حضرت لوط عليہ السلام

جناب لوط عليہ السلام خدا كے عظيم پيغمبر تھے اور حضرت ابراہيم (ع) كے ہم عصر تھے اور جناب ابراہيم(ع) سے قريبى رشتہ دارى تھى (كہا جاتاہے كہ آپ جناب ابراہيم(ع) كے خا لہ زاد بھائي تھے )_

يہ بات مسلمہ ہے كہ ابراہيم(ع) عراق اور سرزمين بابل سے ہجرت كرنے كے بعد شامات كى طرف گئے، كہتے ہيں كہ لوط بھى ان كے ساتھ تھے ليكن كچھ مدت كے بعد (توحيد كى طرف دعوت دينے اور فتنہ وفساد سے مبارزہ كے لئے ) شہر'' سدوم'' كى طرف گئے _

'' سدوم '' قوم لوط كے ايك شہر اور آبادى كا نام تھا جو شامات( ملك اردن ميں )'' بحر الميت'' كے قريب واقع تھا جو آباد اور درختوں اور سبزہ زار سے بھرا تھا، ليكن اس بدكاروبے غيرت قوم پر عذاب الہى كے نازل ہونے كے بعد، ان كے شہر مسمار اور تہ وبالا ہوگئے ، چنانچہ انہيں '' مدائن مو تفكات''_ (تہ وبالاہونے والے شہر) كہتے ہيں _

بعض كا نظر يہ، يہ ہے كہ ان شہروں كے ويرانے زير آب آگئے ہيں، اور ان كا دعوى ہے كہ انہوں نے '' بحر الميت''كے ايك گوشہ ميں كچھ ستون اور دوسرے آثار جوان شہروں كے خرابوں پر دلالت كرتے ہيں ديكھے ہيں _

جب كہ بعض لوگوں كا نظريہ ہے كہ قوم لوط كے شہر زير اب نہيں ائے ،اور اب بھى ''بحر الميت''كے قريب ايك علاقہ ہے جو سياہ پتھروں كے نيچے ڈھكا ہوا ہے، احتمال ہے كہ قوم لوط كے شہروں كى جگہ يہيں ہو _

اور يہ بھى كہا ہے كہ ابراہيم(ع) كا مركز شہر'' حبرون'' ميں تھا ، جو شہر'' سدوم '' سے چنداں دور فاصلہ پر نہيں تھا، اور جس وقت زلزلہ يا صاعقہ كے زيراثران كے شہروں كو آگ لگى تو اس وقت ابراہيم حبرون كے قريب كھڑے ہوئے تھے، اور شہر سے جو دھنواں اٹھ رہا تھا اسے اپنى آنكھ سے ديكھ رہے تھے _

اس گفتگو كے مجموعہ سے ان شہروں كے قريباً حدودواضح ہوگئے، اگرچہ ان كے جزئيات كے ابھى تك پردہ ابہام ميں ہيں _

قوم لوط كا سب سے بڑا اخلاقى انحراف

قرآن كريم اس عظيم پيغمبر اور ان كى قوم كے واقعہ كو اس طرح شروع كرتا ہے كہ ''لوط كى قوم نے خدا كے بھيجے ہوئے رسولوںكى تكذيب كي_''(1)

'' مرسلين ''رسولوں كو جمع كى صورت ميں بيان كرنے كى وجہ يا تويہ ہے كہ انبياء عليہم السلام كى دعوت ايك ہوتى ہے لہذا كسى بھى پيغمبر كى تكذيب سب كى تكذيب شمار كى جاتى ہے يا پھر اس لئے ہے كہ وہ گزشتہ كسى بھى پيغمبر پر ايمان نہيں ركھتے تھے_پھر فرمايا گيا ہے : ميں تمہارے لئے امين رسول ہوں _

اب جبكہ صورت حال يہ ہے تو پرہيزگارى اختياركرو ، خدا سے ڈرو اور ميرى اطاعت كرو ،كيونكہ ميں راہ سعادت كا رہبر ہوں _''(2)

كيا اب تك تم نے مجھ سے كوئي خيانت ديكھى ہے ؟اس كے بعد وحى الہى اور تمہارے رب كا پيغام پہنچانے ميں بھى يقينا امانت كو مدنظر ركھوں گا _

يہ نہ سمجھوكہ يہ دعوت الہى ميرے گزراوقات كا ايك ذريعہ ہے يا كسى مادى مقصد كو پيش نظر ركھ كر ايسا كام كررہاہوں ، نہ، ميں تو ذرہ بھر بھى تم سے اجرت نہيں مانگتا، ميرا اجر تو صرف عالمين كے رب كے پاس ہے_''(3)


(1)سورہ شعراء آيت 161

(2)سورہ شعراء آيت 162

(3)سورہ شعراء آيت 163

پھروہ ان كے ناشائستہ اعمال اورا ن كى كچھ اخلاقى بے راہروى كى باتوں كو بيان كرتے ہيں اور چونكہ ان كا بڑا انحراف اور ہم جنس بازى تھا لہذا اسى بات پرزيادہ زوردے كر كہتے ہيں : آيا تم سارى دنيا ميں صرف مردوں كے پاس ہى جاتے ہو ''_(1)

يعنى باوجود يكہ خداوندعالم نے اس قدر جنس مخالف تمہارے لئے خلق فرمائي ہے جن سے صحيح طريقے سے شادى كركے پاك وپاكيزہ اور اطمينان بخش زندگى بسركرسكتے ہو ں

خدا كى اس پاك اور فطرى نعمت كو چھوڑكر تم نے خود كو اس طرح كے پست اور حيا سوزكام سے آلودہ كرليا ہے _

''اپنى ازواج كو ترك كرديتے ہو جنھيں خدانے تمہارے لئے خلق فرمايا ہے تم تو تجاوز كرنے والى قوم ہو _''(2)

يقينا كسى روحانى يا جسمانى فطرى ضرورت نے تمہيں اس بے راہروى پر آماوہ نہيں كيا بلكہ يہ تمہارى سركشى ہے جس نے تمہارے دامن كو اس شرمناك فعل كى گندگى سے آلودہ كرديا ہے _

تمہارے كام كى مثال ايسے ہے جيسے كوئي شخص خوشبودار ميوے ،مقوى اور صحيح سالم غذائيں چھوڑكرزہر آلوداور مارڈالنے والى غذائوں كو استعمال كرے يہ فطرى خواہش نہيں بلكہ سركشى ہے _

جہاں پر عفت ايك عيب ہو

قوم لوط كے افراد جو بادہ شہوت وغرور سے مست ہوچكے تھے، اس رہبر الہى كى نصيحتوں كو جان ودل سے قبول كرنے اور خود كو اس دلدل سے باہر نكالنے كى بجائے اس كے مقابلے پر تل گئے اور ان سے كہا :اے لوط(ع) كافى ہوچكا ہے ،اب خاموش رہو اگر ان باتوں سے بازنہ آئے تو تمہارا شمار بھى اس شہر سے نكال ديئےانے والوں ميں سے ہوگا ''_(3)


(1)سورہ شعراء آيت 165

(2) سورہ شعراء آيت 166

(3)سورہ شعرا آيت 167

تمہارى باتيں ہمارى فكر اور آرام ميں خلل ڈال رہى ہيں ہم ان باتوں كے سننے كے ہرگز روادار نہيں، اگر تمہارى يہى حالت رہى تو ہم تمہيں سزاديں گے جو كم از كم جلاوطنى كى صورت ميں ہوگى ہے _قرآن مجيدميں ايك اور مقام پر ہے كہ انھوں نے اپنى اس دھكى كو عملى جامہ بھى پہنايا اور حكم ديا كہ لوط(ع) كے خاندان كو شہرسے باہر نكال دو كيونكہ وہ پاك لوگ ہيں اور گناہ نہيں كرتے _

ان گمراہ اور گناہ سے آلود لوگوں كى جسارت اس حدتك جاپہنچى كہ تقوى اور طہارت ان كے درميان بہت بڑا عيب سمجھا جانے لگا اور ناپا كى اور گناہ سے آلود گى سرمايہ افتخار اور يہ كسى معاشرے كى تباہى كى علامت ہوتى ہے جو تيزى كے ساتھ برائيوں كى طرف بڑھ رہا ہوتا ہے _اس سے معلوم ہوتا ہے كہ اس فاسق وفاجر گروہ نے ايسے پاك وپاكيزہ لوگوں كوپہلے باہرنكال ديا جوان كوان كے بے ہودہ اعمال سے روكا كرتے تھے لہذا انھوںنے حضرت لوط عليہ السلام كو بھى يہى دھمكى دى كہ اگر تم نے اپنے اس تبليغى سلسلے كو جارى ركھا تو تمہارا بھى وہى انجام ہوگا _بعض تفسيروں ميں صراحت كے ساتھ تحرير ہے كہ وہ پاك دامن لوگوں كو بدترين طريقے سے جلاوطن كرديا كرتے تھے _

قرآن كہتا ہے ان كے پاس اس كے سوا اور كوئي جواب نہيں تھا كہ ايك دوسرے سے كہا: ''لوط كے خاندان كو اپنے شہر اور علاقے سے نكال باہر كرو كيونكہ يہ برے پاكباز لوگ ہيں اور يہ اپنے تئيں ہم سے ہم آہنگ نہيں كرسكتے ''_(1)

يہ ايك ايسا جواب ہے جو ان كى فكرى پستى اور انتہائي اخلاقى تنزل كا آئينہ دار ہے _

جى ہاں : مجرم اور گناہ سے آلودہ ماحول ميں پاكيزگى ايك جرم وعيب ہوا كرتى ہے يوسف جيسے پاكدامن كو عفت وپارسائي كے جرم ميں زندانوں ميں ڈالا جاتا ہے جبكہ زليخائيں اس ماحول ميں آزاد اور صاحب جاہ ومقام ،ہوا كرتى ہيں اور قوم لوط(ع) اپنے اپنے گھروں ميں آرام وآساآش كے ساتھ رہتى ہے _


(1) سورہ شعراء آيت 167

يہيں پر قرآن مجيد كا مصداق واضح ہوجاتاہے جووہ گمراہ لوگوں كے بارے ميں كہتا ہے كہ:

ہم (ان كے اپنے اعمال كى بناپر) ان كے دلوں پر مہرلگاديتے ہيں اور ان كى آنكھوں پر پردے ڈال ديتے اور ان كے كان بہرے ہوجائے _

ايك احتمال يہ بھى ہے كہ وہ گناہوں كى دلدل ميں اس حدتك پھنس چكے تھے كہ لوط كے خاندان كا تمسخراڑا كر كہتے تھے كہ وہ ہميں ناپاك سمجھتے ہيں اور خود بڑے پاكباز بنتے ہيں، يہ كيسا مذاق ہے؟

يہ عجيب بات نہيں تو اور كيا ہے كہ بے حيائي اور بے شرمى كے فعل سے مانوس ہوجانے كى وجہ سے انسان كى حس شناخت ہى يكسر بدل جائے يہ بالكل اس چمڑارنگنے والے كى مثال ہے جوبدبوسے مانوس ہوچكا تھا اور جب ايك مرتبہ وہ عطاروں كے بازارسے گزررہا تھا تو عطر كى نامانوس بوكى وجہ سے بے ہوش ہوگيا، جب اسے حكيم كے پاس لے گئے تو اس نے حكم ديا كہ اسے دوبارہ چمڑار نگنے والوں كے بازار ميں لے جاياجائے چنانچہ ايسا ہى كيا گيا اور وہ ہوش ميں آگيا اور مرنے سے بچ گيايہ واقعاًاس بارے ميں ايك دلچسپ حسى مثال ہے _

30 /سال سعى و كوشش

جناب لوط عليہ السلام نے اس قوم كو تيس سال تك تبليغ كي، ليكن اپنے خاندان كے سوا(اور وہ بھى بيوى كو مستثنى كر كے كيونكہ وہ مشركين كے ساتھ ہم عقيدہ ہوگئي تھي)، اور كوئي آپ پر ايمان نہيں لايا_

ليكن حضرت لوط عليہ السلام نے ان دھمكيوں كى كوئي پرواہ نہ كى اور اپنا كام جارى ركھا اور كہا :'' ميں تمہارے ان كاموں كا دشمن ہوں _''(1)

يعنى ميں اپنا احتجاج برابر جارى ركھوں گا ،تم جو كچھ ميرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑلو ،مجھے راہ خدا اور برائيوں كے خلاف جہاد كے سلسلے ميں ان دھمكيوں كى قطعا ًكوئي پرواہ نہيں ہے_


(1)سورہ شعراء آيت 167

اس احتجاج ميں اور بھى بہت سے لوگ جناب لوط عليہ السلام كے ہمنوا ہوچكے تھے، يہ اوربات ہے كہ سركش قوم نے آخركارانھيں جلاوطن كرديا _

لائق توجہ بات يہ كہ حضرت لوط عليہ السلام فرماتے ہيں كہ '' تمہارے اعمال كا دشمن ہوں '' يعنى مجھے تمہارى ذات سے دشمنى نہيں بلكہ تمہارے شرمناك اعمال سے نفرت ہے اگر ان اعمال كو اپنے سے دور كردو تو پھر تم ميرے پكے دوست بن جاو گے _

بہرحال جناب لوط عليہ السلام كى ذمہ دارى كا آخرى مرحلہ آن پہنچا لہذا وقت آپہنچا كہ جناب لوط عليہ السلام خود كو بھى اور جو لوگ ان پر ايمان لاچكے ہيں انھيں بھى اس گناہ آلود علاقے سے باہر نكال كرلے جائيں تاكہ ہولناك عذاب اس بے حياقوم كو اپنى لپيٹ ميں لے لے _

حضرت لوط عليہ السلام نے اللہ كى بارگاہ ميں دست دعا بلند كركے كہا:

''پروردگار : جو كچھ يہ لوگ كہہ رہے ہيںمجھے اور ميرے خاندان كو اس سے نجات دے _''(1)

يہ ہے گناہ گاروں كا انجام

آخركار حضرت لوط عليہ السلام كى دعا مستجاب ہوئي اور خدا كى طرف سے اس قوم تباہ كار كے خلاف سخت سزا كا حكم صادر ہوا ،وہ فرشتے جو عذاب نازل كرنے پر مامور تھے قبل اس كے كہ سرزمين لوط پر اپنا فرض ادا كرنے كے لئے جاتے، حضرت ابراہيم (ع) كے پاس ايك اور پيغام لے كر گئے اور وہ پيغام تھا، حضرت ابراہيم (ع) كو فرزند كى پيدائشے كى خوشخبرى تھى _

'' اس كى وضاحت يہ ہے كہ:ابراہيم شام كى طرف جلا وطن ہونے كے بعد لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دينے اور ہر قسم كے شرك و بت پرستى كے خلاف مبارزہ كرنے ميں مصروف تھے،حضرت ''لوط''جو ايك عطيم پيغمبر تھے ،ان ہى كے زمانہ ميں ہوئے ہيں اور احتمال يہ ہے كہ اپ ہى كى طرف سے مامور ہوئے


(1)سورہ شعراء آيت 169

تھے،كہ گمراہوں كو تبليغ و ہدايت كرنے كے لئے شام كے ايك علاقہ (يعنى سدوم كے شہروں كى طرف) سفر كريں ،وہ ايك ايسى گناہگار قوم كے درميان ائے جو شرك اور بہت سے گناہوں ميں الودہ تھى ،اور سب سے قبيح گناہ اغلام اور لواطت تھى ،اخر كار فرشتوں كا ايك گروہ،اس قوم كى ہلاكت پر ما مور ہوا ليكن وہ پہلے ابراہيم (ع) كے پاس ائے_

ابراہيم (ع) مہمانوں كى وضع و قطع سے سمجھ گئے كہ يہ كسى اہم كام كے لئے جارہے ہيں ،اور صرف بيٹے كى ولادت كى بشارت كے لئے نہيں ائے، كيونكہ اس قسم كى بشارت كے لئے تو ايك ہى شخص كا فى تھا ،يا اس عجلت كى وجہ ہے جو وہ چلنے كے لئے كر رہے تھے ،اس سے محسوس كيا كہ كوئي اہم ڈيوٹى ركھتے ہيں''_ قران ميںحضرت ابراہيم عليہ السلام سے ملاقات كا ذكر ہے چنانچہ كہا گيا ہے : جس وقت ہمارے ايلچى حضرت ابراہيم عليہ السلام كے پاس بشارت لے كرگئے _انھيں اسحاق اور يعقوب كے پيدا ہونے كى خوش خبرى سنائي اور پھر (قوم لوط كى بستى كى طرف اشارہ كرتے ہوئے )كہا كہ ہم اس شہر اور اس ميں رہنے والوں كو ہلاك كرديں گے كيونكہ يہ لوگ ظالم ہيں_ ''(1)

چونكہ فرشتوں نے ''ھذہ القرية''_ كہا اس سے ثابت ہوتا ہے كہ قوم لوط اسى مقام كے قرب جوار ميں رہتى تھى جہاں حضرت ابراہيم (ع) رہتے تھے_،اور اس قوم كو لفظ ''ظالم''سے ياد كرنا اس وجہ سے تھا كہ وہ اپنے نفوس پر ظلم كرتے تھے يہاں تك كہ اس طرف سے گزرنے والے مسافروں اور قافلوں پر بھى ستم كرتے تھے _

جب حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات سنى تو انھيں حضرت لوط پيغمبر خدا كى فكر ہوئي اور كہا :'' اس آبادى ميں تو لوط بھى ہے ''_(2)

اس پر كيا گزرے گى ؟

مگر فرشتوں نے فورا ًجواب ديا :'' آپ فكر نہ كريں ہم ان سب لوگوں سے خوب واقف ہيں جو اس


(1)سورہ عنكبوت آيت 31

(2)سورہ عنكبوت آيت 32

بستى ميں رہتے ہيں ''_(1)

ہم اندھا دھند عذاب نازل نہيں كريں گے ہمارا پروگرام نہايت سنجيدہ اور نپاتلاہے _

فرشتوںنے يہ بھى كہا كہ'' ہم لوط(ع) اور اس كے خاندان كو نجات ديں گے بجز اس كى بيوى كے كہ جو اس قوم كے ساتھ ہى مبتلائے عذاب ہوگى ''_(2)

صرف ايك خاندان مومن اور پاك

فرآن سے بخوبى ثابت ہوتاہے كہ اس علاقے كى تمام آباديوں اور بستيوں ميں صرف ايك ہى خاندان مومن اور پاك نفس تھا اور خدانے بھى اسے عذاب سے نجات دى جيسا كہ قرآن ميں مذكورہے :

''ہم نے وہاں ايك خاندان كے سوائے كوئي بھى مسلمان نہ پايا _''(3)

يہاں تك كہ حضرت لوط كى زوجہ بھى مومنين كى صف سے خارج تھى اس لئے وہ بھى عذاب ميں گرفتار ہوئي _

وہ عورت جو خانوادہ نبوت ميں شامل تھى اسے تو ''مو منين اور مسلمين '' سے جدا نہيں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اپنے كفرو شرك اور بت پرستى كى وجہ سے اس صنف سے جدا ہوگئي _

اس طرح كلام سے واضح ہوتاہے كہ وہ عورت منحرف العقيدہ تھى كچھ بعيد نہيں كہ اس ميں يہ بد عقيدگى اس مشرك معاشرے كے اثر سے پيداہوگئي ہو ا،ور ابتدا ميں مومن وموحد ہو اس صورت ميں حضرت لوط پر يہ اعتراض نہيں ہوتا كہ انھوں نے ايسى مشركہ سے نكاح ہى كيوں كيا تھا ؟

يہ خيال بھى ہوتاہے كہ اگر كچھ اور لوگ حضرت لوط عليہ السلام پر ايمان لائے ہوں گے تو وہ حتما ًنزول عذاب سے پہلے اس گناہ آلود زمين سے ہجرت كرگئے ہوں گے ،تنہا حضرت لوط عليہ السلام اور ان كے اہل


(1)سورہ عنكبوت آيت32

(2)سورہ عنكبوت آيت32

(3)سورہ ذاريات آيت36

وعيال اس مقام پر اس توقع سے آخرى وقت تك ٹھہرے ہوں گے كہ ممكن ہے ان كى تبليغ اور ڈرانے كا لوگوں پر اثرہو_

يہاں تك كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام سے فرشتوں كى گفتگو ختم ہوگئي اور وہ حضرت لوط عليہ السلام كے علاقے كى طرف روانہ ہوگئے _

حضرت لوط عليہ السلام مہمانوں كو ديكھ كر پريشان ہوگئے

قرآن ميںارشاد ہوتاہے:

''جب ہمارے رسول،لوط(ع) كے پاس آئے تو وہ ان كے آنے پر بہت ہى ناراحت اور پريشان ہوئے ، ان كى فكر اورروح مضطرب ہوئي اور غم واندوہ نے انہيں گھيرليا _''(1)

اسلامى روايات اور تفاسير ميں آيا ہے كہ حضرت لوط اس وقت اپنے كھيت ميں كام كررہے تھے، اچانك انہوں نے خوبصورت نوجوانوں كو ديكھا جو ان كى طرف آرہے تھے وہ ان كے يہاں مہمان ہونا چاہتے تھے ،اب حضرت لوط(ع) مہمانوں كى پذيرائي بھى چاہتے تھے ليكن اس حقيقت كى طرف بھى ان كى توجہ تھى كہ ايسے شہر ميں جو انحراف جنسى كى آلود گى ميں غرق ہے_

ان خوبصورت نوجوانوں كا آنا طرح طرح كے مسائل كا موجب ہے اور ان كى آبروريزى كا بھى احتمال ہے، اس وجہ سے حضرت لوط سخت مشكل سے دوچار ہوگئے يہ مسائل ،روح فرسا افكار كى صورت ميں ان كے دماغ ميں ابھرے اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے آپ سے كہنا شروع كيا آج بہت سخت اورو حشتناك دن ہے _''(2)

بہرحال حضرت لوط عليہ السلام كے پاس اس كے علاوہ كوئي چارہ كار نہ تھا كہ وہ اپنے نووارد مہمانوں كو اپنے گھرلے جاتے، ليكن اس بناء پر كہ وہ غفلت ميں نہ رہيں راستے ميں چند مرتبہ ان كے گوش گزار كرديا


(1) سورہ ہودآيت 77

(2) سورہ ہودآيت 77

كہ اس شہر ميں شرير اور منحرف لوگ رہتے ہيں تاكہ اگر مہمان ان كا مقابلہ نہيں كرسكتے تو صورت حال كا اندازہ كرليں_

خداوند عالم نے فرشتوں كو حكم ديا تھا كہ جب تك يہ پيغمبر تين مرتبہ اس قوم كى برائي اور انحراف كى گواہى نہ دے انہيں عذاب نہ ديا جائے ( يعنى يہاں تك كہ ايك گنہگار قوم سے متعلق بھى حكم خدا عدالت كے ايك عادلانہ فيصلے كى روشنى ميں انجام پائے)اور ان رسولوں نے راستے ميں تين مرتبہ لوط عليہ السلام كى گواہى سن لى _

حضرت لوط عليہ السلام نے مہمانوں كو اتنى دير تك (كھيت ميں ) ٹھہرائے ركھا كہ رات ہوگئي تاكہ شايد اس طرح اس شرير اور آلودہ قوم كى آنكھ سے بچ كر حفظ آبرو كے ساتھ ان كى پذيرائي كر سكيں ليكن جب انسان كا دشمن خود اس كے گھر كے اندر موجود ہوتو پھر كيا كيا جاسكتا ہے حضرت لوط عليہ السلام كى بيوى كو جوايك بے ايمان عورت تھى اور اس گنہگار قوم كى مدد كرتى تھى جب اسے ان نوجوانوں اور خوبصورت مہمانوں كے آنے كى خبر ہوئي تو چھت پر چڑھ گئي پہلے اس نے تالى بجائي پھر آگ روشن كركے اس كے دھوئيں كے ذريعے اس نے منحرف قوم كے بعض لوگوں كو آگاہ كيا كہ لقمہ تر جال ميں پھنس چكا ہے _

قوم لوط(ع) آپ كے گھر ميں داخل ہوگئي

شہروالوں كو جب لوط عليہ السلام كے پاس آنے والے نئے مہمانوں كا پتہ چلاتو وہ ان كے گھر كى طرف چل پڑے، راستے ميں وہ ايك دوسرے كو خوشخبرى ديتے تھے_ گمراہى كى شرمناك وادى ميں بھٹكنے والے ان افراد كا خيال تھا كہ گويا نرمال ان كے ہاتھ آگيا ہے خوبصورت اور خوش رنگ نوجوان اور وہ بھى لوط كے گھر ميں _

قرآن ميںاس جگہ اہل مدينہ استعمال ہوا ہے اوريہ كى تعبير نشاندہى كرتى ہے كہ كم از كم شہر كے بہت سے لوگ ٹوليوں ميںحضرت لوط عليہ السلام كے گھر كى طرف چل پڑے ،اس سے يہ امر واضح ہوتا ہے كہ وہ كس حدتك بے شرم ، ذليل اور جسور تھے خصوصا لفظ ''يستبشرون ''(ايك دوسرے كو بشارت ديتے تھے )ان كى

آلودگى كى گہرائي كى حكايت كرتا ہے كيونكہ يہ ايك ايسا شرمناك عمل ہے كہ شايد كسى نے اس كى نظيرجانوروں ميں بھى بہت ہى كم ديكھى ہوگى اور يہ عمل اگر كوئي انجام ديتا بھى ہے تو كم از كم چھپ چھپا كراور احساس شرمندگى كے ساتھ ايسا كرتا ہے ليكن يہ بدكاراور كمينہ صفت قوم كھلم كھلا ايك دوسرے كو مباركباد ديتى تھي_

حضرت لوط عليہ السلام نے جب ان كا شوروغل سنا تو بہت گھبرائے اورمضطرب ہوئے انھيں اپنے مہمانوں كے بارے ميں بہت خوف ہوا كيونكہ ابھى تك وہ نہيں جانتے تھے كہ يہ مہمان مامورين عذاب ہيںاور قادر وقاہر خدا كے فرشتے ہيں لہذا وہ ان كے سامنے كھڑے ہوگئے اور كہنے لگے :يہ ميرے مہمان ہيں ، ميرى آبرونہ گنوائو_''(1)

يعنى اگر تم خدا ، پيغمبر اور جزاء وسزا كے مسئلہ سے صرف نظر كرلو تو بھى كم از كم يہ انسانى مسئلہ ہے اور يہ بات تو سب انسانوں ميں چاہے مومن ہوں يا كافر ، موجود ہے كہ وہ مہمانوں كا احترام كرتے ہيں تم كيسے انسان ہو كہ اتنى سى بات بھى نہيں مانتے ہو اگر تمہارا كوئي دين نہيں تو كم ازكم آزاد انسان تو بنو _اس كے بعد آپ نے مزيد كہا : آئو خدا سے ڈرو اور مجھے ميرے مہمانوں كے سامنے شرمسار نہ كرو_''(2)

ليكن ،وہ بہت جسوراورمنہ پھٹ تھے بجائے اس كے كہ و ہ شرمندہ ہوتے كہ انہوں نے اللہ كے پيغمبر حضرت لوط عليہ السلام سے كے سا مطالبہ كيا ہے الٹا اس طرح سے پيش آئے جيسے لوط عليہ السلام سے كوئي جرم سرزد ہوا ہے انھوں نے زبان اعتراض دراز كى اور كہنے لگے : '' كيا ہم نے تجھ سے نہ كہا تھا كہ دنيا والوں كو اپنے يہاں مہمان نہ ٹھہرانا اور كسى كو اپنے يہاں نہ آئے دينا _''(3)

تم نے اس كى خلاف ورزى كيوں كى اور ہمارے كہنے پر عمل كيوں نہ كيا _

يہ اس بناء پر تھا كہ يہ قوم انتہائي كم ظرف اور كنجوس تھى يہ لوگ ہرگز كسى كو اپنے يہاں مہمان نہيں ٹھہراتے تھے اور اتفاق سے ان كے شہرقافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے كہتے ہيں كہ انھوں نے يہ كام بعض


(1)سورہ حجر آيت 68

(2)سورہ حجرآيت 69

(3)سورہ حجر آيت 70

آنے والوں كے ساتھ اس لئے كيا كوئي ان كے يہاں ٹھہرے نہ ،آہستہ آہستہ ان كى عادت بن گئي لہذا جب حضرت لوط عليہ السلام كو شہر ميںكسى مسافر كے آنے كى خبر ہوتى تو اسے اپنے گھر ميں دعوت ديتے تاكہ وہ كہيں ان كے چنگل ميں نہ پھنس جائے ان لوگوں كو جب اس كا پتہ چلاتو بہت سيخ پاہوئے اور حضرت لوط عليہ السلام سے كھل كر كہنے لگے كہ تمھيں كوئي حق نہيں پہنچتا كہ اب تم كسى مہمان كو اپنے گھرلے جائو _

اے كاش ميں تم سے مقابلہ كرسكتا

بہر حال جب حضرت لوط عليہ السلام نے ان كى يہ جسارت اور كمينہ پن ديكھى تو انھوں نے ايك طريقہ اختيار كيا تاكہ انھيں خواب غفلت اور انحراف وبے حيائي كى مستى سے بيدار كرسكيں _ آپ نے كہا : تم كيوں انحراف كے راستے پر چلتے ہو اگر تمہارا مقصد جنسى تقاضوں كو پورا كرنا ہے تو جائز اور صحيح طريقے سے شادى كركے انھيں پورا كيوں نہيں كرتے ، ،يہ ميرى بيٹياں ہيں (تيار ہوں كہ انھيں تمہارى زوجيت ميں دے دوں ) اگر تم صحيح كام انجام دينا چاہتے ہو تو اس كا راستہ يہ ہے _''(1)

اس ميں شك نہيں كہ حضرت لوط عليہ السلام كى تو چند بيٹياں تھيں اور ان افراد كى تعداد زيادہ تھى ليكن مقصديہ تھا كہ ان پر اتمام حجت كيا جائے اور كہا جائے كہ ميں اپنے مہمانوں كے احترام اور حفاظت اور تمہيں برائي كى دلدل سے نكالنے كے لئے اس حد تك ايثار كے لئے تيار ہوں_يہ بات واضح ہے كہ جناب لوط يونہى اپنى لڑكيوں كا عقد ان مشركوں اور گمراہوں سے نہيں كرنا چاہتے تھے بلكہ مقصد يہ تھا كہ پہلے ايمان لے او تاكہ بعد ميں اپنے لڑكيوں كى شادى تم سے كردوں_

ليكن افسوس شہوت، انحراف اور ہٹ دھرمى كے اس عالم ميں ان ميں ذرہ بھر بھى انسانى اخلاق اور جذبہ باقى ہوتا تو كم از كم اس امر كے لئے كافى تھا كہ وہ شرمندہ ہوتے اور پلٹ جاتے، مگرنہ صرف يہ كہ وہ شرمندہ نہ ہوئے بلكہ اپنى جسارت ميں اور بڑھ گئے اور چاہا كہ حضرت لوط كے مہمانوں كى طر ف ہاتھ بڑھائيں _


(1)سورہ حجر آيت 71

وہ قوم حرص اور شوق كے عالم ميں اپنے مقصد تك پہنچنے كے لئے بڑى تيزى سے لوط كى طرف آئي_

مگر اس تباہ كار قوم نے نبى خدا حضرت لوط(ع) كو بڑى بے شرمى سے جواب ديا :

''تو خود اچھى طرح سے جانتا ہے كہ ہماراتيرى بيٹيوں ميں كوئي حق نہيں، اور يقينا تو جانتا ہے كہ ہم كيا چاہتے ہيں _''(1)

يہ وہ مقام تھا كہ اس بزر گوار پيغمبر نے اپنے آپ كو ايك محاصرے ميں گھراہوا پايا اور انہوں نے ناراحتى وپريشانى كے عالم ميں فرياد كى :اے كاش : مجھ ميں اتنى طاقت ہوتى كہ ميں اپنے مہمانوں كا دفاع كر سكتا اورتم جيسے سر پھروں كى سركوبى كرسكتا ''_(2)

يا كوئي مستحكم سہارا ہوتا ، كوئي قوم و قبيلہ ميرے پيروكارںميں سے ہوتا اور ميرے كوئي طاقتور ہم پيمان ہوتے كہ جن كى مدد سے تم منحرف لوگوں كا مقابلہ كرتا_ (3)

اے لوط(ع) آپ پريشان نہ ہويئے

آخر كار پروردگار كے رسولوں نے حضرت لوط كى شديد پريشانى ديكھى اور ديكھا كہ وہ روحانى طور پر كس اضطراب كا شكار ہيں تو انہوں نے اپنے اسرار كار سے پردہ اٹھايا اور ان سے كہا :'' اے لوط(ع) : ہم تيرے پروردگار كے بھيجے ہوئے ہيں ، پريشان نہ ہومطم ن رہو كہ وہ ہرگز تجھ پر دسترس حاصل نہيں كرسكيں گے''_(4)

قران ميں دوسرى جگہ پر ہے :(5)

يہ آيت نشاندہى كرتى ہے كہ اس وقت حملہ آورقوم پروردگار كے ارادے سے اپنى بينائي كھوبيٹھى تھي


(1)سورہ ہودآيت 79

(2)سورہ ہود آيت 80

(3)سورہ ہود آيت80

(4)سورہ ہود آيت 81

(5)وہ لوط

عليہ السلام كے مہمانوں كے بارے ميں تجاوز كا ارادہ ركھتے تھے ليكن ہم نے ان كى آنكھيںاندھى كرديں_

اور حملے كى طاقت نہيں ركھتى تھى بعض روايات ميں بھى ہے كہ ايك فرشتے نے مٹھى بھر خاك ان كے چہروں پر پھينكى جس سے وہ نابينا ہوگئے _

بہرحال جب لوط اپنے مہمانوں كے بارے ميں ان كى ماموريت كے بارے ميں آگاہ ہوئے تو يہ بات اس عظيم پيغمبر كے جلتے ہوئے دل كے لئے ٹھنڈك كى مانند تھي، ايك دم انہوں نے محسوس كيا كہ ان كے دل سے غم كا بار گراں ختم ہوگيا ہے اور ان كى آنكھيں خوشى سے چمك اٹھيں، ايسا ہوا جيسے ايك شديد بيمارى كى نظر مسيحاپر جاپڑے، انہوں نے سكھ كا سانس ليا اور سمجھ گئے كہ غم واندوہ كا زمانہ ختم ہورہاہے اور اس بے شرم حيوان صفت قوم كے چنگل سے نجات پانے كا اور خوشى كا وقت آپہنچا ہے _

مہمانوں نے فوراً لوط عليہ السلام كو حكم ديا : تم تاريكى شب ميں اپنے خاندان كو اپنے ساتھ لے لو اور اس سرزمين سے نكل جائو ليكن يہ پابندى ہے كہ '' تم ميں سے كوئي شخص پس پشت نہ ديكھے_ '' (1)

اس حكم كى خلاف ورزى فقط تمہارى معصيت كار بيوى كرے گى كہ جو تمہارى گنہگار قوم كو پہنچنے والى مصيبت ميں گرفتار ہوگى _''(2)


(1)''ولا يلتفت منكم احد''_ كى تفسير ميں مفسيرين نے چند احتمال ذكر كيے ہيں :

پہلا يہ كوئي شخص اپنى پس پشت نہ ديكھے _

دوسرا يہ كہ شہر ميں سے مال اور وسائل لے جانے كى فكر نہ كرے بلكہ صرف اپنے آپ كو اس ہلاكت سے نكال لے جائے _

تيسرايہ كہ اس خاندان كے اس چھوٹے سے قافلہ ميں سے كوئي شخص پيچھے نہ رہ جائے_

چوتھا يہ كہ تمہارے نكلنے كے وقت زمين ہلنے لگے كى اور عذاب كے آثار نماياں ہوجائيں گے لہذا اپنے پس پشت نگاہ نہ كرنا اور جلدى سے دور نكل جانا_

البتہ كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ سب احتمالات اس آيت كے مفہوم ميں جمع ہوں

(2)سورہ ہود آيت 81

كيا صبح قريب نہيں ہے؟

بالآخر انھوں نے لوط سے آخرى بات كہي: ''نزول عذا ب كا لمحہ اور وعدہ كى تكميل كا موقع صبح ہے اور صبح كى پہلى شعاع كے ساتھ ہى اس قوم كى زندگى غروب ہوجائے گى _''(1)

ابھى اٹھ كھڑے ہو اور جتنا جلدى ممكن ہو شہر سے نكل جائو''كيا صبح نزديك نہيں ہے _''(2)

بعض روايات ميں ہے كہ جب ملائكہ نے كہا كہ عذاب كے وعدہ پر عمل درآمدصبح كے وقت ہوگا توحضرت لوط عليہ السلام كو جو اس آلودہ قوم سے سخت ناراحت اور پريشان تھے، وہى قوم كہ جس نے اپنے شرمناك اعمال سے ان كا دل مجروح كرركھا تھا اور ان كى روح كو غم واندوہ سے بھرديا تھا، فرشتوں سے خواہش كى كہ اب جب كہ ان كو نابودہى ہونا ہے تو كيا ہى اچھا ہو كہ جلدى ايسا ہو ليكن انہوں نے حضرت لوط كى دلجوئي اور تسلى كے لئے كہا : كياصبح نزديك نہيں ہے ؟

آخركار عذاب كا لمحہ آن پہنچا اور لوط پيغمبر عليہ السلام كے انتظاركے لمحے ختم ہوئے ، جيسا كہ قرآن كہتا ہے :

''جس وقت ہمارا فرمان آن پہنچا تو ہم نے اس زمين كو زيروزبر كرديا اور ان كے سروں پر مٹيلے پتھروں كى پيہم بارش برسائي _''(3)

پتھروں كى يہ بارش اس قدر تيز اور پے درپے تھى كہ گويا پتھرايك دوسرے پر سوار تھے _ليكن يہ معمولى پتھرنہ تھے بلكہ تيرے پروردگار كے يہاں معين اور مخصوص تھے ''مسومة عند ربك ''_ البتہ يہ تصور نہ كريں كہ يہ پتھر قوم لوط كے ساتھ ہى مخصوص تھے بلكہ'' يہ كسى ظالم قوم اور جمعيت سے دور نہيں ہيں_ '' (4)

اس بے راہ روااور منحرف قوم نے اپنے اوپر بھى ظلم كيا اور اپنے معاشرے پر بھى وہ اپنى قوم كى تقدير


(1)سورہ ہود آيت 81

(2)سورہ ہود آيت 81

(3)سورہ ہود آيت 82

(4)سورہ ہود آيت 83

سے بھى كھيلے اور انسانى ايمان واخلاق كا بھى مذاق اڑايا ،جب ان كے ہمدرد رہبر نے داد وفرياد كى تو انہوں نے كان نہ دھرے اور تمسخركيا اعلى ڈھٹائي ، بے شرمى اور بے حيائي يہاں تك آپہنچى كہ وہ اپنے رہبر كے مہمانوں كى حرمت وعزت پر تجاوز كے لئے بھى اٹھ كھڑے ہوئے _

يہ وہ لوگ تھے كہ جنہوں نے ہر چيز كو الٹ كر ركھ ديا ان كے شہروں كو بھى الٹ جانا چاہئے تھا فقط يہى نہيں كہ ان كے شہرتباہ وبرباد ہوجاتے بلكہ ان پر پتھروں كى بارش بھى ہونا چاہئے تھى تاكہ ان كے آخرى آثار حيات بھى درہم وبرہم ہوجائيں اور وہ ان پتھروں ميں دفن ہوجائيں اس سے كہ ان كا نام ونشان اس سرزمين ميں نظر نہ آئے، صرف وحشت ناك ، تباہ وبرباد بيابان ، خاموش قبرستان اور پتھروں ميں دبے ہو ئے مردوں كے علاوہ ان ميں كچھ باقى نہ رہے _

كيا صرف قوم لوط(ع) كو يہ سزا ملنى چاہئے نہيں ، يقينا ہر گز نہيں بلكہ ہر منحرف گروہ اور ستم پيشہ قوم كے لئے ايسا ہى انجام انتظار ميں ہے كبھى سنگريزوں كى بارش كے نيچے ، كبھى آگ اگلتے بموں كے نيچے اور كبھى معاشرے كے لئے تباہ كن اختلافات كے تحت خلاصہ يہ كہ ہر ستمگر كو كسى نہ كسى صورت ميں ايسے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا _

صبح كے وقت نزول عذاب كيوں؟

يہاں پر ذہن ميں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ نزول عذاب كےلئے صبح كا وقت كيوں منتخب كيا گيا رات كے وقت ہى عذاب كيوں نازل نہيں ہوا ؟

ايسا اس لئے تھا كہ جب حضرت لوط(ع) كے گھر پر چڑھ آنے والے افراد اندھے ہوگئے اور قوم كے پاس لوٹ كر گئے اور واقعہ بيان كيا تو وہ كچھ غور وفكر كرنے لگے، معاملہ كيا ہے خدانے صبح تك انہيں مہلت دى كہ شايد بيدار ہوجائيں اور اس كى بارگاہ كى طرف رجوع كريں اور توبہ كريں يا يہ كہ خدا نہيں چاہتا تھا كہ رات كى تاريكى ميں ان پر شب خون مارا جائے اسى بناء پر حكم ديا كہ صبح تك مامور عذاب سے ہاتھ روكے ركھيں_تفاسير ميں اس كے بارے ميں تقريباً كچھ نہيںلكھا گيا ليكن جو كچھ ہم نے اوپر ذكر كيا ہے وہ اس سلسلے

ميں پند قابل مطالعہ احتمالات ہيں_

زيرو زبركيوں كيا گيا

ہم كہہ چكے ہيں كہ چكے ہيں كہ عذاب كى گناہ سے كچھ نہ كچھ مناسبت ہونا چاہئے، اس قوم نے انحراف جنسى كے ذريعہ چونكہ ہر چيز كوالٹ پلٹ كرديا تھا لہذا خدا نے بھى ان شہروں كو زيرو زبر كرديا اور چونكہ روايات كے مطابق ان كے منہ سے ہميشہ ركيك اور گندى گندگى كى بارش ہوتى تھى لہذا خدانے بھى ان پر پتھروں كى بارش برسائي _

جس نكتے كا ہم آخر ميں ذكر ضرورى سمجھتے ہيں وہ يہ ہے كہ جنسى انحراف كى طرف افراد كے ميلان كے بہت سے علل واسباب ہيں يہاں تك كہ بعض اوقات ماں باپ كا اپنى اولاد سے سلوك يا ہم جنس اولاد كى نگرانى نہ كرنا ، ان كے طرز معاشرت اور ايك ہى جگہ پر سونا وغيرہ بھى ہوسكتا ہے اس آلودگى كا ايك عامل بن جائے _

بعض اوقات ممكن ہے كہ اس انحراف سے ايك اور اخلاقى انحراف جنم لے لے، يہ امر قابل توجہ ہے كہ قوم لوط كے حالات ميں ہے كہ ان كے اس گناہ ميں آلودہ ہونے كا ايك سبب يہ تھا كہ وہ بخيل اور كنجوس لوگ تھے اور چونكہ ان كے شہر شام جانے والے قافلوں كے راستے ميں پڑتے تھے اور وہ نہيں چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كى پذيرائي كريں لہذا ابتداء ميں وہ اس طرح ظاہر كرتے تھے كہ وہ چاہتے تھے كہ مہمانوں اور مسافروں كو اپنے سے دور بھگائيں ليكن تدريجاًيہ عمل ان كى عادت بن گيا اور انحراف جنسى كے ميلانات آہستہ آہستہ ان كے وجود ميں بيدار ہوگئے اور معاملہ يہاں تك جاپہنچا كہ وہ سرسے لے كر پائوںتك اس ميں آلودہ ہوگئے _(1)


(1) يہاں تك كے فضول قسم كا مذاق جو كبھى كبھى لڑكوں كے درميان اپنے ہم جنسوں كے بارے ميں ہوتا ہے بعض اوقات ان انحرافات كى طرف كھينچ لے جانے كا سبب بن جاتاہے _

قوم لوط(ع) كا اخلاق

اسلامى روايات وتواريخ ميں جنسى انحراف كے ساتھ ساتھ قوم لوط(ع) كے برے اور شرمناك اعمال اور گھٹيا كردار بھى بيان ہواہے _

كہا گيا ہے كہ ان كى مجالس اور بيٹھكيں طرح طرح كے منكرات اور برے اعمال سے آلودہ تھيں وہ آپس ميں ركيك جملوں، فحش كلامى اور پھبتيوں كا تبادلہ كرتے تھے ايك دوسرے كى پشت پر مكے مارتے تھے قمار بازى كرتے تھے بچوں والے كھيل كھيلتے تھے گزرنے والوں كو كنكرياں مارتے تھے طرح طرح كے آلات موسيقى استعمال كرتے تھے او رلوگوں كے سامنے برہنہ ہو جاتے تھے اور اپنى شرمگاہوں كو ننگاكرديتے تھے _

واضح ہے كہ اس قسم كے گندے ماحول ميں ہر روز انحراف اور بدى نئي شكل ميں رونما ہوتى ہے اور وسيع سے وسيع تر ہوتى چلى جاتى ہے ايسے ماحول ميں اصولى طور پر برائي كا تصور ختم ہوجاتاہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہيں كہ كوئي كام ان كى نظر ميں برا اور قبيح نہيں رہتا ان سے زيادہ بد بخت وہ قوميں ہيں جو علم كى پيش رفت كے زمانے ميں انہى راہوں پر گا مزن ہيں ،بعض اوقات تو ان كے اعمال اس قدر شرمناك اور رسوا كن ہوتے ہيں كہ قوم لوط كے اعمال بھول جاتے ہيں _

حضرت لوط (ع) كى بيوى كافروں كے لئے مثال

قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے ''خدا نے كافروں كے لئے ايك مثال بيان كى ہے'' نوح عليہ السلام كى بيوى كى مثال اور لوط عليہ السلام كى بيوى كى مثال ''وہ دونوں ہمارے دوصالح بندوں كے ما تحت تھيں ليكن انہوں نے ان سے خيانت كي، ليكن ان دو عظيم پيغمبر وں سے ان كے ارتباط نے عذاب الہى كے مقابلہ ميں انھيں كوئي نفع نہيں ديا اور ان سے كہا گيا كہ تم بھى آگ ميں داخل ہونے والے لوگوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجائو_ '' (1)


(1) سورہ تحريم آيت 10

حضرت نوح كى بيوى كا نام ''والھہ'' اور حضرت لوط كى بيوى كا نام ''والعة''تھا 1 اور بعض نے اس كے برعكس لكھا ہے يعنى نوح كى بيوى كانام''والعة'' اورلوط كى بيوى كا نام ''والھہ'' يا ''واہلہ'' كہا ہے_

بہرحال ان دونوں عورتوں نے ان دونوں عظيم پيغمبروں كے ساتھ خيانت كى ،البتہ ان كى خيانت جائدہ عفت سے انحراف ہرگزنہيں تھا كيونكہ كسى پيغمبر كى بيوى ہرگز بے عفتى سے آلودہ نہيں ہوتى جيسا كہ پيغمبر اسلام سے ايك حديث ميں صراحت كے ساتھ بيان ہواہے :

''كسى بھى پيغمبر كى بيوى ہرگز منافى عفت عمل سے آلودہ نہيںہوئي''_

حضرت لوط كى بيوى كى خيانت يہ تھى كہ وہ اس پيغمبر كے دشمنوں كے ساتھ تعاون كرتى تھى اور ان كے گھر كے راز انھيں بتاتى تھى اور حضرت نوح (ع) كى بيوى بھى ايسى ہى تھى _

* * * * *