حضرت داؤدعليہ السلام بنى اسرائيل كے بزرگ انبياء ميں سے تھے انھيں اللہ نے ايك عظيم حكومت عطا كى _قرآن مجيد كى متعدد آيات ميں ان كے بلند مقام كى تعريف كى گئي ہے_
ان كى جسمانى طاقت كا يہ عالم تھا كہ جب بنى اسرائيل كا ايك ظالم حكمران جالوت ميدان جنگ ميں آپ(ع) كے مد مقابل آيا تو آپ(ع) نے آلہ سنگ اندازى سے اس قوت سے پتھر پھينكا كہ جالوت گھوڑے كى پشت سے زمين پر آگيااو راپنے خون ميں لوٹنے لگا_
بعض نے لكھا ہے كہ پتھر نے اس كا سينہ چيرديا اور دوسرى طرف سے نكل گيا_
دوسرى طرف آپ(ع) كى سياسى اقتدار كا يہ حال تھا كہ ايك طاقتور حكومت آپ(ع) كے ہاتھ ميںتھى اور آپ(ع) پورى طاقت سے دشمنوں كے مقابلے ميں كھڑے ہوتے تھے_
علماء نے يہاں تك كہا ہے كہ آپ(ع) كى محراب عبادت كے چاروں طرف ہزار افراد شام سے صبح تك تيار كھڑے رہتے تھے_
نيز آپ(ع) كى روحاني، اخلاقى اور عبادى طاقت كايہ عالم تھا كہ رات كا ايك حصہ بيدار رہتے اور پرودگار كى عبادت ميں مشغول رہتے اور سال بھر كے آدھے ايام روزے ميں گزارتے_
نعمتوں كے لحاظ سے بھى اللہ تعالى نے آپ(ع) كوطرح طرح كى ظاہرى اور باطنى نعمتيں عطا كر ركھى تھيں_
خلاصہ يہ كہ حضرت داؤد عليہ السلام ايك ايسى شخصيت تھے كہ جنگ ميں،عبادت ميں،علم ميں اور حكومت ميں بہت قوى تھے اور انھيں فراواں نعمتيں حاصل تھيں_
قرآن مجيد اجمال كے بعد تفصيل كى اپنى خاص روش كے مطابق اب حضرت داؤد عليہ السلام پر نعمات الہى كى كچھ تفصيل بيان كرتا ہے_ ارشاد ہوتا ہے:''ہم نے اس كے لئے پہاڑ مسخر كرديئے،اس طرح سے كہ صبح و شام وہ اس كے ساتھ تسبيح خدا كرتے تھے''_(1)
''نہ صرف پہاڑ بلكہ سب پرندے بھى اس كے لئے مسخر كرديئے تا كہ ہميشہ اس كے ہمراہ اللہ كى تسبيح كريں''_(2)
''يہ سب پرندے اور پہاڑ حكم داؤدكے مطيع تھے،اس كے ساتھ ہم آواز تھے اور اس كى طرف بازگشت كرنے والے تھے''_(3)(4)
(1)سورہ ص، آيت 18
(2)سورہ ص، آيت 19
(3)سورہ ص، آيت 19
(4)مفسرين كى اس سلسلے ميں مختلف آراء ہيں كہ پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد عليہ السلام كے ساتھ كس طرح ہم آواز تھے اور اس كى كيفيت كيا تھي؟ ان آراء كا خلاصہ يہ ہے:
1_بعض كہتے ہے كہ حضرت داؤد عليہ السلام كى دلكش،جاذب اور دل گداز آواز تھى كہ جو پہاڑوں پر اثر انداز ہوتى تھى اور پرندوں كو اپنى طرف كھينچ ليتى تھي(ليكن يہ كوئي ايسى اہم فضيلت نہيں كہ قرآن اسے اس اہميت كے ساتھ ذكر كرے_)
2_بعض كہتے ہيںكہ يہ تسبيح ظاہرى آواز كے ساتھ ساتھ ايك طرح كے ادراك و شعور كے ہمراہ تھى كہ جو ذرات عالم كے باطن ميں ہے_اس نظريہ كے مطابق تمام موجودات عالم ايك قسم كى عقل اور شعور كے حامل ہيں اور جب يہ موجودات اس عظيم پيغمبر(ع) كى مناجات كے وقت دل انگيز آواز سنتے تھے توان كے ساتھ ہم آواز ہوجاتے اور يوں سب باہم ملكر تسبيح كرتے_
اگر چہ عالم كے تمام ذرات خداكا ذكر، تسبيح اور حمد كرتے ہيں_خواہ كوئي داؤد عليہ السلام ان كے ساتھ ہم صدا ہو يا نہ ہو،ليكن داؤد عليہ السلام كا امتياز يہ تھا كہ ان كے صدا بلند كرنے اور تسبيح كى نغمہ سرائي كے وقت ان موجودات كے اندر جو كچھ پوشيدہ تھا وہ آشكار و ظاہر ہو جاتا تھا اور اندرونى زمزمہ بيرونى نغمہ كے ساتھ تبديل ہو جاتا تھا،جيسا كہ پيغمبر اسلام(ص) كے ہاتھ پر''سنگريزہ''كى تسبيح كے بارے ميں بھى روايات آئي ہيں_
ايك روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ:
''داؤد(ع) ،دشت و بيابان كى طرف نكلے اور جس وقت آپ(ع) زبور كى تلاوت كرتے تو كوئي پہاڑ اور پتھر اور پرندہ ايسا نہ تھا كہ جو ان كے ساتھ ہم آواز نہ ہوتا ہو''_
قرآن اس معنوى فضيلت كا ذكر كرنے كے بعد ايك مادى فضيلت كا بيان شروع كرتے ہوئے كہتا ہے:''اور ہم نے اس كے لئے لوہے كو نرم كرديا_''
ہو سكتا ہے كہ يہ كہا جائے كہ يہ خدا نے داؤد(ع) كو معجزانہ طور پر لوہے كو نرم كرنے كا طريقہ سكھايا تھا: ''اس طرح سے كہ وہ اس سے زرہ بنانے كے لئے مضبوط و محكم اور پتلى پتلى نازك قسم كى كڑياں بنا سكيں''_(1)
2_بعض كہتے ہيںكہ يہ تسبيح ظاہرى آواز كے ساتھ ساتھ ايك طرح كے ادراك و شعور كے ہمراہ تھى كہ جو ذرات عالم كے باطن ميں ہے_اس نظريہ كے مطابق تمام موجودات عالم ايك قسم كى عقل اور شعور كے حامل ہيں اور جب يہ موجودات اس عظيم پيغمبر(ع) كى مناجات كے وقت دل انگيز آواز سنتے تھے توان كے ساتھ ہم آواز ہوجاتے اور يوں سب باہم ملكر تسبيح كرتے_
3_بعض نے اس احتمال كا ذكر بھى كيا ہے كہ يہ تسبيح تكوينى ہے كہ جو تمام موجودات زبان حال سے كرتے ہيں اور ان كا نظام خلقت اس امر كى بخوبى حكايت كرتا ہے كہ اللہ ہر عيب سے پاك و منزہ ہے اور علم و قدر او رہر قسم كى صفات كمال كا حامل ہے_
ليكن يہ بات حضرت داؤد عليہ السلام كے ساتھ مخصوص نہيں كہ اسے ان كى خصوصيات ميں سے شمار كيا جائے_اس لحاظ سے مناسب تر دوسرى تفسير ہے اور يہ امر قدرت الہى سے بعيد نہيںہے_يہ ايك زمزمہ تھا كہ جو ان موجودات عالم كے اندر اور ان كے باطن ميں ہميشہ سے جارى تھا ليكن خدا نے قوت اعجاز سے اسے حضرت داؤد عليہ السلام كے لئے ظاہر كيا جيسے پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ و سلم كى ہتھيلى پر سنگريزوں كا تسبيح كرنا مشہور ہے_
(1)سورہ ء سباء آيت 11
يا يہ كہا جائے كہ داؤد(ع) سے پہلے بھى جنگوں ميں دفاع كے لئے لوہے كى سليٹوں سے استفادہ ہوتا تھا،كہ جو بھارى بھى ہوتى تھيں،اور اگر انہيں پہنا جاتا تو وہ اتنى خشك اور بے لچك بھى ہوتى تھيں كہ جو جنگجو غازيوں كے لئے انتہائي پريشان كن ہوتى تھيں،كوئي بھى شخص اس زمانہ تك لوہے كى باريك اور مضبوط كڑيوں سے زرہ كى مانند كوئي ايسى چيز نہ بنا سكاتھا كہ جو لباس كى مانند آسانى كے ساتھ بدن پر آسكے اور بدن كى حركات كے ساتھ نرم اور رواں رہے_
قرآن كا ظاہر يہ ہے كہ لوہے كا داؤد(ع) كے ہاتھ ميں نرم ہونا،خدا كے حكم سے اورمعجزانہ صورت ميں انجام پذير ہوتا تھا_اس بات ميں كيا چيز مانع ہے كہ وہى ذات كہ جو بھٹى كو لوہا نرم كرنے كى خاصيت بخشى ہے،اسى خاصيت كو ايك دوسرى شكل ميں داؤد(ع) كے پنجوں ميں قرار دے دے،بعض اسلامى روايات ميں بھى اسى معنى كى طرف اشارہ ہوا ہے_ايك حديث ميں آيا ہے كہ خدا نے داؤد(ع) كى طرف وحى بھيجى كہ:
''تم ايك اچھے آدمى ہو،مگر تم بيت المال سے اپنى روزى حاصل كرتے ہو،داؤد(ع) چاليس دن تك روتے رہے،(اور خدا سے اس كے حل كى درخواست كي)تو خدا نے لوہے كو ان كے لئے نرم كرديا اور ہر روز ايك زرہ بناليتے تھےاور اس طرح سے وہ بيت المال سے بے نياز ہوگئے_''(1)
بہر حال داؤد(ع) اس توانائي كے ذريعہ ،كہ جو خدا نے انہيں دى تھي،بہترين طريق يعنى جہاد كا وسيلہ بنانے سے،ايسا وسيلہ جو دشمن سے حفاظت كرے_ استفادہ كرتے تھے،اور اس سے زندگى كے عام وسائل ميں ہر گز فائدہ نہ اٹھايا،اور عجب يہ كہ اس كى آمدنى سے بعض روايات كے مطابق_ اپنى ساددہ زندگى كى ضروريات پورا كرنے كے علاوہ كچھ نہ كچھ حاجت مندوں پر بھى خرچ كيا كرتے تھے،ان تمام باتوں كے علاوہ اس كا ايك فائدہ يہ تھا كہ وہ ان كا ايك بولتا ہوا معجزہ شمار ہوتا تھا_
(1)يہ ٹھيك ہے كہ بيت المال ايسے لوگوں پر خرچ كرنے كے لئے ہوتا ہے كہ جو معاشرے كى بغير عوض كے خدمت كرتے ہيں،اور ايسے اہم بوجھ اٹھاتے ہيں كہ جو پسماندہ ہوں،ليكن يہ بات زيادہ بہتر ہے كہ انسان كسى خدمت كو بھى انجام دے اور اپنے ہاتھ كى كمائي سے (توانائي كى صورت ميں)گذراوقات كرے اور داؤد(ع) يہ چاہتے تھے كہ وہ اسى قسم كے ممتاز بندے بنيں_''
قرآن ميں پہلے حضرت داؤد عليہ السلام كى خاص صفات بيان كى گئي تھيںاور ان پر اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كا ذكر تھا_اس كے بعد اب دادرسى اور قضاوت كے سلسلے ميں حضرت داؤد(ع) كو پيش آنے والے ايك واقعے كا تذكرہ _
پہلے پيغمبر اسلام (ص) سے خطاب كرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:''كيا داؤد كى ديوار محراب سے اوپر جانے والے شكايت كنندگان كا واقعہ تجھ تك پہنچا ہے''_(2)
بہر حال حضرت داؤد عليہ السلام كے ارد گرد اگر چہ بہت سے محافظين موجود تھے تا ہم دو آدمى ايك جھگڑے كے سلسلے ميں عام راستے سے ہٹ كر محراب اور ديوار قصر سے اوپر آئے اور اچانك آپ(ع) كے سامنے آدھمكے_
جيسا كہ قرآن حكيم اس گفتگو كو جارى ركھتے ہوئے كہتا ہے:
''وہ اچانك داؤد(ع) كے سامنے آنكلے(بغير كسى اطلاع كے اور بغير كسى اجازت كے)لہذا ان پر نظر پڑى تو داؤد (ع) وحشت زدہ ہوئے اور گھبرائے_''(3)
كيونكر انھيں خيال ہوا كہ ہوسكتا ہے ان لوگوں كا ان كے بارے ميں غلط ارادہ ہو''_
ليكن انھوں نے بہت جلد آپ (ع) كى پريشانى دور كرتے ہوئے كہا:
(1)قرآن ميں حضرت داؤد(ع) كے فيصلہ كرنے كے بارے ميں سادہ اور واضح گفتگو كى گئي ہے، اس ضمن ميں جو تحريفات اور غلط تعبيرات كى گئي ہيں ان كے باعث لا شعورى طور پر مفسرين كے درميان ايك بڑا نزاع پيدا ہوا ہے اس پر اس قدر شور و غوغا ہوا ہے كہ بعض مسلمان مفسرين بھى اس كى زدميں آگئے ہيں اور انھوں نے اس عظيم نبى كے بارے ميں غلط اور كہيں كہيں بہت ہى ناروا فيصلے كئے ہيں_ہم سب پہلے بغير كسى تشريح كے آيات قرآنى كا متن پيش كرتے ہيں_تا كہ قارئين خالى ذہن كے ساتھ آيات كا مفہوم سمجھ سكيں_
(2)سورہ ص، آيت 21
(3)سورہ ص آيت22
''ڈريں نہيں،ہم دونوں ايك شكايت لے كرآپ(ع) كے پاس آئے ہيں_ہم ميں سے ايك نے دوسرے پر زيادتى كى ہے _(1)اور ہم آپ(ع) كے پاس داد رسى كے لئے آئے ہيں_
''اب آپ(ع) ہمارے بارے ميں حق كے ساتھ فيصلہ كريں اور ظلم روانہ ركھيں اور راہ راست كى طرف ہمارى ہدايت كريں_(2)
واضح رہے كہ اس مقام پر حضرت داؤد عليہ السلام كو زيادہ موقع نہ ديا_ ايك نے شكايت كرنے ميں پہل كي،كہنے لگا:''يہ ميرا بھائي ہے،اس كے پاس ننانوے بھيڑيں ہيں اور ميرے پاس ايك سے زيادہ نہيں،ليكن يہ اصرار كرتا ہے كہ يہ ايك بھى مجھے ديدے،گفتگو ميں يہ مجھ پر بھارى ہے اور مجھ سے زيادہ باتونى ہے''_(3)
حضرت داؤد عليہ السلام نے دوسرے فريق كى بات سنے بغير شكايت كرنے والے سے كہا:''اپنى بھيڑوں ميں تيرى بھيڑكا اضافہ كرنے كے لئے اس نے تقاضا كر كے ظلم روا ركھا ہے''_(4)
بہر حال يوں لگتا ہے كہ طرفين يہ بات سن كر مطمئن ہوگئے اور حضرت داؤد عليہ السلام كے يہاں سے چلے گئے_ليكن داؤد عليہ السلام سوچ ميں پڑگئے_ انھوں نے فيصلہ تو عدل كى بنياد پر كيا تھا كيونكہ اگر فريق ثانى كو مدعى كا دعوى قبول نہ ہوتا تو يقينا وہ اعتراض كرتا ہے_اس كا سكوت اس امر كے لئے بہترين دليل تھا كہ معاملہ وہى ہے جو شكايت كرنے والے نے پيش كيا ہے ليكن ان سب امور كے باوجود عدالتى اقدار كا تقاضا تھا كہ داؤد عليہ السلام اپنى بات ميں جلدى نہ كرتے بلكہ فريق ثانى سے بھى شخصاً سوال كرتے اور پھر فيصلہ سناتے_ لہذا اس كام پر وہ خود پشيمان ہوئے ،اور داؤد(ع) نے گمان كيا كہ اس واقعے كے ذريعے ،ہم نے اس كاامتحان ليا ہے_
(1)سورہ ص، آيت22
(2)سورہ ص، آيت22
(3)سورہ ص، آيت23
(4)سورہ ص، آيت24
''اس نے استغفار كي،اپنے رب سے طلب بخشش كي،سجدے ميں گرگيا اور توبہ كي''_(1)
بہر حال اللہ نے ان پر اپنا لطف و كرم كيا اور اس ترك اولى ميں ان كى لغزش كو معاف كرديا_ جيسا كہ بعد كى ابحاث ميں قرآن كہتا ہے:
''ہم نے اس كے عمل كو بخش ديا،اور وہ ہمارے نزديك عالى مقام او رنيك مستقبل كا حامل ہے''_(2)
قرآن مجيد سے جو كچھ معلوم ہوتا وہ اس سے زيادہ نہيں كہ كچھ افراد داد خواہى كے لئے حضرت داؤد عليہ السلام كى محراب سے اوپر چڑھ كر آپ كى خدمت ميں پہنچے_پہلے تو آپ گھبر گئے_ پھر شكايت كرنے والے كى بات سني_ان ميں سے ايك كے پاس ننانوے بھيڑيں تھيں،دوسرے كے پاس صرف ايك بھيڑ تھي،ننانوے بھيڑوں والا اپنے بھائي پر زور دے رہا تھا كہ وہ ايك بھيڑ بھى اسے دےدے_ آپ(ع) نے شكايت كرنے والے كو سچا قرار ديا اور دوسرے كے اصرار كو ظلم قرار ديا_ پھر اپنے كام پر پشيمان ہوئے اور اللہ سے معافى كا تقاضا كيا_خدا نے آپ(ع) كو بخش ديا_
يہاں دو تعبير زيادہ غور طلب ہيں_ ايك آزمائشے اور دوسرى استغفار اور توبہ_ اس سلسلے ميں قرآن نے كسى واضح امر كى نشاندہى نہيں كي_ليكن قرآن ميں غور و فكر اور ان آيات كى تفسير كے سلسلے ميں منقول روايات ميں موجود قرائن سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت داؤدعليہ السلام قضاوت ميں بہت زيادہ علم و مہارت ركھتے تھے اور اللہ تعالى چاہتا تھا كہ آپ(ع) كو آزمائے لہذا آپ(ع) كو ايسے غير معمولى حالات پيش آئے_(مثلاًان آدميوں كا عام راستے سے ہٹ كر محراب كے اوپر سے آپ(ع) كے پاس آپہنچا) آپ(ع) نے جلد باز ى كى اور اس سے پہلے كہ فريق ثانى سے وضاحت طلب كرتے آپ(ع) نے فيصلہ سناديا اگرچہ فيصلہ عادلانہ تھا_
(1)سورہ ص، آيت 24
(2)سورہ ص، آيت 25
اگر چہ آپ(ع) بہت جلد اپنى اس لغزش كى طرف متوجہ ہوگئے اور وقت گزرنے سے پہلے اس كى تلافى كي_ليكن بہر حال جو كام آپ(ع) سے سرزد ہوا تھا وہ نبوت كے مقام بلند كے شايان شان نہ تھا_اس لئے آپ(ع) نے ترك اولى پر استغفار كى اور اللہ نے بھى انہيں عفو و بخشش سے نوازا_
مذكورہ تفسير كى شاہد وہ قرآنى اشارہ ہے جو زير بحث قرآنى گفتگو كے فوراً بعد آئي ہے_اس ميں حضرت داؤد عليہ السلام سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا گياہے:''ہم نے تجھے زمين پر اپنا خليفہ قرار ديا ہے،لہذا لوگوں كے درميان حق و عدالت كے مطابق فيصلہ كر اور ہوا و ہوس كى پيروى نہ كر''_
اس سے واضح ہوتا ہے كہ حضرت داؤد عليہ السلام كى لغزش فيصلے كے طريقے ميں تھي_ لہذااس ميں كوئي ايسى چيز نہيں ہے چو اس عظيم نبي(ع) كى شان اور مقام كے خلاف ہو_(1)
(1)موجودہ توريت كى خرافاتى داستان
اب ہم توريت كى طرف رجوع كرتے ہيں تاكہ ديكھيں كہ وہ اس سلسلے ميں كيا كہتى ہے:
نيز بعض ناآگاہ اور بے خبر افراد نے جو تفسيريں كى ہيں،ان كى اصل خبر بھى تلاش كرتے ہيں_
توريت كى دوسرى كتاب اشموئيل كى فصل11 /ميں جملہ 2 تا 27 ميں يوں بيا ن كيا گيا ہے:
اس داستان كا خلاصہ كچھ يوں ہے كہ ايك روز داؤد(ع) اپنے محل كى چھت پر جاتے ہيں_ساتھ والے گھر ميں ان كى نظر پڑتى ہے تو انھيں ايك عورت غسل كرتے ہوئے برہنہ دكھائي ديتى ہے_وہ اس كے عشق ميں مبتلا ہو جاتے ہيں_پھر جيسے بن پڑتا ہے اسے اپنے گھر لے آتے ہيںاور وہ داؤد(ع) سے حاملہ ہو جاتى ہے_ اس عورت كا شوہر لشكر داؤد(ع) كا ايك اہم افسر تھا_وہ ايك پاك طينت اور باصفا شخص تھا_ داؤد(ع) (نعوذ باللہ) ايك بزدلانہ سازش كے ذريعے اسے ايك خطر ناك جنگ ميں بھجوا كر قتل كرواديتے ہيں اور پھر اس كى بيوى كو قانونى طور پر اپنے نكاح ميں لے آتے ہيں_
اب آپ داستان كا باقى حصہ موجودہ توريت كى زبانى سنيں_ اسى كتاب دوم اشموئيل(ع) كى 12ويں فصل ميں ہے_
خداوند نے'' ناثان''(جو بنى اسرائيل كے ايك نبى اور جناب داؤد(ع) كے مشاور تھے) كو داؤد(ع) كے پاس بھيجا اور كہا:
ايك شہر ميں دو آدمى رہتے تھے_ايك امير تھا دوسرا غريب، امير آدمى كے پاس بہت سى بھيڑيں اور گائيں تھيں_ غريب كے پاس بھيڑ كے ايك بچے كے سوا كچھ نہ تھا_ ايك روز ايك مسافر امير آدمى كے يہاں آيا_ اس نے اپنى بھيڑوں ميں -->
<-- سے مہمان كے لئے غذا تيار كرنے ميں پس و پيش كيا_ غريب كا بھيڑ كا بچہ لے كر اسے ذبح كرديا_
اب كيا ہونا تھا،داؤد(ع) انتہائي غصے ہوئے_ناثان سے كہنے لگے: ''بخدا جس نے يہ كام كيا وہ قتل كا مستحق ہے،اسے ايك بھيڑ كى جگہ پر چار بھيڑيں دينى چاہئيں_ ليكن ناثان نے داؤد(ع) سے كہا:
''وہ شخص تو ہے_''
داؤد(ع) اپنے غلط كام كى طرف متوجہ ہوئے اور توبہ كى اور اللہ نے ان كى توبہ قبول كى ليكن اس كے باوجود ان پر بھارى مصيبتيں آئيں_
اس مقام پر توريت ميں ايسى عبارت ہے جس كے ذكر سے قلم كو شرم آتى ہے لہذا ہم اس سے صرف نظر كرتے ہيں_ توريت كى داستان كے اس حصے ميں بعض نكات خصوصت كے ساتھ قابل غور ہيں،مثلاً:
1_حضرت داؤد(ع) كے پاس كوئي شخص قضاوت كے لئے نہيں آيا،بلكہ ان كے ايك مشير جو نبى تھے انھوں نے نصيحت كے طور پر ان سے ايك داستا ن بيان كي_اس ميں دوبھائيوں كا واقعہ اور ان ميں سے ايك كا دوسرے سے تقاضا كرنا مذكور نہيں ہے بلكہ ايك امير اور ايك غريب آدمى كا ذكر ہے جن ميں سے ايك كے پاس بہت سى بھيڑيں اور گائيں تھيں جبكہ دوسرے كے پاس بھيڑ كا صرف ايك بچہ تھا ليكن امير آدمى نے اپنے مہمان كے لئے غريب آدمى كى بھيڑ كا بچہ ذبح كرديا_ اس واقعے ميں نہ محراب كى ديوار سے اوپر جانے كا ذكر ہے،نہ آپ(ع) كے وحشت زدہ ہوجانے كى بات ہے،نہ دو بھائيوں كے دعوے كا معاملہ ہے اور نہ ہى توبہ و بخشش كى درخواست كا بيان ہے_
2_داؤد(ع) نے اس ظالم امير شخص كو قتل كا مستحق سمجھا_ سوال پيدا ہوتا ہے كہ ايك بھيڑ كے لئے آخر قتل كيوں؟
3_ساتھ ہى انھوں نے اس حكم كے خلاف حكم صادر كيا اور كہا كہ ايك بھيڑ كے بدلے اسے چار بھيڑيں دينى چاہئيں، آخر كس بناء پر؟
4_داؤد(ع) نے ''اوريّا'' كى بيوى كے بارے ميں خيانت سے متعلق اپنے گناہ كا اعتراف كيا_
5_خدا نے انھيں معاف كرديا(اتنى آسانى سے،كس بناء پر؟)_
6_اللہ نے داؤد(ع) كے بارے ميں عجيب و غريب سزا كا فيصلہ كيا كہ جسے نقل نہ كرنا بہتر ہے_
7_يہى عورت ايسے''روشن ماضي'' كے باوجود سليمان(ع) كى ماں بني_ -->
<-- ان داستانوں كاذكر واقعاً تكليف دہ ہے ليكن كيا كيا جاسكتا ہے كہ بعض جاہل افراد نے نادانى سے ان اسرائيلى روايات كے زير اثر قرآن مجيد كى پاك و پاكيزہ آيات كا چہرہ سياہ كرديا ہے اور ايسى باتيں كہى ہيں كہ حق كو واضح كرنے كے لئے اس رسوا داستان كا كچھ حصہ ذكركيے بغير كوئي چارہ نہ تھا_
اب ہم سوال كرتے ہيں:
1_وہ نبى كہ قرآن ميں اللہ نے جس كے دس عظيم اوصاف بيان كئے ہيں اور پيغمبر اسلام(ص) كو جس كى سرگزشت سے ہدايت حاصل كرنے كى طرف توجہ دلائي ہے،كيا ممكن ہے كہ ان تہمتوں كے ہزارويں حصے كى بھى اس كى طرف نسبت دى جاسكے؟
2_قرآن مجيد بعد كى آيات ميں كہتا ہے :
'' يا داود انا جعلناك خليفة فى الارض''
اے داؤد(ع) ہم نے تجھے زمين ميں اپنا خليفہ اور نمائندہ بنايا_
كيا يہ آيت مذكورہ خرافات سے ہم آہنگ ہے؟
3_اگر كوئي عام شخص ہو،خداكا نبى نہ ہو اور وہ اس قسم كے جرم كا مرتكب ہو،اپنے وفادار پاك طينت با ايمان افسر كى بيوى كو ايسے گھٹيا طريقے سے اس كے ہاتھوں سے كھسكالے تو لوگ اس كے بارے ميں كيا فيصلہ كريں گے اور اس كى سزا كيا ہوگي؟ يہاں تك كہ اگر يہ كام افسق الفاسقين سے سرزد ہو تب بھى جائے تعجب ہے_
يہ صحيح ہے كہ توريت نے حضرت داؤد(ع) كو پيغمبر قرار دنہيں ديا تاہم ان كا ذكرايك بلند مرتبہ عادل حكمران كے طور پر كيا ہے،كہ جو بنى اسرائيل كے عظيم عبادت خانے كا مو سس تھا_
4_يہ بات قابل توجہ ہے كہ توريت كى مشہور كتب ميں سے ايك ''مزامير داؤد(ع) ''ہے جس ميں حضرت داؤد(ع) كى مناجات ہيں_كيا ايسے شخص كى مناجات اور باتيں كتب آسمانى كا حصہ قراردى جاسكتى ہيں؟
5_جو شخص تھوڑى سى عقل بھى ركھتا ہے وہ جانتا ہے كہ موجودہ تحريف شدہ توريت كى داستانيں خرافات كا ايسا مجموعہ ہيں جو مكتب انبيائ(ع) كے دشمنوں يا بہت ہى بے شعور اور جاہل افراد كى ساختہ و پرداختہ ہيں_ لہذا انھيں كس طرح بحث كى بنياد قرار ديا جاسكتا ہے؟
جى ہاںقرآن كى يہ عظمت ہے كہ وہ ايسى خرافات سے بالكل پاك ہے_
اسلامى روايات ميں توريت كى بيان كردہ قبيح اور بے ہودہ داستان كى نہايت سختى سے تكذيب كى گئي ہے_ ان ميں -->
<-- سے ايك روايت اميرالمو منين على عليہ السلام سے منقول ہے_ آپ(ع) نے فرمايا:
''اگر كسى ايسے شخص كو ميرے پاس لايا جائے كہ جو يہ كہے كہ داؤد(ع) نے ''اوريّا'' كى بيوى سے شادى كي،تو ميں اس پر دوحديں جارى كروں گا ايك حد نبوت كے لئے اوردوسرى اسلام كے لئے''_
كيونكہ اس ميں ايك طرف تو ايك مرد مو من كى طرف ايك غيرشرعى امر كى نسبت ہے اور دوسرى طرف مقام نبوت كى ہتك حرمت ہے_لہذا ايسى بات كرنے والے پر دو مرتبہ حد قذف جارى ہونى چايئےوراسے دو مرتبہ اَسّى (80)كوڑے لگائے جانے چاہئيں_
جب امام رضا عليہ السلام سے ''اوريّا''كے بارے ميں سوال كيا گيا تو آپ(ع) نے فرمايا :
''حضرت داؤد(ع) كے زمانے ميں جن عورتوں كے شوہر مرجاتے يا قتل ہوجاتے وہ پھر كبھى شادى نہ كرتى تھيں (اور يہ امر بہت سى برائيوں اور قباحتوں كى بنياد تھا)حضرت داؤد(ع) وہ پہلے شخص تھے جن پر اللہ نے اس كام كو مباح قرار ديا(تاكہ يہ رسم ختم ہوجائے اور بيوہ عورتيں اس مصيبت سے نجات پائيں)لہذا جب اوريّا(اتفاق سے ايك جنگ ميں)مارا گيا تو داؤد(ع) نے ان كى بيوى سے شادى كرلي،اور يہ امر اس زمانے كے لوگوں پر بہت گراں گزرا(اور بعد ازاں اس پر انھوں نے افسانے گھڑلئے)''
اس حديث سے معلوم ہوتاہے كہ مسئلہ'' اوريّا'' كى ايك ساد ہ سى حقيقت كى بنيادپر تھي_ حضرت داؤد(ع) نے ايك كام الہى ذمہ دارى كے طور پر انجام ديا تھا_ليكن دانا دشمنوں،نادان دوستوں اور افسانہ پرازوں نے كہ جنھيں عجيب وغريب باتيں بنانے اور جھوٹ گھڑنے كى عادت تھى اس واقعے پر خوب حاشيہ آرائي كى اور ايسى ايسى باتيں بنائي كہ انسان كو وحشت ہوتى ہے_
كسى نے كہا:اس شادى كى كچھ نہ كچھ بنياد تو ضرور ہے_
دوسرے نے كہا:ضرورى بات ہے كہ'' اوريّا''كا گھر داؤد(ع) كى ہمسائيگى ميں ہوگا_
آخر كسى نے داؤد(ع) كى نظريں اوريّاہ كى بيوى پر ڈلوائيں،پرندے كا قصہ گھڑا_
آخر كار اس عظيم پيغمبر كو طرح طرح كے شرمناك گناہان كبيرہ سے متہم كيا گيا_ پھر بے وقوف جاہلوں نے ايك زبان سے دوسرى زبان تك پہنچايا اور اگر اس افسانے كا ذكر مشہور كتب ميں نہ ہوتا تو ہم بھى اسے نقل كرنا غلط سمجھتے_
* * * * *