حضرت اشموئيل

خدائے بزرگ و برتر نے ايك عبرتناك واقعہ كى طرف نشاندہى كى ہے كہ جس ميں بنى اسرائيل كے ايك گروہ كى سر گذشت بيان كى گئي ہے جو حضرت موسى عليہ السلام كے بعد وقوع پذير ہوئي_

''قوم يہود'' فرعون كے زير اثر رہ كر بنى اسرائيل كمزور و ناتواں ہو چكى تھي_حضرت موسى عليہ السلام كى دانشمندانہ رہبرى كے نتيجے ميں انہيں اس افسوسناك حالت سے نجات ملى اور انہوں نے قدرت و عظمت حاصل كرلي_

اس پيغمبر (ص) كى بركت سے خداوندعالم نے انہيں بہت سى نعمات سے نوازا_ان نعمات ميں سے ايك صندوق عہد بھى تھا،يہودى اپنے لشكر كے آگے اسے اٹھائے ركھتے تھے_اس سے ان ميں ايك طرح كا سكون قلب اور روحانى طاقت پيدا ہوتى تھي_

بنى اسرائيل كو يہ قدرت و عظمت حضرت موسى عليہ السلام كے بعد ايك مدت تك حاصل رہى ليكن يہى كاميابياں اور نعمتيں رفتہ رفتہ ان كے غرور و تكبر كا باعث بن گئيں اور وہ قانون شكنى كرنے لگے_اس كے نتيجے ميں انہيں فلسطينيوں كے ہاتھوں شكست اٹھانا پڑي،وہ اپنى قدرت و عظمت كھو بيٹھے اور صندوق عہد بھى ہاتھ سے گنوا بيٹھے، پھر اس قدر پراگندگى اور اختلاف كا شكار ہوئے كہ چھوٹے سے چھوٹے دشمنوں سے بھى دفاع كے قابل نہ رہے_ يہاں تك كہ دشمنوں نے ان كے بہت سے لوگوں كو ان كى سر زمين سے نكال ديا اور ان كى اولاد كو غلام اور قيدى بناليا_

كئي برس تك يہ كيفيت رہى يہاں تك كہ خداوندعالم نے ان كى نجات اور ارشاد و ہدايت كے لئے حضرت اشموئيل(ع) كو پيغمبر بنا كر مبعوث فرمايا_

بنى اسرائيل بھى دشمنوں كے ظلم و جور سے تنگ آچكے تھے اور كسى پناہ گاہ كى تلاش ميں تھے لہذا ان كے گرد جمع ہوگئے اور ان سے خواہش كى كہ وہ ان كے لئے رہبر اور امير مقرر كرديں تا كہ وہ اس كى قيادت ميں ہم آواز اور ايك جان ہوكر دشمن سے جنگ كريں اورعزت رفتہ بحال ہو سكے_

اشموئيل(ع) ان كى اندرونى كيفيات اور سست ہمتى سے پورى طرح واقف تھے_انہوں نے كہا:

''مجھے ڈر ہے كہ جب جہاد كا حكم آئے تو تم كہيں امير و رہبر كے حكم سے روگردانى نہ كرو اور دشمن سے مقابلے اور جنگ سے پہلو تہى نہ كرو''_

وہ كہنے لگے:

''يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ہم امير كے حكم سے منہ پھير ليںاور اپنى ذمہ دارى نبھانے سے دريغ كريں حالانكہ دشمن ہميں ہمارے وطن سے نكال چكا ہے، ہمارى زمينوں پر قبضہ كر چكا ہے اور ہمارى اولاد كو قيدى بناچكاہے''_

حضرت اشموئيل (ع) نے ديكھا كہ وہ اپنى بيمارى كى تشخيص كر چكے ہيں اور اب انہيں ايك طبيب كى ضرورت ہے_ گويا وہ اپنى پسماندگى كے راز سے واقف ہو چكے ہيں_ اس پر حضرت اشموئيل نے بارگاہ الہى كا رخ كيا اور قوم كى خواہش كو اس كے حضور پيش كيا،وحى ہوئي:

''ميں نے طالوت كو ان كى سر براہى كے لئے منتخب كيا ہے_''

حضرت اشموئيل (ع) نے عرض كيا:

خداوندا ميں نے ابھى تك طالوت كو ديكھا ہے نہ اسے پہچانتا ہوں _

ارشاد ہوا: ''ہم اسے تمہارى طرف بھيجيں گے_جب وہ تمہارے پاس آئے تو فوج كى كمان اس كے حوالے كردينا اور علم جہاد اس كے ہاتھ ميں دے دينا''_

طالوت كو ن تھے؟

طالوت ايك بلند قامت اور خوبصورت مرد تھے_ وہ مضبوط اور قوى اعصاب كے مالك تھے_روحانى طور پر بھى بہت زيرك،دانشمند اورصاحب تدبير تھے_بعض لوگوں نے ان كے نام''طالوت''كو بھى ان كے طولانى قد كا سبب قرار ديا ہے_

ان تمام صفات كے باوجود وہ مشہور نہيں تھے_ اپنے والد كے ساتھ درياكے كنارے ايك بستى ميں رہتے تھے_والد كے چوپايوں كو چراتے اور زراعت كرتے تھے_ايك دن كچھ جانور بيابان ميں گم ہوگئے_طالوت اپنے ايك دوست كے ساتھ ان كى تلاش ميں كئي دن تك سرگرداں رہے_ انہيں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ شہر''صوف''كے قريب پہنچ گئے_

ان كے دوست نے كہا:''ہم تو اشموئيل (ع) كے شہر صوف ميں آپہنچے ہيں_ آيئےن كے پاس چلتے ہيں_ شايد وحى كے سائے ميں اور ان كى رائے كى روشنى ميں ہميں كچھ پتہ چل سكے_

شہر ميں داخل ہوئے تو حضرت اشموئيل (ع) سے ملاقات ہوگئي_ جب اشموئيل (ع) اور طالوت نے ايك دوسرے كو ديكھا تو گويا دل مل گئے_اشموئيل (ع) نے اسى لمحے طالوت كو پہچان ليا_وہ جان گئے كہ يہ وہى نوجوان ہے جسے خدا نے ان لوگوں كى قيادت كے لئے منتخب كيا ہے_

طالوت نے اپنى كہانى سنائي تو اشموئيل (ع) كہنے لگے:وہ چوپائے تو اس وقت تمہارى بستى كى راہ پر ہيں اور تمہارے باپ كے باغ كى طرف جارہے ہيں_ ان كے بارے ميں فكرنہ كرو_ ميں تمہيں اس سے كہيں بڑے كام كے لئے دعوت ديتا ہوں_خدا نے تمہيں بنى اسرائيل كى نجات كے لئے مامور كيا ہے_

طالوت پہلے تو اس پروگرام پر حيران ہوئے اور پھر اسے سعادت سمجھتے ہوئے قبول كرليا_ اشموئيل (ع) نے اپنى قوم سے كہا:

خدا نے طالوت كو تمہارى قيادت سوپى ہے لہذا ضرورى ہے كہ تم سب اس كى پيروى كرو_اب اپنے

تئيں دشمن سے مقابلے كے لئے تيار ى كرلو_

بنى اسرائيل كے نزديك تو حسب و نسب اور ثروت كے حوالے سے كئي خصوصيات فرمانروا كے لئے ضرورى تھيں اور ان ميں سے كوئي چيز بھى طالوت ميں دكھائي نہ ديتى تھى اس انتخاب و تقرر پر وہ بہت حيران و پريشان ہوگئے_

انہوں نے ديكھا كہ ان كے عقيدے كے برخلاف وہ نہ تو ''لاوي'' كى اولاد ميں سے تھے جن ميں سے نبى ہوتے تھے_ نہ يوسف اور يہود ا كے خاندان سے تھے جو گذشتہ زمانے ميں حكمرانى كرتے تھے بلكہ ان كا تعلق تو بنيامين كے گمنام خاندان سے تھا اور پھر وہ مالى طور پر بھى تہى دست تھے_

انہوں نے اعتراض كيا:''وہ كيسے حكومت كرسكتا ہے جب كہ ہم اس سے زيادہ حقدار ہيں''_

اشموئيل (ع) كہتے تھے كہ يہ بہت اشتباہ كررہے ہيں،كہنے لگے:''انہيں خدانے تم پر امير مقرر كيا ہے، نيز قيادت كے لئے ان كى اہليت اور لياقت كى دليل يہ ہے كہ وہ جسمانى طور پر زيادہ طاقتور ہيں اور روحانى طاقت ميں بھى سب سے بڑھ كر ہيں_اس لحاظ سے وہ تم سب پر بر ترى ركھتے ہيں_

بنى اسرائيل نے خدا كى طرف سے اس كے تقرر كے لئے كسى نشانى يا علامت كا مطالبہ كرديا_اس پر اشموئيل (ع) بولے: انبياء بنى اسرائيل كى يادگار;تابوت(صندوق عہد)جوجنگ ميں تمہارے لئے اطمينان اور ولولے كا باعث تھا تمہارے پاس لوٹ آئے گا او راسے تمہارے آگے آگے چند فرشتوں نے اٹھا ركھا ہوگا''_

تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ صندوق عہد ان كے سامنے آگيا_ يہ نشانى ديكھ كر انہوں نے طالوت كى سر براہى قبول كرلي_

طالوت نے ملك كى باگ ڈور سنبھال لي

طالوت نے لشكر كى قيادت كا بيڑا اٹھايا_ انہوں نے تھوڑى ہى مدت ميں امور سلطنت كى انجام دہى اور فوج كى تنظيم نو كے سلسلے ميں اپنى صلاحيتوں كا لوہا منواليا_ پھر آپ نے فوج كو دشمن سے مقابلے كى دعوت دي_ دشمن نے ان كى ہر چيز كو خطرے سے دوچار كر ركھا تھا_

طالوت نے تاكيد كرتے ہوئے كہا: ''ميرے ساتھ وہ لوگ چليں جن كى سارى توجہ جہاد پر مركوز رہ سكے_ جن كى صحت ناقص ہو اور جو درميان ہى ميں ہمت ہار بيٹھنے والے ہوں،اس جنگ ميں شركت نہ كريں''_

بہت جلد ظاہراًايك كثير تعداداور طاقتور فوج جمع ہوگئي اور وہ دشمن كى طرف چل پڑے_

سورج كى تپش تھي_ گرمى ميں چلتے چلتے انہيں سخت پياس لگ گئي_ طالوت خدا كے حكم سے انہيں آزماناچاہتے تھے اوران كى تطہير بھى كرنا چاہتے تھے_ انہوں نے كہا:''جلد تمہارے راستے ميں ايك نہر آئے گي_ اس كے ذريعے خدا تمہارا امتحان لے گا_جو لوگ اس ميں سے سير ہوكر پانى پئيں گے ان كا مجھ سے كوئي تعلق نہيں البتہ جو تھوڑا سا پانى پئيں گے وہ ميرے ساتھى ہيں''_

ان كى نظر نہر پر پڑى تو وہ بہت خوش ہوئے_جلدى سے وہاں پہنچے_خوب سير ہوكر پانى پيا _تھوڑے سے فوجى اپنے عہد وپيمان پر قائم رہے_

طالوت نے اپنى فوج كو چھانٹا

طالوت نے ديكھا كہ ان كى فوج كى اكثريت بے ارادہ اور كمزور عہد و پيمان كى حامل ہے اور اس ميں تھوڑے سے صاحب ايمان افراد موجود ہيں_انہوں نے بے قاعدہ اور نافرمان اكثريت كو چھوڑ ديا اور انہى كم تعداد صاحب ايمان كو ساتھ ليا اور شہر سے گزر كر ميدان جہاد كى طرف پيش قدمى جارى ركھي_

طالوت كى فوج نے اپنى كم تعداد ديكھى تو پريشان اور وحشت زدہ ہوئي_فوجيوں نے ان سے كہا:''ہم ميں تو اس طاقتور فوج كا مقابلہ كرنے كى سكت نہيں ہے_ ليكن كچھ ايسے بھى تھے جن كا دل خدا كى محبت سے معمور تھا وہ دشمن كى فوجى كثرت و قوت اور اپنى تھوڑى تعداد پر ہراساں نہ ہوئے اور كمال شجاعت سے طالوت سے كہنے لگے:آپ جو مصلحت سمجھتے ہيں حكم ديجيے_ہم ہر مقام پر آپ كا ساتھ ديں گے اور انشاء اللہ كم تعداد كے باوجود دشمن سے جہاد كريں گے كيونكہ يہ تو كئي مرتبہ ہوچكا ہے كہ كم تعداد خدا كے ارادہ و مشيت كے

سہارے كثير تعداد پر غالب آئي ہے اور خدا استقامت و پامردى دكھانے والوں كے ساتھ ہے''_

دائود نے جالوت كو مار ڈالا

طالوت ان كم تعداد اہل ايمان مجاہدين كے ساتھ آمادہ كارزار ہوئے _ ان لوگوں نے درگاہ الہى سے شكيبائي اور كاميابى كى دعا كي_

جنگ كى آگ بھڑك اٹھي_جالوت اپنا لشكر لے كر باہر نكلا_لشكروں كے مابين مبارز طلبى ہوئي_اس كى بارعب پكار نے دلوں كو لرزا ديا_ ميدان ميں جانے كى جرا ت كسى ميں نہ رہي_ دائود ايك كم سن نوجوان تھا_ شايد وہ جنگ كے لئے بھى ميدان ميں نہ آيا تھا بلكہ اپنے جنگجو بڑے بھائيوں اور باپ كى خدمت كے لئے چلا آيا تھا ليكن چالاك و چوبند اور قوى تھا_ ''خلد خن'' اس كے ہاتھ ميں تھى اس كے ذريعے اس نے پتھر ايسے ماہرانہ انداز ميں پھينكے كہ ٹھيك جالوت كى پيشانى اور سر ميں پيوست ہوگئے_ اس كے سپاہيوں پر وحشت اور تعجب كا عالم طارى تھا_وہ ان كے درميان گرا اور مرگيا_جالوت كى موت سے اس كى فوج ميں عجيب خوف و ہراس پيدا ہو گيا_ جالوت كا لشكر بھاگ كھڑا ہوا اور بنى اسرائيل كامياب ہوگئے_

تابوت كيا ہے؟

''تابوت''كا لغوى معنى ہے وہ صندوق جسے لكڑى سے بنايا جائے_جنازے كے صندوق كو بھى اسى لئے تابوت كہتے ہيں_ ليكن تابوت مردوں سے مخصوص نہيں بلكہ ہر قسم كے لكڑى كے صندوق كے لئے مستعمل ہے_

بنى اسرائيل كا تابوت يا صندوق عہد كيا تھا،وہ كس كے ہاتھ سے بنا تھااوراس ميں كيا چيز يں موجود تھيں_اس سلسلے ميں ہمارى روايات و تفاسير ميں اوراسى طرح''عہد قديم''(توريت)ميں بہت كچھ كہا گيا ہے،سب سے زيادہ واضح چيز جو احاديث اہل بيت(ع) اور بعض مفسرين مثلاًابن عباس سے منقول ہے يہ كہ يہ'' تابوت'' وہى صندوق تھا جس ميں حضرت موسى عليہ السلام كى والدہ نے انہيں لپٹاكر دريا ميں پھينكا تھا_ فرعون

كے كارندوں نے اسے درياميں سے پكڑ ليا_ حضرت موسى عليہ السلام كو اس ميں سے نكال لياگيااور صندوق جوں كا توں فرعون كے پاس محفوظ كرليا گيا_بعد ازاں وہ بنى اسرائيل كے ہاتھ آيا تو وہ اس عجيب صندوق كو محترم شماركرنے لگے اور اسے متبرك سمجھنے لگے''_

حضرت موسى عليہ السلام نے اپنى زندگى كے آخرى دنو ںميں وہ الواح مقدسہ جن پراحكام خدا لكھے ہوئے تھے اس ميں ركھ ديں_ نيز اپنى زرہ اور دوسرى يادگار چيزوں كا بھى اس ميں اضافہ كرديا_صندوق آپ(ع) نے اپنے وصى حضرت ''يوشع(ع) بن نوع'' كے سپرد كرديا_يوں صندوق كى اہميت بنى اسرائيل كى نگاہ ميں اور بڑھ گئي_لہذا وہ دشمنوں كے ساتھ جنگوں ميں اسے ہمراہ لے جاتے اور اس كا ان پر نفسياتى اور روحانى طور پر بہت اثر ہوتا_اسى لئے كہا جاتا ہے كہ جب تك وہ دل انگيز صندوق ان مقدس چيزوں كے سميت ان كے ساتھ رہا وہ سر بلند رہے اور آبرومندانہ زندگى بسر كرتے رہے ليكن رفتہ رفتہ ان كى دينى بنياديں كمزور پڑگئيں اور دشمن ان پر غلبہ حاصل كرتے رہے_ وہ صندوق بھى ان سے چھن گيا_

جيسا كہ قرآن كہتاہے:''صندوق عہد تمہارى طرف آئے گا _(وہى صندوق كہ)جس ميں آل موسى اور آل ہارون كى يادگاريں ہيں جب كہ فرشتوں نے اسے اٹھاركھا ہوگا''_اس سے معلوم ہوتا ہے كہ ''صندوق عہد وہ ايسے تبركات تھے جو حوادث كے موقع پر بنى اسرائيل كے لئے اطمينان بخش تھے اور معنوى و نفسياتى اثرات كے حامل تھے_دوسرى بات يہ ہے كہ بعد ازاں حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت ہارون عليہ السلام كے خاندان كى كچھ يادگاريں بھى اس ميں ركھ دى گئي تھيں''_(1)

حضرت اشموئيل (ع) نے بنى اسرائيل كو يہ بات دل نشين كرائي كہ صندوق عہد دوبارہ انہيں مل جائے گا اور جو سكون اور اطمينان وہ كھو بيٹھے ہيں دوبارہ حاصل كرليں گے_معنوى و تاريخى پہلو كے حامل اس صندوق كى اہميت در اصل بنى اسرائيل كے لئے ايك پرچم اور شعار سے بڑھ كر تھي_ اسے ديكھ كے ان كى نظروں ميں اپنى عظمت رفتہ كى ياد تازہ ہو جاتى تھي_


(1)سورہ بقر آيت248

حضرت اشموئيل (ع) نے خبر دى كہ وہ صندوق لوٹ آئے گافطرى امر ہے كہ يہ بنى اسرائيل كے لئے ايك بہت بڑى بشارت تھي_

فرشتے صندوق عہد كيسے لائے؟

جيسا كہ قرآن ميں بيان ہوا ہے كہ ''فرشتے اس صندوق كو اٹھائے ہوئے ہيں''يہاں پر سوال يہ ہوتا ہے كہ فرشتے صندوق عہد كو كيسے لائے؟اس سلسلے ميں مفسرين نے مختلف باتيں كى ہيں_ ان ميں سے زيادہ واضح تواريخ كے حوالے سے يہ ہے كہ جب صندوق عہد فلسطين كے بت پرستوں كے ہاتھ لگا اور وہ اسے اپنے بت خانے ميں لے گئے اس كے بعد وہ بہت سى مصيبتوں اور ابتلائوں كا شكار ہوگئے تو ان ميں سے بعض كہنے لگے كہ يہ سب كچھ صندوق عہد كے آثار ميں سے ہے، لہذا انہوں نے طے كرليا كہ اسے اپنے شہر اور علاقے سے باہر بھيج ديں گے_كوئي شخص اسے باہر لے جانے كو تيار نہ ہوا_مجبوراًدو بيل جوتے گئے اور صندوق عہد كو باندھ كر بيلوں كو بيابان ميں جاكر چھوڑا گيا_اتفاق سے يہ واقعہ ٹھيك اس وقت رونما ہوا جب طالوت كو بنى اسرائيل كا فرمانروا بنايا گيا_

خدا نے فرشتوں كوحكم ديا گيا كہ وہ ان دو بيلوں كو اشموئيل كے شہر كى طرف ہانك كرلے جائيں_بنى اسرائيل نے صندوق عہد كو ديكھا تو اسے طالوت كے خدا كى طرف سے مامور ہونے كى نشانى كے طور پر قبول كرليا_اس لئے ظاہراًتو دوبيل اسے شہر ميں لائے ليكن درحقيقت يہ كام خدائي فرشتوں كى وجہ سے انجام پذير ہوا اسى وجہ سے صندوق اٹھالانے كى نسبت فرشتوں كى طرف دى گئي ہے_اصولى طو پر فرشتہ اور ملك قرآن حكيم اور روايات ميں ايك وسيع مفہوم كا حامل ہے_اس مفہوم ميں روحانى عقل ركھنے والے موجودات كے علاوہ اس جہان كى مخفى قوتوں كا ايك سلسلہ بھى شامل ہے_

يہ دائود كون سے دائود تھے

اگر چہ قرآن ميں صراحت موجود نہيں كہ يہ دائود وہى پيغمبر ہيں جو حضرت سليمان(ع) كے والد گرامى ہيں

ياكوئي اور شخص_ليكن اس قرآن سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ مقام نبوت كے حامل ہوئے قرآن آگے چل كر يوں بيان كرتا ہے :

''خدانے اسے حكومت اور علم عطا كيا اور جو كچھ وہ چاہتا تھا اسے سكھايا ''_

ايسى تعبير عام طور سے انبياء كے متعلق ہى ہوتى ہے_

''اور ہم نے اسكى حكومت كو مضبوط كرديا اور اسے علم و دانش عطا كيا''_

اس سلسلہ كى ذيل ميں جو احاديث منقول ہيں ان سے بھى واضح ہوتاہے كہ يہ وہى مشہور پيغمبر حضرت دائود(ع) تھے_

* * * * *