حضرتيوسف (ع) كے واقعہ كو بيان كرنے سے پہلے چند چيزوں كا بيان كرنا ضرورى ہے:
1_بے ہدف داستان پردازوں يا پست اور غليظ مقاصد ركھنے والوں نے اس اصلاح كنندہواقعہ كو ہوس بازوں كے لئے ايك عاشقانہ داستان بنانے اور حضرت يوسف عليہ السلاماو ران كے واقعات كے حقيقى چہرے كو مسخ كرنے كى كوشش كى ہے،يہاں تك كہ انھوں نےاسے ايك رومانى فلم بناكر پردہ سيميں پر پيش كرنا چاہا ہے ،ليكن قرآن مجيد نے كہجس كى ہر چيز نمونہ اور اسوہ ہے اس واقعے كے مختلف مناظرسے پيش كرتے ہوئے اعلىترين عفت وپاكدامني، خوداري، تقوى ،ايمان اور ضبط نفس كے درس دئے ہيں اس طرح سےكہ ايك شخص اسے جتنى مرتبہ بھى پڑھے ان قوى جذبوں سے متاثر ہوئے بغير نہيں رہسكتا_
اسىبنا پر قرآن نے اسے ''احسن القصص'' (بہترين داستان) جيسا خوبصورت نام ديا ہے اوراس ميں صاحبان فكرونظر كے لئے متعدد عبرتيں بيان كى ہيں_
2_اسواقعہ ميں غوروفكر سے يہ حقيقت واضح ہو تى ہے كہ قرآن تمام پہلو ئوں سے معجزہ ہےاور اپنے واقعات ميں جو ہيرو پيش كرتا ہے وہ حقيقى ہيرو ہو تے ہيں نہ كہ خيا لى_كہ جن ميں سے ہر ايك اپنى نو عيت كے
اعتبار سے بے نظير ہو تا ہے_
حضرت ابراہيم ،وہ بت شكن ہيرو ،جن كى روح بلند تھى اور جو طاغوتيوں كى كسى سازش ميںنہ آئے _
حضرت نو ح،طويل اور پر بر كت عمرميں _صبر واستقا مت،پا مردى اور دلسوزى كے ہيرو بنے_
حضرتمو سى وہ ہير و كہ جنہوں نے ايك سركش اور عصيان گر طاغوت كے مقابلے كے لئے ايكہٹ دھرم قوم كو تيار كرليا _
حضرتيوسف ;ايك خوبصورت ،ہو س باز اور حيلہ گر عورت كے مقابلے ميں پاكيز گى ، پارسائياور تقوى كے ہيرو بنے_
علاوہازيں اس واقعے ميں قرآنى وحى كى قدرت بيان اس طرح جھلكتى ہے كہ انسان حيرت زدہہو جاتا ہے كيونكہ جيسا كہ ہم جانتے ہيں كئي مواقع پر يہ واقعہ عشق كے بہت ہىباريك مسائل تك جا پہنچتاہے اور قرآن انہيں چھوڑ كر ايك طرف سے گزر ے بغير انتمام مناظر كو ان كى بار يكيوں كے سا تھ اس طرح سے بيان كرتا ہے كہ سا مع ميںذرہ بھر منفى اور غير مطلوب احساس پيدا نہيں ہوتا _قرآن تمام واقعات كے تن سےگزر تا ہے ليكن تمام مقامات پر تقوى وپاكيزگى كى قوى شعاعوں نے مباحث كا احا طہكيا ہوا ہے _
3_اس ميں شك نہيں كہ قبل از اسلام بھى داستان يوسف لوگوں ميں مشہور تھى كيو نكہ توريت ميں سفر پيد ائشے كى چو دہ فصلوں (فصل 37تا 50) ميں يہ واقعہ تفصيل سےمذكورہے _البتہ ان چودہ فصلوں كا غور سے مطا لعہ كيا جا ئے تو يہ بات ظاہر ہو تىہے كہ توريت ميں جو كچھ ہے وہ قرآن سے بہت ہى مختلف ہے _ان اختلافات كے موازنےسے معلوم ہو تا ہے كہ جو كچھ قرآن ميںآيا ہے وہ كس حد تك پيراستہ اور ہر قسم كےخرافات سے پاك ہے_ يہ جو قرآن پيغمبر سے كہتا ہے :''اس سے پہلے آپ كو علم نہيںتھا ،،اس عبرت انگيز داستا ن كى خالص واقعيت سے ان كى عدم آگہى كى طرف اشارہ ہے_(اگر احسن القصص سے مراد واقعہ يوسف ہو ) _
موجودہ توريت سے ايسا معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب نے جب حضرت يوسف كى خون آلود قميصديكھى تو كہا :''يہ ميرے بيٹے كى قبا ہے جسے جانور نے كھا ليا ہے يقينا يوسف چيرپھاڑڈالا گيا ہے _''
پھريعقوب نے اپنا گريبان چا ك كيا ٹاٹ اپنى كمر سے باند ھا اور مدت دراز تك اپنےبيٹے كے لئے گريہ كرتے رہے، تمام بيٹوں اور بيٹيوں نے انہيں تسلى دينے ميںكسراٹھا نہ ركھى ليكن انہيں قرار نہ آيا اور كہا كہ ميں اپنے بيٹے كے ساتھ اسىطرح غمزدہ قبر ميں جائوں گا _
جبكہقرآن كہتا ہے كہ حضرت يعقوب عليہ السلام اپنى فراست سے بيٹوں كے جھوٹ كو بھانپگئے اور انہوں نے اس مصيبت ميں داد وفرياد نہيں كى اور نہ اضطراب دكھا يا بلكہجيسا كہ انبياء عليہم السلام كى سنت ہے اس مصيبت كا بڑے صبر سے سا منا كيا اگرچہ ان كا دل جل رہا تھا، آنكھيں اشكبار تھيں، فطر ى طور پر كثرت گريہ سے ان كى بينائي جاتى رہى _ليكن قرآن كى تعبير كے مطابق انہوں نے صبر جميل كا مظاہرہ كيا اوراپنے اوپر قابو ركھا (كظيمہ) انہوں نے گريبان چاك كر نے ، دادو فرياد كرنے اورپھٹے پرا نے كپڑے پہنے سے گريز كيا جو كہ عزادارى كى مخصوص علامات تھيں _
بہرحال اسلام كے بعد بھى يہ واقعہ مشرق مغرب كے مو رخين كى تحريروں ميں بعض اوقاتحاشيہ آرائي كے ساتھ آيا ہے فارسى اشعار ميں سب سے پہلے ''يوسف زليخا ،،كے قصےكى نسبت فردوسى كى طرف دى جاتى ہے اس كے بعد شہاب الدين عمق اور مسعودى قمى كى''يوسف زليخا''ہے اور ان كے بعد نويں صدى كے مشہور شاعر عبدالرحمن جامى كي''يوسف زليخا ''ہے _
4_قرانميں داستان يوسف كو شروع كرتے ہوئے خدافرماتا ہے:''ہم اس قران كے ذريعہ (جو اپپر وحى ہوتى ہے )،كے ذريعہ ''احسن القصص ''بيان كرتے ہيں ''_(1)
(1)سورہيوسف آيت3
يہواقعہ كيسے بہترين نہ ہو جب كہ اس كے ہيجان انگيز پيچ وخم ميں زندگى كے اعلى ترين دروس كى تصوير كشى كى گئي ہے _اس واقعے ميں ہر چيز پر خدا كے اراد ے كىحاكميت كا ہم اچھى طرح مشاہدہ كرتے ہيں _
حسدكرنے والوں كا منحوس انجام ہم اپنى آنكھوں سے ديكھتے ہيں اوران كى سازشوں كونقشبر آب ہو تے ہو ئے ديكھتے ہيں _
بےعفتى كى عارو ننگ اور پارسا ئي وتقوى كى عظمت وشكوہ اس كى سطور ميں ہم مجسم پاتےہيںكنويں كى گہرائي ميں ايك ننھے بچے كى تنہائي، زندان كى تاريك كو ٹھرى ميں ايكبے گناہ قيدى كے شب وروز ، ياس ونا اميدى كے سياہ پردوں كے پيچھے نو ر اميد كىتجلى اور آخر كار ايك وسيع حكو مت كى عظمت وشكوہ كہ جو آگاہ ہى وامانت كا نتيجہہے يہ تمام چيز يں اس داستان ميں انسان كى آنكھوں كے سامنے سا تھ سا تھ گزر تىہيں _
وہلمحے كہ جب ايك معنى خيز خواب سے ايك قوم كى سر نوشت بدل جاتى ہے _
وہوقت كہ جب ايك قوم كى زندگى ايك بيدا ر خدا ئي زمام دار كے علم وآگہى كے زير سايہ نابودى سے نجات پاليتى ہے _
اورايسے ہى دسيوں درس ، جس داستا ن ميں مو جود ہوں وہ كيوں نہ ''احسن القصص''ہو _
البتہيہى كافى نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام كى داستان ''احسن القصص'' ہے اہم بات يہہے كہ ہم ميںيہ لياقت ہو كہ يہ عظيم درس ہمارى روح ميں اتر جائے_
بہتسے ايسے لوگ ہيں جو حضرت يوسف (ع) كے واقعہ كو ايك اچھے رومانوى واقعہ كے عنوانسے ديكھتے ہيں، ان جا نو روں كى طرح جنھيں ايك سر سبز وشاداب اور پھل پھو ل سےلدے ہوئے باغ ميں صرف كچھ گھا س نظر پڑتى ہے كہ جو ان كى بھو ك كو زائل كردے _
ابھىتك بہت سے ايسے لوگ ہيں كہ جو اس داستا ن كو جھو ٹے پر وبال دے كر كوشش كرتے ہيںكہ اس سے ايك سيكسى (sexsi)داستان بنا ليںجب كہ اس واقعہ كے لئے يہ بات نا شائستہ ہے اور اصل داستان ميں تمام اعلى انسانى قدر يں جمع ہيں آئند ہ صفحات ميں ہم ديكھيں گے كہ اس واقعہ كے جامع خو
بصورت پيچ وخم كو نظر اندازكر كے نہيں گزرا جاسكتا ايك شاعر شيريں سخن كے بقول :
''كبھىكبھى اس داستان كے پر كشش پہلوئوں كى مہك انسا ن كو اس طرح سر مست كر ديتى ہے كہوہ بے خود ہو جاتا ہے_''
حضرتيوسف عليہ السلام كے واقعے كا آغاز قرآن ان كے عجيب اور معنى خيز خواب سے كرتاہے كيونكہ يہ خواب دراصل حضرت يوسف كى تلا طم خيز زندگى كا پہلاموڑ شمار ہو تاہے _
ايكدن صبح سوير ے آپ بڑے شوق اور وار فتگى سے باپ كے پاس آئے اور انہيں ايك نيا واقعہسنا يا جو ظا ہر اً كو ئي زيادہ اہم نہ تھا ليكن درحقيقت ان كى زندگى ميں ايكتازہ با ب كھلنے كا پتہ دے رہا تھا _
''يوسف نے كہا :ابا جان :
''ميںنے كل رات گيا رہ ستاروں كو ديكھا كہ وہ آسمان سے نيچے اتر ئے سورج اور چاندانكے ہمراہ تھے ' سب كے سب ميرے پاس آئے اور مير ے سامنے سجدہ كيا _''(1)
حضرتيوسف (ع) نے يہ خواب شب جمعہ ديكھا تھا كہ جو شب قدر بھى تھى (وہ رات جو مقدراتكے تعين كى رات ہے ) _
يہاںپر سوال يہ پيد ا ہوتا ہے كہ حضرت يوسف نے جب يہ خواب ديكھا اس وقت آپ كى عمركتنے سال تھى 'اس سلسلے ميں بعض نے نو سال' بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سالعمر لكھى ہے جو بات مسلم ہے وہ يہ ہے كہ اس وقت آپ بہت كم سن تھے _
اسہيجان انگيز اور معنى خيز خواب پر خدا كے پيغمبر يعقوب فكر ميں ڈوب گئے كہ سورج،چاند اور آسمان كے گيارہ ستارے ،وہ گيا رہ ستارہ نيچے اترے اور ميرے بيٹے يوسفكے سامنے سجدہ ريز ہو گئے _
(1) سورہيوسف آيت 4
يہكس قدر معنى آفر يں ہے يقينا سورج اور چاند ميں اور اس كى ماں (يامَيں اور اس كىخالہ ) ہيں اور گيارہ ستارے اس كے بھائي ہيں ميرے بيٹے كى قدر ومنزلت اور مقاماس قدر بلند ہو گا كہ آسمان كے ستارے ، سورج اور چاند اس كے آستا نہ پر جبيںسائي كريں گے يہ بار گاہ الہى ميں اس قدر عزيز اور باوقار ہو گا كہ آسمان والےبھى اس كے سامنے خضوع كريں گے كتنا پر شكوہ اور پر كشش خواب ہے _
لہذاپريشانى اور اضطراب كے انداز ميں كہ جس ميں ايك مسرت بھى تھى ،اپنے بيٹے سے كہنےلگے ''ميرے بيٹے :اپنا يہ خواب بھائيوں كو نہ بتانا،كيو نكہ وہ تيرے خلا ف خطرناك سازش كريں گے ،ميں جانتا ہوںكہ شيطان انسا ن كا كھلا دشمن ہے _( 2)
وہمو قع كى تاڑميں ہے تا كہ اپنے وسوسو ں كا آغاز كرے ، كينہ وحسد كى آگ بھڑ كا ئےيہا ں تك كہ بھا ئيوں كو ايك دوسرے كا دشمن بنادے_ ليكن يہ خواب صرف مستقبل ميںيو سف كے مقام كى ظاہرى ومادى عظمت بيان نہيں كرتا تھا بلكہ نشا ندہى كرتا تھاكہ وہ مقام نبوت تك بھى پہچنيں گے كيونكہ آسمان والو ں كا سجدہ كرنا آسمانى مقامكے بلند ى پر پہنچنے كى دليل ہے اسى لئے تو ان كے پدر بزر گوار حضرت يعقوب نےمزيد كہا : اور اس طر ح تير ا پرور دگار تجھے منتخب كرے گا _'' اور تجھے تعبيرخواب كا علم دے گا اور اپنى نعمت تجھ پر اور آل يعقوب(ع) پر تمام كرے گا ،جيسےاس نے قبل از يان تيرے باپ ابراہيم عليہ السلام اور اسحاق(ع) پر تمام كى ہاںتيرا پروردگار عالم ہے اور حكمت كےمطابق كام كرتاہے_''(3)
يہاںسے يوسف(ع) كے بھائيوں كى يوسف(ع) كے خلاف سازش شروع ہو تى ہے ،قران ميں ان بہتسے اصلا حى دروس كى طرح اشارہ كيا گيا ہے جو اس داستا ن ميں موجود ہيں ،ارشادہوتا ہے :''يقينا يوسف اور اس كے بھائيوں كى داستا ن ميں سوال كرنے والوں كے لئےنشانياں تھيں _''(4)
(1)سورہيوسف آيت 5
(2)سورہيوسف آيت 5
(3)سورہيوسف آيت 6
(4)سورہيوسف آيت 7
اسسے بڑھ كر اوركيا درس ہوگا كہ چند طاقتور افراد ايك سو چے سمجھے منصوبے كے تحتكہ جس كا سر چشمہ حسد تھا'ظاہراً ايك كمزور اور تنہا شخص كو نابود كرنے كے لئےاپنى تمام تر كو شش صرف كرتے ہيں مگر اس كام سے انہيں خبر نہيں ہو تى كہ وہ اسےايك حكومت كے تخت پر بٹھا رہے ہيں اور ايك وسيع مملكت كا فرماں روا بنا رہے ہيںاور آخر كا وہ سب اس كے سامنے سر تعظيم وتسليم خم كرتے ہيں يہ امر نشاند ہى كرتاہے كہ جب خدا كسى كام كا ارادہ كرتا ہے تو وہ اتنى طاقت ركھتا ہے كہ اس كا م كواس كے مخالفين كے ہا تھوں پايہ تكميل تك پہنچا دے تا كہ يہ واضح ہوجائے گا كہايك پاك اور صاحب ايمان انسان اكيلا نہيں ہے اور اگر سارا جہان اس كى نا بودى پركمر باند ھ لے ليكن خدا نہ چاہے تو كوئي اس كا بال بھى بيكا نہيں كرسكتا _
حضرتيعقوب(ع) كے بارہ بيٹے تھے ان ميں يو سف اور بنيا مين ايك ماں سے تھے ان كىوالدہ كا نام ''راحيل'' تھا يعقوب (ع) ان دونوں بيٹوں سے خصوصاًيو سف سے زيا دہمحبت كرتے تھے كيونكہ ايك تو يہ ان كے چھوٹے بيٹے تھے لہذا فطرتاً زيادہ تو جہاور محبت كے محتاج تھے اور دوسرا ان كى والدہ ''راحيل''فوت ہو چكى تھيں اس بنا ءپر بھى انہيں زيادہ تو جہ اور محبت كى ضرورت تھى علاوہ ازيںخصوصيت كے سا تھ حضرتيوسف ميں نا بغہ اور غير معمولى شخصيت ہونے كے آثار نمايا ں تھے؟ مجمو عى طور پران سب باتو ں كى بنا ء پر حضرت يعقوب واضح طور پر ان سے زيادہ پيار محبت كابرتائو كرتے تھے _
حاسدبھا ئيوں كى تو جہ ان پہلوئوںكى طرف نہيں تھى اور وہ اس پر بہت نا راحت اورناراض تھے_ خصوصاًشايد مائوں كے الگ الگ ہونے كى وجہ سے بھى فطر تاً ان ميںرقابت مو جود تھى لہذا وہ اكٹھے ہو ئے اور كہنے لگے : يو سف اور اس كے بھا ئي كوباپ ہم سے زيادہ پيار كرتا ہے حالانكہ ہم طاقتور اور مفيد لوگ ہيں_''(1)
اورباپ كے امور كو بہتر طور پر چلا سكتے ہيں اس لئے اسے ان چھوٹے بچوں كى نسبت ہمسے زيادہ محبت كرنا چاہئے جب كہ ان سے تو كچھ بھى نہيںہو سكتا ،اس طرح يك طرفہفيصلہ كرتے ہو ئے انہوں نے اپنے باپ كے خلاف كہا كہ'' ہمارا باپ واضح گمراہى ميںہے_'' ( 2)
(1)سورہيوسف آيت 8
(2)سورہيوسف آيت 8
حسداور كينے كى آگ نے انہيں اجازت نہ دى كہ وہ معا ملے كے تمام اطراف پر غور وفكركرتے اور ان دو بچوں سے اظہار محبت پر باپ كے دلائل معلوم كرتے كيو نكہ ہميشہذاتى مفادات ہر شخص كى فكر پر پر دہ ڈال ديتے ہيں اور اسے يك طرفہ فيصلوں پرآمادہ كرديتے ہيں كہ جن كا نتيجہ حق وعدا لت كے راستے سے گمراہى ہے_البتہ ان كىمراد دين ومذہب كے اعتبار سے گمراہى نہ تھى كيو نكہ بعد ميں آنے والى گفتگونشاندہى كرتى ہيں كہ اپنے باپ كى عظمت او رنبوت پر ان كا عقيدہ تھا اور انہيںصرف ان كے طرز معا شر ت پر اعتراض تھا _
بغض،حسد اور كينے كے جذبات نے آخر كار بھا ئيوںكو ايك منصوبہ بنا نے پر آمادہ كياوہ ايك جگہ جمع ہو ئے اور دو تجاو يزاان كے سامنے تھيں كہنے لگے :''يا يوسف كوقتل كردو يا اسے دور دراز كے كسى علاقے ميں پھينك آئو تا كہ باپ كى محبت كا پورارخ ہما رى طرف ہو جائے ''_(1)
يہٹھيك ہے كہ اس كا م پر تمہيں احساس گناہ ہو گا اور وجدان كى ندامت ہو گى كيو نكہاپنے چھو ٹے بھا ئے پر يہ ظلم كرو گے ليكن اس گناہ كى تلافى ممكن ہے ،تو بہ كرلينا'' اور اس كے بعد صالح جمعيت بن جانا ''_(2)
ليكنبھائيوں ميں سے ايك بہت سمجھدار تھا يا اس كا ضمير نسبتاًزيادہ بيدارتھا اسى لئےاس نے يوسف(ع) كو قتل كرنے كے منصوبے كى مخالفت كى اور اسى طرح كسى دور درازعلاقے ميں پھينك آنے كى تجويز پيش كي،كيونكہ اس منصوبے ميں يوسف(ع) كى ہلاكت كاخطرہ تھا_ اس نے ايك تيسرا منصبوبہ پيش كيا،وہ كہنے لگا:''اگر تمہيں ايسا كا مكرنے پر اصرار ہى ہے تو يوسف(ع) كو قتل نہ كرو بلكہ اسے كسى كنويں ميں پھينكدو(اس طرح سے كہ وہ زندہ رہے)تا كہ راہ گزاروں كے كسى قافلے كے ہاتھ لگ جائے اوروہ اسے اپنے ساتھ لے جائيں اور اس طرح يہ ہمارى اور باپ كى آنكھوں سے دور ہوجائے _(3)
(1)سورہيوسف آيت 9
(2)سورہيوسف آيت 9
(3)سورہيوسف آيت10
يوسف(ع) كے بھائيوں نے جب يوسف كو كنويں ميں ڈالنے كى آخرى سازش پر اتفاق كرليا تويہ سوچنے لگے كہ يوسف كو كس طرح لے كر جائيں لہذا اس مقصد كے لئے انہوں نے ايكاور منصوبہ تيار كيا اس كے لئے وہ باپ كے پاس آئے اور اپنے حق جتا نے كے انداز ميں،نرم ونازك لہجے ميں محبت بھرے شكو ے كى صورت ميں كہنے لگے :''ابا جان :آپ يو سفكو كيوںكبھى اپنے سے جدا نہيں كرتے اور ہما رے سپر د نہيں كر تے آپ ہميں بھائيكے بارے ميںامين كيوں نہيںسمجھتے حالا نكہ ہم يقينا اس كے خير خوا ہ ہيں ''_(1)
آيئے:جس كا آپ ہميں متہم سمجھتے ہيں اسے جانے ديجئے ،علا وہ ازيں ہمارا بھائي نو عمرہے، اس كا بھى حق ہے 'اسے بھى شہر سے باہر كى آزاد فضا ميں گھو منے پھر نے كىضرورت ہے 'اسے گھر كے اندر قيد كردينا درست نہيں ،كل اسے ہمارے سا تھ بھيجئے تاكہ يہ شہر سے باہر نكلے ،چلے پھر ے، درختوں كے پھل كھا ئے ،كھيلے كو دے اور سيرو تفريح كرے ''_(2)
اوراگر آپ كو اس كى سلامتى كا خيال ہے اور پريشانى ہے ''تو ہم سب اپنے بھائي كے محافظ ونگہبان ہوں گے ''_(3)
كيونكہ آخر يہ ہمارا بھائي ہے اور ہمارى جان كے برابر ہے _اس طرح انہو ں نے بھائيكو باپ سے جدا كرنے كا بڑاماہر انہ منصوبہ تيار كيا ،ہو سكتا ہے انہوں نے يہباتيں يوسف كے سا منے كى ہوں تا كہ وہ بھى باپ سے تقاضا كريں اور ان سے صحرا كىطرف جا نے كى اجازت لے ليں _
اسمنصوبہ ميں ايك طرف باپ كے لئے انہوں نے يہ مشكل پيدا كر دى تھى كہ اگر وہ يوسفكو ہمارے سپر د نہيں كرتے تو يہ اس امر كى دليل ہے كہ ہميں متہم سمجھتے ہيںاوردوسرى طرف كھيل كو د اور سير وتفريح كے لئے شہر سے باہر جانے كى يوسف كے لئےتحريك تھى _
(1)سورہيوسف آيت 11
(2)سورہيوسف آيت 12
(3)سورہيوسف آيت 12
كنعان كے بھيڑئے
حضرتيعقوب عليہ السلام نے برادران يو سف كى باتوں كے جواب ميں بجائے اس كے كہ انہيںبرے ارادے كا الزام ديتے، كہنے لگے كہ ميں جو تمہارے ساتھ يوسف كو بھيجنے پرتيار نہيں ہوں تو اس كى دو وجوہ ہيں :''پہلى يہ كہ يوسف كى جدا ئي مير ے لئے غمانگيز ہے ''_(1)اور دوسرى يہ كہ ہو سكتا ہے كہ ان كے ارد گرد كے بيابانوں ميں خونخوار بھيڑئے ہوں ''اور مجھے ڈر ہے كہ مبادا كوئي بھيڑيا ميرے فرزند دلبند كوكھا جائے اور تم اپنے كھيل كود ،سير و تفريح اور دوسرے كامو ں ميں مشغول رہو''_(2)
يہبالكل فطرى امر تھا كہ اس سفر ميں بھائي اپنے آپ ميں مشغول ہوں اور اپنے چھو ٹےبھا ئي سے غافل ہوں اور بھيڑ يوں سے بھرے اس بيابان ميں كوئي بھيڑيا يوسف كواٹھائے البتہ بھائيوں كے پا س باپ كى پہلى دليل كا كوئي جواب نہ تھا كيو نكہ يوسف كى جدا ئي كا غم ايسى چيز نہ تھى كہ جس كى وہ تلافى كر سكتے بلكہ شايد اس باتنے بھا ئيوں كے دل ميں حسد كى آگ كو اور بھڑكا ديا ہو _
دوسرىطرف بيٹے كو باہر لے جانے كے بارے ميں باپ كى دليل كا جواب تھا كہ جس كے ذكر كىچندا ں ضرورت نہ تھى اور وہ يہ كہ آخر كار بيٹے كو نشوو نما اور تر بيت كے لئےچاہتے يا نہ چاہتے ہوئے باپ سے جدا ہو نا ہے اور اگر وہ ''نورستہ ''كے پودے كىطرح ہميشہ باپ كے زير سايہ رہے تو نشوو نما نہيں پاسكے گا اور بيٹے كے تكا ملوار تقا ء كے لئے باپ مجبور ہے كہ يہ جدا ئي بردا شت كرے آج كھيل كو د ہے كلتحصيل علم و دانش ہے پر سوں زندگى كے لئے كسب وكار اور سعى وكو شش ہے اخر كا رجدا ئي ضرورى ہے _
لہذااصلاً انہوں نے اس كا جواب نہيں ديا بلكہ دوسرى دليل كا جواب شروع كيا كہ جو انكى نگاہ ميں اہم اور بنيا دى تھى اور كہنے لگے : ''كيسے ممكن ہے كہ ہمارے بھائيكو بھيڑ يا كھاجائے حالانكہ ہم طا قتور لوگ ہيں اگر ايسا ہو جائے تو ہم زياں كاروبد بخت ہوں گے ''(3)
(1)سورہيوسف آيت 13
(2)سورہيوسف آيت 13
(3)سورہيوسف آيت 14
يعنىكيا ہم مردہ ہيں كہ بيٹھ جائيں اور ديكھتے رہيں گے اور بھيڑ يا ہمارے بھائي كوكھا جائےگا ،بھا ئي كو بھائي سے جو تعلق ہو تا ہے اس كے علاوہ جو بات اس كىحفاظت پر ہميں ابھارتى ہے يہ ہے كہ ہمارى لوگوں ميں عزت وآبرو ہے ،لوگ ہمارےمتعلق كيا كہيں گے ،يہى نا كہ طاقتور مو ٹى گر دنوں والے بيٹھے رہے اور اپنےبھائي پر بھيڑئے كو حملہ كرتے ديكھتے رہے كيا پھر ہم لوگوں ميں جينے كے قابلرہيں گے _(1)
انہوںنے ضمناً باپ كى اس بات كا بھى جواب ديا كہ ہو سكتا ہے تم كھيل كود ميں لگ جائواور يوسف سے غافل ہو جائواور وہ يہ كہ يہ مسئلہ گو يا سارى دولت اور عزت وآبروكے ضا ئع ہو نے كا ہے ايسا مسئلہ نہيں ہے كہ كھيل كود ہميں غافل كردے كيو نكہ اسصورت ميں ہم لوگ بے وقعت ہوجائيں گے اور ہمارى كوئي قدر وقيمت نہيں ہو گى _
بہرحال انہوں نے بہت حيلے كئے خصو صا ًحضر ت يو سف كے معصوم جذ بات كو تحريك كيااورانہيں شوق دلا يا كہ وہ شہر سے باہر تفر يح كے لئے جائيں اور شايد يہ ان كے لئےپہلا مو قع تھا كہ وہ باپ كو اس كے لئے راضى كريں اور بہر صورت اس كام كے لئے انكى رضا مندى حاصل كريں _
يہاحتمال بھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھىاور ان كى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے
()يہاں يہسوال سامنے اتا ہے كہ تمام خطرات ميں سے حضرت يعقو ب (ع) نے صرف بھيڑئے كے حملےكے خطرے كى نشاندہى كيوں كى تھى _
بعض كہتےہيں كہ كنعان كا بيابان بھيڑيوں كا مركز تھا ،اس لئے زيادہ خطرہ اسى طرف سےمحسوس ہوتا تھا _
بعض ديگركہتے ہيں كہ يہ ايك خواب كى وجہ سے تھا كہ جو حضرت يعقوب عليہ السلام نے پہلےديكھاتھا كہ بھيڑيوں نے ان كے بيٹے يوسف پر حملہ كر ديا ہے _
يہ احتمالبھى ذكر كيا گيا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) نے كنائے كى زبان ميں بات كى تھى اور انكى نظر بھيڑيا صفت انسانوں كى طرف تھى ،جيسے يوسف كے بعض بھائي تھے
روتے ہوئے جناب يوسف(ع) كو وداع كيا
آخركاربھائي كامياب ہوگئے_انہوں نے باپ كو راضى كرليا كہ وہ يوسف(ع) كو ان كے ساتھبھيج دے_ وہ رات انہوں نے اس خوش خيالى كے ساتھ گزارى كہ كل يوسف(ع) كے بارے ميںان كا منصوبہ عملى شكل اختيار كرے گا اور راستے كى ركاوٹ اس بھائي كو ہميشہ كےلئے راستے سے ہٹاديں گے_پريشانى انہيں صرف يہ تھى كہ باپ پشيمان نہ ہور اور اپنىبات واپس نہ لے لے_
صبحسويرے وہ باپ كے پاس گئے اور يوسف(ع) كى حفاظت كے بارے ميں باپ نے ہداياتدہرائيں_ انہوں نے بھى اظہار اطاعت كيا_ باپ كے سامنے اسے بڑى محبت و احترام سےاٹھايا اور چل پڑے_
كہتےہيں شہر كے دروازے تك باپ ان كے ساتھ آئے اور آخرى دفعہ يوسف(ع) كو ان سے لے كراپنے سينے سے لگايا_ آنسو ان كى آنكھوں سے برس رہے تھے_ پھر يوسف(ع) كو ان كےسپرد كركے ان سے جدا ہوگئے ليكن حضرت يعقوب(ع) كى آنكھيں اسى طرح بيٹوں كے پيچھےتھيں_ جہاں تك باپ كى آنكھيں كام كرتى تھيں وہ بھى يوسف(ع) پر نوازش اور محبتكرتے رہے ليكن جب انہيں اطمينان ہوگيا كہ اب باپ انہيں نہيں ديكھ سكتا تو اچانكانہوں نے آنكھيں پھير ليں_ سالہاسال سے حسد كى وجہ سے جو ان كے اندرتہ بہ تہ بغضو كينہ موجود تھا وہ حضرت يوسف(ع) پر نكلنے لگا_ ہر طرف سے اسے مارنے لگے وہ ايكسے بچ كر دوسرے كى پناہ ليتے ليكن كوئي انہيں پناہ نہ ديتا_
ايكروايت ميں ہے كہ اس طوفان بلاء ميں حضرت يوسف آنسوبہار ہے تھے اور جب وہ انہيںكنويں ميں پھينكنے لگے تواچانك حضرت يوسف ہنسنے لگے ،بھا ئيوں كو بہت تعجب ہوايہ ہنسنے كا كو نسا مقام ہے گو يا يوسف نے اس مسئلے كو مذاق سمجھا ہے اور بات سےبے خبر ہے كہ سياہ وقت اور بدبختى اس كے انتظار ميں ہے
ليكن يوسف (ع) نے اس ہنسنےكے مقصد سے پردہ اٹھا يا اور سب كو عظيم در س ديا ،وہ كہنے لگے :
''ميںنہيں بھو لتا كہ ايك دن تم طاقتور بھا ئيوں ،تمہارے قوى بازووں اور بہت زيادہجسمانى طاقت پر ميں نے نظر ڈالى تو ميں بہت خو ش ہوا اور ميں نے اپنے آپ سے كہاكہ جس كے اتنے دوست اور مدد گار ہوں اسے سخت حوادث كا كيا غم ہے اس دن ميں نے تمپر بھر وسہ كيا اور پناہ ليتا ہوں اور تم مجھے پناہ نہيں ديتے خدا نے تمہيں مجھ پرمسلط كيا ہے تا كہ ميں يہ درس سيكھ لوں كہ اس كے غير پر يہاں تك كہ بھائيوں پربھى بھروسہ نہ كروں ''؟
اسكے آگے قران مزيدكہتا ہے:''اس وقت ہم نے يوسف (ع) كى طرف وحى بھيجى ،اسے تسلى دىاور اس كى دلجوئي كى اور اس سے كہا كہ غم نہ كھاو ''ايك دن ايسا ائے گا كہ تمانھيں ان تمام منحوس سازشوں اور منصوبوں سے اگاہ كروگے اور وہ تمہيں پہچان نہيںسكيں گے''_(1)
وہدن كہ جب تم تخت حكو مت پر تكيہ لگا ئے ہو گے اور تمہارے يہ بھائي تمہارى طرفدست نياز پھيلا ئيں گے اور ايسے تشنہ كامو ں كى طرح كہ جو چشمئہ خوش گواركى تلاشميں تپتے ہوئے بيابان ميں سرگر داں ہوتے ہيں تمہارے پاس بڑے انكسار اور فروتنىسے آئيں گے ليكن تم اتنے بلند مقام پر پہنچے ہوں گے كہ انہيں خيال بھى نہ ہو گاكہ تم ان كے بھائي ہو اس روز تم ان سے كہو گے كہ كيا تم ہى تھے جنہوں نے اپنےچھو ٹے بھائي يو سف كے سا تھ يہ سلو ك كيا اور اس دن يہ كس قدر شرمسار اورپشيمان ہوں گے _(2)
اسنكتہ كى طرف توجہ ضرورى ہے كہ انھوں نے اتفاق كيا كہ اسے كنويں كى مخفى جگہ پرڈال ديں يہ جملہ اس بات كى دليل ہے كہ انھوں نے حضرت يوسف (ع) كو كنويں ميںپھينكا نہيں تھا بلكہ نيچے لے گئے تھے ،كنويں كي
(1)سورہيوسف آيت15
(2) سورہيوسف كى آيت 22 كے قرينے سے معلوم ہو تا ہے كہ يہ وحى الہى وحى نبوت نہ تھى بلكہيو سف كے دل پر الہام تھا تا كہ وہ جان لے كہ وہ تنہا نہيں ہے اور اس كا ايكحافظ ونگہبان ہے، اس وحى نے قلب يو سف پر اميد كى ضيا پا شى كى اور يا س ونااميد كى تاريكيو ں كو اس كى روح سے نكال ديا _
تہ ميں ايك چبوترا سا نيچےجانے والوں كے لئے بنايا جاتا ہے اور سطح اب كے قريب ہوتا ہے انھوں نے حضرت يوسف(ع) كى كمر ميں طناب ڈال كر وہاں تك پہنچا يا اور وہاں چھوڑديا_
يہنكتہ بھى قا بل تو جہ ہے كہ جس وقت حضرت يو سف كے بھا ئيو ں نے انہيں كنويں ميںپھينكا تو ان كا كرتہ اتار ليا اور ان كا بدن برہنہ ہو گيا تو يوسف(ع) نے بہتدادو فرياد كى كہ كم از كم مير ا كرتہ تو مجھے دے دو تا كہ اگر ميں زندہ رہو ںتوميرا بدن ڈھا پنے اور اگر مر جائوں تو ميرا كفن بن جائے_ بھائي كہنے لگے :اسىسورج ،چاند اور ستاروں سے كہہ جنہيں خواب ميں ديكھا تھا، تقاضا كرو كہ اس كنويںميں تيرے مونس وغمخوار ہو ں اور تجھے لباس پہنائيں_
يوسف(ع) كے بھا ئيوں نے جو منصوبہ بناركھا تھا اس پر انہوں نے اپنى خواہش كے مطابق عمل كر ليا_ ليكن آخر كار انہيں واپس لوٹنے كے بارے ميں سوچنا تھا كہ جا كركوئي ايسى بات كريں كہ باپ كو يقين آجائے كہ يو سف كسى سازش كے تحت نہيں بلكہطبيعى طور پر وادى عدم ميں چلا گيا ہے اور اس طرح وہ باپ كى نوازشات كو اپنىجانب مو ڑسكيں _
قرآنكہتا ہے :''رات كے وقت بھائي روتے ہوئے ائے''_(1)
انكے جھوٹے آنسوئوں اور ٹسوے بہانے سے ظاہر ہو تا ہے كہ جھو ٹا رونا بھى ممكن ہےاور صرف روتى ہوئي آنكھ سے دھو كا نہيں كھانا چاہئے_
باپجو بڑى بے تا بى اور بے قرارى سے اپنے فرزند دلبند يو سف كى واپسى كے انتظار ميںتھا اس نے جب انہيں واپس آتے ديكھا اور يوسف ان ميں دكھائي نہ ديا تو وہ لرز گئےاور كا نپ اٹھے _حالات پوچھے
(1)سورہيوسف آيت 16
تو انہوں نے كہا :''اباجانہم گئے اور ہم (سوارى اورتير اندازى كے) مقابلوں ميں مشغول ہوگئے اور يوسف كہچھوٹا تھا اور ہم سے مقا بلہ نہيں كر سكتا تھا ہم اسے اپنے سامان كے پاس چھوڑگئے،اس كا م ميں ہم اتنے محو ہو گئے كہ ہر چيز يہا ں تك كہ بھا ئي كو بھى بھول گئے،اس اثنا ميں ايك بے رحم بھيڑيا اس طرف آپہنچا اور اس نے اسے چير پھا ڑ كھا يا''_(1)''ليكن ہم جانتے ہيں كہ تم ہر گز ہمارى باتوں كا يقين نہيں كرو گے اگر چہہم سچے ہوںكيو نكہ تم نے پہلے ہى اس قسم كى پيش بينى كى تھى لہذ ا اسے بہانہسمجھو گے _''(2)
بھائيوںكى با تيں بڑى سو چى سمجھى تھيں پہلى با ت يہ كہ انہوں نے باپ كو يا''اے ہمارےوالد ''كے لفظ سے مخاطب كيا كہ جس ميں ايك جذباتى پہلو تھا _دو سرى بات يہ ہے كہفطرى طورپر ايسى تفريح گاہ ميں طاقتور بھائي بھا گ دوڑ ميں مشغول ہوں گے اور چھوٹے كو سامان كى نگہداشت پر مقرر كريں گے اور اس كے علاوہ انہوں نے باپ كو غفلتميں ركھنے كے لئے ايك قدم اور آگے بڑ ھا يا اور روتى ہوئي آنكھوں سے كہا كہ تمہر گز يقين نہيں كرو گے اگر چہ ہم سچ بول رہے ہوں نيز اس بنا ء پر كہ باپ كو ايكزند ہ نشا نى بھى پيش كريں ''وہ يو سف كى قميض كو جھوٹے خون ميں تر كئے ہو ئےتھے ''_(3)(وہ خون انہوں نے بكرى يا بھيڑكے بچے يا ہرن كا لگا ركھا تھا )_''
ليكن''درد غ گو حافظہ ندارد''اورايك حقيقى واقعہ كے مختلف پہلو ہو تے ہيں اور اس كےمختلف كو ائف اور مسائل ہوتے ہيں ،ايسا بہت كم ہو تا ہے كہ ان سب كو ايك فرضىكہانى ميں سمو يا جاسكے لہذا برادران يو سف بھى اس نكتے سے غا فل رہے كہ كم ازكم يو سف كے كر تے كو چند جگہ سے پھاڑ ليتے تاكہ وہ بھيڑ ئے كے حملے كى دليل بنسكے وہ بھا ئي كى قميص كو اس كے بدن سے صحيح سالم اتار كر خون آلود كر كے با پكے پاس لے آئے، سمجھدا ر اور تجربہ كا ر باپ كى جب اس كر تے پر نگاہ پڑى تو وہسب كچھ سمجھ گئے اور كہنے لگے كہ تم جھوٹ بو لتے ہو ''بلكہ نفسا نى ہو او ر ہوسنے تمہا ر ے لئے يہ كا م پسند يد ہ بنادياہے ''_(4) اور يہ شيطا نى سا زشيں ہيں_
(1)سورہيوسف آيت 17
(2)سورہيوسف آيت 17
(3)سورہيوسف آيت 18
(4)سورہيوسف آيت 18
جنابيعقوب نے كرتہ اٹھايا اور اس كو الٹ پلٹ كر ديكھا اور كہا تو پھر اسميں بھيڑيئےےپنجوں اور دانتوں كے نشان كيوں نہيں ہيں _؟
ايكاور روايت كے مطابق :حضرت يقوب(ع) نے كر تہ اپنے منہ پر ڈال ليا ،فر يا د كرنےلگے اور آنسو بہا نے لگے ،اور كہہ رہے تھے :يہ كيسا مہربان بھيڑيا تھا جس نےميرے بيٹے كو تو كھا ليا ليكن اس كے كر تے كو تو ذر ہ بھر نقصان نہ پہنچا يا؟ اسكے بعد وہ بے ہو ش ہو كر خشك لكڑى كى طرح زمين پر گر پڑے بعض بھائيوں نے فر يادكى : اے وائے ہو ہم پر روز قيامت عد ل الہى كى عدالت ميں ہم بھا ئي بھى ہا تھ سےدے بيٹھے ہيں اور با پ كو بھى ہم نے قتل كرديا ہے ،ادھرباپ اسى طرح سحرى تك بےہو ش رہے ليكن سحر گا ہى كى نسيم سرد كے جھونكے ان كے چہر ے پر پڑے تو وہ ہو شميں آگئے_
باوجود يكہ يعقوب كے دل ميں آگ لگى ہو ئي تھى ،ان كى روح جل رہى تھى ليكن زبان سےہر گز ايسى بات نہ كہتے تھے جو نا شكرى ، ياس و نااميدى اور جزع وفزع كى نشانى ہوبلكہ كہا :ميں صبر كروں گا ،صبرجميل، ايسى شكيبا ئي جو شكر گزارى اور حمد خدا كےساتھ ہو'' _(1)اس كے بعدجناب يعقوب كہنے لگے ''جو كچھ تم كہتے ہو اس كے مقابلےميں خدا سے مدد طلب كرتا ہوں ''(2)
ميںاس سے چا ہتا ہوں كہ جام صبر كى تلخى ميرے حلق ميں شير يں زبان; نا درست اور غلطبات سے آلودہ نہ ہو _
انہوںنے يہ نہيں كہا كہ يوسف كى مو ت كى مصيبت پر مجھے شكيبائي دے كيو نكہ وہ جانتےتھے كہ يوسف قتل نہيں ہو ئے بلكہ كہا كہ جو كچھ تم كہتے ہو كہ جس كا نتيجہ بہرحال اپنے بيٹے سے ميرى جدا ئي ہے ،ميں صبر طلب كرتا ہوں _
(1)سورہيوسف آيت 18
(2)سورہيوسف آيت 18
ابوحمزہ ثمالى نے ايك روايت امام سجاد عليہ السلام سے نقل كى ہے ابو حمزہ كہتے ہيں:
جمعہكے دن ميں مدينہ منورہ ميں تھا نماز صبح ميں نے امام سجادعليہ السلام كے ساتھپڑھى جس وقت امام نماز اور تسبيح سے فارغ ہوئے تو گھر كى طرف چل پڑے ميں آپ كےسا تھ تھا _
آپنے خادمہ كو آوازدى اور كہا :
خيالركھنا ، جو سائل اور ضرورت مند گھر كے دووازے سے گزرے اسے كھانا دينا كيو نكہ آججمعہ كا دن ہے _
ابوحمزہ كہتے ہيں :
ميںنے كہا : ہر وہ شخص جو مدد كا تقاضا كرتا ہے مستحق نہيں ہو تا ، تو امام نےفرمايا :
ٹھيكہے ، ليكن ميں اس سے ڈر تا ہوں كہ ان ميں مستحق افراد ہوں اور انہيں غذا نہ ديںاور اپنے گھر كے در واز ے سے دھتكار ديں تو كہيں ہمارے گھر والوں پر وہى مصيبتنہ آن پڑے جو يعقوب اور آل يعقوب پر آن پڑى تھى _
اسكے بعد اپ نے فرمايا :
انسب كو كھا نا دو كہ ( كيا تم نے سنانہيں ہے كہ ) يعقوب كے لئے ہر روز ايك گوسفند ذبح كى جا تى تھى اس كا ايك حصہ مستحقين كو ديا جاتا تھا ايك حصہ وہ خوداور ان كى اولاد كھا تے تھے ايك دن ايك سائل آيا وہ مو من اور روزہ دار تھا خداكے نزديك اس كى بڑى قدر ومنزلت تھى وہ شہر ( كنعا ن ) سے گزر ا شب جمعہ تھىافطار كے وقت وہ دروازہ يعقوب پر آيا اور كہنے لگا بچى كچى غذا سے مدد كے طالبغريب ومسافر بھو كے مہمان كى مدد كرو ،اس نے يہ بات كئي مر تبہ دہرائي انہوں نےسنا تو سہى ليكن اس كى بات كو باور نہ كيا جب وہ مايوس ہوگيا اور رات كى تاريكىہر طرف چھا گئي تو وہ لوٹ گيا، جاتے ہو ئے اس كى آنكھوں ميں آنسو تھے اس نے
بارگا ہ الہى ميں بھوك كىشكا يت كى رات اس نے بھوك ہى ميں گزارى اور صبح اسى طرح روزہ ركھا جب كہ وہ صبركئے ہو ئے تھا اور خدا كى حمدد ثنا كر تا تھا ليكن حضرت يعقوب (ع) اور ان كے گھروالے مكمل طور پر سير تھے اور صبح كے وقت ان كا كچھ كھا نا بچا بھى رہ گيا تھا _
امامنے اس كے بعد مزيد فرمايا :خدا نے اسى صبح يعقوب كى طرف وحى بھيجى : اے يعقوب:تو نے ميرے بند ے كو خوار كيا ہے اور ميرے غضب كو بھڑكا يا ہے اور تو اور تيرىاولاد نزول سزا كى مستحق ہو گئي ہے اے يعقوب : ميں اپنے دوستوں كو زيادہ جلدى سرزنش كرتا اور سزا ديتا ہوں اور يہ اس لئے كہ ميں ان سے محبت كرتا ہوں _
يہامر قابل توجہ ہے كہ اس حديث كے بعد ہے كہ ابو حمزہ ثما لى كہتے ہيں :
ميںنے امام سجاد سے پوچھا :كہ يو سف نے وہ خواب كس مو قع پر ديكھا تھا ؟
امامنے فرمايا :اسى رات _
اسحديث سے اچھى طرح معلوم ہو تا ہے كہ انبياء واولياء كے حق سے ايك چھو ٹى سى لغزشيا زيادہ صريح الفاظ ميں ايك ''ترك اولى '' كہ جو گنا ہ اور معصيت بھى شمار نہيںہو تا تھا ( كيو نكہ اس سائل كى حالت حضرت يعقوب عليہ السلام پر واضح نہيں تھى )بعض او قات خدا كى طرف سے ان كى تنبيہ كا سبب بنتا ہے اور يہ صرف اس لئے ہے كہان كا بلند وبا لا مقام تقاضا كرتا ہے كہ وہ ہميشہ اپنى چھوٹى سے چھوٹى بات اورعمل كى طرف متوجہ رہيں كيونكہ:''حسنات الا برار سيئا ت المقربين ''(1)
وہكام جو نيك لوگوں كے لئے نيكى شمار ہو تے ہيں مقر بين بارگا ہ الہى كے لئے برائيہيں _
(1) حضرتيوسف(ع) كى دلكش دعا
رواياتاہل بيت اور طرق اہل سنت ميں ہے كہ جس وقت حضرت يوسف عليہ السلام كنويں كى تہميں پہنچ گئے تو ان كى اميد ہر طرف سے منقطع ہو گئي اور ان كى تمام تر تو جہ ذاتخدا كى طرف ہو گئي انہوں نے اپنے خدا سے مناجات كى اور جبرئيل كى تعليم سےرازونياز كرنے لگے كہ جو روايا ت ميں مختلف عبارتوں ميں منقول ہے _-->
سر زمين مصر كى جانب
يوسف(ع)نے كنويں كى وحشت ناك تاريكى اور ہو لناك تنہائي ميں بہت تلخ گھڑ ياں گزاريںليكن خداپر ايمان اور ايمان كے زير سايہ ايك اطمينان نے ان كے دل ميں نوراميد كىكرنيں روشن كرديں تھيں اور انہيں ايك توانائي بخشى تا كہ وہ اس ہو لناك تنہا ئيكو برداشت كريں اور آزمائشے كى اس بھٹى سے كا ميابى كے ساتھ نكل آئيں ،اس حالتميں وہ كتنے دن رہے ،يہ خدا جانتا ہے بعض مفسرين نے تين دن لكھے ہيں اور بعض نےدو دن ،بہر حال ''ايك قافلہ آپہنچا ''(1)
اوراس قافلے نے وہيں نزديك ہى پڑا ئوڈالا ،واضح ہے كہ قافلے كى پہلى ضرورت يہى ہوتى ہے كہ
<--ايك روايت ميں ہے كہ آپ نے خدا سے يوں مناجات كى :
بارالہا :اے وہ جو غريب ومسافركا مو نس ہے اور تنہا ئي كا ساتھى ہے اے وہ جو ہر خائف كىپناہ گا ہ ہے ہر غم كو بر طرف كرنے والا ہے ، ہر فرياد سے آگاہ ہے ، ہر شكا يتكر نے والے كى آخرى اميد ہے اور ہر مجمع ميں مو جود ہے اے حى : اے قيوم : اےزندہ : اے سارى كا ئنا ت كے حافظ و نگہبان ميں تجھ سے چا ہتا ہوں كہ اپنى اميدميرے دل ميں ڈ ال دے تا كہ تيرے علاوہ كو ئي فكر نہ ركھوں اور تجھ سے چاہتا ہوںكہ ميرے لئے اس عظيم مشكل سے راہ نجات پيدا كردے كہ تو ہر چيز پر قادر ہے
يہ امرجاذب نظر ہے كہ اس حديث كے ذيل ميں ہے كہ فرشتوں نے حضرت يو سف كى آواز سنى توعر ض كيا :
''الھنانسمع صوتا ودعا ء ، الصوت صوت صبى والد عا ء دعا ء البتى ''
(پروردگار : ہم آواز اور دعا سن رہے ہيں آواز تو بچے كى ہے ليكن دعا نبى كى ہے _)
ايك روايتميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے كہ جناب جبرائيل (ع) نے حضرت يوسف كو يہدعا تعليم كي:
پروردگارا: ميں تجھ سے دعا كرتا ہوں ،اے وہ كہ حمد و تعريف تير ے لئے ہے ، تيرے علاوہكوئي معبود نہيں ، تو ہے جو بندوں كو نعمت بخشتا ہے ، آسمانوں اور زمين كا پيداكرنے والا ہے صاحب جلا ل واكرام ہے ، ميں درخواست كرتا ہوں كہ محمد وآل محمد (ص)پر در ود بھيج اور جس ميں ميں ہوں اس سے مجھے كشا ئشے و نجات عطا فرما
ليكن كوئي مانع نہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام نے يہ دونوں دعائيں كى ہوں _
(1)سورہيوسف آيت 19
وہ پا نى حاصل كر ے اس لئےانہوں نے پانى پر مامور شخص كو پانى كى تلاش ميں بھيجا ''_(1)
اسنے اپنا ڈول كنويں كى تہ ميںڈالاجس سے جناب يوسف(ع) كنويں كے اندرمتوجہ ہو ئے كہكنو يں كے اوپر سے كو ئي آواز آرہى ہے سا تھ ہى ديكھا كہ ڈول اور رسى تيزى سےنيچے آرہى ہے انہوں نے مو قع غنيمت جا نا اور اس عطيئہ الہى سے فائدہ اٹھا يااور فور اً اس سے لپٹ گئے بہشتى نے محسوس كيا كہ اس كاڈول اندازے سے زيادہ بھارى ہے جب اس نے زور لگا كر اسے اوپر كھينچا تو اچا نك اس كى نظر ايك چاند سے بچےپر پڑى وہ چلايا : خو شخبرى ہو :'' يہ تو پانى كے بجا ئے بچہ ہے'' (2)
آہستہآہستہ قافلے ميں سے چند لوگوں كو اس بات كا پتہ چل گيا ليكن اس بنا ء پر كہدوسروں كو پتہ نہ چلے اور يہ خود ہى مصر ميں اس خوبصورت بچے كو ايك غلام كے طورپر بيچ ديں ''اسے انہوں نے ايك اچھا سرمايہ سمجھتے ہو ئے دوسروں سے مخفى ركھا ''(3)
''آخركار انہوں نے يو سف كو تھوڑى سى قيمت پر بيچ ديا ،اور وہ اس كے بيچنے كے سلسلےميں بے رغبت تھے (تا كہ ان كا راز فاش نہ ہوں)''_
(4)اگرچہ يوسف(ع) كو بيچنے والے كون لوگ تھے ،بعض لوگوں نے ان كو برادران يوسف(ع)بتايا ہے، ليكن قران سے ايساظاہر ہوتا ہے كہ قافلہ والوں نے يوسف (ع) كو بيچاتھا _(5)
(1)سورہيوسف آيت 19
(2)سورہيوسف آيت 19
(3) سورہيوسف آيت 19
(4)سورہيوسف آيت 20
(5)يہاںيہ سوال سامنے اتا ہے كہ انھوں نے حضرت يوسف (ع) كو تھوڑى سى قيمت پر كيوں بيچديا،قران نے اے ''ثمن بخس''سے تعبير كيا ہے كيونكہ حضرت يوسف (ع) كم از كم ايكقيمتى غلام سمجھے جاسكتے تھے
ليكن يہمعمول كى بات ہے كہ ہميشہ چوريا ايسے افرا دجن كے ہاتھ كوئي اہم سرمايہ بغير كسىزحمت كے اجائے تو وہ اس خوف سے كہ كہيں دوسروں كو معلوم نہ ہو جائے اسے فوراًبيچ ديتے ہيں اور يہ فطرى بات ہے كہ اس جلد بازى ميں وہ زيادہ قيمت حاصل نہيں كرسكتے
اسبارے ميں كہ انہوں نے حضرت يوسف كو كتنے داموں ميں بيچا اور پھر يہ رقم آپس ميںكس طرح تقسيم كى ، اس سلسلے ميں بھى مفسرين ميں اختلاف ہے بعض نے يہ رقم 20/درہم ، بعض نے 22 /درہم ، بعض نے 40/ درہم اور بعض نے 18/ درہم لكھى ہے اور اسطرف تو جہ كرتے ہوئے كہ بيچنے والوں كى تعداد دس بيان كى جاتى ہے ، اس نا چيزرقم ميں سے ہر ايك كا حصہ واضح ہو جا تا ہے _
حضرتيوسف (ع) كى داستان جب يہاں تك پہنچى كہ بھا ئي انہيں كنويں ميں پھينك چكے تو بہرصورت بھا ئيوں كے سا تھ والا مسئلہ ختم ہو گيا اب اس ننھے بچے كى زندگى كا ايكنيا مر حلہ مصر ميں شروع ہوا اس طرح سے كہ آخر كار يو سف مصر لائے گئے وہاںانہيں فروخت كے لئے پيش كيا گيا چو نكہ يہ ايك نفيس تحفہ تھا لہذا معمول كےمطابق ''عزيز مصر '' كو نصيب ہوا كہ جو درحقيقت فرعونوں كى طرف سے وزير اعظم تھااور ايسے ہى لوگ ''تمام پہلوئوں سے ممتا ز اس غلام '' كى زيادہ قيمت دے سكتےتھے، اب ديكھتے ہيں كہ عزيز مصر كے گھر يوسف پر كيا گزر تى ہے _
قرآنكہتا ہے :'' جس نے مصر ميں يو سف كو خريدا اس نے اپنى بيوى سے اس كى سفارش كىاور كہا كہ اس غلام كى منزلت كا احترام كرنا اور اسے غلاموں والى نگاہ سے نہديكھنا كيو نكہ ہميں اميد ہے كہ مستقبل ميں ہم اس غلام سے بہت فائدہ اٹھا ئيں گےيا اسے فرزند كے طور پر اپنا ليں گے_''( 1)
اسجملے سے معلوم ہو تا ہے كہ عزيز مصر كى كو ئي اولاد نہ تھى اور وہ بيٹے كے شوقميں زند گى بسر كر رہا تھا جب اس كى آنكھ اس خوبصورت اور آبرومند بچے پر پڑى تواس كے دل ميں آيا كہ يہ اس كے بيٹے كے طور پر ہو _
اسكے بعد قرآن مجيد كہتا ہے :''اس طرح اس سر زمين ميں ہم نے يوسف كو متمكن اور صاحب نعمت و اختيار كيا،ہم نے يہ كام كيا تا كہ ان كو تعبير خواب كا علم عطا ہو_''(2)
(1)سورہيوسف آيت 21
(2)سورہيوسف آيت 21
يہاںپرايك سوال يہ پيدا ہو تا ہے كہ علم تعبير خواب اور عز يز مصر كے محل ميں حضرتيو سف كى مو جود گى كا كيا ربط ہے كہ اسے كس طرف ''لنعلمہ'' كى ''لام ''كہ جولام غايت ہے كہ ذريعے اشارہ كيا گيا ہے _
ليكناگر ہم اس نكتے كى طرف تو جہ ديں تو ہو سكتا ہے مذكورہ سوال كا جواب واضح ہو جائے كہ خداوندعالم بہت سى علمى نعمتيںاورعنا يا ت; گناہ سے پر ہيز اور سر كش ہواوہوس كے مقابلے ميں استقامت كى وجہ سے بخشتا ہے دوسرے لفظوں ميں يہ نعمات كہ جودل كى نورا نيت كا ثمر ہ ہيں ، ايك انعام ہيں كہ جو خدا اس قسم كے اشخاص كوبخشتا ہے _
''ابنسيرين'' تعبير خواب جاننے ميں بڑے مشہور ہيں انكے حالات ميں لكھا ہے كہ وہ كپڑابيچا كرتے تھے اور بہت ہى خوبصورت تھے ايك عورت انہيں اپنا دل دے بيٹھى بڑے حيلےبہانے كر كے انہيں اپنے گھر ميں لے گئي اور دروازے بند كر لئے ، ليكن انہوں نےعورت كى ہوس كے سامنے سر تسليم خم نہ كيا اور مسلسل اس عظيم گناہ كے مفا سد اسكے سا منے بيان كرتے رہے ليكن اس عورت كى ہو س كى آگ اس قدر سر كش تھى كہ وعظ ونصيحت كا پانى اسے نہيں بجھا سكتا تھا _
''ابنسيرين'' كو اس چنگل سے نجات پانے كے لئے ايك تد بير سو جھى وہ اٹھے اور اپنے بدنكو اس گھر ميں مو جود گند ى چيزوں سے اس طرح كثيف ،آلودہ اور نفرت انگيز كر لياكہ جب عورت نے يہ منظر ديكھا توان سے متنفر ہو گئي اور انہيں گھر سے باہر نكالديا _
كہتےہيں اس واقعے كے بعد ابن سير ين كو تعبير خواب كے بارے ميں بہت فراست نصيب ہو ئياور ان كى تعبير سے متعلق كتابوں ميں عجيب وغريب واقعات لكھے ہو ئے ہيں كہ جو اسسلسلے ميں ان كى گہرى معلومات كى خبر ديتے ہيں _اس بنا ء پر ممكن ہے كہ يہ خا صعلم وآگاہى حضرت يو سف كو عزيز مصر كى بيوى كى انتہائي قوت جزب كے مقا بلے ميںنفس پر كنڑول ركھنے كى بنا ء پر حاصل ہو ئي ہو _
جىہاں : انہوں نے بہت سى چيزيں اس شور وغل كے ماحول ميں سيكھيں ان كے دل ميں ہميشہغم
واندوہ كا ايك طوفان مو جز نہو تا تھا كيو نكہ ان حالات ميں وہ كچھ نہيں كر سكتے تھے ،اس دور ميں وہ مسلسلخود سازى اور تہذيب نفس ميں مشغول تھے _
قرآنكہتا ہے :'' جب وہ بلوغ اور جسم وروح كے تكامل كے مرحلے ميں پہنچا اور انوار وحىقبول كرنے كے قابل ہو گيا ، تو ہم نے اسے حكم (نبوت)اور علم ديا_'' ( 1)
حضرتيوسف(ع) نے اپنے خو بصورت ، پر كشش اور ملكو تى چہرے سے نہ صرف عزيز مصر كو اپنىطرف جذب كرليا بلكہ عزيز كى بيوى بھى بہت جلد آپ كى گرويدہ ہو گئي آ پ كا عشق اسكى روح كى گہرائيوں ميں اتر گيا جو ں جوں وقت گزر تا گيا اس كے عشق كى حدت ميںاضافہ ہو تا چلا گيا ليكن يو سف كہ جو پاكيز ہ اور پرہيزگا ر انسا ن تھے انہيںخدا كے علاوہ كسى كى كو ئي فكر اور سو چ نہ تھى ان كے دل نے عشق سو زاں كو اوربھڑكا ديا
ايكتو اسے اولاد ہو نے كا ارمان تھا ،دوسرا اس كى رنگينيوں سے بھر پور اشراف كى زندگى تھى ، تيسرا داخلى زندگى ميں اسے كو ئي پريشانى اور مسئلہ نہ تھا جيسا كہاشراف اور نا زو نعمت ميں پلنے والوں كى زندگى ہو تى ہے اور چوتھا در بار مصرميں كسى قسم كى كو ئي پا بندى اور قدغن نہ تھى ان حالات ميں وہ عورت كہ جوايمانو تقوى سے بھى بے بہر ہ تھى شيطا نى وسوسوں كى مو جوں ميں غوطہ زن ہو گئي يہا ںتك كہ اس نے ارادہ كر ليا كہ اپنے دل كا راز يوسف سے بيان كرے اور اپنے دل كىتمنا ان سے پورا كر نے كا تقاضا كرے _
اپنےمقصد كے حصول كى خاطر اس نے ہر ذر يعہ اور ہر طورطريقہ اختيار كيا اور بڑى خواہشكے ساتھ كو شش كى كہ ان كے دل كو متا ثر كرے جيسا كہ قرآن كہتا ہے :''جس عورت كےگھر يو سف تھے اس نے اپنى آرزو پو رى كرنے كے لئے پيہم ان سے تقاضا كيا _''(2)
آخركار جو آخرى راستہ اسے نظر آيايہ تھا كہ ايك دن انھيں تنہا اپنى خلوت گاہ ميںپھنسالے اور ان
(1)سورہيوسف آيت 22
(2)سورہيوسف آيت 23
كےجذبات ابھارنے كے لئے تمام وسائل سے كام لے جاذب تر ين لباس پہنے ، بہتر ينبنائوسنگھار كرے بہت مہك دارعطر لگا ئے اور اس طرح سے آرائشے وزيبائشے كرے كہ يوسف جيسے قوى انسان كو گھٹنے ٹيكنے پر مجبور كردے _
قرآنكہتا ہے :'' اس نے سارے دروازوں كو اچھى طرح بند كر ليا اور كہا آئو ميں تمہارےلئے حاضر ہوں'' (1)
اسنے تمام دروازے مضبوطى سے بند كئے اس سے ظاہر ہو تا ہے كہ وہ يو سف كو محل كىايسى جگہ پرلے گئي كہ جہاں كمرے بنے ہوئے تھے اور جيسا كہ بعض روايات ميں آيا ہےاس نے سات درواز ے بند كئے تا كہ يو سف كے لئے فرار كى كو ئي راہ باقى نہ رہے _
علاوہازيں شايد وہ اس طرح حضرت يو سف كو سمجھا نا چاہتى تھى كہ وہ راز فاش ہو نے سےپريشان نہ ہوں كيو نكہ ان بنددروازوں كے ہو تے ہوئے كسى شخص كے بس ميں نہيں كہوہ اندرآسكے _
جبحضرت يو سف (ع) نے ديكھا كہ تمام حالات لغزش وگناہ كى حما يت ميں ہيں اور ان كےلئے كوئي راستہ باقى نہيں رہ گيا تو انہوں نے زليخا كو بس يہ جواب ديا :''ميںخداسے پناہ ما نگتا ہوں''_ (2)
اسطرح حضرت يو سف نے زوجہء عزيز كى خواہش كو قطعى وحتمى طور پر رد ّكرديا اور اسےسمجھاياكہ وہ ہر گز اس كے سامنے سر تسليم خم نہيں كر يں گے آپ نے ضمناً اسے اورتمام افراد كو يہ حقيقت سمجھا دى كہ ايسے سخت اور بحرانى حالات ميں شيطا نى وسوسو ں اور ان سے كہ جو شيطانى اخلاق وعادات ركھتے ہيں نجات كيلئے ايك ہى راستہ ہےاور وہ يہ كہ خدا كى طرف پناہ لى جائے ،وہ خدا جس كے لئے خلوت اور بزم ايك سى ہےاور جس كے ارادے كے سامنے كوئي چيز نہيں ٹھہر سكتى _
(1)سورہيوسف آيت23
(2)سورہيوسف آيت 23
اسمختصر سے جملے سے انہوں نے عقيدے اور عمل كے لحاظ سے خدا كى وحدا نيت كا اعترافكيا اس كے بعد مزيد كہا كہ ''تمام چيزوں سے قطع نظر ميںاس خواہش كے سامنے كس طرحسے سرتسليم خم كرلوں جبكہ ميںعزيز مصر كے گھرميں رہتا ہوں اس كے دستر خوان پرہوں او ر اس نے مجھے بہت احترام سے ركھا ہوا ہے''_(1)
''كيايہ واضح ظلم اور خيانت نہ ہوگى يقيناستمگار فلاح نہيں پائيںگے_'' (2)
يہاںيو سف اور زوجہ عزيز كا معا ملہ نہايت باريك مر حلے اور انتہائي حساس كيفيت تكپہنچ جاتا ہے جس كے متعلق قرآن بہت معنى خيز انداز ميں گفتگو كرتا ہے :'' عزيزمصر كى بيوى نے اس كا قصد كيا اور اگر يوسف بھى بر ہان پر ور دگار نہ ديكھتا توايسا ارادہ كرليتا _''(3)(4)
اسجگہ ايك بت تھا كہ جو زوجہ عزيز كا معبود شما ر ہو تا تھا اچا نك اس عورت كىنگاہ اس بت پر پڑى اسے يوں محسوس ہوا جيسے وہ اسے گھور رہا ہے اور اس كى خيانتآميز حركات كو غيض وغضب كى نگاہ سے ديكھ رہا ہے وہ اٹھى اور اس بت پر كپڑا ڈالديا يو سف نے يہ منظر ديكھا تو ان كے دل ميں ايك طوفان اٹھ كھڑا ہو،ا وروہ لرزگئے اور كہنے لگے:
توتو ايك بے عقل ،بے شعور ،بے حس ، وبے تشخيص عارى بت سے شرم كر تى ہے ،كيسے ممكنہے كہ ميں اپنے پروردگار سے شرم نہ كروں جو تمام چيزوں كو جا نتا ہے اور تماممخفى امور اور خلوت گا ہوں سے با خبر ہے_
(1)(2)سورہيوسف آيت 23
(3)سورہيوسف آيت 24
(4)اسجملہ كے بارے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے ،اسى طرح وہ برہان پروردگار جس كے ذريعہسے جناب يوسف بچ گئے ،كے بارے ميں اختلاف ہےرجوع كريں تفسير نمونہ ج5/413
اساحساس نے يو سف كو ايك نئي توانائي اور قوت بخشى اور شديد جنگ كہ جوان كى روح كىگہرائيوں ميں جذ بات اور عقل كے درميان جارى تھى اس ميں ان كى مدد كى تاكہ وہ جذبات كى سر كش موجوں كو پيچھے ڈھكيل سكيں _(1)
قرانمجيد كہتا ہے :ہم نے يوسف (ع) كو اپنى ايسى برہان پيش كى تاكہ بدى اور فحشاء كواس سے دور كريں ،كيونكہ وہ ہمارے بر گزيدہ اور مخلص بندوں ميں سے تھا_(2)
يہاس طرف اشارہ ہے كہ ہم نے جو اس كے لئے غيبى اور روحا نى مدد بھيجى تا كہ وہ بدىاور گناہ سے رہائي پا ئے ،تو يہ بے دليل نہيں تھا وہ ايك ايسا بند ہ تھا جس نےاپنے آپ كومعرفت، ايمان پرہيز گارى اور پاكيز ہ عمل سے آراستہ كيا ہوا تھا اوراس كا قلب وروح شرك كى تاريكيوں سے پاك اور خالص تھا اسى لئے وہ ايسى خدائي امداد كى اہليت وليا قت ركھتا تھا_
اسدليل كا ذكر نشاندہى كرتا ہے كہ ايسى خدائي امداد جو طغيانى وبحرانى لمحات ميںيوسف جيسے نبى كو ميسر آئي تھى ان سے مخصوص نہ تھى بلكہ جو شخص بھى خدا كے خالصبندوں اور ''عباد اللہ المخلصين'' كے زمرے ميں آتا ہو ايسى نعمات كے لائق ہے_(3)
(1)وہ بےبنيا د روايات جو مفسرين نے نقل كى ہے كہ جن كے مطابق حضرت يوسف نے گناہ كاارادہ كر ليا تھا اچانك حالت مكاشفہ ميں جبرئيل يا حضرت يعقوب (ع) كو ديكھا جواپنى انگلى دانتوں سے كاٹ رہے تھے انھيں ديكھا تو يوسف پيچھے ہٹ گئے، ايسىروايات كى كوئي معتبر سند نہيں ہے،يہ اسرائيليات كى طرح ہيں اور كوتاہ فكر انسانوںكے دماغوں كى پيدا وار ہيں جنھوں نے مقام انبياء كو بالكل نہيں سمجھا_
(2)سورہيوسف ايت 24
(3)متين وپاكيزہ كلام :قران كے عجيب و غريب پہلوو ں ميں سے ايك يہ بھى ہے كہ جو اعجاز كىايك نشانى ہے بھى ہے،يہ ہے كہ اس ميں كوئي چھپنے والى ،ركيك،ناموزوں،متبذل اورعفت و پاكيزگى سے عارى تعبير نہيں ہے اور كسى عام ،ان پڑھ جہالت كے ماحول ميںپرورش پانے والے كا كلام طرز كا نہيں ہو سكتا كيونكہ ہر شخص كى باتيں اس كےافكار اور ماحول سے ہم اہنگ ہوتى ہيں -->
يوسفكى انہتا ئي استقامت نے زوجہء عزيز كوتقريبا'' مايوس كرديا يوسف اس معر كہ ميںاس نا زوا دا والى اور سر كش ہوا وہو س والى عورت كے مقابلے ميں كا مياب ہو گئےتھے انہوں نے محسوس كيا كہ اس لغزش گا ہ ميں مزيد ٹھہر نا خطر ناك ہے انہوں نےاس محل سے نكل جانے كا ارادہ كيا لہذا وہ تيزى سے قصر كے دروازے
<--قران كى بيان كردہ تمام داستانوں ميں ايك حقيقى عشقيہ داستان موجود ہے اور يہحضرت يوسف اور عزيز مصر كى بيوى كى داستان ہے _
ايكخوبصورت اور ہوس الود عورت كے ايك زيرك اور پاك دل نوجوان سے شعلہ ور عشق كىداستان ہے _
كہنے والےاور لكھنے والے جب ايسے مناظر تك پہنچتے ہيں تو وہ مجبور ہو جاتے ہيں كہ يا توہيرو اور اس واقعے كے اصلى مناظر كى تصوير كشى كے لئے قلم كھلا چھوڑ ديں اوربزبان اصطلاح حق سخن ادا كرديں اگر چہ اس ميں ہزار ہا تحريك اميز چبھنے والے اورغير اخلاقى لفظ اجائيں _
يا وہمجبور ہو جاتے ہيں كہ زبان و قلم كى نزاكت و عفت كى حفاظت كے لئے كچھ مناظر كوپردہ ابہام ميں لپيٹ ديں اور سامعين و قارئين كو سر بستہ طورپر بات بتائيں _
كہنے والااور لكھنے والا كتنى بھى مہارت ركھتا ہو اكثر اوقات ان ميں سے كسى ايك مشكل سےدوچار ہو جاتاہے _
كيا يہباور كيا سكتا ہے كہ ايك ان پڑھ شخص ايسے شور ا نگيز عشق كے نہايت حساس لمحات كىدقيق اور مكمل تصورى كشى بھى كرے ليكن بغير اس كے كہ اس ميں معمولى سى تحريكاميز اور عفت سے عارى تعبير استعمال ہو _
ليكنقراان اس داستان كے حسا س ترين مناظر كى تصوير كشى شگفتہ انداز ميں متانت و عفتكے ساتھ كرتا ہے ،بغير اس كے كہ اس ميں كوئي واقعہ چھوٹ جائے اور اظہار عجز ہوجب كہ تمام اصول اخلاق و پاكيزگى بيان بھى ہے _
ہم جانتےہيں كہ اس داستان كے تمام مناظر ميں سے زيادہ حساس ''خلوت گاہ عشق''كا ماجرا ہےجسے زوجہ عزيز مصر كى بيقرارى اور ہوا و ہوس نے وجود بخشا _
قران اسواقعے كى وضاحت ميں تمام كہنے كى باتيں بھى كہہ گيا ہے ليكن پاكيزہ اور عفت كےاصول سے ہٹ كر اس نے تھوڑى سے بات بھى نہيں كي.
كىطرف بھا گے تاكہ دروازہ كھول كر نكل جائيں زوجہ ء عزيزبھى بے اعتنا نہ رہى وہبھى يوسف كے پيچھے دروازے كى طرف بھاگى تا كہ يوسف كو باہر نكلنے سے روكے اس نےاس مقصد كے لئے يوسف كى قميص پيچھے سے پكڑلى اور اسے اپنى طرف كھينچا اس طرح سےكہ قميص پيچھے سے لمبائي كے رخ پھٹ گئي _''(1)
ليكنجس طرح بھى ہوا يوسف درواز ے تك پہنچ گئے اور در وازہ كھول ليا اچانك عزيز مصركو دروازے كے پيچھے ديكھاجيسا كہ قرآن كہتا ہے:''ان دونوں نے اس عورت كے آقا كودروازے پر پايا_''(2)
ابجبكہ زوجہ عزيز نے ايك طرف اپنے كورسوائي كے آستا نے پر ديكھا اور دوسرى طر فانتقام كى آگ اس كى روح ميں بھڑك اٹھى تو پہلى بات جو اسے سو جھى يہ تھى كہ اس نےاپنے آپ كو حق بجا نب ظاہر كرتے ہو ئے اپنے شو ہر كى طرف رخ كيا اور يوسف پرتہمت لگائي:اس نے پكا ر كر كہا : ''جو شخض تيرى اہليہ سے خيا نت كا ارادہ كرے اسكى سزا زندان يا در د نا ك عذاب كے سوا اوركيا ہو سكتى ہے_ ''(3)
يہامر قابل توجہ ہے كہ اس خيانت كار عورت نے جب تك اپنے آپ كو رسوائي كے آستا نےپر نہيں ديكھا تھا ، بھول چكى تھى كہ وہ عزيز مصر كى بيوى ہے ليكن اس مو قع پراس نے ''اہلك ''(تيرى گھر والى ) كا لفظ استعمال كركے عزيز كى غيرت كو ابھارا كہميں تيرے سا تھ مخصوص ہو ں لہذا كسى دوسرے كو ميرى طرف حرص كى آنكھ سے نہيںديكھنا چاہئے_
دوسراقابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ عزيز مصر كى بيوى نے يہ ہر گز نہيں كہا كہ يوسف ميرےبارے ميں برا ارادہ ركھتا تھا بلكہ عزيز مصر سے اس كى سزا كے بارے ميں بات كى اسطرح سے كہ اصل مسئلہ مسلم ہے اور بات صرف اس كى سزا كے بارے ميں ہے ايسے لمحےميں جب وہ عورت اپنے آپ كو بھول چكى تھى اس كى يہ جچى تلى گفتگو اس كى انتہائيحيلہ گرى كى نشانى ہے _
(1)سورہيوسف آيت 25
(2)سورہيوسف آيت 25
(3) سورہيوسف آيت 25
پھريہ كہ پہلے وہ قيد خانے كے بارے ميں بات كرتى ہے اور بعد ميں گو يا وہ قيد پر بھىمطمئن نہيں ہے ايك قدم اور آگے بڑھا تى ہے اور ''عذاب اليم ''كا ذكر كر تى ہے كہجو سخت جسما نى سزا اور قتل تك بھى ہو سكتى ہے _
اسمقام پر حضرت يوسف نے خا مو شى كو كسى طور پر جائز نہ سمجھا اور صرا حت سے زوجہعزيز مصر كے عشق سے پر دہ اٹھا يا انہوں نے كہا : ''اس نے مجھے اصرار اور التماس سے اپنى طرف دعوت دى تھي_'' (1)
واضحہے اس قسم كے موقع پر ہر شخص ابتدا ء ميں بڑى مشكل سے يہ باور كر سكتا ہے كہ ايكنو خيز جوان غلام كہ جو شادى شدہ نہيں ،بے گنا ہ ہو اور ايك شوہر دارعو رت كہ جوظاہر ا ًباوقار ہے گنہگار ہو ،اس بنا ء پرزيادہ الزام زوجہ عزيز كى نسبت يوسف كےدامن پر لگتا تھا _
ليكنچو نكہ خدا نيك اور پاك افراد كا حامى ومدد گار ہے وہ اجا زت نہيں ديتا كہ يہنيك اور پار سا مجا ہد نو جوان تہمت كے شعلو ں كى لپيٹ ميں آئے، لہذا قرآن كہتاہے: اس مو قع اس عورت كے اہل خاندان ميں سے ايك گواہ نے گواہى دى كہ اصلى مجرمكى پہچان كے لئے اس واضح دليل سے استفادہ كيا جا ئے كہ اگر يوسف كا كر تہ آگے كىطرف سے پھٹا ہے تو وہ عورت سچ كہتى ہے اور يوسف جھو ٹا ہے '' اور اگر اس كا كرتہپيچھے سے پھٹا ہے تو وہ عورت جھوٹى اور يوسف سچا ہے _''(2)
اسسے زيا دہ مضبوط دليل اور كيا ہو گى ،كيو نكہ زوجہ عزيز كى طرف سے تقا ضا تھا تووہ يوسف كے پيچھے دو ڑى ہے اور يوسف اس سے بھا گ رہے تھے كہ وہ ان كے كر تے سےلپٹى ہے ، تو يقينا وہ پيچھے سے پھٹا ہے اور اگر يوسف نے عزيز كى بيوى پر حملہكيا ہے اور وہ بھا گى ہے يا سا منے سے اپنا دفاع كيا ہے تو يقينا يوسف كا كر تہآگے سے پھٹا ہے ،يہ امر كس قدر جاذب نظر ہے كہ كر تہ پھٹنے كا سا دہ سا مسئلہ بےگناہى كا تعين كرديتا
(1) سورہيوسف آيت 26
(2)سورہيوسف آيت 27
ہے ،يہى چھوٹى سى چيز ان كىپاكيز گى كى سند اور مجرم كى رسوائي كا سبب ہو گئي _
عزيزمصر نے يہ فيصلہ كہ جو بہت ہى جچا تلا تھا بہت پسند كيا يوسف كى قميص كو غور سےديكھا ''اور جب اس نے ديكھا كہ ان كى قميص پيچھے سے پھٹى ہے ( خصوصا اس طرف توجہ كر تے ہو ئے كہ اس دن تك اس نے كبھى يوسف سے كو ئي جھو ٹ نہيں سنا تھا )
اسنے اپنى بيوى كى طرف رخ كيا اور كہا :
''يہكام تم عو ر توں كے مكر و فريب ميں سے ہے ، بے شك تم عورتوں كا مكر وفريب عظيمہے_ ''(1)
اسوقت عزيز كو خو ف ہوا كہ يہ رسو اكن واقعہ ظاہر نہ ہو جا ئے اور مصر ميں اس كىآبرو نہ جا تى رہے اس نے بہتر سمجھا كہ معا ملے كو سميٹ كر دبا ديا جا ئے اس نےيوسف كى طرف رخ كيا اور كہا :
''اے يوسف تم صر ف نظر كر و اور اس واقعے كے بارے ميں كو ئي با ت نہ كہو'' ( 2)
پھراس نے بيوى كى جا نب رخ كيا اور كہا :''تم بھى اپنے گناہ سے استغفار كرو كہ تمخطا كا روں ميں سے تھي'' (3)
شاہد كون تھا ؟
شاہدكون تھا كہ جس نے يوسف اور عزيز مصر كى فائل اتنى جلد ى درست كر دى اور مہرلگادىاور بے گناہ كو، گہنگار سے الگ كر دكھا يا،اس بارے ميں مفسر ين كے درميان اختلافہے _
بعضنے كہا ہے كہ وہ عزيز مصر كى بيوى كے رشتہ داروں ميں سے تھا اور قاعد تاً ايكحكيم ، دانش مند اور سمجھدار شخص تھا ، اس واقعے ميں كہ جس كا كو ئي عينى شا ہدنہ تھا اس نے شگا ف پيرا ہن سے حقيقت معلو م كرلي، كہتے ہيں كہ يہ شخص عزيز مصركے مشيروں ميں سے تھا اور اس وقت اس كے ساتھ تھا _
(1)سورہيوسف آيت 28
(2) سورہيوسف آيت29
(3)سورہيوسف آيت29
(4) لفظ (من اھلھا ) اس پر گواہ ہے _سورہ يوسف ايت 26
دوسرىتفسير يہ ہے كہ وہ شير خوار بچہ تھا يہ بچہ عزيز مصر كى بيوى كے رشتہ داروں ميںسے تھا اس وقت يہ بچہ وہيں قريب تھا يوسف نے عزيز سے خواہش كى اس سے فيصلہ كروالو، عزيزكو پہلے تو بہت تعجب ہوا كہ كيا ايسا ہو سكتا ہے ليكن جب وہ شير خوارحضرت عيسى كى طرح گہوارے ميں بول اٹھا اور اس نے گنہگا ر كو بے گنا ہ سے الگ كركے معيار بتا يا تو وہ متوجہ ہوا كہ يوسف ايك غلام نہيں بلكہ نبى ہے يا نبى جيساہے _(1)
زوجہعزيز كے اظہا ر عشق كا معاملہ مذ كورہ داستان ميں اگر چہ خاص لوگوں تك تھا اورخود عزيز نے بھى اسے چھپا نے كى تاكيد كى تھى تاہم ايسى باتيں چھپا ئے نہيںچھپتيں خصوصاً بادشا ہوں اور اہل دولت واقتدار كے تو محلوں كى ديوار يں بھى سنتىہيں بہر حال آخر كا ر يہ راز قصر سے باہر نكل گيا اور جيسا كہ قرآن كہتا ہے شہركى كچھ عور تيں اس بارے ميں ايك دوسرے سے باتيں كرتى تھيں اور اس بات كا چر چاكر تى تھيں'' كہ عزيز كى بيوى نے اپنے غلام سے راہ ورسم پيدا كر لى ہے اور اسےاپنى طرف دعوت ديتى ہے'' (2)
''اورغلام كا عشق تو اس كے دل كى گہرائيوں ميں اتر گيا ہے'' (3)
پھروہ يہ كہہ كر اس پر تنقيد كر تيں كہ ''ہمارى نظر ميں تو وہ واضح گمراہى ميں ہے''(4)
واضحہے كہ ايسى باتيں كرنے والى مصر كے طبق ہ امر ا ء كى عور تيں تھيں جن كے لئےفرعونيوں اورمستكبرين كے محلات كى گھٹيا كہا نياں بہت دلچسپ ہو تى تھيں اور وہہميشہ ان كى ٹوہ ميں لگى رہتى تھيں _
اشرافكى يہ عور تيں كہ جو خود بھى زوجہ عزيز كى نسبت ہو س رانى ميں كسى طرح كم نہتھيں ان كى چو نكہ يوسف تك رسائي نہيں تھى لہذا بقو لے ''جانماز آب مى كشيد ند''مكر وفريب ميں لگى ہو ئي تھيں اور زوجہ ء عزيز كو
(1)حضرتامام صاد ق عليہ السلام سے ايك روايت منقول ہے :
''شہادتدينے والا گہوارہ ميں ايك چھوٹا بچہ تھا''ليكن توجہ رہے كہ اس حديث كى كوئي محكمسند نہيں ہے
(2)سورہيوسف آيت 30
(3 )سورہيوسف آيت30
(4)سورہيوسف 30
اس كے عشق پر واضح گمراہىميں قرار ديتى تھيں ، يہاں تك كہ بعض مفسرين نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ يہرازبعض زنان مصر نے ايك سا زش كے تحت پھيلا يا وہ چا ہتى تھيں كہ زوجہ ء عزيزمصر اپنى بے گنا ہى ثابت كرنے كے لئے انہيں اپنے محل ميں دعوت دے تاكہ وہ خودوہاں يوسف كو ديكھ سكيں ان كا خيا ل تھا كہ وہ يوسف كے سامنے ہوں تو ہو سكتا ہےاس كى نظر ان كى طرف مائل ہو جا ئے كہ جو شايد زوجہ عزيز مصر سے بھى بڑھ كر حسينتھيں اور پھر يوسف كے لئے ان كا جمال بھى نيا تھا اور پھر يوسف كے لئے عزيز كىبيوى ما ں يا مولى يا ولى نعمت كا مقام ركھتى تھى اور ايسى كو ئي صورت ان كے لئےنہ تھى لہذا وہ سمجھتى تھيں كہ زوجہ عزيز كى نسبت ان كے اثر كا احتمال زيادہ ہے_
يہنكتہ بھى قابل تو جہ ہے كہ كس شخص نے يہ راز فاش كيا تھا ، زوجہ ء عزيز تو يہرسوا ئي ہر گز گوارا نہ كر تى تھى اور عزيز نے تو خود اسے چھپا نے كى تاكيد كىتھى رہ گيا وہ حكيم ودانا كہ جس نے اس كا فيصلہ كيا تھا ، اس سے تو ويسے ہى يہكا م بعيدنظر آتا ہے بہر حال جيسا كہ ہم نے كہا كہ خرابيوں سے پُران محلات ميںايسى كوئي چيز نہيں كہ جسے مخفى ركھا جا سكے اور آخر كا ر ہر بات نا معلوم افرادكى زبانوں سے درباريوں تك اور ان سے باہر كى طرف پہنچ جاتى ہے اور يہ فطرى امرہے كہ لو گ اسے زيب داستان كے لئے اور بڑھا چڑھا كر دوسروں تك پہنچا تے ہيں _
''زوجہعزيز كومصر كى حيلہ گر عورتوں كے بارے ميں پتہ چلا تو پہلے وہ پريشان ہو ئي پھراسے ايك تدبير سو جھى اس نے انہيں ايك دعوت پر مد عو كيا فر ش سجايا اور قيمتىگا ئو تكئے لگا ديئے وہ آبيٹھيں تو ہر ايك كے ہاتھ ميں پھل كا ٹنے كے لئے چھرىتھمادي''_(1)(يہ چھر يا ں پھل كا ٹنے كى ضرورت سے زيادہ تيز تھيں )
يہكا م خود اس امر كى دليل ہے كہ وہ اپنے شوہر كى پرواہ نہ كر تى تھى اور گزشتہرسوائي سے اس نے كوئي سبق نہ سيكھا تھا _
(1)سورہيوسف 31
اسكے بعد اس نے يوسف كو حكم ديا كہ'' اس مجلس ميں داخل ہو تا''_(1)
كہتنقيد كرنے والى عورتيں اس كے حسن وجمال كو ديكھ كر اسے اس كے عشق پر ملامت نہكريں''_(2)
زوجہعزيز نے حضرت يوسف كو كہيں باہر نہيں بٹھا ركھا تھا بلكہ اندر كے كسى كمرے ميںكہ غالبا جہاں غذا اور پھل ركھا گيا تھا مشغول ركھا تھا تا كہ وہ محفل ميں داخلہو نے والے درواز ے سے نہ آئيں بلكہ با لكل غير متو قع طور پر اور اچا نك آئيں _
زنانمصر جو بعض روايات كے مطا بق دس يا اس سے زيادہ تھيں جب انہوں نے زيبا قا مت اورنورانى چہرہ ديكھا اور ان كى نظر يوسف كے دلربا چہر ے پر پڑى تو انہيں يوں لگاجيسے اس محل ميں آفتاب اچا نك بادلوں كى اوٹ سے نكل آيا ہے اور آنكھو ںكو خير ہكر رہا ہے_
وہاس قدر حيران اور دم بخود ہوئيں كہ انھيں ہاتھ اور پائو ں ميں اور ہاتھ اور ترنج بين ميں فرق بھول گئيںانہوں نے يوسف كو ديكھتے ہى كہا يہ تو غير معمولى ہے،وہ خود سے قدر بے خود ہوئيں كہ ( ترنج بين كى بجائے ) اپنے ہاتھ كا ٹ لئے اور جبانہوں نے ديكھا كہ ان كى دلكش آنكھوں ميں تو عفت وحيا كا نورضو فشاں ہے اور انكے معصوم رخسار شر م وحيا سے گلگوں ہيں تو ''سب پكار اٹھيں كہ نہيں يہ جوان ہرگز گناہ سے آلودہ نہيں ہے يہ تو كوئي بزرگوارآسمانى فرشتہ ہے'' (3)(4)
(1)سورہيوسف 31
(2)سورہيوسف 31
(3)سورہيوسف آيت 31
(4)اسبارے ميں كہ زنان مصر نے اس وقت اپنے ہاتھوں كى كتنى مقدار كاٹى تھى ،مفسرين كےدرميان اختلاف ہے بعض نے يہ بات مبالغہ اميز طورپر نقل كى ہے ليكن قران سےاجمالاً يہى معلوم ہوتا ہے كہ انھوں نے ہاتھ كاٹ لئے تھے
تو پھر يوسف سے عشق ميں مجھے كيوں ملامت كرتىہو ؟
اسوقت مصر كى عورتيں پورى بازى ہار چكى تھيں ان كے زخمى ہا تھوں سے خون بہہ رہاتھا پر يشا نى كے عالم ميں وہ بے روح مجسمے كى طرح اپنى جگہ چپكى سى بيٹھى تھيںان كى حالت كہہ رہى تھى كہ وہ بھى نے زوجہ عزيزسے كچھ كم نہيںہيں، كيا اس نے اسمو قع كو غنيمت سمجھا اور كہا :'' يہ ہے وہ شخص جس كے عشق پر تم مجھے طعنے ديتىتھيں '' (1)
گويا زوجہ عزيز چاہتى تھى كہ ان سے كہے كہ تم نے تو يوسف كو ايك مر تبہ ديكھا ہےاور يوں اپنے ہوش وحواس گنوا بيٹھى ہو تو پھر مجھے كيو نكر ملا مت كرتى ہو جبكہميں صبح وشام اس كے سا تھ اٹھتى بيٹھى ہوں ،زوجہ عزيز نے جو منصو بہ بنايا تھااس ميں اپنى كا ميابى پر وہ بہت مغرور اور پورى صراحت كے سا تھ اپنے گناہ كااعترف كيا اور كہا : جى ہاں : ''ميں نے اسے اپنى آرزو پورا كرنے كے لئے دعوت دىتھى ليكن يہ بچا رہا_'' (2)
اسكے بعد بجائے اس كے كہ اپنے گناہ پر اظہا ر ندامت كر تى يا كم از كم مہمانو ں كےسا منے كچھ پردہ پڑا رہنے ديتى اس نے بڑى بے اعتنائي اور سخت انداز ميں كہ جس سےاس كا قطعى ارا دہ ظاہر ہو تا تھا ، صراحت كے سا تھ اعلان كيا :'' اگر اس (يوسف) نے ميرا حكم نہ ما نا اور ميرے عشق سوزاں كے سامنے سر نہ جھكا يا تو يقينا اسےقيد ميں جانا پڑے گا ''(3) ''نہ صر ف يہ كہ ميں اسے زندان ميں ڈال دوں گى بلكہقيد خا نے كے اندر بھى ذليل و خوار ہو گا_''(4) فطرى امر ہے كہ جب عزيز مصر نےاس واضح خيانت پر اپنى زوجہ سے فقط يہى كہنے پر قنا عت كى كہ'' اپنے گناہ پراستغفار كر'' تو اس كى بيوى رسوائي كى اس منزل تك آپہنچى اصولى طور پر جيسا كہہم نے كہا ہے مصر كے فرعون اور عزيزوں كے در بار ميں ايسے مسائل كو ئي نئي باتنہ تھى _
(1)سورہيوسف آيت 32
(2)سورہيوسف 32
(3)سورہيوسف ايت 32
(4)سورہيوسف آيت32
بعضنے تو اس مو قع پر ايك تعجب انگيز روايت نقل كى ہے وہ يہ كہ چند زنان مصر جو اسدعوت ميں مو جود تھيں وہ زوجہ عزيز كى حمايت ميں اٹھ كھڑى ہو ئيں اور اسے حق بجانب قرارديا وہ يوسف كے گرد جمع ہو گئيں اور ہر ايك نے يوسف كو رغبت دلانے كے لئےمختلف بات كى _
ايكنے كہا : اے جوان : يہ اپنے آپ كو بچا نا ، يہ نا زو نخرے آخر كس لئے ؟ كيوں اسعاشق دلدادہ پر رحم نہيں كرتے ؟ اس خيرہ كن جمال دل آرا كو نہيں ديكھتے ؟ كياتمہارے سينے ميں دل نہيں ہے ؟ كيا تم جوان نہيں ہو ؟ كيا تمہيںعشق وزيبا ئي سےكو ئي رغيبت نہيں اور كيا تم پتھر اور لكڑى كے بنے ہوئے ہو _
دوسرىنے كہا : ميں حيران ہوں چونكہ حسن وعشق كى وجہ سے ميرى سمجھ ميںكچھ نہيں آتاليكن كيا تم سمجھتے نہيں ہو كہ وہ عزيز مصر اور اس ملك كے صاحب اقتدا ر كى بيوىہے ؟ كيا تم يہ نہيں سو چتے كہ اس كا دل تمہارے ہا تھ ميں ہو تو يہ سارى حكومتتمہارے قبضے ميںہو گى اور تم جو مقام چا ہو تمہيں مل جائے گا ؟
تيسرىنے كہا : ميں حير ان ہوں كہ نہ تم اس كے جمال زيبا كى طرف مائل ہو اور نہ اس كےمقام ومال كى طرف ليكن كيا تم يہ بھى نہيں جا نتے كہ وہ ايك خطر ناك انتقام جوعورت ہے اور انتقام لينے كى طاقت بھى پورى طرح اس كے ہاتھ ميں ہے ؟ كيا تمہيں اسكے وحشتنا ك اور تاريك زندان كا كو ئي خوف نہيں ؟ كيا تم اس قيد تنہا ئي كے عالمغربت وبيچا ر گى كے بارے ميں غور وفكر نہيں كرتے ؟
ايكطرف عزيز كى دھمكى اور ان آلودہ گناہ عور توں كا وسوسہ تھا كہ جو اس وقت دلالىكا كھيل كھيل رہيں تھيں اور دوسرى طرف يوسف كے لئے ايك شديد بحرانى لمحہ تھا ،ہرطرف سے مشكلات كے طوفان نے انہيں گھير ركھا تھا ليكن وہ تو پہلے سے اپنے آپ كواسلحہ سے آراستہ كئے ہو ئے تھے نور ايمان ' پاكيز گى اور تقوى نے ان كى روح ميںايك خاص اطمينان پيدا كر ركھا تھا وہ بڑى شجاعت اور عزم سے اپنے موقف پر اڑے
رہے بغير اس كے كہ وہ ان ہوسباز اور ہو س ران عورتوں سے باتوں ميں الجھتے ،انہوں نے پرور گار كى بارگاہ كارخ كيا اور اس طرح سے ان دعا كرنے لگے : بارالہا پر ور دگار : ''جس كى طرف يہعورتيں مجھے دعوت ديتى ہيں اس كى نسبت قيد خانہ اپنى تمام تر سختيوں كے باوجودمجھے زيادہ محب ہے'' _(1)
اسكے بعد چو نكہ وہ جانتے تھے كہ تمام حالات ميں خصوصاً مشكلات ميں لطف الہى كےسوا كو ئي راہ نجات نہيں كہ جس پر بھر وسہ كيا جائے ، انہوں نے اپنے آپ كو خداكے سپر د كيا اور اس سے مدد ما نگى اور پكارے: پر ور دگارا :''اگر تو مجھے انعور توں كے مكر اور خطر ناك منصوبوں سے نہ بچا ئے تو ميرا دل ان كى طرف مائل ہوجائے گا اور ميں جاہلوں ميں سے ہو جائوں'' (2)
خداوندا : ميں تيرے فرمان كا احترام كرتے ہوئے اور اپنى پاكدامنى كى حفاظت كرتے ہوئے اس وحشت ناك قيد خا نے كا استقبال كرتا ہوں وہ قيد خانہ كہ جس ميں ميرى روحآزاد ہے اور ميرا دامن پاك ہے اس كے بدلے ميں اس ظاہر ى آزادى كوٹھوكر مارتا ہوںكہ جس ميں ميرى روح كو زندا ن ہو س نے قيد كرركھا ہو اور جو ميرے دامن كو آلودہكرسكتى ہے _
خدايا : ميرى مدد فرما ، مجھے قوت بخش ،اور ميرى عقل ،ايمان اور تقوى كى طاقت ميںاضافہ فر ماتا كہ ميں ان شيطانى وسو سوں پر كا ميا بى حاصل كروں _
اورچو نكہ خداوندعالم كا ہميشہ سے وعدہ ہے كہ وہ مخلص مجاہد ين كى ( چاہے وہ نفس كےخلاف برسر پيكا ر ہوں يا ظاہرى دشمن كے خلاف ) مدد كرے گا ، اس نے يوسف كو اسعالم ميں تنہا نہ چھوڑا حق تعالى كا لطف وكرم اس كى مدد كو آگے بڑھا، جيسا كہقرآن كہتا ہے:'' اس كے پروردگا ر نے اس كى اس مخلصا نہ دعا كو قبول كيا، ان كےمكر اور سازشوں كو پلٹا ديا،كيو نكہ وہ سننے اور جاننے والا ہے_'' ( 3)
وہبندوں كى دعا بھى سنتا ہے اور ان كے اندر ونى اسرار سے بھى آگاہ ہے اور انہيںمشكلات سے بچا نے كى راہ سے بھى واقف ہے _
(1)سورہيوسف آيت 33
(2)سورہيوسف 33
(3)سورہيوسف 34
قصرعزيز ميں يوسف كى موجود گى ميں زنان مصر كى حيران كن محفل اس شور وغو غا كے عالمميں تمام ہوئي ،فطرى بات تھى كہ يہ خبر عزيز كے كان تك پہنچ گئي ان تمام واقعاتسے واضح ہو گيا كہ يوسف كوئي معمولى انسان نہيں ہے اور اس قدر پاكيزہ ہے كہ كوئيطاقت اسے گنا ہ پر ابھار نہيںسكتى مختلف حوالوں سے اس كى پاكيزگى كى نشا نيا ںواضح ہوگئيں _
يوسف(ع)كى قميص كا پيچھے سے پھٹا ہو نا ، زنان مصر كے وسوسے كے مقابلے ميں استقامت كامظاہرہ كرنا ، قيد خانے ميں جانے كے لئے آمادہ ہونااور زوجہ عزيز كى طرف سے قيداور دردناك عذاب كى دھمكيوں كے سامنے سر نہ جھكا نا يہ سب اس كى پاكيز گى كىدليليں تھيں يہ ايسے دلائل تھے كہ كوئي شخص نہ اسے چھپاسكتا تھا نہ ان كا انكاركر سكتا تھا ان كا لازمى نتيجہ زوجہ عزيز مصر كى نا پا كى اور جرم تھا يہ جرمثابت ہو نے كے بعد عوام ميں خاندان عزيز كى جنسى حوالے سے رسوائي كا خوف بڑھ رہاتھا عزيز مصر اور اس كے مشيروں كو اس كے لئے صرف يہى چارہ دكھا ئي ديا كہ يوسفكو منظر سے ہٹا ديا جا ئے ، اس طرح سے كہ لوگ اسے اور اس كے نام كوبھول جائيں اسكے لئے ان كى نظر ميں بہتر ين راستہ اسے تاريك قيد خانے ميں بھيجنا تھا كہ جسےيوسف كو بھلا بھى ديا جائے گا اور وہ يہ بھى سمجھيں گے كہ اصلى مجرم يوسف تھااسى لئے قرآن كہتا ہے :
''جبانہوں نے ( يوسف كى پا كيز گى كى ) نشا نيا ں ديكھ ليں تو پختہ ارادہ كرليا كہاسے ايك مدت تك قيد ميں ڈال دياجائے ''_(1)
پہلےاس كے بارے ميں ان كا كو ئي ارادہ نہ تھا اور پہلى مر تبہ زوجہ عزيز نے يہ باتاحتمال كے طور پر پيش كى تھى ، بہر حال اس طرح يوسف پاكدامنى كے گناہ ميں قيدخانے ميں پہنچ گئے اور يہ پہلى مر تبہ نہ تھا كہ ايك قابل اور لائق انسان پاكيزگى كے جرم ميں زندان ميں گيا _
(1)سورہيوسف 35
زندان كے واقعات
''يوسفكے ساتھ زندان ميں داخل ہو نے والوں ميں دو جوان بھى تھے'' _(1)
جبانسان كسى معمول كے طريقے سے خبر وں تك رسائي حاصل نہ كر سكے تو اس كے لئے دوسرےاحساسات كو استعمال كرتا ہے تاكہ حوادث كا اندازہ لگا سكے، خواب بھى اس مقصد كےلئے كا ر آمد ہو سكتا ہے _
اسىبنا ء پر دونوں جوان كہ جن كے بارے ميں كہا جاتا ہے كہ ايك بادشا ہ كے گھرمشروبات پر ما مور تھا اور دوسرا باورچى خا نے كا كنٹرولر دشمنوں كى چغلخورى اوربادشاہ كو زہر دينے كے الزام ميں قيد تھا ، ايك روز يوسف كے پاس آئے دونوں نےاپنا گزشتہ شب كا خواب سنا يا جو كہ ان كے لئے عجيب تھا ايك نے كہا :
''ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ شراب بنا نے كے لئے انگور نچوڑ رہا ہوں_'' (2)
''دوسرےنے كہا كہ ميں نے خواب ميں ديكھا ہے كہ ميں نے كچھ روٹيا ںسر پر اٹھا ركھى ہيںاور آسمان كے پرندے آتے ہيں اور ان ميں سے كھا تے ہيں_'' (3)
اسكے بعد انہوں نے مزيد كہا :
''ہميں ہمارے خواب كى تعبير بتائو ، كيو نكہ ہم ديكھ رہے ہيں كہ تم نيكو كاروں ميںسے ہو_'' (4)
قيد خانہ يا مر كز تربيت
حضرتيوسف نے قيد خانے ميں آتے ہى اپنے نيك اطوار ، حسن اخلاق اور قيديوں كى دلجوئي ،خدمت اور بيمار وں كى عيادت سے يہ ظاہر كر ديا تھا كہ وہ ايك نيك اور گرہ كشاانسان ہيں اسى لئے قيدى مشكلات ميں انہى كى پنا ہ لينے تھے اور ان سے مدد مانگتے تھے _
(1)سورہيوسف 36
(2)سورہيوسف 36
(3)سورہيوسف آيت 36
(4)سورہيوسف آيت 36
بہرحال وہ يوسف كہ جو قيديوں كى ہدايت اور راہنما ئي كا كو ئي مو قع ہاتھ سے نہجانے ديتے تھے انہوں نے ان دو قيد يوں كى طرف سے تعبير خواب كے لئے رجو ع كر نےكو غنيمت جا نا اور اس بہانے سے ايسے اہم حقا ئق بيا ن كئے جو ان كے تعبير خوابسے متعلق اپنى آگاہى كے بارے ميں كہ جوان دو قيديوں كے لئے بہت اہميت ركھتے تھے، اور تمام انسانوں كے لئے راستہ كھو لنے والے تھے آپ نے پہلے تو ان كا اعتمادحاصل كرنے كے لئے ان سے كہا : تمہارے كھا نے كا را شن آنے سے پہلے وہ ان كے خوابكى تعبير بتاديں گے_''(1)
اسكے بعد با ايمان اور خدا پر ست يوسف كہ جن كے وجود كى گہرائيوں ميں تو حيد پورىوسعت سے جڑپكڑ چكى تھى ، نے يہ واضح كرنے كے لئے كہ امر الہى كے بغير كو ئي چيزحقيقت كا روپ اختيار نہيں كر تى ، اپنى بات كو اسى طرح سے جارى ركھا :''تعبيرخواب كے متعلق ميرا يہ علم ودا نش ان امور ميں سے ہے كہ جن كى تعليم مجھے مير ےپر وردگا نے دى ہے'' (2)
نيزاس بناء پر كہ وہ يہ خيال نہ كريں كہ خدا كو ئي چيز بغير كسى بنياد كے بخش ديتاہے ، آپ نے مزيد فرمايا: ''ميں نے ان لوگوں كا دين ومذہب ترك كرركھا ہے كہ جوخدا پر ايمان نہيں ركھتے اور آخرت كے منكر ہيں اور اس نور ايمان اور تقوى نےمجھے اس نعمت كے لائق بنايا ہے'' (3)
اسقوم وملت سے مصر كے بت پر ست لو گ يا كنعا ن كے بت پرست مراد ہيں مجھے ايسےعقائد سے الگ ہى ہو نا چا ہيئےيو نكہ يہ انسان كى پاك فطرت كے خلاف ہيں ،علاوہازيں ميں نے ايسے خاندان ميں پر ورش پائي ہے كہ جو وحى ونبوت كا خاندان ہے _''ميں نے اپنے آبا ء واجداد اور بزرگوں ابراہيم (ع) ، اسحاق (ع) اور يعقوب (ع) كےدين كى پيروى كى ہے_'' (4)
(1)سورہيوسف آيت37
(2)سورہيوسف آيت 37
(3) سورہيوسف آيت 37
(4)سورہيوسف آيت 38
شايديہ پہلا مو قعہ تھا كہ حضرت يوسف نے قيد يوں سے اپنا تعارف كروايا تا كہ انہيںمعلوم ہو جا ئے كہ وہ وحى ونبوت كے گھر انے سے ہيں اور ديگر بہت سے قيديوں كىطرح كہ جو طا غوتى نظا موں ميں قيد ہوتے ہيں ، بے گناہ زندان ميں ڈالے گئے ہيں _
جسوقت حضرت يوسف نے گذ شتہ گفتگو كے بعد ان قيد يو ں كے دلوں كو حقيقت تو حيد قبولكرنے كے لئے آمادہ كرليا تو ان كى طرف روئے سخن كرتے ہوئے كہا :'' اے ميرے قيدىسا تھيو : كيا منتشر خدا اور متفرق معبود بہتر ہيں يا يگا نہ ويكتا اور قہار اورہر چيز پر قدر ت ركھنے والا خدا''(1)
گويا يوسف انہيں سمجھا نا چا ہتے تھے كہ كيوں تم فقط عالم خواب ميں آزادى كوديكھتے ہو بيدارى ميں كيوں نہيں ديكھتے ، آخر ايسا كيوں ہے ؟ كيا اس كا سببتمہارا انتشار ، تفر قہ بازى اور نفاق نہيں كہ جس كا سر چشمہ شرك ، بت پرستى اورارباب متفر ق ہيں جن كى وجہ سے ظالم طاغوت تم پر غالب آگئے ہيں تم لوگ پر چم توحيدكے تلے كيوں جمع نہيں ہو تے اور ''الله واحد قھار ،، كا دامن پر ستش كيوں نہيںتھا متے تا كہ ان خودغرض ستمگروں كو اپنے معاشرے سے نكال باہر كرو كہ جو تمہيںبے گناہ اور صرف الزام كى بنيا د پر قيد ميں ڈال ديتے ہيں _
اپنےدو قيدى سا تھيوں كو رہبر ى وارشاد اور انہيں حقيقت تو حيد كى طرف مختلف پہلوئوںكے حوالے سے دعوت دينے كے بعد حضرت يوسف عليہ السلام نے ان كے خواب كى تعبيربيان كى كيو نكہ وہ دونوں اسى مقصد كے لئے آپ كے پاس آئے تھے اور آپ نے بھىانہيں وعدہ ديا تھا كہ انہيں ان كے خوابوں كى تعبير بتائيں گے ليكن آپ نے مو قعغنيمت جا نا اور تو حيد كے بارے ميں اور شرك كے خلا ف واضح اور زنداہ دلا ئل كےسا تھ گفتگو كي_
(1)سورہيوسف آيت 39
اسكے بعد آپ نے ان دو قيدى سا تھيوں كى طرف رخ كر كے كہا :'' اے ميرے قيدى ساتھيوں: تم ميں سے ايك آزاد ہو جائے گا اور اپنے ''ارباب '' كو شراب پلانے پر مامور ہوگا_'' (1)
''ليكن دوسرا سولى پر لٹكا يا جا ئے گا اور اتنى دير تك اس كى لاش لٹكائي جائے گىكہ آسمانى پر ند ے اس كے سر كو نوچ نوچ كر كھا ئيں گے_ ''(2)
اندونوں ميں سے ايك لٹكا يا جا ئے گا ليكن حضرت يوسف نے نہ چا ہا كہ يہ نا گوارخبر اس سے زيادہ صراحت سے بيان كريں لہذا آپ نے 'تم ميں سے ايك '' كہہ كر گفتگوكى اس كے بعد اپنى بات كى تا ئيد كے لئے مزيد كہا: ''يہ معاملہ جس كے بارے ميںتم نے مجھ سے سوال كيا ہے اور مسئلہ پو چھا ہے حتمى اور قطعى ہے_''(3)
يہاس طرف اشارہ تھا كہ يہ خواب كى كو ئي معمولى سى تعبير نہيں ہے بلكہ ايك غيبىخبر ہے جسے ميں نے الہى تعليم سے حاصل كيا ہے لہذا اس مقام پر تردد وشك اور چونوچر ا كى كو ئي گنجائشے نہيں _
جبدوسرے شخص نے يہ نا گوار خبر سنى تو وہ اپنى بات كى تكذيب كرنے لگا اور كہنے لگا: ميں نے جھوٹ بولا تھا ' ميں نے ايسا كو ئي خواب نہيں ديكھا تھا ' ميں نے مذاقكيا تھا اس كا خيا ل تھا كہ اگر وہ اپنے خواب كى ترديد كر دے گا تو اس كى سرنوشت تبديل ہو جائے گى لہذا حضر ت يوسف نے سا تھ ہى يہ بات كہہ دى كہ جس چيز كےبارے ميں تم نے دريا فت كيا وہ نا قابل تغير ہے _
يہاحتمال بھى ہے كہ حضرت يوسف كو اپنى تعبير خواب پر اس قدر يقين تھا كہ انہوں نےيہ جملہ تا كيد كے طور پر كہا _
ليكنجس وقت آپ نے محسوس كيا كہ يہ دونوں عنقريب ان سے جدا ہو جائيں گے لہذا ہو سكتاہے
(1)سورہيوسف آيت 41
(2)سورہيوسف آيت 41
(3)سورہيوسف آيت 41
كہان كے ذريعے آزادى كا كو ئي در يچہ كھل جائے اور روشنى كى كوئي كرن پھو ٹے اورجس گناہ كى آپ كى طرف نسبت دى گئي تھى اس سے اپنے آپ كو بے گناہ ثا بت كريں ''آپنے ان دو قيدى ساتھيوں ميں سے جس كے بارے ميں جانتے تھے كہ وہ آزاد ہوں گے، اسسے فرمائشے كى كہ اپنے مالك وصاحب اختيار ( بادشاہ ) كے پاس ميرے متعلق باتكرنا_ ''(1)تاكہ وہ تحقيق كرے اور ميرى بے گناہى ثابت ہو جائے'' _
ليكناس فرامو ش كا رغلام نے يوسف كا مسئلہ با لكل بھلا ديا جيسا كہ كم ظرف لوگوں كاطريقہ ہے كہ جب نعمت حاصل كر ليتے ہيں تو صاحب نعمت كو فراموش كر ديتے ہيں البتہقرآن نے بات يوں بيان كى ہے : ''جب وہ اپنے مالك كے پاس پہنچا تو شيطان نے اس كےدل سے يوسف كى ياد بھلا دي_'' (2)
اوراس طرح يوسف فراموش كرديئے گئے ''اور چند سال مزيد قيد خانے ميں رہے _'' ( 3)(4)
پيغمبراكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے ايك روايت ميں ہے كہ آپ نے فرمايا :مجھے اپنےبھائي يوسف پر تعجب ہو تا ہے كہ انہوں نے كيونكر خالق كے بجائے مخلوق كى پناہ لىاور اس سے مدد طلب كى _
ايكاور روايت ميں امام صادق عليہ السلام سے منقول ہے :
اسواقعے كے بعد جبرئيل يوسف (ع) كے پاس آئے اور كہا : كس نے تمہيں سب لو گوں سےزيا دہ حسين بنا يا ؟ كہنے لگے : ميرے پرور دگار نے _كہا : كس نے قافلے كوتمہارى طرف بھيجا تا كہ وہ تمہيں كنويں سے نجات دے ؟
(1)سورہيوسف آيت 42
(2)سورہيوسف آيت 42
(3)سورہيوسف آيت 42
(4)البتہزندان يا ديگر مشكلات سے نجات كے لئے ايسى كوشش عام افراد كے لئے كوئي اہم مسئلہنہيں ہے اور طبيعى اسباب سے كام لينے كے ضمن ميں ہے ليكن ايسے افراد كے لئے جونمونہ ہوں اور ايمان و توحيد كى بلند سطح پر فائز ہوں ان كے لئے اشكال سے خالىنہيں ہو سكتى ،شايد اسى بناء پر خدا نے يوسف كے اس ''ترك اولى ''كو نظر اندازنہيں كيا اور اس كى وجہ سے ان كى قيد چند سال مزيد جارى رہي
بولے: ميرے پرور دگار نے _
كہا: كس نے مصر كى عور توں كے مكر وفريب سے تمہيں دور ركھا ؟
كہنےلگے : ميرے پر ور د گار نے _
اسپر جبرئيل نے كہا : تمہارا پرور دگار كہہ رہا ہے كس چيز كے سبب تم اپنى حاجتمخلوق كے پاس لے گئے ہو اور ميرے پاس نہيں لائے ہو لہذاتمہيں چند سال اورزندانميں رہنا چاہئے _
حضرتيوسف عليہ السلام سات برس تك قيد خانے ميں تنگى وسختى ميں ايك فراموش شدہ انسانكى طرح رہے وہ خود سازى ' قيديوں كو ارشاد وہدايت ' بيماروں كى عيادت اور در دمند وں كى دلجو ئي ميں مصر وف رہے يہا ں تك كہ ايك ظاہر اً چھوٹا سا واقعہ رونماہوا جس نے نہ صرف ان كى بلكہ مصر اور اس كے اطراف ميں رہنے والوں كى سر نوشت كوبدل كے ركھ ديا _
بادشاہمصر كہ جس كا نام كہا جاتا ہے كہ وليدبن ريان تھا ( اور عزيز مصر اس كا وزير تھا) اس نے ايك خواب ديكھا يہ ظاہر ا ًايك پريشا ن كن خواب تھا،دن چڑھا تو اس نےخواب كى تعبير بتانے والوں اور اپنے ساتھيوں كو جمع كيا اور كہنے لگا ميں نے خوبميںديكھا ہے كہ'' سات كمزورسى اور سات مو ٹى تازى گائيں ہيں اور دبلى پتلى گائيں ان پر حملہ آور ہو ئي ہيں اور انہيں كھا رہى ہيں نيز سات ہرے بھرے اور ساتخشك شدہ گچھے ہيں اور خشك شدہ گچھے سبزگچھوں پر لپٹ گئے ہيں اور انہيں ختم كردياہے'' ( 1)
اسكے بعد اس نے ان كى طرف روئے سخن كيا اور كہنے لگا : ''اے قوم كے سردارو : ميرےخواب كے بارے ميں اپنا نقطئہ نظر بيان كرو اگر تم خواب كى تعبير بتا سكتے ہو''(2) ليكن سلطان كے حواريوں نے فورا ًكہا كہ :يہ خواب پريشان ہيںاور ہم لوگايسے خوابوں كى تعبير نہيں جانتے ''( 3)
(1)سورہيوسف آيت 43
(2) سورہيوسف آيت 44
(3)سورہيوسف آيت 44
يہاںيہ سوال پيش آتا ہے كہ انہوں نے كس طرح جرا ت كى 'شاہ مصر كے سا منے اس رائے كااظہار كريں كہ وہ اسے پريشان خواب ديكھنے كا الزام ديں ،جبكہ ان حاشيہ نشينوں كامعمول يہ ہے كہ وہ ان كى ہر چھو ٹى بڑى اور بے معنى حركت كے لئے كو ئي فلسفہگھڑتے ہيں اور بڑى معنى خيز تفسير يں كرتے ہيں ،يہ ہو سكتا ہے كہ يہ اس لئے ہوكہ انہوں نے ديكھا تھا كہ بادشاہ يہ خواب ديكھ كر پريشان ومضطرب ہے اور وہپريشانى ميں حق بجانب بھى تھا كيو نكہ اس نے خواب ميں ديكھا تھا كہ كمزور اورلاغر گائيں تو انا اور موٹى تازى گائوں پر حملہ آور ہوتى ہيں اور انہيں كھا رہىہيں اور يہى صورت خشك گچھوں كى تھى ،كيا يہ اس بات كى دليل ہے كہ كمزور لوگاچانك اس كے ہاتھ سے حكو مت چھين ليں گے لہذا انہوں نے بادشاہ كے دل كا اضطرابدور كرنے كے لئے اس سے كہا كہ خواب كسى چيز كى دليل نہيں ہو تے _
اسمو قع پر بادشاہ كا سا قى كہ جو چند سال قبل قيد خانے سے آزاد ہو ا تھا ' اسےقيد خانے كا خيال آيا اسے ياد آيا كہ يوسف اس خواب كى تعبير بيان كر سكتے ہيں اسنے بادشاہ كے حاشيہ نشينوں كى طرف رخ كر كے كہا:'' ميں تمہيں اس خواب كى تعبيربتا سكتا ہو ںمجھے اس كا م كے ماہر استاد كے پاس بھيجو كہ جو زندان ميں پڑا ہےتاكہ تمہيں بالكل سچ خبر لاكر دوں ''(1)
جىہاں اس گوشئہ زنداں ميں ايك روشن ضمير ' صاحب ايمان اور پاك دل انسان زند گى كےدن گزار ہا ہے كہ جس كا دل، حوادث آئندہ كا آئينہ ہے ، وہ ہے كہ جو اس راز سےپردہ اٹھا سكتا ہے اور اس خواب كى تعبير بيان كر سكتا ہے _
اسكى اس بات نے محفل كى كيفيت ہى بدل دى ،سب كى آنكھيں سا قى پر لگ گئيں آخر كاراسے اجازت ملى اور حكم ملا كہ جتنى جلدى ہو سكے اس كام كے لئے نكل كھڑا ہوا اورجلد نتيجہ پيش كر ے ساقى زندان ميں
(1) سورہيوسف 45
آيا اور اپنے پرانے دوستيوسف(ع) كے پاس پہنچا، وہى دوست جس نے بڑى بے وفائي كى تھى ليكن اس كى عظمت سےتو قع نہيں كہ وہ د فتر شكا يت كھول بيٹھے _اس نے حضرت يوسف سے مخاطب ہو تے ہوئے كہا : ''يوسف اے سرا پا صداقتاس خواب كے بارے ميں تم كيا كہتے ہو كہ كسى نےديكھا ہے كہ سات لا غر گا ئيں مو ٹى تازى كو كھا رہى ہيں نيز سات ہر ے گچھے ہيںاور سات خشك شدہ ہيں ( كہ جن ميں سے دوسرا پہلے سے لپٹ گيا ہے اور اسے نابود كرديا ہے '')'' شايد ميں اس طرح ان لوگوں كے پاس لو ٹ كے جائوں تو وہ اس خواب كےاسرار سے آگاہ ہو سكيں''_(1)
بہرحال حضرت يوسف عليہ السلام نے بغير كسى شرط كے اور بغير كسى صلہ كے تقاضے كےفوراً خواب كى واضح اور نہا يت اعلى تعبير بيان كى اس ميں آپ نے كچھ چھپا ئےبغير در پيش تاريك مستقبل كے بارے ميں بتايا ساتھ ہى اس كے لئے راہنما ئي كردىاور ايك مر تب پروگرام بتا ديا آپ نے كہا:''سات سال پيہم محنت سے كا شت كا رىكرو كيونكہ ان سات برسوں ميں بارش خو ب ہو گى ليكن جو فصل كا ٹو اسے خوشوں سميتانباروں كى صورت ميں جمع كر لو سوائے كھا نے كے لئے جو تھوڑ ى سى مقدار ضرورى ہو''_(2)
ليكنجان لوكہ ان سات برسوں كے بعد سات برس خشك سالى ، بارش كى كمى اور سختى كے آئيںگے كہ جن ميں صرف اس ذخيرے سے استفا دہ كرنا ہو گا جو گزشتہ سالوں ميں تمامذخير،كيا ہوگا ورنہ ہلاك ہوجائوگے البتہ خيال رہے كہ خشكى اور قحط كے ان ساتسالو ں ميں تمام ذخيرہ شدہ گندم نہ كھا جا نا ''بلكہ كچھ مقدار بيج كے طور پرآئندہ كا شت كيلئے ركھ چھوڑنا كيونكہ بعد كا سال اچھا ہو گا''( 3)
اگرخشك سالى اور سختى كے يہ سال تم سو چے سمجھے پر گرام اور پلان كے تحت ايك ايككركے گزار لو تو پھر تمہيں كوئي خطرہ نہيں ''اس كے بعد ايك ايسا سال آئے گا كہخوب باران رحمت ہو گى اور لوگ اس آسمانى نعمت سے خوب بہرہ مند ہوںگے ''( 4)
(1)سورہيوسف آيت 46
(2)سورہيوسف 47
(3)سورہيوسف آيت 48
(2)سورہيوسف آيت 48
اسسے نہ صرف زراعت اور اناج كا مسئلہ حل ہو جا ئے گا بلكہ رس دار پھل اور روغنداردا نے بھى فراواں ہو ں گے ''كہ لوگ جن سے رس اور روغن حاصل كريں گے ''( 1)
حضرتيوسف عليہ السلام نے خواب كى جو تعبير بيان كى وہ كس قدر جچى تلى تھى قديمى كہانيوں ميں گائے سال كا سنبل سمجھى جا تى تھى اور اس كا توانا ہو نا فراواں نعمتكى دليل ہے جبكہ لاغر ہو نا مشكلات اور سختى كى دليل ہے سات لاغر گا ئيں سات توانا گا ئو ں پر حملہ آور ہو ئيں تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ سختى كے سات سالوںميں قبل كے سالوں كے ذخائر سے فائدہ اٹھا نا چاہئے اور سات خشك شدہ خوشہ يا گچھےجو سات سبز خوشوں سے لپٹ گئے تو يہ فراوانى نعمت اور خشك سالى كے دو مختلف ادواركے لئے ايك اور دليل تھى اس ميں اس نكتہ كا اضا فہ تھا كہ اناج كو خو شوں كى شكلميں ذخيرہ كيا جانا چا ہئے تاكہ جلد خراب نہ ہو اور سات برس تك چل سكے _ نيز يہكہ لاغر گا ئيں اور خشك شدہ خو شوں كے سات سے زيادہ نہ تھے يہ امر اس بات كىنشاندہى كر تا ہے كہ ان سخت سات سالوں كے بعد يہ كيفيت ختم ہو جا ئے گى اور فطرىطور پر بيج كى فكربھى كر نا چاہئے اور ذخيرے كا كچھ حصہ اس كے لئے محفوظ ركھناچا ہئے_
حضرتيوسف(ع) درحقيقت كہ عام تعبير خواب بيان كرنے والے شخص نہ تھے بلكہ ايك رہبر تھےكہ جو گوشئہ زندان ميں بيٹھے ايك ملك كے مستقبل كے لئے منصوبہ بندى كر رہے تھےاور انہيں كم از كم پند رہ برس كے لئے مختلف مراحل پر مشتمل ايك پلان دے رہے تھےاور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ يہ تعبير جو ائندہ كے لئے منصوبہ بندى اور راہنمائيپر مشتمل تھي;نے جابر بادشاہ اور اس كے حواريوں كو ہلا كے ركھ ديا اور اہل مصركے ہلاكت خيز قحط سے نجات كا سبب بنى اور اسى كے سبب حضرت يوسف كو زندا ن سے اورحكومت كو بھى خود غرض اور خود سر لوگوں سے نجات مل گئي _
(1)سورہيوسف آيت 49
جيساكہ ہم كہہ چكے ہيں كہ حضرت يوسف عليہ السلام نے شا ہ مصر كے خواب كى جو تعبيربيان كى وہ اس قدر جچى تلى اور منطقى تھى كہ اس نے بادشاہ اور اس كے حاشيہنشينوں كو جذب كرليا بادشاہ نے ديكھا كہ ايك غير معروف سے قيدى نے كسى مفاد كىتو قع كے بغير اس خواب كى مشكل تعبير كس بہتر ين طريقہ سے بيان كر دى ہے اورساتھ ہى آئندہ كے لئے نہايت جچا تلا پر وگرام بھى پيش كر ديا ہے _ اجمالا ًاس نےسمجھ ليا كہ يہ كو ئي غلام قيدى نہيں ہے بلكہ غير معمولى شخصيت ہے كہ جو كسى پراسرار ماجر ے كے باعث قيد ميں ڈالا گيا ہے لہذا اسے اس كے ديدار كا اشتياق پيداہوا ليكن ايسا نہيں كہ سلطنت كا غرور ايك طرف ركھ كر وہ ديد ار يوسف كے لئے چلپڑے بلكہ'' اس نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئو '' (1)
ليكنجب اس كا فرستا دہ يوسف كے پاس آيا تو بجا ئے اس كے كہ يوسف اس خوشى ميں پھولےنہ سماتے كہ سالہا سال قيدخانے كے گڑھے ميں رہنے كے بعد اب نسيم آزادى چل رہى ہے'آپ نے بادشاہ كے نمائندہ كو منفى جواب ديا اور كہا كہ ميں اس وقت تك زندان سےباہر نہيں آئوں گا،''جب تك كہ تو اپنے مالك كے پاس جاكر اس سے يہ نہ پوچھے كہ وہعورتيں جنھوں نے تيرے وزير( عزيز مصر كے محل ميں اپنے ہاتھ كا ٹ لئے تھے ان كاماجرا كيا تھا'' _(2)
وہنہيں چاہتے تھے كہ ايسے ہى جيل سے رہا ہو جا ئيں اور شاہ كى طرف سے معين كئے گئےايك مجرم يا كم از كم ايك ملزم كى صورت ميں زندگى بسر كريں وہ چاہتے تھے كہ سبسے پہلے ان كى قيد كے سبب كے بارے ميں تحقيق ہو اور ان كى بے گناہى اور پاكدامنىپورى طرح درجہء ثبوت كو پہنچ جائے اور برائت كے بعد وہ سر بلندى سے آزاد ہوں اورضمناً حكومت مصر كى مشينرى كى آلود گى بھى ثابت ہو جا ئے اور يہ ظاہر ہو جا ئےكہ اس كے وزير كے در بار ميں كيا گزرتى ہے _
(1) سورہيوسف آيت 50
(2)سورہيوسف آيت 50
جىہاں : وہ اپنے عزو شرف كو آزادى سے زيادہ اہميت ديتے تھے اور يہى ہے حر يت پسندوں كا راستہ ہے_
يہامر جاذب تو جہ ہے كہ حضرت يوسف نے اپنى گفتگو ميں اس قدر عظمت كا مظاہر ہ كياكہ يہاں تك تيار نہ ہو ئے كہ عزيز مصر كى بيوى كا نام ليں كہ جو ان پر الزام لگانے اور جيل بھجنے كا اصلى عامل تھى بلكہ مجمو عى طور پر زنان مصر كے ايك گروہ كىطرف اشارہ كيا كہ جو اس ما جرا ميں دخيل تھيں _
اسكے بعد آپ نے مزيد كہا : اگر چہ اہل مصر نہ جانيں اور يہا ں تك در بار سلطنت بھىبے خبر ہو كہ مجھے قيد كئے جا نے كا منصوبہ كيا تھا اور كن افراد كى وجہ سے پيشآيا ليكن '' ميرا پر وردگار ان كے مكر وفريب اور منصوبہ سے آگاہ ہے ''(1)
شاہكا خاص نما ئندہ اس كے پاس لوٹ آيا اور يوسف كى تجويز كہ جس سے اعلى ظرفى اوربلند نظرى جھلكتى تھى ، بادشاہ نے سنى تو وہ يوسف كى بزرگوارى سے بہت زيا دہ متاثر ہوا لہذا اس نے فوراً اس ما جر ے ميں شريك عورتوں كو بلا بھيجا وہ حاضر ہوئيں تو ان سے مخا طب ہو كر كہنے لگا : ''بتائو ميں ديكھوں كہ جب تم نے يوسف سےاپنى خواہش پورا كرنے كا تقاضا كيا تو اصل معا ملہ كيا تھا ''(2)
سچكہنا ، حقيقت بيان كرنا كہ كيا تم نے اس ميں كو ئي عيب تقصير اور گنا ہ ديكھا ہے؟
انكے خوابيدہ ضمير اس سوال پر اچا نك بيدار ہو گئے'' اور سب نے متفقہ طورپر يوسفكى پاكدا منى كى گواہى دى اور كہا : منزہ ہے خدا ' ہم نے يوسف ميں كو ئي گنا ہنہيں ديكھا ''(3)
عزيزمصر كى بيوى وہاں مو جو د تھى بادشاہ اور زنان مصر كى باتيں سن رہى تھى بغير اسكے كہ كوئي اس سے سوال كر ے، ضبط نہ كر سكى ' اس نے محسوس كيا كہ اب وہ مو قعہآگيا ہے كہ ضمير كى سالہا سال كى شرمند گى كي
(1)سورہيوسف آيت 50
(2)سورہيوسف آيت 51
(3) سورہيوسف آيت 51
يوسف كى پاكيز گى اور اپنىگنہگارى كے ذريعہ تلافى كرے ،خصوصاًجب كہ اس نے يوسف(ع) كى بے نظير عظمت كو اس پيغامميں ديكھ ليا تھا جوانہوں نے بادشا ہ كو بھيجا تھا ديكھ ليا كہ اپنے پيغام ميںانہوں نے اس كے بارے ميں تھوڑى سى بات بھى نہيں كى اور اشارتا ًصرف زنان مصر كےبارے ميں بات كى ہے اس كے اندار گويا ايك ہلچل مچ گئي ''وہ چيخ اٹھى : اب حقآشكارہو گيا ہے ميں نے اس سے خواہش پورى كرنے كا تقا ضا كيا تھا وہ سچا ہے''_(1)اور ميں نے اس كے بارے ميں اگر كوئي بات كى ہے تو وہ جھوٹ تھى ، بالكل جھوٹتھي'' (2)
زوجہعزيز نے اپنى بات جارى ركھتے ہو ئے كہا : ميں نے يہ صريح اعتراف اس بناء پر كياہے ''تا كہ يوسف كو معلوم ہو جائے كہ ميں نے اس كى غيبت ميں اس كے بارے ميںخيانت نہيں كى ''( 3)
كيونكہاتنى مدت ميں اور اس سے حاصل ہو نے والے تجربات كے بعد ميں نے سمجھ ليا ہے'' كہخدا خيانت كر نے والوں كے مكر و فريب كوچلنے نہيں ديتا ''(4)
درحقيقت (5)اس نے يوسف كى پاكيز گى اور اپنى گنہگار ى كے صر يح اعتراف كے لئے دودليليں قائم كيں : پہلى يہ كہ اس كا ضميراور احتما لا يوسف سے اس باقى ما ندہلگا ئو اسے اجا زت نہيں ديتا اور اسى لئے محلوں كى پر خواب زندگى كے پر دے آہستہآہستہ اس كى آنكھوں كے سا منے سے ہٹ گئے اور وہ زندگى كى حقيقتوں كو سمجھنے لگى كےخصو صا عشق ميں شكست نے اس كے افسانوى غرور پر جو ضرب لگا ئي اس سے اس كى نگاہحقيقت اور كھل گئي _
اسحالت ميں تعجب كى بات نہيں كہ وہ اس طرح كا صريح اعتراف كر ے_ اس نے اپنى باتجارى ركھتے ہوئے مزيد كہا : ''ميں ہر گز اپنے نفس كى برائت كا اعلان نہيں كر تىكيو نكہ ميں جانتى ہوں كہ يہ نفس امارہ مجھے برائيوں كا حكم ديتا ہے،مگر يہ كہميرا پروردگار رحم كرے ''_(6)
(1)(2)سورہيوسف آيت 51
(3) سورہيوسف آيت 52
(4)سورہيوسف آيت 52
(5)اگر چہيہ جملہ عزيز مصر كى بيوى كا ہے ' جيسا كہ ظاہر عبارت كا تقاضا ہے
(6)سورہيوسف آيت 35
اوراس كى حفاظت اور نصرت ومدد كے باعث بچ جائوں (1 ) بہر حال اس گنا ہ پر ميں اس سےعفو وبخشش كى اميد ركھتى ہوں ''كيو نكہ ميرا پر ور د گا ر غفور ورحيم ہے '' (2)
''بادشاہ نے حكم ديا كہ اسے ميرے پاس لے آئوتاكہ ميں اسے اپنا مشير اور نما ئندہ خاصبنائوں''_(3)اور اپنى مشكلا ت حل كر نے كے لئے اس كے علم ودا نش اور انتظامى صلاحيت سے مدد لوں_
باد شا ہ كا پر جوش پيام لے كر اس كا خاص نما ئند ہ قيد خا نے ميں يوسف كے پا سپہنچا _اس نے بادشا ہ كى طرف سے سلام ودعاپہنچا يا اور بتايا كہ اسے آپ سے شديدلگا و ہو گيا ہے _اس نے مصر كى عورتوں كے بارے ميں تحقيق سے متعلق آپ كى درخواست كو عملى جا مہ پہنا يا ہے اور سب نے كھل كر آپ كى پاكدا منى اور بے گنا ہىكى گواہى دى ہے لہذا اب تا خير كر نے كى گنجا ئشے نہيں رہى اٹھيے تا كہ ہم اس كےپا س چليں حضرت يوسف باد شا ہ كے پاس تشريف لائے ''ان كى آپس ميں بات چيت ہو ئيبادشا ہ نے ان كى گفتگو سنى اور آپ كى پر مغزاور نہا يت اعلى باتيں سنيں اس نےديكھا كہ آپ كى باتيں انتہائي علم ودانش اور دانا ئي سے معمو ر ہيں اور ہما رےنزديك قابل اعتما د رہيں گے ''( 4)
آجسے اس ملك كے اہم كا م آپ كے سپر د ہيں اور آپ كو امور كى اصلاح كے لئے كمر ہمتباندھ لينا چا ہئے كيو نكہ ميرے خواب كى جو تعبير آپ نے بيان كى ہے اس كے مطا بقاس ملك كو شديد اقتصادى بحر ان در پيش ہے اور ميں سمجھتا ہوں كہ اس بحران پر صرفآ پ ہى قابو پاسكتے ہيں_
''حضرتيوسف نے تجويز پيش كى مجھے اس علاقے كے خزا نوں كى ذمہ دارى سونپ دى جائے كيونكہميں خواب كے اسرار سے بھى واقف ہوں_''(5)
(1)سورہيوسف آيت 53
(2)سورہيوسف آيت 53
(3)سورہيوسف آيت 54
(4) سورہيوسف آيت 54
(5) سورہيوسف آيت 55
حضرتيوسف اچھى طرح جانتے تھے كہ ظلم سے بھر ے اس معا شر ے كى پر يشانيوں كى ايك اہمبنياد اس كے اقتصا دى مسائل ہيں لہذا انہوں نے سو چا كہ اب جب كہ انہيں مجبور اًآپ كى طرف آنا پڑا ہے تو كيا ہى اچھا ہے كہ مصر كى اقتصا ديات كو اپنے ہاتھ ميںلے ليں اور محروم و مستضعف عوام كى مدد كے لئے آگے بڑ ھيں اور جتنا ہو سكےطبقاتى تفاوت اور او نچ نيچ كو كم كريں مظلوموں كا حق ظالموں سے ليں اور اس وسيعملك كى بد حالى كو دور كريں _
آپكى نظر ميں تھا كہ خاص طور پر زرعى مسائل اس ملك ميں زيادہ اہم ہيں اس بات پربھى توجہ ركھنا ہو گى كہ چند سا ل فراوانى كے ہوں گے اور پھر خشكى كے سال در پيشہوں گے لہذا لوگوں كو زيادہ سے زيادہ غلہ پيدا كر نے اور پھر انہيں احتياط سےمحفوظ ركھنے اور نہا يت كم خر چ كرنے پر آمادہ كرنا ہوگا تا كہ قحط سالى كے لئےغلہ ذخيرہ كيا جاسكے،لہذا اس مقصد كے لئے آپ كو يہى بہتر معلوم ہوا كہ آپ مصر كےخزانوں كواپنى سر پرستى ميںلينے كى تجويز پيش كريں _ بعض نے لكھا ہے كہ اس سالبادشاہ سخت مشكلا ت ميں گھراہو ا تھا اور كسى طرح ان سے نجات چاہتا تھا لہذا اسنے تمام امور كى باگ ڈور حضرت يوسف كے ہاتھ ميں دے دى اور خود كنار ہ كشى اختياركرلى _
بعضدوسروں كا كہنا ہے كہ اس نے عزيز مصر كى جگہ حضرت يوسف كو اپنا وزير اعظم بناليا_يہ احتمال بھى ہے كہ(1)وہ صر ف مصر كے خزا نہ دار بنے ہوں_(2)بہر حال اس مقامپر خدا كہتا ہے: ''اور اس طرح ہم نے يوسف كو سرزمين مصر پر قدرت عطا كى كہ وہجيسے چاہتا تھا اس ميں تصرف كرتا تھا''(3)
(1)سورہيوسف ايت 55كے ظاہر ى مفہوم كے مطابق
ليكن سورہيوسف آيت 100 ،اور 101، اس امر كى دليل ہيں كہ آخر كار آپ بادشاہ ہوگے اور تمامامور مملكت كى باگ ڈور آپ كے ہاتھ آگئي اگر چہ آيت 88، ميں ہے كہ يوسف كے بھائيوں نے ان سے كہا : (يا ايھا العزيز )_
يہ اس امركى دليل ہے كہ آپ نے عزيز مصر كا منصب سنبھا لا مگر اس ميں كوئي مانع نہيں كہ آپنے يہ منصب تدريجا ًحاصل كئے ہوں پہلے وزير خزانہ ہو ئے ہوں ، پھر وزير اعظم اورپھر بادشا ہ _
(2)(3)سورہيوسف آيت 56
جىہاں :''ہم اپنى رحمت اور ما دى ورو حا نى نعمتيں جسے چا ہتے ہيں اور اہل پاتےہيں عطا كر تے ہيں'' (1) اور ہم نيكوں كا اجر ہر گز ضا ئع نہيں كريں گے ''_اگرچہ اس ميں تا خير ہو جا ئے تا ہم آخر كار جوكچھ ان كہ لائق ہوانھيںديں گے_'' كيونكہ ہم كسى نيك كام كو فراموش نہيں كرتے ''( 2)
ليكناہم بات يہ ہے كہ ہم صر ف دنيادى اجرہى نہيں ديں گے بلكہ ''جو اجر انہيں آخرتميں ملے گا وہ اہل ايمان اور صاحبان تقوى كے لے زيادہ اچھا ہے '' ( 3)
آخركار جيسا كہ پيشين گوئي ہوئي تھى سات سال پے در پے بارش ہو نے كے سبب اور دريائے نيل كے پانى ميں اضافہ كے باعث مصر كى زرعى پيدا وار خوب تسلى بخش ہو گئي مصركا خزانہ اور اقتصادى امور حضرت يوسف كے زير نظر تھے آپ نے حكم ديا كہ غذا ئياجنا س كو خراب ہو نے سے بچانے كے لئے چھو ٹے بڑے گودام بنائے جائيں آپ نے عوامكو حكم ديا كہ پيدا وار سے اپنى ضرورت كے مطا بق ركھ ليں اور باقى حكمومت كو بيچديں اس طرح گودام غلے سے بھر گئے _
نعمتوبر كت كى فرا وانى كے يہ سات سال گزر گئے اور خشك سالى كا منحوس دور شروع ہوايوں لگتا تھا جيسے آسمان زمين كے لئے بخيل ہو گيا ہے كھيتياں اور نخلستان خشك ہوگئے عوام كو غلے كى كمى كا سامنا كر نا پڑا ليكن وہ جانتے تھے كہ حكومت نے غلےكے ذخائر جمع كر ركھے ہيں لہذا وہ اپنى مشكلات حكومت ہى كے ذر يعے دور كرتے تھےحضر ت يوسف بھى پورى منصوبہ بندى اور پرو گرام كے تحت غلہ فروخت كر تے تھے اورعاد لا نہ طور پر ان كى ضرورت پورى كر تے _
يہبات جاذب نظر ہے كہ حضرت يوسف (ع) نے مصر كے لوگوں ميں طبقاتى تفاوت اور لوٹگھسوٹ كو ختم كرنے كے لئے قحط كے سالوں سے استفادہ كيا ،اپ نے زيادہ پيدا وار كےعرصے ميں لوگوں سے غذائي
(1)سورہيوسف آيت 56
(2) سورہيوسف آيت 56
(3)سورہيوسف57
مواد خريد ليا اورا س كے لئےتيار كئے گئے بڑے بڑے گوداموں ميں اسے ذخيرہ كر ليا ،جب يہ سال گزر گئے اور قحطكے سال شروع ہوئے تو پہلے سال اجناس كو درہم و دينا ر كے بدلے بيچا ،اس طرحكرنسى كا ايك بڑا حصہ جمع كر ليا ،دوسرے سال اسباب زينت اور جواہرات كے بدلےاجناس كو بيچا ،البتہ جن كے پاس يہ چيزيں نہ تھيں انھيں مستثنى ركھا تيسرے برسچوپايوں كے بدلے ،چوتھے برس غلاموں اور كنيزوں كے عوض، پانچويں برس عمارت كےبدلے ،چھٹے برس زرعى زمينوں اور پانى كے عوض اور ساتويں سال خود مصر كے لوگوں كےبدلے اجناس ديں،پھر يہ سب چيز يں انھيں (عادلانہ طورپر)واپس كر ديں اور كہا كہميرا مقصد يہ تھا كہ عوام كو بلا و مصيبت اور بے سروسامانى سے نجات دلاو ں_
يہخشك سالى صرف مصر ہى ميں نہ تھى ،بلكہ اطراف كے ملكوں كا بھى يہى حال تھا فلسطيناور كنعا ن مصر كے شمال مشر ق ميں تھے وہاں كے لو گ بھى انہى مشكلات سے دوچارتھےحضر ت يعقوب كا خاندان بھى اسى علاقے ميں سكو نت پذ ير تھا وہ بھى غلہ كى كمى سےدوچار ہو گيا حضر ت يعقوب (ع) نے ان حالات ميں مصمم ارادہ كيا كہ بنيا مين كےعلاوہ باقى بيٹوں كو مصر كى طرف بھيجيں يوسف كى جگہ اب بنيا مين ہى ان كے پاستھا بہر حال وہ لوگ مصر كى طرف جانے والے قافلے كے ہمر اہ ہولئے اور بعض مفسرينكے بقول اٹھا رہ دن كى مسافت كے بعدمصر پہنچے _
جيساكہ تو اريخ ميں ہے ، ضرورى تھا كہ ملك كے باہر سے انے والے افراد مصر ميں داخلہو تے وقت اپنى شناخت كروائيں تاكہ مامور ين حضرت يوسف كو مطلع كريں جب ماموريننے فلسطين كے قافلے كى خبر دى تو حضرت يوسف نے ديكھا كہ غلے كى درخواست كر نےوالوں ميں ان كے بھائيوں كے نام بھى ہيں آپ انھيں پہچان گئے اور يہ ظاہر كئےبغير كہ وہ اپ كے بھا ئي ہيں ، اپ نے حكم ديا كہ انہيں حاضر كيا جا ئے اور جيساكہ قران كہتا ہے : ''يوسف كے بھائي ائے اور ان كے پاس پہنچے يوسف نے انہيں پہچان ليا ليكن
انہوں نے يوسف كو نہيںپہچانا ''( 1)
وہيوسف كو نہ پہچا ننے ميں حق بجا نب تھے كيو نكہ ايك طرف تو تيس سے چا ليس سال تككا عر صہ بيت چكا تھا ( اس دن سے لے كر جب انہوں نے حضرت يوسف كو كنويں ميںپھينكا تھا ان كے مصر ميں انے تك ) اور دوسرى طرف وہ سوچ بھى نہ سكتے تھے كہ انكا بھا ئي عزيز مصر ہو گيا ہے يہا ں تك كہ اگر وہ اسے اپنے بھا ئي سے مشا بہ بھىپا تے تو اسے ايك اتفاق ہى سمجھتے ان تمام امور سے قطع نظر حضر ت يوسف كے لباسكا اندازبھى بالكل بدل چكا تھا انہيں مصر يوں كے نئے لباس ميں پہچا ننا كو ئياسان نہيں تھا بلكہ يوسف كے ساتھ جو كچھ ہو گزرا تھا اس كے بعد ان كى زندگى كااحتمال بھى ان كے لئے بہت بعيد تھا _
بہرحال انہوں نے اپنى ضرورت كا غلہ خريد ا اور اس كى قيمت نقدى كى صورت ميں اور يامو زے ، جوتے يا كچھ اور اجناس كى صورت ميں ادا كى كہ جو وہ كنعان سے مصر لا ئےتھے _
حضرتيوسف (ع) نے اپنے بھا ئيوں سے بہت محبت كا برتائو كيا اور ان سے بات چيت كرنےلگے بھائيوں نے كہا :ہم دس بھائي ہيں اور حضرت يعقوب كے بيٹے ہيں ہمارے والد خداكے عظيم پيغمبر ابراہيم خليل كے پوتے ہيں اگر اپ ہمارے باپ كو پہچا نتے ہو تے توہمارا بہت احترام كرتے ہمارا بوڑھا باپ انبياء الہى ميں سے ہے ليكن ايك نہا يتگہرے غم نے اس كے پورے وجود كو گھير ركھا ہے _
حضرتيوسف نے پوچھا :يہ غم كس بناء پر ہے _انہوں نے كہا :
انكا ايك بيٹا تھا جس سے وہ بہت محبت كر تے تھے ،عمر ميں وہ ہم سے بہت چھوٹا تھاايك دن وہ ہمارے سا تھ شكار اور تفريح كے لئے صحرا ميں گيا ہم اس سے غافل ہو گئےتو ايك بھيڑيا اسے چير پھاڑ ا گيا اس دن سے لے كر اج تك باپ اس كے لئے گرياںاورغمگين ہيں_
(1)سورہيوسف آيت 58
حضرتيوسف (ع) كى عادت تھى كہ ايك شخص كو ايك اونٹ كے بارسے زيادہ غلہ نہيں بيچتے تھےحضرت يوسف كے يہ بھا ئي چو نكہ دس تھے لہذا انہيں غلے كے دس بار ديئے گئے _
انہوںنے كہا : ہمارا بوڑ ھا باپ ہے اور ايك چھو ٹا بھا ئي ہے جو وطن ميں رہ گيا ہےباپ غم واندوہ كى شدت كى وجہ سے سفر نہيں كر سكتا اور چھوٹا بھائي خدمت كے لئےاور مانوسيت كى وجہ سے اس كے پاس رہ گيا ہے لہذا ان دونوں كا حصہ بھى ہميں دےديجئے _
حضرتيوسف (ع) نے حكم ديا كہ دو او نٹوں كے باركا اضا فہ كيا جائے پھر حضرت يوسف انكى طرف متوجہ ہو ئے اور كہا : ميں ديكھ رہا ہوں كہ تم ہوشمند اور مو دب افرادہوا ور يہ جو تم كہتے ہو كہ تمہارے باپ كو تمہارے سب سے چھوٹے بھا ئي سے لگا ئوہے اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ غير معمولى اور عام بچوں سے ہٹ كر ہے ميرى خواہشہے كہ تمہارے ايندہ سفر ميں ميں اسے ضرور ديكھوں اس كے علاوہ يہاں كے لوگوں كوتمہارے بارے ميں كئي بدگمانيا ں ہيں كيو نكہ تم ايك دوسرے ملك سے تعلق ركھتے ہولہذا بدگمانى كى اس فضا ء كو دور كرنے كے لئے ايندہ سفر ميں چھو ٹے بھائي كو نشانىكے طور پر ساتھ لے انا _
يہاں قران كہتا ہے :
''جب يوسف نے ان كے بارتيار كئے تو ان سے كہا : تمہارا بھائي جو باپ كى طرف سے ہےاسے ميرے پاس لے ائو''_(1)
اسكے بعد مزيد كہا :
''كياتم ديكھتے نہيں ہو كہ ميں پيما نہ كا حق ادا كرتا ہوں اور بہترين ميزبان ہوں'' _(2)
استشويق اور اظہار محبت كے بعد انہيں يوں تہديد بھى كى :'' اگر اس بھا ئي كو ميرےپاس نہ لائے تو نہ تمہيں ميرے پاس سے غلہ ملے گا اور نہ تم خود ميرے پاس پھٹكنا_''(3)
(1)سورہيوسف آيت 59
(2) سورہيوسف آيت 59
(3) سورہيوسف آيت 60
حضرتيوسف چاہتے تھے كہ جيسے بھى ہو بنيا مين كو اپنے پاس بلائيں اس كے لئے كبھى وہلطف و محبت كا طريقہ اختيا ر كر تے اور كبھى تہديد كا _
انتعبيرات سے ضمنى طور پر واضح ہو تا ہے كہ مصر ميں غلاّت كى خريدو فروخت تو ل كرنہيں ہو تى تھى بلكہ پيما نے سے ہو تى تھى _
نيزيہ بھى واضح ہو تا ہے كہ حضرت يوسف اپنے بھا ئيوں اور دوسرے مہمانوں كى بہت اچھےطريقے سے پذير ائي كر تے تھے اور ہر حوا لے سے مہمان نواز تھے_
بھائيوںنے ان كے جواب ميں كہا :'' ہم اس كے باپ سے بات كريں گے اور كو شش كريں گے كہ وہرضا مند ہو جائيں اور ہم يہ كام ضرور كريں گے ''(1)
اسمو قع پر ان كى ہمدردى اور توجہ كو زيادہ سے زيادہ اپنى طرف مبذول كر نے كے لئے''حضر ت يوسف نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ ان كى نظر بچا كروہ اموال ان كے غلےميں ركھ ديں جو انہوں نے غلہ اس كے بدلے ميں ديئےھے تا كہ جب وہ واپس اپنےخاندان ميں جاكر اپنا سامان كھوليں تو انہيں پہچان ليں اور دو بارہ مصر كى طرفلوٹ ائيں ''_( 2)(3)
(1)سورہيوسف آيت 61
(2)سورہيوسف آيت 62
(3) حضرتيوسف(ع) نے بھائيوں سے اپنا تعارف كيوں نہ كر وايا : مندر جہ بالا واقعہ كےمطالعہ سے جو پہلا سوال سامنے اتا ہے وہ يہ ہے كہ حضرت يوسف نے بھائيوں سے اپناتعارف كيوں نہ كروايا كہ وہ جلداز جلد اپ كو پہچان ليتے اور باپ كے پاس واپس جاكر انہيں ا پ كى جدائي كے جانكاہ غم سے نكالتے ؟
يہ سوالزيادہ وسيع حوالہ سے بھى سامنے اسكتا ہے اور وہ يہ كہ جس وقت حضرت يوسف كے بھائي اپ كے پاس ائے اس وقت اپ كى زندان سے رہائي كو كو ئي اٹھ سال گزر چكے تھے كيونكہ گزشتہ سات سال فراوان نعمتوں پر مشتمل گزر چكے تھے جن كے دوران اپ قحط سالىكے عر صہ كے لئے اناج ذخير ہ كر نے ميں مشغول رہے اٹھويں سال قحط كا دور شرع ہوااس سال يا اس كے بعد اپ كے بھا ئي غلہ لينے كے لئے مصر ائے ،كيا چا ہئے نہ تھاكہ ان اٹھ سالوںميں اپ كو ئي قاصد كنعان كى طرف بھيجتے اور -->
حضرت يو سف(ع) كے بھا ئي ما لامال ہو كر خو شى خو شى كنعان واپس ائےليكن ايند ہ كى فكر تھى كہ اگر باپ چھو ٹے بھا ئي ( بنيا مين ) كو بھيجنے پرراضى نہ ہوئے تو عزيز مصر ان كى پذيرائي نہيں كرے گا اور انہيں غلے كا حصہ نہيںدے گا _ اسى لئے قران كہتا ہے :
''جب وہ باپ كے پاس لوٹ كر ائے تو انہوں نے كہا : ابا جان حكم دياگيا ہے كہ ايندہ ہميں غلے كا حصہ نہ ديا جائے اور پيمانہ ہم سے روك ديا جا ئے،
'' اب جب يہ صورت در پيش ہے تو ہمارے بھا ئي كو ہمارے ساتھ بھيج ديںتا كہ ہم پيمانہ حاصل كرسكيں ،''اور اپ مطمئن رہيں ہم اس كى حفا ظت كر يں گے''_(1)
باپ كہ جو يو سف كو ہر گز نہيں بھو لتا تھا يہ بات سن كر پريشا ن ہوگيا ،ان كى طرف رخ كر كے اس نے كہا :'' كيا ميں تم پر اس بھا ئي كے بارے ميںبھروسہ كر لوں جب كہ اس كے بھائي يو سف كے بارے ميں گزشتہ زمانے ميں تم پربھروسہ كيا تھا ''(2)
<--اپنے والد كو اپنے حالات سے اگاہ كر تے اور انہيں شديد غم سے نجات دلاتے ؟
بہت سےمفسر ين نے مثلاً طبرسى نے مجمع البيان ميں ، علامہ طباطبائي نے الميزان ميں اورقرطبى نے الجامع الا حكام القران ميں اس سوال كا جواب ديا ہے اور اس سلسلے ميںكئي جوابات پيش كئے ہيں ان ميں سے زيادہ بہتر يہ نظر اتا ہے كہ حضرت يوسف كو خداتعالى كى طرف سے اس كى اجازت نہ تھى كيو نكہ فراق يو سف ديگر پہلوئوں كے علاوہيعقوب كے لئے بھى ايك امتحان بھى تھا،اور ضرورى تھا كہ آزمائشے كى يہ دور فرمانالہى سے ختم ہوتا،اور اس سے پہلے حضرت يوسف(ع) خبردينے كے مجا ز نہ تھے _
اس كےعلاوہ اگر حضرت يو سف فوراً ہى اپنے بھا ئيوں كو اپنا تعارف كرو اديتے تو ممكنتھا كہ اس كا نتيجہ اچھا نہ ہو تا اور ہو سكتا تھا كہ وہ اس سے ايسے وحشت زدہ ہوتے كہ پھر لوٹ كر اپ كے پاس نہ اتے كيونكہ انہيں يہ خيال پيدا ہو تا كہ ممكن ہےيوسف ان كے گزشتہ رويہ كا انتقام ليں
(1) سورہيوسف آيت 63
(2) سورہيوسف آيت 64
يعنى جب تمہارا ايسا برا ما ضى ہے جو بھولنے كے قابل نہيں تو تم كسطرح تو قع ركھتے ہو كہ دوبارہ تمہارى فرمائشے مان لوں اور اپنے فرزند دل بند كوتمہارے سپرد كر دوں اور وہ بھى ايك دور درازسفر اور پرا ئے ديس كے لئے ،اس كےبعد اس نے مزيد كہا :'' ہر حالت ميں خدا بہتر ين محا فظ اور''ارحم الرحمين''ہے_(1)
''پھر ان بھا ئيوں نے جب اپنا سامان كھولا تو انہوں نے بڑے تعجب سےديكھا كہ وہ تمام چيز يں جو انہوں نے غلے كى قيمت كے طور پر عزيز مصر كو دى تھيںسب انہيں لوٹادى گئي ہيں اور وہ ان كے سامان ميں موجود ہيں ''_(2) جب انہوں نےديكھا كہ يہ تو ان كى گفتگو پر سند قاطع ہے تو باپ كے پاس ائے اور كہنے لگے:''اباجا ن ہميں اس سے بڑھ كر اور كيا چا ہيے ، ديكھئے انہوں نے ہمارا تمام مالومتاع ہميں واپس كر ديا ہے''_(3)كيا اس سے بڑھ كر كوئي عزت واحترام اور مہر بانىہو سكتى ہے كہ ايك غير ملك كا سربراہ ايسے قحط اور خشك سالى ميں ہميں اناج بھىدے اور اس كى قيمت بھى واپس كر دے ، وہ بھى ايسے كہ ہم سمجھ ہى نہ پائيں اورشرمندہ نہ ہو ں ؟ اس سے بڑھ كر ہم كيا تصور كر سكتے ہيں ؟
ابا جا ن اب كسى پر يشا نى كى ضرورت نہيں ہمارے بھا ئي كو ہما رےساتھ بھيج ديں ہم اپنے گھر والوں كے لئے اناج لے آئيں گے،اور اپنے بھائي كىحفاظت كى كو شش كر يں گے _نيز اس كى وجہ سے ايك اونٹ كا بار بھى زيادہ لا ئيں گے_ اور عزيز مصر جيسے محترم ، مہربان اور سخى شخص كے لئے كہ جسے ہم نے ديكھا ہے''ايك آسان اور معمولى كا م ہے ''_(4)
ان تمام امور كے باوجود حضرت يعقوب اپنے بيٹے بنيا مين كو ان كے ساتھبھيجنے كے لئے راضى نہ تھے ليكن دوسرى طرف ان كا اصرار تھا جو واضح منطق كىبنياد پرتھا يہ صور ت حال انھيںآمادہ كرتى تھى كہ وہ ان
(1) سورہيوسف آيت 64
(2) سورہيوسف آيت 65
(3) سورہيوسف آيت 65
(4)سورہيوسف آيت 65
كى تجويز قبول كرليں آخر كار انہوں نے ديكھا كہ اس كےبغير چارہ نہيں كہ مشروط طور پر بيٹے كو بھيج ديا جا ئے لہذا آپ نے ان سے اس طرحسے كہا : ''ميں اسے ہر گز تمہارے ساتھ نہيں بھيجوں گا ، جب تك كہ تم ايك خدائيپيمان نہ دو اور كو ئي ايسا كا م نہ كرو كہ جس سے مجھے اعتماد پيدا ہو جا ئے كہتم اسے واپس لے كر آئو گے مگر يہ موت يا دوسرے عوامل كى وجہ سے يہ امر تمہارے بسميں نہ رہے''_(1)
''وثيقہ الہي'' سے مراد وہى قسم ہے جو خدا كے نام كے ساتھ ہے_
بہر حال يوسف(ع) كے بھائيوں نے باپ كى شرط قبول كرلي،اور جب انھوں نےاپنے باپ سے عہد و پيمان باندھاتو يعقوب(ع) نے كہا:خدا شاہد،ناظر اورمحافظ ہے اسبات پر كہ جو ہم كہتے ہيں_(2)
(1)سورہيوسف آيت 66
(2) حضرتيعقوب كيسے راضى ہو گئے : مند رجہ بالاو اقعہ كے سلسلے ميں جو پہلا سوال ذہن ميںآتا ہے يہ ہے كہ حضرت يعقوب بنيا مين كو ان كے سپر د كرنے پر كيسے آمادہ ہوگئےجب كہ ان كے بھائي ،يو سف (ع) كے بارے ميں سلوك كى وجہ سے پہلے برے كردا ركےشمار ہو تے تھے حالا نكہ ہم جانتے ہيں كہ وہ صر ف يو سف كے بارے ميں اپنے دل ميںكينہ وحسد نہيںركھتے تھے بلكہ وہ يہى احساسات اگر چہ نسبتا خفيف ہى سہى بنيا مينكے لئے بھى ركھتے تھے جيسا كہ شروع داستان ميں پڑھا_''انہوں نے كہا كہ يوسفاوراس كا بھائي باپ كے نزديك ہم سے زيادہ محبوب ہے جب كہ ہم زيادہ طاقتور ہيں''_
اس نكتہكى طرف تو جہ كر نے سے اس سوال كا جواب واضح ہو جا تا ہے كہ حضرت يوسف والے حادثے كو تيس سے چاليس سال تك كا عر صہ بيت چكا تھا اور حضر ت يو سف كے جو ان بھائي بڑھا پے كو پہنچ گئے تھے اور فطر تا ان كا ذہن پہلے زما نے كى نسبت پختہ ہوچكا تھا اس كے علاوہ گھر كے ما حول پر اور اپنے مضطرب وجدان پر اپنے برے ارادےكے اثرات وہ اچھى طرح سے محسوس كر تے تھے اور تجربے نے ان پر ثابت كر ديا كہيوسف كے فقدان سے نہ صرف يہ كہ ان كے لئے باپ كى محبت ميں اضا فہ نہ ہوا بلكہمزيد بے مہر ى اور بے التفاتى پيدا ہو گئي _ان سب باتوں سے قطع نظر يہ تو ايكزندگى كا مسئلہ ہے ،قحط سالى ميں ايك گھر انے كے لئے اناج مہياكر نا ايك بہت بڑىچيز تھى اور يہ سيرو تفريح كا معا ملہ نہ تھا جيسا كہ انہوں نے ماضى ميں حضرت يوسف كے متعلق فر ما ئشے كى تھى _ان تمام پہلوئوں كے پيش نظر حضرت يعقوب (ع) نے انكى بات مان لي، ليكن اس شرط كے سا تھ وہ كہ آپ سے عہد وپيمان باندھيں كہ وہ اپنےبھا ئي بنيامين كو صحيح وسالم آپ كے پاس واپس لے آئيں گے _
آخر كار حضر ت يو سف كے بھائي باپ كى رضا مندى كے بعد اپنے چھوٹےبھائي كو ہمراہ لے كر دوسرى مر تبہ مصر جانے كو تيار ہو ئے تو اس موقع پر باپ نےانہيں نصيحت كى ''اس نے كہا : ميرے بيٹو تم ايك درواز ے سے داخل نہ ہو نا بلكہمختلف در وازوں سے داخل ہو نا _''(1)
اس ميں شك نہيں كہ اس زمانے ميں دوسرے شہروں كى طرح مصر كےدارالخلافت كے گرد اگر د بھى فصيل تھى اس كے بھى برج وبار تھے اور اس كے متعدددروازے تھے _
رہا يہ سوال كہ حضرت يعقوب نے كيوں نصيحت كى كہ ان كے بيٹے ايكدروازے سے داخل نہ ہوں بلكہ مختلف حصوں ميں تقسيم ہو كر مختلف دروازوں سے شہرميں داخل ہوں ، اس كى وجہ قرآن ميں مذ كور نہيں ہے بعض مفسرين كہتے ہيں كہ حضر تيو سف كے بھا ئي ايك تو بہت حسين وجميل تھے ( اگر چہ وہ يو سف نہ تھے مگر يوسف كےبھا ئي تو تھے ) ان كا قد وقامت بہت اچھا تھا_
لہذا ان كے باپ پريشان تھے كہ گيا رہ افراد اكھٹے جن كے چہرے مہرے سےمعلوم ہو كہ وہ مصر كے علاوہ كسى اور ملك سے آئے ہيں ، لوگ ان كى طرف متوجہ نہہوں وہ نہيں چا ہتے تھے كہ اس طرح انہيں نظربد لگ جائے _
حضرت يعقوب كے اس حكم كے بارے ميں جو دوسرى علت بيان كى گئي ہے وہ يہہے كہ ہو سكتا ہے جب اونچے لمبے چوڑے چكلے مضبوط جسموں والے اكٹھے چليں توحاسدوں كو انہيں ديكھ كر حسد پيدا ہواور وہ ان كے بارے ميں حكومت سے كو ئي شكايتكرنے لگيں اور ان كے متعلق يہ بدگمانى كر يں كہ وہ فتنہ وفساد كا ارادہ ركھتےہيں اس لئے باپ نے انہيں حكم ديا كہ مختلف در وازوں سے داخل ہوں تاكہ لوگ ان كىطرف متوجہ نہ ہوں _
(1) سورہيوسف آيت 67
بعض مفسرين نے اس كى ايك عرفانى تفسير بھى كى ہے وہ يہ كہ حضرت يعقوبراہنما ئے راہ كے حوالے سے اپنے بيٹوں كو ايك باہم معا شرتى مسئلہ سمجھا ناچاہتے تھے اور وہ يہ كہ كھو ئي ہو ئي چيز كو صر ف ايك ہى راستے سے تلاش نہ كر يںبلكہ ہردروازے سے داخل ہو كر اسے ڈھونڈيں كيونكہ اكثر ايساہوتا ہے كہ انسان ايكمقصد تك پہنچنے كے لئے صرف ايك ہى راہ كا انتخاب كر تا ہے اور جب آگے راستہ بندپاتا ہے تو مايوس ہو كر بيٹھ جاتا ہے ليكن اگر وہ اس حقيقت كى طرف متوجہ ہو كہگمشدہ افراد اور چيز يں عمو ماً ايك ہى راستے پر جانے سے نہيں ملتيں بلكہ مختلفراستوں سے ان كى جستجو كر نا چا ہيے تو عام طور پر كامياب ہو جاتاہے _
برادر ان يو سف (ع) روانہ ہو ئے اور كنعان ومصر كے در ميان طويل مسافت طے كر نے كے بعد سر زمين مصر ميں داخل ہو گئے _
آخر كار بھائي، يو سف (ع) كے پاس پہنچے اور انہيں بتايا كہ ہم نے آپكے حكم كى تعميل كى ہے اور باوجود اس كے ہمارے والد پہلے چھو ٹے بھا ئي كو ہمارےساتھ بھيجنے پر راضى نہ تھے ليكن ہم نے اصرار كر كے اسے راضى كيا ہے تا كہ آپجان ليں كہ ہم نے قول وقرا ر پورا كيا ہے _
حضرت يو سف (ع) نے بڑى عزت واحترام سے ان كى پذيرائي كي، انہيں مہمانبلايا اور حكم ديا كہ دستر خوان يا طبق كے پا س دو دو افراد آئيں، انہوں نے ايساہى كيا اس مو قع پر بنيا مين جو تنہارہ گيا تھا رونے لگا اوركہنے لگا كہ ميرابھائي يو سف زندہ ہو تا تو مجھے اپنے ساتھ ايك دسترخوان پر بٹھا تا كيونكہ ہمپدر ى بھائي تھے_ پھر حكم ديا كہ دو دو افراد كے لئے ايك ايك كمرہ سونے كے لئےتيار كيا جا ئے بنيا مين پھر اكيلا رہ گيا تو حضرت يوسف نے فرمايا : اسے ميرےپاس بھيج دو اس طرح حضرت يو سف (ع) نے اپنے بھا ئي كو اپنے يہاں جگہ دى ليكنديكھا كہ وہ بہت دكھى اور پريشان ہے اور ہميشہ اپنے كھوئے ہوئے بھائي يوسف(ع) كىياد ميں رہتا ہے كہ ايسے ميں يو سف كے صبر كا پيمانہ لبر يز ہو گيا اور آپ نےحقيقت كے چہرے سے پر دہ ہٹا ديا ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :''
جب يوسف (ع) كے پاس پہنچے تو اس نے اپنے بھا ئي كو اپنےيہا ں جگہ دى اوركہا كہ ميں وہى تمہارا بھائي يو سف ہوں ، غمگين نہ ہو اور اپنےدل كو دكھى نہ كر اور ان كے كسى كا م سے پر يشا ن نہ ہو ''_(1)
بھا ئيوں كے كا م كہ جو بنيا مين كو دكھى اور پريشان كر تے تھے ان سےمرادان كى وہ نامہر بانيا ں او ر بے التفا تياں تھيں جو وہ اس كے اور يو سف كےلئے رواركھتے تھے اور وہ سازشيں كہ جو اسے گھر والوں سے دور كرنے كے لئے انجامديتے تھے ،حضرت يوسف(ع) كى مراد يہ تھى كہ تم ديكھ رہے ہو كہ ان كى كار ستانيوںسے مجھے كو ئي نقصان نہيں پہنچا بلكہ وہ ميرى تر قى اور بلندى كا ذريعہ بن گئيںلہذا اب تم بھى اس بارے ميں اپنے دل كو دكھى نہ كرو _
اس مو قع پر حضرت يوسف (ع) نے اپنے بھائي بنيامين سے كہا:كيا تم پسندكر تے ہو كہ ميرے پاس رہ جائو ،اس نے كہا : ہا ں ميں تو راضى ہوں ليكن بھائي ہرگز راضى نہيں ہوں گے كيو نكہ انہوں نے باپ سے قول وقرار كيا ہے اور قسم كھا ئيہے كہ مجھے ہر قيمت پر اپنے ساتھ واپس لے جائيں گے _
حضر ت يوسف(ع) نے كہا :تم فكر نہ كرو ميں ايك منصوبہ بناتا ہوں جس سےوہ مجبور ہو جائيں گے كہ تمہيں ميرے پاس چھوڑجائيں _ ''غلاّت كے بارتيار ہو گئےتو حكم ديا كہ مخصوص قيمتى پيمانہ بھائي كے بارميں ركھ ديں ''_(2)( كيو نكہہرشخص كے لئے غلے كا ايك بار ديا جاتا تھا _
البتہ يہ كام مخفى طور پر انجام پايا اور شايد اس كا علم مامور ينميں سے فقط ايك شخص كو تھا _
جب اناج كو پيما نے سے دينے والوں نے ديكھا كہ مخصوص قيمتى پيما نےكا كہيں نام ونشان نہيں ہے حالانكہ پہلے وہ ان كے پاس موجود تھا لہذا جب قافلہچلنے لگا ''تو كسى نے پكار كر كہا : اے قافلے والو : تم چور ہو''_ (3)
(1) سورہيوسف آيت 69
(2)سورہيوسف آيت 70
(1) سورہيوسف آيت 70
يو سف كے بھائيوں نے جب يہ جملہ سنا تو سخت پريشان ہو ئے اورو حشتزدہ ہوگئے كيو نكہ ان كے ذہن ميں تو اس كا خيال بھى نہ آسكتا تھا كہ اس احترامواكرم كے بعد ان پر چورى كا الزام لگا يا جائے گا لہذا انہوں نے ان كى طرف رخ كركے كہا :'' تمہارى كو نسى چيز چورى ہو گئي ہے''_ (1)
''انہوں نے كہا ہم سے بادشاہ كا پيمانہ گم ہو گيا ہے اور ہميں تمہارےبارے ميں بد گمانى ہے'' _(2)
پيمانہ چو نكہ گراں قيمت ہے اور بادشاہ كو پسند ہے لہذا '' وہ جس شخصكو ملے اور وہ اسے لے آئے تو اسے ايك اونٹ كا باربطور انعام ديا جائے گا ''_(32)
پھر بات كہنے والے نے مزيد تاكيد كے لئے كہا:''اور ميں ذاتى طور پراس انعام كا ضامن ہوں''_(4)
بھائي يہ بات سن كر سخت پريشان ہوئے اور حواس باختہ ہوگئے، وہ نہيں سمجھتےتھے كہ معاملہ كيا ہے،ان كى طرف رخ كر كے انھوں نے كہا:
''انھوں نے كہا:خدا كى قسم تم جانتے ہو كہ ہم يہاں اس لئے نہيں آئےہيں كہ فتنہ و فساد كريں اور ہم كبھى بھى چور نہيں تھے ''_(5)
يہ سن كر وہ ان كى طرف متوجہ ہو ئے اور ''كہا : ليكن اگر تم جھوٹے ہوئے تو اس كى سزا كيا ہوگي؟(6)
انہوں نے جواب ميں كہا :'' اس كى سزا يہ ہے كہ جس شخص كے بارميں سےبادشاہ كا پيمانہ مل جائے اسے روك لو اور اسے اس كے بدلے ميں لے لو ''_ (7)
''جى ہاں : ہم اسى طرح ظالموں كو سزا ديتے ہيں_''(8)
(1) سورہيوسف آيت 71
(2) سورہيوسف آيت 72
(3) سورہيوسف آيت 72
(4)سورہيوسف آيت72
(5)سورہيوسف آيت73
(6) سورہيوسف آيت 74
(7) سورہيوسف آيت 75
(8) سورہيوسف آيت 75
اس مو قع پرحضرت يوسف نے حكم ديا كہ ان كے غلات كے باركھولے جائيںاور ايك ايك كى جانچ پڑتال كى جائے البتہ اس بناء پر كہ ان كے اصلى منصوبے كاكسى كو پتہ نہ چلے ،'' اپنے بھائي بنيا مين كے بارسے پہلے دوسروں كے سامان كىپڑتال كى اور پھر وہ مخصوص پيمانہ اپنے بھائي كے بار سے برآمد كر ليا'' (1)
پيمانہ بر آمد ہوا تو تعجب سے بھائيوں كے منہ كھلے كے كھلے رہ گئےگويا غم واندوہ كا پہاڑان كے سروں پر آگرا اور انہيں يوں لگا جيسے وہ ايك عجيبمقام پر پھنس گئے ہيں كہ جس كے چاروں طرف كے راستے بند ہو گئے ہيں ايك طرف ان كابھائي ظاہر ًا ايسى چورى كا مر تكب ہوا جس سے ان كے سرندامت سے جھك گئے اوردوسرى طرف ظاہراً عزيز مصر كى نظروں ميں ان كى عزت وحيثيت خطرے ميں جاپڑى كہ ابآيندہ كے لئے اس كى حمايت حاصل كرنا ان كے لئے ممكن نہ رہا اور ان تمام باتو ںسے قطع نظر انہوں نے سوچا كہ باپ كو كيا جواب ديں گے اور وہ كيسے يقين كر ے گاكہ اس ميں ان كا كوئي قصور نہيں ہے _
بعض مفسرين نے لكھا ہے كہ اس مو قع پربھائيوں نے بنيامين كى طرف رخكر كے كہا : اے بے خبر : تو نے ہميں رسوا كرديا ہے اور ہمارا منہ كالا كرديا ہےتو نے يہ كيساغلط كام انجام ديا ہے ؟(نہ تو نے اپنے آپ پر رحم كيا ،نہ ہم پر اورنہ خاندان يعقوب (ع) پر كہ جو خاندان نبوت ہے ) آخر ہميں بتا تو سہى كہ تو نے كسوقت پيمانہ اٹھا يا اور اپنے بار ميں ركھ ليا؟
بنيامين نے جو معاملے كى اصل اور قضيے كے باطن كو جانتا تھا ٹھنڈے دلسے جواب ديا كہ يہ كام اسى شخص نے كيا ہے جس نے تمہارى دى ہوئي قيمت تمہارےبارميں ركھ دى تھى ليكن بھائيوں كو اس حادثے نے اس قدر پريشان كر ركھا تھا كہانھيں پتہ نہيں چلا كہ وہ كيا كہہ رہا ہے_
پھر قرآن مزيد كہتا ہے:'' ہم نے اس طرح يوسف (ع) كے لئے ايك تدبيركي''_(2)( تاكہ وہ اپنے
(1) سورہيوسف آيت 76
(2) سورہيوسف ايت76
بھائي كو دوسرے بھائيوں كى مخالفت كے بغير روك سكيں)(1) اسى بناء پر قرآن كہتا ہے:'' يوسف ملك مصر كے قانون كے مطا بق اپنے بھائيكو نہيں لے سكتے تھے اور اپنے پاس نہيں ركھ سكتے تھے_'' (2)
(1) سورہيوسف آيت 76
(2)يہاںپر دو سوال پيدا ہوتے ہيں :
1_بے گناہپر چورى كا الزام ؟
كيا جائزتھا كہ ايك بے گناہ شخص پر چورى كا اتہام لگايا جائے،ايسا اتہام كہ جس كے بُرےاثار نے باقى بھائيوں كو بھى كسى حد تك اپنى لپٹ ميں لے ليا؟
اس سوالكا جواب بھى خود واقعے ميں موجود ہے اور وہ يہ كہ يہ معاملہ خودبنيامين كى رضامندى سے انجام پايا تھا ،كيونكہ حضرت يوسف نے پہلے اپنے اپ كو اس سے متعارفكروايا تھا اور وہ جانتا تھا كہ يہ منصوبہ خود اس كى حفاظت كے لئے بنايا گياہے،نيز اس سے بھائيوں پر بھى كوئي تہمت نہيں لگى البتہ انھيں اضطراب و پريشانىضرور ہوئي جس ميں كہ ايك اہم امتحان كى وجہ سے كوئي ہرج نہ تھا _
2_چورى كىنسبت سب كى طرف كيوں دى گئي ؟
كيا (انكماسارقون )''يعنى تم چور ہو ''كہہ كر سب كى طرف چورى كى نسبت نہيں دينا جھوٹ نہتھا اور اس جھوٹ اور تہمت كا كيا جواز تھا ؟
ذيل كےتجزيے سے اس سوال كا جواب واضح ہو جا ئے گا :
اولاً يہمعلوم نہيں كہ يہ بات كہنے والے كو ن لو گ تھے قرآن ميں صرف اس قدر ہے ''قالوا''يعنى انہوں نے كہا'' ہوسكتا ہے يہ بات كہنے والے حضرت يوسف كے كچھ كار ندے ہوںكہ جب انہوں نے ديكھا كہ مخصوص پيمانہ نہيں ہے يقين كر ليا كہ كنعان كے قافلےميں سے كسى شخص نے اسے چراليا ہے اور يہ معمول ہے كہ اگر كوئي چيز ايسے افرادميں چورى ہو جائے كہ جو ايك ہى گروہ كى صورت ميں متشكل ہو اور اصل چور پہچا نانہ جائے تو سب كو مخاطب كر تے ہيں اور كہتے ہيں كہ تم نے يہ كام كيا ہے يعنى تمميں سے ايك نے يا تم ميں سے بعض نے ايسا كيا ہے_
ثانيا ًاسبات كا اصلى نشانہ بنيامين تھا جو كہ اس نسبت پر راضى تھا كيونكہ اس منصوبے ميںظاہرا تو اس پر چورى كى تہمت لگى تھى ليكن درحقيقت وہ اس كے اپنے بھائي يو سف كےپاس رہنے كے لئے مقدمہ تھى اور يہ جو سب پر الزام آيا يہ ايك بالكل-->
قرآن سے معلوم ہوتا ہے كہ مصريوں اور كنعان كے باشندوں ميں چورى كىسزا مختلف تھي_ حضرت يوسف عليہ السلام كے بھائيوں اور احتمالاً اہل كنعان ميں اسعمل كى سزا يہ تھى كہ چور كو اس چورى كے بدلے ميں(ہميشہ كے ليے يا وقتى طورپر)غلام بناليا جاتا _ليكن مصريوں ميں يہ سزارائج نہ تھى بلكہ چوروں كو دوسرےذرائع سے مثلاً مار پيٹ سے اور قيد و بند وغيرہ سے سزا ديتے تھے_
علامہ طبرسى نے مجمع البيان ميں نقل كيا ہے كہ اس زمانے ميں ايك گروہميں يہ طريقہ رائج تھا كہ وہ چور كو ايك سال كے ليے غلام بناليتے تھے_ نيز يہبھى نقل كيا گيا ہے كہ خاندان يعقوب عليہ السلام ميں چورى كى مقدار كے برابرغلامى كى مدت معين كى جاتى تھى (تا كہ وہ اسى كے مطابق كام كرے)_
آخر كار بھائيوں نے يقين كر ليا كہ ان كے بھا ئي بنيامين نے ايسىقبيح اور منحوس چورى كى ہے اور اس طرح اس نے عزيز مصر كى نظروں ميں ان كا سا بقہريكار ڈسارا خراب كرديا ہے لہذا اپنے آپ كو برى الذمہ كرنے كے لئے انہوں نے كہا: ''اگر اس لڑكے نے چورى كى ہے تو يہ كوئي تعجب كى بات نہيں كيو نكہ اس كا بھائييوسف بھى پہلے ايسے كا م كا مرتكب ہو چكا ہے ''_(1)اور يہ دونوں ايك ہى ماں اورباپ سے ہيں اور ہم جو دوسرى ماں سے ہيں ہمارا حساب كتاب ان سے الگ ہے _
اس طرح سے انہوں نے اپنے اور بنيا مين كے درميان ايك حد فاصل قائم كرنا چاہى اور كا تعلق يوسف سے جوڑديا _
يہ بات سن كر يو سف بہت دكھى اور پريشان ہوئے اور ''اسے دل ميں چھپائے ركھا اور ان كے سامنے اظہار نہ كيا ''_( 2)
<--عارضى سى بات تھى جو صرف برادران يو سف كے سامان كى تلاشى پر ختم ہو گيا اورجودر حقيقت مراد تھا يعنى ''بنيامين ''وہ پہچان لياگيا_
(1) سورہيوسف آيت 77
(2) سورہيوسف آيت 77
كيو نكہ وہ جانتے تھے كہ يہ بات كہہ كر انہوں نے ايك بہت بڑا بہتانباندھا ہے ليكن انہوں نے اس كا كو ئي جواب نہ ديا بس اجمالى طور پر اتنا كہا كہجس كى طرف تم يہ نسبت ديتے ہو تم اس سے بد تر ہو يا ميرے نزديك مقام و منزلت كےلحاظ سے تم بد ترين لوگ ہو_''(1)
اس كے بعد مزيد كہا :'' جو كچھ تم كہتے ہو خدا اس كے بارے ميں زيادہجاننے والا ہے ''_(2)
يہ ٹھيك ہے كہ يوسف كے بھائيوں نے ان بحرانى لمحوں ميں اپنے آپ كوبرى الذمہ ثابت كر نے كے لئے اپنے بھائي يو سف پر ايك نا روا تہمت باندھى تھي_
ليكن پھر بھى اس كا م كے لئے كو ئي بہا نہ اور سند ہو نا چا ہيے جسكى بناء پر وہ يو سف كى طرف ايسى نسبت ديں _
اس سلسلے ميں مفسرين كا وش وزحمت ميں پڑے ہيں اور گذشتہ لو گوں كىتواريخ سے انہوں نے تين روايات نقل كى ہيں _
پہلى يہ كہ يو سف اپنى ما ں كى وفات كے بعد اپنى پھوپھى كے پاس رہاكرتے تھے اور انہيں يو سف سے بہت زيا دہ پيار تھا جب آپ بڑے ہوگئے اور حضرتيعقوب (ع) نے انہيں ان كى پھوپھى سے واپس لينا چاہا تو ان كى پھوپھى نے ايكمنصوبہ بنايا اور وہ يہ كہ كمر بند يا ايك خاص شال جو حضرت اسحاق (ع) كى جانب سےان كے خاندان ميں بطور ياد گار چلى آرہى تھى يو سف كى كمر سے باندھ دى اور دعوىكيا كہ يو سف اسے چھپا لے جانا چا ہتا تھا ايسا انہوں نے اس لئے كيا تا كہ اسكمر بند يا شال كے بدلے يو سف كو اپنے پاس ركھ ليں _
دوسرى روايت يہ ہے كہ حضرت يو سف كے مادرى رشتہ داروں ميں سے ايك كےپاس ايك بت تھا جسے يو سف نے اٹھا كر توڑ ديا اور اسے سٹرك پر لاپھينكا لہذاانہوں نے حضرت يوسف پر چورى كا الزام لگا ديا حالا نكہ اس ميں تو كوئي گناہ نہيںتھا _
(1) سورہيوسف آيت 77
(2) سورہيوسف آيت 77
تيسرى روايت يہ ہے كہ كبھى كبھا روہ دستر خوان سے كچھ كھانا لے كرمسكينوں اور حاجت مندوں كو دے ديتے تھے لہذا بہا نہ تراش بھائيوں نے اسے بھىچورى كا الزام دينے كے لئے سند بنا ليا حالانكہ ان ميں سے كو ئي چيز گناہ كےزمرے ميں نہيں تھا _
اگر ايك شخص كسى كو كوئي لباس پہنا دے اور پہننے والا نہ جانتا ہو كہيہ كسى دوسرے كا مال ہے تو كيا اسے چورى كا الزام دينا صحيح ہے _ اسى طرح كياكسى بت كو اٹھاكر پٹخ دينا گناہ ہے _ نيز انسان كو ئي چيز اپنے باپ كے دستر خوانسے اٹھا كر مسكينوں كو دے دے جب كہ اسے يقين ہو كہ اس كا باپ اس پر راضى ہے توكيا اسے گناہ قرار ديا جاسكتا ہے _
بھا ئيوں نے ديكھا كہ ان كے چھوٹے بھائي بنيامين كو اس قانون كےمطابق عزيز مصر كے پاس رہنا پڑے گا جسے وہ خو د قبول كر چكے ہيں اور دوسرى طرفانہوں نے باپ سے پيمان باند ھا تھا كہ بنيامين كى حفاظت اور اسے واپس لانے كےلئے اپنى پورى كو شش كريں گے ايسے ميں انہوں نے يوسف كى طرف رخ كيا جسے ابھى تكانہوں نے پہچانا نہيں تھا اور كہا : ''اے عزيز مصر : اے بزر گور صاحب اقتدار :اس كا باپ بہت بوڑھا ہے اور وہ اس كى جدا ئي كو برداشت كر نے كى طاقت نہيں ركھتاہم نے آپ كے اصرار پر اسے باپ سے جدا كيا اور باپ نے ہم سے تاكيد ى وعدہ ليا كہہم ہر قيمت پر اسے واپس لائيں گے اب ہم پر احسان كيجئے اور اس كے بدلے ميں ہمميں سے كسى ايك كو ركھ ليجئے ، ''كيونكہ ديكھ رہے ہيں كہ آپ نيكوكاروں ميں سےہيں ''_(1)
اور يہ پہلا مو قع نہيں كہ آپ نے ہم پر لطف وكرم اور مہرومحبت كى ہے، مہر بانى كر كے اپنى كر م نوازيوں كى تكميل كيجئے _
(1)سورہيوسف آيت 78
حضرت يو سف (ع) نے اس تجويز كى شدت سے نفى كى ''اور كہا :پناہ بخدا :يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ جس كے پاس سے ہمارا مال ومتا ع برآمد ہوا ہے ہم اس كےعلاوہ كسى شخص كو ركھ ليں ''كبھى تم نے سنا ہے كہ ايك منصف مزاج شخص نے كسى بےگناہ كو دوسرے كے جرم ميں سزا دى ہو _(1)'' اگر ہم ايسا كريں تو يقينا ہم ظالمہوں گے''_ (2) يہ امر قابل توجہ ہے كہ حضرت يوسف نے اپنى اس گفتگو ميں بھائي كىطرف چورى كى كوئي نسبت نہيں دى بلكہ كہتے ہيں كہ ''جس شخص كے پاس سے ہميںہمارامال ومتا ع ملا ہے ''اور يہ اس امر كى دليل ہے كہ وہ اس امر كى طرف سنجيدگى سے متوجہ تھے كہ اپنى پورى زندگى ميں كبھى كوئي غلط بات نہ كريں _
بھا ئيوں نے بنيا مين كى رہائي كے لئے اپنى آخرى كو شش كرڈالى ليكنانہوں نے اپنے سا منے راستے بند پا ئے ايك طرف تو اس كام كو كچھ اس طرح سے انجامديا گيا تھا كہ ظاہرا بھائي كى برائت ممكن نہ تھى اور دوسرى طرف عزيز مصر نے اسكى جگہ كسى اور فرد كو ركھنے كى تجويز قبول نہ كى لہذا وہ مايو س ہوگئے يو ںانہوں نے كنعان كى طرف لوٹ جا نے اور باپ سے سارا ماجر ا بيان كر نے كا ارادہ كرليا قرآن كہتا ہے : ''جس وقت وہ عزيز مصر سے يا بھائي كى نجات سے مايوس ہو گئے،تو ايك طرف كو آئے دوسروں سے الگ ہو گئے اور سر گوشى كرنے لگے'' _( 3)
بہر حال سب سے بڑے بھا ئي نے اس خصوصى ميٹنگ ميں ان سے'' كہا : كياتم جا نتے نہيں ہو كہ تمہارے باپ نے تم سے الہى پيمان ليا ہے كہ بنيامين كو ہرممكنہ صورت ميں ہم واپس لائيں گے ''_(4) '' اور تمہيں نے اس سے پہلے بھى يو سفكے بارے ميں كو تا ہى كى ''اور باپ كے نزديك تمہارا گزشتہ كر داربرا ہے''_ (5)
(1)(2)سورہيوسف آيت 79
(3)سورہيوسف آيت 80
(4) سورہيوسف آيت 80
(5) سورہيوسف آيت 80
''اب جبكہ معاملہ يو ںہے تو ميں اپنى جگہ سے ( ياسر زمين مصر سے )نہيں جائوں گا اور يہيں پڑائو ڈالوں گا ، مگر يہ كہ مير ا باپ مجھے اجازت دے دےيا خدا ميرے متعلق كو ئي فرمان صادر كرے جو كہ بہتر ين حاكم وفرماں روا ہے'' _(1)
پھر بڑے بھا ئي نے دوسرے بھائيوں كو حكم ديا كہ ''تم باپ كے پاس لوٹجائو اور كہو : اباجان آپ كے بيٹے نے چورى كى ہے ، اور يہ جو ہم گواہى دے رہےہيں اتنى ہى ہے جتنا ہميں علم ہوا ہے'' _(2)بس ہم نے اتنا ديكھا كہ بادشا ہ كاپيمانہ ہمارے بھائي كے بار سے برآمد ہو ا جس سے ظاہر ہو تا تھا كہ اس نے چورى كىہے، باقى رہا امر باطن تو وہ خدا جانتا ہے ،'' اور ہميں غيب كى خبر نہيں '' _(3)
ممكن ہے يہ احتمال بھى ہے كہ بھيا ئيوں كا مقصد يہ ہو كہ وہ باپ سےكہيں كہ اگر ہم نے تيرے پاس گواہى دى اور عہد كيا كہ ہم بھائي كو لے جائيں گےاور واپس لے آئيں گے تو يہ اس بناء پر تھا كہ ہم اس كے باطن سے باخبر نہ تھے اورغيب سے آگاہ نہ تھے كہ اس كا انجام يہ ہوگا ،پھر اس بناء پر كہ باپ سے ہر طرح كىبدگمانى دور كريں اور اسے مطمئن كريں كہ ماجر ا اسى طرح ہے نہ اس سے كم اور نہاس سے زيادہ ، انہوں نے كہا:''مزيد تحقيق كے لئے اس شہر سے سوال كر ليں جس ميںہم تھے ،اسى طرح اس قافلہ سے پوچھ ليں''_(4)
بہرحال ''آپ مطمئن رہيںكہ ہم اپنى بات ميںسچے ہيںاور حقيقت كے سواكچھنہيں كہتے''_(5)اس سارى گفتگو سے معلوم ہو تا ہے كہ بنيا مين كى چورى كا واقعہمصر ميں مشہور ہو چكا تھا يہ بات شہرت پاچكى تھى كہ كنعان سے ايك قافلہ يہاں آياہے اس ميں سے ايك شخص بادشاہ كا پيمانہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا بادشاہ كےمامور ين بروقت پہنچ گئے اور انہوں نے اس شخص كو روك ليا ،شايد بھائيوں نے جويہكہا كہ مصر كے علاقے سے پو چھ ليں يہ اس طرف كنايہ ہو كہ يہ واقعہ اس قدر مشہورہو چكا ہے كہ درو ديوار كو اس كا علم ہے _
(1) سورہيوسف آيت 80
(2) سورہيوسف آيت 81
(3) سورہيوسف آيت 81
(4) سورہيوسف آيت 82
(5) سورہيوسف آيت 82
بھائي مصر سے چل پڑے سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بھائي كو وہاںچھوڑآئے اور پريشان وغم زدہ كنعان پہنچے باپ كى خدمت ميں حاضر ہوئے اس سفر سےواپسى پر باپ نے جب گز شتہ سفر كے برعكس واندوہ كے اثار ان كے چہروں پر ديكھے توسمجھ گئے كہ كوئي ناگوار خبر لائے ہيں خصوصاً جب كہ بنيا مين اور سب سے بڑابھائي ان كے ہمرا ہ نہ تھا جب بھائيوں نے بغير كسى كمى بيشى كے سارى آپ بيتى كہہدى تو يعقوب بہت حيران ہوئے اور ان كى طرف رخ كر كے كہنے لگے :'' تمہارى نفسا نىخواہشات نے يہ معاملہ تمہارے سامنے اس طرح سے پيش كيا ہے اور اسے اس طرح سے مزينكياہے '' _(1)
اس كے بعد يعقوب اپنى جانب متوجہ ہوئے اور ''كہنے لگے كہ ميں صبر كادامن اپنے ہاتھ سے نہيں چھوڑوں گا'' اور ميں اچھا صبر كروں گا كہ جو كفر ان سےخالى ہو_''( 2)
''مجھے اميد ہے كہ خدا ان سب كو ( يو سف ، بنيامين اور ميرے بڑے بيٹےكو ) ميرى طرف پلٹا دے گا'' _( 3)كيونكہ ميں جانتاہوں كہ ''وہ ان سب كے دل كىداخلى كيفيات سے باخبر ہے ، اس كے علاوہ، وہ حكيم بھى ہے ،''اور وہ كوئي كا مبغير كسى حساب كتاب كے نہيں كر تا_ ''(4)
اس وقت يعقوب رنج وغم ميں ڈوب گئے بنيامين كہ ان كے دل كى ڈھارس تھاواپس نہ آيا تو انہيں اپنے پيارے يو سف كى ياد آگئي انہيں خيال آيا كہ اے كا شآج وہ آبرومند ، باايمان اور حسين وجميل بيٹا ان كى آغوش ميں ہو تا اور اس كىپيار ى خو شبو ہر لمحہ باپ كو ايك حيات نو بخشتى ليكن آج نہ صرف يہ كہ اس كا نامو نشان نہيں بلكہ اس كا جانشين بنيا مين بھى اس كى طرح ايك درد ناك معاملے ميںگر فتا ر ہو گيا ہے ''اس وقت انہوں نے اپنے بيٹوں سے رخ پھير ليا اور كہا : ہائےيو سف ''_(5)
(1) سورہيوسف آيت 83
(2)سورہيوسف آيت 83
(3) سورہيوسف آيت 83
(4) سورہيوسف آيت 83
(5) سورہيوسف آيت 84
بھا ئي جو پہلے ہى بنيا مين كے ماجرے پر باپ كے سامنے شرمندہ تھےيوسف كا نام سن كر فكر ميں ڈوب گئے ان كے ماتھے پر عرق ندامت كے قطرے چمكنے لگے_''حزن وملال اتنا بڑھا كہ يعقوب كى آنكھوں سے بے اختيار اشكوں كا سيلاب بہہنكلا يہاں تك كہ ان كى آنكھيں درد وغم سے سفيد اور نابينا ہوگئيں''_(1ليكن اس كےباوجود وہ كو شش كر تے تھے كہ ضبط كريں اور اپنا غم وغصہ پى جائيں اورر ضائے حقكے خلاف كو ئي بات نہ كہيں ''وہ باحوصلہ اور جواں مرد تھے اور انہيں اپنے غصہ پرپورا كنٹرول تھا ''_(2)
ظاہرقرآن سے اندازہ ہو تاہے كہ حضرت يعقوب كى اس وقت تك نابينا نہيںہوئے تھے ليكن جب كہ رنج و غم كئي گناہ بڑھ گيا اور آپ مسلسل گريہ و زارى كرتےرہے اورآپ كے آنسوتھمنے نہ پائے تو آپ كى بينا ئي ختم ہوگئي اور جيسا كہ ہم وہاںبھى اشارہ كر چكے ہيں كہ يہ كوئي اختيارى چيز نہ تھى كہ جو صبر جميل كے منافىہو_
بھائي كہ جو ان تمام واقعات سے بہت پريشا ن تھے ، ايك طرف تو ان كاضمير حضرت يو سف كے واقعے كى بناء پر انہيں عذاب ديتا اور دوسرى طرف وہ بنيامينكى وجہ سے اپنے آپ كو ايك نئے امتحان كى چو كھٹ پر پاتے اور تيسرى طرف باپ كااتنا غم اور دكھ ان پر بہت گراں تھا، لہذا انہوں نے پريشانى اور بے حوصلگى كےساتھ باپ سے ''كہا : بخدا تو اتنا يو سف يوسف كر تا ہے كہ بيمار ہو جائے گا اورموت كے كنارے پہنچ جا ئے گا يا ہلاك ہو جائے گا''_( 3)ليكن كنعان كے اس مرد بزرگاور روشن ضمير پيغمبر نے ان كے جواب ميں كہا : ''ميں نے تمہارے سامنے اپنى شكايت پيش نہيں كى جو اس طرح كى باتيں كر تے ہو ، ميں اپنا درد وغم بارگا ہ الہىميں پيش كر تا ہوں اور اس كے يہاں اپنى شكايت پيش كر تاہوں ،اور اپنے خدا كى طرفسے مجھے معلوم ہے كہ جن سے غم بے خبر ہوا''_ (4)
(1) سورہيوسف آيت 84
(2) سورہيوسف آيت 84
(3) سورہيوسف آيت 85
(4) سورہيوسف آيت 86
مصر اور اطراف مصر جس ميں كنعان بھى شامل تھا ;ميں قحط ظلم ڈھا رہاتھا _انا ج بالكل ختم ہو گيا توحضرت يعقوب نے دو بارہ اپنے بيٹوںكو مصر كى طرفجا نے اور غلہ حاصل كر نے كا حكم ديا ليكن اس مر تبہ اپنى آرزئوں كى بنياد يوسفاور ان كے بھا ئي بنيا مين كى تلاش كو قرار ديا ''اور كہا : ميرے بيٹو جائو اوريو سف اور اسكے بھا ئي كو تلاش كرو ''_ (1)
حضرت يعقوب كے بيٹے چو نكہ اس بارے ميں تقريبا مطمئن تھے كہ يو سف موجود ہى نہيں اس لئے وہ باپ كى اس نصيحت اور تا كيد پر تعجب كرتے تھے ،يعقوب انكے گو ش گزار كر رہے تھے : ''رحمت الہى سے كبھى ما يو س نہ ہو نا '' كيو نكہ اسكى قدرت تمام مشكلوں اور سختيوں سے ما فوق ہے _(2) ''كيو نكہ صر ف يہ كا فرہىہيں كہ جو قدرت خدا سے بے خبر ہيں اس كى رحمت سے مايوس ہو تے ہيں'' _( 3)
بہر حال فرزندان يعقوب نے اپنا مال واسباب باندھا اور مصر كى طرف چلپڑے اور اب كے وہ تيسرى مرتبہ داستا نو ںسے معمو ر اس سر زمين پر پہنچے گزشتہسفر وں كے بر خلاف اس سفر ميں ان كى روح كو ايك احساس ندا مت كچوكے لگا رہا تھاكيو نكہ مصر ميںاور عزيز مصر كے نزديك ان كا سابقہ كر دار بہت برا تھا اور وہ بدنام ہو چكے تھے اور اند يشہ تھا كہ شا يد بعض لو گ انہيں ''كنعان كے چور '' كےعنوان سے پہچا نيں دوسرى طرف ان كے پاس گندم اور دوسرے اناج كى قيمت دينے كے لئےدر كا رمال ومتاع موجود نہيں تھا اور ساتھ ہى بھائي بنيا مين كے كھو جا نے اورباپ كى انتہا ئي پر يشانى نے ان كى مشكلات ميں اضافہ كر ديا تھا _ گويا تلوار انكے حلقوم تك پہنچ گئي تھى بہت سارى مشكلات اور روح فرسا پريشانيوں نے انہيں گھيرليا تھا ايسے ميں جوچيز ان كے تسكين قلب كا باعث تھى وہ صرف باپ كا اخرى جملہتھا جس ميں اپ نے فرماياتھا كہ كبھى خدا كى رحمت سے مايوس نہ ہوناكيو نكہ اس كےلئے ہر مشكل آساں ہے_
(1) سورہيوسف آيت 87
(2) سورہيوسف آيت 87
(3) سورہيوسف آيت 87
اس عالم ميں''وہ يو سف كے پاس پہنچے اور اس وقت انتہائي پر يشانى كےعالم ميں انہوں نے اس كى طرف رخ كيا اور كہا : ''اے عزيز : ہميں اور ہمارےخاندان كو قحط ، پر يشا نى اور مصيبت نے گھير ليا ہے ''_(1) اور ہمارے پاس صرفتھوڑى سى كم قيمت پو نچى ہے ''_( 2)'' ليكن پھر بھى ہميں تيرے كرم اورشفقت پربھروسہ ہے ''اورہميں تو قع ہے كہ تو ہما را پيما نہ بالكل پورا كرے گا ''_(3)''اور اس معاملہ ميں ہم پر احسان كرتے ہوئے بخشش كر ''_(4)
''اور اپنا اجر و ثواب ہم سے نہ لے بلكہ اپنے خدا سے لے كيو نكہ''خدا كريموں اور صدقہ كر نے والوں كو اجر خير ديتا ہے''_ (5)يہ امر قابل تو جہ ہےكہ برادران يو سف كو باپ نے تا كيد كى تھى كہ پہلے يو سف اور اس كے بھا ئي كےلئے جستجو كر يں اور بعد ميں اناج كا تقاضہ كريں شا يد اسكى وجہ يہ ہو كہ انہيںيو سف كے ملنے كى اميد نہ تھى يا ممكن ہے انہوں نے سوچا ہو كہ بہتر ہے كہ اپنےكو اناج كے خريداروں كے طور پر پيش كريں جو كہ زيادہ طبيعى اور فطرى ہے اور بھائي كى آزادى كا تقاضا ضمناً رہنے ديں تاكہ يہ چيز عزيز مصر پر زيادہ اثرانداز ہو،بعض نے كہا كہ(تصدق علينا)سے مراد وہى بھائي كى آزادى ہے ورنہ وہ اناج بغيرمعاوضہ كے حاصل نہيں كر نا چا ہتے تھے كہ اسے (تصدق )قرار ديا جا تا _
روايات ميں بھى ہے كہ بھائي باپ ،كى طرف سے عزيز مصر كے نام ايك خطلے كر آئے تھے اس خط ميں حضرت يعقوب نے عزيز مصر كے عدل وانصاف كا تذ كرہ كيااپنے خاندان سے اس كى محبتوں اور شفقتوں كى تعريف كى پھر اپنا اور اپنے خانداننبوت كا تعارف كروايا اپنى پر يشانيوں كا ذكر كيا اور ساتھ ہى اس كے ضمن ميںاپنے بيٹے يو سف اور دوسرے بيٹے بنيامين كے كھو جا نے اور خشك سالى سے پيدا ہونےوالي
(1) سورہيوسف آيت 88
(2) سورہيوسف آيت 88
(3)سورہيوسف آيت88
(4)سورهيوسف آيت 88
(5) سورہيوسف آيت 88
مصيبتوں كا ذكر كيا خط كے آخر ميں اس سے خواہش كى گئيتھى كہ بنيا مين كو آزاد كر دے اور تاكيد كى تھى كہ ہمارے خاندان ميں چورى وغيرہہر گز نہ تھى اور نہ ہو گى _
جب بھا ئيوں نے باپ كا خط عزيز مصر كو ديا تو انہوں نے اسے لے كر چوما اور اپنى آنكھوں پر ركھا اور رونے لگے گريہ كا يہ عالم تھا كہ قطرات اشك انكے پيرا ہن پر گر نے لگے ( يہ ديكھ كر بھا ئي حيرت وفكر ميں ڈوب جا تے ہيں كہعزيز كو ان كے باپ سے كيا لگائو ہے وہ سوچتے ہيں كہ ان كے باپ كے خط نے اس ميںہيجان واضطراب كيوں پيدا كر ديا ہے شايد اسى مو قع پر ان كے دل ميں يہ خيال بجلىكى طرح اتر ا ہو كہ ہو نہ ہو يہى خود يو سف ہو اور شايد باپ كے اسى خط كى وجہ سےيو سف اس قدر بے قرار ہو گئے كہ اب مزيد اپنے آپ كو عزيز مصر كے نقاب ميں نہچھپا سكے اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ بہت جلد بھا ئيوں سے بھائي كى حيثيت سےاپنا تعارف كروايا_
اس موقع پر جبكہ دور آزمائشے ختم ہورہا تھا اور يوسف بھى بہت بے تاباور سخت پريشان نظر آرہے تھے،تعارف كے لئے گفتگو كا آغاز كر تے ہوئے بھا ئيوں كىطرف رخ كر كے آپ نے كہا :'' تمہيں معلوم ہے كہ جب تم جاہل ونادان تھے تم نے يوسفاوراس كے بھا ئي كے ساتھ كيا سلوك كيا''_(1)
حضر ت يوسف كى عظمت اور شفقت ملا حظہ كيجئے كہ اولاً تو ان كا گناہمجمل طور پر بيان كيا اور كہا (ما فعلتم )''جو كچھ تم نے انجا م ديا '' اورثانيا ًانہيں عذر خواہى كا راستہ دكھا يا كہ تمہارے يہ اعمال وافعال جہا لت كى وجہسے تھے اور اب جہا لت كا زمانہ كذر گيا ہے اور اب تم عاقل اور سمجھد ار ہو _
ضمناً اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے كہ گز شتہ زمانے ميں انہوں نے صرف يوسف پر ظلم نہيں ڈھا يا تھا بلكہ بنيا مين بھى اس دور ميں ان كے شرسے محفوظ نہيںتھے اور انہوں نے اس كے لئے بھى اس زمانہ ميں
(1) سورہيوسف آيت 89
مشكلات پيدا كى تھيں جب بنيامين مصر ميں يو سف كے پاستھے شايدان دنوں ميں انہوں نے ان كى كچھ بے انصا فياں اپنے بھا ئي كو بتا ئي ہوں_
بعض روايات ميں ہے كہ وہ زيا دہ پر يشان نہ ہوں اور يہ خيال نہ كريںكہ عزيز مصر ہم سے انتقام لينے والا ہے يو سف نے اپنى گفتگو كو ايك تبسم كے ساتھختم كيا اس تبسم كى وجہ سے بھا ئيوں كو حضرت يو سف كے خوبصورت دانت پورى طرح نظرآگئے جب انہوں نے خوب غور كيا تو انہيں محسوس ہوا كہ يہ دانت ان كے بھائي يو سفسے عجيب مشا بہت ركھتے ہيں ،اس طرح بہت سے پہلو جمع ہو گئے ايك طرف تو انہوں نےديكھا كہ عزيز مصر يو سف كے بارے ميں اور اس پر بھائيوں كى طرف سے كئے گئے مظالمكے بارے ميں گفتگو كر رہا ہے جنہيں سوائے ان كے اور يوسف (ع) كے كو ئي نہيں جانتا تھا _
دوسرى طرف انہوں نے ديكھا كہ يعقوب كے خط نے اسے اس قدر مضطر ب كرديا ہے جيسے اس كا يعقوب سے كوئي بہت ہى قريبى تعلق ہو ،تيسرى طرف وہ اس كے چہرےمہر ے پر جتنا غور كرتے انہيں اپنے بھائي يو سف سے بہت زيادہ مشا بہت دكھا ئيديتى ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود انہيں يقين نہيں آتا تھا كہ يوسف عزيز مصر كىمسند پر پہنچ گيا ہو وہ سو چتے كہ يو سف كہا ں اور يہ مقام كہا ں ؟ لہذا انہوںنے شك وتردد كے لہجہ ميں ''كيا تم خود يو سف تو نہيں _(1)
اس موقع بھا ئيوں پر بہت زيادہ حساس لمحا ت گذرا كيونكہ صيح طور پہمعلوم بھى نہ تھا كہ عزيز مصران كے سوال كے جواب ميں كيا كہے گا كيا سچ مچ وہ پردہ ہٹا دے گا اور اپنا تعارف كروائے گا يا انہيں ديوانہ اور بے وقوف سمجھ كرخطاب كر ے گا كہ انہوں نے ايك مضحكہ خيز بات كى ہے گھڑياں بہت تيزى سے گزررہىتھيں انتظار كے روح فر سالمحے ان كے دل كو بوجھل كر رہے تھے ليكن حضرت يو سف نےنہ چاہا كہ يہ زمانہ طويل ہو جائے اچانك انہوں نے حقيقت كے چہر ے سے پر دہ ہٹايا اور كہا :'' ہا ں ميں يو سف ہو ںاور يہ ميرا بھائي بنيامين ہے ''_( 2)
(1) سورہيوسف آيت 90
(2) سورہيوسف آيت 90
ليكن اس بناء پركہ وہ خدا كى نعمت كا شكر ادا كريں كہ جس نے يہ سبنعمات عطافرمائي تھيں اور ساتھ ہى بھا ئيوں كو بھى ايك عظيم درس ديں انہوں نےمزيد كہا :'' خدا نے ہم پر احسان كيا ہے جو شخص بھى تقوى اور صبر اختيا ر كرے گاخدا اسے اس كا اجر وثواب دے گا كيو نكہ خدا نيكو كاروں كا اجر ضائع نہيں كرتا''_(1)كسى كو معلوم نہيں كہ ان حساس لمحات ميں كيا گزرى اور جب ديسوں سال بعدبھا ئيوں نے ايك دوسرے كو پہنچانا تو كيسا شور وغل بپا كيا وہ كسى طرح آپس ميںبغل گير ہو ئے اور كس طرح سے ان كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو ٹپك پڑے _
ان تمام چيزوں كے باوجود بھا ئي اپنے آپ ميں شرمندہ تھے وہ يو سف كےچہرے كى طرف نظر بھر كے نہيں ديكھ پا رہے تھے وہ اسى انتظار ميں تھے كہ ديكھيںان كا عظيم گناہ بخشش وعفو كے قابل ہے يا نہيں لہذا انہوں نے بھائي كى طرف رخكيا اور كہا :'' خدا كى قسم :اللہ نے تجھے ہم پر مقدم كيا ہے''_(2)اور تجھےترجيح دى ہے اور علم وحلم اور عقل وحكومت كے لحا ظ سے تجھے فضيلت بخشى ہے يقيناہم خطاكا ر اور گناہ گار تھے''_ (3)
ليكن يوسف نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئي اس طرح شر مسار رہيں خصو صاً جبكہ يہ ان كى اپنى كا ميابى و كا مرانى كا مو قع تھا يا يہ كہ احتمالاً بھا ئيوںكے ذہن ميں يہ بات آئے كہ يو سف اس مو قع پر انتقام لے گا لہذا فور اًيہ كہہ كرانہيں مطمئن اور پر سكون كرديا كہ ''آج تمہيں كو ئي سر ز نش اور تو بيخ نہيںہوگي_''(4) تمہارى فكر آسودہ رہے اور وجد ان كو را حت رہے اورگذشتہ گنا ہوں پرغم نہ كرو _
اس بناء پر كہ انہيں بتايا جا ئے كہ انہيں نہ صرف يو سف كا حق بخشديا گيا ہے بلكہ ان كى ند امت وپشيمانى كى وجہ سے اس سلسلے ميں خدائي حق بھىقابل بخشش ہے ، مزيد كہا :'' اللہ بھى تمہيں بخش دے گا كيو نكہ وہ ارحم الرحمينہے ''_(5)
(1) سورہيوسف آيت 90
(2) سورہيوسف آيت 91
(3) سورہيوسف آيت 91
(4) سورہيوسف آيت 92
(5) سورہيوسف آيت 92
يہ حضرت يو سف (ع) كى انتہائي عظمت كى دليل ہے كہ نہ صرف اپنا حقمعاف كر ديا بلكہ اس بات پر بھى تيار نہ ہوئے كہ انہيں تھوڑى سى بھى سر زنش كىجا ئے ،چہ جائيكہ بھا ئيوں كو كوئي سزا ديتے بلكہ حق الہى كے لحاظ سے بھى انہيںاطمينان دلا يا كہ خدا غفور اور بخشنے والاہے بلكہ يہ بات ثابت كرنے كے لئے يہاستد لال پيش كيا كہ وہ ارحم الرا حمين ہے _
اس مو قع پر بھائيوں كو ايك اور غم بھى ستارہا تھا اور وہ يہ كہ باپاپنے بيٹوں كے فراق ميں نابينا ہو چكا ہے اور اس كا اس طرح رہنا پورے خاندان كےلئے ايك جانكا ہ رنج ہے اس كے علاوہ ان كے جر م پر ايك مسلسل دليل ہے لہذا يوسف(ع) نے اس عظيم مشكل كے حل كے لئے بھى فرمايا: ''ميرا يہ پيراہن لے جائو اورميرے باپ كے چہرے پر ڈال دو تاكہ وہ بينا ہوجائے'' _(1)'' اس كے بعد سارے خاندانكے ہمراہ ميرے پاس آجائو''_(2)
حضرت يوسف (ع) نے كہا: ميرا شفا بخش كرتہ باپ كے پاس وہى لے جائے جوخون آلود كرتہ لے كر گيا تھا تاكہ جيسے اس نے باپ كو تكليف پہنچائي اورپريشانكيا تھا اس مرتبہ كے اسے خوش وخرم كرے_
لہذا يہ كام ''يہودا'' كے سپرد ہوا كيونكہ اس نے بتايا تھا كہ وہ ميںہوں جو خون آلود كرتہ لے كرباپ كے پاس گيا تھا اور ان سے كہا تھا كہ آپ كے بيٹےكو بھيڑيا كھا گيا ہے_اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ اگرچہ حضرت يوسف (ع) اس قدر مشكلاتاور مصائب ميں گرفتار رہے ليكن اخلاقى مسائل كى باريكيوں سے غافل نہيں رہتے تھے_
اس ماجرے كے بعد حضرت يوسف (ع) كے بھائي ہميشہ شرمسار رہتے تھے انھوںنے كسى كو يوسف (ع) كے
(1) سورہيوسف آيت 93
(2) سورہيوسف آيت 93
پاس بھيجا اور كہلايا كہ آپ ہر صبح وشام ہميں اپنےدسترخوان پر بٹھاتے ہيں او رآپ كا چہرہ ديكھ كر ہميں شرم وخجالت محسوس ہوتى ہےكيونكہ ہم نے آپ كے ساتھ اس قدر جسارتيں كى ہيں_
اس بناء پر كہ انھيں نہ صرف ذرہ بھر احساس شرمندگى نہ ہو بلكہ يوسف(ع) كے دسترخوان پر اپنى موجودگى كو يوسف (ع) كى ايك خدمت محسوس كريں ، حضرتيوسف نے انھيں بہت ہى عمدہ جواب ديا، آپ نے كہا:مصر كے لوگ اب تك مجھے ايك زرخريد غلام كى نظر سے ديكھتے تھے اور ايك دوسرے سے كہتے تھے:''پاك ہے وہ ذات جسنے اس غلام كو كہ جو بيس درہم ميں بيچا گيا اس مقام تك پہنچايا_''
ليكن اب جب كہ تم لوگ آگئے ہو اور ميرى زندگى كى كتاب اس كے سامنےكھل گئي ہے تو وہ سمجھنے لگے ہيں كہ ميں غلام نہيں ہوں بلكہ ميں خاندان نبوت سےتعلق ركھتا ہوں اور ابراہيم خليل اللہ كى اولاد ميں سے ہوں اور يہ ميرے لئے باعثافتخار ہے_
فرزندان يعقوب (ع) خوشى سے پھولے نہ سماتے تھے، وہ خوشى خوشى يوسف(ع) كا پيراہن اپنے ساتھ لے كر قافلے كے ساتھ مصر سے چل پڑے، ادھر ان بھائيوں كےلئے زندگى كے شرين ترين لمحات تھے اُدھر شام كے علاقہ كنعان ميں بوڑھے باپ كاگھر غم واندوہ ميں ڈوبا ہوا تھا، سارا گھرانہ افسردہ اور غم زدہ تھا_
ليكن ادھر يہ قافلہ مصر سے چلا اور اُدھر اچانك يعقوب (ع) كے گھر ميںايك واقعہ رونما ہوا جس نے سب كو تعجب ميں ڈال ديا، يعقوب (ع) كا جسم كانپ رہاتھا، انھوں نے بڑے اطمينان اور اعتماد سے پكار كر كہا:''اگر تم بدگوئي نہ كرواور ميرے طرف نادانى اور جھوٹ كى نسبت نہ دو تو ميں تم سے كہتا ہوں كہ مجھے اپنےپيارے يوسف (ع) كى خوشبو آرہى ہے''_(1)
ميں محسوس كررہا ہوں كہ رنج وغم اور زحمت ومشكل كى گھڑياں ختم ہونےكو ہيں اور
(1)سورہيوسف آيت 94
وصال وكاميابى كا زمانہ آنے كو ہے، خاندان يعقوب (ع) ابلباس ماتم اتاردے گا اور لباس مسرت زيب تن كرے گا،ليكن ميرا يہ خيال نہيں كہ تمان باتوں پر يقين كرو گے_
لفظ''فصلت''سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) ميں يہ احساس اسى وقتپيدا ہوا جب قافلہ مصر سے چلنے لگا ،_
قاعدتاً حضرت يعقوب كے پاس اس وقت ان كے پوتے پوتياں اور بہو ئيںوغير ہ تھيں انہوں نے بڑے تعجب اور گستا خى سے اور پورے يقين سے يعقوب سے كہا:'' بخدا آپ اسى پرانى گمراہى ميں ہيں''_(1)
يعنى اس سے بڑھ كر گمراہى كيا ہو گى كہ يو سف كى موت كو سا لہا سالگزر گئے ہيں اور ابھى آپ كا خيال ہے كہ وہ زندہ ہے اور اب آپ يہ كہہ رہے ہيں كہمصر كى طرف سے مجھے يوسف كى خوشبو آرہى ہے ، مصر كہا ں اور شام وكنعان كہا ں،كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ آپ ہميشہ خواب وخيا ل كى دنيا ميں رہتے ہيں اوراپنے خيالات وتصورات كو حقيقت سمجھتے ہيں ، آپ يہ كيسى عجيب وغريب بات كہہ رہےہيں بہرحال آپ تو پہلے بھى اپنے بيٹوں سے كہہ چكے ہيں كہ مصر كى طرف جا ئو اورمير ے يو سف كو تلاش كرو _
اس سے ظاہر ہو تا ہے كہ يہاں ضلالت وگمراہى سے مراد عقيدہ اور نظر يہكى گمراہى نہيں ہے بلكہ يوسف سے متعلق مسائل كے سمجھنے ميں گمراہى مراد ہے _
بہركيف ان الفاظ سے ظاہر ہو تا ہے كہ وہ لوگ اس عظيم كہن سال اورروشن ضمير پيغمبر سے كيسا شديد اورجسا رت آميز سلوك كر تے تھے _
ايك جگہ انہوں نے كہا : ہمارا باپ ''ضلال مبين ''( كھلى گمراہى )ميںہے اور يہا ں انہوں نے كہا: تم اپنى اسى دير ينہ گمرا ہى ميں ہو _
(1) سورہيوسف آيت 95
وہ پير كنعان كے دل كى پاكيزگى اور روشنى سے بے خبر تھے ان كا خيالتھا كہ اس كا دل بھى انہى كے دل كى طرح تاريك ہے انہيں يہ خيال نہ تھا كہ آيندہكے واقعات اور دور ونزيك كے مقامات اس كے آئينہ دل ميں منعكس ہو تے ہيں _
كئي رات دن بيت گئے يعقوب اسى طرح انتظار ميں تھے ايسا پر سوز انتظاركہ جس كى گہرائي ميں مسرت وشاد مانى اور سكون واطمينان مو جزن تھا حالانكہ ان كےپاس رہنے والوں كو ان مسائل سے كو ئي دلچسپى نہ تھى اور وہ سمجھتے تھے كہ يو سفكا معا ملہ ہميشہ كے لئے ختم ہو چكا ہے معلوم نہيں يعقوب پر يہ چند دن كس طرح گزريںگے_ آخر ايك دن آيا جب آوزآئي وہ ديكھو مصر سے كنعان كا قافلہ آيا ہے گزشتہسفروں كے بر خلاف فرزند ان يعقوب شاداں وخرّم شہر ميں داخل ہوئے اور بڑى تيزى سےباپ كے گھر پہنچ گئے سب سے پہلے ''بشير ''بوڑھے يعقوب كے پاس آيا وہي'' بشير ''(جو وصال كى بشارت لايا تھا اور جس كے پاس يو سف كا پير اہن تھا ) اس نے آتے ہىپير اہن يعقوب كے چہر ے پر ڈال ديا _
يعقوب كى آنكھيں تو بے نور تھيں وہ پير اہن كو ديكھ نہ سكتے تھاانہوں نے محسوس كيا كہ ايك آشنا خو شبو ان كى مشام جان ميں اتر گئي ہے يہ ايكپُركيف زريں لمحہ تھا گويا ان كے وجود كا ہر ذرہ روشن ہو گيا ہو آسمان وزمينمسكرا اٹھے ہوں ہر طرف قہقہے بكھر گئے ہوں نسيم رحمت چل اٹھى ہوا اور غم واند وہكا گر د وغبار لپيٹ كر لے جارہى ہو، درود يوار سے خوشى كے نعرے سنا ئي دے رہےتھے اور يعقوب كى آنكھيں روشن ہو گئي ہيں اور وہ ہر جگہ ديكھ رہے ہيں دنيا اپنىتمام تر زيبا ئيوں كے ساتھ ايك مر تبہ پھر ان آنكھوں كے سامنے تھى جيسا كہ قرآنكہتا ہے :'' جب بشارت دينے والا آيا تو اس نے وہ (پيراہن ) ان كے چہرے پر ڈالديا تو اچا نك وہ بينا ہو گئے''_ (1)
(1) سورہيوسف آيت 96
بھا ئيوں اور گر دو پيش والوں كى آنكھوں سے خوشى كے آنسو امنڈ آئےاور يعقوب نے پورے اعتماد سے كہا : ''ميں نہ كہتا تھا كہ ميں خدا كى طرف سے ايسىچيزيں جانتا ہوں جنہيںتم نہيں جا نتے ''(1) اس معجزے پر بھا ئي گہرى فكر ميں ڈوبگئے ايك لمحے كے لئے اپنا تاريك ماضى ان كى آنكھوں كے سامنے گھوم گيا ، خطا ،گناہ ، اشتباہ اور تنگ نظر ى سے پُر ماضى _
ليكن كتنى اچھى بات ہے كہ جب انسان اپنى غلطى كو سمجھ لے تو فوراً اسكى اصلاح اور تلافى كى فكر كرے فرزند ان يعقوب بھى اسى فكر ميں گم ہو گئے انہوںنے باپ كا دامن پكڑليا اور كہا :''بابا جا ن خدا سے درخواست كيجئے كہ وہ ہمارےگنا ہوں اور خطائوں كو بخش دے كيو نكہ ہم گنہگار اور خطا كار تھے_''(2)
بزرگور اور با عظمت بوڑھا جس كا ظرف سمندر كى طرح وسيع تھا ، اس نےكوئي ملامت وسرزنش كئے بغير ان سے وعدہ كيا كہ'' ميں بہت جلدى تمہارے لئے اپنےپروردگار سے مغفرت طلب كروں گااور مجھے اميد ہے كہ وہ تمہارى تو بہ قبول كرلے گااور تمہارے گناہوں سے صرف نظر كرے گا ''كيونكہ وہ غفور ورحيم ہے_''(3)(4)
(1) سورہيوسف آيت 96
(2) سورہيوسف آيت 97
(3) سورہيوسف آيت 98
(4)يہاںپر چند سوال پيدا ہو تے ہيں :
1_يعقوبنے پيراہن يو سف كى خو شبو كيسے محسو س كى ؟
يہ سوالبہت سے مفسر ين نے اٹھا يا ہے اور اس پر بحث كى ہے عام طور پر مفسرين نے اسےيعقوب يا يو سف كا معجزہ قرار ديا ہے ليكن چو نكہ قرآن نے اسے اعجاز يا غير اعجاز ہو نے كے لحاظ سے پيش نہيں كيا اور اس سلسلے ميں خا مو شى اختيار كى ہے اس كىسائنس توجيہ معلوم كى جاسكتى ہے_
موجودہزمانے ميں ''ٹيلى پيتھي'' ايك مسلمہ علمى مسئلہ ہے ( اس ميں يہ بات تسليم كى گئيہے كہ ايك دوسرے سے دور رہنے والے كے درميان فكرى ارتباط اور روحانى رابطہہوسكتا ہے اسے ''انتقال فكر'' كہتے ہيں) ايسے افراد جو ايك دوسرے سے نزديكى تعلقركھتے ہيں يا جو بہت زيادہ روحانى طاقت ركھتے ہيں يہ تعلق ان كے درميان پيداہوتا ہے شايد ہم ميں سے بہت سے افراد نے اپنى روز مرہ كى زندگى ميں اس كا سامناكيا ہو كہ بعض اوقات كسى كى والدہ يا بھائي اپنے اندر بلاسبب بہت زيادہ -->
<--اضطراب او رپريشانى محسوس كرتے ہيں اور زيادہ دير نہيں گذر تى كے كہ خبر پہنچتىہے كہ اس كے بيٹے يا بھائي كو فلاں دور دراز علاقے ميں ايك ناگوار حادثہ پيش آياہے_
ماہرين اسقسم كے احساس كو ٹيلى پيتھى اور دور دراز كے علاقوں سے انتقال فكرى كا عمل قرارديتے ہيں_
حضرتيعقوب (ع) كے واقعہ ميں بھى ممكن ہے كہ يوسف (ع) سے شديد محبت اور آپ كى روحانىعظمت كے سبب آپ ميں وہى احساس پيدا ہوگيا جو يوسف كا كرتہ اٹھاتے وقت بھائيوںميں پيدا ہوا تھا_
البتہ يہبات بھى ہر طرح ممكن ہے كہ اس واقعہ كا تعلق انبياء كے دائرہ علم كى وسعت سے ہو، بعض روايات ميں بھى انتقال فكر كے مسئلہ كى طرف جاذب نظر اور عمدہ اشارہ كياگيا ہے مثلاً:
كسى نےحضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے عرض كيا : كبھى ايسا ہوتا ہے كہ ميں بغيركسى مصيبت يا ناگوار حادثہ كے غمگين ہوجاتا ہوں يہاں تك كہ ميرے گھروالے اورميرے دوست بھى اس كے اثرات ميرے چہرے پر ديكھ ليتے ہيں_
امام عليہالسلام نے فرمايا: ہاں، خدا نے مومنين كو ايك ہى بہشتى طينت سے پيدا كيا ہے اوراس كى روح ان ميں پھونكى ہے لہذا مومنين ايك دوسرے كے بھائي ہيں جس وقت كسى ايكشہر ميں ان ميں سے كسى ايك بھائي كو كوئي مصيبت پيش آتى ہے تو باقى افراد پر اسكا اثر ہوتا ہے_
بعضروايات سے يہ بھى معلوم ہوتا ہے كہ يہ كرتہ كوئي عام كرتہ نہ تھا بلكہ ايك جنتّىپيراہن تھا جو حضرت ابراہيم عليہ السلام كى طرف سے خاندان يعقوب (ع) ميں يادگاركے طور پر چلاآرہا تھا اور جو شخص حضرت يعقوب (ع) كى طرح بہشتى قوت شامہ ركھتاتھا وہ اس كى خوشبو دور سے محسوس كرليتا تھا_
2_انبياءكے حالات ميں فرق_
يہاں پرايك اور مشہور اعتراض سامنے آتا ہے فارسى زبان كے اشعار ميں بھى يہ اعتراض بيا نكيا گيا ہے، كسى نے يعقوب (ع) سے كہا:
زمصرى بوى پيراہن شنيدي
يعنى آپنے مصر سے پيراہن كى خوشبو سونگھ لى ليكن آپ كو كنعان كے كنويں ميں يوسف كيوں نہدكھائي دئے؟
كيسےہوسكتا ہے كہ اس عظيم پيغمبر نے اتنے دور دراز كے علاقے سے يوسف (ع) كى قميص كىخوشبو سونگھ لى جب كہ بعض -->
<-- نےيہ فاصلہ اسّى فرسخ لكھا ہے اور بعض نے دس دن كى مسافت بيان كى ہے ليكن اپنےعلاقہ كنعان كے اندر جب كہ يوسف كو اس كے بھائي كنويں ميں پھينك رہے تھے اور انپر وہ واقعات گزرہے تھے اس سے يعقوب (ع) آگاہ نہ ہوئے؟
قبل اس كےانبياء اور ائمہ عليہم السلام كے علم غيب كى حدود كے بارے ميں جو كچھ كہا جاچكاہے اس كى طرف توجہ كرتے ہوئے اس سوال كا جواب ہرگز مشكل نہيں رہتا،امور غيب كےمتعلق ان كا علم پروردگار كے ارادے اور عطاكئے ہوئے علم پر منحصر ہے جہاں خداچاہتا ہے وہ جانتے ہيں، چاہے واقعہ كا تعلق كسى بہت دور دراز علاقے سے ہو اورجہاں وہ نہ چاہے نہيں جانتے چاہے معاملہ كسى نزديك ترين علاقے سے مربط ہو جيسےكسى تاريك رات ميں ايك قافلہ كسى بيابان سے گزررہا ہو آسمان كو بادلوں نے ڈھانپركھا ہو ايك لمحہ كے لئے آسمان سے بجلى چمك اٹھے اور بيابان كى تمام گيرائياں اورگہرائياں روشن ہوجائيں اور تمام مسافر ہر طرف سب كچھ ديكھ ليں ليكن دوسرے لمحہوہ بجلى خاموش ہوجائے او رپھر تاريكى ہر طرف چھا جائے اسى طرح سے كہ كوئي چيزنظر نہ آئے_
شايد امامجعفر صادق عليہ السلام سے علم امام كے بارے ميں مروى يہ حديث اسى مفہوم كى طرفاشارہ كرتى ہے ، آپ فرماتے ہيں:
''جعلاللہ بينہ وبين الامام عموداً من نور ينظر اللہ بہ الى الامام وينظر الامام بہاليہ، فاذا راد علم شى ء نظر فى ذالك النور فعرفہ ''
خد انےاپنے اور امام وپيشوائے خلق كے درميان نور كا ايك ستون بنايا ہے اسى سے خدا امامكى طرف ديكھتا ہے اور امام بھى اسى طريق سے اپنے پروردگار كى طرف ديكھتا ہے اورجب امام كوئي چيز جاننا چاہتا ہے تو نور كے اس ستون ميں ديكھتا ہے اور اس سےآگاہ ہوجاتا ہے_
ايك شعرجو پہلے ذكر كيا گيا ہے اس كے بعد سعدى كے مشہور اشعار ميں اسى روايات كے پيشنظر كہا گيا ہے:
بگفتاحوال ما برق جہان استيعنى اسنے كہا ہمارے حالات چمكنے والى بجلى كى طرح ہيں جو كبھى دكھائي ديتى ہے اور كبھىچھپ جاتى ہے_
كبھى ہمآسمان كى بلنديوں پر بيٹھتے ہيں اور كبھى اپنے پائوں كے پيچھے بھى كچھ دكھائينہيں ديتا_
اس حقيقتكى طرف توجہ كرتے ہوئے تعجب كا مقام نہيں كہ ايك دن مشيت الہى كى بناء پر يعقوب(ع) كى آزمائشے -->
عظيم ترين بشارت لئے ہوئے مصرسے قافلہ كنعان پہنچا بوڑھے يعقوب بيناہو گئے عجيب جو ش وخروش تھا سا لہا ل سال سے جو گھرانا غم واندوہ ميں ڈوبا ہواتھا وہ خوشى اور سرور ميں ڈوب گيا ان سب نعمات الہى پر وہ پھولے نہيں سما تےتھے_
يو سف كى فرمائشے كے مطا بق اس خاندان كو اب مصر كى طرف روا نہ ہو ناتھا سفر كى تيارى ہر لحا ظ سے مكمل ہو گئي يعقوب ايك مر كب پر سوارہو ئے_
جب كہ ان كے مبارك لبوں پر ذكر و شكر خدا جارى تھا اور عشق وصال نےانہيں اس طرح سے قوت وتو انا ئي بخشى تھى كہ گو يا وہ نئے سرے سے جوان ہو گئےتھے _
بھا ئيوں كے گزشتہ سفر تو خوف وپر يشانى سے گزر ے ليكن ان كے بر خلافيہ سفر ہر قسم كے فكر وانديشہ سے خالى تھا يہا ں تك كہ اگر سفر كى كوئي تكليفتھى بھى تو اس انتظار ميں پنہاں مقصد كے سامنے اس كى كوئي حقيقت نہ تھى _
كعبہ مقصود كے وصال نے مجھے اتنا تيز دوڑا يا كہ خار مغيلاں ريشممعلوم ہو تے تھے _
<-- كےلئے اپنے قريب رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ نہ ہوں اور كسى دوسرے دن جب كہدور آزمائشے ختم ہوچكا تھا اور مشكلات كے دن بيت چكے تھے انھوں نے مصر سے قميصيوسف كى مہك سونگى لى ہو_
3_بينائيكيسے لوٹ آئي؟
بعضمفسرين نے يہ احتمال ديا ہے كہ حضرت يعقوب (ع) كى آنكھ كا نور بالكل ختم نہيںہوا تھا بلكہ ان كى آنكھيں كمزور ہوگئي تھيں او ربيٹے كى ملاقات كے امكانات پيداہوئے تو ان ميں ايك ايسا ہيجان پيدا ہوا كہ وہ پہلى حالت پر واپس آگئيں، ليكنآيات كا ظہور نشاندہى كرتا ہے كہ وہ بالكل نابينا ہوگئے تھے يہاں تك كہ ان كىآنكھيں سفيد ہوچكى تھيں لہذا ان كى بينائي معجزانہ طور پر واپس ہوئي_ قرآن كہتاہے: (فارتد بصيرا)
رات اور دن گو يا بڑى آہستگى سے گزررہے تھے كيو نكہ اشتياق وصال ميںہر گھڑى ايك دن بلكہ ايك سال معلوم ہو رہى تھى مگر جو كچھ بھى تھا آخر گزرگيامصر كى آبادى دور سے نما ياں ہو ئيں مصر كے سر سبز كھيت ، آسمان سے باتيں كر نےوالے درخت اور خوبصور ت عمارتيں دكھا ئي دينے لگيں ،ليكن قرآن اپنى دائمى سيرتكے مطابق ان سب مقدما ت كو كہ جو تھوڑے سے غور وفكر سے واضح ہو جاتے ہيں حذف كرتے ہوئے كہتا ہے: ''جب وہ يو سف كے پاس پہنچے تو يو سف اپنے ماں باپ سے گلے ملے_''(1)
آخر كار يعقوب كى زندگى كا شيريں تر ين لمحہ آگيا ديدار وصال كا يہلمحہ فراق كے كئي سالوں بعد آيا تھا خدا كے سوا كو ئي نہيں جانتا ، كہ وصال كےيہ لمحات يعقوب اور يوسف پر كيسے گذرے ان شيريں لمحات ميں ان دونوں كے احساسات وجذبات كيا تھے، عالم شوق ميں انھوں نے كتنے آنسو بہائے اور عالم شوق ميںكيا نالہو فرياد ہوا_
''پھر يو سف نے سب سے كہا سر زمين مصر ميں قدم ركھيں كہ انشا ء اللہيہا ں آپ بالكل امن وامان ميں ہوں گے''(2) كيو نكہ مصر يو سف كى حكومت ميں امنوامان كا گہوارہ بن چكا تھا_
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ يو سف اپنے ماں باپ كے استقبال كے لئےشہر كے دروازے كے باہر تك آئے تھے اور شايد جملہ (ادخلو ا على يو سف ) كہ جو درواز ے سے باہر سے مر بوط ہے ، اس طرف اشارہ ہے كہ يو سف نے حكم ديا تھا كہ وہا ںخيمے نصب كئے جا ئيں اور ما ں باپ اور بھا ئيوں كى پہلے پہل وہاں پذيرائي كىجائے ،جب بارگا ہ يو سف ميں پہنچے ''تو اس نے اپنے ماں باپ كو تخت پر بٹھا يا''(3) نعمت الہى كى اس عظمت اور پرور دگار كے لطف كى اس گہرائي اور وسعت نےبھائيوں اور ماں باپ كو اتنا متا ثر كيا كہ وہ سب كے سب ''اس كے سامنے سجدے ميںگر گئے_ '' (4)
(1) سورہيوسف آيت 99
(2) سورہيوسف آيت 99
(3)سورہيوسف آيت 100
(4) سورہيوسف آيت 100
اس مو قع پر يو سف نے باپ كى طرف رخ كيا ''اور عر ض كيا : ابان جان :يہ اسى خواب كى تعبير ہے جو ميں نے بچپن ميں ديكھا تھا ''(1) كيا ايسا ہى نہيںكہ ميں نے خواب ميں ديكھا كہ سورج ، چاند اور گيار ہ ستارے ميرے سامنے سجدہ كررہے ہيں ديكھئے : جيسا كہ آپ نے پيشين گو ئي كى تھى ''خدا نے اس خواب كو واقعيتميں بدل ديا ہے '' (2) ''اور پر وردگار نے مجھ پر لطف و احسان كيا ہے كہ اس نےمجھے زندان سے نكا لا ہے ''_ (3)
يہ بات قابل تو جہ ہے كہ حضرت يو سف نے اپنى زندگى كى مشكلات ميں صرف زندان مصر كے بارے ميں گفتگو كى ہے ليكن بھائيوں كى وجہ سے كنعان كے كنوئيں كىبات نہيں كى ،اس كے بعد مزيد كہا :'' خدا نے مجھ پر كس قدر لطف كيا كہ آپ كوكنعان كے اس بيابان سے يہاں لے آيا جب كہ شيطان ميرے اور ميرے بھا ئيوں كے درميان فساد انگيز ى كر چكا تھا _''(4)
يہاں يو سف ايك مر تبہ پھر اپنى وسعت قلبى اور عظمت كا ايك نمو نہپيش كر تے ہيں يہ نہيں كہتے كہ كو تا ہى كس شخص نے كي،بلكہ اس طرح سربستہ اوراجمالى طور پر كہتے ہيں كہ شيطان نے اس كا م ميں دخل اندا زى كى اور وہ فساد كاباعث بنا كيو نكہ وہ نہيں چا ہتے تھے كہ بھا ئيوں كى گزشتہ خطائوں كا گلہ كريں،وہ جا نتا ہے كہ كون حا جت مند ہيں اور كو ن اہل ہيں'' كيونكہ وہ عليم وحكيم ہے'' _( 5)
اس كے بعد يو سف، حقيقى مالك الملك اور دائمى ولى نعمت كى طرف رخ كرتے ہيں اور شكر اور تقاضے كے طور پر كہتے ہيں : ''پر ور دگار تونے ايك وسيع حكومت كا ايك حصہ مجھے مر حمت فرمايا ہے '' _(6) ''اور تو نے مجھے تعبير خواب كےعلم كى تعليم دى ہے ''_(7) اور اسى علم نے جو ظاہر اً سا دہ اور عام ہے ميرىزندگى اور تيرے بندوں كى ايك بڑى جما عت كى زندگى ميں كس قسم كا انقلا ب پيدا كرديا ہے اور يہ علم كس قدر پر بر كت ہے_
(1)سورہيوسف آيت 100
(2) سورہيوسف ايت100
(3) سورہيوسف آيت 100
(4)سورہيوسف آيت 100
(5) سورہيوسف آيت 100
(6) سورہيوسف آيت 101
(7) سورہيوسف آيت 101
''تو وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمين كو ايجاد كيا ہے ''_(1)
اور اسى بناء پر تمام چيزيں تيرى قدرت كے سامنے سر تسليم خم كئے ہوئے ہيں ''پروردگار دنيا وآخرت ميں تو مير ا ولى ناصر مد بر اور محا فظ ہے ''_(2)
'' مجھے اس جہا ن سے مسلمان اور اپنے فرمان كے سامنے سر تسليم خم كئےہو ئے لے جا، اور مجھے صالحين سے كر دے ''_(3)
ميں تجھ سے ملك كے دوام اور اپنى مادى حكو مت اور زند گى كى بقا ء كاتقا ضا نہيں كر تا كيو نكہ يہ تو سب فانى ہيں اور صرف ديكھنے ميں دل انگيزہيںبلكہ ميں تجھ سے يہ چا ہتا ہو ںكہ ميرى عا قبت اور انجا م كا ر بخير ہو اورميں تيرى راہ ميں ايمان وتسليم كے ساتھ ہوں اور تيرے لئے جان دوں اور صالحين اورتيرے باخلوص دو ستوں كى صف ميں قرار پائوں ميرے لئے يہ چيزيں اہم ہيں _
جس وقت يعقوب (ع) يوسف (ع) سے ملاقات كے لئے پہنچے تو ان سے كہا:ميرے بيٹے ميرا دل چاہتا ہے كہ ميں پورى تفصيل جانوں كہ بھائيوں نے تمہارے ساتھكيا سلوك كيا_
حضرت يوسف (ع) نے باپ سے تقاضا كيا كہ وہ اس معاملہ كو جانے ديں ليكنيعقوب (ع) نے انھيں قسم دے كر كہا كہ بيان كريں_
يوسف (ع) نے واقعات كا كچھ حصہ بيان كيا يہاں تك كہ بتايا : بھائيوںنے مجھے پكڑليا او ركنويںكے كنارے بٹھايا مجھے حكم ديا كہ كرتا اتاردوں تو ميںنے ان سے كہا: ميں تمہيں اپنے باپ يعقوب كے احترام كى قسم ديتا ہوں كہ ميرے بدنسے كرتا نہ اتاروں اور مجھے برہنہ نہ كرو، ان ميں سے ايك كے پاس چھرى تھى اس نےوہ چھرى نكالى اور چلاكر كہا: كرتا اتاردے_
(1) سورہيوسف آيت 101
(2) سورہيوسف آيت 101
(3) سورہيوسف آيت 101
يہ جملہ سنتے ہى يعقوب كى طاقت جواب دے گئي انھوں چيخ مارى او ربےہوش ہوگئے جب وہ ہوش ميں آئے تو بيٹے سے چاہا كہ اپنى بات جارى ركھے ليكن يوسف(ع) نے كہا: آپ كو ابراہيم (ع) ، اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) كے خدا كى قسم مجھےاس كام سے معاف ركھيں_
جب يعقوب (ع) نے يہ جملہ سنا تو اس معاملہ سے صرف نظر كرليا_
يہ امر نشاندہى كرتا ہے كہ يوسف (ع) ہرگز نہيں چاہتے تھے كہ ماضى كےتلخ واقعات اپنے دل ميں لائيں يا باپ كے سامنے انھيں دھرائيں اگرچہ يعقوب (ع) كىجستجو كى حسّ انھيں مجبور كرتى تھي_