اصحاب سبت،سنيچر كى چھٹي

اوربنى اسرائيل كى نافرماني

بنى اسرائيل كا ايك گروہ جو ايك سمندر (بظاہر بحيرہ احمر جو فلسطين كے پاس ہے)كے كنارے شہر''ايلہ''(جسے آج كل''ايلات''كہتے ہيں)ميں رہتے تھے،ان كى آزمائشے كے لئے اللہ نے انہيں حكم ديا تھا كہ ہفتہ كے روز مچھلى كا شكار نہ كريں،سارے دنوں ميں شكار كريں صرف ايك دن تعطيل كرديا كريں ليكن ان لوگوں نے اس حكم كى صريحاًمخالفت كى جس كے نتيجے ميں وہ درد ناك عذاب ميں مبتلا ہوئے جس كى تفصيل قرآن ميں بيان كى گئي ہے_

قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:''جو يہودى تمہارے زمانہ ميں موجود ہيں ان سے اس شہر كے ماجرے كے متعلق سوال كرو جو سمندر كے كنارے آباد تھا''_اور انہيں وہ زمانہ ياددلائو جبكہ وہ ہفتہ كے روز قانون الہى كى مخالفت كرتے تھے_''(1)

كيونكہ ہفتہ كے روز ان كى تعطيل كا دن تھا جس ميں ان كو يہ حكم ملا تھا كہ اس روز وہ اپنا كاروبار ترك كرديں اور عبادت خدا ميں مشغول ہوں ليكن انہوں نے اس حكم كى طرف كوئي توجہ نہ دي_


(1)سورہ اعراف 162

اس كے بعد قرآن كريم اس جملے كى جو اجمالى طور پر پہلے گزر چكا ہے اس طرح شرح كرتاہے كہ ياد كرو:'' جب ہفتہ كے دن مچھلياں پانى كے اوپر ظاہر ہوتى تھيں اور دوسرے دنوں ميں وہ كم دكھلائي ديتى تھيں''_(1)

يہ بات واضح ہے كہ جو لوگ سمندر كے كنارے زندگى بسر كرتے تھے ان كى خوراك اور آمدنى كا بڑا ذريعہ مچھلى كاشكار ہوتا ہے،اور چونكہ ہفتہ كے روز مسلسل تعطيل ان كے درميان رائج تھي، لہذا اس روز مچھلياں امن محسوس كرتى تھيں اور وہ گروہ در گروہ پانى كى سطح پر ظاہر ہوتى تھيں ليكن دوسرے دنوں ميں چونكہ ان كا شكار كيا جاتا تھا اس لئے وہ گہرے پانى ميں بھاگ جاتى تھيں_ بہر حال يہ كيفيت چاہے كسى فطرى امر كے نتيجہ ميں ہو يا كوئي خلاف معمول الہى بات ہو اس سے ان لوگوں كى آزمائشے مطلوب تھى جيسا كہ قرآن بيان كرتا ہے:

''ہم نے اس طرح ان لوگوں كى آزمائشے كى اس چيز كے ذريعے جس كى وہ مخالفت كرتے تھے''_(2)

جس وقت بنى اسرائيل اس بڑى آزمائشے سے دوچار ہوئے جو ان كى زندگى كے ساتھ وابستہ تھى تو وہ تين گروہوں ميں بٹ گئے:

اول:جن كى اكثريت تھي،وہ لوگ تھے جنہوں نے اس فرمان الہى كى مخالفت پر كمر باندھ لي_

دوم:جو حسب معمولى ايك چھوٹى اقليت پر مشتمل تھا وہ گروہ اول كے مقابلے ميں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كى شرعى ذمہ دارى ادا كرتا تھا_

سوم:يہ وہ لوگ تھے جو ساكت اور غير جانبدار تھے_يہ نہ تو گنہگاروں كے ساتھ تھے اور نہ انہيں گناہوں سے منع كرتے تھے_

قرآن ميں اس گروہ نے دوسرے گروہ سے جو گفتگو كى ہے اسے نقل كيا گيا ہے_


(1)سورہ اعراف آيت 162

(2)سورہ اعراف آيت 163

اس وقت كو ياد كرو جب ان ميں سے ايك گروہ نے دوسرے سے كہا:

تم ان لوگوں كو كيوں وعظ و نصيحت كرتے ہو جنہيں آخر كار خدا ہلاك كرنے والا ہے يا درد ناك عذاب ميں مبتلا كرنے والا ہے_

انہوں نے جواب ميں كہا:ہم اس لئے برائي سے منع كرتے ہيں كہ خدا كے سامنے اپنى ذمہ دارى كو ادا كرديں اور وہ اس بارے ہم سے كوئي باز پرس نہ كرے_

علاوہ ازيں شايد ان كے دلوں ميں ہمارى باتو ںكا كوئي اثر بھى ہوجائے اور وہ طغيان و سركشى سے ہاتھ اٹھاليں_(1)

''آخر كار دنيا پرستى نے ان پر غلبہ كيا_اور انہوں نے خدا كے فرمان كو فراموش كرديا_ اس وقت ہم نے ان لوگوں كو جو لوگوں كو گناہ سے منع كرتے تھے،نجات دي،ليكن گناہگاروں كو ان كے گناہ كے سبب سخت عذاب ميں مبتلا كرديا''_(2)

اس كے بعد انہيں سزاديئے جانے كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي گئي ہے:''انہوں نے اس بات كے مقابلے ميں سركشى كى جس سے انہيں روكا گيا تھا_(لہذا)ہم نے ان سے كہا دھتكارے ہوئے بندروں كى شكل ميں ہوجائو''_(3)

بنى اسرائيل نے كس طرح گناہ كيا تھا؟

اس امر ميں كہ بنى اسرائيل نے كس وقت قانون شكنى كي،مفسرين كے درميان بحث ہے_بعض روايات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے ايك حيلہ اختيار كيا،انہوں نے سمندر كے كنارے بہت سے حوض بنالئے تھے اور انہيں نہروں كے ذريعے سمندر سے ملا ديا تھا_ہفتہ كے روز ان حوضوں كے راستے كھول ديتے تھے پانى كے ساتھ مچھلياں ان حوضوں كے اندر آجاتى تھيں،غروب كے وقت جب واپس جانا چاہتى تھيں تو


(1)سورہ اعراف 164

(2)سورہ اعراف آيت 165

(3)سورہ اعراف آيت 166

واپسى كا راستہ بند كر ديتے تھے،جب اتوار كا دن ہوتا تھا تو پھر ان كا شكار كرليتے تھے اور يہ كہتے تھے كہ ہم نے ہفتہ كے روز شكار تھوڑى كيا ہے بلكہ ہم نے تو صرف انہيں حوضوں ميں محصور كرليا تھا اصل شكار تو اتواركے روز ہوا ہے_

بعض مفسرين نے يہ كہا ہے كہ وہ لوگ ہفتہ كے روز مچھلى پكڑنے كے كانٹوں كو دريا ميں ڈال ديتے تھے اس كے بعد جب اس ميں مچھلياں پھنس جاتى تھيں تو دوسرے روز انہيں نكال ليتے تھے اور اس حيلہ سے ان كا شكار كرتے تھے_

بعض روايات سے يہ بھى پتہ چلتا ہے كہ وہ بغير كسى حيلہ كے بروز شنبہ بڑى ڈھٹائي كے ساتھ شكار ميں مشغول ہوتے تھے_

ممكن ہے كہ يہ تمام روايات صحيح ہوں اس طرح كہ ابتدا ء ميں حوضوں يا قلابوں كے ذريعے حيلے سے شكار كرتے ہوں،جب اس طرح سے ان كى نظر ميں گناہ كى اہميت كم ہوگئي ہو تو پھر انہوں نے اعلانيہ گناہ كرنا شروع كرديا ہو اور ہفتہ كے دن كى حرمت كو ضائع كركے مچھلى كى تجارت سے مالدار ہوگئے ہوں_(1)


(1)آيا يہ مسخ جسمانى تھايا روحاني؟

''مسخ''يا دوسرے لفظوں ميں ''انسانى شكل كا كسى حيوان كى شكل ميں تبديل ہو جانا''مسلمہ طور پر ايك خلاف معمول اور خلاف طبيعت بات ہے اگر چہ ميوٹيشن(mutation)بعض حيوانات كا دوسرے حيوانات كى شكل اختيار كرلينا نادر طور پر ديكھا گيا ہے اور سائنس ميں تكامل حيات كى بنياد بھى اس بات پر ركھى گئي ہے،ليكن ميوٹيشن(mutation)جہاں ديكھا گيا ہے وہ بہت نادر الموقع موارد ہيں،وہ بھى حيوانات كى جزوى صفات ميں پايا جاتا ہے نہ كہ ان كى كلى صفات ميں،بلكہ ايسا ہرگز نہيں ہواكہ ميوٹيشن(mutation)كى وجہ سے ايك حيوان اپنى نوع مثلاً بندر سے بكرى بن گيا ہو_ہاں يہ ممكن ہے كہ كسى حيوان كى خصوصيات دگر گوں ہو جائيں،پھر يہ كہ يہ تبديلى اس كى نسل ميں پيدا ہوتى ہے نہ كہ جو حيوان پيدا ہوگيا ہے اس كى شكل يك بيك بدل گئي ہو،بنا بريں كسى انسان يا حيوان كى شكل كا بدل كر دوسرى نوع اختيار كرلينا ايك خلاف معمول بات ہے_

ہم نے بارہا يہ بات كہى ہے كہ كچھ مسائل ايسے بھى ہيں جو طبيعت اور عادت كے بر خلاف واقع ہوتے ہيں جو كبھى تو پيغمبروں كے معجزوں كى صورت ميں اور كبھى بعض خارق العادت كاموں كى صورت ميں بعض انسانوں سے ظاہر ہوتے ہيں، -->