تصنيف وتاليف کے قرون اولي سے آج تک متعددکتابيں اوررسالے اس موضوع پر منظر عام پر آچکے ہيں اور موافق و مخالف دونوں پہلوؤں کو باقاعدہ اجاگر کياجاچکاہے يہ ضرور ہے کہ دورقديم ميں مسئلہ تحريف اتني شہرت حاصل کرچکاتھا کہ مخالفين ميں مکمل طورپرمخالفت کرنے کي ہمت نہ تھي اورانھيں بھي يہ احساس تھاکہ کہيں اس مخالفت سے اصول مذہب پرکوئي حرف نہ آجائے ۔بہرحال يہ داستان بڑي الم ناک اوربڑي حدتک ضروري ہے اس لئے ہم اس وادي پرخارميں قدم رکھتے ہيں اورکانٹوں کوہٹاکرپھول چن لينے کي کوشش کر رہے ہيں۔
تحريف کے اصلي معني ہيں”کسي شے کواس کي اصلي حالت سے ہٹا دينا“ اور ظاہر ہے کہ کسي شے ميں بھي تبديلي کے بہت سے امکانات ہوسکتے ہيں اورانھيں امکانات کي بناء پرلفظ تحريف بھي علماء اسلام ميں متعددمعاني ميں استعمال ہواہے۔
۱۔ تحريف معني : يعني کسي کلمہ کواس کي حالت پرباقي رکھ کراس کے معاني ميں تبديلي پيداکردينا۔ اس صورت کوتحريف اس لئے کہتے ہيں کہ لفظ درحقيقت معني کے لئے ايک علامت ياآئينہ کي حيثيت رکھتاہے ۔اس کي اےجاداوراس کااستعمال دونوں معني کے افہام وتفہيم کے ليے ہوتاہے ۔اگر دنياميں معاني کاوجوداوران کے نقل وانتقال کي ضرورت نہ ہوتي تولفظوں کاکوئي نام ونشان بھي نہ ہوتا اورجب لفظوں کي ساري حيثيت معاني کي وجہ سے قائم ہے، ان کے زير و زبر کا سارا اہتمام ولحاظ کے افہام وتفہيم کے لئے ہوتاہے توکسي لفظ کے معني ميں تبديلي پيداکردينالفظ کواس کي اصلي جگہ سے ہٹادينے کابہترين مصداق ہے گوياالفاظ وکلمات کي اصل جگہ ہے ان کے اصلي معاني اورجب کسي لفظ کو اس کے اصلي معاني سے الگ کرديا گيا تو گويا اسے اپني جگہ سے ہٹادياگيا۔ خودقرآن مجيدنے بھي يہوديوں کے بارے ميں اس تحريف کاذکرکياہے ۔ارشادہوتاہے ”يحرفون الکلم عن مواضعہ“ (يہ لوگ کلمات کوان کي جگہ سے ہٹاديتے ہيں)۔ظاہرہے کہ نبي اکرم کے دورکے يہودي نہ قرآن کے کلمات کي جگہيں بدل رہے تھے اورنہ توريت کے کلمات کي۔ يہ بات ان کے امکان سے باہرہوچکي تھي ۔توريت بھي ايک خاص شکل ميں اچکي تھي اور قرآن کانگراں وذمہ دار موجود تھا۔ان کي تحريف کامقصدصرف الفاظ کوان کے اصلي معاني سے ہٹاديناتھاتاکہ حقائق پرايمان نہ لاناپڑے ۔اوريہ تحريف وہ کہ جوقرآن کے بارے ميں ہردورميں مسلم رہي ہے خودقرآن نے بھي اعلان کياہے”فاما الذين في قلوبہم ريغ فيتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنةوابتغاء تاويلہ“(جن لوگوں کے دلوں ميں کجي ہے وہ متشابہات کے پےچھے پڑے رہتے ہيں تاکہ ان کي کئي تاوئل تلاش کرکے کوئي نيافتنہ برپاکرديں)۔کھلي ہوئي بات ہے کہ قرآن کو فتنہ گري کاسامان بنانے والے تحريف کے علاوہ اورکياکرسکتے ہيں۔
دوسراسب سے بڑا اہم ثبوت يہ ہے کہ اگرآيات قرآني ميں معاني کي تبديلي نہ تو آج قرآن کي پرستارامت ميں اتنے فرقے نہ ہوتے ۔امت اسلاميہ ميں۷۳فرقوں کا وجود اور سب کا قرآن مجيدسے استدلال اس بات کازندہ ثبوت ہے کہ ساري امت نے خدائي معاني پراعتمادنہيں کياہے۔
ليکن يہ يادرہے کہ يہ تحريف قرآن کريم کے تقدس کے لئے کوئي ضررنہيں رکھتي ہے بلکہ مفيدہے اس لئے کہ معاني کے ساتھ کھيلنے کي ضرورت اسے پڑتي ہے جو خود الفاظ کو بربادنہيں کرسکتاورنہ ظاہرپرقابوپالينے والے باطن کے پےچھے نہيں دوڑا کرتے ہيں۔معلوم يہ ہوتاہے کہ امت اسلاميہ ميں عظمت قرآن اس قدر مسلم تھي کہ فتنہ گروں کافتنہ الفاظ وکلمات پرنہيں چل سکااس ليے سادہ لوح عوام کوگمراہ کرنے کے لئے تحريف معاني کاسہارا لياگيا۔
تحريف حرکات : يعني زير و زبروغيرہ کافرق۔اس تحريف کے بارے ميں گفتگو کرنے کي ضرورت نہيں ہے اس ليے کہ آج بھي ايک ايک لفظ ميں متعدد قراء تيں پائي جاتي ہيں جن ميں حرکات کے اعتبارسے اختلاف ہے اوريہ طے ہے کہ يہ ساري قراء تيں نازل نہيں ہوئي تھيں بلکہ يہ قاريوں کے ذاتي ذوق کانتےجہ تھيں۔تحريف حرکات کا ايک بڑا سبب مختلف اقوام وقبائل کي تلاوت ميں مضمرتھا۔ ہرقبيلے کاايک لہجہ تھااورہرقوم کا ايک اصول قراء ت تھا۔اسي لہجے کي تبديلي اوراصولوں کے تغيرنے کلمات ميں حرکاتي اختلاف پيداکرديا۔ ليکن يہ قرآن کاايک تقدس ہے کہ اتنے اختلافات کے باوجود کسي قبيلے نے بھي کسي لفظ کوبدلنے کي کوشش نہيں کي بلکہ صرف اپنے لہجہ سے تصرف کرتے رہے جس ميں وہ کسي حدتک معذوربھي تھے۔
۳۔ تحريف کلمات : يعني ايک لفظ کي جگہ دوسرے لفظ کاآجانا۔ اس تحريف کے بارے ميں علماء اسلام ميں اختلاف ہے،بعض حضرات کاخيال ہے کہ قرآن کريم ميں اس قسم کي تحريف ہوئي ہے مثلاسورہ حمدميں ولاالضالين کي جگہ غيرالضالين تھاجسے سہولت کي نظر سے بدل لياگياہے ليکن حقيقت يہ ہے کہ مسلمانوں کاصدراول سے آج تک قرآن کريم کے بارے ميں اہتمام وتحفظ اس امرکازندہ ثبوت ہے کہ امت اسلاميہ اس قسم کے تغيرات کوکبھي برداشت نہيں کرسکتي جيساکہ تارےخ نے واقعہ نقل کياہے کہ حجاج بن يوسف نے عبدالملک سے يہ خواہش کي کہ ”اولئک مع الذين انعم اللہ عليہم من النبين والصديقين والشہداء والصالحين “کي آيت ميں شہداء کے ساتھ خلفاء کااضافہ بھي کرلياجائے تاکہ ان کاشماربھي صاحبان نعمت ميں ہوسکے اوراس نے انکارکردياتوحجاج نے کہاکہ آج تواس بات پرتعجب اورانکارکررہاہے اورکل تيرے باپ نے يہ خواہش کي تھي کہ ”ان اللہ اصطفي آدم ونوحاوآل ابراہيم وآل عمران علي العالمين“ ميں آل عمران کے ساتھ آل مروان کابھي اضافہ کردياجائے۔ (روضة الصفا)
ظاہرہے کہ اس قسم کي خواہش نہ حجاج ے بعيدہے اورنہ عبدالملک سے اورنہ اس کے باپ سے ۔ ليکن سوال صرف يہ ہے کہ دربار حکومت سے نکلنے والي يہ خواہش پوري کيوں نہيں ہوئيں،کيااس کاسبب ان لوگوں کاتائب ہوجانااوراپنے ارادوں سے باز آجانا تھا؟ ہرگزنہيں۔ ايساہوتاتويہ خيالات ذہن ميں پيدا ہي نہ ہوتے اوراگرپيدابھي ہوجاتے تواس کا سلسہ نسلوں ميں نہ چلتا۔ معلوم ہوتاہے کہا س کاکوئي تعلق ان حکام کي پاکيزگي نفس سے نہيں تھااورنہ ايساہي ہے کہ ان لوگوں کے اقتدارميں کوئي ضعف اور کمزوري پائي جاتي ہو۔
لاکھوں افرادکو بے دھڑک تہ تيغ کردينے والا بادشاہ ايک لفظ کے اضافہ کي تمنا دوسرے شخص سے کررہاہے اورخوديہ اقدام نہيں کررہاہے ،کيايہ تمنااس بات کا زندہ ثبوت نہيں ہے کہ لاکھوں افرادکي تباہي پرصبرکرلينے والي امت بھي قرآن کے کسي ايک لفظ کي تبديلي پرراضي نہيں تھي اورمسئلہ تسکين قلب کے لئے صرف دوايک قرآنوں ميں الفاظ کے لکھ لينے کانہيں تھا ورنہ اس کے لئے کسي سے کہنے کي ضرورت ہي نہيں تھي بلکہ مسئلہ پورے عالم اسلام ميں پھيلے ہوئے قرآنوں ميں ترميم اور ان کے الفاظ ميں تغيروتبدل کاتھااوريہ بات ايسے ايسے جابرحکام کے بس کي بھي نہ تھي سوچنے کي بات ہے کہ جب اسلام کے ايسے ايسے جابروبادشاہ قرآن کے تقدس کوکھيل نہ بناسکے تودوسرے افراداورحکام کاکياذکرہے ۔انفرادي طورپرقرآن کي نشانہ ستم بناليناآسان ہے ليکن اجتماعي طورپرپورے قرآن کابدل لينابہت مشکل بلکہ محال ہے
ظاہر ہے کہ جوحکومت نژاداورسلطنت پرست امت اقتدارکي خواہش پرحکومت کے باپ دادا کا ذکر برداشت نہيں کرسکتي وہ يہ کيونکر برداشت کرے گي کہ”و غير الضالين“ کي جگہ ”ولاالضالين“ آجائے۔ يا”ہوالرازق “کي جگہ”ہوالرزاق“ آجائے يا ”فامضوا الي ذکراللہ “کے بدلے ”فاسمعواالي ذکراللہ“ رکھ دياجائے،وغيرہ وغيرہ ۔
۴۔ تحريف نقص :يعني الفاظ وآيات کي کمي ۔ درحقيقت تحريف کے بارے ميں يہي مسئلہ ہردورميں محل نزاع واختلاف رہاہے،علماء اسلام کي ايک جماعت اس بات کي قائل رہي ہے کہ قرآن مجيد کے آيات ميں کچھ نقص ضرورپيداہواہے اوراسي ليے بعض مقامات پرآيات ميں کوئي ربط نظرنہيں ارہاہے اوردوسري جماعت اس بات پرمصررہي ہے کہ قرآن کريم ميں کسي قسم کا تغيروتبدل نہيں ہواہے، اس ميں اج بھي اتنے ہي الفاظ وکلمات موجودہيں جتنے رسول اکرم پرنازل ہوئے تھے اورقيامت تک يوں ہي رہيں گے جس کے بہت سے قرآني شواہدموجودہيں۔ اس مسئلہ پرشيعہ وسني دونوں فريق کے علماء نے نفي واثبات ميں رسالے تاليف کيے ہيں اورہرايک نے اپنے دعوے کوثابت کرنے کے ليے اےڑي چوٹي کا زورصرف کياہے۔ ميں مسئلہ کي مکمل وضاحت اس وقت کروں گاجب ان تمام روايات کاذکرآئے گاجن ميں اس تحريف کامفصل ذکرموجودہے۔
۵۔ تحريف زيادتي : يعني الفاظ وکلمات کااضافہ۔ اس مسئلہ پرتقريباتمام علماء اسلام متفق ہيں کہ قرآن مجيدميں کسي ايک لفظ کابھي اضافہ نہيں ہواہے اورنہ ہو سکتا ہے اس لئے کہ قرآن جہاں اسلام کادستورزندگي ہے وہاں رسول اکرم کامعجزہ بھي ہے اورمعجزہ کامفہوم ہي يہ ہے کہ جس کامثل لاناسارے عالم کے ليے غيرممکن ہو۔ اب اگرقرآن کے دوچارکلمات بھي اضافہ شدہ ہوئے تواس کامطلب يہ ہے کہ عام انسان بھي اعجازي کلام پرقدرت واختياررکھتاہے اوريہ وہ بات ہے جوقرآن کے اعتبار کو خاک ميں ملادے گي اوراسلام کادستورتباہ وبربادہوجائے گااس ليے ايساعقيدہ رکھنا کسي بھي مسلمان کے ليے زيب نہيں ديتاہے ۔
۶۔ تحريف ترتيبي : يعني آيات اورسوروں کي ترتيب کابدل جانا۔ تحريف کي يہ قسم بھي اگرچہ علماء اسلام ميں محل اختلاف رہي ہے ليکن علماء تشيع کي ايک جماعت ہردورميں اس تحريف کي قائل رہي ہے اوراس کے اثبات پربے حدزورصرف کرتي رہي ہے ۔ سوال يہ پيداہوتاہے کہ آخرتحريف ترتيب کامطلب کياہے ۔ اب تک تحريف کي جتني قسموں کاذکرہواہے ان سب ميں ايک حرکت، ايک کلمہ،ايک عبارت پہلے سے مسلم تھي بعد کے افرادان ميں تغيروتبدل پيداکرديا۔ ليکن قرآن کريم کي ترتيب جب بقول علماء اکرام،حيات رسول اکرم ميں موجودہي نہيں تھي توبعدميں اس کي تحريف کا کيا سوال پيدا ہوسکتاہے ۔ايسامعلوم ہوتاہے کہ اس مقام پرتحريف سے ان حضرات کي مراد يہ ہے کہ قرآن کريم کي ترتيب ہي تحريف شدہ ہے يعني ترتيب پيغمبرکے خلاف نہيں ہے بلکہ منشاء پيغمبرکے خلاف ہے اوراس بات کے ثابت کرنے کے ليے دوباتوں کااثبات کرنا پڑے گا۔
پہلي بات يہ ہے کہ قرآن کريم حيات پيغمبرميں مرتب شکل ميں نہيں تھا،بلکہ بعد کے ادوارميں مرتب ہواہے۔
اوردوسري بات يہ ہے کہ منشاء رسالت يہي تھاکہ کتاب خداکواس کي تنزيل کے مطابق مرتب کياجائے اورامت نے اس کے برخلاف اپني مرضي کے مطابق مرتب کرڈالا۔
بہرحال اس مقام پرتحريف کاجوبھي تصورمرادلياجائے ہميں مستقبل ميں انھيں دونوں باتوں پرغورکرناپڑے گااورانھيں کي تارےخ سے کوئي نتےجہ اخذ کرناہوگا۔ في الحال ان تفصيلات ميں داخل ہونے سے پہلے يہ ديکھ ليناضروري ہے کہ آخرقرآن ميں تحريف کے قائل ہونے کے اسباب کياہيں اور خودقرآن مجيدکااپني عصمت وتحريف کے بارے ميں کيانظريہ ہے ۔ تاکہ تحقيق حق کاراستہ صاف ہوجائے اورمنزل تک پہونچنے کے ليے کوئي خاص دشواري نہ رہ جائے۔!