تنزيل قرآن کے برکات

يوں تو ہرآسمانى صحيفہ جو  رب العالمين کى طرف سے نازل هوتاهے اپنے ساتھ ہدايات وبرکات لے کرآتاهے ليکن اس کے باوجودقرآن کريم کامطالعہ اس بات کا زندہ ثبوت هے کہ کسى صحیفہ کے برکات کامقابلہ تنزيل قرآن کے برکات سے نہيںکياجاسکتاهے۔

تنزيل قرآن کى سب سے پہلى برکت اورقرآن کاعالم بشریت پرسب سے پہلااحسان يہ هے کہ اس نے تقریباپانچ سوبرس کے بعدپھرزمين وآسمان کے رشتوںکوجوڑديا۔جناب عیسى کے آسمان پرچلے جانے کے بعدسے ہاديوںکاسلسلہ ضرورباقى رہا،زميںپرحجت خداکاوجودضروررہا،اوصياء جناب عیسى تبلیغ دین حنیف ضرورکرتے رهے ليکن وہ سلسلہ مسدودتھاجس سے زمين وآسمان کارابطہ اوراتصال قائم هوتاهے، شریعت عیسى کى تبلیغ هورہى تھى ليکن وحى کے رشتے ٹوٹ چکے تھے، کوئى ایساانسان نہيںتھا جس پروحى نازل هوتي اورجس کى کسى وحى کاتذکرہ آج تاریخ قرآن ميںملتاهو۔

پانچ سوبرس تک يہ سلسلہ برقراررہا۔ پانچ سوبرس کے بعدحضورسرورکائنات اس دنياميںتشریف لائے ، آپ اپنے کمال نفس اورپاکیزگى کردارکى بناء پرہمہ وقت مبداٴاعلى سے متصل تھے ليکن اس کے آپ پرکوئى ظاہرى وحى نازل نہيںهوئي تھى يہاںتک کہ ايک دن ملک نے پیغمبرانہ عظمت کااعلان کرتے هوئے آوازدى ”اقراٴباسم ربک الذى خلق -#خلق الانسان من علق#اقراٴوربک الاکرم الذى علم بالقلم ،علم الانسان مالم یعلم۔“یعنى وحى ظاہرى کاسلسلہ شروع هوگيااوراسي آغازوحى کانام ”تنزيل قرآن“ قرارپاگيا۔ مطلب يہ هے کہ انجیل کے بعد عالم بشریت برکات وحى سے محروم تھا۔ تنزيل قرآن نے پہلے پہل عالم بشریت کواس وحى سے روشناس کرايااورزمين وآسمان کے رشتے کومتصل کيا ۔   

عالم بشريت پرقرآن کايہ احسان کچھ کم تھاکہ وحى نے ايک اوراحسان کااضافہ کرديااوروہ تھي وحى کونوعیت ۔ آسمانى پیغام کآجاناہى کياکم تھا کہ پیغام بھى علم وقرائت کاپیغام آياجس سے معلوم هواکہ آج کي وحى دنياکوعلم وفہم کے جوہرعطاکرنے آئى هے اورسوئي هوئى دنياکوبیدار کرکے اس زیورعلم وہنرسے آ راستہ کرنے آ ئي هے۔

تنزيل قرآن کى دوسرى برکت اورلہى پیغام کادوسرااحسان يہ هے کہ قرآن کے ذریعے پہلے پہل ساراعالم بشریت الوہیت کامخاطب قرارپايا۔ قرآن مجيداورتواریخ نے دیگرانبياء کے پیغامات کاتذکرہ بھى کياهے ليکن ان پیغامات ميںمخاطب عموماان کے دورکے افراداوران کى قوم کے لوگ هواکرتے تھے ۔ قرآن مجيدنے پہلے پہل ”ياایھاالناس “ کى آوازبلندکى اورسارے عالم انسانيت کومخاطب بننے کاشرف حاصل هوا۔ غورکياجائے توقرآن مجيدکايہ احسان عالم انسانيت کے لئے ناقابل فراموش هے۔ قرآن مجيدنے جس اندازسے انبياء کى دعوت کاتذکرہ کياهے اس کاايک مختصرخاکہ يہ هے  :

جناب ابراہیم (ع)  -- ”اذقال لابيہ وقومہ ماتعبدون۔“ ابراہیم نے اپنے چچااورقوم سے کہاکہ تم کس کى عبادت کرتے هو؟

جناب نوح  (ع)- ” کذبت قوم نوح  المرسلين اذ قال لہم اخوھم نوح اٴلاتتقون۔“  (شعراء۷۰)

جناب نوح نے اپنى قوم سے کہاکہ تم پرہیزگارکيوں نہيں بنتے توانھوں نے ان کى تکذيب کردي۔ (شعراء ۱۰۶)   

جناب هود  (ع)- ”کذبت عادالمرسلين اذ قال لھم اخوھم ھوداٴلاتتقون ۔“  جناب هودنے قوم عاد کودعوت تقوى دى توانھوںنے بھى انکارکرديا۔ (شعراء ۱۲۴)۔

جناب صالح  (ع)-” کذبت ثمودالمرسلين اذ قال لہم اخوھم صالح اٴلاتتقون۔“

جناب صالح  (ع) نے قوم ثمود کودعوت تقوى دي توانھوںنے بھى انکارکرديا۔  (شعراء ۱۴۲)۔

جناب لوط  (ع)-” کذبت قوم لوط المرسلين اذ قال لہم اخوھم لوط اٴلاتتقون۔“

جناب لوط نے قوم کو دعوت دى توانھوںنے بھى انکارکردے۔  (شعراء ۱۶۱)۔

جناب شعیب (ع)- ”کذب اصحاب اليٴکة المرسلين اذ قال لھم شعيب اٴلاتتقون۔“

جناب شعيب نے دعوت تقوى دى تواصحاب الائکة نے انکارکرديا۔ (شعراء ۱۷۷)۔

س کامطلب يہ هے کہ انبياء سابقن نے جب بھى عبادت وتقوى کى دعوت دى هے توان کاروئے سخن ان کى قوم يا ان کے قبیلے کى طرف تھااوراگرکبھى ان کي زبان پرياايہاالناس آيابھى هے تومقام تعليم ميں نہيںمقام اعلان فضیلت ميں۔ يہ قرآن کريم ہي کاکرم تھاکہ اس نے دعوت عبادت وتقوى کوعام کرکے سارے عالم ا نسانيت کو مخاطب بناليااوراعلان کرديا۔”ياایھاالناس اعبدواربکم الذى خلقکم والذين قبلکم لعلکم تتقون۔“(اے انسانو! اس خداکى عبادت کروجس نے تمھیںبھى پیداکياهے اورتمھارے پہلے والوںکوبھى پیداکياهے شایدتم اسى طرح متقى بن جاؤ۔)

خطاب کااندازہى بتارہاهے کہ اس کاتعلق کسي ايک قوم يادورسے نہيںهے بلکہ تمام وہ انسان جواس دورکے انسانوںکى طرح مخلوق ہیںاورازخودپیدانہيںهوئے وہ سب اس دعوت وپیغام ميںبرابرکے شریک ہیں۔

قرآن مجيدکاتیسرااحسان يہ هے کہ يہ عالم بشریت کاپہلاصحیفہ هے جس ميںانسانى ضروريات زندگي کالحاظ رکھتے هوئے پورى حيات کادستورپیش کياگياهے ۔ اس کے قبل کے صحيفوں ميں ايک دورکے چندافراواقوام کى تنظيم کى تعليم توملتى هے ليکن زندگى کے تمام شعبوں اورانسانيت کى جملہ ضرورتوں پرمحيط کوئى يعليم نہيںملتي ۔ انجیل ميںخود مسیح کاقول هے کہ ”ميںقوم کے جانوروں کوہدایت دینے کے لئے آياهوں۔“ ظاہرهے کہ جانورقوم کے لئے جوضابطہ پیش کياجائے گاوہ عالم انسانيت کے لئے مفيدنہيں هوسکتااور يہي وجہ هے کہ جب عالم انسانيت نے ترقى کرکے بشرتت کى سرحدميں قدم رکھ دياتو مسيح کاقانون منسوخ هوگيااورقرآن کاوہ ابدي قانون نافذهوگياجوہميشہ ہميشہ انسانيت کى اصلاح کرتارهے گا۔ 

قرآن مجيدکاچوتھااحسان يہ هے کہ اس نے جہاںايک طرف اصلاح حيات ميںعلم وعمل کى دعوت دى هے وہاں دوسرى طرف يعليم کائنات کے فریضے کوبھى انجام دياهے۔ اس کے قبل نازل هونے والے صحیفہ ميںاصلاح زندگى کاسلسلہ توتھاليکن مسائل کائنات کاحل نہيںتھا۔ قرآن ايک ابدى قانون بن کرآياتھااس لئے اس نے اپنے دامن ميںمسائل کائنات کوبھى جگہ دے دى تاکہ ہردورارتقاء ميں اس کى عظمت مسلم رهے اورہردورکاانسان اس کي بلنديوںکے سامنے سرنگوںرهے، کسى زمانے کاانسان يہ نہ سوچنے پائے کہ قرآن کى نظرہمارے زمانے پرنہيںتھى يااس کاقانون آج کے حالات پرمنطبق نہيںهوسکتا۔ قران کى علمى وسعتوںکااندازہ آئندہ مباحث سے کياجاسکتاهے!