حضرت ايوب عليہ السلام

حضرت ايوب (ع) كى حيران كن زندگى اور ان كا صبر

گفتگو حضرت ايوب عليہ السلام كے بارے ميں ہيں كہ جو صبر و استقامت كا نمونہ تھے،ان كا ذكر اس لئے ہے تاكہ اس وقت كے اور پھر اج كے اور ائندہ كے مسلمانوں كے لئے مشكلوں اور پريشانيوں ميں استقامت ،قيام اور جد و جہد كا درس ہواور انھيں پامردى كى دعوت دى جائے اور اس صبر و استقامت كا حسن انجام واضح كياجائے_

حضرت ايوب عليہ السلام وہ تيسرے نبى ہيں كہ ہمارے عظيم نبى (ص) پر فرض كيا گيا ہے كہ ان كے واقعہ كو مسلمان كے لئے بيان كريں تاكہ مسلمان بڑى بڑى مشكلات سے نہ گھبرائيں اوراس كى رحمت سے كبھى بھى مايوس نہ ہوں _(1)

قرآن ميںارشاد ہوتا ہے:''ہمارے بندے ايوب كو ياد كرو كہ جب اس نے اپنے پروردگار كو پكارا اور عرض كي:شيطان نے مجھے بہت تكليف اور اذيت ميں مبتلا كر ركھا ہے''_(2)


(1)بر خلاف موجودہ توريت كے كہ جو انھيں انبياء كے زمرے ميں شمار نہيں كرتى بلكہ انھيں ايك نيك اور صالح انسان سمجھتى ہے كہ جن كى بہت سى اولاد تھى اور جو صاحب مال شخص تھے_

(2) سورہ انبياء ايت 41

اس گفتگو ميں قرآن:

اولاً :بارگاہ الہى ميں حضرت ايوب عليہ السلام كا بلند مقام ''عبدنا ''(ہمارابندہ )سے معلوم ہوتا ہے_

ثانياً:اشارتاً حضرت ايوب عليہ السلام كى شديد اور طاقت فرسا تكليف اور فراواں مصيبت كا ذكر ہے ،اس ماجرے كى تفصيل قران ميں نہيں ائي ليكن حديث و تفسير كى مشہور كتب ميں اس كى تفصيل نقل ہوئي ہے _

حضرت ايو ب عليہ السلام كيوں مشكلات ميں گرفتار ہوئے

كسى نے امام جعفر صادق عليہ السلام سے پوچھا:

وہ مصيبت جو حضرت ايوب عليہ السلام كو دامن گير ہوئي ،كس بنا پر تھى ؟(شايد سائل كا خيال تھا كہ ان سے كوئي غلط كام سر زد ہو گيا تھا جس كى وجہ سے اللہ نے انھيں مصيبت ميں مبتلا كر ديا)_

امام عليہ السلام نے اس سوال كا تفصيلى جواب ديا جس كا خلاصہ يوں ہے :

ايوب عليہ السلام كفران نعمت كى وجہ سے ان عظيم مصائب ميں گرفتا رنہيں ہوئے بلكہ اس كے بر عكس شكر نعمت كى وجہ سے ہوئے، كيونكہ شيطان نے بارگاہ خدا ميں عرض كى كہ يہ جو ايوب تيرا شكر گزار ہے وہ فراواں نعمتوں كى وجہ سے ہے كہ جو تونے اسے دى ہيں، اگر يہ نعمتيں اس سے چھين لى جائيں تو يقينا وہ كبھى شكر گزار بندہ نہيں ہو گا_

اس بنا پر كہ سارى دنيا پر ايوب عليہ السلام كا خلوص واضح ہو جائے اور انھيں عالمين كے لئے نمونہ قرار ديا جائے تاكہ لوگ نعمت اور مصيبت ہر دوعالم ميں شاكر و صابر وہيں _اللہ نے شيطان كو اجازت دى كہ وہ حضرت ايوب عليہ السلام كى دنيا پر قبضہ كر لے، شيطان نے اللہ سے خواہش كى ايوب كا فراواں مال و دولت ،ان كى كھيتياں ،بھيڑ بكرياں اور ال اولاد سب ختم ہو جائے _افتيں اور مصيبتيں ائيں اور ديكھتے ہى ديكھتے سب كچھ تباہ و برباد ہو گيا ليكن نہ صرف يہ كہ ايوب عليہ السلام كے شكر ميں كمى نہيں ائي بلكہ اس ميں اور اضافہ ہو

گيا_خدا سے شيطان نے خواہش كى كہ اب اسے ايوب عليہ السلام كے بدن پر بھى مسلط كردے اور وہ اس طرح بيمار ہو جائيں كہ ان كا بدن شدت درد كى لپيٹ ميں اجائے اور وہ بيمارى كے بستر كا اسير ہوجائے ليكن اس چيز نے بھى ان كے مقام شكر ميں كمى نہ كى _

پھر ايك ايسا واقعہ پيش ايا كہ جس نے ايوب عليہ السلام كا دل توڑ ديا اور ان كى روح كو سخت مجروح كيا، وہ يہ كہ نبى اسرائيل كے راہبوں كى ايك جماعت انھيں ديكھنے ائي اور انھوں نے كہا كہ تونے كون سا گناہ كيا ہے جس كى وجہ سے اس درد ناك عذاب ميں مبتلا ہے؟ايوب عليہ السلام نے جواباً كہا: ميرے پرور دگار كى قسم كہ مجھ سے كوئي غلط كام نہيں ہوا ميں ہميشہ اللہ كى اطاعت ميں كوشاں رہا ہوں اور ميں نے جب بھى كوئي لقمہ غذا كا كھايا ہے كوئي نہ كوئي يتيم و بے نوا ميرے دسترخوان پر ہوتا تھا_

يہ ٹھيك ہے كہ ايوب عليہ السلام دوستوں كى اس شماتت پر ہر دوسرى مصيبت سے زيادہ دكھى ہوئے پھر بھى صبر كا دا من نہ چھوڑا اور شكر كے صفاف و شريں پانى كو كفران سے الودہ نہ كيا،صرف بارگاہ خدا كى طرف رخ كيا اور مذكورہ جملہ عرض كيا اور چونكہ اپ اللہ كے امتحانوں سے خوب عہدہ بر اہوئے لہذا اللہ نے اپنے اس شاكر و صابر بندے پر پھر اپنى رحمت كے دروازے كھول ديئے اور كھوئي ہوئي نعمتيں يكے بعد ديگرے پہلے سے بھى زيادہ انھيں عطا كيں تاكہ سب لو گ صبر و شكر كا نيك انجام ديكھ ليں _

بہرحال كہتے ہيں كہ ان كى بيمارى اور ناراحتى سات سال تك رہى اور ايك روايت كے مطابق سترہ برس تك رہى ،يہاں تك كہ اپ كے نزديك ترين ساتھى بھى ساتھ چھوڑ گئے ،صرف ايك بيوى نے وفا ميں استقامت كى اور يہ چيز خود ايك شاہد ہے بعض بيويوں كى وفادارى پر_

سب سے بڑا غم دشمنوں كى شماتت

ليكن حضرت ايوب عليہ السلام كو جس چيز سے زيادہ دكھ ہوتا تھا وہ دشمنوں كى شماتت تھي،اسى لئے ايك حديث ميں ہے كہ جب حضرت ايوب عليہ السلام كو كھوئي ہوئي صحت و سلامتى پھر مل گئي اور رحمت الہى كے

دروازے ان كے لئے كھل گئے تو لوگوںنے اپ سے سوال كيا كہ سب سے شديد درداپ كو كون سا تھا؟تواپ نے كہا:دشمنوں كى شماتت _

آخرم كار حضرت ايوب عليہ السلام ازمائشے الہى كى اس گرم بھٹى سے صحيح و سالم باہر نكل ائے اور پھر رحمت خدا كا اغاز ہوا،انھيں حكم ديا گيا كہ'' اپناپاو ں زمين پر مارو''تو پانى كا چشمہ ابل پڑے گا كہ جو تيرے نہانے كے لئے ٹھنڈا بھى ہوگا اور تيرے پينے كے لئے عمدہ بھي_(1)

وہى خدا جس نے خشك اور تپتے بيابان ميں شير خوار اسماعيل كى ايڑيوں كے نيچے چشمہ پيدا كر ديا ،وہى خدا كہ ہر حركت و سكون اور ہر نعمت و عنايت جس كى طرف سے ہے،اس نے يہ فرمان ايوب عليہ السلام كے لئے بھى صادر فرمايا ،پانى كا چشمہ ابلنے لگا،ٹھنڈا اور ميٹھا چشمہ جو اندرونى و بيرونى سب بيماريوں كے لئے شفا بخش تھا_

بعض كا خيال ہے كہ اس چشمے ميں ايك طرح كا معدنى پانى تھا جو پينے كے لئے بھى اچھا تھا اور بيماريوں كو درو كرنے كے لئے بھى مو ثر تھا ،بہر حال كچھ بھى تھا ايك صابر و شاكر بنى كے لئے اللہ كا لطف و كرم تھا_

پہلى اور اہم ترين خدائي نعمت صحت تھى ،جب وہ ايوب عليہ السلام كى طرف لوٹ ائي تو دوسرى نعمتوں كے لوٹنے كى نوبت ائي ،اس سلسلے ميں قران كہتا ہے :''ہم نے اسے اس كے گھر والے بخش ديئے_ اور ان كے ساتھ ان كے مانند بھى قرا ر ديئے _تاكہ ہمارى طرف سے رحمت ہو اور صاحبان فكر و نظر كے لئے نصيحت بھى ''_(2)

ان كا گھر انہ ان كے پاس واپس ايا ،اس سلسلے ميں مختلف تفسيريں موجود ہيں ،مشہور يہ ہے كہ وہ مر چكے تھے اور اللہ نے انھيں پھر زندگى دي_


(1)سورہ ص ايت 42

(2)سورہ ص ايت 43

ليكن بعض نے لكھا ہے كہ حضرت ايوب عليہ السلام كى طويل بيمارى كے باعث وہ ادھر ادھر بكھر چكے تھے جب حضرت ايوب عليہ السلام صحت ياب ہوگئے تو وہ پھر اپ كے گرد ا گردجمع ہوگئے _

كچھ لوگوں نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ وہ سب يا ان ميں سے بعض افراد بھى طرح طرح كى بيماريوں ميں مبتلا ہوگئے تھے رحمت الہى ان كے شامل حال ہوئي وہ سب رو بصحت ہوئے اور پروانوں كى طرح وجود پدر كى شمع كے گرد جمع ہوئے _

''اور ان كے ساتھ ان كے مانند بھى قرار ديئے ''يہ اس طرف اشارہ ہے كہ اللہ نے ان كے گھر كو پہلے سے بھى زيادہ اباد اور پر رونق كيا اور ايوب عليہ السلام كو مزيد بيٹے عطا كئے _

قران ميں اگر چہ حضرت ايوب عليہ السلام كے مال و دولت كے بارے ميں بات نہيں كى گئي ليكن مو جودقرائن سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ نے پھر اپ كو مال ودولت بھى فراواں تر عطا فرمايا_

حضرت ايوب عليہ السلام كى قسم

اب صرف ايك مشكل ايوب عليہ السلام كے لئے باقى تھى ،وہ قسم جو انھوں نے اپنى بيوى كے بارے ميں كھائي تھى اور وہ يہ تھى كہ انھوں نے ان سے كوئي خلاف مرضى كام ديكھا تھا لہذا انھوں نے اس بيمارى كى حالت ميں قسم كھائي كہ جس وقت ان ميں طاقت پيدا ہو گئي تو وہ اسے ايك سويا اس سے كچھ كم كوڑے ماريں گے،ليكن صحت يابى كے بعد وہ چاہتے تھے _

كہ اس كى خدمات اور وفاداريوں كا لحاظ ركھتے ہوئے اسے معاف كرديں ليكن قسم اور خدا كے نام كا مسئلہ درميان ميں تھا_

خدانے يہ مشكل بھى ان كے لئے حل كر دى ،جيسا كہ قران كہتا ہے كہ ان سے فرمايا گيا:''گندم كى شاخوں (يا اسى قسم كى كسى چيز ) كى ايك مٹھى بھر لو اور اس كے ساتھ مارو اور اپنى قسم نہ توڑو ''_(1)


(1)سورہ ص ايت 44

حضرت ايوب عليہ السلام كى بيوى كا نام ايك روايت كے مطابق ''ليا'' بنت يعقوب تھا ،اس بارے ميں كہ اس سے كون سى غلطى ہوئي تھى مفسرين كے درميان بحث ہے _

مشہورترين مفسر ،ابن عباس سے نقل ہوا ہے كہ شيطان يا (كوئي شيطان صفت )ايك طبيب كى صورت ميں ايوب عليہ السلام كى بيوى كے پاس ايا اس نے كہا :ميں تيرے شوہر كا علاج كرتا ہوں صرف اس شرط پر كہ جس وقت وہ ٹھيك ہو جائے تو وہ مجھ سے يہ كہہ دے كہ صرف ميں نے اسے شفا ياب كيا ہے،اس كے علاوہ ميں اور كوئي اجرت نہيںچاہتا _ان كى بيوى نے جو ان كى مسلسل بيمارى كى وجہ سے سخت پريشان تھى اس شرط كو قبول كر ليا اور حضرت ايوب عليہ السلام كے سامنے يہ تجويز پيش كي،حضرت ايوب عليہ السلام جو شيطان كے جال كو سمجھتے تھے ،بہت ناراض ہوئے اور قسم كھائي كہ وہ اپنى بيوى كو سزا ديں گے_

بعض نے كہا ہے كہ جناب ايوب عليہ السلام نے اسے كسى كام كے لئے بھيجا تھا تو اس نے دير كردي، حضرت ايوب عليہ السلام چونكہ بيمارى سے تكليف ميں تھے ،بہت پريشان ہوئے اور اس طرح كى قسم كھائي_ بہر حال اگر وہ ايك طرف سے اس قسم كى سزا كى مستحق تھى تو دوسرى طرف اس طويل بيمارى ميں اس كى وفاداري، خدمت اور تيماردارى اس قسم كے عفو و در گذر كا استحقاق بھى ركھتى تھى _

يہ ٹھيك ہے كہ گندم كى شاخوں كے ايك دستہ يا خوشہ خرما كى لكڑيوں سے مارنا ان كى قسم كا واقعى مصداق نہيں تھا ليكن خدا كے نام كے احترام كى حفاظت اور قانون شكنى پھيلنے سے روكنے كے لئے انھوں نے يہ كام كيا اور يہ بات صرف اس صورت ميں ہے كہ كوئي مستحق عفو و در گذر ہو،اور انسان چاہے كہ عفو و درگذر كے باجود قانون كے ظاہر كو بھى محفوظ ركھے ورنہ ايسے مواقع پر جہاں استحقاق عفو و بخشش نہ ہو وہاں ہر گز اس كام كى اجازت نہيں ہے_قران ميںاس واقعہ كے اخرى جملے ميں جو اس داستان كى ابتداء و انتہاكا نچوڑ ہے ،فرمايا گيا ہے:''ہم نے اسے صابر و شكيبا پايا ،ايوب كتنا اچھا بندہ تھا جو ہمارى طر ف بہت زيادہ باز گشت كرنے والا تھا''_(1)


(1)سورہ ص ايت 44

يہ بات كہے بغير ہى ظاہر ہے كہ ان كا خدا كى بارگاہ ميں دعاكرنا اور شيطان كو وسوسوں اور درد ،تكليف اور بيمارى كے درو ہونے كا تقاضا كرنا،مقام صبر و شكيبائي كے منافى نہيں اور وہ بھى سات سال اور ايك روايت كے مطابق اٹھارہ سال تك بيمارى اور فقر و نادارى كے ساتھ نبھا نے اور شاكر رہنے كے بعد_

قابل توجہ بات يہ ہے كہ اس جملے ميں حضرت ايوب عليہ السلام كى تين اہم صفات كے ساتھ تو صيف كى گئي ہے كہ جو جس كسى ميں بھى پائي جائيں وہ ايك انسان كا مل ہوتا ہے _

1_مقام عبوديت2_صبر و استقامت3_پے در پے خدا كى طرف باز گشت_

حضرت ايوب عليہ السلام قرآن اور توريت ميں

اس عظيم پيغمبر كا پاك چہرہ ،جو صبر و شكيبائي كا مظہر ہے ،يہاں تك كہ صبر ايوب عليہ السلام سب كے لئے ضرب المثل ہو گيا ہے ،قران مجيد ميں ہم نے ديكھ ليا ہے كہ خدا نے كس طرح سے اس داستان كى ابتدااور انتہا ميں ان كى تعريف كى ہے_

ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر كى سر گزشت بھى جاہلوں يا دانا دشمنوں كى دستبرد سے محفوظ نہ رہى اور ايسے ايسے خرافات ان پر باندھے گئے جن سے ان كى مقدس و پاك شخصيت منزہ ہے ،ان ميں سے ايك يہ ہے كہ بيمارى كے وقت حضرت ايوب عليہ السلام كے بدن ميں كيڑے پڑگئے تھے اور ان ميں بدبو پيدا ہو گئي تھى كہ بستى والوں نے انھيں ابادى سے باہر نكال ديا _

بلا شك و شبہ اس قسم كى روايت جعلى اور من گھڑت ہے ،چاہے وہ حديث كى كتابوںكے اندر ہى كيوں نہ ذكر ہوئي ہوں،كيونكہ پيغمبر وں كى رسالت كا تقاضا يہ ہے كہ لوگ ہر وقت اور ہر زمانے ميں ميل و رغبت كے ساتھ ان سے مل سكيں اور جو بات لوگوں كے تنفر و بے زارى اور افراد كے ان سے دور رہنے كا موجب بنے ،چاہے وہ تنفر بيمارياں ہوں يا عيوب جسمانى يا اخلاقى خشونت و سختى ،ان ميں نہيں ہوں گي،كيونكہ يہ چيزيں ان كے فلسفہ رسالت سے تضاد ركھتى ہيں_

ليكن توريت ميں ايك مفصل قصہ ''ايوب''كے بارے ميں نظر اتا ہے جو ''مزامير داو د ''سے پہلے موجود ہے ،يہ كتاب 42/فصل پر مشتمل ہے اور ہر فصل ميں تفصيلى بحث موجود ہے ،بعض فصول ميں تو انتہائي تكليف دہ مطالب نظر اتے ہيں ،ان ميں سے تيسرى فصل ميں ہے كہ :

ايوب عليہ السلام نے شكايت كے لئے زبان كھولى اور بہت زيادہ شكوہ كيا،جب كہ قران نے ان كى صبر وشكيبائي كى تعريف كى ہے _

* * * * *