تجويد کے معنيٰ ہيں بہتر اور خوبصورت بنانا۔
تجويد اس علم کا نام ہے جس سے قرآن مجيد کے الفاظ اور حروف کى بہتر سے بہتر ادائےگى اور آيات و کلمات پر وقف کے حالات معلوم ہوتے ہيں۔
اس علم کى سب سے زيادہ اہميت يہ ہے کہ دنيا کي ہر زبان اپنے خصوصيات ميںايک خصوصيت يہ بھي رکھتى ہے کہ اس کا طرز ادا لہجہٴ بيان دوسرى زبانوں سے مختلف ہو تا ہے اور يہى لہجہ اس زبان کي شيرينى ، چاشنى اور اسکى لطافت کا پتہ ديتا ہے۔
جب تک لہجہ و انداز باقى رہتا ہے زبان دلچسپ اور شيرين معلوم ہوتى ہے، اور جب وہ لہجہٴ ادا بدل جاتا ہے تو زبان کا حسب ختم ہو جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ کسى زبان کو سيکھتے وقت اور اس ميں تکلم کاکرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ اس کے الفاظ اس شان سے ادا ہوں جس انداز سے اہل زبان ادا کرتے ہيںاور اس ميں حتّى الامکان وہ لہجہ باقى رکھا جائے جو اہل زبان کا لہجہ ہے اس لئے بغير تجويد، زبان تو وہى رہے گى ليکن اہل زبان اسے زبان کى بربادي ہى کہيں گے۔
اردو زبان ميں بے شمار الفاظ ہيں جن ميں ”ت“ اور ”د“ کى لفظ آتى ہے اور انگريزى زبان ميں ايسا کوئى لفظ نہيں ہے۔ انگريزى بولنے والا جب اردو کے ايسے لفظ کو استعمال کرتا ہے تو”تم“ کے بجائے ”ٹم“ اور ”دين“ کے بجاے ”ڈين“ کہتا ہے جو کسى طرح بھى اردو کہے جانے کے لائق نہيں ہے۔
يہي حال عربى زبان کا بھى ہے کہ اس ميں بھى الفاظ و حروف کے علاوہ تلفظ و ادا کو بھى بے حد دخل ہے اور زبان کى لطافت کا زيادہ حصہ اسى ايک بات سے وابستہ ہے اس کے سيکھنے والے کا فرض ہے کہ ان تمام آداب پر نظر رکھے جو اہل زبان نے اپنى زبان کے لئے مقرر کئے ہيں اور ان کے بغير تکلم اور ان کے بغير تکلم کرکے وہ دوسرے کى زبان کا ستياناس نہ کرے۔
علم تجويد کى عظمت
ايسے اصول و آداب اور اس طرح کے شرائط و قوانين کو پيش نظر رکھنے کے بعد پہلا خيال يہى پيدا ہوتا ہے کہ انسان ايسى زبان کو حاصل ہى کيوں کرے جس ميں اس طرح کے قواعد ہوں اور جس کے استعمال کے لئے غيرمعمولى ور غير ضرورى زحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ ليکن يہ خيال بالکل غلط ہے۔ايک غير مسلم تو يہ بات سوچ بھى سکتا ہے مسلمان کے امکان ميں يہ بالکل نہيں ہے۔ مسلمان کي اپنى کتاب ور اس کا دستور زندگى عربى ميں ہى نازل ہوا ہے۔ اسکى دنيا و آخرت کا پيغام عربي زبان ہى ميں ہے۔ اور وہ دستور ، قانون زندگى ہونے کے علاوہ رسول اکرم کا معجزہ اور اسکي برترى کى دليل بھى ہے۔ اب اگر اس کتاب کو نظر انداز کر ديا گياتو اسلام کا امتياز ہى کيا رہے گا اور رسالت پيغمبر اسلام کو ثابت کرنے کا وسيلہ کيا ہوگا۔
قرآن صرف دستور حيات ہوتا توممکن تھاکہ انسان کسى طرح بھى تلفظ کرکے مطلب نکال ليتا اور عمل کرنا شروع کرديتا۔ دستور زندگي معنى چاہتا ہے اس الفاظ کے حسن سے زيادہ دلچسپى نہيں ہے۔۔۔۔۔۔ ليکن قرآن کريم معجزہ بھى ہے، وہ قدم قدم پر اپنى طلاوت کى دعوت بھي ديتا ہے۔ اپنى فصاحت و بلاغت کا اعلان بھى کرتا ہے اور اپنے وابستگان کو متوجہ بھى کراتا ہے کہ اس کہ محاسن پر غور کريں اور اس کى خوبيوں کو عالم آشکار کريں۔
يہ نا ممکن ہے کہ کوئى شخص اس کے ماننے والوں ميں شمار ہواور اسکي طرف سے بے توجہ ہو جائے اور جب توجہ کرے گا تو تلاوت کرنا ہوگي۔ اور جب تلاوت کى منزل ميں آئے گا توان تمام اصول و آداب کو سيکھنا پڑے گاجن سے زبان کا حسن و امتياز ظاہر ہوتا ہے۔
قرآن مجيد تو خود بھى ترتيل وغيرہ کا حکم ديتا ہے جس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہر طور تلاوت کرکے اپنے حسن کو پامال نہيں کرنا چاہتااور اسکا منشاٴ يہى ہے کہ اس کى تلاوت کي جائے تو انہيں شرائط و آداب کے ساتھ جن سے اس کى عظمت اور اس کا حسن وابستہ ہے۔
اس مقام پر يہ بھى ممکن ہے کہ کوئى انسان ان امتيازات کے باوجود تلاوت قرآن نہ کرے اور بہت سے بہت ثواب سے محروم ہوجائے اس پر کوئى ايسا دباوٴ نہيں ہوتا کہ وہ تلاوت کى ذمہ دارى ليکر ان تمام مشکلات ميں گرفتار ہو ۔۔۔۔۔۔ ليکن اسلام نے نماز ميں حمد و سورہ وغيرہ واجب کرکے اس آزادى کو بھى ختم کرديا ۔ اور واضح طور پر بتا ديا کہ تلاوت قرآن ہر مسلمان کا فرض ہے اور تلاوت عربى زبان کے بغير نہيں ہو سکتي۔ زبان کا عربى رہ جانا بھى اس بات پر موقوف ہے کہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ رکھا جائے اور اس ميں کوئي ترميم اور تبديلى نہ کى جائے جس کے بعد يہ کہنا بھى صحيح ہے کہ علم تجويد اپنى تفصيلات کے ساتھ نہ سہى ليکن ايک مقدار تک واجب ضرور ہے اور اس کے بغير نماز کى صحت مشکل ہے اور نماز ہى کى قبوليت پر سارے اعمال کى قبوليت کا دار و مدار ہے اب اگر کوئى شخص تجويد کے ضرورى قواعد کو نظر انداز کر ديتا ہے تو قراٴت قرآن کى طرح نماز کو برباد کرتا ہے اور جو نماز کو برباد کر تا ہے اس کے سارے اعمال کى قبوليت محل اشکال ہے اور يہى علم تجويد کى عظمت و بر ترى کى بہترين دليل ہے۔
تجويد کے شعبے
علم تجويد ميں مختلف قسم کے مسائل سے بحث کى جاتى ہے کبھى قرآن کے الگ الگ حروف کے بارے ميں ديکھا جاتا ہے کہ ان کے ادا کرنے کا صحيح طريقہ کيا ہے؟ کبھى مرکّب الفاظ کى ادائےگى کے بارے ميں گفتگو ہوتى ہے اور کبھي پورے پورے جملے کے بارے ميں بحث ہوتى ہے اس کے ادا کرنے ميں وقف و وصل کے اصول کيا ہونگے اور انہيں کس طرح ادا کيا جائےگا ۔
تجويد کے مسائل سے با خبر ہونے کے لئے ان تمام انواع و اقسام پر نظر کرنا ہوگى اور ان سے باقاعدہ طور پر واقفيت پيدا کرنا ہوگي۔
چونکہ علم تجوےد ميں قرآن مجےد کے حروف سے بحث ہوتى ہے اس لئے انکا جاننا ضرورى ہے ۔
عربي زبان ميں حروف تہجى کى تعداد ۲۹ ہے۔ٹ۔ڈ۔ڑوغيرہ ہندى کے مخصوص حروف ہيں اور پ۔چ۔ژ۔گ فارسى کے مخصوص حروف ہيں ان کے علاوہ جملہ حروف تےنوں زبانوں ميں مشترک ہيں۔
يہ حروف اپنے طرز ادا کے اعتبار سے مختلف قسم کے ہيں ۔ان اقسام کے سلسلہ ميں بحث کرنے سے پہلے ان مقامات کا پتہ لگانا ضرورى ہے جہاں سے يہ حروف ادا ہوتے ہيں اور جنہيں علم تجوےد ميں”مخرج “کہا جاتا ہے۔
مخارج حروف
علماء تجوےد نے ۲۹ حروف تہجى کے لئے جو مخارج بيان کئے ہيں ان کى تعداد ۲۷ ہے جنہيں مندرجہ ذيل پانچ مقامات سے ادا کيا جاتا ہے۔
(۱)جوف دہن (۲)حلق (۳)زبان (۴)ہونٹ (۵)ناک۔
مختصر لفظوں ميں ان حروف کے مخارج کى تعيين کى جاتي ہے۔ عملى طور پر صحيح تلفظ کرنے کے لئے اہل فن کا سہارا ليناپڑے گا۔
جوف دہن:
جوف دہن سے صرف تين حروف الف۔ واوٴ۔ى ادا ہوتے ہيں بشرطيکہ يہ ساکن ہوں جيسے جَوَادٌ -غَفُورٌ - کَرِيمٌ۔
حلق:
حلق کے تين حصّے ہيں :
۱۔ ابتدائى حصہ ۔ اس سے خ۔غ ادا ہوتا ہے۔
۲۔ درميانى حصہ۔ اس سے ح۔ع ادا ہوتا ہے۔
۳۔آخري حصہ۔ اس سے ہ۔ ء ادا ہوتا ہے۔
زبان:
حروف کى ادائےگى کے لحاظ سے اس کے دس حصے ہيں ۔
۱۔ آخر زبان اور اس کے مقابل تالو کا حصہ ۔ اس سے ”قاف“ کي آواز پيدا ہوتى ہے ۔
۲۔”قاف“ کے مخرج سے ذرا آگے کا حصہ اور اسکے مقابل کا تالو، ان کے ملانے سے ”کاف“ کى آواز پيدا ہوتى ہے۔
۳۔ زبان ، اور تالو کا درميانى حصہ، ان سے ”جيم“ ”شين“ ”ي“ کى آواز پيدا ہوتى ہے۔
۴۔ زبان کا کنارہ اور اس کے مقابل داہنى يا بائيں جانب کے داڑھيں ان کے ملانے سے ”ضاد“ کى آواز پيدا ہوتي ہے۔
۵۔ نوک زبان اور تالو کا ابتدائى حصہ ان کے ملانے سے ”لام“ کي آواز پيدا ہوتى ہے۔
۶۔زبان کا کنارہ، ”لام“کے مخرج سے ذرا نيچے کا حصہ ، ان سے ”ن“ کي آواز پيدا ہوتى ہے۔
۷۔نوک زبان کا نچلا حصہ اور تالو کا ابتدائى حصہ ان کے ملانے سے ”ر“ ادا ہوتى ہے۔
۸۔ زبان کى نوک اور اگلے دونوں اويرى دانتوں کى جڑ، زبان کو اوپر کى جانب اٹھاتے ہوئے اس طرح ذرا ذرا کے فرق سے ”ط“ ”دال“ اور ”ت“ ادا ہوتى ہے۔
۹۔ زبان کى نوک اور اگلے اوپرى اور نچلے دانتوں کے کناروں سے ”ز“ ”س“ ”ص“ کى آواز پيدا ہوتى ہے۔
۱۰۔زبان کى نوک اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے ”ث“ ”ذال“ ”ظ“ کى آواز پيدا ہوتى ہے۔
ہونٹ:
حروف کى ادائےگى کے لحاظ سے اس کى دو قسميں ہيں۔
۱۔ نچلے ہونٹوں کا اندرونى حصہ اور اگلے اوپرى دانتوں کا کنارہ ان کے ملانے سے”ف“ کى آواز پيدا ہوتى ہے۔
۲۔ دونوں ہونٹوں کے درميان کا حصہ يہاں سے”ب“ ”م“ ”واو“ کي آواز نکلتى ہے۔ بس اتنا فرق ہے کہ ”واو“ کى آواز ہونٹوں کو سکوڑ کر نکلتى ہے۔ اور ”ب“ ”ميم“ ہونٹوں کو ملانے سے ادا ہوتى ہے۔
ناک :
غنہ والے حروف ناک سے ادا ہوتے ہيں جو صرف نون ساکن اور تنوين ہے۔ شرط يہ ہے کہ ان کا غنہ کے ساتھ ادغام کيا جائے اور اخفاء مقصود ہو۔نون اور ميم مشدد کا بھى انہيں حروف ميں شمار ہوتا ہے ۔ نْ، ً، نّ، مّ ۔
حروف تہجى کى انداز ادا ، احکام اور کيفيات کے اعتبار سے مختلف قسميں ہيں ۔
حروف مد
واو،ي،الف۔ ان حروف کو اس وقت حروف مد کہا جاتا ہے جب ’واوٴ‘ سے پہلے پيش، ”الف“ سے پہلے زبر اور ”ي“ سے پہلے زير ہو اور اس کے بعد ہمزہ يا کوئى ساکن حرف ہو جيسے سآُوء ٌ - غَفآُورٌ - جَآءَ - صَآدَ - جِيآءَ (جِ يْآ ءَ) جِيآم وغيرہ۔
بعد کے ہمزہ يا حرف ساکن کو سبب کہتے ہيں اور مد کے معني آواز کے کھينچنے کے ہيں۔
حروف لين
”واو“ اور ”ي“ سے پہلے زير ہو توان دونوں کو حروف لين کہتے ہيں۔ ”لين“ کے معني ہيں نرمى اور ان حالات ميں يہ دونوں حروف، مد کو آسانى س قبول کرليتے ہيں جيسے خَوْفْ - طَيْرْ۔
اب اگر حرف لين کے بعد کوئى حرف ساکن بھى ہے تو اس حرف پر مد لگانا ضرورى ہے جيسے کآہٰيٰعآصآ (کَآفْ ہَا يَا عَيآنْ صَادْ)کہ اس کلمہ ميں مثلاً عين کى ”ي“ لين ہے اور اس کے بعد نون ساکن ہے جس کي بنا پرعين کى ”ي“ کو مد کے ساتھ پڑھنا ضرورى ہے۔
حروف شمسى
وہ حروف ہيں جن سے پہلے ”الف لام“ آجائے تو ملا کر پڑھنے ميں ساقط ہو جاتا ہے جيسے ت،ث،د،ذ،ر،ز،س،ش،ص،ض،ط،ظ،ل،ن۔ کہ ان کا الف لام ساقط ہو جاتا ہے جيسے وَالطُّورِ - وَالشَّمْسِ - وَالتِّينِ وغيرہ
حروف قمرى
وہ حروف ہيں جن کے پہلے الف لام آجائے تو ملانے ميں بھي پڑھا جاتا ہے مگر الف نہيں پڑھا جاتاجيسے اٴ،ب،ج،ح،خ،ع،غ،ف،ق،ک،م،و،ہ،ي۔ کہ ان کو ملا کر پڑھنے ميں لام ساقط نہيں ہوتاجيسے وَالْقَمَر، وَالْکَاظِمِيْنَ ، وَالْمُجَاھِدِيْنَ، وَالْخَيْلِ وَاللَّيْلِ وغيرہ
جس طرح حروف مختلف مخارج سے ادا ہوتے ہيں اسى طرح حروف کى مختلف صفتيں ہوتى ہيں مثلاً استعلاء۔ جہر۔ قلقلہ وغيرہ کبھى مخرج اور صفت ميں اتحاد ہوتا ہے جيسے ح اور عين اور کبھى مخرج ايک ہوتا ہے اور صفت الگ ہوتى ہے جيسے ہمزہ اور ھ۔
۱۔ حروف قلقلہ
ج۔د ۔ ان حروف کى خاصيت يہ ہے کہ اگر يہ حروف درميان يا آخر کلمہ ميں ہوں اور ساکن بھى ہوںتو انہيں اس زور سے ادا کرنا چاہئے کہ متحرک معلوم ہوںجيسے يَدْخُلُونَ - لَمْ يَلِدْ
۲۔ حروف استعلائ
يہ سات حروف ہيں، ص،ض، ط،ظ،غ،ق،خ۔ ان حروف کو ”حروف استعلاء“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کى ادائے گى کے لئے زبان کو اٹھانا پڑتا ہے جيسے خَطْ، يَخِصِّمُونْ۔
۳۔ حروف يرملون
يہ چھہ حروف ہيں ،ي،ر،م،ل،و،ن۔ ان حروف کى خاصيت يہ ہے کہ اگر ان سے پہلے نون ساکن يا تنوين ہے تو اسے تقريباً ساقط کرديا جائے گا اور بعد کے حروف کو مشدّد پڑھا جائے گا جيسے مُحَمَّدٍ وَّ آلِ مُحَمَّد، لَمْ يَکُنْ لَّہُ۔
۴۔ حروف حلق
يہ چھ حروف ہيں۔ ح،خ،ع،غ،ہ،ء۔ انہيں حلق سے ادا کيا جاتا ہے ان کے پہلے واقع ہونے والا نون ساکن واضح طور پر پڑھا جائے گا جيسے اَنْعَمْتَ ۔
حروف تہجى کى ادائےگى کے اعتبار سے چار قسميں ہيں،
۱۔ ادغام ۲۔اظہار ۳۔ قلب ۴۔ اخفائ
ادغام
ادغام کے معنى ہيں ساکن حرف کو بعد والے متحرک حرف سے ملا کر ايک کر دينا اور بعد والے متحرک حرف کى آواز سے تلفظ کرنا۔ ادغام کى چار قسميں ہيں ادغامِ يرملون۔
ادغام مثلين۔ ادغام متقارنين۔ ادغام متجانسين۔
الف۔ ادغام يرملون
اگر کسى مقام پر حروف يرملون ميں سے کوئى حرف اور اس سے پہلے نون ساکن يا تنوين ہو تو اس نون کو ساقط کرکے حرف يرملون کى مشدد کر ديں گے اور اس طرح حرف يرملون ميں ”ن“ کا ادغام ہو جائے گا جيسے اَشْہَدُاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
اس ادغام ميں بھى دو صورتيں ہيں۔ ادغام غنہ، ادغام بلا غنہ
۱۔ادغام غنہ کا طريقہ يہ ہے کہ حروف کو ملاتے وقت نون کى ہلکي آواز باقى رہ جائے۔جيسا کہ يرملون کے ي،م،و،ن ميں ہوتاہے۔ جيسے عَلِيٌّ وَلِيُّ اللّٰہ
۲۔ ادغام بلا غنہ ميں نون بالکل ختم ہوجاتا ہے جيسے لَمْ يَکُنْ لَہُ۔
يرملون ميں ادغام کى شرط يہ ہے کہ نون ساکن اور حرف يرملون ايک ہى لفظ کا جزء نہ ہوںدو الگ لفظوں ميں پائے جاتے ہوںورنہ ادغام جائز نہ ہوگا جيسا کہ لفظ ”دنيا“ ہے کہ اس ميں ى سے پہلے نون ساکن موجود ہے ليکن ادغام نہيں ہوتا۔
ب ۔ ادغام مثلين
اگر دو حروف ايک طرح کے جمع ہو جائيںاور پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتو پہلے کو دوسرے ميں ادغام کريں گے جيسے مِنْ نَّاصِرِيْنَ ليکن اس ادغام کى شرط يہ ہے کہ پہلا حرف ”حرف مد“ نہ ہو ورنہ ادغام جائز نہ ہوگاجيسے کہ ”فِى يُوسُفَ“ ميں ادغام نہيں ہوا حالانکہ ”في“ کى ”ي“ ساکن ہے اور”يوسف“ کى ”ي“متحرک اس لئے کہ ”ي“ حرف مد ہے۔
ج۔ ادغام متقاربين
متقا ربين ان دو حرفوں کا نام ہے جو مخرج اور صفت کے اعتبار سے قريب ہوں جيسا کہ سابق ميں واضح کياجاچکا ہے کہ بہت سے حروف آپس ميں ايک ہى جيسے مخرج سے ادا ہوتے ہيں اور ا نہيں قريب المخرج کہا جاتا ہے۔جيسے قُلْ رَّبِّ - اَلَمْ نَخْلُقْکُم۔
د۔ ادغام متجانسين
ايک جنس کے دو ايسے حرف جمع ہو جائےں جن کا مخرج ايک ہو ليکن صفتيں الگ الگ ہوںان ميں سے پہلا ساکن اور دوسرا متحرک ہوتوپہلے کو دوسرے ميں ادغام کرديا جائےگا جيسے:
# د -ط -ت - قَدْ تَبَيَّنَ - قَالَتْ طَائِفَةٌ - بَسَطْتَّ
# ظ - ذ - ث - اِذْ ظَلَمُوْا - يَلَہَثْ ذَّلِکَ
# ب - م - اِرْکَبْ مَّعَنَا
# د - ج - قَدْ جَّاءَ کُمْ
۲۔ اظہار
اگر نون ساکن يا تنوين کے بعد حروف حلق يا حروف يرملون ميں سے کوئى حرف ہو تو اس نون کو باقاعدہ ظاہر کيا جائےگا جيسے مِنْ غَيْرِہٖ - اَنْہَار - دُنْيَا - قِنْوَانْ ۔
۳ ۔ قلب
اگر نون ساکن يا تنوين کے بعد ”ب“واقع ہوجائے تو نون ميم سے بدل جائے گااور اسے غنہ سے ادا کيا جائےگاجيسے اَنْبِيَاءُآ يَنْبُوْعاً يہاں پر نون تلفظ ميں ہى پڑھا جاتا ہے اور جيسے رَحِيمٌ بِکُمْ کہ يہاں تنوين کا نون بھى تلفظ ميں ميم پڑھا جائے گا۔
۴۔ اخفائ
حروف يرملون حروف حلق اور ب کے علاوہ باقى ۱۵ حروف سے پہلے نون ساکن يا تنوين واقع ہوتو اس نون کو آہستہ ادا کيا جائےگا جيسے ۔ اِنْ کَانَ - اِنْ شَآءَ - صَفّاً صَفّاً - اَنْدَادَ ۔
حروف پر آنے والى علامتوں کى پانچ قسميں ہيں ۔ تين کو حرکت کہا جاتا ہے۔ زبر ۔ َ زير ۔ِ پيش ۔ُ جسے عربى ميں فتحہ ضمہ کسرہ کہتے ہيں۔ باقى دو ميں ايک مد ۔آ اور دوسرے کو سکون ۔ْ کہا جاتا ہے۔
مد کى دو قسميں ہيں ۱۔ مد اصلي ۲۔ مد غير اصلى
مد اصلى
وہ مدہے جس کے بغير واوٴ ۔الف ۔ى ۔ کي آواز ادا نہيں کى جاسکتى اس کے لئے عليحدہ سے کسى سبب کى ضرورت نہيں ہوتى جيسے قَالَ - قِيلَ - يَقوُلُ ۔
ان مثالوں ميں الف ۔ى ۔واوٴ کى آواز پيدا کرنے کے لئے ان حروف کو دو حرکتوں کے برابرکھينچنا ہوگا۔ وضح رہے کہ مٹھى بند کرکے متوسط رفتار سے ايک انگلى کے کھولنے ميں جتنى دير لگتى ہے وہ ايک حرکت کى مقدار ہے۔
مد غير اصلى
وہ مد ہے جہاں واوٴ۔الف۔ي۔ کى آواز کوکسى سبب (ہمزہ يا سکون )کى وجہ سے مد اصلى کے مقابل زيادہ کھينچ کر ادا کيا جاتا ہے۔
مد غير اصلى کى ہمزہ کے اعتبار سے دو قسميں ہيں۔ ۱۔واجب متصل ۲۔جائز متصل ۔
واجب متصل
اس مد کا نام ہے جس ميں مد اور ہمزہ ايک ہى کلمہ کا جزء ہوںجيسے جَآءَ - سِيْآئَتْ - سُوءٌ کہ ان تينوںمثالوں ميں الف۔ي۔واوٴ۔ اور ہمزہ ايک ہى کلمہ کا جزء ہيں۔ اس مد کے کھينچنے کي مقدار چار سے پانچ حرکات کے برابر ہے۔
جائز منفصل
وہ مد ہے جس ميں حروف مد سے پہلے کلمہ کے آخر ميں اور ہمزہ دوسرے کلمہ کے شروع ميں واقع ہو،جےسے اِنَّآ اَعْطَيْنَاکَ - تُوْبُوْآا- اِلٰى اللّٰہِ - بَنِيآ اِسْرَائِيْآلْ - اس کى مقدار بھى چار سے پانچ حرکات کے برابر ہے۔
مد غير اصلى کى سکون کے اعتبار سے چار قسميں ہيں۔ ۱۔مدلازم ۲۔مدعارض ۳۔مد لين ۴۔مد عوض
مد لازم
اس مد کا نام ہے جس ميں واوٴ۔الف۔ي۔کے بعد والے ساکن حرف کاسکون لازمى ہو يعنى کسى بھى حالت سے نہ بدل سکتا ہوجيسے يٰسْ (ياسين) حٰآمآعآسآقآ (حا -ميآم - عيآن - سيآن - قآف)اَلْحَاقَّہ اس کى مقدار چار حرکات کے برابرہے۔
مد عارض
اس مد کا نام ہے جس ميں واوٴ الف۔ي۔ کے بعد والے حرف کو وقف کے سبب سے ساکن کر دياگياہو جيسے غَفُورْ - خَبِير- عِقَابْ - خَوفْ مد عارض کو دو،چار،چھ حرکتوںکے برابر کھينچنا جائز ہے ليکن چھى کے برابر بہتر ہے۔
مد لين
حروف لين کے بعد والا حرف ساکن ہو تو اس پر بھى مد آ جائےگااگر اس حرف کا سکون لازم ہو تو اسے مد لين لازم کہيں گے جيسے حمعسق اس مد کى مقدار چار حرکات کے برابر ہے اگر سکون عارضى ہو تواسے مد لين عارض کہيںگے جيسے خوف اسکے کو دو حرکات کے برابرکھينچ کر پڑھنا چاہئے۔
مد عوض
ايسے حرف پروقف کرنے کى صورت ميں ہوتاہے جہان دو زبر ۔ً(تنوين)ہوجيسے عَلِيماً - حَکِيماً اس کي مقدار دو حرکت کے برابر ہے۔
تفخيم کے معنيٰ ہيں حرف کو موٹا بنا کر ادا کرنا۔
ترقيق کے معنيٰ ہيں حرف کو ہلکا بنا کر ادا کرنا۔
ايسا صرف دو حرف ميں ہوتا ہے ۔ل۔ر
ر۔ ميں تفخيم کى چند صورتيں۔
ر۔پرزبرہو جيسے رَحْمٰن
ر۔ پر پيش ہوجيسے نَصْرُ اللّٰہ
ر۔ ساکن ہو ليکن اس کے ماقبل حرف پر زبر ہو جيسے وَانْحَرْ
ر۔ساکن ہوليکن اس کے ماقبل حرف پر پيش ہو جيسے کُرْہاً
ر۔ ساکن اوراس کے ماقبل زير ہو ليکن اس کے بعد حروف استعلاء (ص۔ض۔ط۔ظ۔غ۔ق۔خ) ميں سے کوئي ايک حرف ہو جيسے مِرْصَاداً
ر۔ساکن ہو اور اس کے پہلے کسرہٴ عارض ہو جيسے اِرْجِعِيْ
ر۔ميں ترقيق کى چند صورتيں
ر۔ساکن ہواور اس کے ما قبل پر زير ہو جيسے اِصْبِرْ
ر۔ساکن ہو اور اس سے پہلے کوئى حرف لين ہوجيسے خَيْرْ - طُوْرْ
ل۔ ميں تفخيم کى چند صورتيں
ل۔سے پہلے حروف استعلاء ميں سے کوئي حرف واقع ہو جيسے مَطْلَعِ الْفَجْرِ
ل۔ لفظ ”اللہ“ ميں ہو او ر اس سے پہلے زبر ہو جيسے قَالَ اللّٰہُ
ل۔ لفظ اللہ ميں ہو اور اس سے پہلے پيش ہو جيسے عَبْدُاللّٰہِ
ل۔ ميں ترقيق کى صورتيں
ل۔سے پہلے حروف استعلاء ميں سے کوئي حرف نہ ہو جيسے کَلِمْ
ل۔ سے پہلے زير ہو جيسے بِسْمِ اللّٰہ
کسي عبارت کے پڑھنے ميں انسان کو کبھى ٹھہرنا پڑتاہے اور کبھى ملانا پڑتا ہے۔ ٹھہرنے کا نام وقف ہے اور ملانے کا نام وصل ہے۔
وقف
وقف کے مختلف اسباب ہوتے ہيں۔ کبھى يہ وقف معنيٰ کے تمام ہوجانے کى بناء پر ہوتاہے اور کبھى سانس کے ٹوٹ جانے کي وجہ سے ۔۔۔۔ دونوں صورتوں ميں جس لفظ پروقف کيا جائے اس کا ساکن کر ديان ضرورى ہے۔
وصل
وصل کے لئے آخرى حرف کا متحرک ہونا ضرورى ہے۔ تاکہ اگلے لفظ سے ملا کر پڑھنے ميں آسانى ہو۔ورنہ ايسي صورت پيدا ہو جائے گى جو نہ وقف قرار پائے گا نہ وصل۔
وقف کى مختلف صورتيں
حرف ”ت“پر وقف :
اس صورت ميں اگر ”ت“کھينچ کر لکھى گئى ہے تواسے”ت“ ہي پڑھا جائے گاجيسے صلوات اور اگر اس طرح گول”ة“ لکھى گئى ہے تو حالت وقف ميں ”ہ“ ہوجائے گى جيسے صلواةٌ۔ حالت وق ميںصلوٰہْ ہوجائے گي۔
تنوين پر وقف:
اس صورت ميں اگر تنوين دوزير اور دو پيش سے ہو تو حرف ساکن ہو جائےگا اور اگر دو زبر ہو تو تنوين کے بدلے الف پڑھا جائےگا مثال کے طور پر ”نُوْرٌ“ اور”نُوْرٍ“ کو ”نورْ“ پڑھا جائے گا اور ”نوراً“ کو”نُورَا“ پڑھا جائے گا۔
وقف و وصل کى غلط صورتيں:
واضح ہوگيا کہ وقف و وصل کے قانون کے اعتبار سے حرکت کو باقى رکھتے ہوئے وقف کرنا صحيح ہے اور سکون کو باقى رکھتے ہوئے وصل کرنا صحيح نہيں ہے۔
وقف بحرکت:
اس کا مطلب يہ ہے کہ وقف کيا جائے اور آخرى حرف کو متحرک پڑھا جائے جيسے مَالِکِ يَومِ الدِّينِ ، اِيَّاکَ نَعْبُدُ۔
وصل بسکون:
اس کے معنى يہ ہيں کہ ايک لفظ کو دوسرے لفظ سے ملا کر پڑھا جائے ليکن پہلے لفظ کے آخر حرف کوساکن رکھا جائے جيسے اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِيمْ#مَالِکِ يَومِ الدِّينْ ۔ کوايک ساتھ ايک سانس ميں پڑھ کر رحيم کى ميم کو ساکن پڑھا جائے۔
وقف کے بعد ؟
کسي لفظ پر ٹھہرنے کے لئے يہ بہر حال ضرورى ہے کہ اسے ساکن کيا جائے ليکن اس کے بعد اس کى چند صورتيں ہو سکتي ہيں۔
۱۔ حروف کو ساکن کر ديا جائے اسے اسکان کہتے ہيں جيسے اَحَدْ
۲۔ساکن کرنے کے بعد پيش کى طرح ادا کيا جائے اسے اشمام کہا جاتا ہے جيسے نَسْتَعِينْ۔
۳۔ ساکن کرنے کے بعد ذرا سا زير کا انداز پيدا کيا جائے اسے ”رَوم“ کہا جاتا ہے جيسے عَلَيْہ۔
۴۔ساکن کرنے کے بعد زير کو زيادہ ظاہر کيا جائے اسے اختلاس کہتے ہيں جيسے صَالِحْ۔
اقسام وقف
کسي مقام پر ٹھہرنے کى چار صورتيں ہو سکتى ہيں۔
۱۔اس مقام پر ٹھہرا جائے جہاں بات لفظ و معنى دونو ں اعتبار سے تمام ہو جائے۔ جيسے مَالِکِ يَومِ الدِّينِ# کہ اس جملہ کو بعد کے جملہ اِيَّاکَ نَعْبُدُ وَاِيَّاکَ نَسْتَعِينُ سے کوئي تعلق نہيں ہے۔
۲۔ اس مقام پر ٹھہرا جائے جہاں ايک بات تمام ہو جائے ليکن دوسري بھى اس سے متعلق ہو جيسے مِمَّا رَزَقْنَاہُم يُنْفِقوُنْ کہ اس منزل پر يہ جملہ تمام ہو گيا ہے ليکن بعد کا جملہ ”وَالّذِينَ يُومِنُونَ“۔۔۔بھى انہيں لوگوں کے اوصاف ميں سے ہے جنکا تذکرہ گذشہ جملہ ميں تھا۔
۳۔ اس مقام پر وقف کيا جائے جہاں معنى تمام ہو جائے ليکن بعد کالفظ پہلے ہى لفظ سے متعلق ہو جيسے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ “ پر وقف کيا جاسکتا ہے ليکن ”رَبِّ العٰلَمِيْن“ لفظي اعتبار سے اس کى صفت ہے، الگ سے کوئى جملہ نہيں۔
۴۔اس مقام پر وقف کيا جائے جہان نہ لفظ تمام ہونہ معنيٰ جيسے ”مَالِکِ يَومِ الدِّين“ ميں لفظ ”مالک“ پر وقف کہ يہ بغير ”يَومِ الدِّين“ کے نہ لفظى اعتبار سے تمام ہے اور نہ معناً ايسے مواقع پر وقف نہيں کرنا چاہئے۔
وقف جائز و لازم
وقف کے مواقع پر کبھى کبھى بعد کے لفظ سے ملا دينے ميں معنى بالکل بدل جاتے ہيںجيسے ”لَمْ يَجْعَلْ لَہُ عِوَجاً# قَيِّماً“ کہ عِوَجاً اور قَيِّماً کے درميان وقف لازم ہے ورنہ معنى منقلب ہو جائيںگے پروردگار يہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمارے قانون ميں کوئى کجى نہيں ہے ۔اور وہ قيم (سيدھا) ہے اب اگر دونوں کو ملا ديا گيا تومطلب يہ ہوگا کہ ہمارى کتاب ميں نہ کجى ہے اور نہ راستي۔۔۔۔ اور يہ بالکل غلط ہے۔ايسے وقف کو وقف لازم کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ جملہ اوقاف جائز ہيں۔
رموز اوقاف قرآن
دنيا کى دوسرى کتابوں کى عبارتوںکى طرح قرآن مجيد ميں بھى وصل و وقف کے مقامات ہيں ۔ بعض مقامات پر معنى تمام ہوجاتے ہيں اور بعض جگہوں پر سلسلہ باقى رہتا ہے اور چونکہ ان امور کا امتياز ہر شخص کے بس کى بات نہيںہے اس لئے حضرات قاريان کرام نے ان کى جگہيں معين کردي ہيںاور ان کے احکام و علامات بھى مقرر کر دئے ہيںتاکہ پڑھنے والے کو سہولت ہواور وقف کى جگہ وصل يا وصل کى جگہ وقف کرکے معنى کى تحريف کا خطاکار نہ ہو جائے۔
ان مقامات کے علاوہ کسى مقام پر سانس ٹوٹ جائے تو آخرى حرف کو ساکن کردے اور دوبارہ پہلے لفظ سے تلاوت شروع کرے تاکہ کلام کے تسلسل پر کوئى اثر نہ پڑے۔
عام طور پر قرآن کريم ميں حسب ذيل رموز و علامات ہوتے ہيں
۔ جہاں بات پورى ہو جاتى ہے وہاں يہ علامت ہوتى ہے۔
م۔ اس مقام پر وقف لازم ہے ملا کر پڑھنے سے معنى بدل جائيں گے۔
ط۔ وقف مطلق کى علامت ہے يہاں وقف کرنا بہتر ہے۔
ج۔ وقف جائز کى علامت ہے ملا کر بھى پڑھا جاسکتا ہے ليکن وقف کرنا بہتر ہے۔
ز۔ ٹھہرنا جائز ہے البتہ ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔
ص۔ وقف کرنے کى رخصت واجازت دي گئى ہے۔ مگر اس شرط کے دوبارہ ايک لفظ کو پہلے سے دوہرا کر شروع کرے۔
صل۔ قد يوصل کا خلاصہ ہے۔ يعنى يہاں کبھى ٹھہرا بھى جاتا ہے اور کبھي نہيں ليکن ٹھہرنا بہتر ہے۔
صلي۔ الوصل اوليٰ کا خلاصہ ہے يعنى ملا کر پڑھنا بہتر ہے۔ اگر چہ وقف کرنا بھى غلط نہيں ہے۔
ق۔ قِيل عليہ الوقف کا خلاصہ ہے يہاں نہيں ٹھہرنا چاہئے۔
قف۔ يہ علامت ہے کہ يہاں وقف ہونا چاہئے۔
س يا سکتہ۔ سکتہ کى نشانى ہے کہ يہاں قدرے ٹھہر کر آگے بڑھناچاہئے ليکن سانس نہ ٹوٹے۔
وقفہ ۔ لمبے سکتہ کى نشانى ہے يہاں سکتہ کى بنسبت زيادہ ٹھہرنا چاہئے مگر سانس نہ توڑے۔
لا۔ اگر درميان آيت ميں ہو تو وقف نہيں کرنا چاہئے اور آخر آيت پر ہوتواختيار ہے ٹھہرے يا نہ ٹھہرے۔
معانقہ ہے ۔يعنى دو لفظوں يا عبارتوں کے قبل يا بعد يہ علامت ہوتى ہے ان ميں ايک جگہ وقف کرنا چاہئے اور ايک جگہ وصل۔
ک۔ کذٰلک کا مختصر ہے يعني اس وقف کا حکم اس کے پہلے والے وقف کا ہے۔وہ لازم تھا تو يہ بھي لازم ہے اور وہ جائز تھا تو يہ بھى جائز ہے۔
وقف کے ساکن کى طرح حرکات کو بھى ادا کرنے کے مختلف طريقے ہيں جن ميں مشہور اشباع اور امالہ ہے۔
اشباع
يعني حرف کے زير يا پيش کو اتنا زور دے کر ادا کيا جائے کہ۔ي“ اور ”واوٴ“ کى آواز پيدا ہو جائے۔ اور يہ اس وقت ہوگا جب پيش سے پہلے زبر يا پيش ہو اور اس کے بعد والے حرف پر بھى کوئى حرکت ہو جيسے ”اِيَّاکَ نَعبُدُ وَاِيَّاکَ نَسْتَعِينْ“ کے نعبد کي دال کے پيش کو اشباع کے ساتھ ادا کيا جائےگا يعنى دال ميں واوٴ کى آواز پيدا کى جائے گي۔ اور ”اَنَّااَنْزَلنَاہُ“ کى ”ہ“ ميں يہ بات نہ ہوگى کہ اس کے پہلے الف ساکن ہے۔
اسي طرح جب زير کے پہلے زير ہوگا اور بعد ميں بھى کوئي حرکت ہوگى تو اشباع کيا جائے گا جيسے ”مَالِکِ يَومِ الدِّينْ“ ”فَصَلِّ لِرَبِّکَ“ کہ مالکِ کے ”کاف“ اور لربک کے لام ميں اشباع کيا جائے گا۔
امالہ
زبر ميں اشباع نہيں ہوتا وہاں امالہ ہوتا ہے يعنى جب واوٴ يائے ساکن سے پہلے زبر آئے تو زبر کو اس ”واوٴ“ يا ”ي“ کى طرف جھکا کراس طرح ادا کريں کہ ”واوٴ“يا ”ي“ کى کچھ آواز نکلے جيسے يَوْمْ - غَيرْ۔
ضمير
احکام حروف و حرکات کے بعد يہ ديکھنا ضرورى ہے کہ احکام کيا ہونگے اور اسے کس مقام پر ساکن کيا جائےگا اور کہاں باقاعدہ ياد کيا جائےگا۔
ضمير سے مراد وہ کلمات ہيںجو نام کے بدلے اختصار کو طور پر استعمال ہوتے ہيں جيسے ۔ہُ۔ہٖ ،وغيرہ
اس ضمير”ہُ“ کا قانون يہ ہے کہ اگر اس سے پہلے زير زبر يا پيش ہوتو اسے با قاعدہ ادا کيا جائےگا جيسے َلہُ - بِہِ - کُلُّہُ وغيرہ کہ يہاں’ہ‘کو اشباع کے ساتھ باقاعدہ ادا کيا جائے گا اور اگر ہ سے پہلے حرف ساکن ہے تو اسے مختصر کر ديا جائےگاجيسے مِنْہُ - فِيْہِ - اِلَيْہِ کہ يہاں ہ کا تلفظ صرف ايک جھٹکے سے ہوگا اور بس۔