حضرت ابراہيم عليہ السلام كا نام قرآن مجيد ميں 69/مقامات پر آياہے اور 65/سورتوں ميں ان كے متعلق گفتگو ہوئي ہے، قرآن كريم ميں اس عظيم پيغمبر كى بہت مدح و ثناء كى گئي ہے_ اور ان كے بلند صفات كا تذكرہ كيا گيا ہے،ان كى ذات ہر لحاظ سے راہنما اور اسوہ ہے اور وہ ايك كامل انسان كا نمونہ تھے_
خدا كے بارے ميں ان كى معرفت ،بت پرستوں كے بارے ميں ان كى منطق،جابر و قاہر بادشاہوں كے سامنے ان كا انتھك جہاد،حكم خدا كے سامنے ان كا ايثار اور قربانياں،طوفان،حوادث اور سخت آزمائشےوں ميں ان كى بے نظير استقامت،صبر اور حوصلے اور ان جيسے ديگر امور،ان ميں سے ہر ايك مفصل داستان ہے اور ان ميں مسلمانوں كے لئے نمونہ عمل ہے_قرآنى ارشادات كے مطابق وہ ايك نيك اور صالح،(1)فروتنى كرنے والے، ( 2) صديق، (3)بردبار،(4)اور ايفائے عہد كرنے والے تھے_(5)وہ ايك بے مثال شجاع اور بہادر تھے_ نيزبہت زيادہ سخى تھے _
(1)سورہ ص آيت44
(2)سورہ نحل آيت122
(3)سورہ نحل آيت120
(4)سورہ مريم آيت41
(5)سورہ توبہ آيت 114
حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے تين دور ميں بيان كيا جاسكتا ہے:
1_قبل بعثت كا دور_
2_دور نبوت اور بابل كے بت پرستوں سے مقابلہ_
3_بابل سے ہجرت اور مصر،فلسطين اور مكہ ميں سعى و كوشش كا دور_
حضرت ابراہيم عليہ السلام كى جائے پيدائشے
حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں پيدا ہوئے_ يہ دنيا كا حيرت انگيز اور عمدہ خطہ تھا_ اس پر ايك ظالم و جابر اور طاقتور حكومت مسلط تھي_(1)
حضرت ابراہيم عليہ السلام نے آنكھ كھولى تو بابل پر نمرود جيسا جابر و ظالم بادشاہ حكمراں تھا_وہ اپنے آپ كو بابل كا بڑاخدا سمجھتا تھا_البتہ بابل كے لوگوں كے لئے يہى ايك بت نہ تھا بلكہ اس كے ساتھ ساتھ ان كے يہاں مختلف مواد كے بنے ہوئے مختلف شكلوں كے كئي ايك بت تھے_ وہ ان كے سامنے جھكتے اور ان كے عبادت كياكرتے تھے_
حكومت وقت سادہ لوح افراد كو بيوقوف بنانے اور انہيں افيون زدہ ركھنے كے لئے بت پرستى كو ايك مو ثرذريعہ سمجھتى تھى لہذا وہ بت پرستى كى سخت حامى تھي_ وہ كسى بھى بت كى اہانت كو بہت بڑا نا قابل معافى جرم قرار ديتى تھي_
حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ولادت كے سلسلے ميں مو رخين نے عجيب و غريب داستان نقل كى ہے جس كا خلاصہ يوںپيش كيا جاتا ہے:
بابل كے نجوميوں نے پيشن گوئي كى تھى كہ ايك ايسا بچہ پيدا ہوگا جو نمرود كى غير متنازعہ طاقت سے مقابلہ كرے گا_ لہذا اس نے اپنى تمام قوتيں اس بات پر صرف كرديں كہ وہ بچہ پيدا نہ ہو_ اس كى كوشش تھى كہ ايسا بچہ پيدا ہو بھى جائے تو اسے قتل كرديا جائے_ ليكن اس كى كوئي تدبير كار گر نہ ہوئي اور يہ بچہ آخر كار پيدا ہوگيااس بچے كى جائے ولادت كے قريب ہى ايك غار تھى _ اس كى ماں اس كى حفاظت كے لئے اسے اس ميں لے گئي اور اسكى پرورش ہونے لگي_ يہاں تك كہ اس كى عمر كے تيرہ برس وہيں گزر گئے_
اب بچہ نمرود كے جاسوسوں سے بچ بچ كر نوجوانى ميں قدم ركھ چكا تھا_ اس نے ارادہ كيا كہ اس عالم تنہائي كو چھوڑديا جائے اور لوگوں تك وہ درس توحيد پہنچائے جو اس نے باطنى الہام اور فكرى مطالعے سے حاصل كيا تھا_
حضرت ابراہيم عليہ السلام كب مبعوث نبوت ہوئے، اس سلسلے ميں ہمارے پاس كوئي واضح دليل موجود نہيں ہے_ البتہ سورہ مريم سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے كہ جب آپ(ع) نے اپنے چچا آزر سے بحث چھيڑى تو آپ (ع) مقام نبوت پر فائز ہوچكے تھے_ آيت كہتى ہے كہ :''اس كتاب ميں ابراہيم عليہ السلام كو ياد كرو،وہ خداكا بہت ہى سچا نبى تھا_جب اس نے اپنے باپ(چچا) سے كہا:''اے بابا تو ايسى چيز كى كيوں عبادت كرتا ہے كہ جو نہ سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور تيرى كوئي مشكل بھى حل نہيں كرتي''_(1)
ہم جانتے ہيں كہ يہ واقعہ بت پرستوں كے ساتھ شديد معركہ آرائي اور آپ كو آگ ميں ڈالے جانے سے پہلے كا ہے_ بعض م ورخين نے لكھا ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے كے وقت حضرت ابراہيم عليہ السلام كى عمر 16/سال تھي_ ہم اس كے ساتھ يہ اضافہ كرتے ہيں كہ يہ عظيم كار رسالت آغاز نوجوانى ميں آپ(ع) كے دوش پر آن پڑا تھا_
(1)سورہ مريم آيت 41/42
قرآن مجيد ميں خدا كى شكر گزارى ايك كامل مصداق يعنى مكتب توحيد كے مجاہد اور علمبردار حضرت ابراہيم عليہ السلام كا ذكر ہے ان كا ذكر اس لحاظ سے بھى خصوصيت كاحامل ہے كہ مسلمان با لعموم اور عرب بالخصوص حضرت ابراہيم كو اپنا پہلاپيشوا اور مقتداء سمجھتے ہيں _
اس عظيم اور بہادر انسان كى صفات ميں سے يہاںصرف پانچ صفات كى طرف اشارہ كيا گيا ہے :
پہلے فرمايا گيا ہے :'' ابراہيم اپنى ذات ميں ايك امت تھے''_(1)
اس سلسلے ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كو''امت '' كيوں قرار ديا گيا ، مفسرين نے مختلف نكات بيان كيے ہيں ان ميں سے چارقابل ملاحظہ ہيں :
1_ابراہيم عليہ السلام انسانيت كے عظيم رہبر، مقتداء اور معلم تھے اسى بناء پر انھيں امت كہا گيا ہے كيونكہ '' امت '' اسم مفعول كے معنى ميں اسے كہا جاتاہے جس كى لوگ اقتداء كريں اور جس كى رہبرى لوگ قبول كريں _
2_ ابراہيم عليہ السلام ايسى شخصيت كے مالك تھے كہ اپنى ذات ميں ايك امت تھے _كيونكہ بعض اوقات كسى انسان كى شخصيت كا نور اتنى وسيع شعاعوں كا حامل ہوتا ہے كہ اس كى حيثيت ايك دويا بہت سے افراد سے زيادہ ہوجاتى ہے اور اس كى شخصيت ايك عظيم امت كے برابر ہوجاتى ہے _
ان دونوں معانى ميں ايك خاص روحانى تعلق ہے كيونكہ جو شخص كسى ملت كاسچا پيشوا ہوتا ہے وہ ان سب كے اعمال ميں شريك اور حصہ دار ہوتا ہے اور گويا وہ خود امت ہوتا ہے _
3_ وہ ماحول كہ جس ميں كوئي خدا پرست نہ تھا اور جس ميں سب لوگ شرك وبت پرستى كے جوہڑميں غوطہ زن تھے _اس ميں ابراہيم عليہ السلام تن تنہاموحد اور توحيد پرست تھے پس آپ تنہا ايك امت
(1)سورہ نمل آيت120
تھے اور اس دور كے مشركين ايك الگ امت تھے _
4_ ابراہيم عليہ السلام ايك امت كے وجودكا سرچشمہ تھے اسى لئے آپ كو ''امت '' كہا گيا ہے _ اس ميں كوئي اشكال نہيں كہ يہ چھوٹا سالفظ اپنے دامن ميں يہ تمام وسيع معانى لئے ہوئے ہو _
جى ہاں، ابراہيم ايك امت تھے_
__وہ ايك عظيم پيشوا تھے _
__وہ ايك امت سازجوانمرد تھے _
__جس ماحول ميں كوئي توحيد كا دم بھر نے والا نہ تھا وہ توحيدكے عظيم علمبردار تھے_
2_ ان كى دوسرى صفت يہ تھى كہ'' وہ اللہ كے مطيع بندے تھے ''_(1)
3_ ''وہ ہميشہ اللہ كے سيدھے راستے اور طريق حق پر چلتے تھے''_(2)
4_'' وہ كبھى بھى مشركين ميں سے نہ تھے ''_(3)
ان كے فكر كے ہر پہلو ميں ، ان كے دل كے ہر گوشے ميں اور ان كى زندگى كے ہر طرف اللہ ہى كانور جلوہ گرتھا _
5_ان تمام خصوصيات كے علاوہ ''وہ ايسے جواں مرد تھے كہ اللہ كى سب نعمتوں پر شكر گزار تھے''_(4)
ان پانچ صفات كو بيان كرنے كے بعد ان كے اہم نتائج بيان كيے گئے ہيں :
1_'' اللہ نے ابراہيم كو نبوت اور دعوت كى تبلغ كے لئے منتخب كيا ''_(5)
2_'' اللہ نے انھيں راہ است كى ہدايت كي''_(6)
(1)سورہ نمل آيت 120
(2)سورہ نمل آيت 120
(3)سورہ نمل آيت120
(4)سورہ نمل آيت 121
(5)سورہ نمل آيت 121
(6) سورہ آيت 121
اور انھيں ہر قسم كى لغزش اور انحراف سے بچايا _
ہم نے بارہا كہا ہے كہ خدائي ہدايت ہميشہ لياقت واہليت كى بنياد پر ہوتى ہے كہ جس كا مظاہرہ خود انسان كى طرف سے ہوتا ہے اس كى طرف سے كسى كو كوئي چيز استعداد اور كسى حساب كتاب كے بغيرنہيں دى جاتى حضرت ابراہيم كو بھى اسى بنياد پر يہ ہدايت نصيب ہوئي _
3_ ''ہم نے دنيا ميں انھيں ''حسنہ'' سے نوازا ''_ وسيع معنى كے اعتبار سے ''حسنہ '' ميں ہر قسم كى نيكى اور اچھائي كا مفہوم موجود ہے اس ميں مقام نبوت رسالت سے لے كر اچھى اولادوغيرہ تك كا مفہوم موجود ہے_
4_ اور آخرت ميں وہ صالحين ميں سے ہوں گے ''_(1)
5_ ان صفات كے ساتھ ساتھ اللہ نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ايك ايساا متياز عطا فرمايا ہے كہ ان كا مكتب و مذہب صرف ان كے اہل زمانہ كے لئے نہ تھا بلكہ ہميشہ كے لئے تھا خاص طور پر اسلامى امت كے لئے بھى يہ ايك الہام بخش مكتب قرارپايا ہے _جيساكہ قرآن كہتا ہے :''پھر ہم نے تجھے وحى كى دين ابراہيم كى اتباع كركہ جو خالص توحيد كا دين ہے '' _(2)
قرآن مجيد بہت سے موارد ميں اپنى تعليمات كى تكميل كے لئے ايسے نمونے جو جہان انسانيت ميں موجود ہيں،گواہ كے طور پر پيش كرتا ہے_ اس لئے قرآن ميں بھى دشمنان خدا سے دوستى كرنے سے سختى كے ساتھ منع كرنے كے بعد،ابراہيم عليہ السلام اور ان كے طريقہ كارميں ايك ايسے عظيم پيشوا كے عنوان سے جو تمام اقوام كے لئے اور خاص طور پر قوم عرب كے لئے احترام كى نظروں سے ديكھے جاتے تھے،گفتگو كرتے ہوئے فرماتا ہے:''تمھارے لئے ابراہيم عليہ السلام اور ان كے ساتھيوں كى زندگى ميں بہترين نمونہ ہے_''(3)
(1) سورہ نمل آيت122
(2) سورہ نمل آيت 4
(3)سورہ ممتحنہ آيت 4
ابراہيم عليہ السلام پيغمبروں كے بزرگ تھے_ ان كى زندگى سرتا سر خدا كى عبوديت،جہاد فى سبيل اللہ اور اس كى پاك ذات كے عشق كے لئے ايك سبق تھي_وہ ابراہيم عليہ السلام كہ امت اسلامى ان كى بابركت دعا كا نتيجہ ہے اور ان كے ركھے ہوئے نام پر فخر كرتى ہے;وہ تمہارے لئے اس سلسلہ ميں ايك اچھا نمونہ بن سكتے ہيں_
''والذين معہ''(جو لوگ ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ تھے)كى تعبير سے مراد وہ مو منين ہيں جو اس راہ ميں ان كے پيرو اور ساتھى رہے_اگر چہ وہ قليل تعداد ميں تھے_ باقى رہا يہ احتمال كہ اس سے مراد وہ پيغمبر ہيں جو آپ كے ساتھ ہم آواز تھے يا ان كے زمانے كے پيغمبر،جيسا كہ بعض نے احتمال ديا ہے_تا ہم يہ بہت بعيد نظر آتا ہے_خصوصاًجبكہ مناسب يہ ہے كہ قرآن يہاں پيغمبر اسلام(ص) كو ابراہيم عليہ السلام كے ساتھ اور مسلمانوں كو ان كے اصحاب اور انصار سے تشبيہ دے_
يہ تواريخ ميں بھى آيا ہے كہ بابل ميں ايك گروہ ايسا تھا،جو ابراہيم عليہ السلام كے معجزات ديكھنے كے بعدا ن پر ايمان لے آيا تھااور شام كى طرف ہجرت ميں وہ آپ كے ساتھ تھا،اس سے پتہ چلتا ہے كہ ابراہيم عليہ السلام كے كچھ وفادار ياروانصار بھى تھے_
قرآن كريم ميں بعض ان نعمات ميں سے ايك كى طرف اشارہ ہوا ہے كہ جو خدا وند تعالى نے حضرت ابراہيم كو عطا كى تھيں ، اور وہ نعمت ہے صالح اور آبرومند اور لائق نسل جو نعمات الہى ميں سے ايك عظيم ترين نعمت ہے _
پہلے ارشاد ہوتا ہے : ''ہم نے ابراہيم (ع) كو اسحاق اور يعقوب (فرزند اسحاق ) عطاكئے''_(1)
اور اگر يہاں ابراہيم كے دوسرے فرزند اسماعيل كى طرف اشارہ نہيں ہوا بلكہ بحث كے دوران كہيں
(1)سورہ انعام آيت 84
ذكر آيا ہے شايد اس كا سبب يہ ہے كہ اسحاق كا سارہ جيسى بانجھ ماں سے پيدا ہونا ، وہ بھى بڑھا پے كى عمر ميں ، بہت عجيب وغريب امراور ايك نعمت غيرمترقبہ تھى _
اس كے بعد يہ بتانے كے لئے كہ كہيں يہ تصور نہ ہو كہ ابراہيم سے قبل كے دور ميں كوئي علم بردار توحيد نہيں تھا اور يہ كام بس انہى كے زمانے سے شروع ہوا ہے مزيد كہتاہے :''اس سے پہلے ہم نے نوح كى بھى ہدايت ورہبرى كى تھى ''_(1)
اور ہم جانتے ہيں كہ نوح پہلے اولوالعزم پيغمبر ہيں جو آئين وشريعت كے حامل تھے اور وہ پيغمبران اولوالعزم كے سلسلے كى پہلى كڑى تھے_
حقيقت ميں حضرت نوح(ع) كى حيثيت اور ان كے مقام كى طرف اشارہ كركے كہ جو حضرت ابراہيم (ع) كے اجدادميں سے ہيں ، اور اسى طرح پيغمبروں كے اس گروہ كے مقام كا تذكرہ كركے كہ جو ابراہيم عليہ السلام كى اولاد اور ذريت ميں سے تھے،حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ممتاز حيثيت كو وراثت، اصل اور ثمرہ كے حوالے سے مشخص كيا گيا ہے _
اوراس كے بعد بہت سے انبياء كے نام گنوائے ہيں جو ذريت ابراہيم (ع) ميں سے تھے پہلے ارشاد ہوتاہے : ''ابراہيم (ع) كى ذريت ميں سے دائود، سليمان ، ايوب ،يوسف ،موسى اور ہارون تھے''_(2)
اس كے بعد:''زكر(ع) يا ،يحى (ع) ،عيسى (ع) اور الياس (ع) كانام ليا گيا ہے اور مزيد كہاگيا ہے كہ يہ سب صالحين ميں سے تھے _''(3)
اس كے بعد ان كى اپنے باپ آزر كے ساتھ گفتگو بيان كى گئي ہے _(يہاں باپ سے مراد چچاہے اور لفظ '' ابا '' عربى لغت ميں كبھى باپ كے معنى ميں اور كبھى چچاكے معنى ميں آتا ہے )_
(1)سورہ انعام آيت 84
(2) سورہ انعام آيت84
(3)سورہ انعام آيت 85
قرآن كہتا ہے :اس وقت جبكہ اس نے اپنے باپ سے كہا : اے بابا : تو ايسى چيز كى عبادت كيوں كرتا ہے جو نہ تو سنتى ہے اور نہ ہى ديكھتى ہے اور نہ ہى تيرى كوئي مشكل حل كرسكتى ہے ''_(1)
يہ مختصر اور زور دار بيان شرك اور بت پرستى كى نفى ونقصان كا احتمال ہے اسے علمائے عقائد '' دفع ضرر محتمل '' سے تعبير كرتے ہيں _ابراہيم (ع) كہتے ہيں كہ تو ايسے معبود كى طرف كيوں جاتاہے كہ جو نہ صرف يہ كہ تيرى كسى مشكل كوحل نہيں كرسكتا ،بلكہ وہ تو اصلا ًسننے اور ديكھنے كى قدرت ہى نہيں ركھتا _
دوسرے لفظوں ميں عبادت ايسى ہستى كى كرنى چاہئے كہ جو مشكلات حل كرنے كى قدرت ركھتى ہو، اپنى عبادت كرنے والے كى حاجات وضروريات كو جانتى ،ديكھتى اور سن سكتى ہوں ليكن ان بتوں ميں يہ تمام باتيں مفقود ہيں _
درحقيقت ابراہيم عليہ السلام يہاں اپنى دعوت اپنے چچا سے شروع كرتے ہيں ،كيونكہ قريبى رشتہ داروں ميں اثرو نفوذ پيدا كرنا زيادہ ضرورى ہے پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم بھى اس بات پر مامور ہوئے تھے كہ پہلے اپنے نزديكى رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت ديں _
اس كے بعد ابراہيم (ع) واضح منطق كے ساتھ اسے دعوت ديتے ہيں كہ وہ اس امر ميں ان كى پيروى كرتے نظر آتے ہيں :''اے بابا ''مجھے وہ علم ودانش ملى ہے جو تجھے نصيب نہيں ہوئي اس بنا پر تو ميرى پيروى كراور ميرى بات سن ميرى پيروى كرتا كہ ميں تجھے سيدھى راہ كى طرف ہدايت كروں''_
ميں نے وحى الہى كے ذريعہ سے بہت علم وآگہى حاصل كى ہے اور ميں پورے اطمينان كے ساتھ يہ كہہ سكتا ہوں كہ ميں خطاكے راستے پر نہيں چلوں گا تجھے بھى ہرگز غلط راستے كى دعوت نہيں دوں گا ميں تيرى خوش بختى وسعادت كا خواہاں ہوں تو ميرى بات مان لے تاكہ فلاح ونجات حاصل كرسكے اور اس صراط مستقيم كو طے كركے منزل مقصود تك پہنچ جا_
(1) سورہ مريم آيت42
اس كے بعد اس اثباتى پہلو كو منفى پہلو اور ان آثاركے ساتھ ملاتے ہوئے ، كہ جو اس دعوت پر مترتب ہوتے ہيں ، كہتے ہيں :
''اے بابا : شيطان كى پرستش نہ كركيونكہ شيطان ہميشہ خدائے رحمن كا نافرمان رہاہے''_(1)
البتہ ظاہرہے كہ يہاں عبادت سے مراد شيطان كے لئے سجدہ كرنے اور نمازروزہ بجالانے والى عبادت نہيں ہے بلكہ اطاعت اورا س كے علم كى پيروى كرنے كے معنى ميں ہے اور يہ بات خود ايك قسم كى عبادت شمار ہوتى ہے _
ايك مرتبہ پھر اسے شرك اور بت پرستى كے برے نتائج كى طرف متوجہ كرتے ہوئے كہتے ہيں: ''اے بابا : ميں اس بات سے ڈرتاہوں كہ تيرے اختياركردہ شرك وبت پرستى كے سبب خدائے رحمن كى طرف سے تجھ پر عذاب آئے اور تو اوليائے شيطان ميں سے ہوجائے ''_(2)
حضرت ابراہيم عليہ السلام كى ان كے چچا كى ہدايت كے سلسلے ميں منطقى باتيں جو خاص لطف ومحبت كى آميزش ركھتى تھيں گزرچكى ہيں اب آزركے جوابات بيان كرنے كى نوبت ہے تاكہ ان دونوں كا آپس ميں موازنہ كرنے سے حقيقت اور واقعيت ظاہر ہوجائے _قرآن كہتاہے كہ نہ صرف ابراہيم كى دل سوزياں اور ان كا مدلل بيان آزر كے دل پر اثرانداز نہ ہوسكا بلكہ وہ ان باتوں كو سنكر سخت برہم ہوا ،اور اس نے كہا :
''اے ابراہيم(ع) كيا تو ميرے خدائوںسے روگردان ہے ،اگر تو اس كام سے باز نہيں آئے گاتو ميں ضرور ضرور تجھے سنگسار كروں گا،اور تو اب مجھ سے دور ہوجاميں پھر تجھے نہ ديكھوں''_ (3)
قابل توجہ بات يہ ہے كہ اولاًآزر يہ تك كہنے كے لئے تيار نہيں تھا كہ بتوںكے انكار ،يا مخالفت اور ان كے بارے ميں بدگوئي كا ذكر زبان پر لائے،بلكہ بس اتنا كہا:كيا تو بتوں سے روگردان ہے ؟ تاكہ كہيں
(1)سورہ مريم آيت 44
(2)سورہ مريم آيت45
(3)سورہ مريم ايت 46
ايسانہ ہو بتوں كے حق ميںجسارت ہوجائے ثانياًابراہيم (ع) كو تہديد كرتے وقت اسے سنگسار كرنے كى تہديد كى وہ بھى اس تاكيد كے ساتھ كہ جو ''لام'' اور '' نون '' تاكيد ثقيلہ سے جو ''لارجمنك'' ميں واردہے، اور ہم جانتے ہيں كہ سنگسار كرنا قتل كرنے كى ايك بدترين قسم ہے ثالثاً اس مشروط تہديد اور دھمكى پر ہى قناعت نہيں كى بلكہ اس حالت ميں جناب ابراہيم كو ايك ناقابل برداشت وجود شمار كرتے ہوئے ان سے كہا كہ تو ہميشہ كے لئے ميرى نظروں سے دور ہوجا_
يہ تعبير بہت ہى توہين آميزہے،جسے سخت مزاج افراد اپنے مخالفين كے لئے استعمال كرتے ہيں ،اور فارسى زبان ميں اس كى جگہ ''گورت راگم كن''كہتے ہيں ، يعنى نہ صرف اپنے آپ كو مجھ سے ہميشہ كے لئے چھپالے بلكہ كسى ايسى جگہ چلے جائو كہ ميں تمہارى قبرتك كو بھى نہ ديكھوں ليكن ان تمام باتوں كے باوجود حضرت ابراہيم نے تمام پيغمبروں اور آسمانى رہبروں كى مانند اپنے اعصاب پر كنڑول ركھا، اور تندى اور تيزى اور شديد خشونت وسختى كے مقابلے ميں انتہائي بزرگوارى كے ساتھ كہا:'' سلام ہو تجھ پر''_(1)
ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام الوداعى اورخدا حافظى كا سلام ہو، كيونكہ اس كے چند جملوں كے كہنے كے بعد حضرات ابرہيم عليہ السلام نے آزركو چھوڑديا يہ بھى ممكن ہے كہ يہ ايسا سلام ہوكہ جودعوى اور بحث كو ترك كرنے كے لئے كہاجاتاہے جيسا كہ سورہ قصص ميں ہے :
''اب جبكہ تم ہمارى بات قبول نہيں كرتے ہو، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہيں اور تمہارے اعمال تمہارے ليے،تم پر سلام ہے ہم جاہلوں كے ہواخواہ نہيں ہيں''_(2)
اس كے بعد مزيد كہا :'' ميں عنقريب تيرے لئے اپنے پروردگار سے بخشش كى درخواست كروں گا، كيونكہ وہ ميرے لئے رحيم ولطيف اور مہربان ہے''_(3)
حقيقت ميں حضرت ابراہيم(ع) نے آزركى خشونت وسختى اور تہديدودھمكى كے مقابلے ميں اسى جيسا
(1) سورہ مريم آيت 47
(2)سورہ قصص ايت 55
(3)سورہ مريم آيت 47
جواب دينے كى بجائے اس كے برخلاف جواب ديا اور اس كے لئے پروردگار سے استغفار كرنے اور اس كے ليئے بخشش كى دعا كرنے كا وعدہ كيا _
اس كے بعد يہ فرمايا كہ :''ميں تم سے (تجھ سے اوراس بت پرست قوم سے )كنارہ كشى كرتاہوں اور اسى طرح ان سے بھى كہ جنہيںتم خدا كے علاوہ پكارتے ہو، يعنى بتوں سے بھى (كنارہ كشى كرتاہوں)''اور ميں تو صرف اپنے پروردگار كو پكارتاہوں اورمجھے اميد ہے كہ ميرى دعا ميرے پروردگاركى بارگاہ ميں قبول ہوئے بغير نہيں رہے گا ''_(1)
قرآن ايك طرف حضرت ابراہيم (ع) كے آزر كے مقابلے ميں ادب كى نشاندہى كرتاہے _كہ اس نے كہا كہ مجھ سے دور ہوجا تو ابراہيم(ع) نے بھى اسے قبول كرليا اور دوسرى طرف ان كى اپنے عقيدہ ميں قاطعيت اوريقين كوواضح كرتى ہے يعنى وہ واضح كررہے ہيں كہ ميرى تم سے يہ دورى اس بناء پر نہيں ہے كہ ميں نے اپنے توحيد اعتقاد راسخ سے دستبردارى اختيار كرلى ہے بلكہ اس بناء پر ہے كہ ميں تمہارے نظريہ كو حق تسليم كرنے كے لئے تيار نہيں ہوں، لہذا ميں اپنے عقيد ے پر اسى طرح قائم ہوں_
ضمنى طور پر يہ كہتے ہيں كہ اگر ميں اپنے خداسے دعا كروں تو وہ ميرى دعا كو قبول كرتاہے ليكن تم بيچارے تو اپنے سے زيادہ بيچاروں كو پكارتے ہو اور تمہارى دعا ہرگز قبول نہيں ہوتى يہاں تك كہ وہ تو تمہارى باتوں كو سنتے تك نہيں _
ابراہيم (ع) نے اپنے قول كى وفا كى اور اپنے عقيدہ پر جتنا زيادہ سے زيادہ استقامت كے ساتھ رہا جاسكتا ہے، باقى رہے ،ہميشہ توحيد كى منادى كرتے رہے اگرچہ اس وقت كے تمام فاسد اور برے معاشرے نے ان كے خلاف قيام كيا ليكن وہ جناب بالآخراكيلے نہ رہے اور تمام قرون واعصارميں بہت سے پيروكار پيدا كرلئے اس طورپر كہ دنيا كے تمام خدا پرست لوگ ان كے وجود پر فخركرتے ہيں _ (2)
(1) سورہ مريم آيت 48
(2)كيا آزر حضرت ابراہيم(ع) كا باپ تھا؟
لفظ ''اب ''عربى زبان ميںعام طور پر باپ كے لئے بولا جاتا ہے،اور جيسا كہ ہم ديكھيں گے كہ بعض اوقات چچا،نانا،مربى و معلم اور اسى طرح وہ افراد كہ جو انسان كى تربيت ميں كچھ نہ كچھ زحمت و مشقت اٹھاتے ہيں ان پر بھى بولا جاتا ہے -->
<-- ليكن اس ميں شك نہيں كہ جب يہ لفظ بولا جائے اور كوئي قرينہ موجود نہ ہو تو پھر معنى كے لئے پہلے باپ ہى ذہن ميں آتا ہے_
اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ كيا سچ مچ قرآن كہتا ہے كہ وہ بت پرست شخص(آزر) حضرت ابراہيم عليہ السلام كاباپ تھا، تو كيا ايك بت پرست اور بت ساز شخص ايك اولوالعزم پيغمبر كا باپ ہوسكتا ہے،اس صورت ميں كيا انسان كى نفسيات و صفات كى وراثت اس كے بيٹے ميں غير مطلوب اثرات پيدا نہيں كردے گي_
اہل سنت مفسرين كى ايك جماعت نے پہلے سوال كا مثبت جواب ديا ہے اور آزر كو حضرت ابراہيم عليہ السلام كا حقيقى باپ سمجھا ہے،جب كہ تمام مفسرين و علماء شيعہ كا عقيدہ يہ ہے كہ آزر حضرت ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا،بعض اسے آپ كا نانا اور بہت سے حضرت ابراہيم عليہ السلام كا چچا سمجھتے ہيں_
وہ قرائن جو شيعہ علماء كے نقطہ نظر كى تائيد كرتے ہيں حسب ذيل ہيں:
1_كسى تاريخى منبع و مصدر اور كتاب ميں حضرت ابراہيم عليہ السلام كے والد كا نام آزر شمار نہيں كيا گيا بلكہ سب نے''تارخ''لكھا ہے_كتب عہدين ميں بھى يہى نام آيا ہے،قابل توجہ بات يہ ہے كہ جو لوگ اس بات پر اصرار كرتے ہيں كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كا باپ آزر تھا،يہاں انہوں نے ايسى توجيہات كى ہيں جو كسى طرح قابل قبول نہيں ہيں_منجملہ ان كے يہ ہے كہ ابراہيم عليہ السلام كے باپ كا نام تارخ اور اس كا لقب آزر تھا_حالانكہ يہ لقب بھى منابع تاريخ ميں ذكر نہيں ہوا_يا يہ كہ آزر ايك بت تھا كہ جس كى ابراہيم عليہ السلام كا باپ پوجا كرتا تھا،حالانكہ يہ احتمال قرانى آيت كے ظاہر كے ساتھ جو يہ كہتى ہے كہ آزر ان كا باپ تھا كسى طرح بھى مطابقت نہيں ركھتي،مگر يہ كہ كوئي جملہ يا لفظ مقدر مانيں جو كہ خلاف ظاہر ہو_
2_قرآن مجيد كہتا ہے كہ مسلمان يہ حق نہيں ركھتے كہ مشركين كے لئے استغفار كريں اگر چہ وہ ان كے عزيز و قريب ہى كيوں نہ ہوں_اس كے بعد اس غرض سے كہ كوئي آزر كے بارے ميں ابراہيم عليہ السلام كے استغفار كو دستاويز قرار نہ دے اس طرح كہتا ہے:
''ابراہيم عليہ السلام كى اپنے باپ آزر كے لئے استغفار صرف اس وعدہ كى بنا پر تھى جو انہوں نے اس سے كيا تھا_(سورہ توبہ آيت114)
چونكہ آپ نے يہ كہا تھا كہ:''يعنى ميں عنقريب تيرے لئے استغفار كروں گا_''
يہ اس اميد پر تھا كہ شايد وہ اس وعدہ كى وجہ سے خوش ہوجائے اور بت پرستى سے باز آجائے ليكن جب اسے -->
<-- بت پرستى كى راہ ميں پختہ اور ہٹ دھرم پايا تو اس كے لئے استغفار كرنے سے دستبردار ہوگئے_
يہاں سے يہ بات اچھى طرح معلوم ہوجاتى ہے كہ ابراہيم عليہ السلام نے آزر سے مايوس ہوجانے كے بعد پھر كبھى اس كے لئے طلب مغفرت نہيں كي_اور ايسا كرنا مناسب بھى نہيں تھا_ تمام قرائن اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ يہ واقعہ حضرت ابراہيم عليہ السلام كى جوانى كے زمانے كا ہے جب كہ آپ شہر بابل ميں رہائشے پذير تھے اور بت پرستوں كے ساتھ مبارزہ اور مقابلہ كررہے تھے_
ليكن قرآن كى دوسرى آيات نشاندہى كرتى ہيں كہ ابراہيم عليہ السلام نے اپنى آخرى عمر ميں خانہ كعبہ كى تعمير كے بعد اپنے باپ كے لئے طلب مغفرت كى ہے(البتہ ان آيات ميں جيسا كہ آئندہ بيان ہوگا،باپ سے''اب''كو تعبير نہيں كيا بلكہ''والد''كے ساتھ تعبير كيا ہے جو صراحت كے ساتھ باپ كے مفہوم كو ادا كرتا ہے)_
جيسا كہ قرآن ميں ہے:''حمدوثنا اس خدا كے لئے ہے كہ جس نے مجھے بڑھاپے ميں اسماعيل اور اسحاق عطا كيے ،ميرا پروردگار دعائوں كا قبول كرنے والا ہے، اے پروردگار مجھے ،ميرے ماں باپ اور مومنين كو قيامت كے دن بخش دے ''_(سورہ ابراہيم آيت39و41
سورہ ابراہيم كى اس آيت كو سورہ توبہ كى آيت كے ساتھ ملانے سے جو مسلمانوں كو مشركين كےلئے استغفار كرنے سے منع كرتى ہے اور ابراہيم كو بھى ايسے كام سے سوائے ايك مدت محدود كے وہ بھى صرف ايك مقدس مقصدوہدف كے لئے روكتى ہے، اچھى طرح معلوم ہوجاتاہے كہ زيربحث قرآنى آيت ميں ''اب''سے مراد باپ نہيں ہے بلكہ چچايانانا يا كوئي اور اسى قسم كارشتہ ہے دوسرے لفظوں ميں '' والد'' باپ كے معنى ميں صريح ہے جب كہ'' اب'' ميں صراحت نہيں پائي جاتى _
قرآن كى آيات ميں لفظ'' اب'' ايك مقام پرچچا كے لئے بھى استعمال ہوا ہے مثلا سورہ بقرہ آيت133:
يعقوب (ع) كے بيٹوں نے اس سے كہا ہم تيرے خدا اور تيرے آباء ابراہيم واسماعيل واسحاق كے خدائے يكتا كى پرستش كرتے ہيں_
ہم يہ بات اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ اسماعيل (ع) يعقوب (ع) كے چچا تھے باپ نہيں تھے _
3_مختلف اسلامى روايات سے بھى يہ بات معلوم ہوتى ہے ،پيغمبر اكرم (ص) كى ايك مشہور حديث ميں آنحضرت(ص) سے منقول ہے:
''خداوند
تعالى مجھے ہميشہ پاك آبائو اجداد كے صلب سے پاك مائوں كے رحم ميں منتقل كرتارہا
اور اس نے
-->
اس سر زنش اور ملامت كے بعد جو ابراہيم عليہ السلام بتوں كى كرتے تھے ،اور اس دعوت كے بعد جو اپ نے ازر كو بت پرستى كو ترك كرنے كے لئے كى تھى يہاںخدا ابراہيم عليہ السلام كے بت پرستوں كے مختلف گروہوں كے ساتھ منطقى مقابلوں كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ان كے واضح عقلى استدلالات كے
<-- مجھے كبھى زمانہ جاہليت كى آلود گيوں اور گندگيوں ميں آلودہ نہيں كيا ''_
اس ميں شك نہيں ہے كہ زمانہ جاہليت كى واضح ترين آلودگى شرك وبت پرستى ہے اور جنہوں نے اسے آلودگى كوزنا ميں منحصر سمجھا ہے ان كے پاس اپنے قول پر كوئي دليل موجود نہيں ہے خصوصا جبكہ قرآن كہتا ہے: ''مشركين گندگى ميں آلودہ اور ناپاك ہيں''_(سورہ توبہ ايت 28)
طبرى جوعلماے اہل سنت ميںسے ہے اپنى تفسير جامع البيان ميں مشہور مجاہد سے نقل كرتا ہے _وہ صراحت كے ساتھ يہ كہتا ہے كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا_
اہل سنت كا ايك دوسرا مفسر الوسى اپنى تفسير روح المعانى ميں مندرجہ ذيل قرآنى گفتگو ميں كہتا ہے كہ جو لوگ يہ كہتے ہيں كہ يہ عقيدہ كہ ازر، ابراہيم عليہ السلام كا باپ نہيں تھا شيعوں سے مخصوص ہے ان كى كم اطلاعى كى وجہ سے ہے كيونكہ بہت سے علماء (اہل سنت) بھى اسى بات كا عقيدہ ركھتے ہيں كہ ازر ابراہيم عليہ السلام كا چچا تھا_
''سيوطي''مشہور سنى عالم كتاب ''مسالك الحنفاء'' ميں فخر الدين رازى كى كتاب ''اسرارالتنزيل''سے نقل كرتا ہے كہ پيغمبر اسلام (ص) كے ماں باپ اور اجداد كبھى بھى مشرك نہيں تھے اور اس حديث سے جو ہم اوپر پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كر چكے ہيں استدلال كيا ہے ،اس كے بعد سيوطى خود اضافہ كرتے ہوئے كہتا ہے : ہم اس حقيقت كو دوطرح كى اسلامى روايات سے ثابت كر سكتے ہيں :
پہلى قسم كى روايات تو وہ ہيں كہ جو يہ كہتى ہيں كہ پيغمبر كے اباء واجداد حضرت ادم عليہ السلام تك ہر ايك اپنے زمانہ كا بہترين فرد تھا (ان احاديث كو''صحيح بخاري''اور ''دلائل النبوة''سے بيہقى وغيرہ نے نقل كيا ہے)_
اور دوسرى قسم كى روايات وہ ہيں جو يہ كہتى ہيں كہ ہر زمانے ميں موحد و خدا پرست افراد موجود رہے ہيں ،ان دونوں قسم كى روايت كو باہم ملانے سے ثابت ہوجاتا ہے كہ اجداد پيغمبر (ص) كہ جن ميں سے ايك ابراہيم (ع) كے باپ بھى ہيں يقناً موحد تھے.
طريق سے اصل توحيد كو ثابت كر نے كى كيفيت بيان كرتا ہے _
قرآن پہلے كہتا ہے :''جس طرح ہم نے ابراہيم عليہ السلام كو بت پرستى كے نقصانات سے اگاہ كيا اسى طرح ہم نے اس كے لئے تمام اسمانوں اور زمين پر پرودگار كى مالكيت مطلقہ اور تسلط كى نشاندہى كي''_(1)
اس ميں شك نہيں ہے كہ ابراہيم عليہ السلام خدا كى يگانگيت كا استدلال و فطرى يقين ركھتے تھے،ليكن اسرار آفرينش كے مطالعہ سے يہ يقين درجہ كمال كو پہنچ گيا ،جيسا كہ وہ قيامت اور معاد كا يقين ركھتے تھے ،ليكن سربريدہ پرندوں كے زندہ كرنے كے مشاہدہ سے ان كاايمان''عين اليقين''كے مرحلہ كو پہنچ گيا _
اس كے بعد ميں اس موضوع كو تفصيلى طور پر بيان كيا ہے جو ستاروں اور افتاب كے طلوع و غروب سے ابراہيم عليہ السلام كے استدلال كو ان كے خدا نہ ہونے پر واضح كرتا ہے _
پہلے ارشاد ہوتا ہے:''جب رات كے تاريك پردے نے سارے عالم كو چھپا ليا تو ان كى آنكھوں كے سامنے ايك ستارہ ظاہر ہوا ،ابراہيم عليہ السلام نے پكا ر كر كہا كہ كيا يہ ميرا خدا ہے ؟ليكن جب وہ غروب ہو گيا تو انھوں نے پورے يقين كے ساتھ كہا كہ ميں ہرگز ہرگز غروب ہوجانے والوں كو پسند نہيں كرتا اور انھيں عبوديت و ربوبيت كے لائق نہيں سمجھتا''_(2)
انھوں نے دوبارہ اپنى انكھيں صفحہ اسمان پر گاڑديں ،اس دفعہ چاند كى چاندى جيسى ٹكيہ وسيع اور دل پذير روشنى كے ساتھ صفحہ اسمان پر ظاہر ہوئي،جب چاند كو ديكھا تو ابراہيم عليہ السلام نے پكار كر كہا كہ كيا يہ ہے ميرا پروردگار ؟ليكن اخر كار چاند كا انجام بھى اس ستارے جيسا ہى ہوااور اس نے بھى اپنا چہرہ پر دہ افق ميں چھپا ليا ،تو حقيقت كے متلاشى ابراہيم عليہ السلام نے كہا كہ اگر ميرا پروردگار مجھے اپنى طرف رہنمائي نہ كرے تو ميں گمراہوں كى صف ميں جا كھڑا ہو ں گا_(:)
اس وقت رات اخر كو پہنچ چكى تھى اور اپنے تاريك پردوں كو سميٹ كر اسمان كے منظر سے بھاگ رہى تھى ،افتاب نے افق مشرق سے سر نكالا اور اپنى زيبا اور لطيف نور كو زر بفت كے ايك ٹكڑے كى طرح دشت و
(1)سورہ انعام ايت 76
(2)سورہ انعام ايت 76
(3)سورہ انعام ايت 77
كوہ و بيابان پر پھيلا ديا،جس وقت ابراہيم عليہ السلام كى حقيقت بين نظر اس كے خيرہ كرنے والے نور پر پڑى تو پكار كر كہا :كيا ميرا خدا يہ ہے ؟جو سب سے بڑا ہے اور سب سے زيادہ روشن ہے ،ليكن سورج كے غروب ہوجانے اور افتاب كى ٹكيہ كے ہيولائے شب كے منہ ميں چلے جانے سے ابراہيم عليہ السلام نے اپنى اخرى بات ادا كى ،اور كہا:''اے گروہ(قوم)ميں ان تمام بناوٹى معبودوں سے جنھيں تم نے خدا كا شريك قرار دے ليا ہے برى و بيزار ہوں ''_(1)
اب جبكہ ميں نے يہ سمجھ ليا ہے كہ اس متغير و محدود اور قوانين طبيعت كے چنگل ميں اسير مخلوقات كے ماوراء ايك ايسا خدا ہے كہ جو اس سارے نظام كائنات پر قادر و حاكم ہے،'' تو ميں تو اپنا رخ ايسى ذات كى طرف كرتا ہوں كہ جس نے آسمانوں اور زمين كو پيدا كيا ہے اور اس عقيدے ميں كم سے كم شرك كو بھى راہ نہيں ديتا،ميں تو موحد خالص ہوں اور مشركين ميں سے نہيں ہوں''_(2)(3)
(1)سورہ انعام ايت 78
(2)سورہ انعام آيت79
(3)جناب ابراہيم عليہ السلام جيسے موحد و يكتا پرست نے كس طرح اسمان كے ستارے كى طرف اشارہ كيا اور يہ كہا كہ يہ ميرا خدا ہے مفسرين نے بہت بحث كى ہے ،ان تمام تفاسير ميں سے دو تفسير يں زيادہ قابل ملاحظہ ہيں كہ جن ميں سے ہر ايك كو بعض بزرگ مفسرين نے اختيا ر كيا ہے ہم ان ميں سے ايك كو بيا ن كرتے ہيں كہ حضرت ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات ستارہ پرستوں اور سور ج پرست لوگوںسے گفتگو كرتے ہوئے كى اور احتمال يہ ہے كہ بابل ميں بت پرستوںكے ساتھ سخت قسم كے مقابلے اور مبارزات كرنے اور اس زمين سے شام كى طرف نكلنے كے بعد جب ان اقوام سے ان كا سامنا ہوا تو اس وقت يہ گفتگو كى تھى ،حضرت ابراہيم عليہ السلام بابل ميں نادان قوموں كى ہٹ دھرمى كو ان كى غلط راہ ورسم ميں ازما چكے تھے لہذا اس بنا پر كہ افتاب و ماہتاب كے پجاريوں اور ستارہ پرستوں كو اپنى طرف متوجہ كريں ،پہلے ان كے ہم صدا ہو گئے اور ستارہ پرستوں سے كہنے لگے كہ تم يہ كہتے ہو كہ يہ زہرہ ستارہ ميرا پروردگار ہے ،بہت اچھا چلو اسے ديكھتے ہيں يہاں تك كہ اس عقيدے كا انجام تمہارے سامنے پيش كروں ،تھوڑى ہى دير گزرى تھى كہ اس ستارے كا چمكدار چہرہ افق كے تاريك پردے كے پيچھے چھپ گيا،يہ وہ مقام تھا كہ ابراہيم عليہ السلام كے ہاتھ ميں ايك محكم ہتھيار اگيا اور وہ كہنے لگے ميں تو كبھى ايسے معبود كو قبول نہيں كر سكتا ،اس بنا پر''ھذاربي'' كا مفہوم يہ ہے كہ تمہارے عقيدے كے مطابق يہ ميرا خدا ہے ،يا يہ كہ اپ نے بطور استفہام فرمايا: ''كيا يہ ميرا خدا ہے ''؟
ستارہ سے كون سا ستارہ مراد ہے ؟اس بارے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے ليكن زيادہ تر مفسرين نے زہرہ يا مشترى كا ذكر كيا ہے اور كچھ تواريخ سے معلوم ہوتا ہے كہ قديم زمانوں ميں ان دونوں ستاروں كى پرستش كى جايا كرتى تھى اورخداو ںكے حصہ شمار ہوتے تھے ليكن اس حديث ميں جو امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے عيون الااخبار ميں نقل ہوئي ہے يہ تصريح ہوئي ہے كہ يہ زہرہ ستارہ تھا ،تفسير على بن ابراہيم ميں بھى امام جعفر صادق عليہ السلام سے يہى بات مروى ہے _
قرآن دعوت حضرت ابراہيم عليہ السلام كو اس طرح بيان كرتاہے :''ہم نے ابراہيم (ع) كو بھيجا;اور جب اس نے اپنى قوم سے كہا كہ :خدائے واحد كى پرستش كرو اوراس كے لئے تقوى اختيار كروكيونكہ اگر تم جان لو تو يہ تمہارے لئے بہترہے ''_(1)
اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) دلائل بت پرستى كا باطل ہونا ثابت كرتے ہيں آپ نے اس دعوى كو مختلف دلائل سے ثابت كيا ہے اور ان مشركين كے معتقدات اور روش حيات كو نا درست ثابت كيا ہے _
پہلى بات انھوںں نے يہ فرمائي كہ :''تم خدا سے منحرف ہوكے بتوں كى عبادت كرتے ہو'' _(2)
حالانكہ يہ بت بے روح مجسمے ہيں نہ يہ صاحب ارادہ ہيں نہ صاحب عقل اور نہ صاحب شعور وہ ان تمام اوصاف سے محروم ہيں ان كى ہيت ہى بت پرستى كے عقيدے كوباطل ثابت كرنے كے لئے كافى ہے _
اس كے بعد حضرت ابراہيم(ع) اور آگے بڑھتے ہيں اور فرماتے ہيں كہ :'' صرف ان بتوں كى وضع ہى يہ ثابت نہيں كرتى كہ يہ معبود نہيں ہيں''بلكہ تم بھى جانتے ہو كہ ''تم جھوٹى باتيں كرتے ہو اور ان بتوں كو معبود كہتے ہو '' _(3)
تمہارے پاس اس جھوٹ كو ثابت كرنے كى بجز چند اوہام وخرافات كے اور كيا دليل ہے _
(1)سورہ عنكبوت آيت 16
(2)سورہ عنكبوت آيت 17
(3)سورہ عنكبوت آيت 17
اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) تيسرى دليل ديتے ہيں: اگر تم ان بتوں كو مادى منفعت كے لئے پوجتے ہو يا دوسرے جہان ميں فائدے كے لئے، دونوں صورتوں ميں تمہارا يہ خيال باطل ہے ''كيونكہ تم خدا كے علاوہ جن كى پرستش كرتے ہو وہ تمہيں رزق اور روزى نہيں دے سكتے ''_(1)
تم خود اقرار كرتے ہو كہ يہ بت خالق نہيں ہيں بلكہ خالق حقيقى خدا ہے اس بناء پرروزى دينے والا بھى وہى ہے ''لہذا تم روزى خدا سے طلب كرو''_(2)
اور چونكہ روزى دينے والاو ہى ہے '' لہذا اسى كى عبادت كرو اور اس كا شكربجالائو''_(3)
اس مفہوم كا ايك پہلو يہ بھى ہے منعم حقيقى كے حضور ميں''حس شگر گزاراى '' سے بھى عبادت كى تحريك ہوتى ہے _ تم جانتے ہو كہ منعم حقيقى خدا ہى ہے پس شكر اورعبادت بھى اسى كى ذات كے لئے مخصوص ہے _
''نيز اگر تم آخرت كى زندگى كے خواستگار ہو تو سمجھ لو كہ ہم سب كى باز گشت اسى طرف ہے ''نہ كہ بتوںكى طرف ''_(4)
اس كے بعد حضرت ابراہيم (ع) تہديد كے طور پر ان مشركين كى سركشى سے بے اعتنائي كا اظہار كرتے ہوئے فرماتے ہيں :'' اگر تم ميرے پيام كى تكذيب كرتے ہو تويہ كوئي نئي بات نہيں ہے،تم سے پہلے جو امتيں گزر چكى ہيں انھوں نے بھى اس طرح اپنے پيغمبروں كى تكذيب كى ہے اور آخركار ان كا انجام بڑا دردناك ہوا''_(5)
''رسول اور فرستادئہ خدا كا فرض واضح ابلاغ كے علاوہ اور كچھ نہيں ''_(6)
خواہ لوگ اسے قبول كريں يا نہ كريں _
(1) سورہ عنكبوت آيت17
(2) سورہ عنكبوت آيت 17
(3)سورہ عنكبوت آيت17
(4)سورہ عنكبوت آيت17
(5) سورہ عنكبوت آيت17
(6)سورہ عنكبوت آيت 18
ابراہيم عليہ السلام كے جواب ميں انھوں نے كہا : ''ہم بتوں كى عبادت كرتے ہيں اور سارادن ان پر توجہ ركھتے ہيں اور نہايت ہى ادب اور احترام كے ساتھ ان كى عبادت ميں لگے رہتے ہيں''_(1)
اس تعبير سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ نہ فقط اپنے اس عمل پر شرمندہ نہيں تھے بلكہ اس پر فخرو مباہات بھى كيا كرتے تھے كيونكہ (''ہم بتوں كى عبادت وپرستش كرتے ہيں'' )كا جملہ ان كے مقصود اور مدعا كے بيان كے لئے كافى تھا،ساتھ ہى انھوں نے يہ بھى كہا''ہم سارا سارادن ان كے آستان پر جبہ سائي كرتے رہتے ہيں ''_
بہرحال ابراہيم (ع) عليہ السلام نے ان كى يہ باتيں سن كران پر اعتراضات كى بوچھاركردى اور دوزبردست منطقى اور معتدل جملوں كے ذريعہ انھيں ايسى جگہ لاكھڑا كيا جہاں'' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ''كے مصداق ان سے كوئي جواب نہيں بن پڑتا تھا آپ نے ان سے فرمايا :''جب تم ان كو پكارتے ہوتو كيا وہ تمہارى فرياد سنتے بھى ہيں ؟''،''ياكيا وہ تمہيں كوئي نفع يانقصان پہنچاسكتے ہيں '' (2)
ليكن متعصب لوگ بجائے اس كے كہ اس منطقى سوال كا كوئي ٹھوس جواب ديتے وہى پرانا اور بار بار كا دہرايا ہوا جواب پيش كرتے ہيں :''انھوں نے كہا ايسى كوئي بات نہيں سب سے اہم بات يہ ہے كہ ہم نے اپنے بزرگوں كو ايساكرتے ديكھا ہے ''(3)
ان كا يہ جواب اپنے جاہل اور نادان بزرگوں كى اندھى تقليد كو بيان كررہا ہے وہ جوجواب ابراہيم(ع) كو دے سكتے تھے يہى تھا اور بس يہ ايسا جواب جس كے بطلان كى دليل خود اسى ميں موجود ہے اور كوئي بھى عقل مند انسان اپنے آپ كو اس بات كى اجازت نہيں دے سكتا كہ وہ آنكھيں بند كركے دوسروںكے پيچھے لگ جائے، خاص كر جبكہ آنے والے لوگوں كے تجربے گزشتہ لوگوں سے كہيں زيادہ ہوتے ہيں اور ان كى اندھى تقليد كا نہ تو كوئي جوازرہتا ہے اور نہ ہى كوئي دليل _
(1)سورہ شعراء آيت 71
(2) سورہ شعراء آيات 72073
(3) سورہ شعراء آيت 74
يہاں پر پہلے حضرت ابراہيم (ع) كى بت شكنى كے واقعہ اور ان سے بت پرستوں كى شديد مڈھ بھيڑكے بارے ميں گفتگوكى گئي ہے _(1)
حضرت ابراہيم عليہ السلام نے اس بات كو ثابت كرنے كے لئے كہ يہ بات سوفى صد صحيح اور محكم ہے اور وہ اس عقيدہ پر ہر مقام تك قائم ہيں اور اس كے نتائج و لوازم كو جو كچھ بھى ہوں انھيں جان و دل سے قبول كرنے كے لئے تيار ہيں، مزيد كہتے ہيں: مجھے خدا كى قسم جس وقت تم يہاں پر موجود نہيں ہوں گے اور يہاںسے كہيں باہر جائوگے تو ميں تمہارے بتوں كو نابود كرنے كا منصوبہ بنائوں گا''_(2)
ان كى مراد يہ تھى كہ انھيں صراحت كے ساتھ سمجھاديں كہ آخر كار ميں اسى موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھيں نابود اور درہم و برہم كردوں گا_
ليكن شايد ان كى نظر ميں بتوں كى عظمت اور رعب اس قدر تھا كہ انھوں نے اس كو كوئي سنجيدہ بات نہ سمجھا او ركوئي ردّ عمل ظاہر نہ كيا شايد انھوں نے يہ سوچا كہ كيا يہ ممكن ہے كہ كوئي شخص كسى قوم و ملّت كے مقدسات كے ساتھ ايسا كھيل كھيلے ، جبكہ ان كى حكومت بھى سو فى صد ان كى حامى ہے وہ كس طاقت كے بل بوتے پر ايسا كام كرے گا_
(1)قرآن مجيد ميں واقعہ ابراہيم كو قصہ كے ساتھ اس طرح سے منسلك كيا گيا ہے :'' اور ابراہيم ،نوح كے پيروكاروں ميں سے تھے_''( سورہ صافات ايت 83)
وہ اسى راہ توحيد وعدل اورراسى راہ تقوى واخلاص پر گا مزن تھا جو نوح كى سنت تھي،كيونكہ انبياء سارے كے سارے ايك ہى مكتب كے مبلغ اور ايك ہى يونيورسٹى كے استاد ہيں اور ان ميں سے ہر ايك دوسرے كے پروگرام كو دوام بخشتا ، اسے آگے بڑھاتا اور اس كى تكميل كرتاہے ، كيسى عمدہ تعبير ہے كہ ابراہيم، (ع) نوح كے شيعوں ميں سے تھے حالانكہ ان دونوں كے زمانے ميں بہت فاصلہ تھا (بعض مفسرين كے قول كے مطابق تقريباً2600/ سال فاصلہ تھا، ليكن ہم جانتے ہيں كہ مكتبى رشتے ميں زمانے كى كوئي حيثيت نہيں ہے
(2) سورہ انبياء آيت 57
اس سے يہ بات بھى واضح ہوجاتى ہے كہ يہ جو بعض نے كہا كہ حضرت ابراہيم(ع) نے يہ جملہ اپنے دل ميں كہا تھا يا بعض مخصوص افراد سے كہا تھا كسى لحاظ سے اس كى ضرورت نہيں ہے، خاص طور پر جبكہ يہ بات كامل طور سے قرآن كريم كے خلاف ہے_
اس كے علاوہ قرآن مجيد ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ بت پرستوں كو ابراہيم كى يہ بات ياد آگئي اور انھوں نے كہا كہ ہم نے سنا ہے كہ ايك جوان بتوں كے خلاف ايك سازش كى بات كرتا ہے_
بہر حال حضرت ابراہيم نے ايك دن جبكہ بُت خانہ خالى پڑا تھا، اور بُت پرستوں ميں سے كوئي وہاں موجود نہيں تھا، اپنے منصوبہ كو عملى شكل دےدي_
بابل كے بت پرست ہر سال ايك مخصوص عيد كے دن كچھ رسومات ادا كيا كرتے تھے بت خانہ ميں كھانے تيار كرتے ہيں اور وہيں انھيں دسترخوان پر چن ديتے تھے اس خيال سے كہ يہ كھانے متبرك ہوجائيں گے _اس كے بعد سب كے سب مل كر اكٹھے شہرسے باہر چلے جاتے تھے اور دن كے آخرميں واپس لوٹتے تھے اور عبادت كرنے اور كھانا كھانے كے لئے بت خانہ ميں آجاتے تھے _ ايك روز اسى طرح جب شہر خالى ہوگيا اور بتوں كو توڑنے اور انھيں درہم برہم كرنے كے لئے ايك اچھا موقع حضرت ابراہيم (ع) كے ہاتھ آگيا _يہ ايسا موقع تھا جس كا ابراہيم عرصے سے انتظار كررہے تھے اور وہ نہيںچاہتے تھے كہ موقع ہاتھ سے نكل جائے _
لہذا جب انھوں نے ابراہيم (ع) كو جشن ميں شركت كى دعوت دى تو '' اس نے ستاروں پر ايك نظر ڈالى ''اور كہا ميں تو بيمارہوں'' _(1) اور اس طرح سے اپنى طرف سے عذرخواہى كي_
''انھوں نے رخ پھيرا اور جلدى سے اس سے دورہوگئے ''_(2)
اور اپنے رسم ورواج كى طرف روانہ ہوگئے _(3)
(1) سورہ صافات 88_89
(2)سورہ صافات آيت90
(3)يہاں دوسوال پيدا ہوتے ہيں :
پہلايہ كہ حضرت ابراہيم (ع) نے ستاروں كى طرف كيوں ديكھا ،اس ديكھنے سے ان كا مقصد كيا تھا ؟ -->
حضرت ابراہيم (ع) اكيلے شہرميں رہ گئے اوربت پرست شہرخالى كركے باہر چلے گئے حضرت ابراہيم نے اپنے ادھر ادھر ديكھا، شوق كى بجلى ان كى آنكھوں ميں چمكى ،وہ لمحات جن كا وہ ايك مدت سے انتظار كررہے تھے آن پہنچے ،انھوں نے اپنے آپ سے كہا، بتوں سے جنگ كے لئے اٹھ كھڑاہو اور ان كے پيكروں پر سخت
<-- دوسرايہ كہ كيا واقعا وہ بيمار تھے كہ انھوں نے كہا ميں بيمارہوں ؟انھيںكيا بيمارى تھى ؟
پہلے سوال كا جواب بابل كے لوگوںكے اعتقادات اوررسوم وعادات كو ديكھتے ہوئے واضح وروشن ہے وہ علم بخوم ميں بہت ماہر تھے _يہاں تك كہ كہتے ہيں كہ ان كے بت بھى ستاروں كے ہيكلوں اور شكلوں ميں تھے اور اسى بناپر ان كا احترام كرتے تھے كہ وہ ستاروںكے سمبل تھے _
البتہ علم بخوم ميں مہارت كے ساتھ ساتھ بہت سى خرافات بھى ان كے يہاں پائي جاتى تھيں منجملہ يہ كہ وہ ستاروں كو اپنى تقدير ميں موثر جاتے تھے اور ان سے خيروبركت طلب كرتے تھے اور ان كى وضع وكيفيت سے آنے والے واقعات پر استدلال كرتے تھے ، ابراہيم نے اس غرض سے كہ انھيں مطمئن كرديں ، ان كى رسوم كے مطابق آسمان كے ستاروں پر ايك نظر ڈالى تاكہ وہ يہ تصور كريں كہ انھوں نے اپنى بيمارى كى پيشن گوئي ستاروں كے اوضاع كے مطالعے سے كى ہے اور وہ مطمئن ہوجائيں _
بعض بزرگ مفسرين نے يہ احتمال بھى ذكر كيا ہے كہ وہ چاہتے تھے كہ ستاروں كى حركت سے اپنى بيمارى كا وقت ٹھيك طورسے معلوم كرليں كيونكہ ايك قسم كى بيمارى انھيں تھى وہ يہ كہ بخار انھيں ايك خاص وقفہ كے ساتھ آتا تھا ليكن بابل كے لوگوں كے افكارونظريات كى طرف توجہ كرتے ہوئے پہلااحتمال زيادہ مناسب ہے _
بعض نے يہ احتمال بھى ذكركيا ہے كہ ان كا آسمان كى طرف ديكھنا درحقيقت اسرار آفرينش ميں مطالعہ كے لئے تھا اگر چہ وہ آپ كى نگاہ كو ايك منجم كى نگاہ سمجھ رہے تھے جو يہ چاہتا ہے كہ ستاروں كے اوضاع سے آئندہ كے واقعات كى پيش بينى كر ے_
دوسرے سوال كے مفسرين نے متعدد جواب ديئے ہيں ، منجملہ ان كے يہ ہے كہ وہ واقعا ًبيمار تھے ،اگرچہ وہ صحيح وسالم بھى ہوتے تب بھى جشن كے پروگرام ميں ہرگز شركت نہ كرتے ، ليكن ان كى بيمارى ان مراسم ميںشركت نہ كرنے اور بتوں كو توڑنے كے لئے ايك سنہرى موقع اور اچھا بہانہ بھى تھا، اور اس بات پر كوئي دليل نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ انھوں نے يہاں''توريہ''كيا تھا ، كيونكہ انبياء كے لئے '' توريہ ''كرنا مناسب نہيں ہے .
ضرب لگا ايسى ضرب جو بت پرستوں كے سوئے دماغوں كو ہلاكر ركھ دے اور انھيں بيداركردے _
قرآن كہتاہے :''وہ ان كے خدائوں كے پاس آيا ،ايك نگاہ ان پر اور كھانے كے ان برتنوں پر جوان كے اطراف ميں موجودتھے ، ڈالى اور تمسخر كے طور پر كہا : تم يہ كھانے كھاتے كيوں نہيں'' ؟ (1)
يہ كھانے تو تمہارى عبادت كرنے والوں نے فراہم كيے ہيں _مرغن وشيرين ، طرح طرح كى رنگين غذائيں ہيں ، كھاتے كيوں نہيں ہو؟
اس كے بعد مزيد كہتا ہے :'' تمہيں كيا ہوگيا ہے ؟ تم بات كيوں نہيں كرتے ؟ تم گونگے كيوں بن گئے ہو ؟تمہارامنہ كيوں بندہے_'' (2)
اس طرح كے تمام بيہودہ اور گمراہ عقائد كامذاق اڑايا بلاشك وہ اچھى طرح جانتے تھے كہ وہ نہ كھانا كھاتے ہيں اور نہ ہى بات كرتے ہيں اور بے جان موجودات سے زيادہ حيثيت نہيں ركھتے ،ليكن حقيقت ميں وہ يہ چاہتے تھے كہ اپنى بت شكنى كے اقدام كى دليل اس عمدہ اور خوبصورت طريقہ سے پيش كريں _
پھر انھوں نے اپنى آستين چڑھالي، كلہاڑا ہاتھ ميں اٹھايا اور پورى طاقت كے ساتھ اسے گھمايا اور بھر پور ''توجہ كے ساتھ ايك زبردست ضرب ان كے پيكر پر لگائي ''_ (3)
بہرحال تھوڑى سى دير ميں وہ آباداور خوبصورت بت خانہ ايك وحشت ناك ويرانہ ہوگيا _تمام بت ٹوٹ پھوٹ گئے ہر ايك ہاتھ پائوں تڑوائے ہوئے ايك كونے ميں پڑاتھا اور سچ مچ بت پرستوں كے لئے ايك دلخراش ، افسوسناك اور غم انگيز منظر تھا _ ابراہيم اپنا كام كرچكے اور پورے اطمينان وسكون كے ساتھ بتكدہ سے باہر آئے اور اپنے گھر چلے گئے اب وہ اپنے آپ كو آئندہ كے حوادث كے لئے تيار كررہے تھے _
وہ جانتے تھے كہ انھوں نے شہرميں بلكہ پورے ملك بابل ميں ايك بہت بڑادھماكہ كيا ہے جس كى صدابعد ميں بلند ہوگى _غصہ اور غضب كا ايك ايسا طوفان اٹھے گا اور وہ اس طوفان ميںاكيلے ہوں گے _ليكن ان كا خدا موجود ہے اور وہى ان كے لئے كافى ہے _
(1)سورہ صافات آيت91
(2)سورہ صافات آيت92
(3) سورہ صافات آيت 93
آخر وہ عيد كا دن ختم ہوگيا اور بت پرست خوشى مناتے ہوئے شہر كى طرف پلٹے اور سب بت خانے كى طرف گئے تاكہ بتوں سے اظہار عقيدت بھى كريں اور وہ كھانا بھى كھائيں كہ جو ان كے گمان كے مطابق بتوں كے پاس ركھے رہنے سے بابركت ہوگيا تھا جو نہى وہ بت خانے كے اندر پہنچے تو ايك ايسا منظر ديكھا كہ ان كہ ہوش اڑگئے آبادبت خانہ كے بجائے بتوں كا ايك ڈھيرتھا ان كے ہاتھ پائوں ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ ايك دوسرے پر گرے ہوئے تھے _'' وہ تو چيخنے چلانے لگے :''يہ بلا اور مصيبت ہمارے خدائوں كے سر پر كون لايا ہے ''؟ ''يقينا جو كوئي بھى تھا ، ظالموں ميں سے تھا ''_(1)
اس نے ہمارے خدائوں پر بھى ظلم كيا ہے ، ہمارى قوم اور معاشرے پر بھى ،اور خود اپنے اوپر بھى كيونكہ اس نے اپنے اس عمل سے اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈال ديا ہے _
ليكن وہ لوگ جو بتوں كے بارے ميں ابراہيم كى دھمكيوں سے آگاہ تھے اور ان جعلى خدائوں كے بارے ميںان كى اھانت آميز باتوں كو جانتے تھے ، كہنے لگے :''ہم نے سنا ہے ايك جوان بتوں كے بارے ميں باتيں كرتا تھا اور انہيں برابھلاكہتا تھا ، اس كا نام ابراہيم (ع) ہے_''(2)
يہ ٹھيك ہے كہ بعض روايات كے مطابق حضرت ابرہيم (ع) اس وقت مكمل طور پر جوان تھے اور احتمال يہ ہے كہ ان كى عمر16/ سال سے زيادہ نہيں تھى اور يہ بھى درست ہے كہ جوانمردى كى تمام خصوصيات ، شجاعت ، شہامت ، صراحت اور قاطعيت ان كے وجود ميں جمع تھيں ليكن اس طرح سے بات كرنے سے بت پرستوں كى مراد يقينا تحقير كے علاوہ كچھ نہيں تھى ، بجائے اس كے كہ يہ كہتے كہ ابراہيم(ع) نے يہ كام كيا ہے ،كہتے ہيں كہ ايك جوان ہے كہ جسے ابراہيم(ع) كہتے ہيں ، وہ اس طرح كہتا تھا يعنى ايك ايسا شخص كہ جو بالكل گمنام اور ان كى نظر ميں بے حيثيت ہے _
(1)سورہ انبياء آيت9 5
(2)سورہ انبياء آيت 60
اصولاً معمول يہ ہے كہ جب كسى جگہ كوئي جرم ہوجائے تو اس شخص كو تلاش كرنے كے لئے كہ جس سے وہ جرم سرزد ہوا ہو ان سے دشمنى ركھنے والوں كو تلاش كيا جاتاہے اور اس ماحول ميں ابراہيم (ع) كے سوا مسلماً كوئي شخص بتوں كے ساتھ دست وگريبان نہيں ہوسكتا تھا لہذا تمام افكار انہيںكى طرف متوجہ ہوگئے اور بعض نے كہا : '' اب جب كہ معاملہ اس طرح ہے تو جائو اور اس كو لوگوں كے سامنے پيش كرو تاكہ وہ لوگ كہ جو پہچانتے ہيں اور خبر ركھتے ہيں گواہى ديں ''_(1)
منادى كرنے والوں نے شہر ميں ہر طرف يہ منادى كى كہ جو شخص بھى ابراہيم(ع) كى بتوں سے دشمنى اور ان كى بدگوئي كے بارے ميں آگاہ ہے ، حاضر ہوجائے، جلدہى جو آگاہ تھے وہ لوگ بھى اور تمام دوسرے لوگ بھى جمع ہوگئے تاكہ ديكھيں كہ اس ملزم كا انجام كيا ہوتا ہے _
ايك عجيب وغريب شور وغل لوگوں ميں پڑا ہوا تھا ،چونكہ ان كے عقيدے كے مطابق ايك ايسا جرم جو پہلے كبھى نہ ہوا تھا جس نے ان كے دينى ماحول ميں ايك دھماكہ كر ديا تھا _
آخركار عدالت لگى اور بازپرس ہوئي زعمائے قوم وہاں جمع ہوئے بعض كہتے ہيں كہ خود نمردو اس عمل كى نگرانى كررہاتھا _
پہلا سوال جو انہوں نے ابراہيم سے كيا وہ يہ تھا :'' اے ابراہيم :كيا تونے ہى ہمارے خدائوںكے ساتھ يہ كام كيا ہے_ ''(2) وہ اس بات تك كے لئے تيار نہيں تھے كہ يہ كہيں كہ تونے ہمارے خدائوں كو توڑا ہے اور ان كے ٹكڑے ٹكڑے كرديئے ہيں ، بلكہ صرف يہ كہا كيا تونے ہمارے خدائوں كے ساتھ يہ كام كيا ہے ؟
ابراہيم(ع) نے ايسا جواب ديا كہ وہ خود گھرگئے اور ايسے گھرے كہ نكلنا ان كے بس ميں نہ تھا '' ابراہيم(ع) نے كہا : يہ كام اس بڑے بت نے كيا ہے ،ان سے پوچھو اگر يہ بات كرتے ہوں _'' (3)
(1)سورہ انبياء آيت 61
(2)سورہ انبيائ(ع) آيت 62
(3) سورہ انبياء آيت 63
جرائم كى تفتيش كے اصول يہ ہيں ، كہ جس كے پاس آثار جرم ملے، وہ ملزم ہے (مشہور روايت كے مطابق حضرت ابراہيم(ع) نے وہ كلہاڑا بڑے بت كى گردن ميں ڈال ديا تھا )_
اصلاً ،تم ميرے پيچھے كيوں پڑگئے ہو؟ تم اپنے بڑے خدا كو ملزم قرار كيوں نہيں ديتے ؟ كيا يہ احتمال نہيں ہے كہ وہ چھوٹے خدائوں پر غضبناك ہوگيا ہو يا اس نے انہيں اپنا آيندہ كا رقيب فرض كرتے ہوئے ان سب كا حساب ايك ہى ساتھ پاك كرديا ہو؟
ابراہيم (ع) نے قطعى طورپر اس عمل كو بڑے بت كى طرف منسوب كيا ، ليكن تمام قرائن اس بات كى گواہى دے رہے تھے كہ وہ اس بات سے كوئي پختہ اور مستقل قصد نہيں ركھتے تھے،بلكہ وہ اس سے يہ چاہتے تھے كہ بت پرستوں كے مسلمہ عقائد كو، جو كہ خرافاتى اور بے بنيادتھے، ان كے منہ پر دے ماريں اور ان كا مذاق اڑائيں اور انہيں يہ سمجھائيں كہ يہ بے جان پتھراور لكڑياں اس قدر حقير ہيں كہ ايك جملہ تك بھى منہ سے نہيں نكال سكتيں، كہ اپنى عبادت كرنے والوں سے مدد طلب كرليں ،چہ جائيكہ وہ يہ چاہيں كہ ان كى مشكلات كوحل كرديں_
اس تعبير كے نظير ہمارے روز مرہ كے محاورات ميں بہت زيادہ ہے كہ مد مقابل كى بات كو باطل كرنے كے لئے اس كے مسلمات كوامر يا خبريا استفہام كى صورت ميں اس كے سامنے ركھتے ہيں تاكہ وہ مغلوب ہوجائے اور يہ بات كسى طرح بھى جھوٹ نہيں ہوتي'' جھوٹ وہ ہوتا ہے كہ جس كے ساتھ كوئي قرينہ نہ ہو ''_
اس روايت ميں كہ جو كتاب كافى ميں امام صادق عليہ ا لسلام سے نقل ہوئي ہے ،يہ بيان ہوا ہے كہ : ''ابراہيم عليہ السلام نے يہ بات اس لئے كہى كہ وہ ان كے افكار كى اصلاح كرنا چاہتے تھے_اور انہيں سمجھانا چاہتے تھے كہ ايسے كام بتوں سے نہيں ہو سكتے_''
اس كے بعد امام عليہ السلام نے مزيد فرمايا:
''خدا كى قسم يہ كام بتوں نے نہيں كيا تھا اور ابراہيم عليہ السلام نے جھوٹ بھى نہيں بولا_''
ابراہيم (ع) كى باتوں نے بت پرستوںكو ہلاكرركھ ديا ، ان كے سوئے ہوئے وجدان كو بيداركيا اور اس طوفان كى مانند كہ جو آگ كى چنگاريوں كے اوپر پڑى ہوئي بہت سى راكھ كو ہٹا ديتاہے اور اس كى چمك كو آشكار كرديتا ہے ،ان كى فطرت توحيدى كو تعصب ،جہالت اور غرور كے پردوں كے پيچھے سے آشكار وظاہر كرديا_ زود گزرلمحے ميں وہ موت كى سى ايك گہرى نيند سے بيدار ہوگئے جيسا كہ قرآن كہتا ہے : '' وہ اپنے وجدان اور فطرت كى طرف پلٹے اور خود اپنے آپ سے كہنے لگے كہ حق بات يہ ہے كہ ظالم تو تم خود ہى ہو_''(1)
تم نے تو خود اپنے اوپر بھى ظلم وستم كيا ہے اور اس معاشرے كے اوپر بھى كہ جس كے ساتھ تمہارا تعلق ہے اور نعمتوں كے بخشنے والے پروردگار كى ساحت مقدس ميں بھى _يہ بات قابل توجہ ہے كہ گزشتہ صفحات ميں يہ بيان ہوا ہے كہ انہوں نے ابراہيم پر ظالم ہونے كا اتہام لگايا تھا ليكن اب انہيں يہاں معلوم ہوگيا كہ اصلى اورحقيقى ظالم تو وہ خود ہيں _
اور واقعا ًابراہيم(ع) كا اصل مقصد بتوں كے توڑنے سے يہى تھا _ مقصد تو بت پرستى كى فكر اور بت پرستى كى روح كو توڑنا تھا ورنہ بتوں كے توڑنے كا تو كوئي فائدہ نہيں ہے، ہٹ دھرم بت پرست ان سے زيادہ اور ان سے بھى بڑے اور بناليتے اور ان كى جگہ پر ركھديتے جيسا كہ نادان ،جاہل اور متعصب اقوام كى تاريخ ميں اس مسئلے كے بے شمار نمونے موجودہيں _ابراہيم(ع) اس حدتك كامياب ہوئے كہ انہوں نے اپنى تبليغ كے ايك بہت ہى حساس اور ظريف مرحلہ كو ايك نفسياتى طوفان پيدا كركے طے كرليا اور وہ تھا سوئے ہوئے وجدانوں كو بيداركرنا _
ليكن افسوس : كہ جہالت وتعصب اور اندھى تقليد كا زنگ اس سے كہيں زيادہ تھا كہ وہ توحيدكے اس
(1) سورہ انبياء آيت 64
علمبرداركى صيقل بخش پكار سے كلى طورپر دور ہوجاتاہے _
افسوس كہ يہ روحانى اور مقدس بيدارى زيادہ دير تك نہ رہ سكى اور ان كے آلودہ اور تاريك ضمير ميں ، جہالت اور شيطانى قوتوں كى طرف سے اس نور توحيد كے خلاف قيام عمل ميں آگيا اور ہر چيز اپنى پہلى جگہ پر پلٹ آئي قرآن كتنى لطيف تعبير پيش كررہا ہے : '' اس كے بعد وہ اپنے سركے بل الٹے ہوگئے_''(1)
اور اس غرض سے كہ اپنے گونگے اور بے زبان خدائوں كى طرف سے كوئي عذرپيش كريں ، انہوں نے كہا : '' تو تو جانتاہے كہ يہ باتيں نہيں كرتے_''(2)
يہ توہميشہ چپ رہتے ہيں اور خاموشى كے رعب كو نہيں توڑتے _
اور اس تراشے ہوئے عذر كے ساتھ انہوں نے يہ چاہا كہ بتوں كى كمزورى ، بدحالى اور ذلت كو چھپائيں _
يہ وہ مقام تھا كہ جہاں ابراہيم جيسے ہيرو كے سامنے منطقى استدلال كے لئے ميدان كھل گيا تاكہ ان پر بھر پورحملے كريں اور ان كے ذہنوں كو ايسى سرزنش اور ملامت كريں كہ جو منطقى اور بيدار كرنے والى ہو '' (ابراہيم نے ) پكار كركہا: كيا تم خداكو چھوڑكر دوسرے معبودوں كى پرستش كرتے ہو كہ جونہ تمہيں كچھ فائدہ پہنچاتے ہيں اور نہ ضرر '' (3)
يہ خيالى خدا كہ جو نہ بات كرنے كى قدرت ركھتے ہيں ،نہ شعورو ادراك ركھتے ہيں ،نہ خود اپنا دفاع كرسكتے ہيں ، نہ بندوں كو اپنى حمايت كے لئے بلاسكتے ہيں ،اصلا ًان سے كو نساكام ہوسكتا ہے اور يہ كس درد كى دوا ہيں ؟ ايك معبود كى پرستش يا تو اس بناء پرہوتى ہے كہ وہ عبوديت كے لائق ہے تو يہ بات بتوں كے بارے ميں كوئي مفہوم نہيں ركھتى ،يا كسى فائدہ كى اميدميں ہوتى ہے اور يا ان سے كسى نقصان كے خوف سے ، ليكن بتوں كے توڑنے كے ميرے اقدام نے بتاديا كہ يہ كچھ بھى نہيں كرسكتے تو كيا اس حال ميں تمہارا يہ كام احمقانہ نہيں ہے ؟
(1)سورہ انبياء آيت 65
(2) سورہ انبياء آيت 65
(3)سورہ انبياء آيت66
پھر يہ معلم توحيدبات كو اس سے بھى بالاترلے گيااور سرزنش كے تازيانے ان كى بے درد روح پر لگائے اور كہا : تف ہے تم پر بھى اور تمہارے ان خدائوں پر بھى كہ جنہيں تم نے خدا كوچھوڑكر اپنا ركھاہے _''
''كيا تم كچھ سوچتے نہيں ہو اور تمہارے سرميں عقل نہيں ہے _''(1)
ليكن انہيں برابھلاكہنے اور اور سرزنش كرنے ميں نرمى اور ملاء مت كو بھى نہيں چھوڑا كہ كہيں اور زيادہ ہٹ دھرمى نہ كرنے لگيں درحقيقت ابراہيم نے بہت ہى جچے تلے انداز ميں اپنا منصوبہ آگے بڑھايا پہلى مرتبہ انہيں توحيد كى طرف دعوت ديتے ہوئے انہيں پكار كركہا : يہ بے روح مجسمے كيا ہيں ؟ كہ جن كى تم پرستش كرتے ہو؟ اگر تم يہ كہتے ہو كہ يہ تمہارے بڑوں كى سنت ہے تو تم بھى گمراہ ہو اور وہ بھى گمراہ تھے _
دوسرے مرحلے ميں ايك عملى اقدام كيا تاكہ يہ بات واضح كرديں كہ يہ بت اس قسم كى كوئي قدرت نہيں ركھتے كہ جو شخص ان كى طرف ٹيڑھى نگاہ سے ديكھے تو اس كو نابود كرديں، خصوصيت كے ساتھ پہلے سے خبردار كركے بتوں كى طرف گئے اور انہيں بالكل درہم وبرہم كرديا تاكہ يہ بات واضح كريں كہ وہ خيالات وتصورات جو انہوں نے باندھے ہوئے ہيں سب كے سب فضول اور بے ہودہ ہيں _
تيسرے مرحلے ميں اس تاريخى عدالت ميں انہيں برى طرح پھنسا كے ركھ ديا كبھى ان كى فطرت كو ابھارا، كبھى ان كى عقل كو جھنجھوڑا، كبھى پندو نصيحت كى اور كبھى سرزنش وملامت _
خلاصہ يہ كہ اس عظيم خدائي معلم نے ہر ممكن راستہ اختيار كيا اور جو كچھ اس كے بس ميں تھا اسے بروئے كار لايا ليكن تاثيركے لئے ظرف ميں قابليت كا ہونا بھى مسلمہ شرط ہے _ افسوس يہ اس قوم ميں موجود نہيں تھي_
ليكن بلاشبہ ابراہيم كى باتيں اور كام ، توحيدكے بارے ميں كم از كم استفہامى علامات كى صورت ميں ان كے ذہنوں ميں باقى رہ گئے اور يہ آيندہ كى وسيع بيدارى اور آگاہى كے لئے ايك مقدمہ اور تمہيد بن گئے _
(1)سورہ انبياء آيت 67
تاريخ كے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے كہ ان ميں سے كچھ افراد اگرچہ وہ تعداد ميں بہت كم تھے ، ليكن قدر وقيمت كے لحاظ سے بہت تھے ،ان پر ايمان لے آئے تھے اور نسبتاًكچھ آمادگى كا سامان دوسروں كے لئے بھى پيدا ہوگيا تھا _
اگرچہ ابراہيم(ع) كے عملى ومنطقى استدلالات كے ذريعے سب كے سب بت پرست مغلوب ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے دل ميں اس شكست كا اعتراف بھى كرليا تھا _
ليكن تعصب اور شديد ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں ركاوٹ بن گئي لہذا اس ميں كوئي تعجب كى بات نہيں ہے كہ انہوں نے ابراہيم كے بارے ميں بہت ہى سخت اور خطرناك قسم كا ارادہ كرليا اور وہ لوگ ابراہيم(ع) كو بدترين صورت ميں قتل كرنا چاہتے تھے انہوں نے پروگرام بنايا كہ انہيں جلاكر راكھ كرديا جائے _
عام طور پر طاقت اور منطق كے درميا ن معكوسى رابطہ ہوتا ہے ، جس قدر انسان ميں طاقت اور قدرت زيادہ ہوتى جاتى ہے ، اتنى ہى اس كى منطق كمزور ہوتى جاتى ہے سوائے مردان حق كے كہ وہ جتنا زيادہ قوى اور طاقتور ہوتے ہيں ، اتناہى زيادہ متواضع اور منطقى ہوجاتے ہيں_
جو لوگ طاقت كى زبان سے بات كرتے ہيں جب وہ منطق كے ذريعے كسى نتيجے پر نہ پہنچ سكيں تو فورا ًاپنى طاقت وقدرت كا سہارالے ليتے ہيں حضرت ابراہيم كے بارے ميں ٹھيك يہى طرز عمل اختيار كيا گيا جيسا كہ قرآن كہتا ہے :
'' ان لوگوں نے (چيخ كر)كہا: اسے جلادواور اپنے خدائوں كى مدد كرو ، اگر تم سے كوئي كام ہوسكتا ہے_''(1)
طاقتور صاحبان اقتداربے خبر عوام كو مشتعل كرنے كے لئے عام طور پر ان كى نفسياتى كمزوريوں سے
(1) سورہ انبياء آيت 68
فائدہ اٹھاتے ہيں كيونكہ وہ نفسيات كو پہچانتے ہيں اور اپنا كام كرنا خوب جانتے ہيں _
جيساكہ انہوں نے اس قصہ ميں كيا اور ايسے نعرے لگائے اور ان كى غيرت كو للكارا: يہ تمہارے خدا ہيں ، تمہارے مقدسات خطرے ميں پڑگئے ہيں ، تمہارے بزرگوں كى سنت كو پائوں تلے روند ڈالاگيا ہے ، تمہارى غيرت وحميت كہاں چلى گئي ؟ تم اس قدرضعيف حال كيوں ہوگئے ہو؟ اپنے خدائوں كى مدد كيوں نہيں كرتے ؟ابراہيم كو جلادو اور اپنے خدائوں كى مدد كرو، اگر كچھ كام تم سے ہوسكتا ہے اور بدن ميں توانائي اورجان ہے ،ديكھو: سب لوگ اپنے مقدسات كا دفاع كرتے ہيں ، تمہارا تو سب كچھ خطرے ميں پڑگيا ہے_
خلاصہ يہ كہ انہوں نے اس قسم كى بہت سى فضول اور مہمل باتيں كيں اور لوگوں كو ابراہيم كے خلاف بھڑكايا اس طرح سے كہ لكڑيوں كے چند گٹھوں كى بجائے كہ جو كئي افرادكے جلانے كے لئے كافى ہوتے ہيں، لكڑيوں كے ہزارہا گٹھے ايك دوسرے پر ركھ كر لكڑيوں كا ايك پہاڑ بناديا اور اس كے بعد آگ كا ايك طوفان اٹھ كھڑاہوا تاكہ اس عمل كے ذريعہ سے اپنا انتقام بھى اچھى طرح سے لے سكيں اور بتوں كا وہ خيالى رعب ودبدبہ اور عظمت بھي، جس كو ابراہيم (ع) كے طرز عمل سے سخت نقصان پہنچاتھا، كسى حدتك بحال ہوسكے _
تاريخ دانوںنے اس مقام پر بہت سے مطالب تحرير كيے ہيں كہ جن ميں سے كوئي بھى بعيدنظر نہيں آتا _
سب لوگ چاليس دن تك لكڑياں جمع كرنے ميں لگے رہے اور ہر طرف سے بہت سى خشك لكڑياں لالا كر جمع كرتے رہے اور نوبت يہاں تك پہنچ گئي تھى كہ وہ عورتيں تك بھى كہ جن كاكام گھر ميں بيٹھ كر چرخا كاتنا تھا، وہ اس كى آمدنى سے لكڑيوں كا گٹھالے كر اس ميں ڈلواتى تھيں اور وہ لوگ كہ جو قريب مرگ ہوتے تھے ، اپنے مال ميں سے لكڑياں خريد نے كى وصيت كرتے تھے اور حاجت منداپنى حاجتوں كے پورے ہونے كے لئے يہ منت مانتے تھے كہ اگران كى حاجت پورى ہوگئي ، تو اتنى مقدار لكڑيوں كا اضافہ كريں گے _
يہى وجہ تھى كہ جب ان لكڑيوں ميں مختلف اطراف سے آگ لگائي گئي تو اس كے شعلے اتنے بلند
ہوگئے تھے كہ پرندے اس علاقے سے نہيں گزر سكتے تھے _
يہ بات واضح ہے كہ اس قسم كى آگ كے تو قريب بھى نہيں جايا جاسكتا چہ جائيكہ ابراہيم عليہ السلام كو لے جاكر اس ميں پھينكيں مجبوراً منجنيق سے كام ليا گيا حضرت ابراہيم كو اس كے اندار بٹھاكر بڑى تيزى كے ساتھ آگ كے اس دريا ميں پھينك ديا گيا _
ان روايات ميں كہ جو شيعہ اور سنى فرقوں كى طرف سے نقل ہوئي ہيں، يہ بيان ہواہے كہ:
''جس وقت حضرت ابراہيم(ع) كو منجنيق كے اوپر بٹھايا گيا اور انہيں آگ ميں پھينكاجانے لگا تو آسمان، زمين اور فرشتوں نے فرياد بلند كى اور بارگاہ خداوندى ميں درخواست كى كہ توحيد كے اس علمبرداراور حريت پسندوں كے ليڈركوبچالے _''
اس وقت جبرئيل، حضرت ابراہيم كے پاس آئے اور ان سے كہا :
كيا تمہارى كوئي حاجت ہے كہ ميں تمہارى مدد كروں ؟
ابراہيم عليہ السلام نے مختصر سا جواب ديا : تجھ سے حاجت ؟نہيں ، نہيں،(ميں تو اسى ذات سے حاجت ركھتا ہوں كہ جو سب سے بے نياز اور سب پر مہربان ہے )
تواس موقع پر جبرئيل نے كہا : تو پھر تم اپنى حاجت خداسے طلب كرو _
انہوں نے جواب ميں كہا : ''ميرے لئے يہى كافى ہے كہ وہ ميرى حالت سے آگاہ ہے ''_
ايك حديث ميں امام باقر عليہ السلام سے نقل ہوا ہے كہ اس موقع پر حضرت ابراہيم نے خداسے اس طرح رازونياز كيا:
''يااحد يا احد ياصمد يا صمد يا من لم يلد ولم يولد ولم يكن لہ كفواًاحد توكلت على اللّہ _''
اے اكيلے: اے اكيلے اے بے نياز اے بے نياز اے وہ كہ جس نے كسى كو نہيں جنا اور نہ جو جنا گيا اور جس كا كوئي ہم پلہ نہيں : ميں اللہ پر ہى بھرسہ ركھتا ہوں _
بہرحال لوگوںكے شوروغل ہو اور جوش وخروش كے اس عالم ميں حضرت ابراہيم(ع) آگ كے شعلوں كے اندر پھينك ديئے گئے لوگوں نے خوشى سے اس طرح لغرے لگائے گويا بتوں كو توڑنے والا ہميشہ كے لئے نابود اور خاكستر ہوگيا _
ليكن وہ خدا كہ جس كے فرمان كے سامنے تمام چيزيں سرخم كيے ہوئے ہيں _ جلانے كى صلاحيت اسى نے آگ ميں ركھى ہے اور مائوں كے دل ميں محبت بھى اسى نے ڈالى ہے اس نے ارادہ كرليا كہ يہ خالص بندئہ مومن آگ كے اس دريا ميں صحيح وسالم رہے تاكہ اس كے افتخاراور اعزاز كى سندوں ميں ايك اور سند كا اضافہ ہوجائے _
جيسا كہ قرآن اس مقام پر كہتا ہے :''ہم نے آگ سے كہا :اے آگ : ابراہيم پر سلامتى كے ساتھ ٹھنڈى ہوجا_''(1)
مشہور يہ كہ آگ اس قدر ٹھنڈى ہوگئي كہ ابراہيم كے دانت ٹھنڈك كى شدت سے بجنے لگے اور بعض مفسرين كے قول كے مطابق تو اگر''سلاماً'' كى تعبير ساتھ نہ ہوتى تو آگ اس قدر سرد ہوجاتى كہ ابراہيم كى جان سردى سے خطرے ميںپڑجاتى _ مشہور روايت ميں يہ بھى بيان ہوا ہے كہ نمرود كى آگ خوبصورت گلستان ميں تبديل ہوگئي _يہاں تك كہ بعض نے تو كہا ہے كہ جس دن ابراہيم آگ ميں رہے ، ان كى زندگى كے دنوں ميں سب سے بہترين راحت وآرام كا دن تھا ؟ (2)
(1)سورہ انبياء آيت 69
(2) آگ نے حضرت ابراہيم كو كيوں نہ جلايا ؟، مفسيرين كے درميان بہت اختلاف ہے ليكن اجمالاً بات يہ ہے كہ بينش توحيد ى كو مد نظر ركھتے ہوئے كسى سبب سے بھى خدا كے حكم كے بغير كوئي كام نہيں ہوسكتا ايك دن وہ ابراہيم كے ہاتھ ميں موجود چھرى سے كہتا ہے: نہ كاٹ اور دوسرے دن آگ سے كہتا : نہ جلا اور ايك دن پانى كوجو سبب حيات ہے حكم ديتا ہے كہ فرعون اور فرعونيوں كو غرق كردے
يہ بات كہنے كى ضرورت نہيں ہے كہ ابراہيم كے آگ ميں صحيح وسالم رہ جانے سے صورت حال بالكل بدل گئي خوشى اورمسرت كا شور وغل ختم ہوگيا، تعجب سے منہ كھلے كے كھلے رہ گئے كچھ لوگ ايك دوسرے كے كان ميںرونماہونے والى اس عجيب چيزكے بارے ميں باتيں كررہے تھے ابراہيم (ع) اور اس كے خدا كى عظمت كا ورد زبانوںپر جارى ہوگيا نمرود كا اقتدار خطرے ميں پڑگيا ليكن پھر بھى تعصب اور ہٹ دھرمى حق كو قبول كرنے ميں پورى طرح حائل ہوگئي اگرچہ كچھ بيداردل اس واقعہ سے بہرہ ور بھى ہوئے اور ابراہيم كے خدا كے بارے ميں ان كے ايمان ميں زيادتى اور اضافہ ہوا ، مگريہ لوگ اقليت ميں تھے _
حضرت ابراہيم كو جب آگ ميں ڈالاگيا تو ان كى عمر سولہ سال سے زيادہ نہيں تھى اوربعض نے اس وقت ان كا سن 26 سال كا ذكر كيا ہے _
بہرحال وہ جوانى كى عمر ميں تھے اور باوجود اس كے كہ ظاہرى طور پر ان كا كوئي ياردمددگار نہيں تھا، اپنے زمانے كے اس عظيم طاغوت كے ساتھ پنجہ آزمائي كى كہ جو دوسرے طاغوتوں كا سرپرست تھا، آپ تن تنہا جہالت ، خرافات اور شرك كے خلاف جنگ كرنے كے لئے نكل كھڑے ہوئے اور ماحول كے تمام خيالى مقدسات كا مذاق اڑايا اور لوگوں كے غصے اور انتقام سے ذرا بھى نہ گھبرائے كيونكہ ان كا دل عشق خدا سے معمور تھا اور ان كا اس پاك ذات پر ہى توكل اور بھروسہ تھا _
ہاں: ايمان ايسى ہى چيز ہے كہ يہ جہاںپيدا ہوجاتاہے وہاں جرا ت وشجاعت پيدا كرديتا ہے اور جس ميں يہ موجود ہو، اسے شكت نہيں ہوسكتى _
حضرت ابراہيم(ع) كو جب آگ ميں ڈالا گيا، نمرود كو يقين ہوگياتھا كہ ابراہيم مٹى بھر خاك ميں تبديل ہوگئے ہيں ليكن جب اس نے غور سے ديكھا تو معلوم ہوا كہ وہ زندہ ہيں تو اپنے ارد گرد بيٹھے ہوئے لوگوں سے
كہنے لگا مجھے تو ابراہيم زندہ دكھائي دے رہا ہے شايد مجھے اشتباہ ہورہا ہے وہ ايك بلند مقام پر چڑھ گيا اور خوب غور سے ديكھا تو اسے معلوم ہوا كہ معاملہ تو اسى طرح ہے _
نمرودنے پكار كركہا : اے ابراہيم(ع) : واقعاً تيرا خدا عظيم ہے اور اس قدر قدرت ركھتا ہے كہ اس نے تيرے اور آگ كے درميان ايك ركاوٹ پيدا كردى اب جبكہ يہ بات ہے تو ميں چاہتاہوں كہ اس كى قدرت اور عظمت كى وجہ سے اس كے لئے قربانى كروں (اور اس نے چار ہزار قربانياں اس مقصد كے لئے تياركيں) ليكن ابراہيم نے اس سے كہا : تجھ سے كسى قسم كى قربانى او ر كارخير قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ توپہلے ايمان لے آئے _
نمرودنے جواب ميں كہا :'' اس صورت ميں تو ميرى حكومت ختم ہوجائے گى اور ميں يہ بات گوارا نہيں كرسكتا _''
بہرحال يہى حادثات اس بات كا سبب بن گئے كہ كچھ آگاہ اور بيدار دل لوگ ابراہيم كے خدا پر ايمان لے آئے يا ان كے ايمان ميں اضافہ ہوگيا (اور شايد يہى واقعہ اس بات كا سبب بناكہ نمرود ابراہيم كے مقابلہ ميں كسى سخت رد عمل كا اظہار نہ كرے اور صرف ان كو سرزمين بابل سے جلاوطن كرنے پر قناعت كرے _)
سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كے مد مقابل اس اجتماع ميں كون تھا اور كون آپ(ع) سے حجت بازى كررہا تھا؟
اس كا جواب يہ ہے كہ قرآن ميں اس كے نام كى صراحت نہيں ہے ليكن فرمايا گيا ہے:
اس غرور و تكبر كے باعث جو اس ميں نشہ حكومت كى وجہ سے پيدا ہوچكا تھا وہ ابراہيم(ع) سے حجت بازى كرنے لگا_
ليكن حضرت على عليہ السلام سے منقول درمنثور كى ايك حديث ميں اور اسى طرح تواريخ ميں اس كا نام ''نمرود بن كنعان''بيان كيا گيا ہے_
يہاں پر اس مباحثے كا وقت نہيں بتايا گيا_ليكن قرائن سے اندازا ہوتا ہے كہ يہ واقعہ حضرت ابراہيم(ع) كى بت شكنى اور آگ كى بھٹى سے نجات كے بعد كا ہے كيونكہ يہ مسلم ہے كہ آگ ميں ڈالے جانے سے قبل اس گفتگو كا سوال ہى پيدا نہيں ہوتا تھا،اور اصولى طور پر بت پرست آپ كو ايسے مباحثے كا حق نہ دے سكتے تھے وہ حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسا مجرم اور گنہ گار سمجھتے تھے جسے ضرورى تھا كہ جتنى جلدى ہوسكے اپنے اعمال اور خدايان مقدس كے خلاف قيام كى سزا ملے_وہ تو انہوں نے بت شكنى كے اقدام كا صرف سبب پوچھا تھا اور اس كے بعد انتہائي غصے اور سختى سے انہيں آگ ميں جلانے كا حكم صادر ہوا تھا ليكن جب آپ(ع) حيرت انگيز طريقے سے آگ سے نجات پاگئے تو پھر اصطلاحى الفاظ ميں''نمرود كے حضور رسائي ہوئي''اور پھر بحث و مباحثے كے ليے بيٹھ سكے_
بہر حال نمرود اپنى حكومت كى وجہ سے بادہ غرور سے سرمست تھا لہذا حضرت ابراہيم(ع) سے پوچھنے لگا تيرا خدا كون ہے_ حضرت ابراہيم(ع) نے كہا: ''وہى جو زندہ كرتا اور مارتا ہے''،حقيقت ميں آپ(ع) نے عظيم ترين شاہكار قدرت كو دليل كے طور پر پيش كيا_ مبداء جہان ہستى كے علم و قدرت كى واضح نشانى يہى قانون موت وحيات ہے ليكن اس نے مكر و فريب كى راہ اختيار كى اور مغالطہ پيدا كرنے كى كوشش كرنے لگا_ لوگوں اور اپنے حمايتيوں كو غافل ركھنے لے لئے كہا وہ تو ميں زندہ كرتا اور مارتا ہوں اور موت و حيات كا قانون ميرے ہاتھ ميں ہے_
قرآن ميں اس كے جملے كے بعد واضح نہيں ہے كہ اس نے اپنے پيدا كئے گئے مغالطے كى تائيد كے لئے كس طرح عملى اقدام كيا ليكن احاديث و تواريخ ميں آيا ہے كہ اس نے فوراًدو قيديوں كو حاضر كرنے كا حكم ديا_قيدى لائے گئے تو اس نے فرمان جارى كيا كہ ايك كو آزاد كردو اور دوسرے كو قتل كردو_ پھر كہنے لگا:تم نے ديكھا كہ موت و حيات كس طرح ميرے قبضے ميں ہے_
يہ امر قابل توجہ ہے كہ حضرت ابراہيم(ع) كى موت و حيات سے متعلق دليل ہر لحاظ سے قوى تھى ليكن دشمن شادہ لوح لوگوں كو جھل دے سكتا تھا لہذا حضرت ابراہيم عليہ السلام نے دوسرا استدلال پيش فرمايا كہ خدا
آفتاب كو افق مشرق سے نكالتا ہے اگر جہاں ہستى كى حكومت تيرے ہاتھ ميں ہے تو تو اسے مغرب سے نكال كر دكھا_
يہاں دشمن خاموش،مبہوت اور عاجز ہوگيا_ اس ميں سكت نہ رہى كہ اس زندہ منطق كے بارے ميں كوئي بات كرسكے_ ايسے ہٹ دھرم دشمنوں كو لاجواب كرنے كايہ بہترين طريقہ ہے_
يہ مسلم ہے كہ موت و حيات كا مسئلہ كئي جہات سے آسمان اور گردش شمس و قمرى كى نسبت پروردگار عالم كے علم و قدرت پر زيادہ گواہى ديتاہے_ اسى بنا_ پر حضرت ابراہيم(ع) نے پہلے وہى مسئلہ پيش كيا اور يہ فطرى امر ہے كہ اگر صاحب فكر اور روشن ضمير افراد اس مجلس ميں ہوں گے تو وہ اسى دليل سے مطمئن ہوگئے ہوں گے كيونكہ ہر شخص اچھى طرح جانتا ہے كہ ايك قيدى كو آزاد كرنا اور دوسرے كو قتل كردينا يہ طبيعى اور حقيقى موت و حيات سے بالكل ربط نہيں ركھتا، ليكن جو لوگ كم عقل تھے اور اس دور كے ظالم حكمران كے پيدا كردہ مغالطے سے متا ثر ہوسكتے تھے ان كى فكر راہ حق سے منحرف ہوسكتى تھى لہذا آپ(ع) نے دوسرا استدلال پيش كيا اور سورج كے طلوع و غروب كا مسئلہ پيش كيا تا كہ حق ہر دو طرح كے افراد كے سامنے واضح ہوجائے_
اس بات كى توجہ كرنا مناسب ہے كہ قرآنى گفتگو سے يہ بات اچھى واضح ہوتى ہے كہ وہ ظالم اپنے بارے ميں الوہيت كا مدعى تھا، يہى نہيں كہ وہ اپنى پرستش كرواتا تھابلكہ اپنے آپ كو عالم ہستى كا پيدا كرنے والابھى بتاتا تھا، يعنى اپنے آپ كو ''معبود'' بھى سمجھتا تھا اور ''خالق'' بھي_
ابراہيم(ع) كے آگ ميں ڈالے جانے كے واقعہ اور اس خطرناك مرحلہ سے ان كى معجزانہ نجات نے نمرودكے اركان حكومت كو لرزہ براندام كرديا،نمرود تو بالكل حواس باختہ ہوگيا كيونكہ اب وہ ابراہيم كو ايك فتنہ كھڑا كرنے والا اور نفاق ڈالنے والا جوان نہيں كہہ سكتا تھا كيونكہ ابراہيم اب ايك خدائي رہبر اور بہادر رہبر كى حيثيت سے پہچانا جاتاتھا اس نے ديكھاكہ ابراہيم اس كے تمام ترطاقت ووسائل كے باوجود اس كے خلاف جنگ كى ہمت ركھتا ہے اس نے سوچا كہ اگر ابراہيم ان حالات ميں اس شہراور اس ملك ميں رہا تو اپنى باتوں
،قوى منطق اور بے نظير شجاعت كے ساتھ ،مسلمہ طور پر اس جابر، خود سراور خود غرض حكومت كےلئے ايك خطرے كا مركز بن سكتا ہے لہذا اس نے فيصلہ كيا كہ ابراہيم كو ہر حالت ميں اس سرزمين سے چلا جانا چاہئے_
دوسرى طرف ابرہيم حقيقت ميں اپنى رسالت كا كام اس سرزمين ميں انجام دے چكے تھے وہ حكومت كى بنيادوںپر يكے بعد ديگرے چكنا چوركرنے والى ضربيں لگا چكے تھے اس سرزمين ميں ايمان وآگاہى كا بيج بوچكے تھے اب صرف ايك مدت كى ضرورت تھى كہ جس سے يہ بيج آہستہ آہستہ بار آور ہواور بت پرستى كى بساط الٹ جائے _
اب ان كے لئے بھى مفيد يہى تھا كہ يہاں سے كسى دوسرى سرزمين كى طرف چلے جائيں اور اپنى رسالت كے كام كو وہاں بھى عملى شكل ديں لہذا انہوں نے يہ ارادہ كرليا كہ لوط (جو آپ كے بھتيجے تھے )اور اپنى بيوى سارہ اور احتمالاً مومنين كے ايك چھوٹے سے گروہ كو ساتھ لے كر اس سرزمين سے شام كى طرف ہجرت كرجائيں _
جيسا كہ قرآن كہتا ہے : ہم نے ابراہيم اور لوط كو ايسى سرزمين كى طرف نجات دى كہ جسے ہم نے سارے جہان والوں كے لئے بركتوں والا بنايا تھا_''(1)
اگرچہ قرآن ميں اس سرزمين كانام صراحت كے ساتھ بيان نہيں ہوا ہے ليكن سورہ بنى اسرائيل كى پہلى آيت(''سبحان الذي_____باركناحولہ''_) پر توجہ كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ اس سے مراد ہى شام كى سرزمين ہے جوظاہرى اعتبار سے بھى پر بركت ، زرخيز اور سرسبز وشاداب ہے اور معنوى لحاظ سے بھى ،كيونكہ وہ انبيا كى پرور ش كا مركز تھى _
ابراہيم (ع) نے يہ ہجرت خود اپنے آپ كى تھى يا نمرود كى حكومت نے انہيں جلاوطن كيا يا يہ دونوں ہى صورتيں واقع ہوئيں ، اس بارے ميں تفاسيروروايات ميں مختلف باتيں بيان كى گئي ہيں ان كا مجموعى مفہوم يہي
(1)سورہ انبياء آيت 71
ہے كہ ايك طرف تو نمرود اور اس كے اركان حكومت ابراہيم(ع) كو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے،لہذا انھوں نے انھيں اس سرزمين سے نكلنے پر مجبور كرديا اور دوسرى طرف ابرہيم(ع) بھى اس سرزمين ميں اپنى رسالت كے كام تقريباً مكمل كرچكے تھے اور اب كسى دوسرے علاقے ميں جانے كے خواہاں تھے كہ دعوت توحيد كو وہاں بھى پھيلائيں خصوصاً بابل ميںباقى رہنے سے ممكن تھا كہ آپ كى جان چلى جاتى اور آپ كى عالمى دعوت نامكمل رہ جاتى _
يہ بات قابل توجہ ہے كہ امام صادق عليہ السلام سے ايك روايت ميں يہ بيان ہوا كہ جس وقت نمرود نے يہ ارادہ كيا كہ ابراہيم كو اس سرزمين سے جلاوطن كردے تو اس نے يہ حكم ديا كہ ابراہيم كى بھيڑيں اور ان كا سارا مال ضبط كرليا جائے اور وہ اكيلاہى يہاں سے باہر جائے حضرت ابراہيم نے ان سے كہا يہ ميرى عمربھر كى كمائي ہے اگر تم ميرا مال لينا چاہتے ہو تو ميرى اس عمر كو جو ميں نے اس سرزمين ميں گزارى ہے مجھے واپس دے دو لہذا طے يہ پايا كہ حكومت كے قاضيوں ميں سے ايك اس بارے ميں فيصلہ دے ،قاضى نے حكم ديا كہ ابراہيم (ع) كا مال لے ليا جائے اور جو عمر انہوں نے اس سرزمين ميں خرچ كى ہے وہ انہيں واپس كردى جائے _
جس وقت نمرود اس واقعے سے آگاہ ہوا تو اس نے بہادر قاضى كے حقيقى مفہوم كو سمجھ ليا اور حكم ديا كہ ابراہيم كا مال اور اس كى بھيڑيں اسے واپس كردى جائيں تاكہ وہ انہيں ساتھ لے جائے اور كہا: مجھے ڈر ہے كہ اگر وہ يہاں رہ گيا تو وہ تمہارے دين وآئين كو خراب كردے گا اور تمہارے خدائوں كو نقصان پہنچائے گا ''_
ايك دن حضرت ابراہيم(ع) دريا كے كنارے سے گزررہے تھے _ آپ نے دريا كے كنارے ايك مردار پڑاہوا ديكھا، اس كا كچھ حصہ دريا كے انداراور كچھ باہر تھا دريا اور خشكى كے جانور دونوں طرف سے اسے كھارہے تھے بلكہ كھاتے كھاتے ايك دوسرے سے لڑنے لگتے تھے ،اس منظر نے حضرت ابراہيم(ع) كو ايك ايسے مسئلہ كى فكر ميں ڈال ديا جس كى كيفيت سب تفصيل سے جاننا چاہتے ہيں اور وہ ہے موت كے بعد مردوں كے زندہ ہونے كى كيفيت ابراہيم(ع) سوچنے لگے كہ اگر ايسا ہى انسانى جسم كے ساتھ ہو اور انسان كا بدن جانوروں كے
بدن كا جزء بن جائے تو قيامت ميں اٹھنے كا معاملہ كيسے عمل ميں آئے گا جب كہ وہاں انسان كو اسى بدن كے ساتھ اٹھنا ہے _
حضرت ابراہيم(ع) نے كہا : خدايا مجھے دكھا كہ تو مردوں كو كيسے زندہ كرے گا؟اللہ تعالى نے فرمايا : كيا تم اس بات پر ايمان نہيں ركھتے؟ انہوں نے كہا: ايمان تو ركھتا ہوں ليكن چاہتاہوں دل كو تسلى ہوجائے _
خدا متعال نے حكم ديا : چار پرندے لے لو اور ان كا گوشت ايك دوسرے سے ملادو پھر اس سارے گوشت كے كئي حصے كردو اور ہر حصہ كو ايك پہاڑپر ركھ دو اس كے بعد ان پرندوں كو پكار و تاكہ ميدان حشر كا منظر ديكھ سكو _ انہوں نے ايسا ہى كيا تو انتہائي حيرت كے ساتھ ديكھا كہ پرندوں كے اجزاء مختلف مقامات سے جمع ہوكر ان كے پاس آگئے ہيں اور ان كى ايك نئي زندگى كا آغاز ہوگيا ہے _
اس سلسلہ ميں قرآن كہتا ہے :
''اس وقت (كو ياد كرو)جب ابراہيم نے كہا : خدايا : مجھے دكھا دے تو كيسے مردوں كو زندہ كرتا ہے ،فرمايا : كيا تم ايمان نہيں لائے _ كہنے لگے : كيوں نہيں، ميں چاہتاہوں ميرے دل كو اطمينان ہوجائے فرمايا : يہ بات ہے تو چار پرندے انتخاب كرلو (ذبح كرنے كے بعد ) انہيں ٹكڑے ٹكڑے كرلو (پھر ان كے گوشت كو آپس ميں ملادو ) پھر ہر پہاڑپر ايك حصہ ركھ دو ، پھر انہيں پكارو ، وہ تيزى سے تمہارے پاس آئےں گے، اور جان لوكہ خدا غالب اور حكيم ہے ''_(1)(وہ مردوں كے اجزائے بدن كو بھى جانتا ہے اور انہيں جمع كرنے كى طاقت بھى ركھتا ہے _)
1_ چار پرندے : اس ميں شك نہيں كہ مذكورہ چار پرندے مختلف قسم كے پرندوں ميں سے تھے كيونكہ اس كے بغير حضرت ابراہيم كا مقصد پورا نہيں ہوسكتاہے _ اس كے لئے ضرورى تھا كہ ہرايك كے اجزاء اس
(1) سورہ بقرہ آيت 259
كے اصلى بدن ميںواپس آئيں اوريہ مختلف قسم كے ہونے كى صورت ميں ہى ظاہر ہوسكتا تھا _ مشہور روايت كے مطابق وہ چار پرندے اس طرح تھے مور، مرغ ،كبوتر اور كوا جو كہ كئي پہلوئوں سے ايك دوسرے سے بہت مختلف ہيں _
بعض ان پرندوں كو انسانوں كى مختلف صفات اور جذبات كا مظہر سمجھتے ہيں _
مور: خود نمائي، زيبائشے اور تكبركا مظہر ہے _
مرغ : شديد جنسى ميلانات كا مظہرہے_
كبوتر : لہوولعب اور كھيل كود كا مظہر ہے _
كوا: لمبى چوڑى آرزئوں اور تمنائوں كا مظہر ہے _
2_ پہاڑوں كى تعداد : جن پہاڑوں پر حضرت ابراہيم عليہ السلام نے پرندوں كے اجزاركھے تھے ان كى تعدا كى صراحت قرآن حكيم ميں نہيں ہے ليكن روايات اہل بيت ميں يہ تعداد دس بتائي گئي ہے _(1)
3_ واقعہ كب رونماہوا : جب حضرت ابراہيم بابل ميں تھے يا جب شام چلے آئے تھے ،يوں لگتا ہے ،يہ شام ميں آنے كے بعد كا واقعہ ہے كيونكہ سرزمين بابل ميں پہاڑنہيں ہيں _
سالہا گذرگئے كہ جناب ابراہيم(ع) نے اس صالح فرزند كے انتظار اور خواہش ميں زندگى بسركرتے رہے، انھوں نے عرض كيا:'' پروردگارا: مجھے ايك فرزند صالح عطا فرما_''(2)
آخر كار خدا نے ان كى دعا قبول كرلي، پہلے انھيںاسماعيل(ع) اور پھر اسحاق(ع) مرحمت فرمايا كہ جن ميں سے ہر ايك بزرگ پيغمبر اور صاحب منزلت تھے_
(1)اسى لئے بعض روايات ميں آيا ہے كہ اگر كوئي شخص وصيت كرجائے كہ اس كے مال كا ايك جزء فلاں سلسلے ميں صرف كرنا اور اس كى مقدار معين نہ كرجائے تو مال كا دسواں حصہ دينا كافى ہے _
(2)سورہ صافات آيت 100
آپ نے اپنى كنيزہاجرہ كو اپنى بيوى بناليا تھا _ اس سے انہيں اسماعيل جيسا بيٹا نصيب ہوا آپ كى پہلى بيوى سارہ نے ان سے حسد كيا يہى حسد سبب بنا كہ آپ ہاجرہ اور اپنے شيرخوار بچے كو حكم خدا سے فلسطين سے لے كر مكہ كى جلتى ہوئي سنگلاخ پہاڑوں كى سرزمين ميں لے گئے يہ وہ علاقہ تھا جہاں پانى كى ايك بوند بھى دستياب نہ تھى آپ(ع) حكم خدا سے ايك عظيم امتحان سے گزرتے ہوئے انہيں وہاں چھوڑ كر واپس فلسطين آگئے _
وہاں چشمہ زمزم پيدا ہوا اس اثنا ميں جرہم قبيلہ ادھر سے گزرا اس نے جناب ہاجرہ سے وہاں قيام كى اجازت چاہى __گويا واقعات كا ايك طولانى سلسلہ ہے كہ جو اس علاقے كى آبادى كا باعث بنا_
حضرت ابراہيم (ع) نے خدا سے دعا كى تھى كہ اس جگہ كو آباد اور پر بركت شہر بنادے اور لوگوں كے دل ميرى اولاد كى طرف مائل كردے ان كى اولاد وہاں پھلنے پھولنے لگى تھى _(1)
يہ بات جاذب نظر ہے كہ بعض مو رخين نے نقل كيا ہے كہ جب حضرت ابراہيم ہاجرہ اور شير خوار اسماعيل كو مكہ ميں چھوڑ كر واپس جانا چاہتے تھے تو جناب ہاجرہ نے فرياد كي: اے ابراہيم(ع) آپ كو كس نے حكم ديا ہے كہ ہميں ايسى جگہ پر چھوڑ جائيں كہ جہاں نہ كوئي سبزہ ہے ، نہ دودھ دينے والا كوئي جانور،يہاں تك كہ يہاں پانى كا ايك گھونٹ بھى نہيں ہے آپ پھر بھى ہميں بغير زادو توشہ اور مونس ومدد گار كے چھوڑے جارہے ہيں _
حضرت ابراہيم(ع) نے مختصر سا جواب ديا : ميرے پروردگار نے مجھے يہى حكم ديا ہے _
ہاجرہ نے يہ سنا تو كہنے لگيں: اگر ايسا ہے تو پھر خدا ہرگز ہميں يونہى نہيں چھوڑے گا _
ابراہيم(ع) نے حكم خدا كى اطاعت كى اور انہيں سرزمين مكہ ميں لے گئے جو ايسى خشك اور بے آب وگياہ تھى كہ وہاں كسى پرندے كا بھى نام ونشان نہ تھا جب ابراہيم انہيں چھوڑ كر تنہا واپس ہولئے تو ان كى اہليہ رونے لگيںكہ ايك عورت اور ايك شيرخوار بچہ اس بے آب وگياہ بيابان ميں كيا كريں گے_
اس خاتون كے گرم آنسو اور ادھر بچے كا نالہ ودزارى اس منظرنے ابراہيم(ع) كا دل ہلاكے ركھ ديا _
(1)سورہ ابراہيم ايت 37 تا 41
انہوں نے بارگاہ الہى ميں ہاتھ اٹھائے اور عرض كيا:
خدا وندا: ميں تيرے حكم پر اپنى بيوى اور بچے كو اس جلادينے والے بے آب وگياہ بيابان ميں تنہا چھوڑ رہا ہوں، تاكہ تيرا نام بلند اور تيرا گھر آباد ہو_
يہ كہہ كر غم واندوہ اور شديد محبت كے عالم ميں الوداع ہوئے _
زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ ماں كے پاس آب وغذا كا جو توشہ تھا ختم ہوگيا اور اس كى چھاتى كا دودھ بھى خشك ہوگيا شير خوار بچے كى بے تابى اور تضرع وزارى نے ماں كو ايسا مضطرب كرديا كہ وہ اپنى پياس بھول گئي وہ پانى كى تلاش ميں اٹھ كھڑى ہوئي، پہلے كوہ صفا كے قريب گئي تو پانى كا كوئي نام ونشان نظر نہ آيا، سراب كى چمك نے اسے كوہ مروہ كى طرف كھينچا تو وہ اس كى طرف دوڑى ليكن وہاں بھى پانى نہ ملا، وہاں ويسى چمك صفاپر دكھائي دى تو پلٹ كر آئي، زندگى كى بقاء اور موت سے مقابلہ كے لئے اس نے سات چكر لگائے، آخر شيرخوار بچہ زندگى كى آخرى سانسيں لينے لگا كہ اچانك اس كے پائوں كے پاس انتہائي تعجب خيز طريقہ سے زمزم كا چشمہ ابلنے لگا، ماں اور بچے نے پانى پيا اور موت جو يقينى ہوگئي تھى اس سے بچ نكلے_
زمزم كا پانى گويا آب حيات تھا، ہر طرف سے پرندے اس چشمہ كى طرف آنے لگے، قافلوں نے پرندوں كى پروازديكھى تو اپنے رُخ كو اس طرف موڑديا اور ظاہراً ايك چھوٹے سے خاندان كى فداكارى كے صلے ميں ايك عظيم مركز وجود ميں آگيا_
آج خانہ خدا كے پاس اس خاتون اور اس كے فرزند اسماعيل (ع) كا مسكن ہے، ہر سال تقريباً 20 / لاكھ افراد اطراف عالم سے آتے ہيں ان كى ذمہ دارى ہے كہ اس مسكن كو جسے مقام اسماعيل كہتے ہيں اپنے طواف ميں شامل كريں گويا اس خاتون اور اس كے بيٹے كے مدفن كو كعبہ كا جز ء سمجھيں_
اسماعيل كا سن 13 /سال كا تھا كہ حضرت ابراہيم نے ايك عجيب اور حيرت انگيز خواب ديكھا ،يہ خواب اس عظيم الشان پيغمبر كے لئے ايك اور آزمائشے كو بيان كرتا تھا _ انھوں نے خواب ديكھا كہ انھيں خدا كى طرف
سے يہ حكم ديا گيا ہے كہ وہ اپنے اكلوتے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے قربانى كريں اور اسے ذبح كرديں _
ابراہيم(ع) وحشت زدہ خواب سے بيدار ہوئے ،وہ جانتے تھے كہ پيغمبروں كے خواب حقيقت اور شيطانى وسو سوں سے دور ہوتے ہيں ليكن اس كے باوجود دو راتوں ميں بھى يہى خواب ديكھا جو اس امر كے لازم ہونے اور اسے جلد انجام دينے كے لئے تاكيد تھى _
كہتے ہيں كہ پہلى مرتبہ '' شب ترويہ'' (آٹھ ذى الحجہ كى رات ) يہ خواب ديكھا اور '' عرفہ '' اور '' عيد قربان '' (نويں اور دسويںذى الحجہ ) كى راتوں ميں خواب كا تكرار ہوا _ لہذا اب ان كے لئے ذراسا بھى شك باقى نہ رہا كہ يہ خدا كا قطعى فرمان ہے _
ابراہيم(ع) جو بار ہا امتحان خداوندى كى گرم بھٹى سے سرفراز ہو كر باہر آچكے تھے،اس دفعہ بھى چاہئے كہ بحر عشق ميں كود پڑيں اور خداوند عالم كے فرمان كے سامنے سرجھكاديں،اور اس فرزند كو جس كے انتظار ميں عمر كا ايك حصہ گذارديا تھا اور اب وہ ايك آبرومند نوجوان تھا، اسے اپنے ہاتھ سے ذبح كرديں _
ليكن ضرورى ہے كہ ہر چيز سے پہلے اپنے فرزند كو اس كام كے لئے آمادہ كريں ، لہذا اس كى طرف رخ كركے فرمايا :'' ميرے بيٹے : ميں نے خواب ديكھا ہے كہ ميں تجھے ذبح كررہاہوں ، اب تم ديكھو: تمہارى اس بارے ميں كيا رائے ہے ''؟ (1)
بيٹا بھى تو ايثار پيشہ باپ كے وجود كا ايك حصہ تھا اور جس نے صبرو استقامت اور ايمان كا درس اپنى چھوٹى سى عمر ميں اسى كے مكتب ميں پڑھا تھا ، اس نے خوشى خوشى خلوص دل كے ساتھ اس فرمان الہى كا استقبال كيا اور صراحت اور قاطيعت كے ساتھ كہا:
''اباجان : جو حكم آپ كو ديا گيا ہے اس كى تعميل كيجئے''_(2)
ميرى طرف سے بالكل مطمئن رہئے_ '' انشاء اللہ آپ مجھے صابرين ميں سے پائيں گے ''_(3)
(1)سورہ صافات آيت102
(2) سورہ صافات آيت 102
(3)سورہ صافات آيت102
باپ اور بيٹے كى يہ باتيں كس قدر معنى خيز ہيں اور كتنى باريكياں ان ميں چھپى ہوئي ہيں _
ايك طرف تو باپ، 13/ سالہ بيٹے كے سامنے اسے ذبح كرنے كى بات بڑى صراحت كے ساتھ كرتا ہے اور اس سے اس كى رائے معلوم كرتا ہے اس كے لئے مستقل شخصيت اور ارادے كى آزادى كا قائل ہوتا ہے ، وہ ہرگز اپنے بيٹے كو دھوكے ميں ركھنا نہيں چاہتا اور اسے اندھيرے ميں ركھتے ہوئے امتحان كے اس عظيم ميدان ميں آنے كى دعوت نہيں ديتا وہ چاہتا ہے كہ بيٹا بھى اس عظيم امتحان ميں پورے دل كے ساتھ شركت كرے اور باپ كى طرح تسليم ورضا كا مزہ چكھے _
دوسرى طرف بيٹا بھى يہ چاہتا ہے كہ باپ اپنے عزم وارادہ ميں پكااور مضبوط رہے، يہ نہيں كہتا كہ مجھے ذبح كريں بلكہ كہتا ہے : جوآپ كو حكم ديا گيا ہے اسے بجالائيں ميں اس كے امرو فرمان كے سامنے سر تسليم خم ہوں ،خصوصاً باپ كو '' يا ابت '' (ابا جان :) كہہ كر مخاطب كرتا ہے ،تاكہ اس بات كى نشاندہى كردے كہ اس مسئلے پر جذبات فرزندو پدر كاسوئي كى نوك كے برابر بھى اثر نہيں ، كيونكہ فرمان خدا ہر چيز پر حاكم ہے _
اور تيسرى طرف سے پروردگار كى بارگاہ ميں مراتب اداب كى اعلى ترين طريقے سے پاسدارى كرتا ہے ،ہرگز اپنے ايمان اور عزم وارادہ كى قوت پر بھروسہ نہيں كرتا ، بلكہ خدا كى مشيت اور اس كے ارادہ پر تكيہ كرتاہے اور اس عبادت كے ساتھ اس سے پامردى اور استقامت كى توفيق چاہتاہے _
اس طرح سے باپ بھى اور بيٹا بھى اس عظيم آزمائشے كے پہلے مرحلے كو مكمل كاميابى كے ساتھ گزارديتے ہيں_
شيطان نے بہت ہاتھ پائوں مارے كہ كوئي ايسا كام كرے كہ حضرت ابراہيم(ع) اس ميدان سے كامياب ہوكر نہ نكليں ، كبھى وہ (اسمعيل كي) ماں ہاجرہ كے پاس آيا اور ان سے كہا:كيا تمھيں معلوم ہے كہ ابراہيم نے كيا ارادہ كيا ہے ؟ وہ چاہتاہے كہ آج اپنے بيٹے كو ذبح كردے_
ہاجرہ نے كہا: دورہوجا ، محال اور نہ ہونے والى بات نہ كر، كيونكہ وہ تو بہت مہربان ہے اپنے بيٹے كو
كيسے ذبح كرسكتا ہے ؟ اصولاً كيا دنيا ميں كوئي ايسا انسان پيدا ہوسكتا ہے جو اپنے بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كردے ؟
شيطان نے اپنے وسوسہ كو جارى ركھتے ہوئے كہا: اس كا دعوى ہے كہ خدانے اسے حكم ديا ہے _ ہاجرہ نے كہا : اگر خدا نے اسے حكم ديا ہے تو پھر اسے اطاعت كرنا چاہيے، اور سوائے رضاو تسليم كے كوئي دوسرى راہ نہيں ہے _
پھر شيطان ان كے بيٹے اسماعيل(ع) كے پاس آيا،اور انھيں ورغلانے لگا ،ان سے بھى اسے كچھ حاصل نہ ہوسكا، كيونكہ اس نے اسماعيل (ع) كو تسليم ورضا كا پيكر پايا _
آخرميں حضرت ابراہيم (ع) كے پاس آيا اور ان سے كہا: ابراہيم(ع) : جو خواب تم نے ديكھا ہے وہ شيطانى خواب ہے، تم شيطان كى اطاعت نہ كرو _
ابراہيم (ع) نے نور ايمان اور نبوت كے پر تو ميں اسے پہچان ليا : چلاكر كہا: ''دورہوجااے دشمن خدا _''
ايك حديث ميںمنقول ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) پہلے'' مشعرالحرام'' ميں آئے تاكہ بيٹے كى قربانى ديں، تو شيطان ان كے پيچھے دوڑا _ وہ'' جمرہ اولى '' كے پاس آئے شيطان كو ديكھا ، اس كو سات پتھر مارے، اس كے بعد وہاں سے جمرہ دوم پر ائے وہاں شيطان كو ديكھا تو دوبارہ سات پتھراسے مارے يہاںتك كہ '' جمرہ عقبہ '' ميں آئے تو سات اور پتھراسے مارے _(اور اسے ہميشہ ہميشہ كے لئے اپنے سے مايوس كرديا)_
اس دوران كيا كيا حالات پيش آئے، قرآن نے انھيں تشريح كے ساتھ بيان نہيں كيا اور صرف اس عجيب ماجرے كے نہايت حساس پہلو ذكركئے ہيں _
بعض نے لكھا ہے كہ فدا كار بيٹے نے اس بنا پر كہ باپ كى اس ماموريت كى انجام دہى ميں مدد كرے اور ماں كے رنج واندوہ ميں كمى كرے جس وقت وہ اسے سرزمين '' منى ''كے خشك اور جلاڈالنے والے گرم
پہاڑوں كے درميان ، قربان گاہ ميں لائے توباپ سے كہا: اباجان :رسى كو مضبوطى كے ساتھ باندھ ديجئے، تاكہ ميں فرمان خداوندى كے اجراء كے وقت ہاتھ پائوں نہ ہلا سكوں ،مجھے ڈرہے كہ كہيں اس سے ميرے اجر ميں كمى واقع نہ ہوجائے _
اباجان :چھرى تيزكر ليجيے اور تيزى كے ساتھ ميرے گلے پر چلايئےاكہ اسے برداشت كرنا مجھ پر بھى (اور آپ پر بھى ) زيادہ آسان ہوجائے_
اباجان : ميرا كرتا پہلے ہى ميرے بدن سے اتار ليجئے تاكہ وہ خون آلودنہ ہو، كيونكہ مجھے خوف ہے كہ كہيں ميرى ماں اسے ديكھے تو دامن صبر اس كے ہاتھ سے نہ چھوٹ جائے_
پھر مزيد كہا: ميرا سلام ميرى ماں كو پہنچاديجئے گا اور اگر كوئي امر مانع نہ ہو تو ميرا كرتا اس كے لئے لے جايئےا جو اسكى تسلى خاطر اور تسكين كا باعث بنے گا كيونكہ وہ اس سے بيٹے كى خوشبوسونگھے گى اور جس وقت دل بے قرار ہوگا تو اسے اپنى آغوش ميں لے لے گى اس طرح يہ اس كے درددل ميں تخفيف كا باعث ہوگا _
آخروہ حساس لمحے آن پہنچے جب فرمان الہى كى تعميل ہونا تھى حضرت ابراہيم(ع) نے جب بيٹے كے مقام تسليم كو ديكھا، اسے اپنى آغوش ميں لے ليا، اس كے ر خساروں كے بوسے لئے اوراس گھڑى دونوں رونے لگے _ ايسا گريہ تھا كہ ان كے جذبات اور لقائے خدا كےلئے ان كا شوق ظاہر ہوتا تھا _
قرآن مختصر اور معنى خيز عبارت ميں صرف اتنى سى بات كہتا ہے : ''جب دونوں آمادہ وتيار ہوگئے اور (باپ ) ابراہيم (ع) نے بيٹے كو ماتھے كے بل لٹايا''(1)
قرآن يہاں پھر اختصار كے ساتھ گزرگيا ہے اور سننے والے كو اجازت ديتا ہے كہ وہ اپنے احساسات كى موجوں كى ساتھ قصے كو سمجھے _
(1) سورہ صافات آيت 103
بعض نے كہا ہے كہ '' تلہ للجبين ''_سے مراد يہ تھى كہ پيشانى خود اس كى فرمائشے پر زمين پر ركھى كہ مبادان كى نگاہ بيٹے كے چہرے پر پڑے اور پدرى جذبات جوش ميں آجائيں اور فرمان خدا كے اجراء ميں مانع ہوجائيں _
بہرحال حضرت ابراہيم نے بيٹے كے چہرے كو خاك پر ركھا اور چھرى كو حركت دى اور تيزى اور طاقت كے ساتھ اسے بيٹے كے گلے پر پھير ديا جب كہ ان كى روح ہيجان ميں تھى اور صرف عشق خداہى انھيں اپنى راہ ميں كسى شك كے بغير آگے بڑھا رہاتھا _
ليكن تيزدھار چھرى نے بيٹے كے لطيف ونازك گلے پر معمولى سا بھى اثر نہ كيا _
حضرت ابراہيم(ع) حيرت ميں ڈوب گئے ،دوبارہ چھرى كو چلايا ، ليكن پھر بھى وہ كار گر ثابت نہ ہوئي ، ہاں : خليل تو كہتے ہيں كہ ''كاٹ'' ليكن خدا وند جليل يہ حكم دے رہا ہے كہ ''نہ كاٹ '' اور چھرى تو صرف اسى كى فرمانبردارہے _
يہ وہ منزل ہے كہ جہاں قرآن ايك مختصر اور معنى خيز جملے كے ساتھ انتظار كو ختم كرتے ہوئے كہتا ہے:'' اس وقت ہم نے ندادى (اور پكار كر كہا ) كہ اے ابراہيم : خواب ميںجو حكم تمھيں ديا گيا تھا وہ تم نے پورا كرديا ،ہم نيكو كاروں كو اسى طرح جزا ديا كرتے ہيں_ '' (1)
ہم ہى انھيں امتحان ميں كاميابى كى توفيق ديتے ہيں اور ہم ايسا بھى نہيں ہونے ديں گے كہ ان كا فرزند دل بندان كے ہاتھ ہى سے چلاجائے ہاں: جو شخص سرتاپا ہمارے حكم كے سامنے سر تسليم خم كئے ہوئے ہے اوراس نے نيكى كو اعلى حد تك پہنچا ديا ہے ، اس كى اس كے سوااور كوئي جزا نہيں ہوگى _
اس كے بعد مزيد كہتا ہے :'' بے شك يہ اہم اور آشكار امتحان ہے _'' (2)
بيٹے كو اپنے ہاتھ سے ذبح كرنا ، وہ بھى نيك اور لائق بيٹا ،اس باپ كے لئے جس نے ايك عمر ايسے
(1)سورہ صافات آيات 104
(2) سورہ صافات آيات 106
فرزند كے انتظار ميں گذارى ہو، آسان كام نہيں ہے _ ايسے فرزندكى ياد كس طرح دل سے نكال سكتا تھا ؟اس سے بھى بالا تر يہ كہ وہ انتہائي تسليم ورضا كے ساتھ ماتھے پرشكن لائے بغير ايسے فرمان كى تعميل كے لئے آگے بڑھے اور اس كے تمام مقدمات كو آخرى مرحلے تك انجام دے ، اس طور پر كہ روحانى اور عملى آمادگى كے لحاظ سے كوئي كسرباقى نہ چھوڑے _
اس سے بھى بڑھ كر عجيب، اس فرمان كے آگے اس نوجوان كى اطاعت شعارى كى انتہا ،وہ خوشى خوشى ، اطمينان قلب كے ساتھ پروردگار كے لطف سے ، اس كے ارادے كے سامنے ، سرتسليم خم كرتے ہوئے ، ذبح كے استقبال كےلئے آگے بڑھا _
جس وقت يہ كام انجام پاچكا تو جبرئيل نے (تعجب كرتے ہوئے )پكاركر كہا '' اللّہ اكبر'''' اللّہ اكبر'' ابراہيم(ع) كے فرزندنے كہا : '' لاالہ الااللّہ و اللّہ اكبر ''_اور عظيم فداكار باپ نے بھى كہا '' اللّہ اكبر واللّہ الحمد '' _
اور يہ ان تكبيروں كے مشابہ ہے جو ہم عيد قربان كے دن پڑھتے ہيں _
ہم جانتے ہيں كہ اسلامى روايات ميں عيد الاضحى كے بارے ميں جو احكام آئے ہيں ان ميں كچھ مخصوص تكبيريں ہيں جو تمام مسلمان پڑھتے ہيں چاہے وہ مراسم حج ميں شريك ہوں اوريا منى ميں موجود ہوں اور چاہے دوسرے مقامات پر ہوں _ فرق اتنا ہے كہ جو منى ميں ہيں وہ ان نمازوں كے بعد پڑھتے ہيں جن سے پہلى عيد كے دن كى نماز ظہر ہے اور جو منى ميں نہيں ہوتے وہ ان نمازوں كے بعد تكرار كرتے ہيں اور ان تكبيرات كى صورت اس طرح ہے :
'' اللّہ اكبر، اللّہ اكبر، لاالہ الاللّہ ، اللّہ اكبر ، اللّہ اكبر، وللّہ الحمد، اللّہ اكبر على ماھدانا ''_
جس وقت ہم اس حكم كا اس حديث كے ساتھ موازنہ كركے ديكھتے ہيں ، جسے ہم پہلے نقل كرچكے
ہيں_ تو معلوم ہوتا ہے كہ يہ تكبيريں حقيقت ميں جبرئيل(ع) اور اسماعيل (ع) اور ان كے باپ ابراہيم كى تكبيروں كا مجموعہ ہيں، اور كچھ اس پراضافہ ہے _دوسرے لفظوں ميں يہ الفاظ حضرت ابراہيم(ع) اور حضرت اسماعيل كى اس عظيم آزمائشے ميں كاميابى كى ياد لوگوں كى نظروںميں زندہ كرتے ہيں ، اور تمام مسلمانوں كو ايك پيغام الہى ديتے ہيں چاہے وہ منى ميں ہوں يا منى كے علاوہ دوسرے مقامات پر _''(1)
ليكن اس غرض سے كہ ابراہيم(ع) كا پروگرام بھى نامكممل نہ رہ جائے اور خدا كى بارگاہ ميں ان كى طرف سے قربانى بھى ہوجائے اور ابرہيم كى آرزو پورى ہوجائے ، خدا نے ايك بہت بڑا مينڈھا بھيج ديا تاكہ بيٹے كى جگہ اس كى قربانى كريں اور مراسم '' حج'' اور سرزمين '' منى '' ميں آنے والوں كے لئے اپنى سنت چھوڑجائيں چنانچہ قرآن كہتا ہے :'' ہم نے ذبح عظيم كو اس كا فديہ قرارديا _''(2)(2)
اس ذبح كى عظمت كى ايك نشانى يہ ہے كہ زمانہ گذرنے كے ساتھ ساتھ ہر سال زيادہ وسعت پارہى ہے _
اس وقت ہر سال اس ذبح عظيم كى ياد ميں بيس لاكھ سے زيادہ'' منى ''ميں جانورذبح كيے جاتے ہيں اوراس ياد كو زندہ كيا جاتاہے_
(1) سورہ حجر آيت 51
(2)سورہ صافات آيات 107
(3) اس بارے ميں كہ اس ذبح كى عظمت كس لحاظ سے تھى ، جسمانى اور ظاہرى لحاظ سے يااس جہت سے كہ فرزند ابراہيم كا فديہ تھى يا اس لحاظ سے كہ خدا كى راہ ميں اور خداكے لئے تھى يا اس لحاظ سے كہ قربانى خدا كى طرف سے ابراہيم كے لئے بھيجى گئي تھى _
مفسرين نے اس سلسلے ميں بہت كچھ كہا، ليكن كوئي مانع نہيں كہ يہ تمام جہات ذبح عظيم ميں جمع ہوں اور وہ مختلف جہات سے عظمت كى حامل ہو_
وہ بہت بڑامينڈھا ابراہيم كو كس طرح ديا گيا اس بارے ميں زيادہ تر اس بات كے معتقد ہيں كہ اسے جبرئيل لائے تھے ، بعض يہ بھى كہتے ہيں كہ وہ ''مني'' كے پہاڑوں كے دامن سے نيچے اتراتھا _ بہرحال جو كچھ بھى تھا خدا كے حكم اور اس كے ارادے سے تھا ،خدانے نہ صرف اس دن كے عظيم امتحان ميں حضرت ابراہيم كى كاميابى كى تعريف وتوصيف كى بلكہ اس كى ياد كو جاويدانى بناديا _
جيسا كہ قرآن ميں فرمايا گيا ہے :''ہم نے ابراہيم كے نيك نام كوبعد كى امتوں ميں باقى رہنے والا بنايا _'' (1)
وہ آنے والى سب نسلوں اور لوگوں كے لئے نمونہ اور تمام پاكباز اور كوئے دوست كے دلدادہ عاشقوں كے لئے راہنمابن گئے اور ہم نے ان كے طرز عمل كو رہتى دنيا تك كے لئے حج كى سنت كے طور پر جاويدانى بناديا وہ عظيم پيغمبروں كے باپ تھے وہ امت اسلامى اور پيغمبر اسلام كے باپ تھے _
'' ابراہيم پر سلام (جو مخلص اور پاكباز تھے) _'' (2)ہاں '' ہم اسى طرح سے نيكو كاروں كو بدلہ ديا كرتے ہيں _''(3) عظمت دنيا كاصلہ، تمام زمانوں ميں باقى رہنے والا كاصلہ ،خدائے برزگ كے لائق درودوسلام كاصلہ _
اس بارے ميں كہ حضرات ابراہيم كے دونوں فرزندوں (اسماعيل (ع) اور اسحاق (ع) ) ميں سے كون قربان گاہ ميں لايا گيا اور كس نے ذبيح اللہ كا لقب پايا؟ مفسرين كے درميان شديد بحث ہے ايك گروہ حضرت اسحاق (ع) كو '' ذبيح'' جانتا ہے اور ايك جماعت حضرت اسماعيل (ع) ،كو پہلے نظريہ كو بہت سے مفسرين اہل سنت اور دوسرے نظريہ كو مفسرين شيعہ نے اختيار كيا ہے ،ليكن جو كچھ قرآن كى مختلف آيات كے ظاہر سے ہم آہنگ ہے وہ يہى ہے كہ '' ذبيح'' '' اسماعيل (ع) '' تھے_
(1)سورہ صافات آيت 108
(2)سورہ صافات آيت 109
(3) سورہ صافات آيت110
يہ امر جاذب نظر ہے كہ بات حضرت ابراہيم عليہ السلام كے مہمانوں كے واقعہ سے شروع كى گئي ہے (وہى فرشتے كہ جو آپ كے پاس انسانى لباس ميں آئے تھے پہلے انھوں نے آپ كو ايك ذى وقاربيٹے كى پيدائشے كى بشارت دى اور پھر قوم لوط كے دردناك انجام كى خبردى )_
ارشادفرمايا : ميرے بندوںكو ابراہيم كے مہمانوں كے بارے ميں خبردو _'' (1)
يہ بن بلائے مہمان وہى فرشتے تھے جنہوں نے '' ابراہيم (ع) كے پاس پہنچ كر پہلے انجانے طور پر اسے سلام كيا _'' (2)
جيسا كہ ايك بزرگوار ميزبان كا فريضہ ہے، ابراہيم(ع) نے ان كى پذيرائي كا اہتمام كيا فورا ًان كےلئے مناسب غذافراہم كى ليكن جب دسترخوان بچھايا گيا تو انجانے مہمانوں نے غذا كى طرف ہاتھ نہ بڑھايا تو حضرت ابراہيم(ع) كو اس پر وحشت ہوئي ،انھوںنے اپنى پريشانى چھپائي نہيں صراحت سے ان سے كہا: ''ہم تم سے خوفزدہ ہيں_ '' (3)
يہ خوف اس رواج كى بناء پر تھا كہ اس زمانے ميں اور بعد ميں بھى بلكہ ہمارے زمانے تك بعض قوموں كا معمول ہے كہ جب كوئي شخص كسى كا نان نمك كھاليتا ہے تو اسے ضرر نہيں پہنچاتااور اپنے آپ كو اس كا ممنون احسان سمجھتا ہے لہذا كھانے كى طرف ہاتھ نہ بڑھانے كو برا سمجھتا ہے اور اسے كينہ وعداوت كى دليل شمار كيا جاتاہے _
ليكن زيادہ ديرنہ گذرى تھى كہ فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو پريشانى سے نكال ديا اور ''ان سے كہا :'' ڈرو نہيں ہم تجھے ايك عالم ودانا بيٹے كى بشارت ديتے ہيں_'' (4)
(1) سورہ حجر آيت 51
(2) سورہ حجر آيت 52
(3) سورہ حجر آيت52
(4)سورہ فجر آيت 53
يہ كہ غلام عليم(صاحب علم لڑكے ) سے كون مراد ہے؟ قرآن كى ديگر آيات كو سامنے ركھتے ہوئے واضح ہوجاتاہے كہ اس سے مراداسحاق ہيں كيونكہ فرشتوں نے جب حضرت ابراہيم كو يہ بشارت دى تو ان كى بيوى سارہ جوظاہراً ايك بانجھ عورت تھى وہ بھى موجود تھى انھوں نے اسے بھى يہ بشارت دي_(1)
ہم يہ بھى جانتے ہيں كہ سار ہ حضرت اسحاق عليہ السلام كى والدہ تھيں اس سے پہلے حضرت ابراہيم عليہ السلام حضرت ہاجرہ سلام اللہ عليہا سے صاحب اولاد تھے حضرت اسماعيل عليہ السلام ان كے فرزند تھے ( حضرت ہاجرہ وہ كنيزتھيں جنھيں حضرت ابراہيم نے زوجيت كے لئے انتخاب كيا تھا ) ليكن حضرت ابراہيم(ع) اچھى طرح جانتے تھے كہ طبيعى اصولوں كے لحاظ سے ان سے ايسے بيٹے كى پيدائشے بہت بعيد ہے اگرچہ خدا كى قدرت كاملہ كے لئے كوئي چيز محال نہيں ہے، مگر انھوں نے معمول كے طبيعى قوانين كى طرف توجہ كى جس نے ان كے تعجب كو ابھارا لہذا انھوں نے كہا مجھے ايسى بشارت ديتے ہو حالانكہ ميں بڑھاپے كى عمر كو پہنچ گيا ہوں،واقعاً مجھے كس چيز كى بشارت دے رہے ہو _(2)
''كيا تمہارى يہ بشارت حكم الہى سے ہے يا خود تمہارى طرف سے ہے صراحت سے كہو تاكہ مجھے زيادہ اطمينان ہو''_
''ممكن ہے كہا جائے كہ اس لحاظ سے ابراہيم ايك اچھے تجربے سے گذرے تھے كہ بڑھاپے ميں ہى ان كے بيٹے اسماعيل پيدا ہوئے تھے لہذا نئے بيٹے يعنى حضرت اسحاق كى پيدائشے كے بارے ميں انھيں تعجب نہيں كرنا چاہئے تھا ليكن معلوم ہونا چاہئے ،كہ بعض مفسرين كے بقول حضرت اسماعيل اور حضرت اسحاق كى پيدائشے ميں دس سال سے زيادہ كا فاصلہ تھا لہذابڑھاپے ميں دس سال گذر جائيں تو بچے كى پيدائشے كا احتمال بہت ہى كم ہوتا ہے_
(1) سورہ ہودكى آيہ 71ميں ہے''اس كى بيوى كھڑى تھى ،وہ ہنسى اور ہم نے اسے اسحاق كى بشارت دي''
(2)سورہ حجر ايت 54
ثانياً اگر كوئي واقعہ خلاف معمول ہو اگر چہ استثنائي طورپر ہو،اس سے مشابہ مواقع پر تعجب كرنے سے مانع نہيں ہے''_
كيونكہ ايسے سن وسال ميں بچے كى پيدائشے بہرحال ايك امر عجيب ہے ،كہتے ہيں كہ جناب اسماعيل كى پيدائشے كے وقت جناب ابرہيم (ع) كى 99/ سال كى عمر تھى اور جناب اسماعيل كى ولادت كے وقت 112/كى عمر ہوچكى تھي_(1)
بہرحال فرشتوں نے حضرت ابراہيم عليہ السلام كو ترد د يازيادہ تعجب كا موقع نہ ديا ، اور ان سے صراحت وقاطعيت سے كہا ہم تجھے حق كے ساتھ بشارت دے رہے ہيں_ ''(2)
وہ بشارت كہ جوخدا كى طرف سے ہے اور اس كے حكم سے ہے اسى بناء پر يہ حق ہے مسلم ہے _
اس كے بعد اس لئے كہ مبادا ابراہيم مايوس ونااميد ہوں تاكيد كے طور پر كہنے لگے : ''اب جبكہ ايسا ہے تو مايوس ہونے والوں ميں سے نہ ہو ''_
ليكن ابراہيم عليہ السلام نے فوراً ان كے اس خيال كودور كرديا كہ يہاں پر مايوسى اوررحمت خدا سے نااميدى كا غلبہ نہيں ہے اور واضح كيا كہ يہ تو صرف طبيعى معمولات كے حوالے سے تعجب ہے، لہذا صراحت سے كہا: گمراہوںكے سوا اپنے پروردگار كى رحمت سے كون مايوس ہوگا_''(3)
وہى گمراہ كہ جنھوںنے خدا كواچھى طرح نہيں پہچانا اور اس كى بے پاياں قدرت پر ان كى نگاہ نہيں _ وہ خدا كہ جو مشت خاك سے ايسا عجيب وغريب انسان پيدا كرتا ہے اور ناچيز نطفہ سے ايك مكمل بچہ وجود ميں لاتاہے خرمے كا خشك درخت جس كے حكم سے پھل سے لدجاتاہے اور جلانے والى آگ جس كے حكم سے گلزار ہوجاتى ہے، كون شخص ايسے پروردگار كى قدرت ميں شك كرے يا اس كى رحمت سے مايوس ہو _
(1)سورہ حجر ايت 55
(2) سورہ حجر آيت53
(3)سورہ حجر آيت 55
قرآن كى مختلف آيات،احاديث اور تو اريخ اسلامى سے واضح ہوتا ہے خانہ كعبہ حضرت ابراہيم سے پہلے ،بلكہ حضرت آدم (ع) كے زمانے ميں موجود تھا كيونكہ سورہ ابراہيم ميں حضرت ابراہيم (ع) جيسے عظيم پيغمبر كى زبانى يوں آياہے :
پروردگار :ميں اپنى ذريت ميں سے (بعض كو ) اس بے آب وگياہ وادى ميں تيرے محترم گھر كے پاس بسارہاہوں _ ''(1)
يہ آيت واضح طور پر گواہى ديتى ہے كہ جب حضرت ابراہيم اپنے شير خوار بيٹے اسماعيل اور اپنى زوجہ كے ساتھ سرزمين مكہ ميں آئے تو خانہ كعبہ كے آثار موجود تھے _
اسى طرح سورہ آل عمران ميں بھى ہے :
''پہلا گھر جو عبادت خدا كى خاطر انسانوں كے لئے بنايا گيا وہ سرزمين مكہ ميں تھا'' _(2)
يہ مسلم ہے كہ عبادت خدا اور مركز عبادت كى بنياد حضرت ابراہيم عليہ السلام كے زمانہ سے نہيں پڑى بلكہ حضرت آدم عليہ السلام كے زمانے سے يہ سلسلہ جارى تھا _
اتفاقاً قرآنى كى تعبير بھى اس معنى كو تقويت ديتى ہے كہ فرماياگيا ہے : ياد كرو اس وقت كو جب ابراہيم اور اسماعيل عليہما السلام (جب اسماعيل عليہ السلام كچھ بڑے ہوگئے تو ) خانہ كعبہ كى بنيادوں كو اونچا كررہے تھے اور كہتے تھے:''پروردگاراہم سے قبول فرما،تو سننے والا اور جاننے والا ہے_''(3)
آيت كا يہ انداز بتاتا ہے كہ خانہ كعبہ كى بنياديں موجود تھيں اور ابراہيم(ع) اور اسماعيل(ع) اس كے ستون بلند كررہے تھے _
نہج البلاغہ كے مشہور خطبہ قاصعہ ميں بھى ہے :
(1)سورہ ابراہيم آيت 37
(2)سورہ ال عمران ايت 96
(3)سورہ بقرہ آيت 127
''كيا ديكھتے نہيں كہ ہو كہ خدا نے آدم سے لے كر آج تك كچھ پتھروں كے ذريعہ ذريعہ امتحان ليا(وہ پتھر كہ) جنھيں اپنا محترم گھر قرار ديا، پھر آدم اور اولاد آدم كو حكم ديا كہ اس كے گرد طواف كريں''_
مختصر يہ كہ آيات قرآن اور روايات ،تاريخ كى اس مشہور بات كى تائيد كرتى ہيں كہ خدا كعبہ پہلے پہل حضرت آدم عليہ السلام كے ہاتھوں بنا_ پھر طوفان نوح(ع) ميں گرگيا _ اس كے بعد حضرت ابراہيم عليہ السلام اوران كے فرزند حضرت اسماعيل عليہ السلام كے ہاتھوں اس كى تعمير نو ہوئي _
قرآن كريم حضرت ابراہيم عليہ السلام كى زندگى كے اہم ترين موڑ يعنى ان كى بڑى بڑى آزمائشےوںاور ان ميں ان كى كاميابى كے متعلق گفتگو كرتا ہے وہ آزمائشےيں جنھوں نے ابراہيم عليہ السلام كى عظمت، مقام اور شخصيت كو مكمل طور پر نكھار ديا اور ان كى شخصيت كى بلندى كو روشن كرديا، ارشاد ہوتا ہے:
''اس وقت كو ياد كرو جب خدا نے ابراہيم كو مختلف طريقوں سے آزمايا اور وہ ان آزمائشےوں ميں اچھى طرح سے كامياب ہوئے_''(1)
جب ابراہيم عليہ السلام ان امتحانات ميں كامياب ہوگئے تو وہ منزل آئي كہ خدا انھيں انعام دے ،تو فرمايا: ''ميں تمہيں لوگوں كا امام، رہبر اورپيشوا قرار ديتا ہوں_''(2)
'' ابراہيم عليہ السلام نے درخواست كى كہ ميرى ذريت اور خاندان سے بھى آئمہ قرار دے ''تاكہ يہ رشتہ نبوت وامامت منقطع نہ ہو، اور صرف مجھ سے قائم نہ رہے_ ''(3)
خدا نے اس كے جواب ميں فرمايا:''ميرا عہدہ يعنى مقام امامت ظالموں تك ہرگز نہيں پہنچے گا_''(4)
(1) سورہ بقرہ آيت 124
(2) سورہ بقرہ آيت 124
(3) سورہ بقرہ آيت 124
(4) سورہ بقرہ آيت 124
يعنى ہم نے تمہارى درخواست قبول كرلى ہے ليكن تمہارى ذريت ميں سے صرف وہ لوگ اس مقام كے لائق ہيں جو پاك اور معصوم ہيں _
آيات قرآن سے اور ابراہيم عليہ السلام كے وہ نظر نوازاعمال جن كى خدانے تعريف كى ہے،ان كے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے كہ كلمات (وہ جملے جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كو سكھائے ) در اصل ذمہ داريوں كا ايك گراں اور مشكل سلسلہ تھا جو خدانے ابراہيم عليہ السلام كے ذمہ كيا اور اس مخلص پيغمبر نے انہيں بہترين طريقے سے انجام ديا _
حضرت ابراہيم عليہ السلام كے امتحانات ميں يہ امور شامل تھے :
(1)بيٹے كو قربان گاہ ميں لے جانا اور فرمان خدا سے اسے قربان كرنے كے لئے پر عزم آمادگى كا مظاہرہ كرنا _
(2) اپنى بيوياں اور بيٹے كو مكہ كى خشك اور بے آب وگياہ سرزمين ميں لے جانا جہاں كوئي انسان نہ بستا تھا _
(3) بابل كے بت پر ستوں كے مقابلے ميں قيام كرنا ،بتوں كو توڑنا اور اس تاريخى مقدمو ںميں پيش ہونا اور نتيجتاًآگ ميں پھينكا جانا اور ان تمام مراحل ميں اطمينان وايمان كا ثبوت دينا _
(4) بت پرستوں كى سرزمين سے ہجرت كرنا اور اپنى زندگى كے سرمائے كو ٹھوكرمارنا اور ديگر علاقوں ميں جاكر پيغام حق سنانا ،ايسے اور بھى بہت سے امور ہيں_
حقيقت يہ ہے كہ ان ميں سے ہر ايك بہت سخت اور مشكل آزمائشے تھى ليكن ابراہيم عليہ السلام ايمانى قوت كے ذريعہ ان تمام امتحانات ميں پورا اترے اور ثابت كيا كہ وہ مقام'' امامت ''كى اہليت ركھتے تھے _
قرآن كريم سے اجمالاً يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت ابراہيم كو جو مقام امامت بخشا گيا وہ مقام نبوت ورسالت سے بالاتر تھا_ ''
امام صادق عليہ السلام فرماتے ہيں :
''خداوندعالم نے نبى بنانے سے قبل ابراہيم عليہ السلام كو عبد قرار ديا،اور اللہ نے انہيں رسول بنانے سے قبل نبى قرار ديا،اور انہيں خليل بنانے سے پہلے اپنى رسالت كے لئے منتخب كيا اور اس سے پہلے كہ امام بناتا انھيں اپنا كليل بناياجب يہ تمام مقامات و مناصب انہيں حاصل ہوچكے تو اللہ نے فرمايا ميں تمہيں انسانوں كے لئے امام بناتا ہو ںحضرت ابراہيم كو يہ مقام عظيم ديا تو انہوں نے عرض كيا : خدايا ميرى ذريت ميںسے بھى امام قرار دے _ ارشاد ہوا: ميرا عہدہ ظالموں تك نہيں پہنچے گا، بے وقوف شخص متقى لوگوں كا امام نہيں ہوسكتا _