حضرت زكريا عليہ السلام كى بيوى اور جناب مريم (ع) كى والدہ اپس ميں بہنيں تھيں_
اتفاق كى بات ہے كہ دونوں ابتداء ميں بانجھ تھيں،جناب مريم (ع) كى والدہ كو ايسى لائق بيٹى نصيب ہوئي ،حضرت زكريا عليہ السلام نے حضرت مريم (ع) كے خلوص اور حيران كن خصوصيات كو ديكھا تو ارزو كى ان كى بھى مريم (ع) جيسى پاكيزہ اور پر ہيز گار اولاد ہو جس كا چہرہ عظمت الہى اور توحيد كى علامت ہو_
حضرت زكريا عليہ السلام اور ان كى بيوى كى طويل زندگى اسى طرح گزرچكى تھى ظاہرى طبيعى قوانين اور فطرت كے نقطہ نظر سے يہ بعيد نظر اتا تھا كہ اب ان كى كوئي اولاد ہو_
ليكن عشق الہى اور مريم (ع) كے محراب عبادت كے پاس بے موسم كے پھل ديكھنے كا اثر تھا كہ حضرت زكرياعليہ السلام كے دل ميں بھى اميد پيدا ہوئي اور انھوں نے بڑھاپے كے موسم ميں خواہش كى كہ كياان كے وجود كى شاخ پر بھى فرزند كى صورت ميں ميوہ پيدا ہو جا ئے لہذا جب وہ عبادت اور مناجات ميں مشغول تھے انھوں نے خداوندعالم سے فرزند كا تقاضا كيا :
''خدا وندا مجھے پاكيزہ فرزند عطا فر ما كہ تو بندوں كى دعائيں سننے والاہے''_(1)
(1)سورہ توبہ ايت 30
زيادہ دير نہ گذرى تھى كہ زكريا عليہ السلام كى دعا قبول ہوگئي_
''وہ محراب عبادت ميں مناجات كررہے تھے كہ خدا كے فرشتوں نے انھيں اواز دى اور بشارت دى كہ خداوندعالم انھيں بہت جلد ايك بيٹا دے گا جس كا نام يحي ہو گا'' (2)
جو ان صفات كا حامل ہوگا _
1_وہ حضرت مسيح پر ايمان لائے گا اور اپنے ايمان سے انھيں تقويت پہنچائے گا''_(3)
يا د رہے كہ قرآن مجيد ميں مختلف آيات ميں ''كلمہ ''سے مراد حضرت عيسى عليہ السلام ہيں اور جيسا كہ تاريخ ميں ايا ہے_
حضرت يحى عليہ السلام حضرت عيسى عليہ السلام سے چھ ماہ بڑے ہيں اور وہ پہلے شخص ہيں جنھوں نے جناب مسيح عليہ السلام كى نبوت كى تصديق كى _
اور چونكہ وہ لوگوں ميں پاكيزگى اور زہد و تقوى كے اعتبار سے بہت زيادہ شہرت ركھتے تھے لہذا جب حضرت مسيح عليہ السلا م كى طرف ان كى رغبت ،حضرت عيسى عليہ السلام كى دعوت و نبوت كى طر ف لوگوں كى توجہ كے لئے بہت مو ثر ثابت ہوئي _
2_علم و عمل سے لحاظ كے معاشرے كى رہبرى ان كے ذمہ ہوگي_
(4)علاوہ ازايں وہ اپنے تئيں سركش ہوا و ہوس اور دنيا پرستى سے محفوظ ركھيںگے''_(5)
3_''وہ خدا كے پيغمبرا ور صالحين ميں سے ہوں گے ''_(6)
ملائكہ نے يحي عليہ السلام كى پيدائشے كى بشارت دى تو حضرت زكريا عليہ السلام تعجب ميں پڑگئے اور
(1)سورہ ال عمران ايت 38
(2)سورہ ال عمران ايت 39
(3)سورہ ال عمران ايت 39
(4)سورہ ال عمران ايت 39
(5)سورہ ال عمران ايت 39
(6)سورہ ال عمران ايت 39
بار گاہ خدا وندى ميں عرض كرنے لگے:خداوندا: كيسے ممكن ہے كہ مجھ سے بچہ ہو جب كہ ميں بوڑھا ہوں اور ميرى بيوى بانجھ ہے _
جواب ميں وحى ائي:
''خدا اسى طرح جو كچھ چاہے انجا م دے ليتا ہے _''(1)(2)
يہاں حضرت زكريا عليہ السلام ،يحي عليہ السلام كى ولادت پر كسى نشانى كى درخواست كرتے ہيں، جيسا كہ ہم كہہ چكے ہيں اس عجيب و غربب واقعے پر حضرت زكريا عليہ السلام كا اظہار تعجب اور پروردگار سے كسى نشانى كا تقاضا كسى طرح سے بھى اللہ تعالى كے وعدوں پر بے اعتمادى كى دليل نہيں ہے، خصوصاً جب كہ
(1)سورہ ال عمران ايت 40
(2) يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے كہ حضرت زكريا عليہ السلام كا تعجب اور حيرانى كس بناء پر تھى جب كہ خداوندعالم كى بے پاياں قدرت پر بھى ان كى مد نظر تھي_
قران كى ديگر ايات پر نظر كرنے سے سوال كا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ يہ كہ حضرت زكريا عليہ السلام معلوم كرنا چاہتے تھے كہ ايك بانجھ عورت جو كئي سال سے ماہانہ عادت بھى چھوڑ چكى تھى اس كے يہاں بچہ پيدا ہونا كيونكر ممكن ہے ،اس ميں كيا تغير و تبدل ہوگا كيا پھر سے جوان يا ادھيڑ عمر كى عورتوںكى طرح سے ماہوارى انے لگے گى يا وہ كسى اور طرح سے بچے كى پيدائشے كے قابل ہو جائيں گى _
علاوہ از ايں قدرت خدا وندى پر ايمان شہود اور مشاہدے سے الگ چيز ہے ،حضرت زكريا عليہ السلام در اصل چاہتے تھے كہ ايمان درجہ شہود تك پہنچ جائے ،يہ بات حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پرندوں كے واقعے سے ملتى جلتى ہے ،حضرت ابراہيم عليہ السلام كا معاد اور قيامت پر ايمان تو تھا ليكن وہ اس طرح اطمينان حاصل كرنا چاہتے تھے ،يہ فطرى امر ہے كہ انسان جب طبيعى قوانين كے خلاف كسى امر كا سامنا كرتا ہے تو وہ غور و فكر ميں پڑ جاتا ہے اور اسے خواہش ہوتى ہے كہ اس كے لئے كوئي حسى دليل حاصل كرے.
''اسى طرح خدا جو چاہتا ہے كرتا ہے''كہہ كر بشارت الہى كى تاكيد بھى كى جاچكى ہے ،حضرت زكريا عليہ السلام چاہتے تھے كہ اس امر سے ان كا ايمان ،ايمان شہودى كا درجہ حاصل كر لے ،وہ چاہتے تھے كہ ان كا دل اطمينان سے مالا مال ہو جائے جيسے حضرت ابراہيم عليہ السلام نے مشاہدہ حسى كے ذريعے اطمينان كے حصول كى خواہش كى تھى ،وہ بھى اس مرحلے تك جا پہنچيں _
خداوندعالم نے حضرت زكريا عليہ السلام كى يہ در خواست بھى قبول فرمالى اور اس كے لئے ايك نشانى مقرر فرمائي گئي كہ ان كى زبان كسى طبيعى عامل كے بغير تين دن كے لئے بے كار ہو گئي ،وہ عام گفتگو نہ كر سكتے تھے ليكن خداوندعالم كے ذكر اور اس كى تسبيح كے وقت ان كى زبان بغير كسى تكليف كے كام كرتى تھى ،يہ عجيب و غريب كيفيت تمام امور پر اللہ كى قدرت كے لئے ايك نشانى تھى ،وہ خدا جو بند زبان كو اپنے ذكر كے وقت كھول دينے كى طاقت ركھتا ہے وہ يہ قدرت بھى ركھتا ہے كہ كسى بانجھ رحم سے ايسا باايمان بچہ پيدا كر دے جو ذكر پروردگار كا مظہر ہو اسى سے اس نشانى كا اس چيز سے ربط ظاہر ہوجاتا ہے جو حضرت زكريا عليہ السلام چاہتے تھے _
ممكن ہے اس نشانى ميں ايك نكتہ بھى پنہاں ہو اور وہ يہ كہ اس مسئلے ميں جناب زكريا عليہ السلام اصرار اور نشانى كا تقاضا اگر چہ فعل حرام اور مكروہ نہ تھا ليكن بہر حال ترك اولى سے كچھ مشابہ ضرور تھا اسى لئے خداوندعالم كى طرف سے ايسى نشانى دى گئي جو قدرت نمائي تھى اور ترك اولى پر تنبيہ اور اشارہ بھى تھا_
يہ بات جالب نظر ہے كہ اس دعا كے نتيجے ميں اللہ تعالى نے حضرت زكريا عليہ السلام كو ايك ايسا بيٹا عطا فرمايا جو كئي لحاظ سے حضرت مريم (ع) كے بيٹے سے مشابہت ركھتا ہے _
مثلاً: بچپن ميں بعثت نبوت كے لحاظ سے_
نام كے مفہوم كے اعتبار سے _
كيونكہ عيسى اور يحي عليہما السلام دونوں كا معنى ہے ''زندہ رہتا ہے ''اوراللہ تعالى نے دونوں پر،موت اور حشر و نشر تين مواقع پر درود و سلام بھيجا ہے _
حضرت يحى عليہ السلام خدا وند متعال كے ايك عظيم پيغمبر تھے اور ان كى خصوصيات ميں سے ايك يہ تھى كہ وہ بچپن ميں مقام نبوت پر فائز ہو ئے، خدا وند متعال نے انھيں اس سن و سال ميں ايسى روشن عقل اور اتنى تا بناك فہم وفراست عطا فرمائي كہ وہ اس عظيم منصب كو قبول كرنے كے لائق قرار پائے _
بہر حال منابع اسلامى اور منابع مسيحى سے معلوم ہوتا كہ حضرت يحى عليہ السلام حضرت عيسى عليہ السلام كى خالہ كے بيٹے تھے_
منابع مسيحى ميں تصريح ہوئي ہے ،كہ حضرت يحى عليہ السلام نے حضرت عيسى عليہ السلام كو غسل تعميد ديا اور اسى لئے انھيں ''يحي تعميد دہندہ''كے نام سے پكارتے ہيں ،(غسل تعميد ايك مخصوص غسل ہے كہ جو عيسائي اپنے بيٹوں كو ديتے ہيں_
اور ان كا عقيدہ يہ ہے كہ وہ اسے گناہ سے پاك كرتا ہے)اور جب حضرت مسيح عليہ السلام نے اعلان نبوت كيا تو حضرت يحى عليہ السلام ان پر ايمان لائے _
حضرت يحعليہ السلام اور حضرت عيسى عليہ السلام ميں بعض چيزيں قدر مشترك تھيں ،انتہائي زيادہ زہد و تقوى ،كچھ اسباب كى بناء پر ترك ازدواج ،معجزانہ طورپر پيدا ہونا اور اسى طرح بہت ہى زيادہ قريبى نسب_(1)
(1)اسلامى روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت امام حسين عليہ السلام اور حضرت يحى عليہ السلام ميں بھى بعض باتيں مشترك تھيں ،لہذا اما م على بن الحسين زين العابدين عليہ السلام نے اس طرح نقل ہے كہ اپ (ع) نے فرمايا:
ہم امام حسين عليہ السلام كے ساتھ (كربلا كى طرف جاتے ہوئے )باہر نكلے تو ا مام جس منزل ميں نزول اجلال فرماتے يا اس سے كوچ كرتے تو يحي عليہ السلام اور ان كے شہيد ہونے كو ياد كرتے اور فرماتے كہ خدا وند تعالى كے نزديك دنيا كى بے قدرى كے لئے يہى كافى ہے كہ يحي بن زكريا عليہ السلام كا سر بنى اسرائيل كے بدكاروں ميں سے ايك بد كار كے پاس ہديہ كے طورپر لايا گيا _
''يحي''''حيوة'' كے مادہ سے ہے اور اس كا معنى ہے ''زندہ رہتا ہے''اور يہ اس عظيم پيغمبر كا نام ركھا گيا تھا ،زندگى سے يہاں مراد مادى اور معنوى دونوں طرح كى زندگى ہے جو ايمان ،منصب نبوت اور خدا سے ربط كے زير سايہ ہو ،سورہ مريم كى ايت7/ سے معلوم ہوتا ہے كہ خداوندعالم نے حضرت يحى عليہ السلام كى پيدائشے سے قبل ہى يہ نام ان كے لئے انتخاب فرمايا تھا _
''اے زكريا ہم تجھے ايك فرزند كى بشارت ديتے ہيں جس كانام يحي ہے اور قبل از ايں كسى كا يہ نام نہيں تھا _''
قران مجيد ميں ان دس نعمات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے كہ جو خدا نے حضرت يحى عليہ السلام كو عطا فرمائي تھيں ياا نھوں نے توفيق الہى سے كسب كى تھيں _
1_''ہم نے اسے بچپن ميں فرمان نبوت اور عقل و ہوش و درايت عطا كي'' _
2_''ہم نے اپنى طرف سے اپنے بندوںكے لئے رحمت و محبت بخشي''_
3_''ہم نے اسے روح و جان اور عمل كى پاكيزگى عطا كي'' _
4_''وہ پر ہيز گار تھے'' اور جو بات فرمان پروردگار كے مخالف ہوتى تھى اس سے دورى اختيار كرتے تھے _
5_''اسے ہم نے اپنے ماں باپ كے ساتھ خوش گفتار ،نيكو كار اور محبت كرنے والا پايا ''_
حضرت امام حسين عليہ السلام كى شہادت بھى كئي ايك جہات سے حضرت يحى عليہ السلام كى شہادت كى مانند تھى (حضرت يحى عليہ السلام كے قتل كى كيفيت ہم بعد ميں تفصيل سے بيان كريں گے)_
امام حسين عليہ السلام كا نام بھى حضرت يحى عليہ السلام كے نام كى طرح بے سابقہ تھا (پہلے كسى كايہ نام نہيں تھا )اور ان كى مدت حمل(جس وقت شكم مادر ميں تھے )معمول كى نسبت بہت كم تھي_
6_''وہ خلق خدا سے خود كو بر تر سمجھنے والا اور ظالم و مستكبر نہيں تھا ''_
7_''وہ معصيت كار اور گناہ سے الودہ نہيں تھا ''_
8،9،10_''اور چونكہ وہ ان عظيم افتخارات اور عمدہ صفات كا مالك تھا ،لہذا جس دن وہ پيدا ہوا اس دن بھى اور جس دن اس كو موت ائے اس دن بھى اور جس دن وہ دوبارہ زندہ كر كے قبر سے اٹھا يا جائے گا اس دن بھى ،ا س پر ہمارا درود و سلام ہو ''_(1)
يہ درست ہے كہ انسان كى عقل كے ارتقاء كا دور عام طورپر ايك خاص حد پرہوتاہے ،ليكن ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ انسانوں ميں ہميشہ ہى بعض مستثنى افراد موجود رہے ہيں ،تو اس بات ميں كونسا امر مانع ہے كہ خدا وند متعال (عقل كے ارتقاء كے ) اس دور كو بعض بندوں كے لئے كچھ مصالح كى بناء پر زيادہ مختصر كر دے اور كم اسے كم عرصہ ميں اسے مكمل كر دے جيسا كہ بچوں كے لئے بولنا سيكھنے كے لئے عام طورپر دوسال كا گزرنا ضرورى ہوتا ہے جب كہ ہم جانتے ہيںكہ حضرت عيسى عليہ السلام نے بالكل ابتدائي دنوں ميں بات كى ،اور وہ ايسى بات تھى جو بہت ہى پر معنى تھى اور معمول كے مطابق بڑى عمر كے افرد كے شايان شان تھي_(2)
(1)مذكورہ صفات سورہ مريم كى ايت 12تا 15 ميں بيان ہوئي ہيں
(2)يہاں يہ بات واضح ہو جاتى ہے ،كہ وہ اشكال جو كچھ افراد نے شيعوں كے بعض ائمہ كے بارے ميں كيا ہے ،كہ ان ميں سے بعض كم عمرى ميں مقام امامت پر كيسے پہنچ گئے ،درست نہيں ہے_
ايك روايت ميں امام جواد حضرت محمد بن على النقى عليہ السلام كے ايك صحابى سے كہ جس كانام على بن اسباط تھا منقول ہے كہ: ''ميں حضرت كى خدمت ميں حاضر ہوا (جب كہ اپ كا سن بہت چھوٹا تھا) ميں ان كے قد و قامت ميں گم ہو گيا تاكہ اسے اپنے ذہن ميں بٹھا لوں اور جب ميں واپس مصر لوٹ كر جاو ں تو اپنے دوستوں سے اس بات كے كم وكيف كو بيان كروں ،عين اسى وقت جب كہ ميں سوچ ہى رہاتھا كہ حضرت بيٹھ گئے (گويا اپ نے ميرى تمام سوچ كا مطالعہ كر ليا تھا) ميرى طرف رخ كيا اور فرمايا: اے على بن اسباط خداوند متعال نے مسئلہ امامت ميں جو كام كيا ہے وہ اسى كام كى طرح ہے كہ جو نبوت ميں كيا ہے وہ فرماتا ہے:
نہ صرف حضرت يحى عليہ السلام كى پيدائشے تعجب خيز تھى بلكہ ان كى موت بھى كئي لحاظ سے عجيب تھي، اكثر مسلمان مو رخين اور اسى طرح مشہور مسيحى منابع ان كى شہادت كے واقعہ كو اس طرح نقل كرتے ہيں (اگر چہ اس كى خصوصيات ميں كچھ تھوڑ ا بہت تفاوت دكھائي ديتا ہے ):
حضرت يحى عليہ السلام اپنے زمانے كے ايك طاغوت كے اپنى ايك محرم سے غير شرعى روابط كے خلاف اواز كى بناء پر شہيد ہوئے ،ہوا يہ كہ ''ہيروديس ''فلسطين كا ہوس پرست بادشاہ تھا ،وہ اپنے بھائي كى بيٹى ''ہيروديا''پر عاشق ہو گيا ،وہ بہت خوبصورت تھى ،اس كے حسن نے اس كے دل ميں عشق كى اگ بھڑكا دي_بادشاہ نے اس سے شادى كرنے كا پكا ارادہ كر ليا _
يہ خبر جب خدا وند متعال كے بزرگ پيغمبر حضرت يحى عليہ السلام كو پہنچى تو انھوں نے صراحت كے ساتھ اعلان فرمايا كہ يہ شادى ناجائز ہے اور توريت كے احكام كے خلا ف ہے اور ميں ايسے كام كى اپنى پورى طاقت كے ساتھ مخالفت كروں گا_اس مسئلہ كى تمام شہر ميں شہرت ہو گئي ،اور يہ خبر اس لڑكى ''ہيروديا''كے كانوں تك بھى جا پہنچى ،وہ حضرت يحى عليہ السلام كو اپنے راستے ميں سب سے بڑى ركاوٹ سمجھنے لگى ،اس نے مصمم ارادہ كر ليا كہ كسى مناسب موقع پر ان سے انتقام لے گى اور اپنى ہوا و ہوس كى راہ سے اس روكاوٹ كو ہٹا دے گي، اس نے اپنے چچا كے ساتھ اپنے راہ رسم ميںاضافہ كر ديا اور اپنے حسن و جمال كو اس كے لئے ايك جال بنا ديا اور اس پر اس طرح سے اثر انداز ہوئي كہ ايك دن ہيروديس نے اس سے كہا كہ تيرى جو بھى ارزو ہے مجھ سے مانگ تو جو كچھ چاہے گى وہ تجھے ملے گا _
''ہم نے يحي كو بچپن ميں فرمان نبوت و عقل و دانش عطا كى _ اور كبھى انسانوں كے بارے ميں فرماتا ہے : جبكہ انسان،كامل عقل كى حدبلوغ،چاليس سال كو پہنچ گيا''_لہذا جس طرح خدا كے لئے يہ ممكن ہے بچپن ميں حكمت عطا كرے اس كى قدرت اس كو چاليس سال ميں حكمت عطا كرتى ہے''_
ہيروديا نے كہا ميں يحي كے سر كے سوا اور كچھ نہيں چاہتى ،كيونكہ اس نے مجھے اور تجھے بدنام كر كے ركھ ديا ہے ،تمام لو گ ہمارى عيب جوئي كر رہے ہيں ،اگر تو يہ چاہتا ہے كہ ميرے دل كو سكون حاصل ہو اور ميرا دل خوش ہو تو تجھے يہ كام انجام دينا چاہئے _
ہيرو ديس جو اس عورت كا ديوانہ تھا انجام پر غور كئے بغير يہ كام كرنے پر تيار ہو گيا ،اور ابھى دير نہ گزرى تھى كہ حضرت يحى عليہ السلام كا سر اس بدكار عورت كو پيش كر ديا ،ليكن اخر كار اس كے لئے اس كام كے ہولناك نتائج نكلے_
* * * * *