ابى بن كعب نے ابن عباس كى وساطت سے پيغمبر اكرم(ص) كى ايك حديث اس طرح نقل كى ہے:
''ايك دن موسى عليہ السلام بنى اسرائيل سے خطاب كررہے تھے_ كسى نے آپ(ع) سے پوچھا روئے زمين پر سب سے زيادہ علم كون ركھتا ہے_تو موسى عليہ السلام نے كہا مجھے اپنے آپ سے بڑھ كر كسى كے عالم ہونے كا علم نہيں_ اس وقت موسى عليہ السلام كو وحى ہوئي كہ ہمارا ايك بندہ مجمع البحرين ميں ہے كہ جو تجھ سے زيادہ عالم ہے_ اس قت موسى عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميں اس عالم كى زيارت كرنا چاہتا ہوں_اس پر اللہ نے انہيں ان سے ملاقات كى راہ بتائي''_
يہ درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام كو تنبيہ تھى كہ اپنے تمام تر علم و فضل كے باوجود اپنے آپ كو افضل ترين نہ سمجھيں_(1)
(1)ليكن يہاں يہ سوال سامنے آتا ہے كہ كيا ايك اولوالعزم صاحب رسالت و شريعت شخص كو اپنے زمانے كا سب سے بڑا عالم نہيں ہونا چاہئے؟ اس سوال كے جواب ميں ہم كہيں گے كہ اپنى ماموريت كى قلمرو ميں نظام تشريع ميں اسے سب سے بڑاعالم ہونا چاہيئےور حضرت موسى عليہ السلام اسى طرح تھے ليكن ان كى ماموريت كى قلمرو ان كے عالم دوست كى قلمرو سے الگ تھي_ ان كے عالم دوست كى ماموريت كا تعلق عالم بشريت سے نہ تھا_ دوسرے لفظوں ميں وہ عالم ايسے اسرار سے آگاہ تھے كہ جو دعوت نبوت كى بنياد نہ تھے. -->
حضرت موسى عليہ السلام اور خضر عليہ السلام كہ جو اس زمانے كے بڑے عالم تھے ان كا واقعہ بھى عجيب ہے_يہ واقعہ نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام جيسے اولو العزم پيغمبر كہ جو اپنے ماحول كے آگاہ ترين اور عالم ترين فرد تھے،بعض پہلوئوں سے ان كا علم بھى محدود تھا لہذا وہ استاد كى تلاش ميں نكلے تاكہ اس سے درس ليں،استاد نے بھى ايسے درس ديئے كہ جن ميں سے ہر ايك دوسرے سے عجيب تر ہے_ اس داستان ميں بہت سے اہم نكات پوشيد ہ ہيں_
حضرت موسى عليہ السلام كو كسى نہايت اہم چيزى كى تلاش تھي_وہ اس كى جستجو ميں دربدر پھر رہے تھے_وہ عزم بالجزم اور پختہ ارادے سے اسے ڈھونڈ رہے تھے_وہ ارادہ كئے ہوئے تھے كہ جب تك اپنا مقصود نہ پاليں چين سے نہيں بيٹھيں گے_
حضرت موسى عليہ السلام جس كى تلاش پر مامور تھے اس كا آپ(ع) كى زندگى پر بہت گہرا اثر ہوا اور اس نے آپ(ع) كى زندگى كا نيا باب كھول ديا_جى ہاںوہ ايك مرد عالم و دانشمند كى جستجو ميں تھے_ايسا عالم كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى آنكھوں كے سامنے سے بھى حجاب ہٹا سكتا تھا اور انہيں نئے حقائق سے روشناس كرواسكتا تھا اور ان كے لئے علوم و دانش كے تازہ باب كھول سكتا تھا_
<-- اتفاقاً ايك حديث كہ جو امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے اسميں صراحت كے ساتھ بتايا گيا ہے كہ حضرت موسى (ع) حضرت خضر(ع) سے زيادہ عالم تھے يعنى علم شريعت ميں_
شايد اس سوال كا جواب نہ پانے كى وجہ سے اور نسيان سے مربوط سوال كا جواب نہ پانے كے سبب بعض نے ان آيات ميں جن موسى عليہ السلام كا ذكر ہے اسے موسى بن عمران تسليم كرنے سے انكار كرديا ہے_
ايك حديث كہ جو حضرت على بن موسى رضا عليہ السلام سے نقل ہوئي ہے اس سے بھى يہ نكتہ معلوم ہوتا ہے كہ ان دونوں بزرگوں كا دائرہ كار اور قلمرو ايك دوسرے سے مختلف تھى اور ہر ايك دوسرے سے اپنے كام ميں زيادہ عالم تھا_
ہم اس سلسلے ميں جلد پڑھيں گے كہ اس عالم بزرگ كى جگہ معلوم كرنے كے لئے حضرت موسى عليہ السلام كے پاس ايك نشانى تھى اور وہ اس نشانى كے مطابق ہى چل رہے تھے_
قرآن كہتا ہے :وہ وقت ياد كرو جب موسى نے اپنے دوست اور ساتھى جوان سے كہاكہ ميں تو كوشش جارى ركھوں گا جب تك''مجمع البحرين''تك نہ پہنچ جائوں،اگر چہ مجھے يہ سفر لمبى مدت تك جارى ركھنا پڑے''_(1)
مجمع البحرين كا مطلب ہے دو دريائوں كا سنگم_اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ ''بحرين''سے يہاں كون سے دو دريا ہيں_اس سلسلے ميں تين مشہور نظريئےيں:
1_خليج عقبہ اور خليج سويز كے ملنے كى جگہ_ہم جانتے ہيں كہ بحيرہ احمر دو حصوں ميں تقسيم ہوجاتا ہے_ايك حصہ شمال مشرق كى طرف بڑھتا رہتا ہے اور دوسرا شمال مغرب كى طرف پہلے حصے كو خليج عقبہ كہتے ہيں اور دوسرے كو خليج سويز اور يہ دونوں خليجيں جنوب ميں پہنچ كر آپس ميں مل جاتى ہيں اور پھر بحيرہ احمر اپنا سفر جارى ركھتا ہے_
2_اس سے بحر ہند اور بحيرہ احمر كے ملنے كى طرف اشارہ ہے كہ جو باب المندب پر جاملتے ہيں_
3_يہ بحيرہ روم اور بحر اطلس كے سنگم كى طرف اشارہ ہے كہ جو شہر طنجہ كے پاس جبل الطارق كا تنگ دہانہ ہے_
تيسرى تفسير تو بہت ہى بعيد نظر آتى ہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے جبل الطارق كا فاصلہ اتنا زيادہ ہے كہ اس زمانے ميں حضرت موسى عليہ السلام اگر عام راستے سے وہاں جاتے تو كئي ماہ لگ جاتے_
دوسرى تفسير ميں جس مقام كى نشاندہى كى گئي ہے اس كا فاصلہ اگر چہ نسبتاًكم بنتا ہے ليكن اپنى حد تك وہ
(1)سورہ كہف آيت 60
بھى زيادہ ہے كيونكہ شام سے جنوبى يمن ميں فاصلہ بھى بہت زيادہ ہے_
پہلا احتمال زيادہ صحيح معلوم ہوتاہے كيونكہ حضرت موسى عليہ السلام جہاں رہتے تھے وہاں سے يعنى شام سے خليج عقبہ تك كوئي زيادہ فاصلہ نہيں ہے_ويسے بھى قرآنى آيات سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام نے كوئي زيادہ سفر طے نہيں كيا تھا اگر چہ مقصد تك پہنچنے كے لئے بہت زيادہ سفركے لئے بھى تيار تھے_
بعض لوگوں نے جناب موسى عليہ السلام كے اس قول كے ،كہ انھوں نے كہا:''ميں اس وقت تك كوشش كروں گا بج تك اپنا مقصد حاصل نہ كرلوں ''كے بارے ميں كہا ہے :كہ لفظ''حقب'' ، ''عرصہ دراز''كے معنى ميں ہے_ بعض نے اس كى 80 /سال سے تفسير كى ہے_ اس لفظ سے حضرت موسى عليہ السلام كا مقصد يہ تھا كہ مجھے جس كى تلاش ہے ميں اسے ڈھونڈھ كے رہوں گا چاہے اس مقصد كے لئے مجھے سالہا سال تك سفر جارى ركھنا پڑے_
''بہر حال جس وقت وہ ان دو دريائوں كے سنگم پر جاپہنچے تو ايك مچھلى كہ جو ان كے پاس تھى اسے بھول گئے''_(1)
ليكن تعجب كى بات يہ ہے كہ'' مچھلى نے دريا ميں اپنى راہ لى اور چلتى بني''_(2)
يہ مچھلى جو ظاہراً ان كے پا س غذا كے طور پر تھي_ كيا بھونى ہوئي تھى اور اسے نمك لگا ہوا تھا يا يہ تازہ مچھلى تھى كہ جو معجزانہ طور پر زندہ ہوكر اچھل كر پانى ميں جاكر تيرنے لگي_
اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے_بعض كتب تفاسير ميں يہ بھى ہے كہ اس علاقے ميں آب حيات كا چشمہ تھا_ اس كے كچھ قطرات مچھلى پر پڑگئے جس سے مچھلى زندہ ہوگئي_
(1)سورہ كہف آيت61
(2)سورہ كہف آيت 61
ليكن يہ احتمال بھى ہے كہ مچھلى ابھى پورى طرح مرى نہ تھى كيونكہ بعض مچھلياں ايسى بھى ہوتى ہيں جو پانى سے نكلنے كے بعد بہت دير تك نيم جاں صورت ميں رہتى ہيں اور اس مدت ميں پانى ميں گر جائيں تو ان كى معمول كى زندگى پھر شروع ہوجاتى ہے_
آخر كار موسى عليہ السلام اور ان كے ہمراہى دو دريائوں كے سنگم سے آگے نكل گئے تو لمبے سفر كے باعث انہيں خستگى كا احساس ہوا اور بھوك بھى ستانے لگي_ اس وقت موسى عليہ السلام كو ياد آيا كہ غذا تو ہم ہمراہ لائے تھے، لہذا انہوں نے اپنے ہمسفر دوست سے كہا: ہمارا كھانا لايئےس سفرنے تو بہت تھكا ديا ہے_(1)
اس وقت ''ان كے ہمسفر نے انہيں خبردى كہ آپ كو ياد ہے كہ جب ہم نے اس پتھر كے پاس پناہ لى تھي(اور آرام كيا تھا)تو مجھے مچھلى كے بارے ميں بتانا ياد نہ تھا اور شيطان ہى تھا جس نے يہ بات مجھے بھلادى تھي_ ہوا يہ كہ مچھلى نے بڑے حيران كن طريقے سے دريا كى راہ لى اور پانى ميں چلتى بني''_(2)
يہ معاملہ چونكہ موسى عليہ السلام كے لئے اس عالم بزرگ كو تلاش كرنے كے لئے نشانى كى حيثيت ركھتا تھا لہذا موسى عليہ السلام نے كہا:''يہى تو ہميں جاہئے تھا اور يہى چيزتو ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے''_(3)
''اور اس وقت وہ تلاش كرتے ہوئے اسى راہ كى طرف پلٹے''_(4)
قرآن اس داستان كو آگے بڑھاتے ہوئے كہتا ہے:جس وقت موسى عليہ السلام اور ان كے ہمسفر دوست ''مجمع البحرين ''اور پتھر كے پاس پلٹ كر آئے تو'' اچانك ہمارے بندوں ميں سے ايك بندے سے ان كى ملاقات ہوگئي_ وہ بندہ كہ جس پر ہم نے اپنى رحمت كى تھى اور جسے ہم نے بہت سے علم و دانش سے نوازا تھا''_(5)
(1)سورہ كہف آيت 62
(2)سورہ كہف آيت 63
(3)سورہ كہف آيت64
(4)سورہ كہف آيت64
(5)سورہ كہف آيت65
اس وقت حضرت موسى عليہ السلام نے بڑے ادب سے اس عالم بزرگ كى خدمت ميں عرض كيا: ''كيا مجھے اجازت ہے كہ ميں آپ كى پيروى كروں تاكہ جو علم آپ كو عطا كيا گيا ہے اور جو باعث رشد و صلاح ہے،مجھے بھى تعليم ديں''_(1)ليكن بڑے تعجب كى بات ہے كہ اس عالم نے موسى عليہ السلام سے كہا:''تم ميرے ساتھ ہر گز صبر نہ كرسكوگے''_(2)ساتھ ہى اس كى وجہ اور دليل بھى بيان كردى اور كہا:''تم اس چيز پر كيسے صبر كر سكتے ہو جس كے اسرار سے تم آگا ہى نہيں ركھتے''؟(3)جيسا كہ ہم بعد ميں ديكھيں گے يہ عالم، اسرار و حوادث كے باطنى علوم پر دسترس ركھتا تھا جبكہ حضرت موسى عليہ السلام نہ باطن پر مامور تھے اور نہ ان كے بارے ميں زيادہ آگاہى ركھتے تھے_
ايسے مواقع پر ايسا بہت ہوتا ہے كہ حوادث كے ظاہر سے ان كا باطن مختلف ہوتا ہے، بعض اوقات كسى واقعے كا ظاہر احمقانہ اور ناپسنديدہ ہوتا ہے جبكہ باطن ميں بہت مقدس منطقى اور سوچا سمجھا ہوتا ہے ايسے مواقع پر جو شخص ظاہر كو ديكھتا ہے وہ اس پر صبرنہيں كرپاتا اور اس پر اعتراض كرتا ہے يا مخالفت كرنے لگتا ہے_
ليكن وہ استاد كہ جو اسرار دروں سے آگاہ ہے اور معاملے كے باطن پر نظر ركھتا ہے وہ بڑے اطمينان اور ٹھنڈے دل سے كام جارى ركھتا ہے اور اعتراض اور واويلاپر كان نہيں دھرتا بلكہ مناسب موقع كے انتظار ميں رہتا ہے تاكہ حقيقت امر بيان كرے جبكہ شاگرد بے تاب رہتا ہے ليكن جب اسرار اس پر كھل جاتے ہيں تو اسے پورى طرح سكون و قرار آجاتا ہے_
حضرت موسى عليہ السلام يہ بات سن كر پريشان ہوئے ،انہيں خوف تھا كہ اس عالم بزرگ كا فيض ان سے منقطع نہ ہو لہذا انہوں نے وعدہ كيا كہ تمام امور پر صبر كريں گے اور كہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے اور ميں وعدہ كرتا ہوں كہ كسى كام ميں آپ كى مخالفت نہيں كروں گا_(4)
(1)سورہ كہف آيت66
(2)سورہ كہف آيت 67
(3)سورہ كہف آيت68
(4)سورہ كہف آيت69
يہ كہہ كر حضرت موسى عليہ السلام نے پھر انتہائي ادب و احترام اور خدا كى مرضى پر اپنے بھروسے كا اظہار كيا_
آپ نے اس عالم سے يہ نہيں كہا كہ ميں صابر ہوں بلكہ كہتے ہيں:انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائيں گے_ليكن چونكہ ايسے واقعات پر صبر كرنا كہ جو ظاہراً ناپسنديدہ ہوں اور انسان جن كے اسرار سے آگاہ نہ ہوكوئي آسان كام نہيں اس لئے اس عالم نے حضرت موسى عليہ السلام كو خبردار كرتے ہوئے پھر عہد ليا ''اور كہا اچھا اگر تم ميرے پيچھے پيچھے آنا چاہتے ہو تو ديكھو خاموش رہنا اور كسى معاملے پر سوال نہ كرنا جب تك كہ مناسب موقع پر ميں خود تم سے بيان نہ كردوں''_(1)
جناب موسى (ع) نے پھر دوبارہ وعدہ كيا اور استادكے ساتھ ہولئے_
''موسى (ع) اس عالم ربانى كے ساتھ چل پڑے _چلتے چلتے ايك كشتى تك پہنچے اور اس ميںسوار ہو گئے''_ (2)
يہاں سے ہم ديكھتے ہيں كہ اب قرآن تثنيہ كى ضمير استعمال كرنے لگا ہے_ يہ اشارہ ہے حضرت موسى عليہ السلام اور اس عالم بزرگوار كى طرف_ يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ حضرت موسى عليہ السلام كے ہمسفر يوشع(ع) كى ماموريت اس مقام پر ختم ہوگئي تھى اور وہ يہاں سے پلٹ گئے تھے يا پھر يہ ہے كہ وہ موجود تو تھے ليكن اس معاملے سے ان كا تعلق نہيں تھا لہذا انہيں يہاں نظرا نداز كرديا گيا ہے_ ليكن پہلا احتمال زيادہ قوى معلوم ہوتا ہے_
''بہرحال وہ دونوں كشتى پر سوار ہوگئے تو اس عالم نے كشتى ميںسوراخ كرديا ''_(3)
حضرت موسى عليہ السلام چونكہ ايك طرف تو اللہ كے عظيم نبى بھى تھے ،الہذاانہيں لوگوں كى جان ومال
(1)سورہ كہف ايت 70
(2)سورہ كہف ايت71
(3)سورہ كہف آيت 71
كا محافظ بھى ہونا چاہئے تھا او رانہيں امر بالمعروف اور نہى عن المنكر بھى كرنا چاہتے تھا اور دوسرى طرف ان كا انسانى ضمير اس بات كى اجازت نہيں ديتا تھا كہ وہ اس قسم كے غلط كام پر خاموشى اختيار كريں لہذا حضرت خضر كے ساتھ ان كا جو معاہدہ ہوا تھا اسے ايك طرف ركھا اور اس كام پر اعتراض كرديا اور ''كہا:
كيا آپ نے اہل كشتى كو غرق كرنے كے لئے اس ميں سوراخ كرديا ہے واقعاً آپ نے كس قدر برا كام انجام ديا ہے ''_(1)
واقعا ًيہ كام كتنا حيرت انگيز ہے كہ كسى كشتى ميں بہت سے مسافر سوار ہوں اور اس ميں سوراخ كرديا جائے ؟
بعض روايات ميں ہے كہ اہل كشتى جلدہى متوجہ ہوگئے اور انہوں نے اس سوارخ كو كسى چيز كے ذريعے سے پركرديا ليكن اب وہ كشتى صحيح نہيں رہ گئي تھى _
اس وقت اس عالم نے بڑى متانت كے ساتھ موسى پر نگاہ ڈالى اور ''كہا: ميں نے نہيں كہا تھا كہ تم ميرے ساتھ ہرگز صبر نہيں كرسكو گے ''_(2)
اس واقعے كى اہميت كے پيش نظر حضرت موسى كى عجلت اگرچہ فطرى تھى تاہم وہ پشيمان ہوئے انہيں اپنا معاہدہ ياد آيا لہذا معذرت آميز لہجے ميں استاد سے '' كہا اس بھول پر مجھ سے مواخذہ نہ كيجئے اور اس كام پرمجھ پر سخت گيرى نہ كيجئے ''_(3)
ان كا دريائي سفر ختم ہوگيا وہ كشتى سے اتر آئے ،''سفر جارى تھا اثنائے راہ ميں انہيں ايك بچہ ملا ليكن اس عالم نے كسى تمہيد كے بغير ہى اس بچے كو قتل كرديا''_ (4)
(1)سورہ كہف آيت 71
(2)سورہ كصف آيت 72
(3)سورہ كہف آيت 73
(4)سورہ كصف آيت 74
حضرت موسى (ع) سے پھر نہ رہاگيا يہ نہايت وحشتناك منظر تھا بلا جواز اور بےوجہ ايك بے گناہ بچے كا قتل ، ايسى چيز نہ تھى كہ حضرت موسى خاموش رہ سكتے آپ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے غم واندوہ اور غصے كا يہ عالم تھا كہ آپ نے پھر اپنے معاہدے كو نظر انداز كرتے ہوئے اب كى شديد تراور واضح تر اعتراض كيا يہ واقعہ بھى پہلے واقعے كى نسبت زيادہ وحشتناك تھا وہ كہنے لگے :''كيا آپ نے ايك بے گناہ اور پاك انسان كو قتل كرديا ہے جبكہ اس نے كسى كو قتل نہيں كيا،واقعاً آپ نے كيسا برا كا م انجام دياہے_''(1)(2)اس عالم بزرگوار نے پھر اپنے خاص اطمينان اور نرم لہجے ميں وہى جملہ دہرايا : '' كہا: ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ تھا تم ہرگز ميرے ساتھ صبر نہ كر سكو گے''_ (3)
حضرت موسى عليہ السلام كو اپنا عہد ياد آگيا انہيں بہت احساس شرمندگى ہورہا تھا كيونكہ دومرتبہ يہ پيمان ٹوٹ چكا تھا چاہے بھول كرہى ايسا ہوا ہو انہيں خيال آرہا تھا كہ ہوسكتا ہے استاد كى بات صحيح ہو كہ انہوں نے تو پہلے ہى واضح كرديا تھا كہ ابتدا ميں ان كے كام موسى كے لئے ناقابل برداشت ہوں گے_
موسى (ع) نے پھر عذر خواہى كے لہجے ميں كہا كہ اس دفعہ بھى مجھ سے صرف نظر كيجئے اور ميرى بھول چوك كو نظر انداز كرديجئے اور'' اگر اس كے بعد ميں آپ كے كاموں كے بارے ميں وضاحت كا تقاضا كروں (اور آپ پر اعتراض كروں ) تو پھربے شك مجھے ساتھ نہ ركھيں اور اس صورت ميں آپ ميرى استادى سے معذور ہوں گے '' (4)
(1)سورہ كہف آيت 74
(2)لفظ'' غلام'' جو ان نورس كے معنى ميں ہے وہ حد بلوغ كو پہنچا ہو يا نہ پہنچا ہو _
جس نوجوان كو اس عالم نے قتل كيا تھا وہ حد بلوغ كو پہنچا ہوا تھا يا نہيں اس سلسلے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے _
بعض نے '' نفسا زكية'' (پاك اور بے گناہ انسان ) كى تعبير كو اس بات كى دليل بنايا ہے كہ وہ بالغ تھا كيونكہ قصاص صرف بالغ سے ليا جاسكتا ہے _البتہ آيت كو مجموعى طور پر ديكھا جائے تو اس سلسلے ميں حتمى فيصلہ نہيںكيا جاسكتا _
(3)سورہ كہف آيت 75
(4)سورہ كہف آيت76
يہ جملہ حضرت موسى (ع) كى انصاف پسندي، بلند نظرى اور اعلى ظرفى كى حكايت كرتا ہے اور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ ايك حقيقت كے سامنے سرجھكادينے والے تھے اگرچہ وہ كتنى ہى تلخ كيوں نہ ہو _
دوسرے لفظوں ميں تين بار كى آزمائشے سے يہ واضح ہوجائے گا كہ ان دونوں كى ماموريت الگ الگ ہے اور اس كا نباہ نہيں ہوسكتا _
اس گفتگو اور نئے معاہدے كے بعد ''موسى (ع) اپنے استاد كے ساتھ چل پڑے ،چلتے چلتے وہ ايك بستى ميں پہنچے انہوں نے اس بستى والوں سے كھانا مانگا ليكن بستى والوں نے انہيں مہمان بنانے سے انكار كرديا ''(1)
اس ميں شك نہيں كہ حضرت موسى اور حضرت خضر(ع) كوئي ايسے افراد نہ تھے كہ اس بستى كے لوگوں پر بوجھ بننا چاہتے تھے،ايسا معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنا زاد وتوشہ راستے ميں كہيں دے بيٹھے تھے يا پھر ختم ہوگيا تھا لہذاوہ چاہتے تھے كہ بستى والوں كے مہمان ہوجائيں (يہ احتمال بھى ہے كہ اس عالم نے جان بوجھ كرلوگوں سے ايسا كہا ہوتاكہ حضرت موسى كو ايك اور درس ديا جاسكے)_(2)
بہر حال مفسرين ميں اس سلسلے ميں اختلاف ہے كہ يہ شہر كو نسا تھا اور كہاں واقع تھا ابن عباس سے منقول ہے كہ يہ شہر ''انطاكيہ'' تھا_
بعض نے كہا ہے كہ يہاں '' ايلہ '' شہر مراد ہے كہ جو آج كل '' ايلات''نام كى مشہور بندرگاہ ہے اور بحيرہ احمر كے كنارے خليج عقبہ كے نزديك واقع ہے _
(1)سورہ كہف آيت77
(2)اس نكتے كى ياد دہانى بھى ضرورى ہے كہ '' قرية'' قرآن كى زبان ميں ايك عام مفہوم ركھتا ہے اور ہر قسم كے شہر اور آبادى كے معنى ميں آيا ہے ليكن يہاں خصوصيت سے شہر مراد ہے كيونكہ چند آيات كے بعد اس كے لئے لفظ '' المدينہ''(يعنى شہر) آياہے _
بعض دوسروں كا نظريہ ہے كہ اس سے '' ناصرہ''شہر مراد ہے كہ كہ جو فلسطين كے شمال ميں واقع ہے اور حضرت عيسى كى جائے پيدائشے ہے_
مرحوم طبرسى نے اس مقام پر حضرت امام جعفرصادق عليہ السلام كى ايك حديث نقل كى ہے كہ جو آخرى احتمال كى تائيد كرتى ہے _
مجمع الجرين كے بارے ميں ہم كہہ چكے ہيں كہ اس سے مراد'' خليج عقبہ'' اور'' خليج سويز ''كا سنگم ہے اس سے واضح ہوتا ہے كہ شہر ناصرہ اور بندرگاہ ايلہ اس جگہ سے انطاكيہ كى نسبت زيادہ قريب ہيں _
بہرصورت جو كچھ حضرت موسى عليہ السلام اور ان كے استاد كے ساتھ اس شہر ميں پيش آيا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس شہر كے رہنے والے بہت بخيل اور كم ظرف لوگ تھے پيغمبر اكرم (ص) سے اس شہر والو ںكے بارے ميں ايك حديث منقول ہے كہ آپ نے فرمايا :''وہ كمينے اور كم ظرف لوگ تھے ''_
قرآن كہتا ہے :'' اس كے باوجود انہوں نے اس شہر ميں ايك گرتى ہوئي ديوار ديكھى تو اس عالم نے اس كى مرمت شروع كردى اور اسے كھڑا كرديا _''(1)اور اس كو ويرانى سے بچاليا_
حضرت موسى اس وقت تھكے ہوئے تھے انہيں بھوك بھى ستارہى تھي، كوفت الگ تھى وہ محسوس كررہے تھے اس آبادى كے نا سمجھ لوگوں نے ان كى اور ان كے استاد كى ہتك كى ہے دوسرى طرف وہ ديكھے رہے تھے ، اس بے احترامى كے باوجود حضرت خضر اس گرتى ہوئي ديوار كى تعمير ميں لگے ہوئے تھے جيسے ان كے سلوك كى مزدورى دے رہے ہوں وہ سوچ رہے تھے كہ كم از كم استاد يہ كام اجرت لے كر ہى كرتے تاكہ كھانا تو فراہم ہوجاتا _
لہذا وہ اپنے معاہدے كو پھر بھول گئے انہوں نے پھر اعتراض كيا ليكن اب لہجہ پہلے كى نسبت ملائم اور نرم تھا '' كہنے لگے: اس كام كى كچھ اجرت ہى لے ليتے ''(2)
(1)سورہ كہف آيت77
(2)سورہ كہف آيت77
درحقيقت حضرت موسى عليہ السلام يہ سوچ رہے تھے كہ يہ عدل تو نہيں كہ انسان ان لوگوں سے ايثار كا سلوك كرے كہ جو اس قدر فرومايہ اور كم ظرف ہوں _دوسرے لفظوں ميں نيكى اچھى چيز ہے مگر جب محل پر ہو، يہ ٹھيك ہے كہ برائي كے جواب ميں نيكى كرنا مردان خدا كا طريقہ ہے ليكن وہاں كہ جہاں بروں كے لئے برائي كى تشويق كا باعث نہ ہو ''
اس موقع پر اس عالم بزرگوار نے حضرت موسى سے آخرى بات كہى كيونكہ گزشتہ تمام واقعات كى بناء پر انہيں يقين ہوگيا تھا كہ موسى ان كے كاموں كو برداشت نہيں كرسكتے لہذا فرمايا :'' لواب تمہارے اور ميرے درميان جدائي كا وقت آگيا ہے جلد ميں تمہيں ان امور كے اسرار سے آگاہ كروں گا كہ جن پر تم صبر نہ كرسكے''_(1)
حضرت موسى نے بھى اس پر كوئي اعترا ض نہ كيا كيونكہ گزشتہ واقعے ميں يہى بات وہ خود تجويز كر چكے تھے يعنى خود حضرت موسى پر يہ حقيقت ثابت ہوچكى تھى كہ ان كا نباہ نہيں ہوسكتا ليكن پھر بھى جدائي كى خبر موسى كے دل پر ہتھوڑے كى ضرب كى طرح لگى ايسے استاد سے جدائي كہ جس كا سينہ مخزن اسرار ہو، جس كى ہمراہى باعث بركت ہو اور جس كى ہر بات ايك درس ہو، جس كا طرز عمل الہام بخش ہو، جس كى پيشانى سے نور خدا ضوفشاں ہو اور جس كا دل علم الہى كا گنجينہ ہو ايسے رہبر سے جدائي باعث رنج وغم تھى ليكن يہ ايك ايسى تلخ حقيقت تھى جو موسى كو بہرحال قبول كرنا تھى _
مشہور مفسر''ابوالفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ايك روايت منقول ہے :
لوگوں نے حضرت موسى سے پوچھا: آپ كى زندگى ميں سب سے بڑى مشكل كونسى تھي؟
حضرت موسى (ع) نے كہا : ميں نے بہت سختياں جھيلى ہيں (فرعون كے دور كى سختياں اور پھر بنى اسرائيل
(1)سورہ كہف آيت 78
كے دور كى مشكلات كى طرف اشارہ ہے ) ليكن كسى مشكل اور رنج نے ميرے دل كو اتنا رنجور نہيں كيا جتنا حضرت خضرسے جدائي كى خبر نے _
جب حضرت موسى اور حضرت خضر كا جدا ہونا طے پاگيا تو ضرورى تھا كہ يہ الہى استاد اپنے ان كاموں كے اسرار ظاہر كرے كہ حضرت موسى جنھيں گوارانہيں كرپائے تھے درحقيقت ان سے ہمراہى كا فائدہ حضرت موسى عليہ السلام كے لئے يہى تھا كہ وہ ان تين عجيب واقعات كا راز سمجھ ليں اور يہى راز بہت سے مسائل كى تفہيم كے لئے كليدبن سكتا تھا اور مختلف سوالوں كا جواب اس ميں پنہاں تھا _
حضرت خضر(ع) نے كشتى والے واقعے سے بات شروع كى اور كہنے لگے : ''ہاں، تووہ كشتى والى بات يہ تھى كہ وہ چند غريب ومسكين افرادكى ملكيت تھى وہ اس سے دريا ميں كام كرتے تھے ميں نے سوچا كہ اس ميں كوئي نقص ڈال دوں كيونكہ ميں جانتا تھا كہ ايك ظالم بادشاہ ان كے پيچھے ہے اور وہ ہر صحيح سالم كشتى كو زبردستى ہتھياليتا ہے''_ (1)
گويا كشتى ميں سوارخ كرنا ظاہرا تو برالگتا تھا ليكن اس كام ميں ايك اہم مقصد پوشيدہ تھا اور وہ تھا كشتى كے غريب مالكوںكو ايك غاصب بادشاہ كے ظلم سے بچانا كيونكہ اس كے نزديك عيب دار كشتياںاس كے كام كى نہ تھيں اور ايسى كشتيوں پروہ قبضہ نہيں جماتا تھا خلاصہ يہ كہ يہ كام چند مسكينوں كے مفاد كى حفاظت كے لئے تھا اور اسے انجام پاناہى چاہئے تھا _
اس كے بعد حضرت خضر(ع) لڑكے قتل كے مسئلے كى طرف آتے ہيں كہتے ہيں : ''رہاوہ لڑكا، تو اس كے ماں باپ صاحب ايمان تھے ہميں يہ بات اچھى نہ لگى كہ وہ اپنے ماں باپ كو راہ ايمان سے بھٹكادے اور سركشى وكفر پر ابھارے _''(2)
(1)سورہ كہف آيت79
(2)سورہ كہف آيت80
بہرحال اس عالم نے اس لڑكے كو قتل كرديا اور اس لڑكے كے زندہ رہنے كى صورت ميں اس كے ماں باب كو آئندہ جو ناگوار واقعات پيش آنے والے تھے انہيں اس قتل كى دليل قرار ديا _
اس كے بعد مزيد فرمايا گيا ہے : ''ہم نے چاہا كہ ان كارب ان كو اس كے بدلے زيادہ پاك اور زيادہ پر محبت اولاد عطا فرمائے _''(1)
آخرى اور تيسرے كام يعنى ديوار بنانے كے واقعے كا جواب ہے ،اس عالم نے اس واقعے كے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے كہا: رہى ديواركى بات _تو وہ اس شہر كے دو يتيم بچوں كى تھى اس ديوار كے نيچے ان كا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان كا باپ ايك نيك اور صالح شخص تھا ،تيرا پروردگار چاہتا تھا كہ وہ بالغ ہوجائيں اور اپنا خزانہ نكال ليں ،يہ تو تيرے رب كى طرف سے رحمت تھے_
اور ان كے نيك ماں باپ كى وجہ سے ميں مامور تھا كہ اس ديوار كو تعمير كروں كہ كہيں وہ گرنہ جائے اور خزانہ ظاہر ہوكر خطرے سے دوچار نہ ہوجائے_(2)
لہذا انہوں نے كہا : اور ميں نے يہ كام خود سے نہيں كئے بلكہ اللہ كے حكم تحت انجام ديئے _(3)
جى ہاں : يہ تھے ان كاموں كے راز كہ جن پرصبر كى تم ميں تاب نہيں تھى _(4)(5)
(1)سورہ كہف آيت 81
(2)سورہ كہف آيت82
(3)سورہ كہف آيت82
(4)سورہ كہف آيت82
(5)خضر كى ماموريت تشريعى تھى يا تكوينى ؟
يہ وہ اہم ترين مسئلہ ہے جس نے بزرگ علماء كو اپنى طرف متوجہ كيا ہے تين واقعات كہ جو اس عالم كے ہاتھوں انجام پائے ان پر حضرت موسى نے اعتراض كيا كيونكہ وہ باطن امر سے آگاہ نہ تھے ليكن بعد ميں استاد نے وضاحت كى تو مطمئن ہوگئے _
سوال يہ ہے كہ كيا واقعاً كسى كے مال ميں اس كى اجازت كے بغير نقص پيدا كيا جاسكتا ہے، كہ غاصب اسے لے نہ جائے _
اور كيا كسى لڑكے كو اس كام پر سزادى جاسكتى ہے جو وہ آئندہ ميں انجام دے گا؟ -->
<-- اور كيا ضرورى ہے كہ كسى كے مال كى حفاظت كے لئے ہم مفت زحمت برداشت كريں _؟
ان سوالات كے جواب ميں ہمارے سامنے دوراستے ہيں : پہلايہ كہ ان امور كو ہم فقہى احكام اور شرعى قوانين كى روشنى ميں ديكھيں _بعض مفسرين نے يہى راستہ اختيا ر كيا ہے _
انہوں نے پہلے واقعے كو اہم اور اہم تر قوانين پر سمجھا ہے اور كہا ہے كہ مسلم ہے كہ سارى كشتى اور پورى كشتى كى حفاظت اہم كام تھا جبكہ جزوى نقص سے حفاظت زيادہ اہم نہيں تھا دوسرے لفظوں ميں حضرت خضر (ع) نے كم نقصان كے ذريعے زيادہ نقصان كو روكا، فقہى زبان ميں '' افسد كو فاسد سے دفع كيا'' خصوصا ًجبكہ يہ بات ان كے پيش نظر تھى كہ كشتى والوں كى باطن رضا مندى انہيں حاصل ہے كيونكہ اگر وہ اصل صورت حال سے آگاہ ہوجاتے تو اس كام پر راضى ہوجاتے (فقہى تعبير كے مطابق حضرت خضر (ع) كو اس مسئلے ميں '' اذن فحوى '' حاصل تھا)_
اس لڑكے كے بارے ميں مفسرين كا اصرار ہے كہ يقيناً وہ بالغ تھا اور وہ مرتد يا فاسد تھا لہذا وہ اپنے موجودہ اعمال كى وجہ سے جائز القتل تھا اور يہ جو حضرت خضراپنے اقدام كے لئے اس كے آئندہ جرائم كو دليل بناتے ہيں تو وہ اس بناء پر ہے كہ وہ كہنا چاہتے ہيں كہ يہ مجرم نہ صرف يہ كہ اس وقت اس كام ميں مبتلا ہے بلكہ آئندہ بھى اس سے بڑھ كر جرائم كا مرتكب ہوگا لہذا اس كاقتل قوانين شريعت كے مطابق تھا اور وہ اپنے افعال اورخود كردہ گناہوں كى وجہ سے جائز القتل تھا _
رہا تيسرا واقعہ تو كوئي شخص كسى پر يہ اعتراض نہيں كرسكتا كہ تم دوسرے كے لئے كيوں ايثار كرتے ہو اور اس كے اموال كو بچانے كے لئے كيوں بيگار اٹھاتے ہو،ہوسكتا ہے يہ ايثار واجب نہ ہو ليكن مسلم ہے كہ يہ اچھا كام ہے اور لائق تحسين ہے بلكہ ہوسكتا ہے كہ بعض مواقع پر سرحد وجوب تك پہنچ جائے مثلاً كسى يتيم بچے كا بہت سامال ضائع ہو رہا ہو اور تھوڑى سى زحمت كركے اسے بچايا جاسكے تو بعيد نہيں ہے كہ ايسے موقع پريہ كام واجب ہو _
دوسرا راستہ اس بنياد پر ہے كہ مذكورہ بالا تو ضيحات اگرچہ خزانے اور ديوار كے بارے ميں لائق اطمينان ہوں ليكن جو جوان مارا گيا اس كے بارے ميں مذكورہ وضاحتيں ظاہر قرآنى گفتگو سے مناسبت نہيں ركھتيں كيونكہ اس كے قتل كا قصدظاہرا اس كے آئندہ كا عمل قرار ديا گيا ہے نہ كہ موجودہ عمل _
كشتى كے بارے ميں بھى مذكورہ وضاحت كسى حدتك قابل بحث ہے _
لہذا ضرورى ہے كہ كوئي اور راہ اختيار كى جائے اور وہ يہ ہے : -->
<-- اسى جہان ميں ہميں دو نظاموں سے سابقہ پڑتا ہے ايك نظام تكوين ہے اور دوسرا نظام تشريع يہ دونوں نظام اگرچہ كلى اصول ميں تو ہم آہنگ ہيں ليكن كبھى ايسا ہوتا ہے كہ جزئيات ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے ہيں _
مثلا اللہ تعالى اپنے بندوں كى آزمائشے خوف، اموال وثمرات كے نقصان ، اپنى اور عزيزوں كى موت اور قتل كے ذريعے كرتا ہے تاكہ يہ معلوم ہوكہ كون شخص ان حوادث ومصائب پر صبر وشكيبائي اختيار كرتا ہے _
تو كيا كوئي فقيہ بلكہ كوئي پيغمبر ايسا كرسكتا ہے _يعنى اموال ونفوس، ثمرات اور امن كو ختم كركے لوگوں كو آزمائے ؟
يا كبھى ايسا ہوتا ہے كہ اللہ تعالى اپنے بعض نبيوں اور صالح بندوں كو خبر دار كرنے اور انہيں تنبيہ كرنے كے لئے كسى ترك اولى پر بڑى مصيبتوں ميں گرفتار كرتاہے جيسا كہ حضرت يعقوب مصيبت ميں گرفتار ہوئے اس بات پر كہ انہوں نے بعض مساكين كى طرف كم توجہ دى يا حضرت يونس كو ايك معمولى ترك اولى پر مصيبت ميں گرفتار ہونا پڑا تو كيا كوئي حق ركھتا ہے كہ كسى كو سزا كے طور پر ايسا كرے يا يہ كہ ہم ديكھتے ہيں كبھى اللہ تعالى كسى انسان كى ناشكرى كى وجہ سے اس سے كوئي نعمت چھين ليتا ہے مثلاً كوئي شخص مال ملنے پر شكر ادا نہيں كرتا تو اس كا مال دريا ميں غرق ہوجاتاہے يا صحت پر شكر ادا نہيں كرتا تو اللہ تعالى اس سے صحت لے ليتا ہے تو كيا فقہى اور شرعى قوانين كى رو سے كوئي ايسا كرسكتا ہے كہ ناشكرى كى وجہ سے كسى كا مال ضائع كردے اور اس كى مثاليں مجموعى طور پر ظاہر كرتى ہيں كہ جہان آفرينش خصوصا خلقت انسان اس احسن نظام پر استوار ہے كہ اللہ نے انسان كو كمال تك پہنچا نے كے لئے كچھ تكوينى قوانين بنائے ہيں كہ جن كى خلاف ورزى سے مختلف نتائج مرتب ہوتے ہيں حالانكہ قانوں شريعت كے لحاظ سے ہم ان قوانين پر عمل نہيں كرسكتے _
مثلاً كسى انسان كى انگلى ڈاكڑ اس لئے كاٹ سكتا ہے كہ زہراس كے دل كى طرف سرايت نہ كرجائے ليكن كيا كوئي شخص كسى انسان ميں صبر پيدا كرنے كے لئے يا كفران نعمت كى وجہ سے اس كى انگلى كاٹ سكتا ہے ؟(جبكہ يہ بات مسلم ہے كہ خدا ايسا كرسكتا ہے كيونكہ ايسا كرنا نظام احسن كے مطابق ہے )
اب جبكہ ثابت ہوگيا كہ ہم دو نظام ركھتے ہيں اور اللہ تعالى دونوں نظاموں پر حاكم ہے تو كوئي چيز مانع نہيں ہے كہ اللہ ايك گروہ كو نظام تشريعى كو عملى شكل دينے پر مامور كرے اورفرشتوں كے ايك گروہ يا بعض انسانوں كو (مثلا حضرت خضر كو )نظام تكوين كو عملى شكل دينے پر مامور كرے _
اللہ تعالى كے نظام تكوين كے لحاظ سے كوئي مانع نہيں كہ وہ كسى نابالغ بچے كو بھى كسى حادثے ميں مبتلا كر دے اور اس ميں اس كى جان چلى جائے كيونكہ ہوسكتا ہے اس كا وجود مستقبل كے لئے بہت بڑے خطرات كاباعث ہو، نيز كوئي مانع نہيں كہ اللہ -->
جيسا كہ ہم نے ديكھا ہے كہ حضرت خضر(ع) كانام صراحت كے ساتھ قرآن ميں نہيں ليا گيا اور حضرت موسى كے دوست اور استاد كا ذكر ان الفاظ ميں كيا گيا ہے :''ہمارے بندوں ميں سے ايك بندہ جسے ہم نے اپنى رحمت عطا كى اور جسے ہم نے اپنے علم سے نوازا''_اس تعارف ميں ان كے مقام عبوديت كا تذكرہ ہے اور ان كے خاص علم كو واضح كيا گيا ہے لہذا ہم نے بھى عالم كے طور پر ان كا زيادہ ذكر كيا ہے_
ليكن متعدد روايات ميں اس عالم كا نام''خضر''بتايا گيا ہے_بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ ان كا اصلى نام''بليا ابن ملكان''تھا اور''خضر''ان كا لقب تھاكيونكہ وہ جہاں كہيں قدم ركھتے ان كے قدموں كى بدولت زمين سر سبز ہوجاتى تھي_
<-- مجھے آج كسى سخت بيمارى ميں مبتلا كردے ، اس طرح سے كہ ميں گھرسے باہر نہ نكل سكوں كيونكہ وہ چاہتا ہے _
دوسرے لفظوں ميں اس عالم ميں مامورين كا ايك گروہ باطن پر مامور ہے اور ايك گروہ ظاہر پر مامور ہے جو باطن پر مامور ہيں ان كے لئے اپنے اصول وضوابط اور پروگرام ہيں اور جو ظاہر پر مارمور ہيں ان كے لئے اپنے خاص اصول وضوابط ہے_
يہ ٹھيك ہے كہ ان دونوں پر وگراموں كا اصلى اور كلى مقصد انسان كو كمال كى طرف لے جانا ہے اس لحاظ سے دونوں ہم آہنگ ہيں، شك نہيں كہ ان دونوں طريقوں ميں سے كسى ميں بھى كوئي خود سرى سے كوئي اقدام نہيں كرسكتا بلكہ ضرورى ہے كہ وہ حقيقى مالك وحاكم كى طرف سے مجاز ہو لہذا حضرت خضر عليہ السلام نے صراحت كے ساتھ اس حقيقت كو بيان كيا اور كہا:
ميںنے يہ كام حكم الہى كے مطابق اور اسى كے ضابطے اور طريقے كے مطابق انجام ديئےيں اس طرح ان اقدامات ميں جو ظاہرى تضاد نظر آتا ہے وہ ختم ہوجاتاہے _اور يہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ حضرت موسى حضرت خضر كے كاموں كو برداشت نہيں كرپاتے تھے تو يہ اسى بناء پر تھا كہ ان كى ماموريت اور ذمہ دارى كا طريقہ جناب خضر(ع) كى ذمہ دارى كے راستے سے الگ تھا لہذا جب انہوں نے حضرت خضر كاكام ظاہراً شرعى قوانين كے خلاف ديكھا تو اس پر اعتراض كيا ليكن خضر نے ٹھنڈے دل سے اپنا كام جارى ركھا اور چونكہ يہ دو عظيم خدائي رہبر مختلف ذمہ داريوں كى بناء پر ہميشہ كے لئے اكٹھے نہيںرہ سكتے تھے لہذا حضرت خضرا نے كہا :
''يہ اب ميرے اور تمہارے جدا ہونے كا مرحلہ آگيا ہے ''_
بعض نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ اس عالم كا نام''اليا(ع) س''ہے يہى سے يہ تصور پيدا ہوا كہ ہوسكتا ہے''الياس''اور''خضر''ايك ہى شخص كے دو نام ہوں ليكن مشہور و معروف مفسرين اور راويوں نے پہلى بات ہى بيان كى ہے_
واضح ہے كہ يہ بات كوئي خاص اہميت نہيں ركھتى كہ اس شخض كا نام كيا ہے_اہم بات يہ ہے كہ وہ ايك عالم ربانى تھے اور پروردگار كى خاص رحمت ان كے شامل حال تھي_وہ باطن اور نظا م تكوينى پر مامور تھے اور كچھ اسرار سے آگاہ تھے اور ايك لحاظ سے موسى (ع) بن عمران كے معلم تھے اگر چہ حضرت موسى عليہ السلام كئي لحاظ سے ان پر مقدم تھے_
يہ كہ وہ پيغمبر تھے يا نہيں_اس سلسلے ميں روايات مختلف ہيں_اصول كافى جلد اول ميں متعدد روايات ہيں كہ جو اس بات پر دلالت كرتى ہيں كہ وہ پيغمبر نہيں تھے بلكہ وہ''ذوالقرنين''اور''آصف ابن برخيا''كى طرح ايك عالم تھے_
جبكہ كچھ اور روايات ايسى بھى ہيں كہ جن سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ مقام نبوت كے حامل تھے اور زير نظر روايات ميں بھى بعض تعبيرات كا ظاہرى مفہوم بھى يہى ہے_كيونكہ ايك موقع پروہ كہتے ہيں:
''ميں نے يہ كام اپنى طرف سے نہيں كيا''_
ايك اور مقام پر كہتے ہيں:
''ہم چاہتے تھے كہ ايسا ہو''_
نيز بعض روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ ايك لمبى عمر كے حامل تھے_(1)
(1)يہاں ايك سوال سامنے آتا ہے_ وہ يہ كہ كيا اس عالم بزرگوار كا واقعہ يہوديوں اور عيسائيوں كى كتابوں ميں بھى ہے؟
سوال كا جواب يہ ہے:
اگر كتب سے مراد كتب عہدين(توريت و انجيل)ہيں،تو ان ميں تو نہيں ہے ليكن بعض يہودى علماء كى كتابيں كہ جو -->
حضرت موسى عليہ السلام اور حضرت خضر عليہ السلام كى داستان كى بنياد وہى ہے كہ جو كچھ قرآن ميں آيا ہے ليكن افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ اس سے منسلك كركے بہت سے افسانے گھڑلئے گئے ہيں_ ان افسانوں كو اس داستان كے ساتھ خلط ملط كرنے سے اصل داستان كى صورت بھى بگڑ جاتى ہے_ جاننا چاہئے كہ يہ كوئي پہلى داستان نہيں ہے كہ جس كے ساتھ يہ سلوك كيا گيا ہے اور بہت سى سچى داستانوں كے ساتھ يہى حال كيا گيا ہے_
لہذا حقيقت تك رسائي كے لئے قرآن كو بنياد قرار ديا جانا چاہئے جس ميں يہ داستا ن بيان ہوئي ہے_ يہاں تك كہ احاديث كو بھى اسى صورت ميں قبول كيا جاسكتا ہے جب وہ قرآن كے موافق ہوں_اگر كوئي حديث اس كے برخلاف ہو تو يقينا وہ قابل قبول نہيں ہے اور خوش قسمتى سے معتبر احاديث ميں ايسى كوئي حديث نہيں ہے_
پيغمبر اكرم (ص) سے منقول ہے:
''جس وقت موسى عليہ السلام خضر عليہ السلام سے ملے تو ايك پرندہ ان كے سامنے ظاہر ہوا_ اس نے پانى كا ايك قطرہ اپنى چونچ ميں ليا تو حضرت موسى عليہ السلام سے خضر عليہ السلام نے كہا:
جانتے ہو كہ پرندہ كيا كہتا ہے:
<-- گيارہويں صدى عيسوى ميں مدون ہوئي ہيں،ان ميں ايك داستان نقل ہوئي ہے كہ جو حضرت موسى عليہ السلام كى مذكورہ داستان سے كچھ مشابہت ركھتى ہے_اگر چہ اس داستان كے ہيرو''الياس''اور''يوشع بن لاوي''ہيں كہ جو تيسرى صدى عيسوى كے''تلمود''كے مفسرين ميں سے تھے_يہ داستان اور كئي پہلوئوں سے بھى موسى عليہ السلام و خضر عليہ السلام سے مختلف ہے_
مزيد وضاحت كے لئے تفسير نمونہ ج7ص171پر رجوع كريں_
موسى عليہ السلام نے كہا:كيا كہتا ہے؟
خضر عليہ السلام كہنے لگے: كہتا ہے:
''تيرا علم اور موسى كا علم، خدا كے علم كے مقابلے ميں اس قطرے كى طرح ہے جو ميں نے پانى سے چونچ ميں ليا ہے''_
وہ خزانہ كيا تھا؟
اس داستان كے بارے ميں ايك سوال اور بھى ہے اور وہ يہ كہ وہ خزانہ آخر كيا تھا جسے موسى عليہ السلام كے عالم دوست پوشيدہ ركھنا چاہتے تھے اور آخر اس با ايمان شخص يعنى يتيموں كے باپ نے يہ خزا نہ كيوں چھپا ديا تھا؟
بعض نے كہا ہے كہ وہ خزانہ مادى پہلو كى بجائے زيادہ معنوى پہلو ركھتا تھا_ بہت سى شيعہ سنى روايا ت كے مطابق وہ ايك تختى تھى جس پر حكمت آميز كلمات نقش تھے_ اس بارے ميں مفسرين ميں اختلاف ہے كہ وہ حكمت آميز كلمات كيا تھے_
كتاب كافى ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا:
يہ سونے چاندى كا خزانہ نہيں تھا_ يہ تو صرف ايك تختى تھى جس پر چار جملے ثبت تھے_
اللہ كے سوا كوئي معبود نہيں_
جو موت پر يقين ركھتا ہے وہ(بے ہودہ)نہيں ہنستا_
اور جسے اللہ كى طرف سے حساب كا يقين ہے(اوراسے جو ابدہى كى فكر ہے)وہ خوش نہيں رہتا_
اور جسے تقدير الہى كا يقين ہے وہ اللہ كے سوا كسى سے نہيں ڈرتا_