تنزيل قرآن

قرآن مجيدنے اپنى وحى کے بارے ميںدوقسم کے بيانات دےے ہيں  :

۱۔” اناانزلناہ فى ليلٰالقدر۔“ ہم نے قرآن کوشب قدرميںنازل کيا ہے۔

” اناانزلناہ فى ليل مبارکة۔“  ہم نے قرآن کو مبارک شب ميںنازل کياہے۔

”شھررمضان ا لذى انزل فيہ القرآن۔“  ماہ رمضان وہ مہےنہ ہے جس ميںقرآن نازل کياگياہے۔

”نزل بہ الرووح الامين على قلبک ۔“  اس قرآن کوروح الامين لے کرتمھارے دل پرنازل ہوئے ہيں۔

۲۔ ”وقال الذين کفروالولانزل عليہ القرآن جملة واحدةکذلک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتيلا ولاياٴتونک بمثل الاجئناک بالحق واحسن تفسيرا۔“  (فرقان۔۳۳)

کفاريہ کہتے ہيںکہ يہ قرآن يکبارگى کےوں نازل ہوگيا۔ انہيںکہنے دو۔ہم تودھےرے دھےرے اسى لئے نازل کرتے ہيںکہ تمھارادل بھى مضبوط رہے اوربات بھى صاف اورواضح ہوجائے ۔ يہ کوئى بھى مثل لے آئيںہم اس کاحق تمھيںپہلے دے چکے ہيںاورزيادہ واضح طريقہ پردے چکے ہيں۔ 

”ولاتعجل بالقرآن من قبل ان يقضي اليک وحيہ۔“  

ميرے رسول !قرآن کے بيان ميںجلدى نہ کرناجب تک کہ وحى مکمل نہ ہوجائے۔

پہلي قسم سے يہ معلوم ہوتاہے کہ قرآن ماہ رمضان کى مبارک اروذےقدررات ميں يکبارگى نازل ہواہے ۔اوردوسرى قسم سے يہ اندازہ ہوتاہے کہ اس کى تنزيل تدريجى طورپرہوئى ہے۔

انہيں آيات کوديکھ کرارباب علم کاايک بڑاطبقہ کشمکش ميںمبتلاہوگيااوران کے لئے اس عقيدے کاحل کرناايک مسئلہ بن گيا۔ ليکن ہمارى نظرميںان آيات ميںنہ کوئى اختلاف ہے اورنہ اس کشمکش کوحل کرنے کے لئے کسى تارےخ ورواےت سے مددلےنے کي ضرورت ہے اوپرکى آےتوں ميںآخرى آےت نے اس عقےدے کوبالکل واضح کردياہے۔  

بات يہ ہے کہ رسول کريم کو پروردگار عالم نے عالم کون ومکان ميں اپنا سفيربناکر بھيجا ہے ان کاکام يہ ہے کہ وہ لوگوں ميں مشيت کرترجمانى کرکے ربوبيت کى جلوہ گرى دکھائيں،اورعالم انسانيت کوترقى کے آخرى درجہ تک پہونچائيں۔ اورسفيرمملکت کى ہميشہ دونوعيتيں ہوا کرتى ہيں۔ وہ جب ملک سے روانہ ہوتاہے تواس کوملک جملہ قوانےن کى آگاہى رہتي ہے، پورادستورمملکت اس کى نگاہوںميںہوتاہے، سارے آئےن دولت اسے بتادےے جاتے ہيںليکن اسى کے ساتھ اس کافرض ہوتاہے کہ ہرمسئلے ميں حکومت کى طرف رجوع کرتارہے، اورہرحادثے ميں سلطنت کے احکام کاانتظار کرتارہے ۔ حکومت جس بات کو مناسب سمجھتى ہے سفيرکواس کى اطلاع کردى جاتى ہے اوروہ اپنے معلوم دستور ميں سے اس دفعہ کونافذکردےتاہے۔ فرق يہ ہے کہ دنيا وى حکومتوںکاسفيردوسرے ممالک ميںکام کرتاہے، اس کى ذمہ دارياں صرف ايک قسم کى ہوتى ہيں،ےعنى وہ روابط وتعلقات سے متعلق احکام کونافدکرتاہے اوراصلاح وتنظيم کے احکام سے اجنبى ہوتاہے ۔ اس کى ذمہ دارى ملک کے اندرکام کرنے والے حکام پرہوتى ہے ۔ انہيں بھى آئين سلطنت معلوم ہوتے ہيں ليکن وہ بھى تنفيذ قانون ميں افسراعلى کے حکم کاانتظارکرتے ہيں، ايک پولےس کے آفےسرکو يہ ضرورمعلوم ہوتاہے کہ کن نازک مواقع پرفائرنگ کرادي جاتى ہے ليکن اس کے باوجود وہ اپنى فائرنگ ميںمجسٹرےٹ کے حکم کاانتظارکرتاہے جس کامطلب يہ ہے کہ قانون کاعلم اورہے اورقانون کے نافذکرنے کااختياراور۔ اورجب يہ بات دنياکى حکومتوں ميںپائى جاتى ہيںجہاں کے حکام تمام ترحکومت کے پرستارياپابندنہيںہوتے ۔ وہ مخالفت بھى کرلےتے ہيںاورانہيںبغاوت کااختياربھي ہوتاہے تووہ سفيرجوحکومت کے اشاروںکااےسا پابندہوکہ بغےراس کے اشارے کے بات نہ کرسکے، بغےراس کى مشيت کے قدم نہ اٹھاسکے، بغےراس کے حکم کے کوئى کام انجام نہ دے سکے اس کے يہاںيہ بات بطرےق اولي پائى جائے گى کہ وہ قوانےن کى جانتے ہوئے بھى تنفےذقانون ميںحاکم کے حکم کاانتظارکرے۔

رسول اکرم کى تقرےبايہى حيثيت تھى کہ وہ دستوراسلام سے مکمل طورپرواقف تھے ۔ انہيںقرآن دے کربھےجاگياتھا۔ پھران پرقرآن آئےنى طورپرنازل کرکے ان کى رسالت وسفارت کااعلان کرادياگياتھا ليکن اس کے باوجودوہ تنفےذقانون ميں مشيت کے پابندتھے اورتدرےجى طورپرنزو ل کامطلب يہى تھاکہ جبرےل امين آيات پڑھ کرسناياکرتے تھے کہ آج اس آےت کااعلان ہوناچاہےے، آج اس قانون کونافذہونا چاہےے، آج اس حکم کى تعمےل ہوناچاہےے ليکن قدرت کويہ اندازہ تھاکہ لوگ اس طرزنزول سے اس غلط فہمى ميںمبتلاہوجائيںگے کہ رسول کوگويادستورکاعلم ہى نہيںتھا اس لئے اس نے نہاےت ہى لطےف پےرائے ميںاس نکتہ کى بھى وضاحت کردى کہ ميرے رسول وحى کے تمام ہونے سے پہلے قرآن نہ پڑھنا۔ جس کامطلب يہ ہے کہ رسول کوقرآن کاعلم تھاليکن وہ اس کى تنفےذوتلاوت ميںحکم الہى کے پابندتھے۔

رسول اکرم کى حيثيت کاقياس دنياکے سفيروںپرصرف بطورمثال کياجاتاہے ورنہ رسول کى حيثيت دوسرے سفيروں سے بلکل مختلف ہوتى ہے سفيرہميشہ اپنى مملکت کے باہرکام کرتاہے ےعنى سفارت کاعہدہ وہاںتفوےض کياجاتاہے جہاںبادشاہ يارئےس جمہورکااقتدارمحدودہو۔

کچھ علاقے حدودمملکت کے اندہوں اورکچھ حدودمملکت سے باہر۔ باہرکے علاقوںميںسفيرکام کرتاہے اوراندرکے علاقوںميںکمشنر،کلکٹر وغےرہ۔

اوررسول اکرم جس حکومت کى ترجمانى کررہے تھے اس کے حدودواقتدارسے کوئي علاقہ باہرنہيںتھاوہ بمقتضائے ”بےدہ الملک “ ”لہ الملک “ ”الحمدللہ رب العالمين “ سارى کائنات کاحاکم مطلق ہے ۔ اس کے حدودمملکت سے کائنات کاکوئى گوشہ خالى نہيںہے۔ اس لئے رسول کوصرف سفيرکي حيثيت نہيںدى جاسکتى بلکہ وہ ہمہ جہاتى نائب سلطنت ہے ۔ وہ بيک وقت سفيربھى ہے اورمدارالمہام بھي۔ سلطان وقت بھى ہے اورنائب السلطنت بھى ۔ بادشاہ بھى ہے غلام بھى ۔ حاکم بھى ہے محکوم بھي۔ اورظاہرہے کہ جب عہدہ دنياکے تمام عہدوںسے الگ نوعےت رکھتاہے تواصول وآئےن بھى وےسے ہى ہوںگے ۔ اسى لئے خالق کائنات نے قرآن اوررسول کے رشتے کوتےن حصوںپربانٹ دياہے، منزل علم ،منزل اعلام۔ منزل تنفےذ۔

منزل علم ميں اتناکامل بناياہے کہ دنياميںبھےجاتوکل قرآن کاعلم دے کر۔”ہوالذى بعث فى الامےےن رسولامنھم ےتلواعليہم آياتہ وےزکيہم وےعلمہم الکتاب والحکمة ۔“ وہ خداوہ ہے جس نے اہل مکہ ميں ايک رسول بھےجاجس کاکام تلاوت آيات،تزکيہ نفوس اورتعلےم کتاب وحکمت تھا۔

بعثت کے اصطلاحى معنى سے قطع نظرآےت صاف طورسے اعلان کررہى ہے کہ قدرت نے رسول کودنياميںبھےجاتو انہيںمقاصدکى تکمےل کے لئے،اب ظاہرہے کہ جوتلاوت آيات اورتعلےم کتاب کے لئے آئے گاوہ علم کتاب سے بے بہرہ نہيںہوسکتاہے۔

منزل علم درحقےقت منز ل کمال عبدےت اورافاضہ ربوبےت ہے۔ اس منزل ميںبندے کى صلاحےت کااظہارہوتاہے اورمالک کے فےضان کرم کااعلان۔ ليکن ظاہرہے کہ اس منزل کوعہدہ ومنصب سے کوئى تعلق نہيںہے، يہ عہدہ ومنصب کى شرط ہے اصل عہدہ نہيںہے۔ اسى لئے جب خالق نے رسول کواعتبارمنصب کى منزل ميںلاناچاہاجسے ہم منزل اعلان سے تعبےرکرتے ہيںتوساراقانون جبرئےل امين کے ذرےعہ سےنے پراتارديا۔ ظاہرہے کہ ايک غےبى طاقت کے بھےحے ہوئے، غےبى طاقت کے لائے ہوئے اورغےبى محل پراتاراے ہوئے قانون کى کائنات ميںکسي کواطلاع نہيںہوسکتى ليکن آےت قرآن نے اس کابھى اعلان کرديا۔ جس کاواضح مطلب يہ ہے کہ دنيارسول کى حيثيت کوپہچان لے اورنظام ربوبےت سے باخبرہوجائے کہ يہاںعہدے کااعلان اس وقت تک نہيںہوتاجب تک پورے دستورکے علم کااعلان نہ ہوجائے ۔ آدم کوبھى منصب دياگياتھا ليکن علم کے اعلان کے بعد۔ اورعلى ابن ابى طالب نے بھى اپنے منصب نيابت رسول کوپہچنواياہے ليکن آغوش رسالت ميںتلاوت قرآن کے بعد۔

يہاںتک تويہ بات واضح ہوگئى کہ منزل اعلان منصب کے لئے منزل اعلان علم دستورميںلاناضروري ہے ليکن اس کے بعدايک دوسرى غلط فہمى کاسلسلہ شروع ہوتاہے اوروہ يہ ہے کہ رسول منصب پانے کے بعدمطلق العنان ہوجاتاہے اوراس کاحکومت سے رشتہ قطع ہوجاتاہے اب وہ ہوتاہے اورقانون۔ اس کے اختيارہوتے ہيں اوردستورکے دفعات۔

قرآن مجيدنے اس غلط فہمى کاازالہ بھى ضرورى سمجھا اوراپنى تدرےجى تنزيل کااعلان کرکے اس بات کوواضح کردياکہ رسول مشيت کاتابع اورحکومت کامکمل ترجمان ہوتاہے وہ کوئى قانون اس وقت تک نافذنہيںکرسکتاجب تک حکومت کااشارہ نہ مل جائے اس کى اصلاح اپنى صواب دےدپرنہيںہوتى بلکہ حاکم کى مصلحت پرہوتي ہے ۔ اس کى تنفےذاپنے اختيارسے نہيںہوتى بلکہ مالک کى مشيت سے ہوتى ہے۔ اس بات کى وضاحت کامنشايہ تھاکہ قانون کاتقدس محفوظ رہے اور”قانون سازي“ کى منزل سے ”تتفےذکى منزل “ تک کسى مقام پرغےرخداکادخل نہ ہونے پائے تاکہ يہي بات اسلام کى عظمت اورقرآن کى بلندى کى دلےل بن جائے

افسوس يہ ہے کہ ملت اسلاميہ نے اس نکتہ کوفراموش کرديااورتنفےذسے لے کرتعبےرتک اورتعبےرسے لے کرترمےم تک جملہ اختيارات اسلامى حکام کے حوالے کردےے جس کانتےجہ يہ ہواکہ قرآن کاتقدس،دستورکى عظمت خاک ميںمل گئى اورآج دنياکواسلامى آئےن پرانگشت نمائى کاغےرمتوقع طورپرموقع ہاتھ آگيا۔!

قرآن مجيدکى دفعى اورتدرےجى شان نزول کااندازہ اس کے الفاظ سے بھى کياجاسکتاہے کہ اس نے اپنے نزول کوکسى مقام سے تعبےرکياہے اورکسى جگہ پرتنزيل سے ۔ انزال کااستعمال عام طورسے دفعي نزول کے موقع پرہوتاہے اورتنزيل کااستعمال تدرےجى نزول پر،اوريہي وجہ ہے کہ عموماجہاںجہاں انزال کالفظ استعمال ہواہے وہاںکل قرآن کااثربيان کياگياہے،اورجہاںجہاں تنزيل کالفظ استعمال ہواہے وہاںتدرےجى نزول کے اثرات کى طرف اشارہ کياگياہے۔

اس مقام پريہ سوال پےداہوتاہے کہ جب خالق کائنات نے سارا قرآن اپنے رسول پراتاردياتھاتوبيک وقت سب کااعلان کےوں نہ کراديا،يااپنے رسول ہى سے ساراقرآن مرتب کراکے اسے کتابى شکل ميںکےوںنہ پےش کراديا۔ ظاہرہے کہ اگراےساہوگياہوتاتوآج نہ تحرےف کے جھگڑے ہوتے نہ ترتےب کے اختلاف ۔ نہ شان نزول کے تعےن ميںتضادہوتااورنہ مفہوم ومطلوب کى الگ الگ تعبےريں۔

ليکن حقےقت يہ ہے کہ اس تدرےجى بيان واعلان نے قرآن کى شان تربےت کومحفوظ کرکے اسے دستورحکومت سے الگ کردياہے ۔ کہ وہ ايک وقت ميںمرتب کرکے پےش کردياجاتاتووہ کتاب يادستورتوضرورکہہ دياجاتاليکن اس ميںجوتدرےجى طورپرتربےت کااندازہ پاياجاتاہے وہ ختم ہوجاتا۔

دوسرے الفاظ ميںےوںکہاجائے کہ قرآن جہاںامت اسلاميہ کودستورزندگى دے رہاتھاوہاںطريقہٴ تربےت بھى سکھارہاتھاتاکہ تنزيل کے بعدجب تربےت عالم کاکام اسلام کے ذمہ داروںکے حوالے ہوتوانہيںيہ معلوم رہے کہ قرآن نے خودان کى ذہنى تربےت کس طرح کى ہے ايک جاہل معاشرہ،ايک متعصب سماج اورايک سرکش انسان کى تربےت کے لئے جواعلى سے اعلى طريقہ استعمال ہوسکتاتھاقرآن نے اسي کواستعمال کياہے۔مکہ ميںتےرہ سال تک برابراصول وعقائدکي تعلےم ہوتى رہى تاکہ ذہن ميںاستحکام اوردل ميںحقائق کى قبولےت اورمصائب سے مقابلہ کاجذبہ پےداہو،اس کے بعدمدےنہ ميںآکرموقع موقع سے اعمال وافعال،عبادات ومعاملات کى تعلےم دى جاتي رہى تاکہ عقائد کااظہاربھى ہوتارہے اورعبادات سے عقائدکاتذکرہ بھى ہوتارہے۔

قرآن مجيدکى تدرےجى تنزيل سے جہاںيہ فائدہ ہواہے کہ امت دھےرے دھےرے اسلام کے قوانےن پرعمل پےراہوگئى ۔ اس کے دل ودماغ پرکوئى خاص بوجھ نہيںپڑاوہاںايک مشکل يہ بھي پےداہوگئى ہے کہ ہرآےت کاپس منظراورماحول بن گياہے جس ماحول ميںاس آےت کااعلان ہواہے،اورظاہرہے کہ اس ماحول کوآےت کے مفہوم ميںےقےنادخل تھاورنہ آےت کواس موقع پرنازل نہ کياجاتااورکسى دوسرے موقع پرنازل کردياجاتاليکن مشکل يہ ہوئى کہ قرآن کوسےنے سے لگانے والى امت نے ان تمام حالات وواقعات کومحفوظ نہيںکيا۔ يااس لئے کہ اسے ان تمام حالات کى خبرہى نہ تھى اوريااس لئے کہ اس نے ان واقعات وحالات کى اہمےت کااندازہ نہيںکيا۔ نتےجہ يہ ہواکہ جب بعدوالى نسل نے آيات کے تےورميںواقعات کى جھلک ديکھى اوراسے تارےخ ميںواقعہ نہ مل سکاتواس نے اپنے ذاتي عقائدکى روشنى ميںماحول کاتعےن کرناشروع کرديا،جس سے عدوات تھى اسے آيات عذاب کاپس منظربناديااورجس سے محبت تھى اسے آيات رحمت کے ماحول ميںداخل کرديا۔اےسانہ ہوتاتو”من الناس من ےشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ کى آےت کوقاتل مولائے کائنات ابن ملجم کى طرف نہ موڑاجاتا اور”انک لاتھدى من احببت “ کو جناب ابوطالب سے متعلق نہ کردياجاتا۔

مولائے کائنات على ابن ابى طالب نے اسى خطرے کااحساس کرتے ہوئے اپنے علم قرآن کااعلان ان الفاظ ميںکياتھا کہ کوئى آےت قرآن اےسى نہيںہے جس کے بارے ميںمجھے يہ نہ معلوم ہوکہ يہ آےت کہاںنازل ہوئى ہے، کب نازل ہوئى ہے کےوںنازل ہوئى ہے اورکس انداز سے نازل ہوئى ہے۔

بظاہرحضرت على کے اس کلام کاکوئى مطلب سمجھ ميںنہيںآتاتھاکہ آےت کے ماحول وپس منظرکے جاننے يانہ جاننے سے خود علم قرآن پرکيااثرپڑتاہے ليکن قرآن کى تدرےجى تنزيل اوراس کے دستورتربےت ہونے کى مصلحت پرغورکرنے کے بعديہ اندازہ ہوجاتاہے کہ شان نزول کامعلوم ہوناعلم قرآن کاسب سے بڑاعنصرہے ۔ جسے ان حالات کى اطلاع نہيںہے اسے مزاج قرآن کى خبرہى نہيںہوسکتى ہے۔

شان نزول کے تعےن ميںايک بڑااختلاف اس لئے بھى پےداہواہے کہ صدراسلام کے ناخواندہ مسلمانوںنے آےت کوسننے کے بعداس بات پرغورکرناشروع کردياکہ يہ آےت آج کےوں نازل ہوئى ہے اورجب کوئى بات سمجھ ميںنہ آئى توہرشخص نے اس دن کے نئے واقعے کوشان نزول سمجھ ليااوراس طرح روآيات ميںعظےم اختلاف پےداہوگيا۔ کسى نے اپنے بچے کي ولادت کوآےت بشارت کاموضوع سمجھ ليااورکسى نے اپنے دشمن کى وفات کو۔ کسى نے اپنے خانگى اختلاف کوآےت عذاب کاموضوع قراردے ليااورکسي نے سماجى جھگڑوںکو۔

بہرحال تدرےجى قرآن کے مصالح کچھ بھى کےوںنہ رہے ہوںاس نزول نے آيات کے مفہوم پراتنااثرضرورڈالاہے کہ کسى بھى آےت کے مفہوم کوسمجھنے کے لئے اس کے ماحول کوديکھناضرورى ہوگياہے،اورمفسرےن کے اختلافات کانوے فےصدى حصہ اسى شان نزول سے غفلت ميں مضمرہے۔ کسي موضوع کے بارے ميںايک مرتبہ ممانعت آگئى اوردوبارہ تھوڑے عرصے کے بعدحکم آياتوظاہرہے کہ يہ حکم صرف ممانعت کے رفع کرنے کے معنى ميںہوگا۔ ليکن سابق کى ممانعت سے غافل مفسرنے اسے وجوب کے معنى ميںلے ليااوراس طرح شان نزول کى مدخلےت نے ايک عظےم اختلاف پےداکراديا۔آئمہ اہلبےت کى اکثر رواےتوں ميں يہ فقرہ ملتاہے کہ ”يہ آےت اس طرح نازل ہوئي ہے“ يہ درحقيقت اسى شان نزول کى طرف اشارہ ہے جسے تعےےن مفہوم ميں بڑى حدتک دخل حاصل ہے،ورنہ آےت ميںاصلاح کے کوئى معنى نہيں ہيں ۔

(آےت اورماحول کى مفصل بحث تفسيروتحريف کے سلسلے ميں بيان کى جائے گى )