قرآن كريم ميں حضرت داؤد(ع) كو سليمان(ع) جيسا باشرف بيٹا عطا فرمانے كى خبردى گئي ہےكہ جو ان كى حكومت و رسالت كو باقى و جارى ركھنے والے تھے_ ارشاد ہوتا ہے:''ہمنے داؤد(ع) كو سليمان(ع) عطا كيا،كيا ہى اچھا بندہ تھا كيونكہ وہ ہميشہ دامن خداكى طرف اور آغوش حق كى طرف لوٹتا تھا''_(1)
قرآن مجيد ;موجودہ توريت كے برخلاف كہ جو سليمان(ع) كو ايك جبار،بت خانہ ساز اورعورتوں كى ہوس ميں مبتلا بادشاہ كے طور پر متعارف كراتى ہے_سليمان(ع) كو خدا كاايك عظيم پيغمبر شمار كرتا ہے،اور انہيں قدرت اور بے نظير حكومت كے نمونہ كے طورپر پيش كرتا ہے،اور سليمان(ع) سے مربوط مباحث كے دوران بہت ہى عظيم درس انسانوںكو ديتا ہے،ان داستانوں كے ذكر كرنے كا اصل مقصد وہى ہيں_
خدا نے اس بزرگ پيغمبر كو بہت ہى عظيم نعمتيں عطا فرمائي تھيں_
بہتہى سريع اور تيز روسوارى كہ جس كے ذريعے وہ مختصر سى مدت ميں اپنے سارے ملك كىسير كرسكتے تھے_
مختلفصنعتوں كے لئے فراواں معدنى مواد_
اسمعدنى مواد كو استعمال كرنے كے لئے كافى فعال قوت_
(1)سورہ صآيت 30
انہوںنے ان وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے بڑے عبادت خانے بنائے اور لوگوں كو عبادتكى طرف ترغيب دى ،علاوہ ازيں حكومت كى فوجوں ،كاركنوں اور كمزور لوگوں كے طبقاتكى پذيرائي كے لئے وسيع و عريض پروگرام منظم كيا،كہ جس كے برتنوں كے نمونہسے،باقى چيزوں كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_
انتمام نعمتوں كے مقابلہ ميں انہيں شكر گزارى كا حكم ديا،اس مطلب پر تاكيد كرتےہوئے كہ خدا كى نعمتوں كے شكر كا حق بہت ہى كم لوگ ادا كرسكتے ہے_
اسكے بعد يہ واضح و روشن كيا كہ ايك شخص اس قدرت و عظمت كے باوجود موت كے مقابلہميں كتنا كمزور اور ناتواں تھا،كہ وہ ايك ہى لمحہ ميں ناگہانى موت كے ذريعہ دنياسے چل بسا،اس طرح سے كہ اجل نے اسے بيٹھنے يا بستر پر ليٹنے كى مہلت بھى نہدي،تاكہ مغرور سركشى كرنے والے يہ گمان نہ كرليں _
كہاگر وہ كسى مقام پر پہنچ جائيں اور قدرت و قوت حاصل كرليں تو واقعى طور پر وہتوانا ہوگئے ہيں،وہ جس كے سامنے جن اور انسان،شيطان و پرى خدمت ميں لگے ہوئےتھے_
اورزمين و آسمان جس كى جولانگاہ تھے،اور جس كى حشمت اور شان و شوكت ميں جو بھى شككرے اس كى عقل و فكر پر مرغ و ماہى قہقہہ لگائيں،اور وہ ايك مختصر سے لمحہ ميںسمندر كى موجوں پر ابھرنے والے بلبلے كى طرح محو و نابود ہوگيا_
اوريہ بھى واضح و روشن كردے كہ ايك ناچيز عصا اسے ايك مدت تك كس طرح اٹھائے رہااور''جن''اسے كھڑے ہوئے يا بيٹھے ہوئے ديكھتے رہنے كى وجہ سے كيسے سرگرمى كےساتھ اپنے كاموں ميں مشغول رہے؟
اوريہ بھي(دكھادے)كہ ديمك نے انہيں كس طرح زمين پر گرايا اور ان كے ملك كے تمامرشتوں كو توڑ كے ركھ ديا_ہاںايك عصا ہى اس وسيع و عريض ملك كى فعال قوت كو بروئےكار لائے ہوئے تھا اور ايك چھوٹى سے ديمك نے اس كو حركت سے روك ديا_
قرآنميں حضرت سليمان(ع) كى زندگى كا ايك دوسرا حصہ بيان كيا كہ اللہ نے حضرتسليمان(ع) كو آزمايا_اس ميں ايك ''ترك اولى ''پيش آيا_اس كے بعد جناب سليمان(ع)نے بارگاہ خداوندى كا رخ كيا اور اس ترك اولى پر توبہ كي_(1)قرآن كہتا ہے :''ہمنے سليمان(ع) كا امتحان ليا اور اس كى كرسى پر ايك دھڑڈال ديا،پھر اس نے بارگاہخداوندى كى طرف رجوع كيا اور اس كى طرف لوٹا''_(2)(3)
كلامالہى سے اجمالى طور پر معلوم ہوتا ہے كہ سليمان(ع) كى آزمائشے بے جان دھڑكےذريعے ہوئي تھى وہ ان كى آنكھوں كے سامنے ان كے تخت پر ركھ ديا گيا تھا ليكن اسسلسلے ميں قرآن ميں كوئي وضاحت نہيں_محدثين ومفسرين نے اس سلسلے ميں رواياتتفاسير بيان كى ہيں ان ميں سے زيادہ قابل توجہ اور واضح يہ ہے كہ:
سليمان(ع)كى آرزو تھى كہ انھيں باشرف اور شجاع اولاد نصيب ہو جو ملك كا نظام چلانے اورخاص طور پر دشمنوں كے خلاف جہاد ميں ان كى مدد كرے_حضرت سليمان(ع) كى متعددبيوياں تھيں_ انھوں نے دل ميں ارادہ كيا كہ ميں ان سے ہم بستر ہوتا ہوں تا كہمجھے متعدد بيٹے نصيب ہوں كہ جو ميرے مقاصد ميں ميرى مدد كريں_
(1)قرآنمجيد ميں چونكہ يہ واقعہ مختصر طور پر بيان كيا گيا ہے لہذا افسانہ طرازوں اورخيال پردازوں نے فائدہ اٹھايا اور بے بنياد خيالى داستانيں بنا ڈاليں_انھوں نےاس عظيم نبى كى طرف بعض ايسى چيزيں منسوب كيں جو يا تو اساس نبوت كے خلاف ہيں يامقام عصمت كے منافى ہيں يا اصولى عقل ومنطق ہى كے برخلاف ہيں_يہ باتيں تماممحققين قرآن كے لئے خود ايك آزمائشے ہيں_حالانكہ قرآن كے متن ميں جو كچھ كہا گياہے اگر اسى پر قناعت كرلى جاتى تو ان بے ہودہ افسانوں كى گنجائشے باقى نہ رہتي_
(2)سورہص، آيت36
(3)''كرسي''كامعنى ہے''چھوٹے پائوں والا تخت''يوں معلوم ہوتا ہے كہ بادشاہوں كے پاس دوطرح كےتخت ہوتے تھے_ايك تخت عام استعمال كے لئے ہوتا تھا جس كے پائوں چھوٹے ہوتے تھےاور دوسرا تخت خصوصى پروگراموں كے لئے ہوتا تھا كہ جس كے پائے بلند ہوتےتھے_پہلى قسم كے تخت كو''كرسي''كہا جاتا تھا اور دوسرى قسم كے تخت كو''عرش''كہتے تھے_
ليكناس مقام پر ان سے غفلت ہوئي اور آپ(ع) نے''انشاء اللہ''نہ كہا كہ جو انسان كے ہرحالت ميں اللہ پر تكيہ كا غماز ہے _
لہذااس زمانے ميں ان كى بيويوں سے كوئي اولاد نہ ہوئي سوائے ايك ناقص الخلقت بچے كے_ وہ بے جان دھڑكے مانند تھا كہ جو لا كر ان كے تخت پر ڈال ديا گيا_
سليمان(ع)سخت پريشان اور فكر مند ہوئے كہ انھوں نے ايك لمحے كے لئے اللہ سے غفلت كيوں كىاور كيوں اپنى طاقت پر بھروسہ كيا اس لئے انھوں نے توبہ كى اور بارگاہ الہى كىطرف رجوع كيا_(1)
قرآننے حضرت سليمان(ع) كى توبہ كا مسئلہ پھر تفصيل سے بيان كيا ہے_،ارشاد ہوتا ہے:
''اسنے كہا:پروردگارمجھے بخش دے _اور مجھے ايسى حكومت عطا كر جو ميرے بعد كسى كےشاياں نہ ہو كيونكہ تو ہى بہت عطا كرنے والا ہے''_(2)
اللہنے سليمان(ع) كى درخواست قبول كرلى اور انھيں خصوصى امتيازات اور عظيم نعماتوالى حكومت عطا كي_ان امتيازات و نعمات كا پانچ حصوں ميں خلاصہ كيا جاسكتا ہے_
(1)باقىرہے جھوٹے اور قبيح افسانے كہ جن كا ذكر بعض كتب ميں بڑى آب و تاب سے كيا گياہے_ ظاہراً ان كى جڑ تلمود كے يہوديوں كى طرف جاتى ہے اور يہ سب اسرائيليات اورخرافات ہيں كوئي عقل و منطق انھيں قبول نہيں كرتي_ ان قبيح افسانوں ميں كہا گياہے سليمان(ع) كى انگوٹھى كھو گئي تھى يا وہ كسى شيطان نے چھين لى تھى اور خود انكى جگہ تخت پر آبيٹھا تھا وغيرہ وغيرہ_
يہ افسانےہر چيز سے قبل انھيں گھڑنے والوں كے انحطاط فكرى كى دليل ہيں_يہى وجہ ہے كہمحققين اسلام نے جہاں كہيں ان كا نام ليا ہے ان كے بے بنياد ہونے كو صراحت كےساتھ بيان كيا ہے كہ نہ تو مقام نبوت اورحكومت الہى انگوٹھى سے وابستہ ہے اور نہكبھى يہ مقام اللہ اپنے كسى نبى سے چھينتا ہے اور نہ كبھى شيطان كو نبى كى شكلميں لاتا ہے،چہ جائيكہ افسانہ طرازوں كے مطابق وہ چاليس دن تك نبى كى جگہ پربيٹھے اور لوگوں كے درميان حكومت و قضاوت كرے_
(2)سورہ صآيت35
خداكى پہلى نعمت تھى ہوائوں كا ايك رہوار اور سوارى كى طرح تابع ہونا_ جيسا كہفرمايا گيا ہے: ''ہم نے ہوا كو اس كے تابع كرديا تا كہ اس كے حكم كے مطابق آرامسے چلے اور جہاں كاوہ ارادہ كرے جاسكے''_(1)واضح ہے كہ ايك وسيع و عريض حكومتميں تيز رفتار رابطوں كى ضرورت ہوتى ہے تاكہ بوقت ضرورت سربراہ حكومت تيزى كےساتھ ملك كے تمام علاقوں ميں آجاسكے_ اللہ نے يہ امتياز حضرت سليمان(ع) كو دےركھا تھا_(2)
جنوں پر بھى حكومت
دوسرىنعمت اللہ تعالى نے جناب سليمان(ع) كو يہ عطا كى تھى كہ سركش موجودات ان كے لئےمسخر كرديئےئے تھے اور ان كے لئے اختيار ميں دے ديئےئے تھے تاكہ آپ(ع) ان سےمثبت كام لے سكيں_جيسا كہ قرآن ميں فرمايا گيا:
(1)سورہص، آيت 36
(2)ہواكيسے ان كے تابع فرمان تھي؟كتنى تيزى سے چلتى تھي؟ حضرت سليمان(ع) اوران كےساتھى ہوا كے ذريعہ سفر كرتے ہوئے كس چيز پر سوار ہوتے تھے؟اور كون سے عواملانھيں گرنے سے بچاتے تھے اور ہوا كے دبائو كى كمى بيشى اورديگر مشكلات كے مواقعپر ان كى حفاظت كرتے تھے؟
خلاصہ يہكہ وہ كيسا اسرار آميز وسيلہ تھا كہ جو اس زمانے ميں حضرت سليمان(ع) كے قبضے ميںتھا؟يہ ايسے سوالات ہيں جن كى جزئيات اور خصوصيات كے بارے ميں جواب ہمارے سامنےواضح نہيں ہے ہم صرف يہ جانتے ہيں كہ يہ ايك معجزہ تھا جيسے معجزے نبى كے اختيارميں ديئےاتے تھے_يہ ايك عام اور معمول كے مطابق بات نہ تھي_ يہ ايك عظيم نعمتاور اعجاز تھا اور ايسا كرنا قدرت الہى كے لئے سادہ اور آسان كام ہے_نيز ايسےبہت سے مسائل ميں كہ اصولى طور پر توہم انھيں جانتے ہيں ليكن ان كى جزئيات سے ہمواقف نہيں ہيں_
''اورہم نے شيطانوں كو اس كے لئے مسخر كرديا اور ان ميں سے ہر معمار او رغواص كو اسكا تابع فرمان بناديا''_(1)
تاكہان ميں سے كچھ خشكى ميں اس كے كہنے كے مطابق تعميرات كريں اور كچھ دريا ميںغواصى اور غوطہ زنى كے كام آئيں_
اسطرح سے اللہ تعالى نے مثبت كاموں كے لئے موجود قوت ان كے اختيار ميں دے دي_شيطانكہ جن كے مزاج ہى ميں سركشى ہے وہ ان كے لئے اس طرح سے مسخر ہوگئے كہ ان سےتعميرى اور اصلاحى كام ليا جانے لگا اور گراں بہا منابع سے استفادہ كے لئے وہاستعمال ہونے لگے_
قرآنمجيد كى متعدد آيتوں ميں اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ شيطان حضرت سليمان(ع) كےتابع فرمان تھے اور ان كے حكم كے مطابق مثبت كام كرتے تھے_البتہ بعض مقامات پر''شياطين''كا لفظ ہے،جبكہ بعض مقامات پر''جن''كا لفظ ہے_
''جن''ايكايسا موجود ہے جو ہمارى نظروں سے پوشيدہ ہے ليكن عقل و شعور اور طاقت كا حاملہے_ نيز جنوں ميں مو من بھى ہيں اور كافر بھى اور اس ميں كوئي مانع نہيں كہ حكمخدا سے وہ ايك نبى كے تابع فرمان ہوجائيں اور مفيد كام انجام ديں_(2)
جنوںكے بارے ميں لوگوں نے بہت سے بيہودہ افسانے اورداستانيں گھڑركھى ہيں،ليكن اگر ہمان خرافات كو ترك كرديں،تو ان كا اصل وجود اور مخصوص صفات،جو قرآن ميں جنوں كےلئے بيان ہوئي ہيں،ايك ايسے مطلب كا حامل ہے جو علم و عقل سے قطعاً بعيد نہيںہے_
(1)سورہص، آيت37
(2)يہاحتمال بھى ہے كہ لفظ ''شياطين''كا ايك وسيع تر معنى ہو كہ جس ميں سركش انسانبھى شامل ہوں اور ان كے علاوہ بھي_لفظ''شيطان''كا اطلاق قرآن مجيد ميں اس وسيعمفہوم پر ہوا ہے_(مثلاً سورہ انعام كى آيت 12)
بہر حالاللہ تعالى نے حضرت سليمان(ع) كو يہ طاقت دى تھى كہ وہ تمام سركشوں كو اپنےسامنے جھكا سكيں_
جيساكہ قرآن سے معلوم ہوتاہے كہ اس عظيم طاقت كى تسخير بھى پروردگار كے فرمان سے ہىتھى ''اور جس وقت وہ اپنے وظائف اور ذمہ داريوں سے سرتابى كرتے تھے تو انہيںسزادى جاتى تھي''_(1)
قرآنكريم واقعہ كو جارى ركھتے ہوئے جنوں كے اہم توليدى كاموں كے ايك حصہ كى طرف(جووہ سليمان(ع) كے حكم سے انجام ديتے تھے)اشارہ كرتے ہوئے كہتا ہے كہ:
''سليمان(ع)جو كچھ چاہتے تھے وہ ان كے لئے ،عبادت خانوں،تمثالوں ،حوض كے مانند بڑے بڑےكھانوں كے برتنوںں اور زمين ميں ثابت(جمى ہوئي يا گڑى ہوئي)ديگوں سے،تيار كر كےديتے تھے''_(2)
انميں سے ايك حصہ تو معنوى اورعبادت كے مسائل سے مربوط تھا،اور ايك حصہ انسانوں كىجسمانى ضروريات اور ان كے عظيم لشكريوں اور كاركنوں كى جمعيت كے ساتھ تعلقركھتاتھا_
بہرحال سليمان(ع) كے يہ فعال اور چابك دست كارندے،بڑے بڑے باشكوہ عبادت خانے،كہ جوحكومت الہيہ اور اس كى مذہبى سلطنت كے لائق تھے،
اسكے لئے بناتے تھے تاكہ لوگ راحت و آرام كے ساتھ اپنے عبادت كے فرئض كو انجام دےسكيں_
تماثيلكہ جسكا نام قرآ ن ميں لياگيا ہے ''تمثال'' كى جمع ہے_ يہ بيل بوٹو اور تصوير كےمعنى ميں آيا ہے،اور مجسمہ كے معنى ميں بھي،
اسبارے ميں كہ يہ مجسمے يا نقوش،كون سے موجودات كى صورتيں تھيں،اور سليمان(ع) نےان كى تيارى كا حكم كيوں ديا تھا،مختلف تفسيريں بيان كى گئي ہيں_
ممكنہے كہ يہ زيب و زينت اور سجاوٹ كا پہلو ركھتے ہوں،جيساكہ ہمارى اہم قديمى بلكہجديد
(1)سورہسباء آيت12
(2)سورہسباء آيت13
عمارتوںميں بھى نظر آتا ہے_يا يہ ان عمارتوں كا رعب اور دبدبہ بڑھانے كے لئے ہو،كيونكہكچھ حيوانات مثلاًشيركى تصوير،بہت سے لوگوں كے افكار ميں رعب و دبدبہ پيدا كرنےوالى ہے_(1)
تيسرىنعمت اللہ نے حضرت سليمان(ع) كو يہ عنايت كى تھى كہ انھوں نے تخريب كار اورفسادى قوتوں پر قابو پاركھا تھا،كيونكہ بہر حال بعض شياطين ايسے بھى تھے كہ جنسے ايك مفيد او راصلاحى قوت كے طور پر كام نہيں ليا جاسكتا تھا اور اس كے علاوہكوئي چارہ كار بھى نہ تھا كہ وہ قيد بند ميں رہيں تا كہ معاشرہ ان كى مزاحمت سےپيدا ہونے والے شر سے محفوظ رہے_جيسا كہ قرآن ميں بيان ہوا ہے كہ:''اور شيطانوںكا ايك اور گروہ اس كے قابوميںزنجيروں سے جكڑا ہوا تھا''_(2)(3)
(1)كياسليمان(ع) كى شريعت ميں ذى روح موجودات كا مجسمہ بنانا جائز تھا_ جبكہ يہ اسلامميں ممنوع ہے؟
يا جومجسمے وہ سليمان(ع) كے لئے بناتے تھے،غير ذى روح كى جنس سے تھے،مثلاًدرختوںپہاڑوں،سورج،چاند اور ستاروں كى تصويريں_يا ان كے لئے صرف ديواروں پر نقش ونگاركيا كرتے تھے جيسا كہ قديمى تاريخى آثار ميں اكثر گلكاروں كى صورت ميں نظر آتىہيں،اور ہم يہ جانتے ہيں كہ نقش ونگار چاہے جيسے بھى ہوں ،مجسمہ كے برخلاف،حرامنہيں ہيں_
يہ سباحتمالات ہيں،چونكہ اسلام ميں مجسمہ سازى كو حرام قرار ديا جاتا ہے ممكن ہے كہبت پرستى كے مسئلہ كے ساتھ شديد مبارزہ كرنے اور اس كى بيخ كنى كى خاطر ہو،اورسليمان(ع) كے زمانے ميں اس بات كى اتنى ضرورت نہ ہو،اور يہ حكم ان كى شريعت ميںنہ ہو_ليكن ايك روايت ميں جو امام صادق عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے يہ بيان كياگيا ہے:
''خدا كىقسم سليمان(ع) كے حكم سے بنائي جانے والى تمثال مردوں اور عورتوں كے مجسمے نہتھے،بلكہ درخت وغيرہ كى تصويريں تھيں''_
پس معلومہواكہ ذى روح كا مجسمہ بنانا ان كى شريعت ميں بھى حرام تھا_
(2)سورہ ص، آيت38
(3)البتہيہ مسئلہ پيدا ہوتا ہے كہ اگر''شياطين''سے مراد'' شياطين جن'' ہيں كہ جو فطرىطور پر جسم لطيف ركھتے ہيں او پھر زنجير اور ہتھكڑياںان كے ساتھ مناسبت نہيںركھتيں _اس لئے بعض نے كہا ہے كہ يہ تعبير انھيں تخريبى كاروائيوں سے باز ركھنےكے معنى كے لئے كنايہ ہے_
چوتھىنعمت اللہ تعالى نے جناب سليمان كو يہ دى تھى كہ انھيں بہت سے اختيارات دے ركھےتھے كہ جن كى وجہ سے كسى كو كچھ عطا كرنے اور يا نہ كرنے ميں وہ صاحب اختيارتھے_ جيسا كہ قرآن نے كہا ہے كہ:''ہم نے اس سے كہا:يہ ہمارى عطا و بخشش ہے جسےتو(مصلحت كے مطابق) چاہتا ہے عطا كر اور جس سے تو(مصلحت كے مطابق) روكنا چاہتاہے روك لے تجھ پر كوئي حساب نہيں ہے''_(1) (2)
پانچويںنعمت جو اللہ نے حضرت سليمان(ع) كو دى وہ ان كا روحانى مقام تھاكہ جو اللہ نے انكى اہليت و قابليت كى بناء پر انھيں مرحمت فرمايا تھا_
جيساكہ زير بحث گفتگو ميں قرآن نے اس كى طرف اشارہ كياہے:''اس كے لئے ہمارے پاس بلندمقام اور نيك انجام ہے''_(3)
يہجملہ درحقيقت ان لوگوں كا جواب ہے جنھوں نے اس عظيم نبى كے مقام مقدس پر طرح طرحكى ناروا اور بے ہودہ تہمتيں لگانے ميں موجودہ توريت كى پيروى كي_
اسآيت ميں قرآن حضرت سليمان(ع) كو تمام تہمتوں سے مبرا قرار دے رہا ہے اور خدا كےيہاں ان كے معزز مقام كى خبر دے رہا ہے_
يہاںتك كہ''حسن ماب''كہہ كر ان كے انجام بخير كى خبر بھى دى گئي ہے_ہوسكتا ہے يہتوريت ميں آنے والى اس ناروا نسبت كى نفى ہو كہ حضرت سليمان(ع) نے بت پرستوں ميںشادى كى تھي_
جسوجہ سے ان كا ميلان بت پرستى كى طرف ہوگيا تھا_موجودہ توريت يہاں تك كہتى ہے كہانھوں نے بت خانہ بنايا تھا،ليكن قرآن''حسن ماب''كہہ كر ان تمام اوہام و خرافاتپر خط بطلان كھينچ رہا ہے_
(1)سورہص، 38
(2)''بغيرحساب''يا تو اس طرف اشارہ ہے كہ اللہ نے تيرے مقام عدالت كى بناء پر تجھے وسيعاختيارات ديئے ہيں اور تجھ سے پوچھ گچھ نہ ہوگي،يا اس كا معنى يہ ہے كہ عطا ئےالہى تجھ پر اس قدر ہے كہ جس قدر بھى تو بخشش دے اس ميں حساب نہيں ہوگا_
(3)سورہص، آيت40
قرآنىآيات سے يہ بات بخوبى سمجھى جاتى ہے كہ حضرت سليمان(ع) كى داستان حكومت كوئي عامساواقعہ نہيں ہے_
درحقيقتخداوند عالم نے ايسى عظيم حكومت كے قيام اور اتنى عظيم طاقتيں جناب سليمان(ع) كےلئے مسخر كركے اپنى قدرت كا مظاہرہ فرمايا ہے اور ايك موحد انسان كے نزديك قدرتخدا كے آگے يہ كام بالكل آسان ہے_قرآن ميں سب سے پہلے فرمايا گيا ہے:''سليمان(ع)كے پاس جنوں ،انسانوں اور پرندوں كے لشكر كے جمع ہوگئے ''_(1)
لشكروالوںكى تعداداس قدر زيادہ تھى كہ نظم و ضبط كو برقرار ركھنے كے لئے حكم ديا جاتاكہ''اگلى صفوں كو روكے ركھيں اور پچھلى صفوں كو چلاتے رہيں تاكہ سب مل كر حركتكريں''_(2)
حضرتسليمان(ع) نے كسى علاقے پر لشكر كشى كى تھى ليكن اس لشكر كشى كى تفصيل واضح طورپر معلوم نہيں ہے_ چونكہ قرآن''وادى نمل''كے بارے ميں گفتگوكرتى ہے_
لہذبعضمفسرين نے يہ سمجھا ہے كہ وہ ''وادى النمل''(چيونٹيوں كى سرزمين)طائف كے قريب كاعلاقہ ہے اور بعض نے كہا ہے كہ وہ شام كے نزديك كى سرزمين ہے_''بہر حال جنابسليمان(ع) اس عظيم لشكر كے ساتھ چلے حتى كہ چيونٹيوں كى سرزمين پر پہنچگئے''_(3)
يہاںپرچيونٹيوںميں سے ايك چيونٹى نے دوسرى چيونٹيوں سے مخاطب ہوكر كہا:''اے چيونٹيو اپنے اپنےبلوں ميں چلى جائو تا كہ سليمان(ع) اور ان كا لشكر تمھيں بے خبرى ميں پامال نہكردے_''(4)
(1)سورہنمل آيت 17
(2)سورہنمل آيت 17
(3)سورہنمل آيت18
(4)البتہضمنى طور پر اس جملے سے يہ استفادہ ہوتا ہے كہ سليمان كى عدالت چيونٹيوں تك پرآشكار ہوگئي كيونكہ اس جملے كا مفہوم يہ ہے كہ اگر وہ اس بات كى طرف متوجہ ہوںتو ايك كمزور سى چيونٹى كو بھى پامال كرنا گوارا نہيں كرتے چنانچہ اگر وہ پامالكرتے ہيں تو ان كى اس طرف توجہ نہيں ہوتي
''سليمان(ع)يہ سن كر مسكراديئےور ہنسے''_(1)
حضرتسليمان(ع) كس وجہ سے ہنسے؟ اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے_ ظاہر امر يہہے كہ بذات خود يہ قضيہ ايك عجيب چيز تھى كہ ايك چيونٹى اپنے ساتھيوں كوسليمان(ع) كے عظيم لشكر سے آگاہ كرے اور اس كى بے توجہى كا ذكركرے اور يہى عجبامر جناب سليمان(ع) كے ہنسنے اور مسكرانے كا سبب بنا_
بعضمفسرين نے يہ بھى كہا ہے كہ آپ(ع) كى يہ ہنسي،خوشى كى ہنسى تھى كيونكہ آپ(ع) كومعلوم ہوگياكہ چيونٹى تك كى مخلوق ان كى اوران كے لشكروالوں كى عدالت اور تقوىكا اعتراف كرتى ہے_
بعضمفسرين كہتے ہيں كہ آپ(ع) كى خوشى كا سبب يہ تھا كہ خداوند عالم نے انھيں ايسىقدرت عطا فرمائي ہے كہ لشكر عظيم كے شور و غل كے باوجود وہ چيونٹى جيسى مخلوق كىآواز سے غافل نہيں ہيں_
بہرحال وجہ خواہ كچھ بھى ہو،اس موقع پر جناب سليمان(ع) عليہ السلام نے اللہ كىبارگاہ ميں چند معروضات پيش كيں_پہلى يہ كہ'' خداوندجو نعمتيں تونے مجھے اورميرے والدين كو عطا فرمائي ہيں ان كا شكر كرنے كا طريقہ مجھے سكھادے''_(2)
دوسرىيہ كہ''مجھے توفيق عطا فرماتا كہ ايسا نيك عمل بجالائوں كہ جس سے تو راضىہو''_(3)
آخرميں تيسرى عرض داشت يہ پيش كى كہ'' پروردگارامجھے اپنى رحمت كے ساتھ اپنے صالحبندوں كے زمرے ميں شامل فرما''_(4)(5)
(1)سورہنمل آيت 18
(2)سورہنمل آيت19
(3)سورہنمل آيت19
(4)سورہنمل آيت 19
(5)جناب سليمان(ع) كا جانوروں كى بولى جاننا
حيواناتكى دنياكے بارے ميں ہميں زيادہ معلومات نہيں ہيں اور اس بارے ميں تمام ترقى كےباوجود ابھى تك اس پر شك و ابہام كے پردے پڑے ہوئے ہيں_ البتہ بہت سے كاموں ميںہم ان كى فہم،سمجھ اور مہارت كے آثار ضرور ديكھتے ہيں_
شہد كىمكھيوں كا گھر بنانا،شہدكے چھتے كا منظم و مضبوط كرنا،چيونٹيوں كاموسم سرما كىضروريات كے لئے اپنى غذا كو -->
قرآنميں موجود مختلف قرائن سے مجموعى طور پر نتيجہ نكلتا ہے كہ ايك روز حضرتسليمان(ع) اپنے تيز رفتار گھوڑوں كا معائنہ كررہے تھے كہ جنھيں ميدان جہاد كےلئے تيار كيا گيا تھا_ عصر كا وقت تھا_ مامورين مذكورہ گھوڑوں كے ساتھ مارچ كرتےہوئے ان كے سامنے سے گزر رہے تھے_
ايكعادل اور با اثر حكمران كے لئے ضرورى ہے كہ اس كے پاس طاقتور فوج ہو اور اسزمانے ميں لشكر كے اہم ترين وسائل ميں سے تيز رفتار گھوڑے تھے لہذا حضرتسليمان(ع) كا مقام ذكر كرنے كے بعد نمونے كے طورپر گھوڑوں كا ذكر آيا ہے_
<--ذخيرہ كرنا،جانوروں كا دشمن سے اپنا دفاع كرنا،حتى كہ ان كا بہت سى بيماريوں كےعلاج سے باخبر ہونادور دراز كے فاصلوں سے اپنے آشيانوں اوربلوں تك واپس لوٹآنا،لمبے اور طويل فاصلے طے كر كے منزل مقصود تك پہنچنا،آئندہ حوادث كے بارے ميںپيشگى اندازہ لگا لينا وغيرہ ايسى چيزيں ہيں جن سے معلوم ہوتا ہے كہ حيوانات كىپر اسرار زندگى كے بارے ميں ابھى تك بہت سے مسائل ايسے ہيں جو قابل حل نہيں _انتمام باتوں سے ہٹ كر بہت سے جانور ايسے ہيں كہ اگر انھيں سدھايا جائے اور ان كىتربيت كى جائے تو وہ ايسے ايسے عجيب و غريب كارنامے انجام ديتے ہيں جو انسا ن كےبھى بس ميں نہيں ہوتے_
ليكن پھربھى اچھى طرح معلوم نہيں كہ وہ انسانى دنيا سے كس حد تك باخبر ہيں؟كيا وہ واقعاًيہ جانتے ہيں كہ ہم(انسان)كون لوگ ہيں اور كيا كرتے ہيں؟ہوسكتا ہے ہميں ان ميںاس قسم كے ہوش اور سمجھ كے آثار نہ مليں ليكن اس كا مطلب يہ بھى نہيں ہے كہ انميں ان چيزوں كا فقدان ہے_اسى بناء پر اگر ہم نے مندجہ بالا داستان ميں يہ پڑھاہے كہ چيونٹيوں كو جناب سليمان كے اس سر زمين ميں آنے كى خبر ہوگئي تھى اورانھيں اپنے بلوں ميں گھس جانے كا حكم ملا تھا تا كہ وہ لشكر كے پائوں تلے كچلىنہ جائيںاورسليمان(ع) بھى اس بات سے باخبر ہو گئے تھے تو زيادہ تعجب كى بات نہيںہے_
اس كےعلاوہ،سليمان(ع) كى حكومت غير معمولى اور معجزانہ امور پر مشتمل تھى اسى بناء پربعض مفسرين نے اپنے نظريہ كا اس طرح اظہار كيا ہے كہ سليمان عليہ السلام كے دورحكومت ميں بعض جانوروں ميں اس حد تك آگاہى كا پايا جانا ايك اعجاز اور خارق عادتبات تھى لہذا اگر دوسرے ادوار ميں اس قسم كى باتيں جانوروں ميں نہيں ملتيں تو اسميں كوئي حرج كى بات نہيں ہے_ان كى اس قسم كى گفتگو كا مقصد يہ ہے كہ ہميںسليمان(ع) اور چيونٹيوں يا سليمان(ع) اور ہد ہد كى داستان كو كنايہ،مجاز يا زبانحال وغيرہ پر محمول كرنے كى كوئي ضرورت نہيں ہے_ كيونكہ ظاہر امر كى حفاظت اورحقيقى معنى پر محمول كرنے كا امكان بھى موجود ہے_
قرآنميں اس طرح بيان ہوا ہے كہ'' وہ وقت ياد كر جب وقت عصر انھوں نے چابك اور تيزرفتار گھوڑے اس كے سامنے پيش كئے''_(1)
اسموقع پر يہ واضح كرنے كے لئے كہ طاقتور گھوڑوں سے ان كا لگائو دنيا پرستى كى وجہسے نہيں جناب سليمان(ع) نے كہا:
''انگھوڑوں كو ميں اپنے رب كى ياد اور اس كے حكم كى بنا پر پسند كرتا ہوں''_(2)
ميںچاہتا ہوں كہ ان سے دشمنوں كے خلاف جہاد ميں كام لوں_
سليمان(ع)كہ جو دشمن كے خلاف جہاد كے لئے آمادہ ان تيز رفتار گھوڑوں كا معائنہ كررہے تھےبہت خوش ہوئے_
آپ(ع)انھيں يوں ديكھ رہے تھے كہ نظريں ان پر جم كر رہ گئيں ''يہاں تك كہ وہ ان كىنظروں سے اوجھل ہوگئے_''(3)
يہمنظر نہايت دلكش اور عمدہ تھا اور حضرت سليمان(ع) جيسے عظيم فرماں روا كے لئےنشاط انگيز تھا_ آپ(ع) نے حكم ديا''ان گھوڑوں كو واپس ميرے پاس لائو''_(4)
''جبمامورين نے اس حكم كى اطاعت كى اور گھوڑوں كو واپس لائے تو سليمان(ع) نے خودذاتى طور پر ان پر نوازش كى اور''ان كى پنڈليوں اور گردنوں كو تھپتھپايااور ہاتھپھيرا_''(5)
يوںآپ(ع) نے ان كى پرورش كرنے والوں كى بھى تشويق اور قدردانى كي_
معمولہے كہ جب كسى سوارى كى قدردانى كى جاتى ہے تو اس كے سر،چہرے گردن يا اس كى ٹانگپر ہاتھ پھيرا جاتا ہے اور يہ دلچسپى اور پسنديدگى كے اظہار كا اہم ذريعہ ہے_
(1)سورہنمل آيت31
(2)سورہ ص،آيت 32
(3)سورہ ص، آيت32
(4)سورہ ص،آيت 33
(5)سورہ ص،آيت33
كہجس سے انسان اپنے بلند مقاصد ميں مدد ليتا ہے لہذا حضرت سليمان(ع) جيسے نبىكاايسا كرنا كوئي تعجب انگيز نہيں_(1)
قرآنميں دوسرى جگہ داؤد(ع) و سليمان(ع) كى زندگى كے ايك حصہ كى طرف اشارہ ہورہاہے_ابتداء ميں ايك فيصلہ كا ذكر ہے كہ جو حضرت داؤد(ع) اور سليمان(ع) نے كياتھا__ايك اجمالى اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا :
''اورداؤد(ع) و سليمان(ع) كو ياد كرو كہ جس وقت وہ ايك كھيت كے بارے ميں فيصلہ كررہےتھے كہ جس كو ايك قوم كى بھيڑيں رات كے وقت چرگئي تھيں،اورہم ان كے فيصلے كےشاہد تھے''_(2)
اگرچہ قرآن نے اس فيصلے كا واقعہ كاملاًسر بستہ طور پر بيان كيا ہے_اور ايك اجمالىاشارہ پر ہى اكتفا كيا ہے،اور صرف اس كے اخلاقى اور تربيتى نتيجہ پر كہ جس كىطرف ہم بعد ميں اشارہ كريں گے قناعت كى ہے،ليكن اسلامى روايات اور مفسرين كےبيانات ميں اس سلسلے ميں بہت سى بحثيں نظر آتى ہيں_
كچھمفسرين نے يہ بيان كيا ہے كہ وہ واقعہ اس طرح تھا:كہ بھيڑوں كا ايك ريوڑرات كےوقت انگوروں كے ايك باغ ميں داخل ہوگيا اور انگوروں كى بيلوں اور انگوروں كےگچھوں كو كھا گيا اور انہيں خراب اور ضائع كرديا_
(1)مذكورہبيان كے بارے ميں جو كچھ سطور بالا ميں كہا گيا ہے يہ بعض مفسرين سے ہم آہنگہے_بزرگان شيعہ ميں سے عالم نامدار و بزرگوار سيد مرتضى كے كلمات سے بھى استفسير كے ايك حصّے كااستفادہ كيا جاسكتا ہے_ انھوں نے اپنى كتاب''تنزيہالانبياء''ميں بعض مفسرين اورارباب حديث كى جانب سے حضرت سليمان(ع) كى طرف دى جانےوالى ناروانسبتوں كى نفى كرتے ہوئے لكھا ہے:
''كيسےممكن ہے كہ اللہ پہلے تو اس پيغمبر كى مدح و ثناء كرے اور پھر ساتھ ہى اس كى طرفاس برے كام كى نسبت دے كہ وہ گھوڑوں سے بھى ان كا لگائو حكم پروردگار سے تھاكيونكہ اللہ ہميںبھى حكم ديتا ہے كہ گھوڑے پاليں اور دشمنوں كے خلاف جنگ كے لئےانھيں آمادہ ركھيں_لہذا كيامانع ہے كہ اللہ كا نبى بھى ايسا ہى ہو''_
(2)سورہانبياء آيت 78
باغكا مالك حضرت داؤد(ع) كے پاس شكايت لے كر پہنچا_حضرت داؤد(ع) نے حكم ديا كہ اساتنے بڑے نقصان كے بدلے ميں تمام بھيڑيں باغ كے مالك كو دے دى جائيں_
سليمان(ع)جو اس وقت بچے تھے باپ سے كہتے ہيں كہ،اے خدا كے عظيم پيغمبرآپ اس حكم كو بدلديں اور منصفانہ فيصلہ كريںباپ نے كہاكہ وہ كيسے؟آپ(ع) جواب ميں كہتے ہيںكہ:بھيڑيں تو باغ كے مالك كے سپرد كى جائے تا كہ وہ ان كے دودھ اور اون سے فائدہاٹھائے اور باغ كو بھيڑوں كے مالك كے حوالے كيا جائے تا كہ وہ اس كى اصلاح اوردرستى كى كوشش كرے_جس وقت باغ پہلى حالت ميں لوٹ آئے تو وہ اس كے مالك كے سپردكرديا جائے اور بھيڑيں بھى اپنے مالك كے پاس لوٹ جائيںگي(اور خدا نے سليمان(ع)كے فيصلہ كى تائيد كي)_
يہاںپر ايك اہم سوال باقى ہے:
اندونوں فيصلوں كى بنياد او رمعياركيا تھا؟
اسسوال كے جواب ميں كہا جاسكتا ہے كہ معيار اور بنياد خسارے اور نقصان كى تلافىكرنا تھا_حضرت داؤد(ع) نے غور كيا اور ديكھا كہ انگوروں كے باغ ميں جو نقصان ہواہے،وہ بھيڑوں كى قيمت كے برابر ہے_ لہذا انہوں نے حكم ديا كہ اس نقصان كى تلافىكرنے كے لئے بھيڑيں باغ كے مالك كو دے دى جائيں كيونكہ قصور بھيڑوں كے مالك كاتھا_
(اسبات كى طرف توجہ رہے كہ بعض اسلامى روايات ميں يہ بيان ہوا ہے كہ رات كے وقتبھيڑوں والے كى ذمہ دارى ہے كہ وہ اپنے ريوڑ كو دوسروں كے كھيتوں ميں داخل ہونےسے روكے اور دن كے وقت حفاظت كى ذمہ دارى كھيتوں كے مالك كى ہے)_
اورحضرت سليمان(ع) كے حكم كا ضابطہ يہ تھا كہ انہوں نے ديكھا كہ باغ كے مالك كانقصان بھيڑوں كے ايك سال كے منافع كے برابر ہے_ اس بناء پر فيصلہ تو دونوں نے حقو انصاف كے مطابق كيا ہے ليكن اس ميں فرق يہ ہے كہ حضرت سليمان(ع) كا فيصلہزيادہ گہرائي پر مبنى تھا،كيونكہ اس كے مطابق خسارہ ايك مشت نہيں كيا
گياتھا بلكہ اس طرح خسارہتدريجى طور پر پورا ہوتا اور يہ فيصلہ بھيڑوں والے پر بھى گراں نہ تھا_
علاوہازيں نقصان اور تلافى كے درميان ايك تناسب تھا،كيونكہ انگور كى جڑيں ختم نہيںہوئي تھيں،صرف ان كا وقتى منافع ختم ہوتا تھا،اندازاً زيادہ منصفانہ فيصلہ يہتھا كہ اصل بھيڑيں باغ كے مالك كو نہ دى جائيں،بلكہ اسے ان كا منافع ديا جائے_
بہرحال سليمان(ع) كے فيصلہ كى اس صورت ميں تائيد كى گئي ہے:''ہم نے يہ فيصلہسليمان(ع) كو سمجھا ديا تھا''_(1)
اورہمارى تائيد سے اس نے اس جھگڑے كے حل كى بہترين راہ معلوم كرلي_
ليكناس كا يہ مطلب نہيں كہ حضرت داؤد(ع) كا فيصلہ غلط تھا_كيونكہ قرآن ساتھ ہى كہتاہے:''ہم نے ان دونوں ميں سے ہر ايك كو آگاہى اور فيصلے كى اہليت اور علم عطا كياتھا''_(2)
قرآنكے ايك حصے ميں خداوند عالم حضرت سليمان(ع) كى حيرت انگيز زندگى كے ايك اور اہمواقعے كى طرف اشارہ فرماتاہے اور ہدہد اور ملكہ سباء كا قصہ بيان كرتا ہے،فرماتاہے:''سليمان(ع) كو ہدہد دكھائي نہ ديا تو وہ اسے ڈھونڈنے لگے''_(3)
يہتعبير اس حقيقت كو اچھى طرح واضح كرتى ہے كہ حضرت سليمان(ع) اپنى حكومت كے حالاتاور ملك كى كيفيت كو اچھى طرح مد نظر ركھتے تھے يہاں تك كہ ايك پرندہ بھى ان كىآنكھوں سے اوجھل نہيں تھا_
سليمان(ع)كو كيسے معلوم ہوا كہ ہدہدغير حاضرہے؟بعض كہتے ہيں كہ اس وجہ سے كہ جب آپ(ع) سفركرتے تو پرندے آپ(ع) كے سر پر سايہ كئے رہتے تھے_
چونكہاس وقت اس سائبان ميں اسكى جگہ خالى نظر آئي لہذا انھيں معلوم ہوگيا كہ ہدہد غيرحاضر ہے_
(1)سورہانبياء آيت79
(2)سورہانبياء آيت79
(3)سورہنمل آيت 20
بعضمفسرين كہتے ہيں كہ سليمان(ع) كے نظم حكومت ميں پانى كى تلاش كا كام ہدہد كے ذمہتھا لہذا پانى كى ضرورت كے وقت جب اسے تلاش كيا گيا تو وہ نہيں ملا_
بہرحال،اس گفتگو كى ابتداء ميں حضرت سليمان(ع) نے فرمايا:''مجھے وہ دكھائي نہيں دےرہا ہے''،پھر فرمايا: ''يا يہ كہ وہ غائب ہے''_
ممكنہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ كيا وہ كسى معقو ل عذر كے بغير حاضر نہيںہے يامعقول عذر كى وجہ سے غائب ہے_
بہرصورت ايك با استقلال منظم اور طاقت ورحكومت ميں يہى ہوتا ہے كہ ملك ميں جو بھىاتار چڑھائو ہو وہ سر براہ حكومت كى نظر ميں ہو حتى كہ كسى پرندے كى حاضرى اورغير حاضرى ايك عام ملازم كى موجودگى اور عدم موجودگى اس كے پيش نظرہو اور يہ ايكبہت بڑا درس ہے_
حضرتسليمان(ع) نے دوسروں كو درس دينے اور حكم عدولى پر سزادينے كى خاطر مندجہ ذيلجملہ كہا تاكہ ہدہد كى غير حاضرى دوسرے پرندوں پر بھى اثر كرے چہ جائيكہ اہمعہدوں اور اعلى مناصب پر فائز انسان، فرمايا: ''ميں يقيناًاسے سخت سزادوں گا''_
''يااسے ذبح كر ڈالوں گا،يا پھر وہ اپنى غير حاضرى كى ميرے سامنے واضح دليل پيشكرے''_(1)
درحقيقتجناب سليمان(ع) نے غير حاضرى كى صورت ميں يك طرفہ فيصلہ دينے كى بجائے خلاف ورزىثابت ہوجانے پر سزا كى تنبيہ كى ہے اور اپنى اس تنبيہ ميں بھى دو مراحل بيان كئےہيں جو جرم كى نوعيت كے مطابق ہيں ايك مرحلہ بغير موت كے سزا ہے اوردوسرا سزائےموت كا مرحلہ ہے_
ساتھہى يہ بھى واضح كرديا ہے كہ انھيں اپنى حكومت اور طاقت كا گھمنڈ نہيں ہے بلكہاگر ايك كمزور ساپرندہ بھى معقول اور واضح دليل پيش كرے تو وہ اسے قبول كرنے كےلئے تيار ہيں_
(1)سورہنمل آيت21
ہدہد كى غير حاضرى كو زيادہ عرصہ نہيں گزرا تھاكہ ہد ہد واپس آگيا اور سليمان(ع)كى طرف رخ كر كے كہنے لگا:''مجھے ايك ايسى چيز معلوم ہوئي ہے جس سے آپ(ع) آگاہنہيں ہيں،ميں آپ(ع) كے لئے سرزمين سباء سے ايك يقيني(اور بالكل تازہ)خبر لاياہوں''_(1)
گوياہد ہد نے جناب سليمان(ع) كے چہرے پر غصے كے آثار ديكھ لئے تھے لہذا ان كى ناراضىدور كرنے كے لئے سب سے پہلے اس نے ايك ايسے اہم مطلب كى مختصر الفاظ ميں خبردىجس سے جناب سليمان(ع) اس قدر علم و دانش ركھنے كے باوجود بے خبر تھے،جب ان كاغصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے اس ماجرا كى تفصيل بيان كي_(2)
(1)سورہنمل آيت22
(2)يہ باتبھى قابل توجہ ہے كہ سليمان(ع) كے لشكروں والے حتى كہ پرندہ تك كو بھى جوان كےتابع فرمان تھے جناب سليمان(ع) نے اس قدر آزادي،امن وامان اور جسارت عطاكى ہوئيتھى كہ ہد ہد نے كھل كر ان سے كہہ ديا:''مجھے ايسى چيز معلوم ہوئي ہے جس كىآپ(ع) كو بھى خبر نہيں ہے''_
اس كىگفتار كا طريقہ ايسا نہيں تھا جيسے چاپلوس درباريوں كا جابر بادشاہوں كے سامنےہوتا ہے كہ كسى حقيقت كو بيان كرنے كے لئے مدتوں خوشامد كرتے رہتے ہيں اپنے آپكو ذرہ ناچيز بتلاتے ہيں پھر چاپلوسى اور خوشامد كے ہزاروں پردوں ميں كوئي باتبادشاہ سلامت كے قدموں پر نثار كرتے ہيں اور كبھى بھى اپنى بات كھو ل كر بياننہيں كرتے بلكہ ہميشہ پھول كى پتى سے بھى نازك كنايوں كا سہارا ليتے ہيں مبادابادشاہ سلامت كى خاطر مبارك ملول ہوجائے_
ہاں توہدہد نے واضح الفاظ كہہ ديا كہ ميرى غير حاضرى كسى دليل كے بغير نہيں تھي،ميںايك ايسى اہم خبر لايا ہوں جس سے آپ(ع) بھى بے خبر ہيں_
ضمنى طورپر يہ تعبيرسب لوگوں كے لئے ايك بہت بڑا درس بھى ہے كيونكہ ہوسكتا ہے كہ ہد ہدجيسى ايك چھوٹى سى مخلوق ايسى با ت جانتى ہو جس سے اپنے دور كے بہت بڑے دانشوربھى بے خبر ہوں_انسان كو نہيں چاہيئےہ اپنے علم و دانش پر گھمنڈ كرے چاہے وہنبوت كے وسيع علم كا مالك سليمان(ع) ہى كيوں نہ ہو_
بہرحال ہد ہد نے ماجرے كى تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا:''ميں سر زمين سباء ميں چلا گياتھا_ميں نے ديكھا كہ ايك عورت وہاں كے لوگوں پر حكومت كررہى ہے اسكے قبضے ميں سبكچھ ہے خاص طور پر اس كا ايك بہت بڑا تخت بھى ہے''_(1)
ہدہد نے ان تين جملوں ميں ملك سباء كى تقريباًتمام خصوصيات بتاديں اور وہاں كے طرزحكومت سے بھى سليمان(ع) كو باخبر كرديا_
پہلىخصوصيت تويہ ہے وہ ايك ايسا آباداور شاد ملك ہے جس ميں ہر طرح كى نعمتيں اورسہوليات مہيا ہيں_
دوسرىيہ كہ ان لوگوں پر ايك عورت حكومت كررہى ہے جس كا ايك نہايت ہى آراستہ دربار ہےحتى كے سليمان(ع) كے دربار سے بھى زيادہ آراستہ كيونكہ ہدہدنے حضرت سليمان(ع) كاتخت ديكھا ہوا تھا اس كے باوصف ہونے كے باوجود اس نے ملكہ سباء كے تخت كو''عرشعظيم'' كے عنوان سے ياد كيا_
انالفاظ كے ساتھ اس نے سليمان(ع) كو يہ بات جتلادى كہ كہيں ايسا نہ ہوكہ آپ(ع) يہتصور كرليں كہ تمام جہان آپ(ع) كے قلم روحكومت ميں ہے اور صرف آپ(ع) كا تختباعظمت ہے_
سليمانہدہد كى يہ بات سن كر ايك گہرى سوچ ميں پڑگئے ليكن ہد ہد نے انھيں مزيد سوچنے كىمہلت نہ دى اور فوراًہى ايك اور بات پيش كردي_اس نے كہا:''جو عجيب و غريب اورتكليف دہ چيز ميں نے وہاں ديكھى ہے وہ يہ كہ ميں نے ديكھا كہ وہ عورت اور اس كىقوم خدا كو چھوڑ كر سورج كے سامنے سجدہ كرتے ہيں''_
''شيطانان پر مسلط ہوچكا ہے اور اس نے ان كے اعمال كو ان كے لئے مزين كر ر كھا ہے''_(2)
(لہذاوہ سورج كو سجدہ كرنے ميں فخر محسوس كرتے ہيں)_
(اسطرح سے) ''شيطان نے انھيں راہ حق سے روك ركھا ہے''_(3)
(1)سورہنمل آيت23
(2)سورہنمل آيت24
(3)سورہنمل آيت24
وہبت پرستى ميں اس قدر غرق ہوچكے ہيں كہ مجھے يقين نہيں كہ وہ آسانى سے اس راہ سےپلٹ جائيں_''وہ بالكل ہدايت نہيں پائيں گے''_(1)
ہدہد نے ان الفاظ كے ساتھ ان كى مذہبى اور روحانى حيثيت بھى واضح كردى كہ وہ بتپرستى ميں خوب مگن ہيں،حكومت آفتاب پرستى كو ترويج كرتى ہے_اور لوگ اپنے بادشاہكے دين پر ہيں_
انكے بت كدوں اور دوسرے حالات سے واضح ہوتا ہے كہ وہ اس غلط راہ پر ڈٹے ہوئے ہيںاوراس كے ساتھ جنون كى حد تك محبت كرتے ہيں اور اپنى اس غلط روش پر فخر كرتے ہيںايسے حالات ميں جبكہ حكومت اور عوام ايك ہى ڈگر پر چل رہے ہيںان كا ہدايت پانابہت مشكل ہے_
حضرتسليمان(ع) نے غور سے ہدہد كى باتى سنيں اور سوچنے لگ گئے_ممكن ہے ان كا زيادہگمان يہى ہو كہ يہ خبر سچى ہے اور اس كے جھوٹا ہونے پر كوئي دليل بھى موجود نہيںہے ليكن چونكہ يہ بات معمولى نہ تھى بلكہ ايك ملك اور ايك بڑى قوم كى تقدير اسسے وابستہ تھى لہذا انھوں نے ايك فرد كى خبر پر اكتفاء نہيں كيا بلكہ وہ اس حساسموضوع پر مزيد تحقيق كرنا چاہتے تھے_لہذا اس طرح فرمايا :
''ہماس بارے ميں تحقيق كريں گے اور ديكھيں گے كہ آيا تو نے سچ كہا ہے يا جھوٹوں ميںسے ہے''_(2)
سليمان(ع)نے نہ تو ہدہد كو جھوٹا كہا او رنہ ہى بغير دليل كے اس كى بات كو تسليم كيا بلكہاس بارے ميں تحقيقات كا حكم صادر فرمايا_
بہرحال سليمان(ع) نے ايك نہايت مختصر ليكن جامع خط تحرير فرمايا اور ہدہد كو دے كركہا:ميرا يہ خط لے جائو اور ان كے پاس جاكر ڈال دو پھر لوٹ آئو اور ايك كونے ميںٹھہر جائو اور ديكھو وہ كيا رد عمل كرتے ہيں_(3)
(1)سورہنمل آيت24
(2)سورہنمل آيت27
(3)سورہنمل آيت28
ملكہسباء نے خط كھولا اور اسكے مندرجات سے آگاہى حاصل كى چونكہ اس نے اس سے پہلےسليمان(ع) كا نام اور شہرت سن ركھى تھى اور خط كے مندرجات سے بھى واضح ہوتا تھاكہ جناب سليمان(ع) نے سباء كے بارے ميں سخت فيصلہ كرليا ہے_
لہذاوہ گہرى سوچ ميں پڑگئي اور چونكہ ملك كے اہم ترين مسائل ميں وہ اپنے مصاحبين سےمشورہ كيا كرتى تھى لہذا اس بارے ميں بھى انھيں اظہار خيال كى دعوت دى اور ان سےمخاطب ہوكر كہا:'' اے سردارو اور بزرگوايك نہايت ہى باوقار خط ميرى طرف پھينكاگيا ہے''_(1)(2)
پھرملكہ سباء نے خط كا مضمون سناتے ہوئے كہا''يہ خط سليمان(ع) كى طرف سے ہے اور اسكے مندرجات يوں ہيں:''رحمان و رحيم اللہ كے نام سے''_(3)
''ميںتمھيں نصيحت كرتا ہوں كہ تم ميرے مقابلے ميں سركشى سے كام نہ لو او ر حق كےسامنے سر تسليم خم كرتے ہوئے ميرے پاس آجائو''_(4)(5)
(1)سورہنمل آيت29
(2)ملكہنے يہ كيوں كہا كہ يہ بہت ہى باعظمت خط ہے يا تو اس لئے كہ اس خط كے مطالب بہتہى گہرے تھے يا پھر اس لئے كہ اس كا آغاز خدا كے نام سے ہوا تھا او راختتام پرجناب سليمان(ع) كے صحيح دستخط تھے اور مہر لگى تھي_ يا اس كا لكھنے والا باعظمتانسان تھا_مفسرين نے يہ مختلف احتمالات ذكر كئے ہيں ممكن ہے كہ يہ سب احتمالاتجامع مفہوم ميں جمع ہوں كيونكہ يہ ايك دوسرے كے منافى نہيں ہيں_
يہ ٹھيكہے كہ وہ لوگ سورج پرست تھے ليكن ہم جانتے ہيں كہ بہت سے بت پرست خدا پر بھىايمان ركھتے تھے اور اسے ''رب الارباب'' كا نام ديتے تھے اور اس كا احترام كرتےتھے اور تعظيم بجالاتے تھے_
(3)سورہنمل آيت30و31
(4)سورہنمل آيت 31و 32
(5) بعيدمعلوم ہوتا ہے كہ جناب سليمان(ع) نے اسى عبارت اور انہى عربى الفاظ ميں خط لكھاہو بنابريں ممكن ہے مندرجہ بالا جملے يا تو صرف معنى كو بيان كررہے ہيں يا پھرسليمان(ع) كے خط كا خلاصہ ہوں جسے ملكہ سباء نے ان افراد كے سامنے بيان كيا_
حضرتسليمان(ع) كے خط كا تذكرہ كرنے كے بعد اہل دربار كى طرف رخ كركے ملكہ نے يوںكہا''اے سردارواس اہم معاملے ميں تم اپنى رائے كا اظہار كرو،كيونكہ ميں كوئي بھىاہم كام تمہارى شركت اور تمہارى رائے كے بغير انجام نہيں ديتى ہوں''_(1)
اسرائے طلبى سے وہ ان كے درميان اپنى حيثيت ثابت كرنا چاہتى تھى اور ان كى نظر اورتوجہ اپنى طرف مبذول كرنا چاہتى تھي_تا كہ اس طرح سے وہ ان كى رائے اور اپنےفيصلے كو ہم آہنگ كرسكے_
اشرافقوم نے جواب ميں كہا :
''ہمبڑى طاقت والے اور جنگجو لوگ ہيں ليكن آخرى فيصلہ آپ كے ہاتھوں ميں ہے ديكھئے،آپكيا حكم ديتى ہيں''؟(2)
اسطرح سے انھوں نے ايك تو اس كے سامنے اپنى فرمانبردارى كا اظہار كرديا اور دوسرےاپنى قوت كاذكر كر كے ميدان جنگ ميں لڑنے كامشورہ بھى دے ديا_
جبملكہ نے ان كا جنگ كى طرف رجحان ديكھا اور اندرونى طور پر اس كا قطعاً يہ ارادہنہيں تھا تو ان كى اس جنگى پياس كو بجھانے نيز صحيح حكمت عملى اختيار كرتے ہوئےانھيں قانع كرنے كے لئے كہا''جب بادشاہ كسى آباد علاقے ميں داخل ہوتے ہيں توانھيں تباہ برباد كرديتے ہيںاور وہاں كے باعزت لوگوں كو ذليل كرديتے ہيں''_(3)
كچھكو مار ڈالتے ہيں،كچھ كو قيدى بناليتے ہيں اور كچھ كو بے گھر كرديتے ہيں_جہاں تكان كے بس ميں ہوتا ہے،لوٹ مار كرتے ہيں_
پھراس نے تا كيد كے طور پر بلكہ يقينى صورت ميں كہا: ''جى ہاںوہ ايسا ہى كرتےہيں''_
(1)سورہنمل آيت32
(2)سورہنمل آيت33
(3)سورہنمل آيت34
درحقيقت ملكہ سباء خود بھى ايك''بادشاہ''تھى لہذا وہ بادشاہوں سے اچھى طرح واقفتھى كہ بادشاہوں كى جنگى حكمت عملى دو حصوں پر مشتمل ہوتى ہے ايك تباہى اوربربادى اور دوسرے باعزت افراد كو ذليل كرنا كيونكہ انھيں تو صرف اپنے ہى مفاداتعزيز ہوتے ہيں_قوم و ملت كے مفادات اور ان كى سربلندى سے انھيں كوئي سروكار نہيںہوتا لہذا عمومى طور پر يہ دونوں ايك دوسرے كى ضد ہوتے ہيں_
پھرملكہ نے كہا:ہميں سب سے پہلے سليمان(ع) اور اس كے ساتھيوں كو آزمانا چاہيئےورديكھنا چاہيئےہ وہ واقعاً ہيں كيسے لوگ؟آيا سليمان(ع) بادشاہ ہے يا پيغمبر ہے؟
تباہكار ہے يا مصلح،اقوام و ملل كو ذليل كرتا ہے يا عزت بخشتا ہے؟تو اس كام كے لئےہميں تحفے تحائف سے استفادہ كرنا چاہيئےہذا'' ميں ان كى طرف كچھ معقول تحفےبھيجتى ہوں پھر ديكھوں گى كہ ميرے قاصد ان كى طرف سے كيا رد عمل لاتے ہيں''_(1)
بادشاہوںكو تحفے تحائف سے بڑى محبت ہوتى ہے اور يہ تحفے اور ہديے ہى ان كى بہت بڑىكمزورى ہوتے ہيں_
انھيںتحفے دے كر جھكايا جاسكتا ہے ہم ديكھيں گے اگر سليمان(ع) نے ان تحائف كو قبولكرليا تو معلوم ہوجائے گا كہ وہ بادشاہ ہے اور ہم بھى ڈٹ كر اس كا مقابلہ كريںگے اور اپنى پورى طاقت استعمال كريں گے كيونكہ ہم بہر حال طاقتور ہيں اور اگر اسنے ان تحائف سے بے رخى كى اور اپنى باتوں پر ڈٹا رہا تو ہم سمجھ گے كہ وہ خدا كانبى ہے تو ايسى صورت ميں ہميں بھى عقل مندى سے كام لينا ہوگا_
ملكہسباء نے جناب سليمان(ع) كے لئے كيا تحائف بھيجے؟ اس بارے ميں قرآن نے تو كچھنہيں بتايا_صرف كلمہ''ہديہ''نكرہ كى صورت ميں بيان كركے اس كى عظمت كو ضرور واضحكرديا ہے البتہ مفسرين نے اس بارے ميں بہت كچھ كہا ہے جن ميں سے بعض باتيںمبالغہ آرائي اور افسانوى رنگ سے خالى نہيں ہيں_
(1)سورہ نمل آيت 35
بعضلوگوں نے لكھا ہے كہ پانچ سو بہترين غلام اور پانچ سو بہترين كنيزيں ان كے لئےبھيجى گئيں غلاموں كو زنانہ لباس ميں اور كنيزوں كو مردانہ لباس ميں،غلاموں كےكانوں ميں گوشوارے اور ہاتھوں ميں كنگن اور كنيزوں كے سر پر خوبصورت ٹوپياںتھيں_ملكہ نے اپنے خط ميں لكھا كہ اگر آپ اللہ كے نبى ہيں تو غلاموں اور كنيزوںكو ايك دوسرے سے الگ كرديں_
انھيںزرو و جواہرات اور قيمتى زيورات سے آراستہ كركے بہترين سواريوں پر سوار كركے اورجواہرات كى معقول مقدار دے كر جناب سليمان(ع) كى خدمت ميں بھيجا گيا_
اورساتھ ہى ملكہ نے قاصد كو يہ بات بھى سمجھادى كہ تمھارے دربار ميں پہنچتے ہى اگرسليمان(ع) نے تمھيں خشم آلود اور غضب ناك نگاہوں سے ديكھا تو سمجھ لينا كہ يہبادشاہوں كا انداز ہے اور اگر پيار بھرے انداز ميں خندہ پيشانى كے ساتھ تمہيںشرف حضور بخشا تو سمجھ لينا كہ خدا كا نبى ہے_
ملكہسباء كے روانہ كئے ہوئے افراد نے سرزمين يمن كو خير باد كہا اور شام اور جنابسليمان(ع) كے مركز حكومت كى طرف چل ديئے_دل ميں يہى تصور لئے ہوئے كہ سليمان(ع)ان كے تحائف قبول كرليں گے اور خوش ہوكر انھيں شاباش كہيں گے_
ليكنجوں ہى وہ سليمان(ع) كے حضور پيش ہوئے تو وہاں پر عجيب و غريب منظر ديكھاسليمان(ع) نے نہ صرف ان كا استقبال نہيں كيا بلكہ ان سے يہ بھى كہا'' كيا تم يہچاہتے ہو كہ(اپنے )مال كے ذريعے ميرى مدد كرو؟حالانكہ يہ مال ميرى نگاہ ميںبالكل بے قيمت سى چيز ہے جو كچھ خدا نے مجھے عطا فرمايا ہے اس سے كئي حصے بہتراور كہيں قيمتى ہے_''(1)''نبوت،علم ودانش،ہدايت اور تقوى كے مقابلے ميں مال كى كياحيثيتہے؟يہ تم ہو جو اپنے تحفے پر خوش ہوتے ہو''_(2)
(1)سورہنمل آيت36
(2)سورہنمل آيت 36
جىہاں يہ تمہيں لوگ ہو كہ اس قسم كے حسين اور قيمتى تحفے اگر ايك دوسرے كے لئے بھىبھيجو تو اس قدر مسرور شادماں نظر آتے ہو كہ خوشى كى چمك تمہارى آنكھوں سے نماياںہوتى ہے ليكن ميرى نگاہوں ميں ان كى كوئي قدر و قيمت نہيں ہے_
اسطرح سے جناب سليمان(ع) نے ان كى اقدار اور معيار كى نفى كردى اور تحائف كو حقارتكے ساتھ ٹھكرا كر ثابت كرديا كہ ان كے نزديك اقدار اور معيار كچھ اور ہيں_دنياپرستو ںكے مقرر كردہ معيار ان كے سامنے ہيچ اور بے قيمت ہيں_
جنابسليمان(ع) نے حق و باطل كے مسئلے ميں اپنے اس عزم بالجزم كو ثابت كرنے كے لئےملكہ سباء كے خاص ايلچى سے فرمايا:''تم ان كى طرف واپس پلٹ جائو(اور اپنے يہتحفے بھى ساتھ لے جائو)ليكن يہ ضرور يادركھو كہ ہم كئي لشكر لے كر ان كے پاس بہتجلد پہنچ رہے ہيں جن كے مقابلے كى طاقت ان ميں نہيں ہوگي،اور ہم انھيں اس سرزمينسے ذليل كركے نكال ديں گے اور وہ نہايت ہى حقير ہوں گے_''(1)
جنابسليمان(ع) كى يہ دھمكى ان لوگوں كے نزديك صحيح اور قابل عمل بھى تھى كيونكہانھوں نے جناب سليمان(ع) اور ان كے جاہ و جلال اور فوج و لشكر كو نزديك سے ديكھاتھا_
چنانچہجناب سليمان(ع) نے ان سے دو چيزوں كا تقاضا كيا تھا ايك تو''بر ترى طلبى كو ترككرديں''اور دوسرے ''حق كے آگے جھك جائيں''_
اہلسباء كا ان دونوں چيزوں كا مثبت جواب نہ دينا اور اس كى بجائے تحائف كا بھيجنااس بات كى دليل تھا كہ وہ حق كو قبول نہيں كرتے اور نہ ہى برترى طلبى سے باز آتےہيں لہذا سليمان(ع) نے انھيں پر فوجى دبائو ڈالنے كى كوشش كي_
جبكہملكہ سباء اور اس كے درباريوں نے دليل اور ثبوت يا معجزہ وغيرہ كامطالبہ كيا تھالہذا انھيں موقع فراہم كيا كہ مزيد تحقيق كريں ليكن تحفوں كے بھيجنے سے معلومہوتا تھا كہ وہ انكار كرچكے ہيں_
(1)سورہنمل آيت37
يہبات بھى ہميں معلوم ہے كہ جناب سليمان(ع) كو ہدہد نے جو ناخوشگوار خبر سنائي تھىوہ يہ كہ ملك سباء كے لوگ سورج پرست ہيں اور غيب و حضور كے جاننے والے سےروگردانى كئے ہوئے ہيں اور مخلوق كے آگے جھكے ہوئے ہيں_
حضرتسليمان(ع) كو اسى بات سے سخت دكھ پہنچا تھا اور ہم جانتے ہيں كہ بت پرستى ايكايسى بات ہے جسكے سامنے كوئي بھى خدائي دين خاموش تماشائي نہيں بن سكتا اور نہہى بت پرستوں كو ايك مذہبى اقليت مان سكتا ہے بلكہ بوقت ضرورت زبردستى بھى بتكدوں كو مسمار اور شرك و بت پرستى كو نيست و نابود كرسكتا ہے_
مندرجہبالا توضيحات سے بخوبى معلوم ہوتا ہے سليمان(ع) كى يہ دھمكى ''لا اكراہ فىالدين''كے بنيادى اصول سے بھى متصادم نہيں ہے كيونكہ بت پرستى كوئي دين نہيںبلكہ ايك خرافات اور راہ حق سے انحراف ہے_
آخركار ملكہ كے كارندے اپنے تحفے تحائف اور سازو سامان اكٹھا كر كے اپنے ملك واپسچلے گئے او رسارا ماجرا ملكہ اور اس كے مصاحبين سے جاكر بيان كيا،اسى طرح حضرتسليمان(ع) كے ملك كى معجزانہ عظمت بھى بيان كى جن ميں سے ہر ايك بات اس امر كىدليل تھى كہ وہ كوئي عام آدمى نہيں ہيں اور نہ ہى عام دنياوى بادشاہ ہيں بلكہخدا كے سچے پيغمبر ہيں اور ان كى حكومت ايك خدائي حكومت ہے_
يہاںپر ان كے لئے يہ بات واضح ہوگئي كہ وہ نہ صرف جناب سليمان(ع) كے ساتھ فوجىمقابلے كى طاقت نہيں ركھتے بلكہ اگر بالفرض مقابلہ كريں بھى تو قوى احتمال يہىہے كہ ان كا خدا كے ايك زبردست طاقتور نبى سے مقابلہ ہوگا_
لہذاملكہ سبا نے اپنى قوم كے بہت سے سرداروں كے ساتھ مشورے كے بعد فيصلہ كيا كہسليمان(ع) كے پاس ذاتى طور پر جاكر اس اہم مسئلے كے بارے ميں تحقيقات كريں تاكہپتہ چل سكے كہ سليمان(ع) كا كيا
مسلك ہے؟
كسىبھى صورت ميں يہ خبر حضرت سليمان(ع) تك بھى پہنچ گئي لہذا انھوں نے فيصلہ كيا كہاب جبكہ ملكہ اور اس كے ساتھى راستے ميں ہيں انھيں اپنى طاقت كا مظاہرہ كرناچاہئے، تاكہ انھيں پہلے سے زيادہ ان كے اعجاز كى حقيقت كاعلم ہوجائے اور وہ انكى دعوت قبول كرليں_
لہذاحضرت سليمان(ع) نے اپنے درباريوں سے مخاطب ہوكر كہا''اے بزرگوتم ميں سے كون شخصاس بات كى قدرت ركھتا ہے كہ اس كا تخت ميرے پاس لے آئے قبل اس كے كہ وہ خود ميرےپاس آئيں اور سر تسليم خم كريں_''(1)
اسموقع پر دو قسم كے افراد نے كہاكہ ہم يہ كام كرنے كے لئے تيار ہيں_جن ميں سے ايكعجيب اور دوسرا عجيب تر تھا،سب سے پہلے جنوں ميں سے ايك عفريت نے ان كى طرف منہكركے كہا:''ميں اس كا تخت آپ(ع) كى مجلس سے اٹھنے سے پہلے پہلے آپ(ع) كے پاسلادوں گا_''(2)(3)
دوسراايك صالح اورمتقى انسان تھا اور''كتاب خدا''سے بھى اسے اچھى خاصى واقفيتتھي_جيسا كہ اس شخص كے بارے ميں خود قرآن كہتا ہے: ''جس كے پاس كتاب كا كچھ علمتھا اس نے كہا ميں آپ(ع) كے پلك جھپكنے سے بھى پہلے اس تخت كو لے آئوں گا''_(4)
(1)سورہنمل آيت 38
(2)سورہنمل آيت 39
(3)''عفريت''كامعنى ہے مغرور،سركش اور خبيث _اور''ميں ان كى نسبت طاقتور اور امين ہوں''جملے كى كئي بار تاكيد كى گئي ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس عفريت ميں كئي لخاظسے خيانت كا انديشہ تھا لہذا اسے اپنا دفاع كرنا پڑا اور امانت و وفادارى كايقين دلانا پڑا_
صورت حالخواہ كچھ ہو جناب سليمان(ع) كى زندگى عجائبات اور معجزات سے بھرى پڑى ہے اوركوئي تعجب كى بات بھى نہيں ہے كہ ايك عفريت اس قسم كا كارنامہ ايك يا چند گھنٹوںميں انجام دے يعنى جتنى دير سليمان(ع) لوگوں ميں فيصلے كے لئے ياامور مملكتميںغور و فكر كے لئے يا عوام كونصيحت كے لئے بيٹھے ہيں اتنى دير ميں وہ بھى ملكہسبا كا تخت لاكر حاضر كرديتا_
(4)سورہنمل آيت40
جبحضرت سليمان(ع) نے اس كى پيش كش قبول كر لى تو اس نے بھى اپنى معنوى طاقت كےذريعے ملكہ سبا كا تخت پلك جھپكنے ميں آپ(ع) كے پاس حاضركرديا اور جب سليمان(ع)نے اسے اپنے پاس موجود پايا تو خدا كا شكر اداكرتے ہوئے كہنے لگے:''يہ ميرےپروردگار كا فضل ہے ،تاكہ مجھے آزمائے كہ ميں اس كا شكر بجالاتا ہوں يا كفراننعمت كرتا ہوں''_(1)(2)
(1)سورہنمل آيت40
(2)يہ شخصكون تھا، اسے يہ عجيب و غريب طاقت كہاں سے ملى اور علم الكتاب سے كيا مراد ہے؟اسبارے ميں مفسرين كے مختلف اقوال ہيں ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ شخص جناب سليمان(ع)كے مومن اور قريبى رشتہ داروں اور خاص دوستوں ميں سے تھا_
تواريخميں اسكا نام ''آصف بن برخيا''لكھا ہے_ وہ جناب سليمان عليہ السلام كے وزير اوربھانجے تھے_
اور ''علمكتاب''سے ان كى آسمانى كتابوں سے واقفيت مراد ہے ايسى عميق اورگہرى واقفيت جس سےان كے لئے ممكن ہوگيا كہ وہ اس طرح كا معجزانہ كارنامہ انجام ديں بعض لوگوں كاخيال ہے كہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے_
يعنى علمالہى كى لوح اور اس كے صرف ايك گوشے كا اس بندہ خدا كو علم حاصل تھا جس كى وجہسے وہ ملكہ كے تخت كو''سباء''سے آنكھ جھپكنے كى دير ميں لانے پر قادر تھا_
بہت سےمفسرين اور غير مفسرين كا كہنا ہے كہ يہ مرد مومن اللہ تعالى كے اسم اعظم سےباخبر تھا_يعنى ايسا باعظمت اور بزرگ نام جس كے سامنے دنيا كى ہر چيز سرجھكائےہوئے ہے اور وہ انسان كو بے حد و اندازہ قدرت عطا كرتا ہے_
اس نكتےكا ذكر بھى ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ عام طور پر لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ اسم اعظم سےمراديہ ہے كہ كسى خاص كلمہ كے زبان سے نكال دينے سے اس كے اس قدر عجيب و غريباثرات ظاہر ہوجاتے ہيں_
ايسى باتنہيں ہے بلكہ اس سے مراد اس نام اور اس كى صفات كو اپنانا ہوتا ہے اور دل و جانسے اس پر عمل كرنا ہوتا ہے اور علم،اخلاق تقوى اور ايمان كے اعلى درجہ پر فائزہوكر خود كو اس كا مظہر بنانا ہوتا ہے تب كہيں جاكر اس اسم اعظم كے پرتو ميںانسان كے اندر معجزانہ امور كى انجام دہى كى صلاحيت پيدا ہوتى ہے_
دوسراسوال يہ ہے كہ'' عفريت جن'' ميںايسے خارق عادت كام انجام دينے كى طاقت كيونكرہوسكتى ہے؟
اس كاجواب تو ہم اعجاز سے متعلق بحث ميں دے چكے ہيں اور وہاں پر بتا چكے ہيں كہ بعضاوقات ايسا ہوتا ہے كہ -->
قرآنميں سليمان عليہ السلام اور ملكہ سبا كى سبق آموز داستان سے متعلق ايك اور پہلوپيش كياگيا ہے_
حضرتسليمان عليہ السلام نے ملكہ سبا كى عقل و خرد كو آزمانے اور خدا پر اس كے ايمانلانے كے لئے راہ ہموار كرنے كى غرض سے اس كے تخت ميں كچھ تبديلى كرنے كا حكمديا_ تاكہ وہ پہچانا نہ جاسكے چنانچہ انھوں نے كہا:اس كے تخت ميں كچھ تبديلىكردو ہم ديكھتے ہيں كہ وہ سمجھ پاتى ہے يا ان لوگوں ميں سے ہے جو ہدايت نہيںپاتے''_(1)
<--غير مومن لوگ بھى زبردست رياضتوں اور مشقتوں كى وجہ سے كچھ ايسے امور كى انجامدہى پر قادر ہوجاتے ہيں _
جو عموماً خلاف معمول ہوتے ہيں_
ليكن انكے كاموں ميں اور معجزات ميں فرق ہوتا ہے كيونكہ ان كے اس قسم كے كام محدود بشرىطاقت كے مرہون منت ہوتے ہيں_
جبكہمعجزات كا دارومدار خداوند عالم كى بے پاياں اور لايزال قدرت پر ہوتا ہے جو خودخدا كى دوسرى صفات كى مانند غير محدود ہوتى ہے_
لہذا ہمديكھتے ہيں كہ عفريت جن اپنى توانائي كو ملكہ سبا كے تخت كو لانے كے لئے جنابسليمان عليہ السلام كى مجلس برخاست كرنے ميں محدود كرتا ہے جبكہ جناب آصف بنبرخيا نے اپنى توانائي كو كسى حد ميں محدود نہيں كيا اگر وہ پلك جھپكنے كى باتبھى كرتے ہيں تو در حقيقت ايك كم از كم مدت كى طرف اشارہ ہے جس سے كم مدت اوركوئي ہو نہيں سكتي_
اور مسلمہے كہ جناب سليمان عليہ السلام بھى اس قسم كے كاموں ميں صالح شخص كى حمايت كريںگے كيونكہ اس طرح سے اس كا تعارف ہوگااور لوگ اس كى طرف متوجہ ہوں گے نہ كہ ايكعفريت كى كہ جس كى وجہ سے كوتاہ نظر لوگ شك ميں پڑجائيں اور اسے اس كى پاكيزگىاور اچھائي كى دليل سمجھنے لگ جائيں_
(1)سورہنمل آيت41
اگرچہ ملكہ كے تخت كا سبا سے شام ميں آجانا ہى اس بات كے لئے كافى تھا كہ وہ اسےآسانى كے ساتھ نہ پہچان سكے ليكن اس كے باوجود جناب سليمان(ع) سے حكم ديا كہ اسميں كچھ تبديلياں بھى كردى جائيں_ممكن ہے كہ يہ تبديلياں بعض علامتوں اورجواہركو ادھر ادھر كركے كى گئي ہوں با بعض رنگوں كو تبديل كرديا گيا ہو_(1)
صورتحال خواہ كچھ بھى ہو ب ملكہ پہنچى تو كسى نے(تخت كى طرف اشارہ كركے)كہا:''كيا آپكا تخت اسى طرح كا ہے''_(2)
ملكہسبا نے نہايت ہى زيركا نہ انداز ميں ايك بہت ہى شستہ اور جچا تلا جواب ديتے ہوئےكہا:''يہ تو خودوہى تخت معلوم ہوتا ہے''_(3)
اگروہ كہتى كہ اس جيسا ہے تو جواب صحيح نہ ہوتا او راگر كہتى كہ بالكل وہى ہے توخلاف احتياط بات تھي_كيونكہ اس قدر لمبے فاصلوں سے اس كے تخت كا سرزمين سليمانعليہ السلام ميں آنا عام حالات ميں ممكن نہيں تھا_اس كى صرف ايك ہى صورت رہ جاتىہے اور وہ ہے معجزہ_
اسكے علاوہ تاريخ ميں ہے كہ ملكہ نے اپنے اس گراں قيمت تخت كى بڑى حفاظت كى تھىاسے اپنے خصوصى محل كے خاص كمرے ميں اہم مقام پر نصب كيا ہواتھا جس كى حفاظت كےلئے خصوصى دستہ مقرر تھا اور اس محل ميں نہايت مضبوط دروازے لگے ہوئے تھے_
(1)ليكنيہاں پر جو سوال درپيش ہے وہ يہ ہے كہ آخر جناب سليمان(ع) ،اس كى عقل و خرد اورفہم و ذكا كو كيوں آزمانا چاہتے تھے؟
ہوسكتا ہےاس لئے تاكہ وہ يہ جان سكيں كہ اس كے ساتھ كس انداز ميں پيش آنا چاہئے_ لہذا وہاس طرح سے اس ذمہ دارى سے عہدہ برآ ہونے كى اہليت كو جاننا چاہتے ہوں_
(2)سورہنمل آيت42
(3)سورہنمل آيت 42
ليكنان تمام تبديلوں كے باوجود ملكہ نے اپنے تخت كو پہچان ليا تھا_
اسنے فوراًكہا:''ہم تو اسے پہلے ہى جان چكے تھے اور سر تسليم خم كرچكے تھے''_
گوياوہ يہ كہنا چاہتى تھى كہ ان سارے كاموں سے سليمان(ع) كا مقصد يہ تھا كہ ہم اس كےمعجزے پر ايمان لے آئيں ليكن ہم تو اس سے پہلے دوسرى علامتوں كى وجہ سے ان كىحقانيت كے معترف ہوچكے ہيں اور ان غير معمولى چيزوں كو ديكھنے سے پہلے ہى ان پرايمان لاچكے ہيں اس طرح كے كاموں كى اب چنداں ضرورت نہيں تھي_
تواس طرح سے (سليمان نے ) اسے ہر غير خدا كى عبادت سے روك ديا _
ہرچند كہ وہ اس سے پہلے كافروں ميں سے تھى _
تواس نے يہ واضح اور روشن علامات ديكھ كر اپنے تاريك ماضى كو الوداع كہا اور اپنىزندگى كے نئے مرحلے ميں قدم ركھا، جو نورايمان ويقين سے بھر پور تھا _
اسسلسلے كى آخر ميں اس داستان كا ايك اور منظر پيش كيا گيا ہے اور وہ ہے ملكہ سباءكا حضرت سليمان كے محل ميں داخل ہوناحضرت سليمان نے حكم دے ديا تھا كہ ان كے ايكمحل كے صحن كو بلور سے تيار كيا جائے اور اس كے نيچے پانى چلاديا جائے _
''توجب ملكہ سباء وہاں پہنچى تو اس سے كہا گيا كہ محل كے صحن ميں داخل ہوجائو ''_(1)
ملكہنے جب صحن كو ديكھا تو اس نے سمجھا كہ پانى كى نہر چل رہى ہے اس نے پنڈلى سےكپڑا اٹھايا تاكہ پانى كو عبور كرے (اور وہ تعجب ميں غرق تھى كہ پانى كى نہر كايہاں كيا كام ؟)
''ليكنسليمان نے اس سے كہا محل كا صحن صاف وشفاف بلور سے بنا ہوا ہے''_ (2)
(1) سورہنمل آيت 44
(2)سورہنمل آيت 44
(يہپانى نہيں ہے كہ جسے عبور كرنے كے لئے تم نے پائنچے اٹھاركھے ہيں)(1)
''يہىوجہ ہے كہ جب ملكہ سبا نے ان مناظر كو ديكھا تو فوراًكہا: پروردگارا : ''ميں نےتو اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اب ميں سليمان كے ساتھ مل كر اس اللہ كى بارگاہ ميںسرتسليم خم كرچكى ہوں جو تمام جہانوں كا پروردگار ہے ''(2)
(1)اسمقام پر ايك نہايت ہى اہم سوال پيش آتاہے اور وہ يہ كہ جناب سليمان اللہ كے ايكعظيم پيغمبر تھے وہ اس قدر آرائشےى اور زيبائشےى كاموں ميں كيوں لگ گئے ؟ يہٹھيك ہے كہ وہ ايك بادشادہ اور فرمانروا تھے ليكن دوسرے انبياء كى طرح كيا وہسادگى كو اختيار نہيں كرسكتے تھے؟
جو اباًعرض ہے كہ اگر حضرت سليمان نے ملكہ سبا كو مسلمان بنانے كے لئے اس طرح كى آرائشےوزيبائشے سے كام ليا ہے تو اس ميں كيا حرج ہے ؟خصوصاً جبكہ ملكہ اپنى تمام طاقتوعظمت خوبصورت تاج وتخت، با شكوہ محل وقصر اور زرق وبرق آرائشے وزيبائشے ميں ہىسمجھتى تھى چنانچہ جب حضرت سليمان(ع) نے اسے اپنى سلطنت كى ايك جھلك دكھائي توملكہ كى آنكھوں كے سامنے اپنى حكومت كى تمام سج دھج ماند پڑگئي اور يہى بات اسكى زندگى كا اہم موڑ ثابت ہوئي جس ميں اسے اقدار اور معيار زندگى كے بارے ميںتبديلى كرنا پڑى _
آخر اسبات ميں كيا حرج ہے كہ انھوں نے نقصان دہ اور خونريز لشكر كشى كى بجائے ايسىحكمت عملى اختيار كى ملكہ كا دماغ چكرانے لگاوہ اس قدر مبہوت ہوگئي كہ جنگ كاتصور ہى اس كے دماغ سے كا فور ہوگيا خصوصاً جبكہ وہ ايك عورت تھى اور عورت كى سبسے بڑى كمزورى اس قسم كے تكلفات ہوتے ہيں كيونكہ عورت ايسے تكلفات كو بہت اہميتديتى ہے_
بہت سےمفسرين نے اس بات كى تصريح بھى كى ہے ملكہ سباء كے سرزمين شام ميںقدم ركھنے سےپہلے حضرت سليمان نے حكم جارى كرديا تھا كہ اس قسم كا ايك عظيم محل تيار كياجائے جس سے ان كا مقصد ملكہ كو مطيع كرنے كے لئے اپنى طاقت كا مظاہرہ كرنا تھااور اس سے يہ ظاہر كرنا مقصود تھا كہ ظاہر ى طاقت كے لحاظ سے بھى عظيم جنابسليمان كے پاس ايك بڑى طاقت ہے جس كے ذريعے انھوں نے ايسا كام انجام ديا ہے _
''دوسرےلفظوں ميں ايك وسيع وعريض علاقے كا امن وامان ، دين حق كى قبوليت اور بے پناہجنگى اخراجات سے بچنے كے لئے اس قسم كے اخراجات كوئي بات نہيں تھے _''
(2)سورہنمل آيت44
ميںپہلے سورج كى پوجا كيا كرتى تھى ، زيب وزينت ميں كھوچكى تھى اور خود كو دنيا كاسب سے بہتر اور برتر انسان سمجھتى تھى _
ليكناب پتہ چلا ہے كہ ميرى طاقت كتنى كمزور اور حقير تھى بلكہ اصولى طور پر يہ زروجواہر اور قيمتى زيورات انسانى روح كو كبھى سيراب نہيں كرسكتے _''
پروردگاراميں اپنے رہبر سليمان كے ساتھ مل كر تيرى بارگاہ ميں حاضر ہوں اور اپنے كئے پرنادم ہوں اور تيرے آستان قدسى پر ميں نے اپنا جھكا ديا ہے _
ملكہسبا كے بارے ميں جو كچھ قرآن مجيد نے بيان كياہے وہى ہے جو ہم نے ابھى پڑھاہےآخر كار وہ ايمان لے آئي اور صالحين كے كاروں ميں شامل ہوگئي اب سوال يہ پيداہوتاہے كہ آياوہ ايمان اختيار كرنے كے بعد اپنے ملك كو واپس لوٹ گئي اورسليمان(ع) كى طرف سے ملك پر حكمراں رہى يا سليمان(ع) كے پاس رہ گئي اور انہى كےساتھ شادى كر لى يا سليمان كے مشورہ پر يمن كے كسى بادشاہ جسے '' تبع'' كہاجاتاتھا،اس كے ساتھ عقد كرليا اس بارے ميں قرآن نے كچھ نہيں بتايا _
چونكہقرآن كا ہدف اصلى تربيتى مسائل بيان كرنا ہے اور يہ بات ان مسائل سے غير متعلقتھى لہذا اسے بيان كرنے كى ضرورت ہى محسوس نہيں كى گئي ليكن مفسرين اور مورخيننے اس كے بارے ميں مختلف راستے اختيار كئے ہيں جنكى تحقيق كى چنداں ضرورت نہيںہے_اگر چہ بعض مفسرين كے بقول مشہور و معروف يہى ہے كہ وہ حضرت سليمان(ع) كےساتھ رشتہ ازدواج ميںمنسلك ہوگئي_
البتہاس مقام پر اس نكتے كى وضاحت بھى ضرورى معلوم ہوتى ہے كہ جناب سليمان(ع) اور انكے لشكر و حكومت كے بارے ميں نيز ملكہ سباء اور اس كى تفصيلى زندگى كے بارے ميںبہت ہى افسانہ طرازى كى گئي ہے كہ بعض مواقع پر تو عوام الناس كے لئے حق و باطلميں تميز كرنا بھى مشكل ہوجاتا ہے اور بعض موقعوں پر اس صحيح
تاريخى واقعے پر ايسے تاريكپردے ڈال ديئے جاتے ہيں كہ اس كى اصليت كو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے اور يہ سب كچھ انخرافات كا غلط نتيجہ ہوتا ہے جو حقائق كے ساتھ ملاديئےاتے ہيں لہذا ايسے خرافاتسے پورى طرح چوكنا رہنا چاہئے_
قرآنايك مقام پر خدا كے اس عظيم پيغمبر كى عجيب و غريب اور عبرت انگيز موت كے بارےميں گفتگو كررہاہے اور اس حقيقت كو روشن كررہا ہے كہ اتنے باعظمت پيغمبر اوراتنى قدرت،رعب اور دبدبہ ركھنے والے حكمران نے اپنى جان كس طرح آسانى كے ساتھجان آفرين كے سپرد كردي_يہاں تك كہ بستر پر ليٹنے سے پہلے ہى موت كے چنگل نے انكے گريبان كو پكڑليا_فرماتا ہے:''جب ہم نے سليمان(ع) كے لئے موت كا حكم نافذكرديا تو كسى نے بھى لوگوں كو اس كى موت سے آگاہ نہ كيا مگر زمين پر رينگنے والےنے كہ جس نے اس كے عصاء كو كھا ليا يہاں تك كہ اس كا عصا ٹوٹ گيا اور سليمان(ع)كا پيكر نيچے گر پڑا''_(1)
جبسليمان(ع) كى موت كا وقت آن پہنچا تو وہ اس وقت كھڑے ہوئے تھے اور اپنے عصا پرتكيہ كئے ہوئے تھے كہ اچانك موت نے ان كو آپكڑا،اور ان كى روح بدن سے پرواز كرگئي اور وہ ايك مدت تك اسى حالت ميں كھڑے رہے يہاں تك كہ ديمك نے كہ قرآن جسے''دابة الارض''(زمين پر رينگنے والى چيز)سے تعبير كرتا ہے،ان كے عصا كو كھاليا،جس سے ان كا اعتدال برقرار نہ رہ سكا اور زمين پر گرپڑے تب لوگ ان كى موت سےآگاہ ہوئے_
يہبات قابل توجہ ہے كہ بعض روايات ميں آيا ہے كہ اس دن سليمان(ع) نے ديكھا كہ ايكخوبصورت اور خوش پوش جوان قصر كے ايك كونے سے باہر آيا اور ان كى طرفبڑھا،سليمان(ع) نے تعجب كيا،كہا:تو كون ہے؟ اور كس كى اجازت سے يہاں آيا ہے؟
(1)سورہسباء آيت14
ميںنے تو يہ حكم ديا ہوا تھا كہ آج كوئي شخص يہاں نہ آنے پائے_
اسنے جواب ديا:ميں وہ ہوں كہ نہ بادشاہوں سے ڈرتا ہوں اور نہ كسى سے رشوت ليتا،ہوںسليمان(ع) نے بہت ہى تعجب كيا_ليكن اس نے مہلت نہ دى اور كہاميں موت كافرشتہ ہوں،ميں اس لئے آيا ہوں تا كہ ميں آپ(ع) كى روح قبض كروںيہ كہتے ہىفوراًان كى روح قبض كرلي_(1)
سليمان عليہ السلام كى موت ايك مدت تككيوںپوشيدہ رہي؟
يہبات كہ حضرت سليمان(ع) كى موت ان كے كاركنان حكومت پر كتنى مدت تك مخفى رہى صحيحطور پر واضح نہيں ہے،ايك سال؟ايك ماہ؟يا چند روز؟
مفسرينكا اس سلسلہ ميں ايك نظريہ نہيں ہے_
كيايہ اخفا اور كتمان ان كے اصحاب اور اركان سلطنت كى جانب سے صورت پذير ہوا تھا؟كيا انہوں نے جانتے بوجھتے اس غرض سے كہ كہيں امور سلطنت كا رشتہ وقتى طور پربكھرنہ جائے،ان كى موت كو پوشيدہ ركھا؟
يايہ كہ اصحاب و اركان سلطنت بھى اس امر سے آگاہى نہيں ركھتے تھے_
يہبات بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كہ ايك طولانى مدت تك،يہاں تك كہ ايك دن سے زيادہ ہىسہي،ان كے اطراقبان،(گردوپيش رہنے والے اصحاب و اركان سلطنت)بھى آگاہ نہہوں،كيونكہ يہ بات تو مسلم ہے،كہ كچھ لوگ ان كا كھانا لے جانے پر مامور تھے اوران تك دوسرى ضروريات پہنچاتے تھے،وہ تو اس واقعہ سے ضرور آگاہ ہوجاتے،اس بنا پربعيد نہيں ہے_ جيسا كہ بعض مفسرين نے كہا ہے_
(1)اس باتكا ذكر كرنا بھى ضرورى ہے كہ بہت سے انبياء كى داستانوں كى طرح حضرت سليمان(ع)كى داستان ميں بھى افسوسناك حد تك گھڑى ہوئي روايات شامل كردى گئي ہيں،اور ان كےساتھ بہت سى خرافات منسوب كردى گئي ہيں،كہ جنہوں نے اس عظيم پيغمبر كے چہرے كوبدل ديا ہے،اور ان خرافات كا زيادہ تر حصہ موجودہ توريت سے ليا گيا ہے،اور اگرہم صرف اسى پر قناعت كرليں كہ جو قرآن نے كہا ہے،تو پھر كوئي مشكل پيش نہيں آئےگي_
كہوہ اس امر سے آگاہ تھے ،ليكن اسے كچھ مصلحتوں كى بنا پر مخفى ركھا،اسى لئے بعضروايات ميں آيا ہے كہ اس مدت ميں''آصف بن برخيا''ان كے وزير خاص ملك كے امور كىتدبير كرتے اور نظم و نسق چلاتے رہے_
كياسليمان(ع) كھڑے ہوئے عصا كے ساتھ ٹيك لگائے ہوئے تھے يا بيٹھے ہوئے اپنے ہاتھعصا پر ركھے ہوئے تھے،اور سر كو ہاتھوں پر ٹكا ئے ہوئے تھے اور اسى حالت ميں انكى روح قبض ہوگئي اور وہ ايك مدت تك اسى طرح رہے؟ اس سلسلے ميں مختلف احتمالاتہيں،اگر چہ آخرى احتمال زيادہ نزديك نظر آتا ہے_
اگريہ مدت طولانى تھى تو كيا غذا كا نہ كھانا اور پانى كا نہ پينا ديكھنے والوں كےلئے كوئي مسئلہ پيدا نہيں كرتا تھا_
چونكہسليمان(ع) كے تمام كام عجيب و غريب تھے لہذا وہ شايد اس مسئلہ كو بھى عجيب وغريب شمار كرتے تھے،يہاں تك كہ ايك روايت ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ آہستہ آہستہايك گروہ كے درميان زمزمہ پيدا ہوا كہ سليمان(ع) كى پرستش كرنا چاہيئےيا ايسانہيں ہے كہ وہ ايك عرصہ سے ايك ہى جگہ پر ثابت و برقرار ہے؟نہ تو وہ سوتا ہے،نہكھانا كھاتا ہے اور نہ پانى پيتا ہے_
ليكنجس وقت عصا ٹوٹا اور سليمان(ع) نيچے گرے ،تو يہ تمام رشتے ايك دوسرے سے ٹوٹ گئےاور ان كے خيالات نقش برآب ہوگئے_
* * * **