حضرت يونس عليہ السلام

''يونس''''متي''كے فرزند ہيں ''ذوالنون'' (مچھلى والا)اپ كا لقب ہے اور يہ لقب اسبناپر ہے كہ چونكہ ان كى سر گذشت ،جيسا كہ ہم بيان كريں گے،ايك مچھلى كے ساتھتعلق ركھتى ہے ،اپ ان مشہور پيغمبروں ميں سے ہيں جو حضرت موسى عليہ السلام اورحضرت ہارون عليہ السلام كے بعد اس دنيا ميں ائے _

بعضنے انھيں حضرت ہود عليہ السلام كى اولاد ميں سے قرار دياہے اور ان كى ماموريتقوم ثمود كے باقى ماندہ لوگوں كى ہدايت قرار ديا ہے _

انكے ظہور كا مقام عراق كا ايك علاقہ ہے جس كانام نينوا تھا_

بعضنے ان كا ظہور 825 قبل مسيح لكھا ہے اور اب بھى كوفہ كے نزديك شط فرات كے كنارے''يونس''كے نام كى معروف قبر موجود ہے_

بعضكتابوں نے لكھا ہے كہ اپ بنى اسرائيل كے ايك پيغمبر تھے جو حضرت سليمان عليہالسلام كے بعد اہل نينوا كى طرف مبعوث ہوئے_(1)


(1)كتاب''يوناہ '' ميں جو عہد عتيق (توريت ) كى كتابوں ميں سے ہے _''يونس''كے بارے ميںتفصيلى ذكر''يوناہ بن متي''كے نام سے كيا گيا ہے _

اس كےمطابق وہ اس كے لئے مامور ہوئے تھے كہ عظيم شہر نينوا جائيں اور لوگوں كى شرارتكے خلاف قيام كريں ، -->

يونس عليہ السلام امتحان كى بھٹى ميں

يونس(ع)نے بھى ديگر انبياء كى طرح اپنى دعوت كى ابتداء توحيد اور بت پرستى كے خلاف قيامسے شروع كي_اس كے بعد ان برائيوں كے خلاف نبرد آزمائي كى جو اس ماحول ميں رائجتھے_

ليكنوہ متعصب قوم،جو آنكھيں اور كان بند كركے،اپنے بوڑھوں كى تقليد كررہى تھي_ان كىدعوت كو تسليم كرنے پر آمادہ نہ ہوئي_


<-- اسكے بعد كچھ اور واقعات بھى بيان كئے گئے ہيں جو قران كے بيان سے بہت كچھ ملتےجلتے ہيں ، فرق صرف اتنا ہے كہ اسلامى روايت كے مطابق تو حضرت يونس (ع) نے اپنىقوم كو دعوت دينے كے لئے قيام كيا اور اس سلسلے ميں اپنے فريضے اور ذمہ دارى كوانجام ديا اور جب انكى قوم نے ان كى دعوت كورد كريا تو انھوں نے انھيں نفرين كىاور بدد عادى پھر ان كے درميان سے چلے گئے اور كشتى اور مچھلى كا واقعہ انھيںپيش آيا ليكن تو ريت كى عبارت بہت ناموزوں سى ہے اور تصريح كے ساتھ كہتى ہے كہوہ انجام ذمہ دارى سے پہلے ہى يہ چاہتے تھے كہ استعفى دے ديں_لہذا وہ بھاگ كھڑےہوے اور كشتى اور مچھلى والا واقعہ پيش آيا_

اس سے بھىبڑھ كر تعجب كى بات يہ ہے كہ ''توريت''كہتى ہے:

جب خدا نےاس قوم سے ان كى توبہ كى وجہ سے عذاب اٹھاليا،تو يونس كو بہت دكھ ہوا اور وہبھڑك اٹھے_

توريت كىفصول سے معلوم ہوتا ہے كہ يونس(ع) كو دو مرتبہ مامور كيا گيا پہلى ماموريت كےموقع پر انكار كرديا اور اس دردناك انجام ميں مبتلا ہوئے_دوبارہ انھيں مامور كياگيا كہ اسى شہر''نينوا''كى طرف جائيں كہ نينوا كے لوگ بيدار ہو چكے ہيں اور خداپر ايمان لے آئے ہيں اور انھوں نے اپنے گناہوںسے توبہ كرلى ہے_اور وہ عفو الہىان كے شامل حال ہوگيا ہے_ليكن عفو و بخشش يونس(ع) كو اچھى نہيںلگي_

قرآن اوراسلامى روايات كے بيانات كا موجودہ توريت كے بيانات سے موازنہ كرنے سے واضحہوجاتاہے كہ''توريت''ميں كتنى تحريف ہوگئي ہے كہ اس نے اس عظيم پيغمبر(ع) كےمقام كو اس قدر گراديا ہے كبھى ان كى طرف ماموريت اور ذمہ دارى قبول نہ كرنے كىنسبت ديتى ہے اور كبھى ايك توبہ كرنے والى قوم پر پروردگار كے عفو و رحمت كوديكھ كر خشمناك ہونے كى نسبت ديتى ہے_ يہى چيزيں ہيں جو اس بات كى نشان دہى كرتىہيں كہ موجودہ توريت كسى لحاظ سے بھى قابل اعتماد كتاب نہيں ہے بہر حال وہ ايكعظيم پيغمبر ہيں جن كو قرآن نے عظمت كے ساتھ ياد كيا ہے_

حضرتيونس(ع) اسى طرح ايك مہربان باپ كے مانند دلسوزى اور خير خواہى كے ساتھ اس گمراہقوم كو وعظ و نصيحت كرتے رہے،ليكن اس حكيمانہ منطق كے مقابلے ميں دشمنوں كے پاسمغالطہ اور ڈھٹائي كے سوا كوئي چيز نہ تھي_

صرفايك چھوٹا سا گروہ جو شايد دو افراد (ايك عابد اور ايك عالم)پر مشتمل تھا ان پرايمان لايا_

حضرتيونس(ع) نے اس قدر تبليغ كى كہ ان سے تقريباً مايوس ہوگئے_ بعض روايات ميں آياہے كہ عابد كے كہنے پر(گمراہ قوم كى كيفيت اور حالات كو ديكھتے ہوئے)آپ(ع) نےپختہ ارادہ كرليا كہ ان كے خلاف بد دعا كريں_

يہپروگرام پورا ہوگيااور حضرت يونس(ع) نے ان پر نفرين كى اور انھيں بددعا دي_جوآپ(ع) پر وحى آئي كہ فلاں وقت عذاب الہى نازل ہوگا_جب عذاب كے وعدے كا وقت قريبآيا تو حضرت يونس(ع) اس عابد كے ساتھ اس قوم كے درميان سے باہر چلے گئے_ ايسىحالت ميں كہ آپ(ع) نہايت غصے ميں تھے يہاں تك كہ دريا كے كنارے پر پہنچ گئے وہاںلوگوں اور وزن سے بھرى ايك كشتى ديكھي_آپ(ع) نے ان سے خواہش كى كہ مجھے بھى اپنےہمراہ لے چليں_

يونس عليہ السلام فرارى بندہ

اسىواقعے كى طرف قرآن اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے:''اس وقت كو ياد كرو جب اس نے وزناور لوگوں سے بھرى ہوئي كشتى كى طرف فرار كيا''_(1)

قرآنميں ''ابق'' كا لفظ استعمال ہوا ہے _''اباق''كے مادہ سے غلام كے اپنے آقا و مولاكے پاس سے بھاگ جانے كے معنى ميں ہے اس مقام پر يہ ايك عجيب و غريب تعبير ہے_ يہاس بات كى نشاندہي


(1)سورہصافات آيت140

كرتى ہے كہ بہت ہى چھوٹا ساترك اولى كہ جوعالى مقام پيغمبروں سے سرزد ہوجائے،خدا كى طرف سے كس قدر سخت گيرىاور عتاب كا باعث بنتا ہے،يہاں تك كہ وہ اپنے پيغمبر كو بھاگ جانے والے غلام كانام ديتا ہے_

بلاشكو شبہ يونس عليہ السلام معصوم پيغمبر تھے اور وہ كبھى بھى گناہ كے مرتكب نہيںہوئے،ليكن پھر بھى بہتر يہى تھا كہ وہ تحمل سے كام ليتے اور نزول عذاب سے قبل كےآخرى لمحات تك اپنى قوم كے ساتھ رہتے كہ شايد وہ بيدار ہوجائے_

يہٹھيك ہے كہ بعض روايات كے مطابق آپ(ع) نے چاليس سال تك تبليغ كى تھي،ليكن پھربھى بہتر يہى تھاكہ چند روز يا چند گھنٹے اور ٹھہر جاتے_آپ(ع) نے چونكہ ايسانہيں كيا لہذا آپ(ع) كو بھاگ جانے والے غلام سے تشبيہ دى گئي ہے_

قرعہ تين بار جناب يونس عليہ السلام كے نام

بہرحال يونس عليہ السلام كشتى پر سوار ہوگئے_ روايات كے مطابق ايك بہت بڑى مچھلى نےكشتى كى راہ روك لى اور منہ كھول ديا گويا وہ كچھ كھانے كو مانگ رہى ہو_ كشتىميں بيٹھنے والوں نے كہا معلوم ہوتا ہے كہ كوئي گنہگار ہمارے درميان ہے(كہ جسےاس مچھلى كالقمہ بننا چاہيئےور قرعہ اندازى سے كام لينے كے علاوہ اور كوئي چارہنہيںہے_) اس موقع پر انھوں نے قرعہ ڈالا تو قرعہ حضرت يونس عليہ السلام كے نامنكل آيا_

ايكروايت كے مطابق انھوں نے تين مرتبہ قرعہ ڈالا اور ہر دفعہ حضرت يونس عليہ السلامہى كا نام نكلا_ناچار انھوں نے يونس عليہ السلام كو پكڑ كر اس بہت بڑى مچھلى كےمنہ ميں پھينك ديا_

يہتفسير بھى بيان كى جاتى ہے كہ دريا ميں طوفان آگيا تھا اور كشتى پر وزن بہتزيادہ تھا كشتى ميں بيٹھنے والوں كو ہر لمحے غرق ہونے كا خطرہ ہونے لگا_اس كےسوا اور كوئي چارہ كار نہيں تھا كہ كشتى كو ہلكا كرنے كے لئے كچھ لوگوں كو درياميں پھينك ديا جائے اور قرعہ يونس عليہ السلام كے نام نكل آيا_ انھوں نے آپ(ع)كو دريا ميں پھينك ديا اور ٹھيك اسى وقت ايك مگر مچھ وہاں آن پہنچا اور اس نےآپ(ع) كو نگل ليا_

ليكنوہ خدا جو اگ كو پانى كے اندراور شيشے كو پتھر كى اغوش ميں محفوظ ركھتا ہے،اس نےاس عظيم جانور كو حكم تكوينى ديا كہ اس كے بندے يونس (ع) كو معمولى سى تكليف بھىنہ پہچائے ،حضرت يونس عليہ السلام كو ايك بے نظير اور عجيب قيد ميں رہنا تھا،تاكہ وہ اپنے ترك اولى كى طرف متوجہ ہوں اور اس كى تلافى كريں _ايك روايت ميںاسطرح ايا ہے:

''خدانے اس مچھلى كى طرف وحى كى كہ اس كى كوئي ہڈى نہ توڑنا اور اس كے كسى جوڑ كو نہكاٹنا''_

جناب يونس عليہ السلام نے استغفار كيا

يونس عليہ السلام بہت جلد ہى اصل قضيے كى طرف متوجہ ہوگئے ،اپ نے پورى توجہ كے ساتھبارگاہ خدا وندى كى طرف رخ كيا اور اپنے ترك اولى پر استغفار كى اور اس كى مقدساور معروف بارگاہ سے عفو و كا تقاضا كيا _(1)

ميںنے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور تيرى بارگاہ سے دور ہو گيا ہوں اور تيرے عتاب و سرزنش ميں ،جو ميرے لئے جہنم سوزان كے مانند ہے، گرفتار ہو گيا ہوں _

يہاںظلمات كے كيا معنى ہيں؟ممكن ہے كہ يہ تعبير دريا اور پانى كى گہرائيوں كى تاريكىاو راس بہت بڑى مچھلى كے پيٹ كى تاريكى اور رات كى تاريكى كى طرف اشارہ ہو، اورايك روايت كہ جو امام محمد باقر عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے ،وہ بھى اس كى تائيدكرتى ہے _

اسمخلصانہ اعتراف اور ندامت سے ملى ہوئي تسبيح نے اپنا كام كيا اور جيسا كہ قرانميں بيان ہوا ہے:


(1)اسمقام پر ايك نہايت پر معانى اور معروف ذكر حضرت يونس عليہ السلام كى زبانى نقلہوا ہے جو سورہ انبياء كى ايہ 87ميں ايا ہے اور اہل عرفان كے درميان ذكر''يونسيہ '' كے نام سے مشہور ہے:''فنادى فى الظلمات ان لا الہ الا انت سبحانكانى كنت من الظالمين''

اس نے تہہبہ تہہ تاريكيوں ميں پكارا كہ :تيرے سوا كوئي معبود نہيں ہے ،تو پاك و منزہ ہےميں ہى ظالموں ميں سے تھا.

''ہمنے اس كى دعا قبول كر لى اور اسے غم و اندوہ سے نجات دى اور ہم ايمان والوں كواسى طرح سے نجات ديا كرتے ہيں''_ (1)

ابديكھيں قرآن اس سلسلے ميں كيا كہتا ہے،ارشاد پروردگارہوا:''اگر وہ تسبيح كرنےوالوں ميں سے نہ ہوتا ،تو يقينا وہ قيامت كے دن تك مچھلى كے پيٹ ميں ہى رہتا''_(2)

اوريہ وقتى قيد خانہ دائمى زنداں ميں بدل جاتا اور وہ دائمى زنداں اس كے لئےقبرستان ميں بدل جاتا_وہ بہت بڑى مچھلى خشك وبے گياہ ساحل كے نزديك ائي اور حكمخدا سے اس لقمے كو جو اس سے زائد تھا باہر پھينك ديا_

ليكنيہ بات واضح ہے كہ اس عجيب و غريب زندان نے يونس عليہ السلام كے جسم كى سلامتىكو درہم و برہم كر ديا تھا ،لہذا وہ بيمارو ناتواں اس زنداں سے ازاد ہوئے _

ہميںصحيح طور پر معلوم نہيں ہے كہ حضرت يونس عليہ السلام كتنى مدت تك مچھلى كے پيٹميں رہے، ليكن يقينى طور پر جتنا عرصہ بھى رہے اس كے عوارض سے بچ نہيں سكتے تھے،يہ ٹھيك ہے كہ فرمان الہى صادر ہوا تھا كہ مچھلى كے بد ن ميں ہضم اور جذب نہہوں ،ليكن يہ اس معنى ميں نہيں تھا كہ اس زندان كے كچھ اثار بھى وہ اپنے ساتھ نہلائيں لہذا مفسرين كى ايك جماعت نے لكھا ہے كہ وہ ايك نو مولود ،ضعيف و ناتواناور بے پروبال، پرندے كے بچے كى طرح مچھلى كے پيٹ سے باہر ائے، اس طرح سے كہ انميں حركت كرنے كى بھى طاقت نہيں تھي_

جناب يونس عليہ السلام كدو كى بيل كے سايہ ميں

پھر لطف الہى ان كے شامل حال ہوا ،كيونكہ ان كا بدن بيمار اور خستہ حال اور ان كاجسم كمزور و ناتواں تھا،ساحل كى دھوپ انھيں تكليف پہنچاتى تھى ،لہذا ان كے لئےايك نرم و گداز اور لطيف قسم كے لباس كي


(1)سورہانبياء ايت 88

(2)سورہصافات ايت 143_144

ضرورتتھى تاكہ ان كے بدن كو اس كے نيچے ارام حاصل ہو ،اس مقام پر قران كہتا ہے :''ہمنے ايك كدو كى بيل اس كے اوپر اگادى ''(1) تاكہ وہ اس كے چوڑے اور مرطوب پتوں كےنيچے ارام كرے_

كہتےہيں كہ كدو كى بيل ميںاس كے علاوہ كہ اس كے پتے چوڑے اور پانى سے پر ہوتے ہيںاور اس سے اچھا كاخا سائبان بنايا جاسكتا ہے ،مكھى بھى اس كے پتوں پر نہيںبيٹھتي_

اوريونس عليہ السلام كے بدن كى جلد مچھلى كے پيٹ ميں رہنے كى وجہ سے اس قدر نازكاور حساس ہو گئي تھى كہ اس پر حشرات كے بيٹھنے سے بھى تكليف ہوتى تھي،

انھوںنے اپنے بدن كو اس كدو كى بيل كے ساتھ چھپا ليا تاكہ سورج كى تپش سے بھى مامونرہيں اور حشرات الارض سے بھى _

شايدخد ا كو يہ مطلوب ہے كہ وہ سبق جو حضرت يونس عليہ السلام كو مچھلى كے پيٹ ميںديا تھا اس كى اس مرحلہ ميں تكميل كرے ،وہ سورج كى تپش اور اس كى حرارت كو اپنےبدن كى نازك جلد پر محسوس كريں ،

تاكہائندہ رہبر ہوتے ہوئے اپنى امت كو جہنم كى جلانے والى اگ سے نجات كے لئے زيادہسے زيادہ كوشش كريں _

قوم يونس (ع) كاا نجام

ابہم حضرت يونس عليہ السلام كا ذكر چھوڑتے ہيں اور ان كى قوم كا حال بيان كرتے ہيں_

جبحضرت يونس عليہ السلام نے غيض و غضب كى حالت ميں اپنى قوم كو چھوڑ ديا اور خداكے غضب كے اثار بھى اس پر ظاہر ہوگئے _تو وہ لوگ شدت كے ساتھ لرز اٹھے ،

ابانھيں ہوش ايا ،ايك عالم كہ جوان كے درميان رہتا تھا وہ اس كے گرد جمع ہو گئےاور اس كى رہبرى اور ہدايت سے توبہ پر امادہ ہو گئے _


(1)سورہصافات ايت 146

بعضروايا ت ميں ہے كہ وہ سب مل كر بيابان كى طرف چل پڑے اور عورتوں اور بچوں نيزجانوروں اور ان كے بچوں كے درميان جدائي ڈال دي، پھر گريہ و زارى ميں مشغول ہوگئے اور نالہ و فرياد كى صدا بلند كي،اور خلوص كے ساتھ اپنے گناہوںاور ان كوتاہيوںپر توبہ كى كہ جو انھوں نے خدا كے پيغمبر حضرت يونس عليہ السلام كے ساتھرواركھى تھيں_

اسموقع پر عذاب كے پردے ہٹ گئے اور وہ حادثہ پہاڑوں پر جاگرا ،اور توبہ كرنے والےاہل ايمان نے لطف الہى كے باعث نجات پائي _

حضرتيونس عليہ السلام اس ماجرے كے بعد اپنى قوم كے پاس ائے تاكہ ديكھيں كہ عذاب سےان پر كيا گزري_

جبوہ ائے تو بہت متعجب ہوئے كہ گويا دنيا بدل گئي ،وہ ان كى ہجرت كے وقت سب كے سببت پرست تھے ليكن اب وہ سب كے سب خدا پرست موحد بن گئے ہيں_

قراناس موقع پر كہتا ہے :ہم نے اسے ايك لاكھ يا اس سے كچھ زيادہ افراد كى طرف بھيجا_(1)

وہايمان لے ائے اور ہم نے انھيں معين مدت تك دنياوى نعمتوں اور زندگى سے بہرہ مندكيا_(2)

البتہان كا اجمالى ايمان اور توبہ تو پہلے ہو چكى تھى ليكن خدا اور اس كے پيغمبر حضرتيونس عليہ السلام اور ان كى تعليمات و احكام پر تفصيلى ايمان اس وقت صورت پذيرہوا جب جناب يونس عليہ السلام ان كے درميان پلٹ كر ائے _

قابلتوجہ بات يہ ہے كہ ايات قرانى سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہ ماموريت نئے سرے سے اسىقوم كى طرف ہوئي تھى اور يہ جو بعض نے ان كى جديد ماموريت كو ايك نئي قوم كے لئےسمجھا ہے وہ ظاہرقرآن كے ساتھ ہم اہنگ نہيں ہے _


\

(1)سورہصافات ايت 147

(2)سورہصافات ايت 148

يونس عليہ السلام مچھلى كے پيٹ ميں كيسے زندہرہے ؟

ہمبيان كر چكے ہيں كہ ہمارے پاس كوئي واضح دليل نہيں ہے كہ يونس عليہ السلام مچھلىكے پيٹ ميں كتنى مدت رہے ؟چند گھنٹے يا چند دن يا چند ہفتے؟ بعض روايات ميں نوگھنٹے ،بعض ميں تين دن اور بعض ميں اس سے زيادہ ،يہاں تك كہ چاليس دن تك كى مدتبيان كى گئي ہے ،ليكن ان اقوال كا كوئي يقينى ثبو ت موجود نہيں ہے،صرف تفسير علىبن ابراہيم ميں امير المو منين عليہ السلام سے ايك حديث ميں حضرت يونس عليہالسلام كا مچھلى كے پيٹ ميں توقف 9/ گھنٹے بيان ہوا ہے _بعض مفسرين اہل سنت نےاس كى مدت ايك گھنٹہ بھى بيان كى ہے _

ليكنجو كچھ بھى ہو بلاشك و شبہ يہ توقف ايك غير معمولى امر ہے انسان ايسے ماحول ميںجہاں ہوا نہ ہو چند منٹ سے زيادہ زندہ نہيں رہ سكتا ،اور اگرہم يہ ديكھتے ہيں كہبچہ ماں كے پيٹ ميں كئي ماہ تك زندہ ہوتا ہے تو اس كى وجہ يہ ہے كہ ابھى تك اسكے تنفس كى مشينرى نے اپناكام كرنا شروع نہيں كيا ہوتاہے اور وہ ضرورى اكسيجنصرف ماں كے خون كے راستے سے حاصل كرتا ہے _

اسبنا پر حضرت يونس عليہ السلام كا ماجرا بلا شبہ ايك اعجاز ہے اور يہ پہلا اعجازنہيں ہے جو ہميں قران سے معلوم ہوا ہے ،وہى خدا جس نے ابراہيم عليہ السلام كو اگكے درميان سالم ركھا ،اور موسى عليہ السلام و بنى اسرائيل كو دريا كے وسط ميںخشك راستے بنا كر غرق ہونے سے بچا يا،اور نوح عليہ السلام كو ايك سادہ اور عامكشتى كے ذريعے اس عظيم اور وسيع طوفان سے نجات بخشى اور صحيح و سالم زمين پراتارا ،وہى خدا يہ قدررت بھى ركھتا ہے كہ اپنے مخصوص بندوں ميں سے ايك بندے كوبہت بڑى مچھلى كے پيٹ ميں صحيح و سالم ركھے_

البتہگزشتہ اور موجودہ زمانے ميں اس قسم كى بڑى مچھليوں كا موجود ہونا كوئي عجيب باتنہيں ہے ،اس وقت بھى بڑى مچھلياں ''وہيل''نام كى موجود ہيں ،جس كى لمبائي 20/ميٹر سے بھى زيادہ ہوتى ہے اور يہ اس زمين كا سب سے بڑا جانور ہے اور اس كا جگرايك ٹن تك ہوتا ہے_

* * * **