تاويل قرآن

قرآن مجيدکے سلسلہ ميں تفسيرہي کى طرح ايک لفظ تاويل بھى استعمال هوتاهے اورعلماء اعلام کے درميان يہ ايک مکمل بحث هے کہ تاويل کے معنى کياہيں جس کاعلم خدانے اپنى ذات تک محدودرکھاهے ياصرف راسخون فى العلم کے حوالہ کياهے اوران کے علاوہ کوئى اس تاويل کاعالم اوردانائے رازنہيں هے۔

اس سلسلہ ميں تاويل کے چارمعنى بيان کئے گئے ہيں :

۱۔ تاويل بمعنى تفسير  : ليکن دونوں کے درميان ايک نازک سافرق يہ هے کہ تفسيران آيات سے بھى متعلق هوسکتى هے جن کامفهوم کسى قدرواضح هے۔ ليکن تاويل کاتعلق صرف ان آيات کى تفسيرسے هے جنھیںمتشابہات کتاب کہاجاتاهے ۔ يہ نظريہ علماء متقدمین کاهے ۔

۲۔ تاويل بمعنى خلاف ظاہر  : يعني کسى آیت يالفظ سے ایسے معانى مرادلئے  جائیں جن کازبان وادب کے قواعدسے کوئي تعلق نہ هو اورنہ ان کاظهورالفاظ آیت سے هورہاهو۔(يہ نظريہ علماء متاخرین کاهے)۔

۳۔ تاويل بمعنى ظاہرغیرمعلوم الاللخواص  : يعنى آیت سے ایسے معنى مرادلئے جائیں جوظهورکے حدودکے اندرهوں ليکن ان کاسمجھناہرايک کے بس کى بات نہ هو بلکہ صاحبان فضل وکمال اورمخصوص قسم کے ماہرین ادب درکارهوں ۔جیسے الفاظ کے لازمي معانى يامعانى کاوہ باطنى پس منظرجومعانى کي پشت پرکام کرتاهے اورجس کى بناپرالفاظ عالم وجودميںآتے ہيں ۔ مثال کے طورپراگرکوئى شخص يہ کهے کہ مجھے پانى پلاؤتواس کاپوراکرناهے اوراس کا پس منظروہ تحفظ حيات هے جس کے لئے پانى استعمال کياجاتاهے اورجس کى ضرورت کے تحت پانى کامطالبہ کياجاتاهے ۔

۴۔ تاويل بمعنى حقائق وجوديہ يعنى انسان جس وقت کوئى لفظ استعمال کرتاهے تواس کے لفظى معنى کے علاوہ ايک حقیقى معنى بھى هوتے ہيں جواس کے تکلم کے واقعي داعى هوتے ہيں اورجن کى بناپروہ لفظ عالم وجودميں آتاهے اوراس کاتعلق الفاظ کے معانى سے نہيں هوتاهے ۔ معاني ہرشخص کومعلوم هوتے ہيں ليکن دواعى اوراسباب ہرشخص کومعلوم نہيں هوتے ہيں ، اوريہى تیسرے اورچوتھے معانى کافرق هے کہ تیسرے معنى ميںتاويل ان ظواہرکانام هے جوکسى کے لئے معلوم اورکسى کے لئے غیرمعلوم ہيں ،اورچوتھے معنى ميں اس کاتعلق معانى سے نہيں هے اورمعانى سب کے لئے معلوم ہيں ليکن اس کے پس پشت کچھ حقائق ہيں جن کاعلم خدااورراسخون فى العلم کے علاوہ کسى کے پاس نہيں هے اوراس طرح دونوں معانى ميں ايک فرق يہ بھى هوجائے گا کہ تیسرے معنى کى بناپربعض آيات کى تاويل هوگى اوربعض کى نہ هوگى اورچوتھے معنى کى بناپرپوراقرآن تاويل کاحامل هوگا اورہرآیت کے پس منظرميںايک حقیقت هوگى جس کے اظہارکے لئے آیت نازل هوئى هے اوراس کامعلوم کرناکسى انسان کے بس کاکام نہ هوگا ۔ يہ اوربات هے کہ يہ حقائق آيات کى مختلف قسموں کے اعتبارسے مختلف هوںگے ۔

آيات ميں انشاء هوگا توحقائق سے مرادوہ مصالح هوں گے جوامرونہى کى وغيرہ کى دعوت دیتے ہيں اورجن کى بناپرکسى چیزکاامرکياجاتاهے يااس کي نہى کى جاتى هے ۔

اورآيات اخباريہ هوںگى توحقائق سے مرادوہ واقعات هوںگے ،جن کے بيان کے لئے آيات کانزول هواهے اورجن کى طرف ان الفاظ کے ذریعہ اشارہ کياگياهے ۔

اورآيات کاتعلق مستقبل محسوس سے هوگا توحقائق وہ حوادث ہيںجوآئندہ پیش آنے والے ہيں مثل غلبہ روم وغيرہ اورمستقبل معقول سے هوگا

 توحقائق وہ امورغیرمحسوس هوںگے جن کاتعلق عقليات اورمعنويات سے هوگا جیسے آيات حشرونشر،آيات افعال بارى تعالى کہ ان سب کاپس منظرايک امرغیرمحسوس هے جس کاادراک خواس کى ذات تک محدودهے اوراس نے راسخون فى العلم کواس کے علم سے سرفرازفرمادياهے ۔

فروق تفسيروتاويل

تفسيروتاويل دونوں کے مفاہیم کے پیش نظرعلماء اسلام نے حسب ذیل فرق قائم کئے ہيں اوران کے ذریعہ تاويل کوتفسيرسے الگ کرناچاہاهے :

۱۔ تفسيرتاويل سے اعم هے کہ تاويل کااستعمال مفردات ميں نہيں هوتا هے اورتفسيرکااستعمال مفردات ميں بھى هوتاهے ۔

۲۔ تفسيرايک احتمال ميں جارى هوتى هے اورتاويل مختلف احتمالات ميں هوتى هے ۔

۳۔ تفسيریقینى معنى کے اظہارکانام هے اورتاويل غیرقطعي مفهوم کے یقین کانام هے ۔

۴۔ تفسيردلیل کى مراد کوطے کرناهے اورتاويل اس کى حقیقت يعني وجودمقصدى کوطے کرناهے ۔

۵۔ تفسيرمعنى ظاہرکابيان کرناهے اورتاويل معنى مشکل کااظہارکرناهے ۔

۶۔ تفسيرکاتعلق روایت سے هے اورتاويل کاتعلق درایت سے هے ۔

۷۔ تفسيرکاتعلق سماع اوراتباع سے هے اورتاويل کاتعلق نظراوراستنباط سے هے ۔

تاويل کے معانى پرايک نظر  :

تاويل کے مذکورہ معانى پرنظرڈالي جائے تواندازہ هوگا کہ ہرمعنى ميں کوئى نہ کوئي کمزورى ضرورپائى جاتى هے اورکوئى بھى معنى تاويل کى حقیقت کى نشاندہى کے لئے کافى نہيں هے ۔مثال کے طورپرپہلے معنى ميں غیرواضح تفسيرکانام تاويل رکھاگياهے جس کامطلب يہ هے کہ تاويل کاتعلق صرف مقطعات قرآن سے هوگا ورنہ ساراقرآن واضح هے اورعربى زبان ميں نازل هواهے اوراہل زبان کوچیلنج کياگياهے اورخوداس نے اپنے کو بيان اورتبيان سے تعبیرکياهے جس کامطلب يہ هے کہ غیرواضح صرف مقطعات ہيں اورتاويل کاتعلق انھیں الفاظ سے هے جب کہ فتنہ کاتعلق یقینا صرف مقطعات سے نہيں هے بلکہ علل احکام دین کے ذریعہ بھى ا ہل فتنہ گرى کاکام کياهے جوان کى نظرميں تاويل کابہترین مصرف هے ۔

دوسرے معنى ميں تاويل خلاف ظاہرکوقراردياگياتويہ خلاف ظاہرکبھى کبھى محکمات سے متصادم بھى هوجائے گا اوراس طرح قرآن کايہ دعوى غلط هوجائے گا کہ تضادغیرخداکى طرف سے نازل هونے کى علامت هے اورچونکہ میرے اندرتضادنہيں هے لہذا ميں خداکى طرف سے نازل هواهوں ۔

تيسرے معنى کى کمزورى يہ هے کہ اس ميں معانى التزاميہ کوتاويل قراردياگياهے اوراس کے علم کوخواص تک محدود کردياگياهے حالانکہ معني التزامى کامطلب ہى يہ هے کہ خواص کے علاوہ بھى اس کاادراک کرسکیں اس لئے کہ اس کااستعمال قواعدادب کے مطابق ہى هوتاهے اوراہل زبان اس سے بہرحال واقف هوتے ہيں يہ اوربات هے کہ انسان خواص اورمطہرون ميں هے تواس کے ا دراک  ميں خطاکاامکان نہيں هے اورصرف قواعد ادب تک محدودهے تواس کے ادراک ميں خطاکابھى امکان پاياجاتاهے ۔

چوتھے معنى ميں يہ بات صحيح هے کہ تاويل حقائق کانام هے ليکن مضمون واقعہ کوتاويل قراردینے ميںخرابي يہ هے کہ اس طرح تاويل کاعلم ان کفارومشرکین کوبھى هوجائیگا جووقت نزول قرآن موجودتھے اورواقعات کواپنى نگاهوں سے دیکھ رهے تھے جب کہ قرآن نے تاويل کے علم کوخدااورراسخون فى العلم تک محدودرکھاهے اوراگر”ومایعلم تاويلہ “ کامرجع صرف متشابہات ہيں کہ ان کے حقائق کوخدااورراسخون فى العلم کے علاوہ کوئى نہيں جانتاهے تومتشابہات کے دائرہ کووسیع کرناپڑے گال اس لئے کہ فتنہ صرف حقائق خارجيہ کے ذریعہ نہيں پیداکياگياهے بلکہ اس کے لئے آيات احکام کے علل واسباب

 ،صفات الہيہ ،معجزات وغيرہ کے آيات کوبھى استعمال کياگياهے جن کاکوئى پس منظرحقائق خارجيہ ميں نہيں هے جسے اس کى تاويل قراردياجائے ۔

اس لئے صحيح بات يہ هے کہ تاويل سے مرادغیبى حقائق ہيں جوالفاظ کے مفاہیم سے ماوراء عالم بالاکے حقائق ہيں اورجنھیں الفاظ ميں مقیدکرکے پیش کياگياهے ۔الفاظ ان حقائق کے لئے صرف ايک علامت اورمثال کاکام کرتے ہيں ورنہ ان کي دنيابہت بلندوبا لاهے اوران کاادراک خدااورراسخون فى العلم کے علاوہ کسى کے بس کاکام نہيں هے ۔ قرآن نے (سورہٴ زخرف ۱۴) ميں اسى نکتہ کى طرف اشارہ کياهے کہ ”اناجعلناہ قرآ ناعربيالعلکم تعقلون وانہ فى ام الکتاب لدینالعلى حکیم “ (ہم نے قرآن کوعربى بنادياکہ شایداس طرح تم لوگ سمجھ سکوورنہ يہ قران ہمارے پاس ام الکتاب ميںانتہائي بلنداورپرازحکمت کتاب هے )۔

جس کابالکل واضح مفهوم يہ هے کہ قرآن ايک حقیقت هے اوراس کے واقعى مفاہیم عالم غیب کے حقائق ہيں جن کے افہام وتفہیم کے لئے عربى زبان کوذریعہ بنادياگياهے اس لئے کہ اس سے بہترکوئى زبان ان حقائق کے اظہارکے لئے ممکن نہيں تھى ۔ عربى زبان اپنى جامعیت اورہمہ گیرى کے اعتبارسے بڑى حدتک ان حقائق کى ترجمانى کرسکتى هے اوراسى لئے ہم نے اسے عربى ميں نازل کرکے ان غیبى حقائق کے اظہارکاسامان فراہم کردياهے ۔

اس طرح تاويل کاتعلق متشابہات سے بھي هوسکتاهے اورکل قرآن سے بھى هوسکتاهے کہ متشابہات کے پس منظرميں بھى غیبى حقائق ہيںاورکل قرآن کے پس منظرميںبھى کچھ حقائق ہيں جن کے ا ظہارکے لئے الفاظ اورآيات کونازل کياگياهے جس کى قدرے تفصیل چوتھے معنى کى توضیح کى ذیل ميں بيان کى جاچکى هے ۔

واضح رهے کہ قرآن مجيدميںلفظ تاول ۱۶مقامات پراستعمال هواهے اورسب سے مراديہي بلندترین حقائق ہيں جن کى طرف الفاظ وآيات کے ذریعہ اشارہ کياگياهے اورجن کا علم خدااورراسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں هے ۔

تاويل سے غیرظاہرمعنى کامرادلیناصرف محدثین کى اےجادهے جس کاکوئى تذکرہ قرآن مجيدميںنہيںهے ۔مثال کے طورپرچندشواہدملاحظہ هوں :

۱۔ ھل ینظرون الاتاويلہ یوم ياتى تاويلہ یقول الذین نسوہ من قبل قدجائت رسل ربنابالحق (اعراف ۵۳)۔

     ”يہ لوگ صرف اس کى تاويل کاانتظارکررهے ہيں توجس دن تاويل آجائے گى توجولوگ اسے بھولے هوئے تھے وہ کہيں گے کہ ہمارے پاس مرسلین حق ہى لے کرآئے تھے ۔“

۲۔ وماکان ھذاالقرآن ان یفترى ۔۔۔۔ بل کذبوا بمالم یحیطوابعلمہ ولماياتھم تاويلہ ۔(يونس ۳۹)

  ”يہ قرآن کوئى افترانہيں هے۔حقیقت يہ هے کہ ان لوگوں نے احاطہ علمى نہ هونے کي بناپرانکارکردياهے اورابھى ان کے پاس اس کى تاويل نہيں آئى هے ۔“

۳۔ واوفوالکیل اذاکلتم وزنوابالقسطاس المستقیم ۔ ذلک خیرواحسن تاويلا۔ (سورہ اسراء ۳۵)۔

 ”جب ناپوتوصحيح طریقہٴ سے ناپؤاورتولوتوٹھیک ترازوسے تولوکہ اسى ميں خيراورهے اوريہي بہترین تاويل هے۔“

۴۔ ساٴنبئک تباویل مالم تسطع عليہ صبرا ۔ ذلک تاويل مالم تستطع عليہ صبرا۔ (کہف)۔

     ”ميں عنقريب تمھیں ان باتوں کى تاويل بتاؤں گا جن پرتم صبرنہيںکرسکے ۔ يہ ان امورکى تاويل هے جن پرتم صبرنہيں کرسکے۔“

۵۔ ورفع ابويہ على العرش وخروالہ سجدا قال يابت ھذاتاويل رؤياي قدجعلھا ربى حقا ۔ (يوسف ۱۰۰)۔

     ”يوسف نے اپنے والدین کوتخت پربلندکيااورسب اس کے سامنے سجدہ ميں گرپڑے تو يوسف نے کہاکہ يہ میرے خواب کى تاويل هے جسے میرے خدانے حق کردکھاياهے ۔“

۶۔ قال الذى نجى منھما وادکربعدامة اناانبئکم بتاويلہ فارسلون ۔۔۔۔من تاويل الاحاديث ۔۔ ۔۔۔ علمتنى من تاويل

 الاحاديث۔(يوسف)۔

”جس قيد کونجات مل گئى تھى اوراسے ايک عرصہ کے بعديوسف يادآئے تواس نے کہاکہ ميں تمہارے خواب کي تاويل بتاسکتاهوں۔“

ان آيات سے بالکل واضح هوجاتاهے کہ تاويل کاالفاظ کى دلالت يااس کے معنى کے ظاہراورغيرظاہرهونے سے کوئى تعلق نہيںهے اوريہ ايک غیبى حقیقت هے جسے خدااورراسخون فى العلم کے علاوہ کوئى نہيںجانتاهے اوروقتافوقتا اس کااظہارهوتارہتاهے ۔