کھلي هوئى بات هے کہ جب قرآن دنيا کے ہر مسئلہ کے لئے بيان و تبيان اور حيات و کائنات کے ہر اختلاف کے لئے قول فيصل بن کر آيا هے تو اپنے بارے ميں پيدا هونے والے اختلافات کا حل بھى اپنے دامن ميں ضرور رکھتا هوگا۔ ضرورت اس امر کى هے کہ خود قرآن کريم کے بيانات کى روشنى ميں اس امر کا جائزہ ليا جائے کہ اس کتاب مقدس ميں کسى قسم کي تحريف ممکن هے يا نہيں۔ اس ذيل ميں نمونہ کے طور پر پانچ آيتيں نقل کى جارہى ہيں:
۱۔انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔(ہم نے ذکر(قرآن)کو نازل کيا هے اور ہم ہى اس کى حفاطت کرنے والے ہيں۔)
۲۔انہ لکتاب عزیز لاياٴتےہ الباطل من بین یدےہ ولا من خلفہ تنزيل من حکيم حميد۔(يہ کتاب عزیز هے باطل اس کے آگے يا پس پشت سے قريب نہيں آسکتا يہ حکيم حميد کى تنزیل هے۔)
۳۔ذٰلک الکتاب لا ريب فيہ۔(يہ وہ کتاب هے جس ميں کوئى ریب و شک نہيں هے۔)
۴۔کتٰب احکمت آياتہ ثم فصلت من لدن حکيم خبیر۔(اس کتاب کي آيتيں محکم ہيں اور انہيں حکيم خبیر کى طرف سے مفصل بيان کيا گيا هے۔)
۵۔کتٰب انزلناہ اليک لتخرج الناس من الظلمات الى النور۔(يہ وہ کتاب هے جسے ہم نے تمہارى طرف اس لئے نازل کيا هے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کو ظلمات سے نکال کر نور کى طرف لے آؤ۔)
ان آيات سے صاف ظاہر هوتا هے کہ قرآن مجيد کے حفظ کي ذمہ دارى اسى ذات واجب پر هے جس نے اسے نازل کيا هے۔ باطل نہ اس کے سامنے سے آسکتا هے اور نہ پس پشت سے۔ اس ميں کسى شک و شبہ کى گنجائش ہى نہيں هے۔ اس کي آيت محکم اور خدائے خبير کى طرف سے تفصيل دي هوئى ہيں۔ يہ عالم انسانيت کو ظلمات سے نکال کر نور ميں لا نے کے لئے نازل کيا گيا هے۔ حالانکہ کھلي هوئى بات هے کہ اگر اس ميں کسى قسم کى تحريف تسليم کر لى جائے چاهے وہ کمى ميں هو يا زيادتى ميں۔ ترتيب آيات ميں هو يا جمع آيات ميں۔ تو اس کا مطلب يہ هے کہ خدا وند عالم نے اس کا تحفظ نہيں کيا اور باطل نے اس پر سامنے يا پيچھے سے قابو پا ليا، شک و شبہ کى گنجائش پيدا هوگئى اور کتاب ظلمت سے نکال کر نور ميں لانے کے قابل نہيں رہ گئي۔ وہ کتاب کيا لاريب فيہ رهے گى جس ميں دست غير معصوم کا دخل هو جائے اور وہ صحيفہ کيونکر ظلمات سے نکال سکے گا جس کى ترتيب و تنسيق ميں غير ذمہ داروں نے حصہ ليا هو۔ ہدايت اور اخراج من الظلمات ميں ترتيب کلام کو جو دخل هوتا هے وہ اہل نظر سے پوشيدہ نہيں هے۔
قائلين تحريف نے ان آيات ميں طرح طرح کي تاويليں کى ہيں، کبھى يہ کہا گيا کہ حفظ قرآن کے لئے کسى ايک نسخہ کا محفوظ رہ جانا کافي۔ کل کا وجود ايک فرد کے وجود سے ثابت هو جاتا هے اس لئے سينہ اہل بيت عليہم السلام ميں قرآن کا محفوظ رہ جانا اس کے تحفظ کے کئے بہت کافى هے کبھى يہ تاويل کى گئى کہ باطل کے سامنے اور پيچھے سے آنے کامطلب يہ هے کہ کوئى باطل اس سے مقابلہ نہيں کرسکتا ۔ لاريب فيہ کے بارے ميں يہ توجيح کى گئي کہ اس ميں کوئى شک وشبہ کا مضمون نہيں هے۔ ليکن کھلى هوئى بات هے کہ يہ سارى تاويليں اور توجيہيںبالکل بے بنياد ہيں۔ قرآن کريم نے حفظ و صيانت کے اعلان کے ساتھ ساتھ بار بار لفظ تنزيل کي تکرار کى هے جس کا مطلب يہ هے کہ صيانت کا تعلق اس کتاب سے هے جسے نازل کيا گيا هے اور اس ميں کوئى بحث نہيں کى جاسکتى کہ حضور اکرم نے علم کتاب کو سينہ اہل بيت (ع) کے حوالے کيا هے۔ تنزيل وہى هے جسے حضور نے قوم کے حوالہ کيا تھا اور اسے بتايا تھا، سناياتھا، سمجھايا تھا اور محفوظ کرا ديا تھا۔لاريب فيہ کامصداق بننے کے لئے کلام کا ہر غير معصوم دخل اندازى سے پاک هونا ضرورى هے ورنہ غير معصوم جہاں ترتيب آيات کو بدل سکتا هے وہاں سهو و نسيان کا بھى شکار هو سکتا هے اور خود ترتيب کا غير ذمہ دارانہ طور پر بدل جانابھى مطالب ومفاہيم کے مشکوک بنا دينے کے لئے کافي هے۔
باطل کے سامنے يا پس پشت سے قريب آنے کى نفى کے ساتھ حکيم حميد کى تنزيل کا حوالہ دينا ہي يہ بتا رہا هے کہ اس کى تنزيل پر کوئى باطل اثر انداز نہيں هوسکتا۔ سامنے اور پيچھے کا ايک اشارہ يہ بھى هو سکتا هے (واللہ اعلم) کہ نہ باطل سامنے سے آکر اس ميں شامل هو سکتا هے کہ تنزيل ميں اضافہ هو جائے اور نہ پس پشت سے آکر اس ميں سے کچھ اخذ کر سکتا هے کہ تنزيل ميں نقص واقع هو جائے جو اس کے کتاب عزيز اور تنزيل حکيم حميد هو نے کا تقاضا هے۔
انتباہ:
تحريف قرآن کے سلسلہ ميں يہ بنيادى نکتہ بھى قابل توجہ هے کہ قائلين تحريف اس عمل کو کس کى طرف منسوب کرتے ہيںاور ان کى نظر ميں يہ کام کس نے انجام دياهے؟ تاريخى طور پر اس مسئلہ ميں تين احتمالات پائے جاتے ہيں:
۱۔ دور شيخين ميں تحريف هوئى هو۔
۲۔ دور عثمان ميں تحريف هوئى هو۔
۳۔ حضرت علي(ع) کے دور خلافت کے بعد يہ کام انجام پايا هو۔
تيسرے احتمال کا تصور اس لئے نا ممکن هے کہ حضرت علي(ع) کے دور خلافت تک قرآن کريم اس قدر شائع اورذائع اور رائج و مشهور هو گيا تھا کہ اس کے بعد کسي بڑے سے بڑے حاکم وقت کى بس کى بات يہ نہيں تھى کہ وہ ان تمام مصاحف کو جمع کرکے ان ميں کچھ اضافہ کردے يا ان ميں سے کچھ آيات کم کردے يا کم از کم ان کى ترتيب ہى بدل دے، حجاج بن يوسف جيسے حکام کے لئے اتنے بڑے اقتدار کا تصور تاريخ سے غفلت کانتيجہ هوگا ۔ دوسرى اہم بات يہ بھى هے کہ قرآن کريم ميں اس وقت تک حجاج کى دلچسپى کا کوئى ايسا موضوع نہيں رہ گيا تھا جس ميں وہ تحريف و ترميم۔ کرتا اسلام اس کے قبل ہر رنگ خلافت کو ديکھ چکا تھا اگر تحريف و ترميم کي کوئى ضرورت هوتى تو وہ اس کے پہلے پورى هوچکي هوتي۔
دور عثمان ميں بھى تحريف کا تصوّر تقريباً ايسا ہى هے اس لئے کہ ايک طرف عثمان کا اقتدار اتنا عظيم نہيں تھا کہ وہ مسلمانوں کے سارے جذبات و احساسات پر قابو پاکر کريم ميںتحريف کرديتے اور کوئى اثر نہ هوتا، اور دوسري طرف عثمان کے مخالفين کے سکوت کا کوئى محل نہيں تھا۔ جو لوگ اموال کى خيانت، واليوں کى بعد اعماليوں پر حاکم وقت کے قتل پر آمادہ هو جائيں ان کے سامنے اگر تحريف قرآن جيسا جرم آجاتا تو وہ کبھى اسے نظر انداز نہ کرتے اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے سب سے پہلے اسى حربہ کو استعمال تے۔ عثمان کى حکومتى کمزوريوں ميں تحريف قرآن کا ذکر نہ هونا اس بات کا زندہ ثبوت هے کہ تحريف کاکام اس دور ميں قطعى طور انجام نہيں پاياتھا بلکہ تاريخى حالات تو يہاں تک بتاتے ہيں کہ جب خليفہ نے تمام قراٴتوں کو منسوخ کرکے حفاظ قرآن کو ايک قراٴت پر جمع کرديااور باقي قراٴتوں کے رواج کو ختم کرنے کے لئے ديگر مصاحف کو نذر آتش کرديا تو مسلمانوں نے قراٴت کے اتحادکو اتنى اہميت نہيں دى جتنى اہميت احراق قرآن کے جرم کو دي، اور تاريخ ميں جہاں ايک طرف فضائل عثمان ميں جمع قراٴت کا ذکر هوتا رہا وہاں دوسرى طرف اسى کے پہلو بہ پہلو احراق قرآن کى مذمت بھى هوتى رہي۔ ظاہر هے کہ جس تاريخ ميں اصل قرآن کے باقى رہتے هوئے ديگر مصاحف کے نذر آتش هونے کو برداشت نہ کيا هو وہ تاريخ تحريف قرآن کہاں معاف کر سکتى تھى جب کہ اس کا کوئى ذکر تاريخ ميں نہيں هے۔
صرف ايک احتمال يہ رہ جاتا هے کہ تحريف کا کام دور شيخين ميں انجام پايا هو، ليکن يہ تصور بھى اسى وقت روبراہ هوگا جب يہ طے هو جائے کہ دور شيخين سے پہلے عہد رسالت ميں قرآن کريم کي جمع آورى کا کام انجام نہيں پايا تھا اور يہ وہ بات هے جس کى ہم مسلسل ترديد کرتے چلے آرهے ہيں اور آئندہ بھى مزيد وضاحت کرتے رہیں گے۔
شيخين کى تحريف کے بارے ميں يہ مسئلہ قابل توجہ هوگا کہ انهوں نے کن آيتوں ميں تحريف کي؟ احکام کي آيتوں کو بدلا؟ يا ان آيتوں کو حذف کرديا جن سے ان کى حکومت و رياست پر کوئى اثر پڑتا تھا؟ ظاہر هے کہ آيات احکام کے بدلنے کا کوئى سوال ہى نہيں هوتا۔ اس لئے کہ جو حکومت اہتمام قرآن کے نام پر قائم هوئى هو،اس ميں اتني جرئت کہاں هو سکتى هے کہ وہ احکام کى آيتوں ہي ميں ترميم کردے؟۔ايسا ممکن هوتا تو مسئلہ فدک ميں خلافت کو حدیث آحاد کا سہارا نہ لينا پڑتا بلکہ آيات ارث ہى کو قرآن سے نکال ديا جاتا ۔
آيات فضائل اہليبيت (ع) ومعائب خلفاء کے بارے ميں يہ احتمال ضرورى هو سکتاهے ليکن سوال يہ هے کہ اگر قرآن کريم ميں ايسے آيات تھے تو انہيں رسول اکرمنے سنايا کيونکر؟جب آپ کى تبليغ کى بنا منافقین کى تاليف قلب پر تھى اور اسى بنياد پرآپ نے ہر فتنہ کو دبا رکھا تھا ،اور اگر آپ نے سنا ديا تھا تو مسلمانوں نے آپ کے انتقال کے بعد ان کا ذکر کيوں نہيں کيا جب کہ تاریخ کے بيان کے مطابق اس وقت نہ قرآن جمع هو رہا تھا اور نہ خلافت طئے پائى تھي،اور اگر بفرض محال مسلمان اس وقت غافل هوگئے تو تحريف کے بعد مولائے کائنات اميرالمومنين عليہ السلام ہى نے ذکر کيا هوتا۔آپ نے خلافت اوليٰ کےخلاف متعدداحتجاجات کئے جنہيں علامہ طبرسيۺ اورعلامہ مجلسى وغيرہ نے نقل کيا هے۔خلافت ثانيہ کے خلاف برابر بيان دیتے رهے اور اپنے دور ميں تو خطبہ شقشقےہ ميں سارے پردے چاک کردئے اور ساري نقابیں نوچ کر پھينک ديں،حکومت کے کھانے پينے اور بدہضمي تک کا تذکرہ کر ديا ليکن تذکرہ نہ کيا تو صرف تحريف قرآن کا۔بھلا يہ کيونکر ممکن هے کہ علي(ع) جيسا نفس پيغمبرذمہ دار اسلام اپنے سابق حکام کے ذاتى کردار پر تو تبصرہ کرے اور ان کى اسلام کش حرکت کو نظر انداز کر دے؟
علي(ع) کاسکوت اس امر کى واضح دليل هے کہ قرآن اپنى اصل حالت پر باقى تھا اس تک کسى حکومت وخلافت کى دسترس نہيں هو سکتى تھى ۔اس کے علاوہ يہ بات خود حضرت علي(ع) کے کردار پر اثر انداز هوتى هے کہ اگر آپ کے قبل کے حکام نے قرآن کریم ميں کوئى تحريف و ترميم کردى تھى تو حکومتپانے کے بعد آپ کى سب سے بڑى ذمہ دارى يہ تھى کہ آپ ان آيات کا اظہار کرتے اور قرآن کریم کى تکميل و تصحيح کا کام انجام دیتے۔
اس سلسلہ ميں يہ نہيں کہا جا سکتا کہ اس طرح ملک ميں بغاوتوں کے دروازے کھل جاتے اور علوى دور حکومت ناکامياب هوجاتا۔اس لئے کہ ايسے تصور ات علي(ع)جيسے ذمہ دار شریعت کے لئے قطعى نامناسب بلکہ غیر صحيح ہيں۔علي(ع)اس کردار اکمل کا نام هے جس نے تخت حکومت پر قدم رکھتے ہى يہ اعلان کر ديا تھا کہ ”اگر کسى مال کے ذریعہ شادى بياہ هوچکا هے تو ميں اسے بھى واپس کراؤںگا۔عدل ميرا فریضہ هے اور جسے عدل راس نہ آئے اسے ظلم کيا راس آئے گا۔“
کيا اس اعلان کے وقت علي(ع) کے پيش نظر بغاوتيں نہيں تھيں؟کيا اس وقت آپ ہنگاموںکا انداز نہيں کر رهے تھے؟۔۔یقینايہ سب کچھ تھا ليکن آپ نے اپني ذمہ دارى کا احساس کيا اور اعلان کرديا۔ اب سوال يہ هے کہ جو حاکم معصوم اموال کے بارے ميں اتنا محتاظ هو وہ قرآن کے بارے ميں کيونکر تساہلى سے کام لے سکتا هے۔تاریخ کے جملہ شواہد ايک طرف اور حضر ت علي(ع) کايہ سکوت تنہا ايک طرف اس امر کے اثبات کے لئے کافى هے کہ دور علوى تک قرآن کريم اسى حالت ميں تھا جس حالت ميں حضور اکرمپر نازل هوا تھا۔اس ميں نہ کوئى کمى هوئى تھى اور نہ زيادتي۔اور آپ کے بعد اس کا کوئى امکان اس لئے بھى نہيں هے کہ آپ کے دور تک قرآن کریم بے حد اشتہار پا چکا تھا۔اس کے نسخے اس قدر عام هو چکے تھے کہ ايک جنگ صفین ميں پانچ سو قرآن نظر آگئے؟
آمد بر سر مطلب:
تحريف ترتیبى کے ذیل ميں يہ گفتگو هو رہى تھى کہ ترتیب ميں تحريف کے دو ہى تصور هو سکتے ہيں ۔ايک تصور يہ هے کہ حضور اکرم نے ايک طریقہ سے قرآن کو مرتب کردياتھا اور بعد کے آنے والوں نے اس ترتیب کو بدل ديا۔يہ قول وہى حضرات اختيار کرسکتے ہيں جو رسول اکرم کى حيات طيبہ ميں جمع قرآن کے قائل هوں اور عام طور سے تحريف کا عقیدہ رکھنے والے اس بات کے قائل نہيں ہيں ۔ان کے لئے دوسرا ہى تصور رہ جاتا هے کہ حضور کى وفات طیبہ کے بعد جامعین قرآن نے ترتیب قرآن ميں تنزيل کا کوئى لحاظ نہيں کيا۔يہ بات ايک پہلوسے بالکل مسلم هے کہ ہمارے درميان رائج قرآن تنزيل کے مطابق نہيں هے۔ اس کے سورے تنزیل کے بالکل خلاف درج کئے گئے ہيں اور اس کي آيتيں بھى اکثر مقامات پر تنزیل کے تاریخى شواہد کے بالکل بر عکس ہيں جیسا کہ آئندہ واضح کيا جائے گا۔ليکن اصل مسئلہ يہ هے کہ ایسا کام مسلمانوں کے ذوق ترتیب کا نتیجہ هے يااس ميں حضور اکرم کے ہدايت اور وحى الہي کے ارشادات کو بھى دخل هے فائدہ ا س بحث کايہ هوگا کہ اگر يہ کام مسلمانوں کے ذوق کانتيجہ هوگا توترتيب آيات سے کوئى بھى استدلال اس وقت تک صحيح نہ هوگا جب تک معصوم کي طرف سے خصوصى يا عمومى سند نہ حاصل هوجائے يعني قرآن کريم کے ظواہر اپنى حجيت ميں اعتبار معصوم کے محتاج هو جائيں گے اور اگر اس ميں وحى الہى کے ارشادات شامل هونگے تو قرآن مستقل طور اسى طرح حجت هوگا جس طرح معصوم کا ارشاد بغير خصوصى سند قرآن کے حجت هو تا هے۔
علماء و محقيقين کا مسلک يہ هے کہ قرآن کريم کي ترتيب تنزيل کے خلاف هوتے هوئے بھى رسول اکرم ہى کے ہدايت کا نتيجہ هے۔ آپ مخصوص تبليغى مصالح کے تحت آيات کى جگہ معين فرماتے تھے اور صحابہ کرام ان آيات کو انھيں جگهوں پر درج کر ليا کرتے تھے تاريخ ميں اس مطلب کے حسب ذيل شواہد پائے جاتے ہيں:
۱۔ زيد بن ثابت ناقل ہيں کہ ہم لوگ حضور اکرم کے سامنے آيات قرآني کو مختلف رقعات سے جمع کيا کرتے تھے۔ امام حاکم کا بيان هے کہ يہ روايت شيخين بخارى و مسلم کے شرائط کي بناء پر بالکل صحيح هے، يہ اور بات هے کہ ان حضرات نے اپني کتابوں ميں جگہ نہيں دى هے۔ (مستدرک ج/۲ ص/۶۱۱)
۲۔ عبادہ بن صامت راوى ہيں کہ جب کوئى مہاجر رسول اکرم کي خدمت ميں حاضر هوتا تھا تو آپ اسے ہم لوگوں کے حوالہ کر ديتے تھے کہ ہم اسے قرآن کريم کى تعليم ديں۔ (مسند احمد ج/۲ ص/۳۲۴)
۳۔ کليب کہتے ہيںکہ ميں حضرت علي(ع) کے ہمراہ مسجد ميں داخل هوا، آپ نے تلاوت کى آواز سن کر ارشاد فرمايا، کيا کہنا ان لوگوں کا بڑے خوش قسمت ہيں۔ (کنز العمال ج/۲ ص/۱۸۵)
قرآن مجيد کے دو چار سوروں کا حفظ تو اس قدر عام تھا کہ شايد ہي کوئى عورت يا بچہ اس نعمت سے محروم رہا هو يہاں تک کہ بخاري، مسلم، ابو داوٴد، ترمذي، نسائى کى متفقہ روايت هے کہ مسلمان عورتيں تعليم سورہ کو مہر قرار دے کر عقد کيا کرتى تھيں۔
ظاہر هے کہ اگر حيات پيغمبر ميں قرآن کريم مرتب نہ هوتا اور سوروں کي تشکيل نہ هوئى هوتى تو سوروں کى تعليم کو مہر قرار دينا يا سوروں کا حفظ کرنا بالکل بے معنى هوتا خود قرآن کريم ميں چيلنج کے مقام پر ايک سورہ دس سورے وغيرہ کا ذکر موجود هے جو وقت تنزيل سوروں کے وجود کى واضح دليل هے۔
شريعت اسلام کا يہ حکم بھى نا قابل انکار هے کہ نماز ميں سورہ حمد کے علاوہ ايک کامل سورہ کى تلاوت فرض هے يا نماز آيات ميں سورہ حمد کے علاوہ ايک سورہ کو پانچوں رکوع پر تقسيم کيا جاسکتا هے جيسا کہ فقہ آل محمد سے ثابت هے اور کھلي هوئى بات هے کہ اہلبيت اطہار (ع) يہ حکم اس وقت تک نہيں دے سکتے جب تک کہ قرآن ان کى نظر ميںہر تحريف سے پاک و صاف نہ هواس لئے کہ ايسا نہ هونے کى صورت ميں اہل بيت کرام(ع) پر يہ الزام آئے گا کہ انهوں نے ايک سورہ کى تلاوت واجب کر دى اور ان سوروں کي تعيين نہيں کى جو تحريف سے محفوظ رہ گئے هوں اور اس طرح اکثر سوروں کى تلاوت کرنے والوں کى نماز کے باطل هونے کي ذمہ دارى آل محمد ہى پر رهے گي۔ يہ خيال نہ کيا جائے کہ يہ حکم آل محمد کا ايجاد کردہ هے بلکہ حقيقتاً يہى حضور اکرم کا ارشاد بھى هے اس لئے کہ آل رسول حضور کے بعد شريعت کو منسوخ کرنے نہيں آئے تھے بلکہ ہر نسخ و ترميم سے بچانے کے لئے آئے تھے۔
جمع قرآن اور قرآن:
تاريخ و روايات سے پہلے تو اس مسئلہ کو خود قرآن کريم کي روشنى ميں حل کرنا چاہئے اس لئے کہ قرآن کريم ہي دنيا کى وہ واحد کتاب هے جس کا ہر حصہ دوسرے کا شارح اور ہر جزء دوسرے کا مفسر هے۔ قرآن کريم نے اس سلسلہ ميں چند بيانات دئے ہيں:
۱۔ ”لا تحرک بہ لسانک لتجعل بہ ان علينا جمعہ و قرآنہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ثم ان علينا بيانہ۔“ (اے ميرے پيغمبر تلاوت قرآن ميں زبان کو حرکت دينے ميںعجلت نہ کرو اس کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ هے۔ پس جس طرح ہم پڑھ ديں ويسے ہى تم بھى پڑھو، پھر اس کا بيان بھى ہمارے ہى ذمہ هے۔)
آيت سے يہ صاف ظاہر هوتا هے کہ قرآن کے جمع و قرائت و بيان کى سارى ذمہ دارى پروردگار عالم نے اپنے اوپر رکھى هے، اور جب بغير اس کى ہدايت کے حضور اکرم کو قرائت کى اجازت نہيں هے تو دوسرے انسان کو کيونکر هو سکتى هے؟ يہ تو خود حضور ہى کى ذمہ دارى هے کہ جس طرح پروردگار نے انھيں ہدايت دى هے اسى طرح جملہ ہدايات کو امت کے حوالہ کرکے جائيں ورنہ صرف منتشر آيات کوبغير جمع و قرائت و بيان کے چھوڑ دينا کتاب اللہ کے چھوڑ جانے کے مرادف نہيںهے۔
۲۔”و ان کنتم فى ريب مما نزلنا عليٰ عبدنا فاتوا بسورةمن مثلہ وادعواشہداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقين۔“(بقرہ)”اگر تم اس چيز کے بارے ميں شک ميں مبتلا هو جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کيا هے تو اس جیسا ايک ہى سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے گواهوں کو بھى طلب کرلو،اگر تم اپنے خيال ميں سچے هو۔“
۳۔”ام يقولون افتريٰہ قل فاتوا بعشر سور مثلہ مفتريات و ادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقين“ (هود) ”کيا يہ کہتے ہيں کہ رسول نے خدا پر افترا کيا هے؟ تو اے رسول ان سے کہدو کہ تم بھي ايسے دس سورے افترا کر کے لاوٴ اور اللہ کے علاوہ جسے چاهے اپني مدد کے لئے بلالو اگر تم اپنے دعوے ميں سچے هو۔“
۴- ”قل لين اجتمعت الانس و الجن على اٴن ياتوا بمثل ہذا القرآن لا ياتون مثلہ ولو کانوا بعضہم لبعض ظہيراً۔“ (بنى اسرائيل) ”اے پيغمبر کہدو کہ اگر انس و جن ملکر بھي اس قرآن کا جواب لانا چاہيں تو نہيں لا سکتے چاهے باہم ايک دوسرے کى کمک ہى کيوں نہ کريں۔“
ان آيات سے صاف ظاہر هوتا هے کہ عہد رسالت ميں قرآن کريم کے جمع و ترتيب کا کام برابر انجام پا رہا تھا، حضور نے سوروں کى تشکيل بھى دے دى تھى اور مجموعہ کتاب کا بھى ايک تصور قائم کر ديا تھا، ايسا نہ هوتا تو دس سوروں کے جواب کا مطالبہ يا پورے قرآن کے جواب کا مطالبہ لغو و مہمل هوجاتا۔
يہ نہيں کہا جا سکتا کہ دس سورے چھوٹے چھوٹے ايسے هو سکتے ہيں جن ميں ترتيب و تحريف کا کوئى سوال نہ هوبلکہ وہ مکمل طور پر ايک ساتھ نازل هوئے هوں جيسے سورہٴ حمد، سورہٴ توحيد وغيرہ ، اس لئے کہ يہ بات حضور کے چيلنج کو کمزور بنا ديتى هے کہ چھوٹے چھوٹے سوروں کو مرتب و محکم دے کر تحدي کردى اور بڑے سوروں کے جواب کى ہمت نہ کى کہ کہيں ايسا نہ هو کہ دشمن اس ميں کچھ کمزورياں نکال ديں يا اس جيسا کوئى کلام ہى بنا لائيں۔
بعض حضرات کا خيال هے کہ سورہٴ بنى اسرائيل ميں پورے قرآن کے مثل کا مطالبہ خود اس بات کى دليل هے کہ قرآن کريم ميں تحريف هوئى هے ورنہ اس وقت تو پورے قرآن کا سوال ہى نہيں تھا۔ ليکن يہ خيال بھي دور از قياس هے اس لئے کہ ”بمثل ہٰذا القرآن“ کہنے کے لئے ايک مجموعہ کى طرف اشارہ تو ضرورى هے ليکن پوري کتاب کا هونا ضرورى نہيں هے۔ مثال کے طور پر اگرآج کوئى غالب# کے ديوان کے سو ورق لے کر دوسرے کے سامنے پيش کردے اور يہ دعوى کرے کہ اگر ہمت هو تو ايسا ديوان مرتب کرو تو بات خلاف بلاغت نہ هوگى ليکن اگر ايک دو غزلوں کو ليکر يا دو چار دس بوسيدہ اوراق کو سامنے رکھ کر ايسا دعوى کرے تو بات قوانين بلاغت کے خلاف هوجائے گي۔ ”ہذا القرآن“ کا اشارہ خود گواہ هے کہ قرآن کے لفظ سے ايک مخصوص کلام کى طرف اشارہ هے اس ميں کل و جزء کى قيد نہيں هے جس طرح کہ ”ذلک الکتاب“ ميں ايک اشارہ ہى هے جس کا بظاہر کوئى مصداق موجود نہيں هے۔ فرق صرف يہ هے کہ ذلک کا اشارہ بعيد کے لئے هے اس لئے اس ميں بظاہر مجموعہ کى ضرورت نہيں هے اور ہذا کااشارہ سامنے کے لئے هے اس لئے اس ميں ايک مجموعہ کا هونا بے حد ضرورى هے۔
چند شبہات:
مذکورہ بالا آيات و بيانات کو ديکھنے کے بعد يہ شبہات ضرور پيدا هوتے ہيںکہ اگر قرآن کريم کے جمع و ترتيب ميں وحى الہى اور اشارہٴ خداوندى کو دخل هے تو اس کے آيات ميںبد نظمى اور بے ربطي کيوں هے۔ قبل کى آيت بعد ميں اور بعد کى آيت قبل ميں۔ مکہ کى آيت مدنى سورے ميںاور مدينہ کى آيت مکي سورے ميں۔ واقعہ سے پہلے کى آيت بعد ميں اور واقعہ کے بعد کى آيت پہلے۔ جو اس بات کا واضح ثبوت هے کہ اس کى ترتيب ميں کسى اچھے صاحب ذوق اور سليقہ مند کا ہاتھ نہيںهے ليکن يہ شبہات اس وقت فنا هو جاتے ہيں جب انسان آيات کے خصوصيات اور اس کے پس منظر پر غور کرکے حالات کے پيش نظر ان کا تجزيہ کرتا هے، اس بات کو سمجھنے کے لئے يہ نکتہ بہر حال پيش نظر رکھنا هوگا کہ قرآن کريم کى تنزيل دفعةً نہيں هوئى هے وہ حالات و مقتضيات کے پيش نظر جستہ جستہ نازل هوتا رہاهے جس کا نتيجہ يہ هوا هے کہ ايک ايک واقعہ کو مختلف مقامات پر بيان کياگيا هے اور ہر بيان کو دوسرے سے مختلف رکھا گيا هے يعنى جہاں جس جزء پر زور دينے کى ضرورت تھى وہاں اسے واضح کيا اور باقى اجزاء کو نظر انداز کرديا۔ ايسے حالات ميں کسى انسان کو يہ کہنے کا حق نہيں هے کہ ايک واقعہ ميںايسا تضاد اور اختلاف بيان کيوں؟ اس لئے کہ يہ باتيں حالات کى تابع هوا کرتى ہيں۔ تصنيف کا سليقہ اور هوتا هے اور تبليغ کا سليقہ اور۔ دستور کى زبان اور هوتى هے، قانون تربيت کى زبان اور۔ دونوں کو ايک دوسرے پر قياس نہيں کيا جاسکتاهے۔
تنزيل قرآن کے ساتھ جمع قرآن کا مرحلہ پيش آيا۔حضور اکرم نے جس آيت کو دوسرى آيت سے موضوع ،مقصدياماحول کے لحاظ سے یکساںپايا اسے اسى آيت کے ساتھ جمع کر ديا۔مکّى يا مدنى کا لحاظ نہيں فرمايااس لئے کہ قرآن پورا دستور تربیت بن کر آيا تھا ،وہ مکى مدنى کى تقسيم کرنے نہيں آيا تھايہ تو صاحبان ذوق کا ذوق جستجو هے کہ انهوں نے آيات کى تنزیل کو تلاش کر کے مکى و مدنى کے امتيازات قائم کرلئے ورنہ مقصد کے اعتبار سے جو مدعا مکى آيات کا هے وہى مدنى آيات کا بھى هے،اور جس مقصد کو سمجھانے کے لئے مدنى آياتیں آئى تھيں اسي مقصد کى تفہيم کے لئے مکى آيتیں بھى نازل هوئي تھیں۔
قائلين تحريف نے يہ تو محسوس کرليا کہ مکى سورون ميں مدنى آيتیں ہيں ،اور مدنى سورتوں ميں مکى آيتیں ہيں ۔ليکن يہ محسوس کرنے کى زحمت نہيں کى کہ بہت سى مکى آيتیں مدنى آيت سے موضوع ومقصد کے اعتبار سے متحد بھى هو سکتى ہيں اور ايسے حالات ميں انہيں ان آيات سے الگ کر دینا اپنے مقصد کو مجروح کردینے کے مرادف هوگا۔ مثال کے طور پر اس مقام پر چند آيتیںنقل کى جارہى ہيں جن سے مدعا کى باقاعدہ وضاحت هو سکتى هے:
۱۔(ا)”وان کنتم فى ریب مما نزلنا عليٰ عبدنا فاتوابسورة من مثلہ وادعواشہداء کم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔ “ (بقرہ)
(ب) ”اٴم یقولون افترےٰہ قل فاتوابعشرسورمثلہ مفتريات وادعوامن استطعتم من دون اللہ ان کنتم صٰدقین۔“ (هود)
(ج) ”قل لئن اجتمعت الانس والجن عليٰ اٴن ياٴتوا بمثل ھذا القرآن لاياٴتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظہيراً۔ “ (بنى اسرائیل)
مذکورہ بالا آيات ميں قرآن کريم نے اپنے بے مثل اور لا جواب هونے کى تحدى کى هے۔ پہلى آيت ميں ايک سورہ کا جواب مانگا هے، دوسرى آيت ميں دس سوروں کا جواب طلب کياهے اور تيسرے سورہ ميں کل قرآن کى طرف سے چيلنج کيا هے۔
کہا يہ جاتا هے کہ قاعدہ کے اعتبار سے پہلے پورے قرآن کا جواب طلب کرنا چاہئے تھا پھر جب کفار خاموش وہ جاتے تو دس ہى سوروں کا جواب طلب کيا جاتا، اور جب اس سے بھى عاجز رہ جاتے تو يہ کہا جاتا کہ اگر کچھ ممکن نہيں هے تو ايک ہى سورہ کا جواب لے آوٴ۔ حالانکہ ايسا نہيں هوا پہلى آيت سورہ بقرہ ميں هے جو پہلے ہى پارے سے شروع هوجاتا هے۔ دوسري آيت سورہ هود کى هے جو گيارهويں پارے ميں هے اور تيسرى آيت سورہ بنى اسرائيل ميں هے جس سے پندرهويں پارے کاآغاز هوتا هے۔ تحدى کي يہ بے ربطى واضح دليل هے کہ قرآن کريم ميں غير وحى کا ہاتھ لگا هے اور اس کى ترتيب مسلمانوں نے درہم برہم کردى هے۔
يہ اعتراض اگر چہ بڑے زور و شور کے ساتھ نقل کيا جاتاهے ليکن مجھے حيرت هے کہ معترضين نے اتنى شديد غفلت سے کيونکر کام ليا۔ علماء اسلام نے جہاںسوروں کى ترتيب کا ذکر کيا هے وہاں ان کى تنزيل کى نوعيت کى طرف بھى اشارہ کياهے۔ تفصيل سے پہلے يہ سمجھ لينا ضرورى هے کہ محل بحث آيات کى ترتيب هے سوروں کى ترتيب نہيں۔ سوروں کى ترتيب بہر حال اختلافى هو سکتى هے جس طرح سوروں کے اسماء ميں ہر دور ميں اختلاف رہا هے اس لئے کہ اس کا کوئى تعلق وحى الہى سے نہيں هے۔ تاريخ قرآن بھى گواہ هے کہ صدر اول کے مسلمانوں کے مصاحف ميں ترتيب سور ميں فرق تھا اور عجب نہيں کہ مولائے کائنات حضرت على (ع) نے اس امر کى اصلاح بھي ضرورى سمجھى هو اور اس کى طرف اپنے مصحف ميں اشارہ فرمايا هو جيسا کہ بعض روايات سے معلوم هوتا هے کہ آپ نے مطابق تنزيل ترتيب سے کام ليا تھا۔
مقصد يہ هے کہ مطالب قرآن پر بحث کرنے کے لئے سوروں کى ترتيب اور پاروں کے نمبر سے استدلال نہيں هو سکتا اس کا تعلق تمام تر آيات سے هے اور انھيں کى ترتيب سے احکام و مسائل کا استنباط کيا جاسکتاهے۔
اس تمہيد کى روشنى ميںيہ کہا جاسکتا هے کہ يہ اعتراض انتہائى بے ربط هے اس لئے کہ سورہٴ بقرہ مدنى سورہ هے اور هود # و بنى اسرائيل# مکي۔ پھر ان دونوں سوروں ميں بھى ترتيب يہ هے کہ پہلے اسراء# (بني اسرائيل) اس کے بعد يونس# اور اس کے بعد هود#۔ زمانے کے اندازے کو حذف کرنے کے بعد يہ کہا جاسکتا هے کہ خالق کائنات نے پہلے مکہ کے کفار کو پورے قرآن کا جواب لانے کى دعوت دى اور جب وہ عاجز رہ گئے تو ايک سورہ يونس کا فاصلہ ديکر سورہٴ هود ميں دس ہى سوروں کا مطالبہ کرليا اور جب ان دونوں منزلوںکفار نے سکوت اختيار کيا تو خلاق کائنات نے بھى کوئى باز پرس نہيں کى يہاں تک کہ مدينہ پهونچنے کے بعد لوگوں نے پھر شکوک و شبہات پيدا کرنا شروع کر دئے تو قدرت نے ايک بار پھر تحدّى کى اور اب کى مرتبہ صرف ايک سورہ کا مثل طلب کيا۔
اس تحقيق کا قرآنى شواہد خود آيات کريمہ کا سليقہ بيان اور انداز گفتگو هے۔ پورے قرآن کے جواب کے موقع پر انس و جن دونوں کو چيلنج کيا گيا هے جس کا مطلب يہ هے کہ کفار کا اختلاف انتہائى شديد تھا اور کسي قيمت پر اس کے الہامى هونے کا اقرار کرنے کے لئے تيار نہيںتھے۔ دس سوروں کے موقع پر لہجہ بدل ديا گيا هے اور وہاں صرف انسانوں سے خطاب کيا گيا هے ليکن يہ احتياط رکھى گئى هے کہ کمک طلبى کے موقع پر ”من استطعتم“ کا عموم باقى رکھا هے يعنى جسے چاهے مدد کے لئے طلب کرو ايسے دس سورے نہيں لا سکتے۔ مدينہ پهونچنے کے بعد يہ لہجہ بھى بدل گيا اور وہاں صرف ”شہدائکم“ اپنے حاضرين اور گواهوں کى مدد کا ذکر کيا گيا هے جس سے اندازہ هوتا هے کہ ايک سورہ کے جواب کے لئے کتنا مناسب چيلنج کيا گيا هے۔
آخري دونوں آيتوں ميںمکہ اور مدينہ کا فرق يوں بھى واضح هو سکتا هے کہ مکى آيت ميں اس بات کى صراحت هے کہ لوگ قرآن کو رسول کا افتراء و بہتان کہتے ہيں يعنى مخالف ميں اتنى جراٴت و ہمت هے کہ وہ صراحت لہجہ سے کام ليکر اپنے ما فى الضمير کا اظہار کر سکتا هے اور مدنى آيت ميں ايسے کسى اظہار کا ذکر نہيں هے بلکہ وہاں ”فى ريب“ کا حوالہ ديا گيا هے اور هونا بھى يہى چاہئے تھا اس لئے کہ شان و شوکت گھٹنے کے بعد کفار على الاعلان مخالفت سے مرغوب هو سکتے ہيں ليکن ريشہ دوانيوں سے غافل نہيں هو سکتے ہيں۔ مثل مشهور هے ”چور چورى سے جاسکتا هے ہيرا پھيرى سے نہيں جا سکتا هے۔“
اس مقام پر ابن نديم کا ”فہرست“ ميں ذکر کيا هوا يہ نکتہ بھى قابل توجہ هے کہ علماء اسلام نے سوروں کى جس تنزيلي ترتيب کا ذکر کيا هے اس ميں ۴۸# سورہ بنى اسرائيل کا هے اور ۴۹# سورہ هود کا (درميان ميں سورہ يونس کاذکر نہيں هے) جس سے صاف معلوم هوتا هے کہ سورہ هود سے پہلے کم از کم ۴۸ سورے نازل هو چکے تھے جن ميں توحيد و کوثر و عصر و فلق و الناس جيسے مختصر سورے بھى تھے اور رحمن و يٰسين ومريم و فرقان و واقعہ جيسے طويل سورے بھي۔ اور قرآن کريم يہ دعويٰ کر رہا تھا کہ اب بھى اگر اسے افتراء سمجھتے هو تو کم از کم دس سوروں کا مثل لے آوٴ۔
ظاہر هے کہ يہ بات اس وقت تک صحيح نہيں هو سکتى جب تک يہ تمام چھوٹے بڑے سورے سوروں کى شکل ميں نہ آگئے هوں ورنہ ۴۸ ميں دس مختصر سوروں کا جواب طلب کرنا اور طويل سوروں کے مثل سے گريز کرنا ايک قسم کي کمزورى کى علامت بن جائے گا۔
اس نکتہ کو پيش نظر رکھنے کے بعد يہ بات اور حيرت انگيز هو جاتى هے کہ حضور اکرم نے مکہ کى حيات ميں ۴۸ چھوٹے بڑے سوروں کو مرتب کردياهواور مدینہ طيبہ ميں وٴنے کے بعد وہاں کے طويل سوروں کي ترتیب کو مسلمانوں کے رحم وکرم پر چھوڑدياهو۔
رہ گيا يہ مسئلہ کہ بعض مکى سوروں ميں مدني آيات بھى موجود ہیںجن کا اس وقت تک وجود نہ تھا تو اس کا حل بالکل واضح هے اس لئے کہ سوروں کا خاکہ تشکيل دینے کے بعد حضور کو يہ مکمل حق رہ جاتا هے کہ اس ميں سے مصلحت تبليغ کى بنا پر کوئى آيت دوسرے خاکہ ميں رکھ ديں يا دوسرے خاکہ کى آيت کو پہلے خاکہ ميں جگہ دے ديں۔
خود سورہ کا بھى کوئى تصور خاکہ کے علاوہ نہيں هوسکتا اس لئے کہ سورہ بذات خود ا يک چہار یوارى هے جس ميں مشیت الہى نے آيتوں کو بسايا هے۔يا واضح لفظوں ميں يہ ايک خاکہ هے جس ميں آيات کا رنگ بھرا گيا هے ۔اب مرسل اعظم کو مکمل اختيار هے کہ وہ حالات و حوادث کے اعتبار سے آيات کو ان کى جگهوں پر مقرر کر کے تشریف لے جائیں تاکہ آنے والى نسلوں کو يہ اندازہ رهے کہ آپ نے تبليغ کى راہ ميں کن حالات کا مقابلہ کيا هے اور ایسے حالات ميں کن آيات کریمہ سے مدد لى جا سکتى هے۔
۲۔آيات تحدى (چيلنج)کے علاوہ دوسرى جگہ جہاں ترتیب آيات صریحى طور پر تنزیل کے خلاف واقع هوئى هے غدیر خم کى منزل هے۔ دنيائے اسلام کا بچہ بچہ جانتا هے کہ غدير خم کے ميدان ميں پہلے يا ايھاالرسول بلغ ما انزل اليک من ربک۔۔۔کى آیت نازل هوئى جس کے بعد حضور اکرم نے اصحاب کو جمع کرکے پالان شتر کا منبر تيار کر کے ايک فصیح و بليغ خطبہ کے ساتھ على ابن ابى طالب(ع) کى ولایت مطلقہ کا اعلان فرمايا اور نتیجہ کے طور پر قرآن کریم کى دوسرے آيت نازل هوئى ”اليوم اکملت لکم دینکم واتممت عليکم نعمتى ورضيت لکم الاسلام دیناً۔“
ليکن آج کے موجودہ قرآن ميں اکملت لکم پہلے مندرج هے اور آيت بلغ ما انزل اليک بعد ميں ۔کيا يہ اس بات کا واضح ثبوت نہيں هے کہ بعد کے مسلمانوں ميں آيات کو انکى جگہ سے ہٹا کر دوسرے مقامات پر منطبق کر ديا هے اور اس طرح واقعہ غدیر کا تسلسل درہم برہم هو گيا هے؟
ليکن گذارش صرف يہ هے کہ آيات کے خلاف تنزيل موجود هونے ميں کسى شک و شبہ کى گنجائش نہيں هے اور نہ اس موضوع پر کوئى بحث کى جا سکتى هے۔گفتگو صرف اس بات پر کى جا سکتى هے کہ يہ کام سرکار دوعالم کے زير نگرانى هوا هے يا اسے امت ہى نے انجام ديا هے ۔
محققين مذہب کا دعويٰ هے کہ يہ سارا کام سرکار دوعالم کے زیر نگرانى انجام پايا هے اور حضور نے مختلف مصالح و مفادات کے تحت آيات کریمہ کى يہ جگہيں معین فرمائي هے۔مثال کے طور پر اسى آيت مبارکہ ميں اعلان ولايت علي(ع) بن ابى طالب(ع) پر تکميل دین اور اتمام نعمت کا اعلان بہت ممکن تھا ليکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والے حضرات جانتے ہيں کہ ايسے موقع پر کفار کى مایوسى اور منافقین کى ناکامى کا اعلان قطعى طور پر ممکن نہ تھا ۔قدرت نے ايک دوسرا اہتمام کيا اور وہ يہ کہ ايک مقام پر تکميل دينکا اعلان کيا اور دوسرے مقام پر کفار کى مایوسى کا تذکرہ کيا اور سرکار دوعالم نے آيات کو ترتیب دیتے وقت تکميل کي آيت کو مايوسى کى آيت سے ملا ديا تاکہ آنے والى نسلوں کے ارباب عقل و هوش دونوں اجزاء کو ملا کر غور کریں اور اس نتیجہ تک پهونچ جائیں کہ اس مایوسى کا تعلق ولايت علي(ع) ہى سے هے۔يہى ولایت وہ هے جس نے دین الہي کو کامل بنا ديا ۔اور يہى ولايت وہ هے جس کے بعد کفار و منافقین دين الٰہى کى طرف سے مایوس هو گئے۔قرينہٴ مطلب کے لئے دونوں آيتوں ميں لفظ اليوم رکھ ديا گيا تاکہ صاحبان نظر اس نکتہ کى طرف متوجہ هو جائیں کہ جس طرح تکميل دین کا تعلق کسى دن سے هے اسى طرح مايوسى کفر کاتعلق بھى کسى دن ہى سے هے یعني کفار کسى مسئلہ يا حکم سے مايوس نہيں هوئے ہيں بلکہ انکى مایوسى کا اصل راز کوئى دن هے جس دن اسلام کو اپني مسلسل حفاظت کا وسيلہ مل گيا اور اہل کفر کى طرف سے ہر خطرہ کا اندیشہ ختم هوگيا ۔
۳۔قرآن مجيد ميں ترتیب کے خلاف تنزيل هونے کا واضح ثبوت آيت تطہير هے۔جہاں قبل و بعد ”نسا ء النبي“اور ازدواج پيغمبرسے خطاب کرکے گفتگوکى گئى هے اور درميان ميںاہل بیت کى طہارت کا اعلان کر ديا گيا هے جس سے صاف يہ شبہ هوتا هے کہ آيت تطہير کا بھى کوئي تعلق ازدواج پيغمبر سے هے حالانکہ ايسا کچھ نہيں هے۔
ضرورت تھى کہ ہر آيت کو اسکى جگہ پر رکھاجاتا اور اس قسم کے شبہات نہ پيدا کئے جاتے ليکن ارباب اقتدار نے آيات کى ترتیب کو درہم برہم کرديا اور ازواج کے ذکر کے درميان اہليبيت (ع)کے تذکرہ کو داخل کرکے ازواج کو اہل بیت (ع) کے ساتھ متحد بنا ديا۔
اس ميں کوئى شک نہيں هے کہ اس مقام پر جتني آيتیں پائى جاتى ہيں انميں نساء النبي کا عنوان اہل بیت سے قطعى مختلف هے ،نساء النبى سے مراد آپ کے گھر والے یعنى خمسہ نجباء۔ليکن ميرى سمجھ ميں نہيں آتا کہ دونوں قسم کے آيات ايک ايک مقام پر جمع هو جانے سے کيا نقصان هوا کہ اسے اہل هوس کى سازش کا نتیجہ قرار ديا جائے۔ميرے خيال ميں تو دونوں قسم کے آيات کا اجتماع طہارت اہليبيت(ع) کو اور واضح کردیتا هے اور اس سے انکى عظمت و اہميت اور نماياں هو جاتي هے۔ايسا معلوم هوتا هے کہ قدرت کے پيش نظر ازدواج کے امکانات بھى ہيں اور خانہٴ زہرا(ع)بھى هے اور بیک وقت دونوں قسم کے گھروں کے ساکنوں سے مخاطب هے۔ ايککے بارے ميں احکام وتعليمات کا تذکرہ هے اور دوسرے کے بارے ميں طہارت و عصمت کا۔ يا واضح لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ ازدواج کے لئے احکام وتعليمات نازل کئے گئے تو اہلبيت(ع) کى عصمت وطہارت کوپيش نظر رکھ کر۔اور اہلبيت (ع) کى طہارت کا اعلان کيا گيا تو ازدواج کى حيثيت کو ملحوظ نگاہ بناکر۔
اس کے علاوہ قرآن مجيد کا گہرا مطالعہ ايک اور حقيقت کو واضح کرتا هے اور وہ يہ هے کہ آيت تطہير کے قبل و بعد کى آيتوں ميںقدرت نے مختلف لہجے اختيار فرمائے ہيں اور ہر لہجہ آيت تطہير کے لئے ايک زمينہموار کر رہا هے۔
آغاز کلام ميں ارشاد هوتا هے:
”يا ايہا النبى قل لازواجک ان کنتن ترون الحياة الدنيا وزينتھا فتعالين امتعکن واسرحکن سراحاًجميلاً وان کنتن ترون اللہ ورسولہ والدار الآخرة فان اللہ اعد للمحسنات منکن اجراً عظیماً۔“
(اے پيغمبر!اپني ازواج سے کہہ دیجئے کہ اگر تم زندگانى دنيا اور اس کى زینت چاہتى هوتوآوٴ ہم تمہيں مالا مال کرديں اور بہ حسن و خوبى رخصت کرديں اور اگر اللہ و رسول اور روز آخرت کي طلبگار هو تو اللہ نے تم ميں سے نيک کردار خواتين کے لئے اجر عظيم مہيا فرمايا هے۔)
اس کے بعد ارشاد هوتا هے:
”يا نساء النبى من ياٴت منکن بفاحشة مبينة یضاعف لہا العذاب ضعفین و کان ذٰلک على اللہ یسیرا و من يقنت منکن للہ و رسولہ و تعمل صالحاً نوتھا اجرہا مرتین واعتدنا لہا رزقاًکريماً# يانساء النبى لستن کاٴحد من النساء ان اتقین فلا تخضعن بالقول فیتمع الذى فى قلبہ مرض و قلن قولاًمعروفا# و قرن فى بيوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلية الاوليٰ و اقمن الصلوٰة واٰتین الزکوٰة واطعن اللہ و رسولہ ط انما يريد اللہ ليذہب عنکم الرجس اہل البيت ويطہرکم تطہيرا۔“
(اے زنان پيغمبر!جو تم ميں سے کوئى کھلى هوئى برائى کرے گى اس پر دہرا عذاب کيا جائے گا اور يہ کام اللہ کے لئے انتہائي آسان هے اور جو خدا اور رسول کے لئے فروتنى کے ساتھ عمل صالح کرے گى ،اسے دہرا اجر ديا جائے گااور اس کے لئے رزق کریم مہيا کيا گيا هے۔
اے زنان پيغمبر!تم اگر صاحب تقويٰ بنى رهو تو تمہارا مرتبہ عام عورتوں جيسا نہيں هے لہذا اپنى گفتگو ميں لگاوٹ نہ آنے دو کہ کوئى دل کا بيمار غلط طمع پيدا کرلے۔نيک گفتگو کرو۔ اپنے گھروں ميں بيٹھي رهو۔ جاہليت اوليٰ کا بناوٴ سنگارترک کردو۔نماز قائم کرو۔ زکوٰة ادا کرو ۔اللہ و رسول کي اطاعت کرو۔
اے اہليبيت(ع)! اللہ کا ارادہ هے کہ تم سے ہر رجس کو علٰحدہ رکھے اور تمہيں حق طہارت عطا کرے۔)
آخر کلام ميں ارشاد هے:
”واذکرن ما يتليٰ فى بيوتکن من آيات اللہ و الحکمة ان اللہ کان لطيفا خبيرا۔“
(تمہارے گھروں ميں جن آيات خدا اور حکمت کى تلاوت کى جاتى هو انہيں ياد رکھو۔اللہ لطيف بھى هے اور خبير بھي۔)
آيات کریمہ کا تسلسل صاف واضح کررہا هے کہ مالک کائنات نے تین مرتبہ کلام کے لہجہ کوتبدیل فرمايا هے۔ آغاز کلام ميں خطاب ازواج سے هوا هے اور اچھائى يا برائي کى نسبت تمام ازواج کى طرف دى گئى هے۔ درميان ميں مخاطبت کا رخ نساء النبى کى طرف مڑگيا هے جو عربى زبان کے اعتبار سے بھى اور قرآنى استعمالات کے لحاظ سے بھى ازواج سے زيادہ وسعت رکھتا هے۔لفظ ازواج ميں عرف رشتہ زوجیت کا گزرهے اور لفظ نساء ميں زوجہ،ماں، بيٹي،عورت کى ہر صنف کا داخلہ ممکن هے اور غالباًيہى راز هے کہ اب اچھائي يا برائى کو مجموعہ کى طرف منسوب نہيں کيا گيا بلکہ نساء کو د حصوںپر تقسیم کر ديا گيا ۔ايک کے لئے دہرے عذاب کيتہديد اور دوسرے کے لئے دہرے ثواب کا وعدہ۔ ان دونوں ميںبھى بد کردارى کا ذکر پہلے هے اور نيک کردارى کا ذکر بعد ميں۔جو آيت تطہير سے قريب تر هے۔
نيک کردار نساء تک پهونچنے کے بعد قرآن مجيد نے لفظ ”بيوت“ استعمال کرديا اور آخر ميں آيت تطہير ميں لفظ ”بيت“ استعمال کرکے پھر روئے سخن بيوت کى طرف موڑ ديا، جس سے صاف ظاہر هوتا هے کہ ازواج کے تذکرہ کے بعد دائرہ کلام کو وسيع بنا کر عورتوں کى ہر صنف کو داخل کيا گيا هے اور پھر ان ميں سے بد کردار خواتين کو الگ کرکے نيک کردار خواتين کو دو حصوں پر تقسيم کيا گيا هے، ايک کا تعلق بيوت سے هے اور ايک کاتعلق بيت سے هے۔
بيوت والى خواتين ازواج ہيں اور بيت والى خاتون ”نساء“ کى ايک قسم يعنى دختر مرسل اعظم حضرت صديقہ طاہرہ فاطمہ زہرا(ع)ء ہيں۔ اس طرح آيات کاتسلسل اور ارتباط بھى برقرار رہ جاتا هے اور حضرت صديقہ طاہرہ(ع) کى بے پناہ عظمت بھى سامنے آجاتى هے۔
آيت کا عنوان ”اہل البيت“ اگر چہ خمسہ نجباء کو شامل هے اور اس ميں سرکار دو عالم ، حضرت علي(ع) مرتضيٰ(ع) اور حضرات حسن(ع) و حسين(ع) سبھى داخل ہيں۔ ليکن اس حقيقت سے بھى انکار نہيں کيا جاسکتا کہ اکثر آيات ميں شان نزول کو بھى اہميت دي گئى هے اور اس کے اعتبار سے بھى عنوان اختيار کئے گئے ہيں، اس لئے کوئى بعيد نہيں هے کہ آيت تطہير ميں بنت زہرا(ع) کى مرکزيت اور عظمت کے پيش نظر لفظ بيت استعمال هوا هو۔ جيسا کى خصوصيات واقعہ کے مطالعہ سے اندازہ هوتا هے کہ حضور سرور کائنات نے نزول آيت کے لئے شہزادى کاگھر منتخب فرمايا اور پھر وہاں بھى فاطمہ ہى سے چادر ليکر ايک چادر کا مکان تعمير کيا۔ آنے والے حضرات نے بھى فاطمہ(ع) ہى سے حضور کا پتہ دريافت کيا اور انھيں کے ذريعہ کساء تک پهونچے اور قدرت نے بھى ملائکہ سے پنجتن کا تعارف کرانے کے لئے فاطمہ(ع) ہى کو وسيلہ قرار ديا ۔
ان حالات کے بعد کيا يہ کہنا ممکن نہيں هے کہ مرسل اعظم نے اس آيت کو آيات ازواج کے درميان رکھ کر ازواج و نساء، بيوت وبيت کے فرق کو واضح فرما ديا اور دنيا کو بتا ديا کہ بيت فاطمہ(ع) کى عظمت جملہ بيوت ازواج سے بالاتر هے۔
بيوت ازواج ميں احکام و تعليم کا نزول هوتا هے اور بيت فاطمہ(ع) ميں عصمت و طہارت کا اعلان۔
۴۔ سورہٴ نساء کے آغاز ميں اعلان هوتا هے:
”وآتوا اليتٰميٰ اموالہم ولا تتبدلوا الخبيث بالطيب ولا تاکلوا اموالہم الى اموالکم انہ کان حوباً کبيراً و ان خفتم الا تقسطوا فى اليتاميٰ فانکحوا ما طاب لکم من نساء مثنيٰ و ثلاث ورباع و ان خفتم الا تعدلوا فواحدة وما ملکت ايمانکم۔“
(يتيموں کو ان کا مال ديدو اور اچھے کو برے سے نہ بدلو۔ اپنے مال کے ساتھ ان کا مال بھى نہ کھا جاوٴ کہ يہ بہت بڑا گناہ هے اور اگر تمہيں يہ خوف هے کہ ان کے بارے ميں انصاف نہ کر سکوگے تو اپنى پسند کے مطابق دو تين چار نکاح کرلو اور اگر ان ميں بھى انصاف نہ کر سکنے کا انديشہ هے تو ايک عقد کرو يا کنيزوں کے ذريعہ اپنى جنسى تشنگى کو رفع کرو۔)
کہا يہ جاتا هے کہ ان آيات ميں يتيموں کي تربيت و پرداخت اور تعداد ازدواج ميں کوئى ربط نہيں هے جس سے اندازہ هوتا هے کہ دونوں آيتيں دو مختلف مقامات کي ہيں اور انھيں بر بنائے غفلت و بے توجہى ايک مقام پر جمع کر ديا گيا هے۔
ليکن بظاہر اس شبہ کى کوئى گنجائش نہيں هے اس لئے کہ اولاً تو آيات ميں صاف رابطہ موجود هے اور مقصد يہ هے کہ اگر يتيموں کى با قاعدہ پرورش و پرداخت نہيں کر سکتے هو تو شادياں کرلو تا کہ اس تربيت و نگرانى ميں تمھيں ايک شريک کار مل جائے اور زحمت کا بوجھ مختلف کاندھو ں پر تقسيم هو جائے۔ اور دوسرى بات يہ بھى هے کہ پرورش و پرداخت کى زحمتوں کے ساتھ عقد نکاح کا ذکر جس قدر حسين معلوم هوتا هے ديگر مقامات پر اس کا حسن واضح نہيں هو سکتا۔ نکاح کا حکم تو کسى وقت ديا جا سکتا تھا، ليکن يتيم پرورى کے تذکرہ کے ساتھ اس کے بيان نے يہ حسن پيدا کر ديا هے کہ ہم تمہارى زحمتوں کے مقابلہ ميں تمہارى جنسى تشنگى کا بھى احساس رکھتے ہيں۔ ہمارا مقصد يہ نہيں هے کہ يتيموں کى کفالت کا بوجھ اٹھا نے کے بعد زندگى کے دوسرے جذبات پامال کر دو بلکہ ہم نے ان جذبات کى طرف سے بھي تمہيں مکمل آزادى دى هے اور يہاں تک کہہ ديا هے کہ اگر تسکين جنسى ميں عقد کے انتظامات اور اس کى ذمہ دارياں سد راہ هوتى ہیں تو کنيزى کے راستے کو اختيار کرو اور اپنى جنسى آگ کو بجھانے کا ہر امکانى انتظام کرو۔ يہ اور بات هے کہ ہم نے اپنے قانون کے تقدس کے پيش نظر تسکين جنس کو بھى ايک مقدس تصور دے ديا هے اس لئے ہم اس بات سے راضى نہيں ہیں کہ تم اس راہ ميں عدل و انصاف کادامن چھوڑ دو اور بے راہ روى اختيار کر لو، بلکہ ہمار امطالبہ اس نازک منزل پر بھى يہى هے کہ دامن احتياط ہاتھوں ميں رهے اور جذبات کى رو ميں مقدس تصورات نہ بہنے پائيں۔
حرف آخر:
ترتيب قرآن کے بارے ميں ان تفصيلى مباحث کے بعد يہ کہنا آسان هو جاتا هے کہ اگر اس ترتيب ميں وحى الہى کے علاوہ کوئى دوسرا بشرى سليقہ کار فرما هو تا تو دو ميں سے ايک بات کاهونا نا گزير يا تو سارا قرآن تنزيل کے مطابق جمع کيا جاتا اور مرتب اپنے کمال حفظ و سليقہ کى داد ديتا يا اسے ديگر تصانيف کى طرف ابواب و فصول قائم کرکے موضوعات کے اعتبار سے مرتب کيا جاتا۔ حالانکہ ايسا کچھ نہيں هو اجس سے صاف ظاہر هوتا هے کہ اس ترتيب ميں کوئي بشرى سليقہ دخيل نہيں هے بلکہ يہ کام تمام تر وحى الہى کے اشارے پر هے مزاج ربوبيت کے مطابق انجام پايا هے اور سرور کائنات نے اس کى آيات کو مرت کرنے ميں ذہن بشر کى تدريجى تربيت کے مراحل کو پيش نظر رکھا هے۔
دوسري لفظوں ميں يہ کہا جا سکتا هے کہ تنزيل کے مطابق مرتب نہ هونا ہى اس کے مطابق وحى مرتب هونے کى دليل هے جسے عام طور سے انسانى ترتيب کى دليل قرار ديا جاتا هے۔
اہتمام مسلمين:
حفاظت قرآن کے سلسلہ ميں مسلمانوں کا عظيم اہتمام بھي ايک ناقابل انکار حقيقت هے ۔ تاريخ کے ان حقائق کو نظر انداز نہيں کيا جاسکتا کہ ارباب هوس و اقتدار نے اس مقدس کتاب کو نذر آتش بھى کيا هے اور اس پر تيروں کى بارش بھي کى هے۔ ليکن اس حقيقت کا انکاربھى نہيں هو سکتا کہ مسلمانوں نے کسى دور ميں قرآن کريم ميں کسى قسم کى تحريف و ترميم برداشت نہيں کي هے۔ رسول اکرم اور خلفاء مسلمين کے ادوار کو جانے ديجئے ان کى طرف سے امت کا کل يا اکثر حصہ خوش عقيدہ تھا اور انھيں رسالت يا خلافت کى بناء پر قابل اعتماد سمجھتا تھا۔ عام قاريان قرآن کو لے ليجئے جن کى يہ حيثيت قطعاً نہ تھى ليکن جب سے قراء سبعہ نے اس کے اعراب و حرکات معين کر دئے ہيں مسلمانوں نے اس ميں کسى قسم کا تغيير برداشت نہيں کيا ۔ ادبى ذوق نے مخالفت بھى کي۔ لسانى مسائل سد راہ بھى هوئے۔ نحو و صرف کے قواعد نے دشوارياں بھى پيدا کيں ليکن اس کے باوجود کتابت و قراٴت کا جو انداز تھا وہ باقى رہ گيا ۔
کتاب مقدس ميں آپ کو بے شمار مواقع مليں گے جہاں علماء ادب و لغت نے اعراب و حرکات پر گوناگون بحث کرکے اس کى تاويليں کي ہيں ليکن کسى دور ميں يہ جراٴت نہيں کى کہ اس اعراب يا حرکت يا حرف کو خلاف قواعد قرار دے کر اس ميں ترميم کر دیتے اور اپنے ذوق خاص کے مطابق تبديلي پيدا کرليتے۔
”ان ہذان لساحران“ ميں انّ کے بعد ”ہذان“ آج بھى زير بحث هے۔ بعض مقامات پر ة کى جگہ ت يا بالعکس۔ بعض موارد پر الف زائد وغيرہ جيسے مسائل اہل علم کے درميان ہر دور ميں محل بحث رهے ہيں ليکن اصلاح کا قصد نہيں کيا گيا۔
يہ اس بات کا زندہ ثبوت هے کہ مسلمانوں نے تمام انفرادى مصائب و مظالم کے با وجود اجتماعى طور پر کتاب کريم ميں کوئي تغيير و تحريف برداشت نہيں کيا، اس کے بعد يہ کيونکر تصور کيا جاسکتا هے کہ سارا قرآن حسب ذوق مرت کر ليا جاتا، آيات کو الٹ پلٹ ديا جاتا، سياسي مصالح کى بنياد پر مفاہيم و مطالب کو منقلب کر ديا جاتا اور امت سياسى دباوٴ کے بر طرف هو نے کے بعد بھى خاموش تماشائى بنى رہتي۔ کسى ايک دور حکومت ميں تو يہ آواز اٹھنى چاہئے تھى کہ پيش رو حاکم کى خطاوٴں کى اصلاح کى جائے اور کتاب مقدس کي عظمتوں کو از سر نو بحال کيا جائے۔
امير المومنين(ع) کا کارنامہ:
اس مقام پر ايک اہم سوال يہ پيدا هوتا هے کہ اگر قرآن کريم حيات پيغمبر ميں مرتب هو گيا تھا تو مولائے کائنات کے اس ارشاد کا کيا مطلب هے کہ ميں اس وقت تک ردا دوش پر نہ ڈالوں گا جب تک قرآن کو جمع نہ کر لوں۔ اس ارشاد سے تو صاف واضح هوتا هے کہ حيات رسول ميں قرآن کريم با قاعدہ طور پر مرتب نہ هوسکا تھا۔
ليکن اس واقعہ کى صحيح نوعيت کا اندازہ اس وقت هو تا هے جب ہم علماء اسلام کے ساتھ حضرت(ع) کے جليل القدر صحابى سليم بن قيس الہلالي کى کتاب کا مطالعہ کرتے ہيں اور اس ميں واضح طور پر يہ نظر آتا هے کہ امير المومنين(ع) نے قرآن کريم کو ناسخ و منسوخ، محکم ومتشابہ اور عام و خاص کے ساتھ جمع فرمايا تھا۔ اس کا مطلب يہ هے کہ الفاظ و آيات دور پيغمبر ميں مرتب هو گئے تھے ليکن چونکہ حضرت نے حديث ثقلين ميں تفہيم قرآن کا کام اہل بيت کے حوالے کيا تھا اس لئے اہل بيت کا فرض تھا کہ وہ دنيا کے تمام کاموں کو چھوڑ کر اپنے اس فريضہ کو ادا کريں اور امت کو حقائق قرآن سے آگاہ کرکے اس ضمانت نجات کا انظام کريں جس کى طرف سرکار دو عالم نے وقت آخر اشارہ فرمايا تھا اور جس کے لئے نوشتہ نجات تحرير فرمانا چاہتے تھے۔
اس بات کا ايک تاريخى ثبوت يہ بھى هے کہ جب حضرت امير(ع) دربار حکومت ميں اپنا ترتيب ديا هوا قرآن لے کر آئے تو امت نے اسے قبول کرنے سے انکار کر ديا۔ ظاہر هے کہ امت اس حقيقت سے آگاہ تھى کہ علي(ع) سے بہتر عارف احکام اور عالم قرآن کوئى نہيں هے تو اس سے بہتر اور کيا هو سکتا تھا کہ علي(ع) کا ترتيب ديا هوا قرآن لے ليں اور پھر اپنے حسب منشاٴ تفسير و تاويل کريں۔ ترتيب خاص سے کچھ فوائد ضرور حاصل هو سکتے تھے ليکن تفسير و تاويل کے دروازے نہيں بند هو سکتے تھے ليکن اس کے با وجود امت نے اس قرآن کو قبول کرنے سے انکار کر ديا جو اس بات کا واضح ثبوت هے کہ حکومت وقت اس حقيقت سے واقف تھى کہ على نے قرآن کو تفسير و تاويل اور مفهوم ومطالب کے ساتھ مرتب کيا هے اب اگر اس قرآن کو امت ميں رائج کر ديا گيا تو حکومت کے ہاتھ قطع هو جائيں گے اور حسب خواہش تاويل کے دروازے بند هو جائيں گے۔
اس تحقيق کے بعد اس توہّم کى بھى گنجائش نہيں رہ جاتي هے کہ اگر حکومت وقت نے اس دور ميں علي(ع) کا قرآن لینے سے انکار کر ديا تھا تو علي(ع) کا فرض تھا کہ اپنے دور حکومت ميں اس قرآن کو رائج کر ديتے اور امت کو اپنے مرتب کردہ قرآن سے محروم نہ رکھتے اس لئے کہ حضور سرور کائنات نے حديث ثقلين ميں جس حقيقت کى طرف اشارہ کيا تھا وہ صرف يہ تھى کہ قرآن حکيم کے حقائق و معارف اس کے مطالب و مفاہيم اہل بيت(ع) کے پاس محفوظ ہيں۔ امت کو بھى اس حقيقت کا صحيح اندازہ تھا اور اسى لئے ان کے قرآن سے گريز کيا جا رہا تھا ۔ امير المومنين(ع) نے اپنے طرز عمل سے واضح کرديا کہ امت مرسل اعظم کے بتائے هوئے اصولوں پر نہيں چلنا چاہتى اور معانى قرآن کو حکومت و اقتدار کے اشاروں پر چلانا چاہتي هے۔ اب آپ کے سامنے مناسب ترين راستہ يہى تھا کہ ترتيب قرآن کے مسئلہ کو پيچھے ہٹا کر فتنہ گروں کي سازشوں کو شکست ديں اور اپنے مخلصين و تلامذہ کے پاس تفسير و تاويل کا اتنا بڑا ذخيرہ چھوڑ جائيں جو صبح قيامت تک کام دے سکے۔ چنانچہ آپ نے پورى توجہ اسى امر کى طرف مبذول فرمائى اور اپنے بيانات و ارشادات کے ساتھ امت کو اپني معصوم ذريت کے حوالہ کر ديا تاکہ کسى دور ميں بھي مشکلات قرآن مشکل نہ رہ جائيں اور ہر دور و زمانہ ميں مسائل کا حل فراہم هوتا رهے۔ اپنے دور حکومت ميں نئى ترتيب کے ساتھ قرآن کا پيش کرنا امت کو نئے انتشار کى دعوت دينا اس لئے آپ نے قرآن کے درميا تفسير و تاويل کے اضافہ کے بجائے الگ سے تفسير و تاويل کو بيان کرکے مخلصين کے سينوں ميں محفوظ کرانا شروع کرديا کہ اس طرح وحدت دين و آئين بھى محفوظ رهے گى اور حديث ثقلين کى طرف سے آنے والى ذمہ دارى بھى ادا هو جائے گي۔
واضح لفظوں ميں يہ کہا جاسکتا هے کہ امير المومنين(ع) کا قرآن امت کے قرآن سے مختلف تھا اور اس ميں کچھ زيادہ چيزيں بھي تھيں ليکن اس کا کوئى ثبوت نہيں هے کہ ان چيزوں کا تعلق اجزاء قرآن سے تھا بلکہ اس کا ثبوت موجود هے کہ يہ چيزيں تفسير و تاويل سے تعلق رکھتى تھيں جيسا کہ تفسير برہان اور تفسير
صافى کے مقدمات اور کتاب وافى کے باب الحجة ۷۶ سے اندازہ هوتا هے۔