حضرت آدم عليہ السلام

خدا كى خواہش يہ تھى كہ روئے زمين پر ايك ايسا موجود خلق فرمائے جواس كا نمائندہ ہو ،اس كے صفات، صفات خداوندى كا پرتوہوں اور اس كا مرتبہ ومقام فرشتوںسے بالا ترہو، خدا كى خواہش اور ارادہ يہ تھا كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں ،تمام قوتيں ،سب خزانے ،تمام كانيں اور سارے وسائل بھى اس كے سپرد كردئےے جا ئيں، ضرورى ہے كہ سارى زمين اور اس كى نعمتيں عقل وشعور ،ادر اك كے و افرحصے اور خصوصى استعداد كاحامل ہو جس كى بناء پر موجودات ارضى كى رہبرى اور پيشوائي كا منصب سنبھال سكے _

يہى وجہ ہے كہ قرآن كہتا ہے :''ياد كريںاس وقت كو جب آپ كے پروردگار نے فرشتوںسے كہا كہ ميں روئے زمين پر جانشين مقرركرنے والا ہوں ''_(1)

بہر حال خدا چاہتا تھا كہ ايسے وجود كو پيدا كرے جو عالم وجود كا گلدستہ ہواور خلافت الہى كے مقام كى اہليت ركھتا ہو اور زمين پراللہ كا نمائندہ ہو مربوط آيات كى تفسير ميں ايك حديث جوامام صادق عليہ السلام سے مروى ہے وہ بھى اسى معنى كى طرف اشارہ كرتى ہے كہ فرشتے مقام آدم پہچاننے كے بعد سمجھ گئے كہ ادم اور ان كى اولا دزيادہ حقدار ہيں كہ وہ زمين ميں خلفاء الہى ہوں اور مخلوق پر اس كى حجت ہوں _


(1) سورہ بقرہ آيت30

فرشتوں كا سوال

فرشتوں نے حقيقت كا ادراك كرنے كے لئے نہ كہ اعتراض كى غرض سے عرض كيا :''كيا زمين ميں اسے جانشين قرار دے گا جو فساد كرے گا اور خون بہا ئے گا_ جب كہ ہم تيرى عبادت كرتے ہيں ،تيرى تسبيح وحمد كرتے ہيں اور جس چيز كى تيرى ذات لائق نہيں اس سے تجھے پاك سمجھے ہيں''_(1)

مگر يہاں پرخدانے انہيں سربستہ ومجمل جواب ديا جس كى وضاحت بعد كے مراحل ميں آشكار ہو فرمايا :''ميں ايسى چيزوں كو جانتا ہوں جنہيں تم نہيں جانتے''_(2)

فرشتوں كى گفتگو سے معلوم ہو تا ہے كہ وہ سمجھ گئے تھے كہ يہ انسان سر براہى نہيں بلكہ فساد كرے گا، خون بہائے گا اور خرابياں كرے گا ليكن ديكھنا يہ ہے كہ آخروہ كس طرح سمجھے تھے _

بعض كہتے ہيں خدا نے انسان كے آئندہ حالات بطور اجمال انہيں بتا ئے تھے جب كہ بعض كا احتمال ہے كہ ملائكہ خود اس مطلب كو لفظ ''فى الارض''(زمين ميں) سے سمجھ گئے تھے كيونكہ وہ جانتے تھے انسان مٹى سے پيدا ہوگا اور مادہ اپنى محدوديت كى وجہ سے طبعاً مركز نزاع وتزاحم ہے كيونكہ محدود مادى زمانہ انسانوں كى اس طبيعت كو سيروسيراب نہيں كرسكتا جوزيادہ كى طلب ركھتى ہے يہاں تك كہ اگر سارى دنيا بھى ايك فرد كو دے دى جائے تو ممكن ہے وہ پھر بھى سير نہ ہو اگر كافى احساس ذمہ دارى نہ ہو تو يہ كيفيت فساد اور خونريزى كا سبب بنتى ہے _

بعض دوسرے مفسرين معتقد ہيں كہ فرشتوں كى پيشين گوئي اس وجہ سے تھى كہ آدم روئے زمين كى پہلى مخلوق نہيں تھے بلكہ اس سے قبل بھى ديگر مخلوقات تھيں;جنہوں نے نزاع،جھگڑااور خونريزى كى تھي،ان سے پہلے مخلوقات كى برى فائل نسل آدم كے بارے ميں فرشتوں كى بد گمانى كا باعث بنى _

يہ تين تفاسير ايك دوسرے سے كچھ زيادہ اختلاف نہيں ركھتيں يعنى ممكن ہے يہ تمام امور فرشتوں كي


(1)سورہ بقرہ آيت30

(2)سورہ بقرہ آيت30

اس توجہ كا سبب بنا ہو اور دراصل يہ ايك حقيقت بھى تھى جسے انہوں نے بيان كيا تھا يہى وجہ ہے كہ خدا نے جواب ميں كہيں بھى اس كا انكار نہيں كيا بلكہ اس حقيقت كے ساتھ ساتھ ايسى مزيد حقيقتيں انسان اور اس كے مقام كے بارے ميں موجود ہيں جن سے فرشتے آگاہ نہيں تھے _

فرشتے سمجھتے تھے اگر مقصد عبوديت اور بند گى ہے تو ہم اس كے مصداق كامل ہيں ،ہميشہ عبادت ميں ڈوبے رہتے ہيں لہذا سب سے زيادہ ہم خلافت كے لائق ہيں ليكن وہ اس سے بے خبرتھے كہ ان كے وجود ميں شہوت وغضب اور قسم قسم كى خواہشات موجود نہيں جب كہ انسان كو ميلانات وشہوات نے گھير ركھا ہے اور شيطان ہر طرف سے اسے وسوسہ ميںڈالتا رہتا ہے لہذا ان كى عبادت انسان كى عبادت سے بہت زيادہ فرق ركھتى ہے كہاں اطاعت اور فرمانبردارى ايك طوفان زدہ كى اور كہاں عبادت ان ساحل نشينوں كى جو مطمئن، خالى ہاتھ اور سبك بارہيں _

انہيں كب معلوم تھا كہ اس آدم كى نسل سے محمد ،ابراہيم،نوح،موسي، عيسى عليہم السلام جيسے انبياء اور ائمہ اہل بيت (ع) جيسے معصوم اور ايسے صالح بندے اور جانباز شہيد مرد اور عورتيں عرصئہ وجود ميں قدم ركھيں گے جو پروانہ وار اپنے آپ كو راہ خدا ميں پيش كريں گے ايسے افراد جن كے غور وفكر كى ايك گھڑى فرشتوں كى سالہا سال كى عبادت كے بہتر ہے _

يہ بات قابل توجہ ہے كہ فرشتوں نے اپنے صفات كے بارے ميں تين چيزوں كا سہارا ليا تسبيح، حمد اور تقديس ،در حقيقت وہ يہ كہنا چاہتے تھے كہ اگر ہدف اور غرض ،اطاعت اور بندگى ہے تو ہم فرمانبردار ہيں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس ميں مشغول رہتے ہيں اور اگر اپنے آپ كو پاك ركھنا يا صفحہ ارضى كو پاك ركھنا ہے تو ہم ايسا كريں گے جب كہ يہ مادى انسان خود بھى فاسد ہے اور روئے زمين كو بھى فاسد كردے گا _

حقائق كو تفصيل سے ان كے سامنے واضح كرنے كے لئے خداوندعالم نے ان كى آزمائشے كے لئے اقدام كيا تاكہ وہ خود اعتراف كريں كہ:

'' ان كے اور اولاد آدم كے درميان زمين وآسمان كا فرق ہے ''_

فرشتے امتحان كے سانچے ميں

پروردگار كے لطف وكرم سے آدم حقائق عالم كے ادراك كى كافى استعدادركھتے تھے خدا نے ان كى اس استعداد كو فعليت كے درجے تك پہنچا يا اور قرآن كے ارشاد كے مطابق آدم كو تمام اسما ء (عالم وجود كے حقائق واسرار )كى تعليم دى گئي_(1)(2)


(1)سورہ بقرہ آيت31

(2) مفسرين نے اگر چہ ''علم اسماء كى تفسير ميںقسم قسم كے بيانات ديئے ہيں ليكن مسلم ہے كہ آدم كو كلمات واسماء كى تعليم بغير معنى كے نہيں دى تھى كيونكہ يہ كو ئي قابل فخربات نہيں بلكہ مقصد يہ تھا كہ ان اسماء كے معانى ومفاہيم اورجن چيزوں كے وہ نام تھے ان سب كى تعليم ہے البتہ جہان خلقت اور عالم ہستى كے مختلف موجودات كے اسماء خواص سے مربوط علوم سے باخبر وآگاہ كيا جانا حضرت ادم كے لئے بہت بڑا

اعزاز تھا _

ايك حديث ميں ہے كہ حضرت امام صادق عليہ السلام سے اس آيت (وعلم آدم الاسماء كلہا)كے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمايا : (الارضين والجبال والشعاب والا وديہ ثمہ نظر الى بساط تحتہ فقال وہزا ابساط مما علمہ)_

اسماء سے مرادزمينيں ،پہاڑ،دريا،اوروادياں (غرض يہ كہ تمام موجودات ) تھے، اس كے بعد امام (ع) نے اس فرش كى طرف نگاہ كى جو آپ كے نيچے بچھا ہوا تھا اور فرمايا يہاں تك كہ يہ فرش بھى ان امور ميں سے ہے كہ خدا نے جن كى آدم كو تعليم دى _

لہذا معلوم يہ ہوا كہ علم لغت كے مشابہ نہ تھا بلكہ اس كا تعلق فلسفہ ،اور اسرار اور كيفيات وخواص كے ساتھ تھا، خداوندعالم نے آدم كو اس علم كى تعليم دى تاكہ وہ اپنى سيرتكامل ميں اس جہان كى مادى اور روحانى نعمتوں سے بہرہ ورہوسكيں اسى طرح مختلف چيزوں كے نام ركھنے كى استعداد بھى انہيں دى تاكہ وہ چيزوںكے نام ركھ سيكيں اور ضرورت كے وقت ان كا نام لے كر انہيں بلا سكيں يا منگواسكيں اور يہ ضرورى نہ ہو كہ اس كے لئے ويسى چيز دكھانى پڑے، يہ خود ايك بہت بڑى نعمت ہے اس موضوع كى اہميت ہم اس وقت سمجھتے ہيں جب ديكھتے ہيں كہ انسان كے پاس اس وقت جو كچھ ہے كتاب اور لكھنے كى وجہ سے ہے اور گزرے ہوئے لوگوں كے سب علمى ذخائران كى تحريروں ميں جمع ہيں اور يہ سب كچھ چيزوں كے نام ركھنے اور ان كے خواص كى وجہ سے ہے ورنہ كبھى بھى ممكن نہ تھا كہ ہم گذشتہ لوگوں كے علوم آنے والوں تك منتقل كرسكتے _

پھر خداوند عالم نے فرشتوں سے فرمايا :''اگر سچ كہتے ہوتو ان اشياء اور موجودات كے نام بتاو جنہيں ديكھ رہے ہو اور ان كے اسرارو كيفيات كو بيان كرو،ليكن فرشتے جو اتنا علم نہ ركھتے تھے اس امتحان ميں پيچھے رہ گئے لہذا جواب ميں كہنے لگے خدا وندا :''تومنزہ ہے ،تونے ہميں جوتعليم دى ہے ہم اس كے علاوہ كچھ نہيں جانتے ہميں نہيں معلوم تو خود ہى عليم وحكيم ہے_(1)

اگر ہم نے اس سلسلے ميں سوال كيا ہے تو يہ ہمارى ناآگا ہى كى بناء پرتھا اور آدم كى اس عجيب استعداد اور قدرت سے بے خبر تھے جو ہمارے مقابلے ميں اس كا بہت بڑا امتياز ہے ،بے شك وہ تيرى خلافت وجانشينى كى اہليت ركھتا ہے جہان ہستى كى سرزمين اس كے وجود كے بغير نا قص تھي_

اب آدم عليہ السلام كى بارى آئي كہ وہ ملائكہ كے سامنے موجود ات كا نام ليں اور ان كے اسرار بيان كريں خداوند عالم نے فرمايا :''اے آدم :فرشتوں كو ان موجود ات كے ناموں اور كاموں سے آگاہ كرو،جب آدم نے انہيں ان اسماء سے آگاہ كيا تو خداوند عالم نے فرمايا : كياميں نے تمہيں بتايا نہيں تھا كہ ميں آسمان وزمين كے غيب سے واقف ہوں اور تم جو كچھ ظاہر كرتے اور چھپا تے ہوسب سے باخبر ہوں''_(2)

اس مقام پر ملائكہ نے اس انسان كى وسيع معلومات اور فراواں حكمت ودانائي كے سامنے سرتسليم خم كرديا اور ان پر واضح ہوگيا كہ صرف يہى زمين پر خلافت كى اہليت ركھتا ہے _

آدم عليہ السلام جنت ميں

گذشتہ بحثيں جوانسان كے مقام وعظمت كے بارے ميں تھيں ان كے ساتھ قرآن نے ايك اور فصل بيان كى ہے، پہلے كہتا ہے : ''يادكرووہ وقت جب ہم نے فرشتوں سے كہا آدم كے لئے سجدہ وخضوع كرو، ان سب نے سجدہ كيا سوائے ابليس كے، جس نے انكار كيا اور تكبر كيا اور اسى تكبر ونا فرمانى كى وجہ سے كافروں ميں داخل ہوگيا ''_(3)


(1) سورہ بقرہ آيت31

(2) سورہ بقرہ آيت33

(3) سورہ بقرہ آيت34

بہر حال مربوط آيت انسانى شرافت اور اس كى عظمت ومقام كى زندہ اور واضح دليل ہے كہ اس كى تكميل خلقت كے بعد تمام ملائكہ كو حكم ملتا ہے كہ اس عظيم مخلوق كے سامنے سر تسليم خم كردو، واقعاوہ شخص جو مقام خلافت الہى اور زمين پر خدا كى نمائندگى كا منصب حاصل كرے ،تمام ترتكا مل وكمال پر فائز ہو اور بلند مرتبہ فرزندوں كى پرورش كا ذمہ دار ہو جن ميں انبيا ء اورخصوصا ًپيامبر اسلام (ص) اور ان كے جانشين شامل ہوں، ايسا انسان ہر قسم كے احترام كے لائق ہے _

ابليس نے مخالفت كيوں كي

ہم جانتے ہيں كہ لفظ ''شيطان ''اسم جنس ہے جس ميں پہلا شيطان اور ديگر تمام شيطان شامل ہيں ليكن ابليس مخصوص نام ہے، اور يہ اسى شيطان كى طرف اشارہ ہے جس نے حضرت آدم كو ورغلايا تھا وہ صريح آيات قرآن كے مطابق ملائكہ كى نوع سے نہيںتھا صرف ان كى صفوں ميں رہتا تھا وہ گروہ جن ميں سے تھا جو ايك مادى مخلوق ہے _(1)

اس مخالفت كاسبب كبر و غرور اور خاص تعصب تھا جو اس كى فكر پر مسلط تھا_وہ سوچتا تھا كہ ميں آدم سے بہتر ہوں لہذا آدم كو سجدہ كرنے كا حكم نہيں ديا جانا چاہئے بلكہ آدم كو سجدہ كرنا چاہئے اور اسے مسجود ہونا چاہئے_

خدانے ''ابليس''كى سركشى اور طغيانى كى وجہ اس كا مواخذہ كيا اور كہا:اس بات كا كيا سبب ہے كہ تو نے آدم كو سجدہ نہيں كيا اور ميرے فرمان كو نظر انداز كرديا ہے؟(2)

اس نے جواب ميں ايك نادرست بہانے كا سہارا ليا اور كہا:''ميں اس سے بہتر ہوں كيونكہ تو نے مجھے آگ سے پيدا كيا ہے اور آدم كو آب و گل سے_(3)


(1)سورہ كہف آيت 50 ميں ہے :''سب نے سجدہ كيا سوائے ابليس كے جو جنوں ميں سے تھا''

(2)سورہ اعراف آيت12

(3)سورہ اعراف آيت12

گويا اسے خيال تھا كہ آگ،خاك سے بہتر و افضل ہے،يہ ابليس كى ايك بڑى غلط فہمى تھي،شايد اسے غلط فہمى بھى نہ تھى بلكہ جان بوجھ كر جھوٹ بول رہا تھا_

ليكن شيطان كى داستان اسى جگہ ختم نہيں ہوتي،بلكہ اس نے جب يہ ديكھا كہ وہ درگاہ خداوندى سے نكال ديا گيا ہے او اس كى سركشى اور ہٹ دھرمى ميں اور اضافہ ہوگيا_ چنانچہ اس نے بجائے شرمندگى اور توبہ كے اور بجائے اس كے كہ وہ خدا كى طرف پلٹے اور اپنى غلطى كا اعتراف كرے،اس نے خدا سے صرف اس بات كى درخواست كى كہ : ''خدايا مجھے رہتى دنيا تك كے لئے مہلت عطا فرمادے اور زندگى عطا كر''_(1)

اس كى يہ درخواست قبول ہوگئي اور اللہ تعالى نے فرمايا:''تجھے مہلت دى جاتى ہے''_(2)

اگر چہ قران ميں اس بات كى صراحت نہيں كى گئي كہ ابليس كى درخواست كس حدتك منظور ہوئي_ارشادہوا: ''تجھ كو اس روز معين تك كے لئے مہلت دى گئي''_(3)

يعنى اس كى پورى درخواست منظور نہيں ہوئي بلكہ جس مقدار ميں خدانے چاہا اتنى مہلت عطا كي_

ليكن اس نے جو يہ مہلت حاصل كى وہ اس لئے نہيں تھى كہ اپنى غلطى كا تدارك كرے بلكہ اس نے اس طولانى عمر كے حاصل كرنے كا مقصد اس طرح بيان كيا:

''اب جبكہ تو نے مجھے گمراہ كرديا ہے،تو ميں بھى تيرے سيدھے راستے پر تاك لگا كر بيٹھوں گا(مورچہ بنائوں گا)اور ان(اولاد آدم)كو راستے سے ہٹادوں گا،تاكہ جس طرح ميں گمراہ ہوا ہوں اسى طرح وہ بھى گمراہ ہوجائيں_''(4)

اس كے بعد شيطا ن نے اپنى بات كى مزيد تائيد و تاكيد كے لئے يوں كہا:''ميں نہ صرف يہ كہ ان كے راستہ پر اپنا مورچہ قائم كروں گا بلكہ ان كے سامنے سے،پيچھے سے،دا ھنى جانب سے،بائيںجانب سے گويا


(1) سورہ اعراف آيت14

(2) سورہ اعراف ايت 15

(3) سورہ حجر آيت38

(4) سورہ اعراف آيت16

چاروں طرف سے ان كے پاس آئوں گا جس كے نتيجہ ميں تو ان كى اكثريت كو شكر گزار نہ پائے گا_''(1)(2)

شروع ميں اس كا گناہ صرف يہ تھا كہ اس نے خدا كا حكم ماننے سے انكار كرديا تھا،اسى لئے اس كے خروج كا حكم صادر ہوا، اس كے بعد اس نے ايك اور بڑا گناہ يہ كيا كہ خدا كے سامنے بنى آدم كو بہكانے كا عہد كيا اور ايسى بات كہى گويا وہ خدا كو دھمكى دے رہا تھا،ظاہر ہے كہ اس سے بڑھ كر اور كونسا گناہ ہوسكتا ہے_ لہذا خدا نے اس سے فرمايا:اس مقام سے بد ترين ننگ و عار كے ساتھ نكل جا اور ذلت و خوارى كے ساتھ نيچے اتر جا_

اور فرمايا:''ميں بھى قسم كھاتاہوں كہ جو بھى تيرى پيروى كرے گا ميں جہنم كو تجھ سے اور اس سے بھردوں گا_''(3)(4)


(1)سوہ اعراف آيت16

(2)مذكورہ بالا تعبير سے مراد يہ ہو سكتى كہ شيطان ہر طرف سے انسان كا محاصرہ كرے گا اور اسے گمراہ كرنے كے لئے ہر وسيلہ اختيار كرے گا اور يہ تعبير ہمارى روز مرہ كى گفتگو ميں بھى ملتى ہے جيسا كہ ہم كہتے ہيں كہ''فلاں شخص چاروں طرف سے قرض ميں يا مرض ميں گھر گيا ہے_''

اوپر اور نيچے كا ذكر نہيں ہوا اس كى وجہ يہ ہے كہ انسان كى زيادہ تر اور عموماًفعاليت ان چار طرف ہوتى ہے_

ليكن ايك روايت جو امام محمد باقر عليہ السلام سے وارد ہوئي ہے،اس ميں ان''چاروں جہت''كى ايك گہرى تفسير ملتى ہے اسميں ايك جگہ پر حضرت(ع) فرماتے ہيں: ''شيطان جو آگے سے آتا ہے اس سے مراد يہ ہے كہ وہ آخرت كو جو انسان كے آگے ہے اس كى نظر ميں سبك كرديتا ہے،اور پيچھے سے آنے كے معنى يہ ہيں كہ;شيطان انسان كو مال جمع كرنے اور اولاد كى خاطر بخل كرنے كے لئے ورغلاتا ہے،اور''داہنى طرف''سے آنے كا يہ مطلب ہے كہ وہ انسان كے دل ميں شك و شبہ ڈال كر اس كے امور معنوى كو ضائع كرديتا ہے اور بائيں طر ف سے آنے سے مراد يہ ہے ك شيطا ن انسان كى نگاہ ميں لذات مادى و شہوات دنيوى كو حسين بنا كر پيش كرتا ہے_

(3)سورہ اعراف ايت 18

(4)سجدہ خدا كے لئے تھا ياآدم كے لئے ؟ اس ميں كوئي شك نہيں كہ ''سجدہ ''جس كا معنى عبادت وپرستش ہے صرف خدا كے لئے ہے كيونكہ عالم ميں خدا كے علاوہ كو ئي معبود نہيں اور توحيد عبادت كے معين يہى ہيں كہ خدا كے علاوہ كسى كى عبادت نہ

بہشت ميں قيام

بہرحال اس واقعہ اور فرشتوں كے امتحان كے بعد آدم اور حوا كو حكم ديا گيا كہ وہ بہشت ميں سكونت اختيار كريںچنانچہ قرآن كہتا ہے :''ہم نے آدم سے كہا كہ تم اور تمہارى بيوى بہشت ميں رہو اوراس كى فراوان نعمتوں ميں سے جو چاہو كھا ئو ليكن اس مخصوص درخت كے نزديك نہ جانا ورنہ ظالموں ميں سے ہوجائوگے_''(1)

آيات قرآنى سے ظاہر ہو تا ہے كہ آدم زندگى گزار نے كے لئے اسى عام زمين پر پيدا ہوئے تھے ليكن ابتداء ميں خدا وند عالم نے انہيں بہشت ميں سكونت دى جو اسى جہان كا ايك سرسبز وشاداب اور نعمتوں سے مالامال باغ تھا وہ ايسى جگہ تھى جہاں آدم نے كسى قسم كى تكليف نہيں ديكھى شايد اس كا سبب يہ ہوكہ آدم زمين ميں پر زندگى گزارنے سے آشنائي نہ ركھتے تھے اوربغير كسى تمہيد كے زحمات وتكليف اٹھا نا ان كے لئے مشكل تھا اور زمين ميں زندگى گزارنے كے لئے يہاں كے كر دارورفتار كى كيفيت سے آگاہيت ضرورى تھى لہذا مختصر مدت كے لئے بہشت كے اندر ضرورى تعليمات حاصل كرليں كيونكہ زمين كى زندگى پروگراموں ، تكليفوں اور ذمہ داريوں سے معمور ہے جس كا انجام صحيح سعادت ،تكامل اور بقائے نعمت كا سبب ہے اور ان سے روگردانى كرنا رنج ومصيبت كا باعث ہے _

اور يہ بھى جان ليں كہ اگر چہ انہيں چاہئے كہ زمين كى كچھ چيزوں سے چشم پو شى كريں نيز يہ جان لينا


كريں،لہذا اس ميں شك و شبہ نہيں كہ ملائكہ نے آدم كے لئے سجدہ عبادت نہيں كيا بلكہ يہ سجدہ خدا كے لئے تھا،ليكن اس عجيب و غريب مخلوق كى وجہ سے يايہ كہ سجدہ آدم كے لئے تھا ليكن وہ خضوع وتعظيم كا سجدہ تھا نہ كہ عبادت وپرستش كا_

كتاب عيون الاخبارميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے اسى طرح كى روايت ہے جس ميں اپ نے فرمايا: ''فرشتوں كا سجدہ ايك طرف سے خدا كى عبادت تھى اور دوسرى طرف آدم كا اكرام واحترام كيونكہ ہم صلب آدم ميں موجود تھے ''

(1) سورہ بقرہ آيت35

بھى ضرورى تھاكہ اگر خطاولغزش دامن گير ہو توايسا نہيں كہ سعادت وخوش بختى كے دروازے ہميشہ كےلئے بند ہوجائيں گے بلكہ انہيں پلٹ كردوبارہ عہد وپيمان كرنا چاہيئے كہ وہ حكم خدا كے خلاف كوئي كام انجام نہيں ديں گے تاكہ دوبارہ نعمات الہى سے مستفيد ہوسكيں، يہ بھى تھا كہ وہ اس ماحول ميں رہ كر كچھ پختہ ہوجائيں اور اپنے دوست اور دشمن كو پہچان ليں اور زمين ميں زندگى گزارنے كى كيفيت سے آشنا ہوجائيں يقينا يہ سلسلہ تعليمات ضرورى تھا تاكہ وہ اسے يادركھيں اور اس تيارى كے ساتھ روئے زمين پر قدم ركھيں _

يہ ايسے مطالب تھے كہ حضرت آدم اور ان كى اولاد آئندہ زندگى ميں ان كى محتاج تھى لہذا اس كے باوجود كہ آدم كو زمين كى خلافت كے لئے پيدا كيا گيا تھا ايك مدت تك بہشت ميں قيام كرتے ہيں اورانہيں كئي ايك حكم دئے جاتے ہيں جوشايد سب تمرين وتعليم كے پہلوسے تھا _

شيطان كا وسوسہ

اس مقام پر آدم نے اس فرمان الہى كو ديكھا جس ميں آپ كو ايك درخت كے بارے ميں منع كيا گيا تھا ادھر شيطان نے بھى قسم كھا ركھى تھى كہ آدم اور اولاد آدم كو گمراہ كرنے سے باز نہ آئے گا وہ وسوسے پيدا كرنے ميں مشغول ہوگيا جيسا كہ باقى آيات قرآنى سے ظاہر ہوتا ہے اس نے آدم كو اطمينا ن دلايا كہ اگراس درخت سے كچھ ليں تو وہ اوران كى بيوى فرشتے بن جائيں گے اور ہميشہ ہميشہ كے لئے جنت ميں رہيں گے يہاں تك كہ اس نے قسم كھائي كہ ميں تمہارا خير خواہ ہوں _'' (1)

اس طرح اس نے فرمان خدا كو ان كى نظر ميں ايك دوسرے رنگ ميں پيش كيا اور انہيں يہ تصور دلانے كى كوشش كى كہ اس '' شجرہ ممنوعہ'' سے كھالينا نہ صرف يہ كہ ضرر رساں نہيں بلكہ عمر جاوداں يا ملائكہ كا مقام ومرتبہ پالينے كا موجب ہے_ اس بات كى تائيد اس جملے سے بھى ہوتى ہے شيطان كى زبانى وارد ہوا ہے: اے آدم: ''كيا تم چاہتے ہوكہ ميں تمہيں زندگانى جاودانى اور ايسى سلطنت كى رہنمائي كروں جو كہنہ نہ ہوگي؟ ''(2)


(1) سورہ اعراف آيت20

(2)سورہ طہ آيت 120

ايك روايت جو '' تفسير قمي'' ميں امام جعفرصادق عليہ السلام سے اور''عيون اخبار الرضا'' ميں امام على بن موسى رضا عليہ السلام سے مروى ہے;ميں وارد ہوا ہے :

''شيطان نے آدم سے كہا كہ اگر تم نے اس شجرہ ممنوعہ سے كھاليا تو تم دونوں فرشتے بن جائوگے ،اور پھر ہميشہ كے لئے بہشت ميں رہوگے، ورنہ تمہيں بہشت سے باہر نكال ديا جائے گا ''_

آدم نے جب يہ سنا تو فكر ميں ڈوب گئے ليكن شيطان نے اپنا حربہ مزيد كار گر كرنے كے لئے سخت قسم كھائي كہ ميں تم دونوں كا خيرخواہ ہوں_(1)

حضرت آدم عليہ السلام كو آب حيات كى تمنا

آدم ، جنہيںزندگى كا ابھى كافى تجربہ نہ تھا ، نہ ہى وہ ابھى تك شيطان كے دھوكے، جھوٹ اور نيرنگ ميں گرفتار ہوئے تھے ،انہيں يہ يقين نہيںہوسكتا تھا كہ كوئي اتنى بڑى جھوٹى قسم بھى كھا سكتا ہے اور اس طرح كے جال، دوسرے كو گرفتار كرنے كےلئے پھيلا سكتا ہے، آخركار وہ شيطان كے فريب ميں آگئے اور آب حيات وسلطنت جاودانى حاصل كرنے كے شوق ميں مكر ابليسى كى بوسيدہ رسى كو پكڑكے اس كے وسوسہ كے كنويں ميں اتر گئے رسى ٹوٹ گئي اور انہيں نہ صرف آب حيات ہاتھ نہ آيا بلكہ خدا كى نافرمانى كے گرداب ميں گرفتار ہوگئے ان تمام مطالب كو قرآن كريم نے اپنے ايك جملے ميں خلاصہ كرديا ہے ارشاد ہوتا ہے:''اس طرح سے شيطان نے انہيں دھوكا ديا اور اس نے اپنى رسى سے انہيں كنويں ميں اتار ديا ''_(2)

ادم كو چاہئے تھا كہ شيطان كے سابقہ دشمنى اور خدا كى وسيع حكمت ورحمت كے علم كى بناپر اس كے جال كو پارہ پارہ كرديتے اور اس كے كہنے ميں نہ آتے ليكن جو كچھ نہ ہونا چاہئے تھا وہ ہوگيا _

''بس جيسے ہى آدم وحوانے اس ممنوعہ درخت سے چكھا، فوراً ہى ان كے كپڑے ان كے بدن سے نيچے گرگئے اور ان كے اندام ظاہرہوگئے''_(3)


(1)سورہ اعراف ايت 21

(2)سورہ اعراف آيت 22

(3)سورہ اعراف آيت 22

مذكورہ بالا جملے سے يہ بخوبى ظاہر ہوتا ہے كہ درخت ممنوع سے چكھنے كے ساتھ ہى فوراً اس كابرا اثر ظاہر ہوگيا اور وہ اپنے بہشتى لباس سے جوفى الحقيقت خدا كى كرامت واحترام كا لباس تھا، محروم ہو كر برہنہ ہوگئے _

اس جملہ سے اچھى طرح ظاہر ہوتا ہے كہ آدم وحوايہ مخالفت كرنے سے پہلے برہنہ نہ تھے بلكہ كپڑے پہنے ہوئے تھے ، اگر چہ قرآن ميں ان كپڑوں كى كوئي تفصيل بيان نہيں كى گئي ليكن جو كچھ بھى تھا وہ آدم وحوا كے وقار كے مطابق اور ان كے احترام كے لئے تھا ،جو ان كى نافرانى كے باعث ان سے واپس لے ليا گيا _

ليكن خود ساختہ توريت ميں اس طرح سے ہے :

آدم وحوا اس موقع پربالكل برہنہ تھے ليكن اس برہنگى كى زشتى كو نہيں سمجھتے تھے، ليكن جس وقت انہوں نے اس درخت سے كھايا جو درحقيقت '' علم ودانش'' كا درخت تھا تو ان كى عقل كى آنكھيں كھل گئيں اور اب وہ اپنے كو برہنہ محسوس كرنے لگے اور اس حالت كى زشتى سے آگاہ ہوگئے_

جس '' آدم '' كا حال اس خود ساختہ توريت ميں بيان كيا گيا ہے، وہ فى الحقيقت آدم واقعى نہ تھا بلكہ وہ تو كوئي ايسا نادان شخص تھا جو علم ودانش سے اس قدر دور تھا كہ اسے اپنے ننگا ہونے كا بھى احساس نہ تھا ليكن جس '' آدم ''كا تعارف قرآن كراتا ہے وہ نہ صرف يہ كہ اپنى حالت سے باخبر تا بلكہ اسرار آفرينش (علم اسما) سے بھى آگاہ تھا اور اس كا شمار معلم ملكوت ميں ہوتا تھا، اگر شيطان اس پر اثرانداز بھى ہوا تويہ اس كى نادانى كى وجہ سے نہ تھا، بلكہ اس نے ان كى پاكى اور صفائے نيت سے سوئے استفادہ كيا _

اس بات كى تائيد كلام الہى كے اس قول سے بھى ہوتى ہے:

''اے اولاد آدم : كہيں شيطان تمہيں اس طرح فريب نہ دے جس طرح تمہارے والدين (آدم وحوا) كو دھوكا دے كر بہشت سے باہر نكال ديا اور ان كا لباس ان سے جدا كرديا ''_(1)


(1)سورہ اعراف آيت 27

اگرچہ بعض مفسرين اسلام نے يہ لكھا ہے كہ آغاز ميں حضرت آدم برہنہ تھے تو واقعاً يہ ايك واضح اشتباہ ہے جو توريت كى تحريركى وجہ سے پيدا ہوا ہے_

بہرحال اس كے بعد قرآن كہتا ہے : '' جس وقت آدم وحوا نے يہ ديكھاتو فوراًبہشت كے درختوں كے پتوں سے اپنى شرم گاہ چھپانے لگے _

اس موقع پر خدا كى طرف سے يہ ندا آئي:'' كيا ميں نے تم دونوں كو اس درخت سے منع نہيں كيا تھا كيا ميںنے تم سے يہ نہيں كہا تھا كہ شيطان تمہارا كھلا دشمن ہے، تم نے كس لئے ميرے حكم كو بھلاديا اور اس پست گرداب ميں گھر گئے ؟(1)

شجرہ ممنوعہ كونسادرخت تھا؟

قرآن كريم ميں بلا تفصيل اور بغير نام كے چھ مقام پر'' شجرہ ممنوعہ'' كا ذكر ہوا ہے ليكن كتب اسلامى ميں اس كى تفسير دوقسم كى ملتى ہے ايك تو اس كى تفسير مادى ہے جو حسب روايات '' گندم '' ہے _

اس بات كى طرف توجہ رہنا چاہئے كہ عرب لفظ '' شجرہ ''كا اطلاق صرف درخت پر نہيں كرتے بلكہ مختلف نباتات كو بھى '' شجرہ '' كہتے ہيں چاہے وہ جھاڑى كى شكل ميں ہوں يابيل كى صورت ميں _

دوسرى تفسير معنوى ہے جس كى تعبير روايات اہل بيت عليہم السلام ميں '' شجرہ حسد'' سے كى گئي ہے ان روايات كا مفہوم يہ ہے كہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفيع ديكھا تو يہ تصور كيا كہ ان كا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند كوئي مخلوق اللہ نے نہيں پيدا كى اس پر اللہ نے انہيں بتلا يا كہ ان كى اولاد ميں كچھ ايسے اولياء الہى (پيغمبر اسلام اور ان كے اہل بيت عليہم السلام ) بھى ہيں جن كا درجہ ان سے بھى بلند وبالا ہے اس وقت آدم ميں ايك حالت حسد سے مشابہ پيدا ہوئي اور يہى وہ '' شجرہ ممنوعہ'' تھا جس كے نزديك جانے سے آدم كو روكا گيا تھا_

حقيقت امر يہ ہے كہ آدم نے (ان روايات كى بناپر)دو درختوں سے تناول كيا ايك درخت تو وہ تھا


(1)سورہ اعراف آيت 22

جو ان كے مقام سے نيچے تھا، اور انہيں مادى دنيا ميں لے جاتا تھا اور وہ '' گندم'' كا پودا تھا دوسرا درخت معنوى تھا ،جو مخصوص اوليائے الہى كا درجہ تھا اور يہ آدم كے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنى حد سے تجاوز كيا اس لئے انجام ميں گرفتار ہوئے_

ليكن اس بات كى طرف توجہ رہے كہ يہ ''حسد'' حسد حرام كى قسم سے نہ تھا يہ صرف ايك نفسانى احساس تھا جبكہ انہوں نے اس طرف قطعاً كوئي اقدام نہيں كيا تھا جيسا كہ ہم نے بارہاكہا ہے كہ آيات قرانى چونكہ متعدد معانى ركھتى ہيں لہذا اس امر ميں كوئي مانع نہيں كہ '' شجرہ '' سے دونوں معنى مراد لے لئے جائيں_

اتفاقاًكلمہ '' شجرہ '' قرآن ميں دونوں معنى ميں آياہے ، كبھى تو انہى عام درختوں (1)كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے، اور كبھى شجرہ معنوى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_(2)

ليكن يہاں پر ايك نكتہ ہے جس كى طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ يہ ہے كہ موجودہ خود ساختہ توريت ميں ، جو اس وقت كے تمام يہود ونصارى كى قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ كى تفسير '' شجرہ علم ودانش اور شجرہ حيات وزندگى '' كى گئي ہے توريت كہتى ہے:

''قبل اس كے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول كريں،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتى كہ انہيں اپنى برہنگى كا بھى احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے كھايا اس وقت وہ واقعى آدم بنے اور بہشت سے نكال ديئے گئے كہ مبادا درخت حيات وزندگى سے بھى كھاليں اور خدائوں كى طرح حيات جاويدانى حاصل كرليں_''(3)

يہ عبارت اس بات كى كھلى ہوئي دليل ہے كہ موجودہ توريت آسمانى كتاب نہيں ہے بلكہ كسى ايسے كم


(1) جيسے ( وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَينَائَ تَنبُتُ بالدُّہن )جس سے مراد زيتون كادرخت ہے_

(2)جيسے :( وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فى القُرآن ) جس سے مراد مشركين يا يہودى يا دوسرى باغى قوميں (جيسے بنى اميہ ) ہيں

(3) سفر تكوين فصل دوم نمبر 17

اطلاع انسان كى ساختہ ہے جو علم و دانش كو آدم كے لئے معيوب سمجھتا ہے، اور آدم كو علم ودانش حاصل كرنے كے جرم ميں خدا كى بہشت سے نكالے جانے كا مستحق سمجھتا تھا، گويا بہشت فہميدہ انسان كے لئے نہيں ہے_(1)

جنت سے اخراج

قران داستان حضرت ادم عليہ السلام كو اگے بڑھاتے ہوئے كہا ہے، بالآخر شيطان نے ان دونوں كو پھسلاديا اور جس بہشت ميں وہ رہتے تھے اس سے باہر نكال ديا_(2)

اس بہشت سے جو اطمينان و آسائشے كا مركز تھي، اور رنج و غم سے دور تھى شيطان كے دھوكے ميں آكر نكالے گئے، جيسا كہ قرآن كہتا ہے:


(1) قابل توجہ بات يہ ہے كہ ڈاكٹر وليم ميلر (جسے عہدين خصوصاً انجيل كا ايك مقتدر مفسر مانا گيا ہے) اپنى كتاب ''مسيحيت چيست'' (مسيحيت كيا ہے) ميں رقمطراز ہے:

''شيطان ايك سانپ كى شكل ميں باغ كے اندر داخل ہوا اور اس نے حوا كو اس بات پر آمادہ كرليا كہ اس درخت كے ميوہ ميں سے كھاليں چنانچہ حوّانے خود بھى كھايا اور آدم كو كھانے كو ديا اور انہوں نے بھى كھايا، ہمارے اولين والدين كا يہ عمل ايك معمولى اشتباہ پر مبنى نہ تھا يا ايك بے سوچى سمجھى خطا بھى نہ تھى بلكہ اپنے خالق كے بر خلاف ايك جانا بوجھا عصيان تھا دوسرے لفظوں ميں وہ يہ چاہتے تھے كہ وہ خود'' خدا'' بن جائيںوہ اس بات كےلئے آمادہ نہ تھے كہ خدا كے ارادہ كے مطيع بنيں بلكہ يہ چاہتے تھے كہ اپنى خواہش كو پاي ہ تكميل تك پہنچائيں نتيجہ كيا ہوا؟ خدا نے ان كى شدت سے سرزنش كى اور باغ (فردوس ) سے باہر نكال دياتاكہ دردورنج سے بھرى دنيا ميں زندگى بسر كريں _

توريت وانجيل كے اس مفسرنے درحقيقت يہ چاہاہے كہ '' شجرہ ممنوعہ '' كى توجيہ كرے، ليكن اس كى بجائے عظيم ترين گناہ يعنى خدا سے جنگ كى نسبت آدم كى طرف دے دى كيا اچھا ہوتا كہ بجائے اس طرح كى كھوكھلى تفسيروں كے كم از كم اپنى '' كتب مقدسہ'' ميں تحريف كے قائل ہوجاتے

(2) سورہ اعراف آيت 20،21

''اور ہم نے انھيں حكم ديا كہ زمين پر اُترو ، جہاں تم ايك دوسرے كے دشمن ہوجائو گے ( آدم و حوا ايك طرف اور شيطان دوسرى طرف)

مزيد فرمايا گيا:'' تمہارے لئے ايك مدت معين تك زمين ميں قرار گاہ ہے، جہاں سے تم نفع اندوز ہوسكتے ہو''(1)

يہ وہ مقام تھا كہ آدم متوجہ ہوئے كہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور بہشت كے آرام دہ اور نعمتوں سے مالا مال ماحول سے شيطانى وسوسے كے سامنے سر جھكانے كے نتيجے ميں باہر نكا لے جارہے ہيں اور اب زحمت ومشقت كے ماحول ميں جاكر رہيں گے يہ صحيح ہے ،كہ آدم نبى تھے اور گناہ سے معصوم تھے ليكن جيسا كہ ہم آئندہ چل كربيان كريں گے كہ كسى پيغمبر سے جب ترك اولى سرزد ہوجاتا ہے تو خدا وند عالم اس سے اس طرح سخت گيرى كرتا ہے جيسے كسى عام انسان سے گناہ سرزد ہونے پر سختى كرتا ہے _

آدم عليہ السلام كونسى جنت ميں تھے

اس سوال كے جواب ميں اس نكتے كى طرف متوجہ رہنا چاہئے كہ اگر چہ بعض نے كہا ہے كہ يہ وہى جنت تھى جو نيك اور پاك لوگوں كى وعدہ گاہ ہے ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ وہ بہشت نہ تھى بلكہ زمين كے سرسبز علاقوں ميں نعمات سے مالا مال ايك روح پر ورمقام تھا كيونكہ_

اوّل تو وہ بہشت جس كا وعدہ قيامت كے ساتھ ہے وہ ہميشگى اور جاودانى نعمت ہے جس كى نشاند ہى بہت سى آيات ميں كى گئي ہے اور اس سے باہر نكلنا ممكن نہيں _

دوّم يہ كہ غليظ اور بے ايمان ابليس كے لئے اس بہشت ميں جانے كى كوئي راہ نہ تھى وہاں نہ وسوسہ شيطانى ہے اور نہ خدا كى نافرمانى _

سوم يہ كہ اہل بيت سے منقول روايات ميں يہ موضوع صراحت سے نقل ہوا ہے _


(1) سورہ بقرہ آيت 36

ايك راوى كہتا ہے : ميں نے امام صادق عليہ السلام سے آدم كى بہشت كے متعلق سوال كيا امام نے جواب ميں فرمايا :

''دنيا كے باغوں ميں سے ايك باغ تھاجس پر آفتاب وماہتاب كى روشنى پڑتى تھى اگر آخرت كى جنتوں ميں سے ہو تى تو كبھى بھى اس سے باہر نہ نكالے جاتے''_

يہاں سے يہ واضح ہو جاتا ہے كہ آدم كے ہبوط ونزول سے مراد نزول مقام ہے،نہ كہ نزول مكان يعنى اپنے اس بلند مقام اور سرسبز جنت سے نيچے آئے _

بعض لوگوں كے نزديك يہ احتمال بھى ہے كہ يہ جنت كسى آسمانى كرہ ميں تھى اگر چہ وہ ابدى جنت نہ تھى ،بعض اسلامى روايات ميں بھى اس طرف اشارہ ہے كہ يہ جنت آسمان ميں تھى ليكن ممكن ہے لفظ ''سماء ً(آسمان ) ان روايات ميں مقام بلند كى طرف اشارہ ہو _

تاہم بے شمار شواہد نشاندہى ہيں كرتے ہيں كہ يہ جنت آخرت والى جنت نہ تھى كيونكہ وہ تو انسان كى سير تكامل كى آخرى منزل ہے اور يہ اس كے سفر كى ابتداء تھى اور اس كے اعمال اور پروگرام كى ابتداء تھى اور وہ جنت اس كے اعمال و پروگرام كا نتيجہ ہے_(1)


(1)آدم كا گناہ كيا تھا :واضح ہے كہ آدم اس مقام كے علاوہ جو خدا نے قران مجيد ميں ان كے لئے بيان كيا ہے معرفت وتقوى كے لحاظ سے بھى بلند مقام پر فائز تھے وہ زمين ميں خدا كے نمائند ے تھے وہ فرشتوں كے معلم تھے وہ عظيم ملائكہ الہى كے مسجود تھے اوريہ مسلم ہے كہ آدم امتيازات وخصوصيات كے ہو تے ہوئے گناہ نہيں كر سكتے تھے علاوہ ازيں ہميں معلوم ہے كہ وہ پيغمبر تھے اور ہرپيغمبر معصوم ہو تا ہے لہذا يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ كيا تھا؟ اس سوا ل كے جواب ميں تين تفاسير موجود ہيں :

1_ آدم سے جو كچھ سرزد ہوا وہ ترك اولى تھا دوسرے لفظوںميں ان كى حيثيت اور نسبت سے وہ گناہ تھا ليكن گناہ مطلق نہ تھا، گناہ مطلق وہ گناہ ہوتا ہے جو كسى سے سرزد ہو اور اس كے لئے سزا معين ہو (مثلا شرك،كفر ،ظلم اور تجاوز وغير ہ)اور نسبت كے اعتبار سے گناہ كا مفہوم يہ ہے كہ بعض اوقات بعض مباح اعمال بلكہ مستحب بھى بڑے لوگوں كے مقام كے لحاظ سے مناسب نہيں

آدم عليہ السلام كى باز گشت خدا كى طرف

وسوسئہ ابليس اور آدم كے جنت سے نكلنے كے حكم جيسے واقعات كے بعد آدم متوجہ ہوئے كہ واقعاً انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اس اطمينان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شيطانى فريب كى وجہ سے نكلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ہوئي زمين ميں رہيں گے اس وقت آدم اپنى غلطى كى تلافى كى فكر ميں پڑے اور مكمل جان ودل سے پروردگار كى طرف متوجہ ہوئے ايسى توجہ جو ندامت وحسرت كا ايك پہاڑساتھ لئے ہوئے تھى اس وقت خداكا لطف وكرم بھى ان كى مدد كے لئے آگے بڑھا اورجيسا كہ قرآن ميں خدا وندعالم كہتا ہے:

'' آدم نے اپنے پروردگار سے كچھ كلمات حاصل كئے جو بہت مو ثر اور انقلاب خيز تھے ،ان كے ساتھ توبہ كى خدا نے بھى ان كى توبہ قبول كرلى كيونكہ وہ تواب والرّحيم ہے ''_(1)

يہ صحيح ہے كہ حضرت آدم نے حقيقت ميں كوئي فعل حرا م انجام نہيں ديا تھا ليكن يہى ترك اولى ان كے


انہيں چا ہئے كہ ان اعمال سے گريز كريں اور اہم كام بجالائيں ورنہ كہا جائے گا كہ انہوں نے ترك اولى كيا ہے ہم جو نماز پڑھتے ہيں اس كا كچھ حصہ حضور قلب سے ہوتا ہے كچھ بغير اس كے، يہ امر ہمارے مقام كے لئے تو مناسب ہے ليكن حضرت رسول اسلام(ص) اور حضرت على (ع) كے شايان شان نہيں ان كى سارى نماز خداكے حضور ميں ہو نى چاہئے اور اگر ايسا نہ ہو توكسى فعل حرام كا ارتكاب تو نہيں تاہم ترك اولى ہے _

2_ خدا كى نہى يہاں ''نہى ارشادي'' ہے جيسے ڈاكڑكہتا ہے فلاں غذا نہ كھائو ورنہ بيمار پڑجائو گے خدا نے بھى آدم سے فرمايا كہ اگر درخت ممنوعہ سے كچھ كھا ليا تو بہشت سے باہر جانا پڑے گااور رنج وتكليف ميں مبتلا ہونا پڑے گا ،لہذا ادم عليہ السلام نے حكم خدا كى مخالفت نہيں كى بلكہ ''نہى ارشادي''كى مخالفت كى ہے _

3_جنت بنيادى طور پر جائے تكليف نہ تھى بلكہ وہ ادم عليہ السلام كے زمين پر انے كے لئے ايك ازمائشے اور تيارى كا زمانہ تھا،اور يہ نہيں صرف ازمائشے كا پہلو ركھتى تھي_

(1)سورہ بقرہ ايت 37

لئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى كيفيت وحالت كى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار كى طرف پلٹے _

بہرحال جو كچھ نہيں ہونا چاہئے تھايا ہونا چاہئے تھا وہ ہو اور باوجود يكہ آدم كى توبہ قبول ہوگئي ليكن اس كا اثروضعى يعنى زمين كى طرف اترنايہ متغير نہ ہوا _

خدا نے جو كلمات آدم عليہ السلام پر القاكئے وہ كيا تھے ؟

توبہ كے لئے جو كلمات خدا نے آدم عليہ السلام كو تعليم فرمائے تھے اس سلسلے ميں مفسرين كے درميان اختلاف ہے _

مشہور ہے كہ وہ جملے يہ تھے:

(قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنكونن من الخاسرين)

''ان دونوں نے كہا خدا يا ہم نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اگر تونے ہميں نہ بخشا اور ہم پررحم نہ كيا تو ہم زياں كاروں اور خسارے ميں رہنے والوں ميں سے ہوجائيں گے _''(1)

كئي ايك روايات جو طرق اہل بيت عليہم السلام سے منقول ہيں،ان ميں ہے كہ كلمات سے مراد خدا كى بہترين مخلوق كے ناموں كى تعليم تھى يعنى محمد ،على ،فاطمہ ، حسن اور حسين عليہم السلام اور آدم نے ان كلمات كے وسيلے سے درگاہ الہى سے بخشش چاہى اور خدا نے انہيں بخش ديا _(2)


(1) سورہ ا عراف آيت 23

(2)يہ تين قسم كى تفاسير ايك دوسرے سے اختلاف نہيں ركھتيں كيونكہ ممكن ہے كہ حضرت آدم كو ان سب كلمات كى تعليم دى گئي ہو كہ ان كلمات كى حقيقت اور باطنى گہرائي پر غور كرنے سے آدم ميں مكمل طور پر انقلاب روحانى پيدا ہو اور خدا انہيں اپنے لطف وہدايت سے نوازے _

ادم عليہ السلام كا ماجرا اور اس جہان پر ايك طائرانہ نظر

اگر چہ بعض ايسے مفسرين نے جو افكار غرب سے بہت زيادہ متاثر ہيں ،اس بات كى كوشش كى ہے كہ حضرت ادم عليہ السلام اور ان كى زوجہ كى داستان كو اول سے لے كر اخر تك تشبيہ ،مجاز اور كنايہ كا رنگ ديں اور اج كى اصطلاح ميں يوں كہيں كہ يہ ايك سمبولك (SIMBOLIC) تھا لہذاانھوں نے اس پورى بحث كو ظاہرى مفہوم كے خلاف ليتے ہوئے معنوى كنايہ مراد ليا ہے_

ليكن اس بات ميں كوئي شك و شبہ نہيں كہ ان ايات كا ظاہر ايك ايسے واقعى اور حقيقى ''قصہ''پر مشتمل ہے جو ہمارے اولين ماں باپ كے لئے پيش ايا تھا چونكہ اس پورى داستان ميں ايك مقام بھى ايسانہيں ہے جو ظاہرى عبارت سے ميل نہ كھاتا ہو يا عقل كے خلاف ہو ،اس لئے اس بات كى كوئي ضروت نہيں كہ اس كے ظاہرى مفہوم پر يقين نہ كيا جائے يا جو اس كے حقيقى معنى ہيں ان سے پہلو تہى كيا جائے_

ليكن دراين حال اس حسى و عينى واقعہ ميں انسان كى ائندہ زندگى كے متعلق بھى اشارے ہوسكتے ہيں_(1)


(1)يعني:انسان كى اس پر جنجال زندگى ميں بہت سے ايسے واقعات پيش اسكتے ہيںجو قصہ ادم عليہ السلام و حوا سلام اللہ عليہا سے مشابہت ركھتے ہيں ،اس كى مثال يوں سمجھنا چاہئے كہ ايك طرف تو وہ انسان ہے جو قوت ،عقل اور ہوا و ہوس سے مركب ہے ، يہ دونوں طاقتيں اسے مختلف جتھوں ميں كھينچ رہى ہيں ،دوسرى طرف كچھ ايسے جھوٹے رہبر ہيں جن كا ماضى شيطان كى طرح جانا پہچانا ہے اور وہ انسان كو اس بات پر اكسا رہے ہيں كہ عقل پر پردہ ڈال كر ہوا وہوس كو اختيار كر لو تاكہ يہ بے چارہ انسان پانى كى اميد ميں''سراب''كو اب سمجھ كر ريگستانوں ميں بھٹك كر اپنى جان گنوا بيٹھے_

ايسے شيطانوں كے بہكانے ميں اجانے كا پہلا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ انسان كے جسم سے''لباس تقوى ''گر جاتا ہے اور اس كے اندرونى عيوب ظاہر و اشكار اہوجاتے ہيں ،دوسرا نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ مقام قرب الہى سے دور ہو جاتا ہے اور انسان اپنے بلندمقام سے گر جاتا ہے اور سكون و اطمينان كى بہشت سے نكل كر حيات مادى كى مشكلات و افات كے جنگلوں ميں گھر جاتا ہے اس موقع پر بھى عقل كى طاقت اس كى مدد كر سكتى ہے اور اسے اس نقصان كى تلافى كا موقع فراہم كر سكتى ہے اور اسے خدا كى بارگاہ ميں

زمين پرسب سے پہلا قتل

قرآن مجيد ميں حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا نام نہيں ليا گيا ہے ،نہ اس جگہ اور نہ كسى اور مقام پر ،ليكن اسلامى روايات كے مطابق ايك كا نام ہابيل ہے اور دوسرے كا قابيل تھا،موجود ہ تو ريت كے سفر تكوين كے چوتھے باب ميں ايك كانام ''قائن'' اور دوسرے كا نام '' ہابيل''تھا جيسا كہ مفسر معروف ''ابولفتوح رازي'' كہتے ہيں كہ ان دونوں ناموں كى مختلف لغت ہيں پہلے كا نام ''ہابيل ''يا''ہابن''تھا_دوسرے كا نام ''قابيل ''يا ''قابين'' يا ''قابل'' يا''قابن''يا ''قبن'' تھا_

بہرحال اسلامى روايات كے متن اور توريت ميں قابيل كے نام كے بارے ميں اختلاف لغت كى طرف بازگشت ہے اور يہ كوئي اہم بات نہيں ہے _(1)

يہاں پرحضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا ذكر ہے ان ميں سے ايك كے ہاتھوں دوسرے كے قتل كے بارے ميں داستان بيان كى گئي ہے پہلے فرمايا: ''اے پيغمبر :انھيں آدم كے دوبيٹوں كا حقيقى قصہ سنا ديجئے''_(2)


دوبارہ بھيج سكتى ہے تاكہ جرا ت و صراحت كے ساتھ اپنے گناہ كا اعتراف كرے ،ايسا اعتراف جو اس كى زندگى كى تعمير نو كا ضامن ہو اور اس كى زندگى كا ايك نيا موڑ بن جائے، يہى وہ موقع ہوتا ہے جب كہ دست رحمت الہى بار ديگر اس كى طرف دراز ہوتا ہے تاكہ اسے ہميشہ كے انحطاط اور تنزل سے نجات دے ،اگر چہ اپنے گذشتہ گناہ كا تلخ مزہ اس كے كام و دہن ميں باقى رہ جاتا ہے جو اس كا ثر وضعى ہے ،ليكن يہ ماجرا ،اس كے لئے درس عبرت بن جاتا ہے كيونكہ وہ اس كے شكست كے تجربہ سے اپنى حيات ثانيہ كى بنياد مستحكم كر سكتا ہے اور اس كے نقصان و زيان كے ذريعے سرورائندہ فراہم كر سكتا ہے _

(1)تعجب كى بات ہے كہ ايك عيسائي عالم نے اس لفظ كو قرآن پراعترض كى بنيادبناليا ہے كہ قرآن نے''قائن ''كو ''قابيل ''كيوں كہا ہے حا لانكہ اول تويہ اختلاف لغت ہے اور لغت ميں ناموں كے بارے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے مثلا توريت ''ابراہيم ''كو ''ابراہام ''لكھتى ہے قرآن اسے ''ابراہيم ''لكھا ہے ثانياً بنيادى طور پر ''ہابيل ''كے نام قرآن ميں مذكور ہى نہيں يہ اسماء تو اسلامى روايات ميں آئے ہيں_ (2)سورہ مائدہ ايت 27

اس كے بعد واقعہ بيان كرتے ہوئے فرمايا گيا ہے :''جب ہر ايك نے تقرب پروردگار كے لئے ايك كام انجام ديا تو ايك كا عمل توقبول كرليا ليكن دوسرے كا قبول نہ ہوا ''_(1)

مگرجو كام ان دونوںبھائيوں نے انجام ديا اس تذكرہ كا قرآن ميںوجود نہيں ہے بعض اسلامى روايات اور توريت كے سفر تكوين باب چہارم ميں جو كچھ مذكورہے ا س سے ظاہر ہوتا ہے كہ ہابيل كے پاس چونكہ پالتو جانور تھے اس نے ان ميں سے ايك بہترين پلاہوا مينڈھامنتخب كيا، قابيل كسان تھا اس نے گندم كا گھٹيا حصہ ياگھٹياآٹا اس كے لئے منتخب كيا _

سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ فرزندان آدم كو كيسے پتہ چلاكہ ايك كا عمل بارگا ہ ايزدى ميں قبول ہوگيا ہے اور دوسرے كا عمل ردّكرديا گيا ہے قرآن ميں اسكى بھى وضاحت نہيں ہے البتہ بعض اسلامى روايات سے پتہ چلتاہے كہ وہ دونوں اپنى مہيا شدہ چيزيں پہاڑ كى چوٹى پر لے گئے قبوليت كے اظہار كے طور پر بجلى نے ہابيل كى قربانى كھاليا اور اسے جلا ديا ليكن دوسرى اپنى جگہ پر باقى ر ہى اور يہ نشانى پہلے سے رائج تھى _

بعض مفسرين كا خيال ہے كہ ايك عمل كى قبوليت اوردوسرے كى ردّ حضرت آدم عليہ السلام كو وحى كے ذريعے بتايا گيا اور اس كى وجہ سوائے اس كے كچھ نہ تھى كہ ہابيل ايك باصفا ،باكرداراور راہ خدا ميں سب كچھ كرگذرنے والاشخص تھا جبكہ قابيل تا ريك دل ،حاسد اور ہٹ دھرم تھا، قرآن نے دونوںبھائيوں كى جوگفتگو بيان كى ہے اس سے ان كى روحانى كيفت اچھى طرح سے واضح ہوجاتى ہے اسى وجہ سے جس كا عمل قبول نہ ہوا تھا ''اس نے دوسرے بھائي كو قتل كى دہمكى دى اور قسم كھا كر كہا كہ ميں تجھے قتل كردوں گا _''(2)

ليكن دوسرے بھائي نے اسے نصيحت كى اور كہا كہ اگر يہ واقعہ پيش آيا ہے تو اس ميں ميراكوئي گناہ نہيں ہے، بلكہ اعتراض توتجھ پرہونا چاہيے كيونكہ تيرے عمل ميں تقو ى شامل نہيں تھا اور خدا تو صرف پرہيزگاروں كا عمل قبول كرتا ہے''_(3)


(1)سورہ مائدہ ايت 27

(2)سورہ مائدہ ايت27

(3)سورہ مائدہ ايت 27

مزيد كہا كہ'' حتى اگر تم اپنى دھمكى كو عملى جامہ پہنائواور ميرے قتل كے لئے ہاتھ بڑھا ئو تو ميں ہرگز ايسا نہيں كروں گا اور تمہارے قتل كے لئے ہاتھ نہيں بڑھائوںگا،كيونكہ ميں توخدا سے ڈرتا ہوں اور ايسے گناہ سے ہرگزاپنے ہاتھ آلودہ نہيںكروں گا_''(1)

قر ان ميں حضرت آدم كے بٹيوں كا واقعہ ،ايك بھائي كا دوسرے كے ہاتھوں قتل اور قتل كے بعد كے حالات بيان كيے گئے ہيں ،پہلے فرمايا : ''سركش نفس نے بھائي كے قتل كے لئے اسے پختہ كرديا اور اس نے اسے قتل كرديا''_(2)

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ ہابيل كا عمل قبول ہوجانے كے بعد قابيل كے دل ميں ايك طوفان پيدا ہوگيا ايك طرف دل ميں ہر وقت حسد كى آگ بھڑكتى رہتى اوراسے انتقام پر ابھارتى اور دوسرى طرف بھا ئي كا رشتہ، انسانى جذبہ گناہ ،ظلم ،بے انصافى اور قتل نفس سے ذاتى تنفراسے اس جرم سے بازركھنے كى كوشش كرتا ،ليكن آخركار سركش نفس آہستہ آہستہ روكنے والے عوامل پر غالب آگيا اور اس نے اس كے بيداروجدان كو مطمئن كرديا اور اسے جكڑديا اور بھائي كو قتل كرنے پر آمادہ كرديا ''_(3)

ظلم كى پردہ پوشي

قابيل نے جب اپنے بھائي كو قتل كرديا تو اس كى لاش اس نے صحرا ميں ڈال ركھى تھى اور اسے نہيں معلوم تھا كہ اسے كيا كرنا چاہئے زيادہ دير نہ گذرى كہ درندے ہابيل كے جسم كى طرف آنے لگے قابيل ضمير كے شديد دبائو كاشكار تھا بھائي كے جسم كو بچانے كے لئے وہ لاش كو ايك مدت تك كندھے پرلئے پھرتا رہا كچھ پرندوں نے پھر بھى اسے گھيرركھا تھا اور وہ اس انتظار ميں تھے كہ وہ كب اسے زمين پر پھينكتا ہے تاكہ وہ لاش پر جھپٹ پڑيں _

جيساكہ قرآن كہتا ہے اس موقع پر خدا تعالى نے ايك كواّبھيجا، مقصديہ تھا كہ وہ زمين كھودے اوراس


(1)سورہ مائدہ ايت28

(2)سورہ مائدہ ايت 30

(3)سورہ مائدہ ايت30

ميں دوسرے مردہ كوّے كا جسم چھپادے يا اپنے كھانے كى چيزوں كو زمين ميں چھپادے جيسا كہ كوے كى عادت ہے تاكہ قابيل سمجھ سكے كہ وہ اپنے بھائي كى لاش كس طرح سپر د خاك كرے _

البتہ اس بات ميں كوئي تعجب نہيں كہ انسان كوئي چيز كسى پرندے سے سيكھے كيونكہ تاريخ اور تجربہ شاہد ہيںكہ بہت سے جانور طبعى طور پر بعض معلومات ركھتے ہيں اور انسان نے اپنى پورى تاريخ ميںجانوروں سے بہت كچھ سيكھا ہے يہاں تك كہ ميڈيكل كى بعض كتب ميں ہے كہ انسان اپنى بعض طبيّ معلومات ميں حيوانات كا مرہون منت ہے ،

افسوس اپنے اوپر

اس كے بعد قرآن مزيد كہتا ہے:'' اس وقت قابيل اپنى غفلت اور جہالت سے پريشان ہوگيا اور چيخ اٹھا كہ وائے ہومجھ پر ،كيا ميں اس كوے سے بھى زيادہ ناتواں اور عاجز ہوں ،مجھ سے اتنا بھى نہ ہوسكا كہ ميں اس كى طرح اپنے بھائي كا جسم دفن كردوں، بہرحال وہ اپنے كيے پرنادم وپشيمان ہوا''_(1)

كيا اس كى پشيمانى اس بناپر تھى كہ اس كاگھٹيا اور براعمل آخركار اس كے ماں باپ پر اور احتمالى طورپر دوسرے بھائيوںپر آشكار ہوجائےگا اوروہ اسے بہت سرزنش كريں گے يا كيا يہ پشيمانى اس بناپر تھى كہ كيوں ميں ايك مدت تك بھائي كى لاش كندھے پر لئے پھرتا رہا اور اسے دفن نہ كيااور يا پھركيايہ ندامت اس وجہ سے تھى كہ اصولى طور پر انسان ہربراكام انجام دے لينے كے بعد اپنے دل ميں ہرطرح كى پريشانى اور ندامت محسوس كرتا ہے ليكن واضح ہے كہ اس كى ندامت كى جوبھى وجہ ہووہ اس كے گناہ سے توبہ كى دليل نہيں ہے كيونكہ توبہ يہ ہے كہ ندامت خوف خدا كے باعث اورعمل كے براہونے كے احساس كى بنا پر ہوا، اور يہ احساس اسے اس بات پر آمادہ كرے كہ وہ آيندہ ہرگز ايسا كام نہيں كرے گا ،قرآن ميں قابيل كى ايسى كسى توبہ كى نشاندہى نہيں كى گئي بلكہ شايد قران ميں ايسى توبہ كے نہ ہو نے كى طرف ہى اشارہ ہے _


(1)سورہ مائدہ ايت 31

پيغمبر اسلام (ص) سے ايك حديث منقول ہے ،آپ نے فرمايا :

''جس كسى انسان كا بھى خون بہايا جاتا ہے اس كى جوابدہى كا ايك حصہ قابيل كے ذمہ ہوتا ہے جس نے انسان كُشى كى اس برى سنت كى دنياميں بنيادركھى تھي''_

اس ميں شك نہيں كہ حضرت آدم عليہ السلام كے بيٹوں كا يہ واقعہ ايك حقيقى واقعہ ہے اس كے علاوہ كہ آيات قرآن اور اسلامى روايت كا ظاہر ى مفہوم اس كى واقعيت كو ثابت كرتا ہے اس كے ''بالحق '' كى تعبير بھى جوقر آن ميں آئي ہے اس بات پر شاہدہے، لہذا جولوگ قران ميں بيان كئے گئے واقعہ كو تشبيہ ،كنايہ يا علامتى (SIMBOLIC)داستان سمجھتے ہيں ،بغيردليل كے ايسا كرتے ہيں _(1)

* * * * *


(1)اس كے باوجود اس بات ميں كوئي مضائقہ نہيں كہ يہ حقيقى واقعہ اس جنگ كے لئے نمونہ كے طورپر بيان كيا گيا ہو جو ہميشہ سے مردان پاكباز ،صالح ومقبول بارگا ہ خدا انسانوںاور آلودہ ،منحرف ،كينہ پرور، حاسد اور ناجائزہٹ دھرمى كرنے والوں كے درميان جارى رہى ہے وہ لوگ كتنے پاكيزہ اور عظيم ہيں جنھوں نے ايسے برے لوگوں كے ہاتھوں جام شہادت نوش كيا _

آخركار يہ برے لوگ اپنے شرمناك اور برے اعمال كے انجام سے آگاہ ہو جاتے ہيں اور ان پر پردہ ڈالنے اور انھيں دفن كرنے كے درپے ہوجاتے ہيں اس مو قع پر ان كى آرزوئيںان كى مدد كو لپكتى ہيں،كوّا ان آرزوئوں كا مظہر ہے جو جلدى سے پہنچتا ہے اور انھيں ان كے جرائم پرپر دہ پوشى كى دعوت ديتا ہے ليكن آخر كار انھيں خسارے ،نقصان اور حسرت كے سوا كچھ نصيب نہيں ہوتا _