور پھر ايك ہى بار اسے جواب ديا جائے_''اس نے كہا:كيا تو اس خدا سے كافر ہوگيا ہے جس نے تجھے مٹى سے اور پھر نطفے سے پيدا كيا اور پھر تجھے پورا شخص بنايا_(1)(2)
اس كے بعد اس باايمان شخص نے اس كے كفر اورغرور كو توڑنے كے لئے كہا:''ليكن ميرا تو ايمان ہے كہ اللہ ميرا پروردگار ہے ،(3)اور مجھے اس عقيدے پر فخر ہے''_
(1)سورہ كہف آيت37
(2)يہاں ايك سوال سامنے آتا ہے كہ گزشتہ ميں مغرور شخص كى جو باتيں ہم نے پڑھى ہيں ان ميں وجود خدا كا صريح انكا رتو موجود نہيں ہے جبكہ ايك توحيد پرست شخص اسے جو جواب دے رہا ہے ظاہراًسب سے پہلے اسے انكار خدا پر سرزنش كررہا ہے اور اسے تخليق انسان كے حوالے سے خدائے عالم و قادر كى طرف متوجہ كررہا ہے كيونكہ تخليق انسان دلائل توحيد ميں سے بہت واضح دليل ہے_
مفسرين نے مذكورہ سوال كے جواب ميں مختلف تفسيريں پيش كى ہيں،مثلاً:
1_بعض كا كہنا ہے كہ اس مغرور شخص نے صراحت كے ساتھ معاد اور قيامت كا انكا ركيا ہے يا پھر اسے شك كى نظر سے ديكھا ہے جس كا لازمى نتيجہ انكار خدا ہے كيونكہ معاد جسمانى كے منكر در حقيقت قدرت خدا كے منكر ہيں_انہيں اس بات پر يقين نہيں كہ منتشر ہوجانے كے بعد مٹى پھر سے لباس حيات پہن سكے گي_
2_بعض نے كہا ہے كہ اس كے شرك اور كفر كى وجہ يہ تھى كہ وہ سمجھتا تھا كہ يہ مالكيت خود اس كى اپنى طرف سے ہے_ يعنى وہ اپنے لئے مالكيت كا قائل تھا اور اپنى مالكيت كو جاودانى خيال كرتا تھا_
3_تيسرا احتمال بھى بعيد نظر نہيں آتا ،وہ يہ كہ اس نے اپنى كچھ باتوں ميں خدا كا انكار كيا تھا اور اللہ تعالى نے اس كى سارى باتيں بيان نہيں كيں_اس كا اندازہ اس باايمان شخص كى باتوں سے كيا جاسكتا ہے_
(3)سورہ كہف آيت38
تو اس بات پر نازاں ہے كہ تيرے پا س باغات،كھيتياں،پھل اور پانى فراواں ہيں ليكن مجھے اس پر فخر ہے كہ ميرا پروردگار اللہ ہے،ميرا خالق و رازق وہ ہے،تجھے اپنى دنيا پر فخر ہے اور مجھے اپنے عقيدہ توحيد و ايمان پر،''اور ميں كسى كو اپنے رب كا شريك قرار نہيں ديتا''_(1)
توحيد اور شرك كا مسئلہ انسان كى سرنوشت ميں اہم ترين كردار ادا كرتاہے_پھر اس كے بارے ميں گفتگو اگے بڑھائي اور اس كى ملامت كرتے ہوئے كہا:''جب تو اپنے باغ ميں داخل ہوا تو تو نے يہ كيوں نہيں كہا كہ يہ نعمت اللہ كى منشا سے ہے''_(2)تو نے اسے اللہ كى جانب سے كيوں نہيں جانا اور اس كا شكر كيوں نہيں بجالايا _ ''تو نے كيوں نہيں كہا كہ اللہ كے سوا كسى كى كچھ طاقت نہيں''_(3)
اگر تو نے زمين ميں ہل چلايا ہے،بيج بويا ہے،درخت لگائے ہيں،قلميں لگا ئي ہيں اور تجھے ہر موقع پر سب كچھ ميسر آيا ہے يہاں تك كہ تو اس مقام پر پہنچا ہے تو سب اللہ كى قدرت سے استفادہ كرنے كى وجہ سے ہے_ يہ تمام وسائل اور صلاحتيں تجھے اللہ نے بخشى ہيں،اپنى طرف سے تو كچھ بھى تيرے پاس نہيں ہے اور اس كے بغير تو كچھ بھى نہيں ہے_ اس كے بعد اس نے مزيدكہا:''يہ جو تجھے نظر آتا ہے كہ ميں مال و اولاد كے لحاظ سے تجھ سے كم ہوں (يہ كوئي اہم بات نہيں ہے)_اللہ تيرے باغ كى نسبت مجھے بہتر عطا كر سكتا ہے''_(4)
''بلكہ يہ بھى ہو سكتا ہے كہ خداآسمان سے تيرے باغ پر بجلى گرائے اور ديكھتے ہى ديكھتے يہ سر سبز و شاداب زمين ايسے چٹيل ميدان ميں بدل جائے كہ جہاں پائوں پھسلتے ہوں''_(5)
يا زمين كو حكم دے كہ وہ ہل جائيں اور''يہ چشمے اور نہريں اس كى تہہ ميں ايسى چلى جائيں كہ پھر تو انہيں پا نہ سكے''_(6)
در اصل وہ كہتا ہے كہ تو نے اپنى آنكھوں سے ديكھا ہے يا كم از كم سنا ہے كہ كبھى ايسا بھى ہوتا ہے كہ
(1)سورہ كہف آيت38
(2)سورہ كہف 39
(3)سورہ كہف آيت 39
(4)سورہ كہف آيت 39تا40
(5)سورہ كہف آيت40
(6)سورہ كہف آيت41
آسمان سے بجلى لمحہ بھر ميں باغوں،گھروں اور كھيتوں كو مٹى كے ٹيلوں يا بے آب و گيا ہ زمين ميں بدل كے ركھ ديتى ہے_نيز تو نے سنا ہے يا ديكھا ہے كبھى زمين پر ايسا زلزلہ آتا ہے كہ چشمے خشك ہوجاتے ہيں اور نہريں نيچے چلى جاتى ہيں اسطرح سے كہ وہ قابل اصلاح بھى نہيں رہتيں_جب تو ان چيزوں كو جانتا ہے تو پھر يہ غرور و غفلت كس بناء پر؟ تو نے يہ منظر ديكھے ہيں تو پھر يہ دلبستگى آخر كيوں؟تو يہ كہتا ہے كہ ميں نہيں سمجھتا كہ يہ نعمتيں كبھى فنا ہوں گى اور تو يہ سمجھتا ہے كہ يہ ہميشہ رہيں گي_يہ كيسى نادانى اور حماقت ہے؟
ان دونوں كى آپس كى گفتگو ختم ہوگئي_ ا س خدا پرست شخص كى باتوں كا اس مغرور و بے ايمان دولت مند كے دل پر كوئي اثر نہ ہوا_وہ اپنے انہى جذبات اور طمرز فكر كے ساتھ اپنے گھر لوٹ گيا_اسے اس بات كى خبر نہ تھى كہ اس كے باغوں اور سر سبز كھيتوں كى تباہى كے لئے اللہ كا حكم صادر ہوچكا ہے_اسے خيال نہ تھاكہ وہ اپنے تكبر اور شرك كى سزا اسى جہان ميں پالے گا اور اس كا انجام دوسروں كے لئے باعث عبرت بن جائے گا_
شايد ا س وقت كہ جب رات كى تاريكى ہر چيز پر چھائي ہوئي تھي،عذاب الہى نازل ہوا تباہ كن بجلى كى صورت ميں يا وحشتناك طوفان كى شكل ميں يا ہولناك زلزلے كى صورت ميں اللہ كا عذاب نازل ہوا_ بہر حال جو كچھ بھى تھا اس نے چند لمحوں ميں تروتازہ باغات،سر بفلك درخت اور خوشوں سے لدى كھيتياں درہم برہم اور تباہ كرديں_''اور عذاب الہى حكم خدا سے ہر طرف سے اس كے ثمرہ پر محيط ہوگيا اور اسے نابود كرديا''_(1)
دن چڑھا_ باغ كا مالك باغ كى طرف چلا_سركشى ا سكے ذہن ميں تھي_وہ اپنے باغات كى پيداوار سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے كى فكر ميںتھا،جب وہ باغ كے قريب پہنچا تواچانك اس نے وحشت ناك منظر ديكھا_حيرت سے اس كا منہ كھلے كا كھلا رہ گيا_ اس كى آنكھوں كے سامنے تاريكى چھاگئي اور وہ وہاں بے حس و حركت كھڑا ہوگيا_
(1)سورہ كہف آيت 42
اسے سمجھ نہيں آرہى تھى كہ وہ يہ خواب ديكھ رہا ہے يا حقيقت _ سب درخت اوندھے پڑے تھے، كھيتياں زيرو زبر ہوچكى تھيں_زندگى كے كوئي آثار وہاں دكھائي نہ ديتے تھے_گويا وہاں كبھى بھى شاداب و سر سبز باغ اور كھيتياں نہ تھيں_اس كا دل دھڑكنے لگا_ چہرے كا رنگ اڑگيا_ حلق خشك ہوگيا_اس كے دل و دماغ سے سب غرور و نخوت جاتى رہى ،اسے ايسے لگا جيسے وہ ايك طويل اور گہرى نيند سے بيدار ہوا ہے ،''وہ مسلسل اپنے ہاتھ مل رہا تھا ،اسے ان اخراجات كا خيال ارہا تھا جو اس نے پورى زندگى ميں ان پر صرف كئے تھے ،اب وہ سب برباد ہو چكے تھے اور درخت اوندھے گرے پڑے تھے ''_(1)
اس وقت وہ اپنى فضول باتوں اور بيہودہ سوچوں پر پشيمان ہوا،''وہ كہتا تھا :كاش ميں نے كسى كواپنے پروردگار كا شريك نہ قرار ديا ہوتا ،اے كاش ميں نے شرك كى راہ پر قدم نہ ركھا ہوتا'' _(2)
زيادہ المناك پہلو يہ تھا كہ ان تمام مصائب و الام كے سامنے وہ تن تنہا كھڑا تھا ''خدا كے علاوہ كوئي نہ تھا كہ جو اس مصيبت عظيم اور اتنے بڑے نقصان پر اس كى مدد كرتا _''(3)اور چونكہ اس كا سارا سرمايہ تو يہى تھاجو برباد ہوگيا ،اب اس كے پاس كچھ بھى نہ تھا _لہذا ''وہ خود بھى اپنى كوئي مدد نہيں كرسكتا تھا_''(4)
درحقيقت اس واقعے نے اس كے تمام غرورآميز تصورات و خيالات كو زمين بوس اور باطل كرديا ،كبھى تو وہ كہتا تھا كہ ميں نہيںسمجھتا كہ يہ عظيم دولت و سرمايہ كبھى فنا ہوگا ليكن اج وہ اپنى انكھوں سے اس كى تباہى ديكھ رہا تھا _ دوسرى طرف وہ اپنے خد ا پرست اور باايمان دوست كے سامنے غرور و تكبر كا مظاہرہ كرتا تھا اور كہتا تھا كہ ميں تجھ سے زيادہ قوى ہوں ،ميرے پروردگار زيادہ ہيں ليكن اس واقعے كے بعد اس نے ديكھا كہ كوئي بھى اس كا مدد گار نہيں ہے _ اسے كبھى اپنى طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سمجھتا تھا كہ اس كى بہت قوت ہے ليكن جب يہ واقعہ رونما ہوا اور اس نے ديكھا كہ كچھ بھى اس كے بس ميں نہيں تو اسے اپنى غلطى كا احساس ہوا كيونكہ اب وہ ديكھ رہا تھا كہ اس كے بس ميں اتنا بھى نہيں كہ وہ اس نقصان كے كچھ حصے كى بھى تلافى كر سكے _
(1)سورہ كہف ايت 42،
(2)سورہ كہف ايت 42
(3)سورہ كہف ايت 43
(4)سورہ كہف ايت 43
بنى اسرائيل ميں ايك نامى گرامى عابد تھاجس كا نام ''بر صيصا'' تھا(1)
جس نے طويل عرصہ تك عبادت پروردگار كى تھى جس كى وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچ گيا تھا كہ جان بلب مريضوں كو اس كے پاس لاتے تھے اور اس كى دعا كے نتيجے ميں انھيں دوبارہ صحت و سلامتى ميسر ہوجاتى تھى ايك دن ايك معقول گھرانے كى عورت كو اس كے بھائي اس كے پا س لائے اور طے پايا كہ كچھ عرصہ تك وہ عورت وہيں رہے تاكہ اس كو شفا حاصل ہو _
اب شيطا ن نے اس كے دل ميں وسوسہ ڈالنے كا پروگرام بنايا اور اس قدراس كو اپنے دام ميں اسير كيا كہ اس عابد نے عورت كے سا تھ زيادتى كى اور كچھ دنوں بعد يہ بات كھل گئي كہ وہ عورت حاملہ ہے (كيونكہ ہميشہ ايك گناہ عظيم تر گناہوں كا سر چشمہ بنتا ہے )اس نے عورت كو قتل كر ديا اور بيابان كے ايك گوشہ ميں دفن كر ديا ،اس عورت كے بھائي اس واقعہ سے باخبر ہوئے كہ مرد عابد نے اس قسم كے ظلم عظيم كا اقدام كيا ہے _
يہ خبر سارے شہر ميں پھيل گئي ،يہاں تك كہ امير شہر كے كانوں تك جا پہنچى ،وہ كچھ لوگوں كو ساتھ لے كر چلا تاكہ حقيقت حال سے باخبر ہو ،جس وقت وہ ظلم ثابت ہو گيا تو اس كو اس كى عبادت گاہ سے كھينچ كر باہر لے ائے، اقرار گناہ كے بعد حكم ديا گيا كہ اسے سولى پر چڑھا ديا جائے جس وقت وہ سولى پر چڑھا ديا جانے لگا
(1)اس واقعہ كو بعض مفسرين نے سورہ حشر 16 ،17 كے ذيل ميں بيان كيا ہے
تو شيطان اس كے سامنے نمودار ہوا اور كہا وہ ميں تھا جس نے تجھے اس مصيبت ميں پھنسايا ،اب اگر جو كچھ ميں كہوں وہ مان لے تو ميں تيرى نجات كا سامان فراہم كر تا ہوں ،عابد نے كہا ميںكيا كروں ،اس نے كہا ميرے لئے تيرا صرف ايك سجدہ كافى ہے_
عابد نے كہا جس حالت ميں تو مجھے ديكھ رہا ہے اس ميں سجدہ كر نے كا كوئي امكان نہيں ہے ،شيطان نے كہا:اشارہ ہى كافى ہے ،عابد نے گوشہ چشم يا ہاتھ سے اشارہ كيا اور اس طرح شيطان كى بارگاہ ميں سجدہ بجالا يا اور اسى وقت مر گيا اور دنيا سے كافر گيا _
قران سورہ بروج ميں فرماتا ہے :''موت اور عذاب ہو تشدد كرنے والوں پر _''
''وہى خندقيں جو اگ اور لكڑيوں سے پُر تھيں جن ميںسے بڑے بڑے شعلے نكل رہے تھے ''_
''جس وقت وہ اس اگ كى خندق كے پاس بيٹھے ہوئے تھے (سرد مہرى سے)
''اور جو كچھ وہ مومنين كے بارے ميں انجام دے رہے تھے اسے ديكھ رہے تھے _''(1)
''اخدود''عظيم گڑھے او ر خندق كے معنى ميں ہے اور يہاں بڑى بڑى خندقيں مراد ہيں جو اگ سے پر تھيں تاكہ تشدد كر نے والے اس ميں مومنين كو پھينك كر جلائيں _
يہ واقعہ كس قوم سے متعلق ہے اور كس وقت معرض وجود ميں ايا اور كيا يہ ايك خاص معين و مقرر واقعہ تھا ،يا دنيا كے مختلف علاقوں كے اسى قسم كے متعدد واقعات كى طرف اشارہ ہے _
مفسرين و مورخين كے درميان اس موضوع پرا ختلاف ہے سب سے زيادہ مشہور يہ ہے كہ يہ واقعہ سر زمين يمن كے'' قبيلہ حمير'' كے ''ذونواس'' نامى بادشاہ كے دور كا ہے _
(1)سورہ بروج ايت 4تا 7
تفصيل اس كى يہ ہے كہ ذونواس ،جوحمير نامى قبيلہ سے متعلق تھا يہودى ہوگيا اس كے ساتھ ہى اس كا پورا قبيلہ بھى يہودى ہو گيا ،اس نے اپنا نام يوسف ركھا ،ايك عرصہ تك يہى صورت حال رہى ،ايك وقت ايسا ايا كہ كسى نے اسے خبردى كہ سر زمين نجران (يمن كا شمالى حصہ )ميں ابھى تك ايك گروہ نصرانى مذہب كاپر قائم ہے ذونواس كے ہم مسلك لوگوں نے اسے اس بات پر ابھارا كہ اہل نجران كو دين يہود كے قبول كرنے پر مجبور كرے _
وہ نجران كى طرف روانہ ہو گيا،وہاں پہنچ كر اس نے وہاں كے رہنے والوں كو اكٹھا كيا اور دين يہود ان كے سامنے پيش كيا اور ان سے اصرار كيا كہ وہ اس دين كو قبول كريں ،ليكن انھوں نے انكار كيا اور شہادت قبول كرنے پر تيار ہو گئے ،انھوںنے اپنے دين كو خير باد نہ كہا ،ذونواس اورا سكے ساتھيوں نے ايك گروہ كر پكڑ كر اسے اگ ميں زندہ جلا يا اور ايك گروہ كو تلوار كے گھاٹ اتارا ،اس طرح اگ ميں جلنے والوں اور مقتولين كى تعداد بيس ہزار تك پہنچ گئي _
بعض مفسرين نے يہ بھى لكھا ہے كہ اس سلسلہ دار و گير سے بچ كر نصارى بنى نجران كا ايك ادمى قيصر روم كے دربار ميں جاپہنچا ،اس نے وہاں ذوانواس كى شكايت كى اور اس سے مدد طلب كى ،قيصر روم نے كہا تمہارى سر زمين مجھ سے دور ہے ،ميںبادشاہ حبشہ كو خط لكھتا ہوں جو عيسائي ہے اور تمہارا ہمسايہ ہے ميں اس سے كہتا ہوں كہ وہ تمہارى مدد كرے _
پھر اس نے خط لكھا اور حبشہ كے بادشاہ سے نصارى نجران كے عيسائيوں كے خون كا انتقام لينے كى خواہش كى ،وہ نجرانى شخص بادشاہ حبشہ نجاشى كے پاس گيا ،نجاشى اس سے يہ تمام ماجرا سن كر بہت متاثر ہو ا اور سر زمين نجران ميں شعلہ دين مسيح كے خاموش ہوجانے كا اسے بہت افسوس ہوا ،اس نے ذونواس سے شہيدوں كے خون كا بدلہ لينے كا مصمم ارادہ كر ليا _
اس مقصد كے پيش نظر حبشہ كى فوج يمن كى طرف روانہ ہوئي اور ايك گھمسان جنگ كے نتيجے ميں اس نے ذونواس كو شكست فاش دى اور ان ميں سے بہت سے افراد كو قتل كيا ،جلد ہى نجران كى حكومت نجاشى كے
قبضہ ميں اگئي اور نجران حبشہ كا ايك صوبہ بن گيا _
بعض مفسرين نے تحرير كيا ہے كہ اس خندق كاطول چاليس ذراع (ہاتھ)تھا اور اس كا عرض بارہ ذراع تھا ،(1)
بعض مورخين نے لكھا ہے كہ سات گڑھے تھے جن ميں سے ہر ايك كى وسعت اتنى ہى تھى جتنى اوپر بيان ہوئي _(2)
جو كچھ ہم نے تحرير كيا اس سے واضح ہوتا ہے كہ تشد دكرنے والے بے رحم افراد اخر كار عذاب الہى ميں گرفتار ہوئے اور ان سے اس خون ناحق كا انتقام دنيا ہى ميں لياگيا اور عاقبت كاعذاب جہنم ابھى ان كے انتظار ميں ہے _
انسانوں كوجلانے والى يہ بھٹياں جو يہوديوں كے ہاتھ سے معرض وجود ميں ائيں ،احتمال اس امر كا ہے كہ پورى انسانى تاريخ ميں يہ پہلى ادم سوز بھٹياں تھيں ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ اسى قسم كى قساوت اور بے رحمى كاخود يہودى بھى شكار ہوئے جيسا كہ ہم جانتے ہيںكہ ان ميں سے بہت زيادہ لوگ'' ہٹلر ''كے حكم سے ادم سوز بھٹيوں ميں جلائے گئے اور اس جہان ميں بھى عذاب حريق كا شكار ہو ئے _
علاوہ ازيں'' ذونواس يہودى ''جو اس منحوس اقدام كا بانى تھا ،وہ بھى بد اعمالى كے انجام سے نہ بچ سكا، جو كچھ اصحاب اخدود كے بارے ميں درج كيا گيا ہے يہ مشہور و معروف نظريات كے مطابق ہے _(3)
(1)ايك ذراع تقريبا ادھا ميٹر ہے اور بعض اوقات گز كے معنى ميں استعمال ہو تا ہے جو تقريبا ايك ميٹر ہے )_
(2)مندرجہ بالا واقعہ تاريخ و تفسير كى بہت سى كتابوں ميں درج ہے ،منجملہ ديگر كتب كے عظيم مفسر طبرسى نے مجمع البيان ميں ،ابو الفتاح رازى نے اپنى تفسير ميں ،فخر رازى نے اپنے تفسير كبير ميں ،الوسى نے روح المعانى ميں اور قرطبى نے اپنى تفسير ميں اسى طرح ہشام نے اپنى سيرت (جلد اول ص35) ميں اور ايك دوسرى جماعت نے اپنى كتب ميں اس واقعہ كو تحرير كيا ہے
(3)ليكن اس ضمن ميں كچھ اور روايات بھى موجود ہيں جو يہ بتاتى ہيں كہ اصحاب اخدود صرف يمن ميں ذونواس -->
<--- ہى كے زمانے ميں نہيں تھے _
بعض مفسرين نے تو ان كے بارے ميں دس قول نقل كئے ہيں _
ايك روايت حضرت امير المو منين على عليہ السلام سے منقول ہے ،اپ نے فرمايا ہے وہ ا ہل كتاب مجوسى تھے جو اپنى كتاب پر عمل كرتے تھے ،ان كے بادشاہوں ميں سے ايك نے اپنى بہن سے مباشرت كى اورخو اہش ظاہر كى كہ بہن سے شادى كو جائز قرار دے ،ليكن لوگوں نے قبول نہيں كيا،بادشاہ نے ايسے بہت سے مومنين كو جنھوں نے يہ بات قبول نہيں كى تھى ،جلتى ہوئي اگ كى خندق ميں ڈلوا ديا _''
يہ فارس كے اصحاب الاخدود كے بارے ميں ہے ،شام كے اصحاب الاخدود كے بارے ميں بھى علماء نے لكھا ہے كہ وہاں مومنين رہتے تھے اور'' انتيا خوس'' نے انھيں خندق ميں جلوايا تھا_
بعض مفسرين نے اس وقعہ كو بنى اسرائيل كے مشہور پيغمبر حضرت دانيال عليہ السلام كے اصحاب و انصار كے ساتھ مربوط سمجھا ہے جس كى طرف توريت كى كتاب دانيال ميں اشارہ ہوا ہے اور ثعلبى نے بھى اخدود فارسى كو انہى پر منطبق كيا ہے _
كچھ بعيد نہيں كہ اصحاب اخدود ميں يہ سب كچھ اور ان جيسے دوسرے لوگ شامل ہوں اگر چہ اس كا مشہور معروف، مصداق سر زمين يمن كا ذونواس ہى ہے
بيٹيوں كا زندہ در گور كرنے كى داستان بڑى ہى دردناك ہے (1)ان واقعات پر نظر پڑے تو حالت غير ہوجاتى ہے _
ايك شخص پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا اس نے اسلام قبول كر ليا ،سچااسلام _
ايك روز وہ انحضرت (ص) كى خدمت ميں ايا اور سوال كيا :اگر ميں نے كوئي بہت بڑا گناہ كيا ہو تو كيا ميرى توبہ قبول ہو سكتى ہے ؟
اپ (ص) نے فرمايا :خدا تو اب و رحيم ہے _
اس نے عرض كيا :يا رسول اللہ ميرا گناہ بہت ہى بڑا ہے _
اپ(ص) نے فرمايا :وائے ہو تجھ پر ،تيرا گناہ كتنا ہى بڑا كيوں نہ ہو خدا كى بخشش سے بڑا تو نہيں ؟وہ كہنے لگا :اب جب كہ اپ يہ كہتے ہيں تو ميں عرض كروں :زمانہ جاہليت ميں ميں ايك دور دراز كے سفر پر گيا ہواتھا ان دنو ں ميرى بيوى حاملہ تھى ميں چار سال بعد گھر واپس لوٹا ،ميرى بيوى نے ميرا استقبال كيا ميں گھر ايا تو مجھے ايك بچى نظر ائي ميں نے پوچھا يہ كس كى لڑكى ہے ؟اس نے كہا :ايك ہمسايے كى لڑكى ہے ،ميں نے سوچا گھنٹے بھر تك اپنے گھر چلى جائے گى ليكن مجھے بڑا تعجب ہوا كہ وہ نہ گئي ،مجھے علم نہ تھا كہ يہ ميرى لڑكى ہے اور اس كي
(1)سورہ نمل ايت 58و59
ماں حقيقت كو چھپا رہى ہے كہ كہيں يہ ميرے ہاتھوں قتل نہ ہوجائے _
اس نے بات جارى ركھتے ہوئے كہا:اخر كار ميں نے بيوى سے كہا :سچ بتاو يہ كس كى لڑكى ہے ؟
بيوى نے جواب ديا :جب تم سفر پر گئے تھے تو ميں اميد سے تھى بعد ميں يہ بيٹى پيدا ہوئي ،يہ تمہارى ہى بيٹى ہے _
اس شخص نے مزيد كہا :ميں نے وہ رات بڑى پريشانى كے عالم ميں گزارى كبھى انكھ لگ جاتى اور كبھى ميں بيدار ہو جاتا ،صبح قريب تھى ،ميں بستر سے نكلا ،لڑكى كے بستر كے پاس گيا وہ اپنى ماں كے پا س سو رہى تھي، ميں نے اسے بستر سے نكالا ،اسے جگايا ،اس سے كہا :ميرے ساتھ نخلستان كى طرف چلو_
اس نے بات جارى ركھى :وہ ميرے پيچھے پيچھے چل رہى تھى يہاں تك كہ ہم نخلستان ميں پہنچ گئے ميں نے گڑھا كھودنا شروع كيا وہ مير ى مدد كررہى تھى ميرے ساتھ مل كر مٹى باہر پھينكتى تھى گڑھا مكمل ہو گيا ميں نے اسے بغل كے نيچے سے پكڑ كر اس گڑھے كے درميان دے مارا _
اتنا سننا تھا كہ رسول اللہ (ص) كى انكھيں بھرائيں _
اس نے مزيد بتا يا :ميں نے اپنا باياں ہاتھ اس كے كندھے پر ركھا تاكہ وہ باہر نہ نكل سكے دائيں ہاتھ سے ميں اس پر مٹى ڈالنے لگا اس نے بہت ہاتھ پاو ں مارے ،بڑى مظلومانہ فرياد كى ;وہ كہتى تھى ابو جاناپ مجھ سے يہ سلوك كر رہے ہيں ؟
اس نے بتايا :ميں اس پر مٹى ڈال رہا تھا كہ كچھ مٹى ميرى داڑھى پر اپڑى بيٹى نے ہاتھ بڑھا يا اور ميرے چہرے سے مٹى صاف كى ليكن ميں اسى قساوت اور سنگدلى سے اس كے منہ پر مٹى ڈالتا رہا يہاں تك كہ اس كے نالہ و فريا كى اخرى اواز بہ خاك دم توڑ گئي _
رسول اللہ (ص) نے داستان بڑے غم كے عالم ميں سنى ،وہ بہت دكھى اور پريشان تھے اپنى انكھوں سے انسو صاف كرتے جارہے تھے _ اپ(ص) نے فرمايا :اگر رحمت خدا كو اس كے غضب پر سبقت نہ ہوتى تو ضرورى تھا كہ جتنا جلدى ہوتا وہ تجھ سے انتقام ليتا _
''قيس بن عاصم''ا بن تميم كے سرداروں ميں سے تھا ،ظہور رسالت ماب كے بعد وہ اسلام لے ايا تھا اس كے حالات ميں لكھا ہے كہ ايك روزوہ رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوا وہ چاہتا تھا كہ جو سنگين بوجھ وہ اپنے كندھوں پر اٹھا ئے پھرتا ہے اسے كچھ ہلكا كرے ،اس نے رسول اكرم (ص) كى خدمت ميں عرض كيا:
گزشتہ زمانے ميں بعض باپ ايسے بھى تھے جنھوں نے جہالت كے باعث اپنى بے گناہ بيٹيوں كو زندہ در گور كر ديا تھا ميرى بھى بارى بيٹياں ہوئيں ميں نے سب كے ساتھ يہ گھناو نا سلوك كيا ليكن جب ميرے يہاں تيرہويں بيٹى ہوئي بيوى نے اسے مخفى طورپر جنم ديا اس نے يہ ظاہر كيا كہ نومولود مردہ پيدا ہوئي ہے ،ليكن اسے چھپ چھپا كر اپنے قبيلے والوں كے يہاں بھيج ديا اس وقت تو ميں مطئمن ہو گيا ليكن بعد ميں مجھے اس ماجراے كا علم ہوگيا ميں نے اسے حاصل كيا اور اپنے ساتھ ايك جگہ لے گيا _
اس نے بہت اہ وزارى كى ،ميرى منتيں كيں ،گريہ و بكا كى مگر ميں نے پرواہ نہ كى اور اسے زندہ در گور كرديا _
رسول اللہ (ص) نے يہ واقعہ سنا تو بہت ناراحت ہوئے ،اپ(ص) كى انكھوں سے انسو جارى تھے كہ اپ نے فرمايا :
جو كسى پر رحم نہيں كھاتا اس پر رحم نہيں كھايا جائے گا _
اس كے بعد اپ(ص) نے قيس كى طرف رخ كيا اور يوں گويا ہوئے :
تمہيں سخت ترين دن درپيش ہے _
قيس نے عرض كيا:
ميں كياكروں كہ اس گناہ كا بوجھ ميرے كندھے سے ہلكا ہو جائے ؟
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:
تو نے جتنى بيٹيوں كو قتل كيا ہے اتنے غلام ازاد كر(كہ شايد تيرے گناہ كا بوجھ ہلكا ہو جائے _)
نيز مشہور شاعر فرزدق كے داد ا'' صعصعہ بن ناجية'' كے حالات ميں لكھا ہے كہ وہ حريت فكر ركھنے والا ايك شريف انسان تھا زمانہ جاہليت ميں وہ لوگوں كى بہت سے برى عادات كے خلاف جد وجہد كرتا تھا يہاں تك كہ اس نے 360/ لڑكياں ان كے والدوں سے خريد كر انھيں موت سے نجات بخشي، ايك مرتبہ اس نے ديكھا كہ ايك باپ اپنے نومولود بيٹى كو قتل كر نے كا مصمم ارادہ كر چكا ہے ،اس بچى كى نجات كے لئے اس نے اپنى سوارى كا گھوڑا تك اور دو اونٹ اس كے باپ كو دے ديئے اور اس بچى كو نجات دلائي _
پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا:تونے بہت ہى بڑ اكام انجام ديا ہے اور تيرى جزا اللہ كے يہاں محفوظ ہے _(1)
(1)فرزدق نے اپنے دادا كے اس كام پر فخر كرتے ہوئے كہا ;
''اور وہ شخص ہمارے خاندان سے تھا جس نے بيٹيوں كى زندہ دفن كرنے كے خلاف قيام كيا ،اس نے لڑكيوں كو لے ليا اور انھيں زندگى عطا كى اور انھيں تہہ خاك دفن نہ ہو نے ديا _''
مفسرين اور مو رخين نے اس داستان كو مختلف صورتوں ميں نقل كيا ہے اور اس كے وقوع كے سال ميں بھى اختلاف ہے ليكن اصل داستان ايسى مشہور ہے كہ يہ اخبار متواتر ميں شمار ہوتى ہے اور ہم اسے مشہور روايات كے مطابق''سيرةابن ہشام ''و بلوغ الارب'' و''بحار الانوار''اور مجمع البيان سے خلاصہ كركے نقل كرتے ہيں_
يمن كے بادشاہ''ذونواس''نے نجران كے عيسائيوں كو جو اس سرزمين كے نزديك بستے تھے،اس لئے بہت بہت تنگ كر ركھا تھا كہ وہ اپنا دين مسيحيت چھوڑديں_(قرآن نے اس واقعہ كو سورہ ''بروج''ميں ''اصحاب الاخدود'' كے عنوان سے بيان كيا ہے_)
اس عظيم جرم كے بعد''دوس''نامى ايك شخص ان ميں سے اپنى جان بچاكر نكل گيا اور وہ قيصر روم كے پاس،جو مسيحيت پر تھا جا پہنچا اور اس كے سامنے يہ سارا ماجرا بيا ن كيا_
چونكہ''روم''اور''يمن'' كے درميان فاصلہ زيادہ تھا لہذا اس نے حبشہ كے بادشاہ''نجاشي''كو خط لكھا كہ وہ''ذونواس''سے نصارائے نجران كا انتقام لے،اور اس خط كو اسى شخص كے ہاتھ''نجاشي''كے پاس روانہ كيا_
''نجاشي''نے ايك بہت بڑا لشكر چو ستر ہزار افراد سے زيادہ پر مشتمل تھا''ارياط''نامى شخص كے كمان ميں يمن كى طرف روانہ كيا_''ابرہہ''بھى اس لشكر كے افسروں ميں سے ايك تھا_
''ذونواس''كو شكست ہوئي،اور ''ارياط''يمن كا حكمران ہوگيا_كچھ مدت كے بعد''ابرہہ''نے ارياط كے خلاف بغاوت كردى اور اس كا خاتمہ كرنے كے بعد اس كى جگہ پر بيٹھ گيا_
اس واقعہ كى خبرنجاشى كو پہنچى تو اس نے''ابرہہ'' كى سركوبى كرنے كا مصمم ارادہ كرليا_ابرہہ نے اپنى نجات كے لئے اپنے سركے بال منڈوا كر يمن كى كچھ مٹى كے ساتھ مكمل تسليم كى نشانى كے طور پر نجاشى كے پاس بھيج ديے،اور وفادارى كا اعلان كيا_نجاشى نے جب يہ ديكھا تو ابرہہ كو معاف كرديا،اوراسے اس كے منصب پر برقرارركھا_
اس موقع پر''ابرہہ''نے اپنے حسن خدمت كو ثابت كرنے كے لئے ايك اہم اور بہت ہى خوبصورت گرجا تعمير كرايا_ جس كى اس زمانے ميں كرہ ارض پر كوئي مثل و نظير نہ تھي_اور اس كے بعد جزيرہ عرب كے لوگوں كو خانہ كعبہ كے بجائے اس گرجے كى طرف دعوت دينے كا مصمم ارادہ كرليا،اور يہ پختہ ارادہ كرليا كہ اس جگہ كو عرب كے حج كا مركز بنا كر مكہ كى اہم مركزيت كو وہاںمنتقل كردے_
اس مقصد كے لئے اس نے ہر طرف عرب كے قبائل او سرزمين حجاز ميں بہت سے مبلغ بھيجے_ عربوں نے،جو مكہ اور كعبہ كے ساتھ شديد لگائو ركھتے تھے اور اسے ابراہيم عليہ السلام كے آثار ميں سے جانتے تھے،اس سے خطرہ محسوس كيا_بعض روايات كے مطابق ايك گروہ نے وہاں جاكر مخفى طور پر اس گرجے كو آگ لگادي،اور دوسرى روايت كے مطابق بعض نے اسے مخفى طور پر گندہ اور ملوث كرديا_اور اس طرح سے انہوں نے اس عظيم دعوت كے مقابلہ ميں شديد رد عمل كا مظاہرہ كيا،اور''ابرہہ''كے عبادت خانے كو بے اعتبار اور حقير بناديا_
ظاہر ہے اس پر ''ابرہہ''كو بہت غصہ آيا اور اس نے خانہ كعبہ كو كلى طور پر ويران كرنے كا پختہ ارادہ
كرليا_اس كا خيال تھا اس طرح وہ انتقام بھى لے لے گا اور عربوں كو نئے معبد كى طرف متوجہ بھى كردے گا_چنانچہ وہ ايك بہت بڑے لشكر كے ساتھ،جن ميں سے كچھ لوگ ہاتھيوں پر سوار تھے،مكہ كى طرف روانہ ہوا_
جب وہ مكہ كے قريب پہنچا تو اس نے كچھ لوگوں كو مكہ والوں كے اونٹ اور دوسرے اموال لوٹنے كے لئے بھيجا_ان ميں سے دوسو اونٹ عبد المطلب(ع) كے بھى لوٹ لئے گئے_
''ابرہہ'' نے كسى آدمى كو مكہ كے اندر بھيجا اور اس سے كہا كہ رئيس مكہ كو تلاش كركے اس سے كہنا كہ''ابرہہ''يمن كا بادشاہ كہتا ہے كہ:ميں جنگ كرنے كے لئے نہيں آيا_ميں تو صرف اس لئے آيا ہوں كہ اس خانہ كعبہ كو ويران كردوں_اگر تم جنگ نہ كرو تو مجھے تمہارا خون بہانے كى ضرورت نہيں ہے_
''ابرہہ''كا قاصد مكہ ميں داخل ہوا اور رئيس و شريف مكہ كے بارے ميں دريافت كيا_سب نے''عبدالمطلب(ع) '' كى طرف راہنمائي كى _ اس نے عبدالمطلب(ع) كے سامنے ماجرا بيان كيا_ ''عبد المطلب(ع) '' نے بھى يہى جواب ديا كہ ہم ميں تم سے جنگ كرنے كى طاقت نہيں ہے،رہا خانہ كعبہ تو خداخود اس كى حفاظت كرے گا_
''ابرہہ''كے قاصد نے عبدالمطلب(ع) سے كہا كہ تمہيںميرے ساتھ اس كے پاس چلنا پڑے گا_جب عبدالمطلب(ع) اس كے دربارميں داخل ہوئے تو وہ آپ(ع) كے بلند قد،حسين چہرے اور حدسے زيادہ رعب اور دبدبہ كو ديكھ كر سخت متاثر ہوا،يہاك تك كہ''ابرہہ''ان كے احترام ميں اپنى جگہ سے اٹھ كھڑا ہوا اور زمين پر بيٹھ گيا اور''عبدالمطلب(ع) ''كو اپنے پہلو ميں بٹھايا،كيونكہ وہ نہيں چاہتا تھا كہ انہيں اپنے ساتھ تخت پر بٹھائے_اس كے بعد اس نے اپنے مترجم سے كہا كہ ان سے پوچھ كہ ان كى كيا حاجت ہے؟
آپ (ع) نے مترجم سے كہا:ميرى حاجت يہ ہے كہ ميرے دوسو اونٹ تيرے لشكرى لوٹ كرلے گئے
ہيں،تو انہيں حكم دے كہ وہ ميرا مال واپس كرديں_
''ابرہہ''كو ان كے اس مطالبہ پر سخت تعجب ہوا اور اس نے اپنے مترجم سے كہا:ان سے كہوں:جب ميں نے تمہيں ديكھا تھا،تو ميرے دل ميں تمہارى بہت زيادہ عظمت پيدا ہوئي تھي،ليكن جب تم نے يہ بات كہى تو ميرى نظر ميں تمہارى توقير گھٹ گئي_تم اپنے دوسو اونٹوں كے بارے ميں تو بات كرتے ہو ليكن''كعبہ''كے بارے ميں جو تمہارا او رتمہارے آبائو واجداد كا دين ہے،اور ميں اسے ويران كرنے كے لئے آيا ہوں،بالكل كوئي بات نہيں كرتے_
''عبدالمطلب(ع) '' نے كہا:
''انارب الابل،وان للبيت رباًسيمنعہ''_
''ميں اونٹوں كا مالك ہوں،اور اس گھر كا بھى ايك مالك ہے،وہ اس كى حفاظت خود كرے گا_''
(اس بات نے ابرہہ كو ہلا كر ركھ ديا اور وہ سوچ ميں پڑگيا)_
''عبدالمطلب(ع) ''مكہ كى طرف آئے،اور لوگوں كواطلاع دى كہ وہ پہاڑوں ميں پناہ گزيں ہوجائيں_ اور آپ(ع) خود ايك گروہ كے ساتھ خانہ كعبہ كے پاس آئے تا كہ دعا كريں اور مدد طلب كريں_ آپ(ع) نے خانہ كعبہ كے دروازے كى زنجير ميں ہاتھ ڈال كر مشہور اشعار(1) پڑھے جن كا ترجمہ يہ ہے:
''خدايا ہر شخص اپنے گھر كى حفاظت كرتا ہے تو اپنے گھر كى حفاظت فرما_''
''ايسا كبھى نہ ہو كہ كسى دن ان كى صليب اور ان كى قدرت تيرى قدرتوں پر غلبہ حاصل كرے''_
''اور اپنے شہروں كى تمام توانائياں اور ہاتھى ساتھ لے كر آئے ہيں تا كہ تيرے حرم كے ساكنوں كو قيدى بناليں''_
(1)''لاھم ان المرء يمنع رحلہ فامنع رحالك
لايغلبن صليبھم و محالھم ابداً محالك''
''جروا جميع بلادھم والفيل كى يبسواعيالك
لاھم ان المرء يمنع رحلہ فامنع عيالك''_
''والنصر على ال الصليب و عابديہ اليوم ا لك
''خدايا ہر شخص اپنے گھروالو ں كا دفاع كرتا ہے تو بھى اپنے حرم امن كے رہنے والوں كا دفاع كر''_
''اور آج اس حرم كے رہنے والوں كى آل صليب اور اس كى عبادت كرنے والوں كے برخلاف مدد فرما''_
اس كے بعد عبدالمطلب(ع) اطراف مكہ كے ايك درہ كى طرف آئے،قريش كى ايك جماعت كے ساتھ وہاں پناہ لى اور اپنے ايك بيٹے كو حكم ديا كہ وہ كوہ'' ابوقيس ''كے اوپر جاكر ديكھے كہ كيا ہورہا ہے_
آپ كا بيٹا بڑى تيزى كے ساتھ آپ(ع) كے پاس آيا اور كہا:بابا جانسمندر (دريائے احمر)كى طرف سے ايك سياہ بادل آتا ہوا نظر آرہا ہے عبدالمطلب(ع) خوش ہوگئے اور پكار كر كہا:
''اے جمعيت قريش اپنے گھروںكى طرف پلٹ جائو كيونكہ خدا كى نصرت تمہارى مدد كے لئے آرہى ہے''_ يہ تو اس طرف كى بات تھي_
دوسرى طرف سے ابرہہ اپنے مشہور ہاتھى پر سوار ہوا جس كا نام''محمود''تھا اس نے كثير لشكر كے ساتھ كعبہ كو تباہ كرنے كے لئے اطراف كے پہاڑوں سے مكہ كى طرف اترا،ليكن وہ اپنے ہاتھى پر جتنا دبائو ڈالتا تھا وہ آگے نہ بڑھتا تھا،ليكن جب وہ ا س كا رخ يمن كى طرف كرتا تھا تو وہ فوراً چل پڑتا تھا_ابرہہ اس واقعہ سے سخت متعجب ہوا اور حيرت ميں ڈوب گيا_
اسى اثناء ميںسمندر كى طرف سے غول كے غول اورجھنڈ كے جھنڈ،چھوٹے چھوٹے پرندوں كے، آن پہنچے،جن ميں سے ہر ايك كے پاس تين تين كنكرياں تھيں،ايك ايك چونچ ميں اور دو دو پنجوں ميں،جو تقريباًچنے كے دانے كے برابر تھيں_ انہوں نے يہ كنكرياں ابرہہ كے لشكر پر برسانى شروع كرديں_يہ كنكرياں جس كسى كو لگتيں وہ ہلاك ہوجاتا_اور بعض نے يہ كہا ہے كہ يہ كنكرياں ان كے بدن پر جہاں بھى لگتى سوراخ كرديتى تھيں،اور دوسرى طرف نكل جاتى تھيں_
اس وقت ابرہہ كے لشكر پر ايك عجيب و غريب وحشت طارى ہوگئي_ جو زندہ بچے وہ بھاگ كھڑے ہوئے،اور واپسى كے لئے يمن كى راہ پوچھتے تھے،ليكن مسلسل خزاں كے پتوں كى طرح سڑك كے بيچوں بيچ
گرجاتے تھے_
ايك پتھر خود''ابرہہ''كے آكر لگا اور وہ زخمى ہوگيا_ اس كو صنعا(يمن كے پائے تخت)كى طرف واپس لے گئے اور وہ وہاں جاكر ہلاك ہوگيا_
بعض نے كہا ہے كہ چيچك كى بيمارى پہلى مرتبہ عرب ميں اسى سال پھيلى تھي_
ہاتھيوں كى تعداد جو ابرہہ اپنے ساتھ لے گيا تھا،بعض نے وہي''محمود''ہاتھي،بعض نے آٹھ،بعض نے دس اور بعض نے بارہ لكھى ہے_
مشہور قول كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) كى ولادت اسى سال ہوئي اور عالم آپ(ع) كے نوروجود سے منور ہوگيا_لہذا بہت سے لوگوں كا عقيدہ يہ ہے كہ ان دونوں واقعات كے درميان ايك رابطہ موجود تھا_
بہر حال اس عظيم حادثہ كى اس قدر اہميت تھى كہ اس سال كا نام ''عام الفيل''(ہاتھى كا سال)ركھا گيااور يہ عربوں كى تاريخ كا مبدا قرار پايا_
قابل توجہ بات يہ ہے كہ قرآن مجيدنے اس مفصل و طولانى داستان كو چند مختصر اور چبھنے والے انتہائي فصيح و بليغ جملوں ميںبيان كرديا ہے_ اور حقيقتاً ايسے نكات بيان كئے ہيں جو قرآنى اہداف،يعنى مغرور سركشوں كو كو بيدار كرنے او رخدا كى عظيم قدرت كے مقابلہ ميں انسان كى كمزورى دكھانے ميں مدد ديتے ہيں_
يہ ماجرا اس بات كى نشانى دہى كرتا ہے كہ معجزات و خوارق عادات،بعض لوگوں كے خيال كے برخلاف،لازمى نہيں ہے كہ پيغمبر يا امام ہى كے ہاتھ پر ظاہر ہوں _بلكہ جن حالات ميں خدا چاہے اور ضرورى سمجھے انجام پاجاتے ہيں_ مقصد يہ ہوتا ہے كہ لوگ خدا كى عظمت اور اس كے دين كى حقانيت سے آشنا ہوجائيں_
يہ عجيب و غريب اعجاز آميز اور عذاب دوسرى سركش اقوام كے عذاب كے ساتھ ايك واضح فرق ركھتا ہے كيونكہ طوفان نوح عليہ السلام كا عذاب،اور قوم لوط عليہ السلام كا زلزلہ اور سنگ باري،قوم عاد كى تيز آندھى
اور قوم ثمود كا صاعقہ طبعى حوادث كا ايك سلسلہ تھے،كہ جن كا صرف ان خاص حالات ميں وقوع معجزہ تھا_
ليكن لشكر ابرہہ كى نابودى كى داستان ان سنگريزوں كے ذريعے جو چھوٹے چھوٹے پرندوں كى چونچ اور پنجوں سے گرتے تھے_كوئي ايسى چيز نہيں تھى جو طبعى حوادث سے مشابہ ہو_
ان چھوٹے چھوٹے پرندوں كا اٹھنا،اسى خاص لشكر كى طرف آنا،اپنے ساتھ كنكريوں كا لانا،خاص طور سے انہيں كو نشانہ بنانا اور ان چھوٹى چھوٹى كنكريوں سے ايك عظيم لشكر كے افراد كے اجسام كا ريزہ ريزہ ہوجانا،يہ سب كے سب خارق عادت امور ہيں،ليكن ہم جانتے ہيں كہ يہ سب كچھ خدا كى قدرت كے سامنے بہت ہى معمولى چيز ہے_
وہى خدا جس نے انہيں سنگ ريزوں كے اندر ايٹم كى قدرت پيدا كى ہے،كہ اگر وہ آزاد ہوجائےں تو ايك عظيم تباہى پھيلادے_اس كے لئے يہ بات آسان ہے كہ ان كے اندر ايسى خاصيت پيدا كردے كہ ابرہہ كے لشكر كے جسموں كو ''عصف ما كول''''(كھائے ہوئے بھوسے كى مانند)بنادے_''
ہميں بعض مصرى مفسرين كى طرح اس حادثہ كى توجيہہ كرنے كى كوئي ضرورت نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ ان كنكريوں ميں وبا يا چيچك كے جراثيم تھے_اور اگربعض روايات ميں يہ آيا ہے كہ صدمہ زدہ لوگوں كے بدنوں سے چيچك ميں مبتلا افراد كى طرح خون اور پيپ آتى تھي،تو يہ اس بات كى دليل نہيں ہے كہ وہ حتمى طور پر چيچك ميں مبتلا تھے_اسى طرح سے ہميں اس بات كى بھى ضرورت نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ يہ سنگ ريزے پسے ہوئے ايٹم تھے جن كے درميان كى ہوا ختم ہوگئي تھي، اور وہ حد سے زيادہ سخت تھے،اس طرح سے كہ وہ جہاں بھى گرتے تھے سوراخ كرديتے تھے_
يہ سب كى سب ايسى توجيہات ہيں جو اس حادثہ كو طبعى بنانے كے لئے ذكر ہوئي ہيں اور ہم اس كى ضرورت نہيں سمجھتے_ ہم تو اتنا ہى جانتے ہيں كہ ان سنگ ريزوں ميں ايسى عجيب و غريب خاصيت تھى جو جسموں كو ريزہ ريزہ كرديتى تھي_ اس سے زيادہ اور كوئي اطلاع ہمارے پاس نہيں ہے_ بہر حال خدا كى قدرت كے مقابلہ ميں كوئي كام بھى مشكل نہيں ہوتا_
قابل توجہ بات يہ ہے كہ خدا نے اس ماجرے ميں مستكبرين اور سركشوں كے مقابلہ ميں اپنى قدرت اعلى ترين صورت ميں دكھادى ہے_شايد دنيا ميں ابرہہ كے لشكر كے عذاب سے بڑھ كر زيادہ سخت اور كوئي عذاب نہ ہو اور ان مغرور لوگوں كو اس طرح سے تباہ و برباد كردياجائے كہ ريزہ ريزہ اور كھائے ہوئے بھوسے كى طرح ہوجائيں_اتنى بڑى قدرت وشوكت ركھنے والى جمعيت كى نابودى كے لئے نرم قسم كے سنگ ريزوں اور كمزور اور چھوٹے چھوٹے پرندوں سے كام لياجائے_وہى بات كہ يہ دنيا جہاںكے تمام مستكبرين اور سركشوں كے لئے ايك تنبيہ ہے،تا كہ وہ جان ليں كہ وہ خدا كى قدرت كے مقابلہ ميں كس قدر ناتواںہيں_
مطلب يہ ہے كہ بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ خدا اس قسم كے عظيم كام بہت ہى چھوٹے سے ،موجودات كے سپرد كر ديتا ہے ،مثلا ايسے جراثيم كو، جوہر گز انكھ سے ديكھے نہيں جاسكتے ،مامور كر ديتا ہے كہ وہ ايك مختصر سى مدت ميں سرعت كے ساتھ اپنى پيدائشے بڑھا كر طاقت اور قدموں كو ايك خطرناك سرايت كرنے والى بيمارى ،مثلا:''وبا''و''طاعون''ميں مبتلا كردے اور ايك مختصر سى مدت ميں خزاں كے پتوںكى طرح زمين پر -ڈھير كر دے_
يمن كا عظيم بند(سد مارب )زيادہ ابادى اور ايك عظيم طاقت و ر تمدن كى پيدائشے كے ذريعہ بنى اوراس قوم كى سركشى بڑھ گئي ،ليكن اس قوم كى نابودى كا فرمان جيسا كہ بعض روايات ميں ايا ہے ،ايك يا چند صحرائي چوہوں كے سپرد ہوا تا كہ وہ اس عظيم بندكے اندر گھس جائيں اور اسميں ايك سوراخ كرديں_ اس سوراخ ميں پانى داخل ہونے كى وجہ سے يہ سوراخ بڑے سے بڑاہوتا چلا گيا اور آخر كا روہ عظيم بند ٹوٹ گيا اور وہ پانى جو اس بند كو تھپيڑے ماررہا تھا،اس نے ان سب آباديوں،گھروں اور محلوں كو ويرا ن اور تباہ و برباد كرديا_اوروہ بڑى جمعيت يا تو نابود ہوگئي يا دوسرے علاقوں ميں پراگندہ اور منتشر ہوگئي _يہ ہے خداوند بزرگ و برتر كى قدرت نمائي_
دوسرى طرف يہ ماجرا جو پيغمبر اسلام (ص) كے ميلاد كے قريب واقع ہوا تھا ،حقيقت ميں اس عظيم
ظہور كا پيش خيمہ تھا اور اس قيام كى عظمت كا پيام لانے والا تھا_اور يہ وہى چيز ہے جسے مفسرين نے ''ارھاص''سے تنبيہ كيا ہے_
اس واقعہ كا تيسرا مقصد يہ ہے كہ يہ سارى دنيا جہان كے سركشوں كے لئے ايك تنبيہ ہے،چاہے وہ قريش ہوں يا ان كے علاوہ كوئي اور ہوں،كہ وہ جان ليں كہ وہ ہرگز پروردگار كى قدرت كے مقابلہ ميں نہيں ٹھہر سكتے_لہذا بہتر يہى ہے كہ وہ خيال خام كو اپنے سر سے نكال ديں،اس ابراہيمى سرزمين كى مركزيت كو دوسرى جگہ منتقل كرنا چاہتے تھے،تو خدا نے ان كى اس طرح سے گوشمالى كى كہ سارى دنيا كے لئے باعث عبرت بن گئي اور اس مقدس مركزكى اہميت كو مزيد بڑھا ديا _
اور پانچواں مقصد يہ ہے كہ،وہ خدا جس نے اس سرزمين مقدس كى امنيت كے بارے ميں ابراہيم خليل كى دعا كو قبول كياتھا،اور اس كى ضمانت دى تھي،اس نے ماجرے ميں اس بات كى نشان دہى كردى كہ اس كى مشيت يہى ہے كہ يہ توحيد و عبادت كا مركز ہميشہ ہميشہ كے لئے مركز امن رہے_
قابل توجہ بات يہ ہے كہ''اصحاب فيل''كا ماجرا عربوں كے درميان ايسا مسلم تھا كہ يہ ان كے لئے تاريخ كا آغاز قرار پايا او رجيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے،قرآن مجيد نے ايك نہايت ہى عمدہ تعبير''الم تر''(كيا تو نے نہيں ديكھا )كے ساتھ اس كا ذكر كيا ہے،پيغمبر اكرم (ص) كو خطاب كرتے ہوئے جونہ تو اس زمانہ ميں موجود تھے اور نہ ہى اسے ديكھا تھا،جو اس ماجرے كے مسلم ہونے كى ايك او رنشانى ہے_
ان سب باتوں سے قطع نظر جب پيغمبر اكرم (ص) نے مشركين مكہ كے سامنے ان آيات كى تلاوت كى تو كسى نے اس كا انكا رنہ كيا_اگر يہ مطلب مشكوك ہوتا تو كم ازكم كوئي اعتراض كرتا اور ان كا اعتراض ان كے باقى اعتراضوں كى طرح ہى تاريخ ميں ثبت ہوجاتا _