تحريف وترتيب قرآن

تحريف کامسئلہ امت قرآن ميں اس قدرزيادہ اہميت رکھتاهے کہ شايدہى کوئى ايسا صاحب قلم هوجس نے قرآن کے بارے ميں کچھ لکھا هوا ورتحريف کوموضوع سخن نہ بنایاهو۔

تصنيف وتاليف کے قرن اولى سے آج تک متعددکتابيں اوررسالے اس موضوع پرمنظرعام پرآچکے ہيںاورموافق ومخالف دونوںپہلوؤں کو باقاعدہ اجاگر کیاجاچکاهے يہ ضرورهے کہ دورقديم ميں مسئلہ تحريف اتنى شہرت حاصل کرچکاتھا کہ مخالفين ميں مکمل طورپرمخالفت کرنے کى ہمت نہ تھى اورانھيں بھى يہ احساس تھاکہ کہيںاس مخالفت سے اصول مذہب پرکوئى حرف نہ آجائے ۔بہرحال يہ داستان بڑى الم ناک اوربڑى حدتک ضروري هے اس لئے ہم اس وادى پرخارميںقدم رکھتے ہيںاورکانٹوںکوہٹاکرپھول چن لینے کى کوشش کر رهے ہيں۔

معاني تحريف :

تحريف کے اصلى معنى ہيں”کسي شے کواس کى اصلى حالت سے ہٹادینا“اورظاہرهے کہ کسى شے ميںبھي تبدیلى کے بہت سے امکانات هوسکتے ہيں اور انھيں امکانات کى بناء پرلفظ تحريف بھى علماء اسلام ميں متعدد معاني ميں استعمال هواهے۔

۱۔ تحريف معني  :

يعني کسى کلمہ کواس کى حالت پرباقى رکھ کراس کے معانى ميںتبدیلي پیداکردینا۔ اس صورت کوتحريف اس لئے کہتے ہيںکہ لفظ درحقيقت معنى کے لئے ايک علامتی آئینہ کى حیثیت رکھتاهے ۔اس کى ایجاداوراس کااستعمال دونوںمعنى کے افہام وتفہیم کے لئے هوتاهے ۔اگر دنیاميںمعانى کاوجوداوران کے نقل وانتقال کى ضرورت نہ هوتى تولفظوںکاکوئى نام ونشان بھى نہ هوتا اورجب لفظوںکى سارى حیثیت معانى کى وجہ سے قائم هے، ان کے زيروزبرکاسارااہتمام ولحاظ کے افہام وتفہیم کے لئے هوتاهے توکسى لفظ کے معنى ميںتبدیلي پیداکردینالفظ کواس کى اصلى جگہ سے ہٹادینے کابہترین مصداق هے گویاالفاظ وکلمات کى اصل جگہ هے ان کے اصلى معانى اورجب کسى لفظ کواس کے اصلى معانى سے الگ کردیاگیاتوگویااسے اپنى جگہ سے ہٹادیاگیا۔ خودقرآن مجیدنے بھى يهودیوںکے بارے ميںاس تحريف کاذکرکیاهے ۔ارشادهوتاهے ”یحرفون الکلم عن مواضعہ“ (يہ لوگ کلمات کوان کى جگہ سے ہٹادیتے ہيں)۔ظاہرهے کہ نبى اکرم کے دورکے يهودى نہ قرآن کے کلمات کى جگہيںبدل رهے تھے اورنہ توریت کے کلمات کي۔ يہ بات ان کے امکان سے باہرهوچکى تھى ۔توریت بھى ايک خاص شکل ميںآچکي تھى اورقرآن کانگراںوذمہ دارموجودتھا۔ان کى تحريف کامقصدصرف الفاظ کوان کے اصلى معانى سے ہٹادیناتھاتاکہ حقائق پرایمان نہ لاناپڑے ۔اوريہ تحريف وہ کہ جوقرآن کے بارے ميںہردورميںمسلم رہى هے خودقرآن نے بھى اعلان کیاهے”فاما الذین فى قلوبہم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنةوابتغاء تاویلہ“(جن لوگوںکے دلوںميںکجي هے وہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہيںتاکہ ان کى کئى تاوئل تلاش کرکے کوئى نیافتنہ برپاکرديں)۔کھلى هوئى بات هے کہ قرآن کوفتنہ گرى کاسامان بنانے والے تحريف کے علاوہ اورکیاکرسکتے ہيں۔

دوسراسب سے بڑااہم ثبوت يہ هے کہ اگرآیات قرآنى ميںمعانى کى تبدیلى نہ توآج قرآن کي پرستارامت ميںاتنے فرقے نہ هوتے ۔امت اسلاميہ ميں۷۳فرقوںکاوجوداورسب کاقرآن مجیدسے استدلال اس بات کازندہ ثبوت هے کہ سارى امت نے خدائى معانى پراعتمادنہيںکیاهے۔

ليکن يہ ياد رهے کہ يہ تحريف قرآن کريم کے تقدس کے لئے کوئى ضررنہيںرکھتى هے بلکہ مفيد هے اس لئے کہ معانى کے ساتھ کھیلنے کى ضرورت اسے پڑتى هے جوخودالفاظ کوبربادنہيں کرسکتاورنہ ظاہرپرقابوپالینے والے باطن کے پیچھے نہيںدوڑاکرتے ہيں۔معلوم يہ هوتاهے کہ امت اسلاميہ ميںعظمت قرآن اس قدر مسلم تھى کہ فتنہ گروںکافتنہ الفاظ وکلمات پرنہيںچل سکااس لئے سادہ لوح عوام کوگمراہ کرنے کے لئے تحريف معانى کاسہارالیاگیا۔

تحريف حرکات  : 

يعني زير وزبروغیرہ کافرق۔اس تحريف کے بارے ميںگفتگوکرنے کى ضرورت نہيںهے اس لئے کہ آج بھى ايک ايک لفظ ميںمتعدد  قراء تيںپائى جاتى ہيںجن ميںحرکات کے اعتبارسے اختلاف هے اوريہ طے هے کہ يہ ساري قراء تيںنازل نہيںهوئى تھيںبلکہ يہ قاریوںکے ذاتى ذوق کانتیجہ تھيں۔تحريف حرکات کا ايک بڑاسبب مختلف اقوام وقبائل کى تلاوت ميںمضمرتھا۔ ہرقبیلے کاايک لہجہ تھااورہرقوم کاايک اصول قراء ت تھا۔اسى لہجے کي تبدیلى اوراصولوںکے تغیرنے کلمات ميںحرکاتى اختلاف پیداکردیا۔ ليکن يہ قرآن کاايک تقدس هے کہ اتنے اختلافات کے باوجودکسى قبیلے نے بھى کسى لفظ کوبدلنے کى کوشش نہيںکي بلکہ صرف اپنے لہجہ سے تصرف کرتے رهے جس ميں وہ کسى حدتک معذوربھى تھے۔

۳۔ تحريف کلمات  : 

يعني ايک لفظ کى جگہ دوسرے لفظ کآجانا۔ اس تحريف کے بارے ميںعلماء اسلام ميںاختلاف هے،بعض حضرات کاخیال هے کہ قرآن کريم ميںاس قسم کى تحريف هوئى هے مثلاسورہ حمدميںولاالضالین کى جگہ غیرالضالین تھاجسے سهولت کى نظر سے بدل لیاگیاهے ليکن حقیقت يہ هے کہ مسلمانوںکاصدراول سے آج تک قرآن کريم کے بارے ميںاہتمام وتحفظ اس امرکازندہ ثبوت هے کہ امت اسلاميہ اس قسم کے تغیرات کوکبھى برداشت نہيںکرسکتى جیساکہ تاریخ نے واقعہ نقل کیاهے کہ حجاج بن یوسف نے عبدالملک سے يہ خواہش کى کہ ”اولئک مع الذین انعم اللہ عليہم من النبین والصدیقین والشہداء والصالحین “کى آیت ميںشہداء کے ساتھ خلفاء کااضافہ بھى کرلیاجائے تاکہ ان کاشماربھى صاحبان نعمت ميںهوسکے اوراس نے انکارکردیاتوحجاج نے کہاکہ آج تواس بات پرتعجب اورانکارکررہاهے اورکل تیرے باپ نے يہ خواہش کى تھى کہ ”ان اللہ اصطفى آدم ونوحاوآل ابراہیم وآل عمران على العالمین“ ميں آل عمران کے ساتھ آل مروان کابھى اضافہ کردیاجائے۔ (روضة الصفا)

ظاہرهے کہ اس قسم کى خواہش نہ حجاج ے بعیدهے اورنہ عبدالملک سے اورنہ اس کے باپ سے ۔ ليکن سوال صرف يہ هے کہ دربار حکومت سے نکلنے والى يہ خواہش پورى کیوںنہيںهوئيں،کیااس کاسبب ان لوگوںکاتائب هوجانااوراپنے ارادوںسے بازآجاناتھا؟ ہرگزنہيں۔ ايساهوتاتويہ خیالات ذہن ميںپیدا ہى نہ هوتے اوراگرپیدابھى هوجاتے تواس کاسلسہ نسلوںميںنہ چلتا۔ معلوم هوتاهے کہا س کاکوئى تعلق ان حکام کى پاکیزگى نفس سے نہيںتھااورنہ ايساہى هے کہ ان لوگوںکے اقتدارميںکوئى ضعف اورکمزورى پائى جاتي هو۔

لاکھوںافرادکوبے دھڑک تہ تیغ کردینے والابادشاہ ايک لفظ کے اضافہ کى تمنادوسرے شخص سے کررہاهے اورخوديہ اقدام نہيںکررہاهے ،کیايہ تمنااس بات کا زندہ ثبوت نہيںهے کہ لاکھوںافرادکي تباہى پرصبرکرلینے والى امت بھى قرآن کے کسى ايک لفظ کى تبدیلى پرراضى نہيںتھى اورمسئلہ تسکین قلب کے لئے صرف دوايک قرآنوںميںالفاظ کے لکھ لینے کانہيںتھا ورنہ اس کے لئے کسى سے کہنے کى ضرورت ہى نہيںتھى بلکہ مسئلہ پورے عالم اسلام ميںپھیلے هوئے قرآنوںميںترمیم اوران کے الفاظ ميںتغیروتبدل کاتھااوريہ بات ایسے ایسے جابرحکام کے بس کى بھى نہ تھي سوچنے کى بات هے کہ جب اسلام کے ایسے ایسے جابروبادشاہ قرآن کے تقدس کوکھیل نہ بناسکے تودوسرے افراداورحکام کاکیاذکرهے ۔انفرادى طورپرقرآن کى نشانہ ستم بنالینآسان هے ليکن اجتماعى طورپرپورے قرآن کابدل لینابہت مشکل بلکہ محال هے۔

ظاہر هے کہ جوحکومت نژاداورسلطنت پرست امت اقتدارکى خواہش پرحکومت کے باپ داداکاذکربرداشت نہيںکرسکتى وہ يہ کیونکر برداشت کرے گى کہ ”وغیرالضالین“ کى جگہ ”ولاالضالین“ آجائے۔ یا”هوالرازق “کى جگہ”هوالرزاق“ آجائے ۔یا”فامضواالى ذکراللہ “کے بدلے ”فاسمعواالى ذکراللہ“ رکھ دیاجائے ،وغیرہ وغیرہ ۔

۴۔ تحريف نقص  :

يعني الفاظ وآیات کى کمى ۔ درحقیقت تحريف کے بارے ميںيہي مسئلہ ہردورميںمحل نزاع واختلاف رہاهے ،علماء اسلام کى ايک جماعت اس بات کى قائل رہى هے کہ قرآن مجیدکے آیات ميںکچھ نقص ضرورپیداهواهے اوراسى لئے بعض مقامات پرآیات ميںکوئى ربط نظرنہيںآرہاهے اوردوسرى جماعت اس بات پرمصررہى هے کہ قرآن کريم ميںکسي قسم کاتغیروتبدل نہيںهواهے ،اس ميںآج بھى اتنے ہى الفاظ وکلمات موجودہيںجتنے رسول اکرم پرنازل هوئے تھے اورقیامت تک یوںہى رہيںگے جس کے بہت سے قرآنى شواہدموجودہيں۔ اس مسئلہ پرشیعہ وسني دونوںفریق کے علماء نے نفى واثبات ميںرسالے تالیف کئے ہيںاورہرايک نے اپنے دعوے کوثابت کرنے کے لئے ایڑى چوٹى کازورصرف کیاهے۔ ميںمسئلہ کى مکمل وضاحت اس وقت کروںگاجب ان تمام روایات کاذکرآئے گاجن ميںاس تحريف کامفصل ذکرموجودهے۔

۵۔ تحريف زيادتي  : 

يعني الفاظ وکلمات کااضافہ۔ اس مسئلہ پرتقریباتمام علماء اسلام متفق ہيںکہ قرآن مجیدميںکسى ايک لفظ کابھى اضافہ نہيںهواهے اورنہ هوسکتاهے اس لئے کہ قرآن جہاںاسلام کادستورزندگى هے وہاںرسول اکرم کامعجزہ بھى هے اورمعجزہ کامفهوم ہى يہ هے کہ جس کامثل لاناسارے عالم کے لئے غیرممکن هو۔اب اگرقرآن کے دوچارکلمات بھى اضافہ شدہ هوئے تواس کامطلب يہ هے کہ عام انسان بھى اعجازى کلام پرقدرت واختیاررکھتاهے اوريہ وہ بات هے جوقرآن کے اعتبارکوخاک ميںملادے گى اوراسلام کادستورتباہ وبربادهوجائے گااس لئے ايساعقیدہ رکھناکسى بھى مسلمان کے لئے زیب نہيںدیتاهے ۔

۶۔ تحريف ترتيبي  :

 يعنى آیات اورسوروںکى ترتيب کابدل جانا۔ تحريف کى يہ قسم بھى اگرچہ علماء اسلام ميںمحل اختلاف رہي هے ليکن علماء تشیع کى ايک جماعت ہردورميںاس تحريف کى قائل رہى هے اوراس کے اثبات پربے حدزورصرف کرتى رہى هے ۔ سوال يہ پیداهوتاهے کہ آخرتحريف ترتيب کامطلب کیاهے ۔ اب تک تحريف کى جتنى قسموںکاذکرهواهے ان سب ميںايک حرکت ،ايک کلمہ،ايک عبارت پہلے سے مسلم تھى بعد کے افرادان ميںتغیروتبدل پیداکردیا۔ ليکن قرآن کريم کى ترتيب جب بقول علماء اکرام ،حیات رسول اکرم ميںموجودہى نہيںتھى توبعدميںاس کى تحريف کاکیاسوال پیداهوسکتاهے ۔ايسامعلوم هوتاهے کہ اس مقام پرتحريف سے ان  حضرات کي مراديہ هے کہ قرآن کريم کى ترتيب ہى تحريف شدہ هے يعنى ترتيب پیغمبرکے خلاف نہيں هے بلکہ منشاء پیغمبرکے خلاف هے اوراس بات کے ثابت کرنے کے لئے دوباتوںکااثبات کرناپڑے گا۔

پہلى بات يہ هے کہ قرآن کريم حیات پیغمبرميںمرتب شکل ميںنہيںتھا،بلکہ بعدکے ادوارميںمرتب هواهے۔

اوردوسرى بات يہ هے کہ منشاء رسالت يہي تھاکہ کتاب خداکواس کى تنزیل کے مطابق مرتب کیاجائے اورامت نے اس کے برخلاف اپنى مرضى کے مطابق مرتب کرڈالا۔

بہرحال اس مقام پرتحريف کاجوبھي تصورمرادلیاجائے ہميںمستقبل ميںانھيںدونوںباتوںپرغورکرناپڑے گااورانھيںکى تاریخ سے کوئى نتیجہ اخذ کرناهوگا۔ في الحال ان تفصیلات ميںداخل هونے سے پہلے يہ دیکھ لیناضرورى هے کہ آخرقرآن ميںتحريف کے قائل هونے کے اسباب کیاہيں اور خودقرآن مجیدکااپنى عصمت وتحريف کے بارے ميںکیانظريہ هے ۔ تاکہ تحقیق حق کاراستہ صاف هوجائے اورمنزل تک پهونچنے کے لئے کوئى خاص دشوارى نہ رہ جائے۔!