عربى زبان ميں سفورکے معنى بے پردگى کے ہيں يعنى کسى پوشیدہ چيزکو منظرعام پرلے آنا جس کى بناپر بے پردہ خواتين کوسافرات کہاجاتاهے جن کے بارے ميں روايات ميں وراد هوا هے کہ آخر زمانے ميں جو بدترين زمانہ هوگا ایسى عورتيں برآمدهوں گى جوسافرات اور زينت کرنے والى هوں گي، لباس پہن کر بھى برہنہ هوں گي ،ديں سے خارج اورفتنوں ميں داخل هونے والى هوںگى اورآخرميں جہنم ميں ہميشہ رہنے والى هوںگى ۔
تفسيراسى سفورسے عربى کے مخصوص قواعدکى بناپراخذ کيا گيا هے جس کے معنى ہيں قرآن مجيدکے مخفى معاني کامنظرعام پرلے آنا اوراس سے يہ بات پہلے ہى مرحلہ پرواضح هوجاتى هے کہ الفاظ کے ظاہرى معانى کاتفسيرسے کوئي تعلق نہيں هے اوراسى طرح معانى کاکسى خاص شئي پرانطباق بھى تفسيرنہيں کہاجاسکتا هے ،تفسيرکاتعلق مخفى معانى کے اظہارسے هوتاهے ۔تفسيرکاتعلق ظاہري معنى کے انطباق سے نہيں هوتاهے ۔
تفسير ايک مخصوص طریقہ ٴکارهے جوقرآن مجيد کے بارے ميں استعمال کياگياهے اوراس ميں کبھى اعتدال برقراررکھا گياهے اورکبھى ا فراط وتفریط کاراستہ اختيارکياگياهے ۔
مفسرين کے درميان عام طورسے دومقامات پراختلاف پائے جاتے ہيں :
۱۔ معانى کى تطبیق ميں : کہ ا یک مفسرنے اسى آیت کوايک شخص پرمنطبق کياهے ،اوردوسرے مفسرنے دوسرے شخص پر۔ جیساکہ آیت تطہیر،آیت مودت اورآیت صادقین وغیرہ ميں دیکھاجاتاهے کہ ايک طبقہ ميں اہلبیت ،قربى اورصادقین سے دوسرے افرادمرادہيں اوردوسرے طبقہ ميں دوسرے افراد۔
۲۔ متشابہات کے مفهوم ميں : کہ ان الفاظ سے وہى عرفى معني مرادہيں جن کے لئے لفظ عام طورسے استعمال هوتاهے ياکوئى دوسرا معنى مرادہيں ۔ اس امرکى مختصروضاحت يہ هے کہ قرآن مجيدعربي زبان ميں نازل هواهے ۔ جو زبان نزول قرآن کے زمانے ميں عالم عربیت ميں رائج تھى اوراس نے کوئى نئى زبان ایجادنہيں کى هے اورنہ کسى مخصوص لہجہ ميں گفتگو کى هے ورنہ اس کے معجزہ هونے کے کوئى معنى نہ هوتے ۔اورکھلى هوئى بات هے کہ عربى ياکوئى زبان جب بھى ایجاد هوئى هے تواس کے ایجادکرنے والوں کے ذہن ميں يہى مفاہیم تھے جوعالم بشریت ميں پائے جاتے ہيں اورانھيں کے افہام وتفہیم کے لئے الفاظ وضع کئے گئے ہيں اورزبان ایجادکى گئى هے ۔ مثال کے طورپرجب لفظ ”فعل “ ایجادهوا جس کے معنى تھے کام کرنے کے ۔ تووا ضعین لغت کے سامنے يہي انسان تھے جومختلف کام انجام دے رهے تھے اورجن کے افعال سے سب باخبربھى تھے اس کے بعدقرآن مجيدنے نازل هوکر يہى لفظ پروردگارکے بارے ميں استعمال کرديا ۔تواب يہ سوال پیداهوتاهے کہ اس لفظ سے وہي معنى اوروہى اندازمراد هے جوہمارے افعال کاهواکرتاهے يا کوئي مخصوص تصورهے جوپروردگار کى ذات سے وابستہ هے اوراس کے افعال کاہمارے افعال سے کوئى تعلق نہيں هے ۔
بعض مفسرين الفاظ کے ظاہرپر اعتماد کرکے پروردگارکے اعمال وافعال کوبھى ویساہى قراردیتے ہيں جیساکہ انسان کے افعال واعمال هوکرتے ہيں اوربعض خالق ومخلوق کے فرق کو پیش نظررکھ کردوسرے معنى مراد لیتے ہيں اورپھرمراد ميں اختلاف شروع هوجاتاهے کہ اس کے افعال کیسے ہيں اورجس کاجیساعقیدہ هوتاهے اسي اعتبارسے الفاظ کے معنى طے کردیتاهے جب کہ اس کاالفاظ کے معنى سے کوئى تعلق نہيں هوتاهے ۔ اس کاتعلق معنى کے ندازواسلوب سے هوتاهے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں هوتاهے۔ اس کاتعلق معانى کے اندازاوراسلوب سے هوتاهے اوراس کالغت سے کوئى تعلق نہيں هوتاهے ۔لیکن
بہرحال اس طرح کتب تفسيرميںاختلاف کاايک عظیم منظرنظرآجاتاهے چاهے اس کا تعلق تفسيرسے هويانہ هو، اوراسى لئے عربى کى قدیم عظیم ترين تفسير(تفسيرکبیر) کے بارے ميں مشهورهے کہ اس ميں تفسيرکے علاوہ ہرشے هے ے۔يعني مباحث کاذکرتفسيرکى کتاب ميں کياگياهے لہذا اس کانام تفسيرهے لیکن ان مباحث کاتفسيرقرآن سے کوئى تعلق نہيں هے ۔
ايک سوال يہ بھى هے کہ مفسرين کے درميان مفاہیم قرآن طے کرنے ميں اختلاف کیوں هے جب کہ سب کے سامنے ايک ہى قران هے اورسب عربى زبان کے قواعدوقوانین سے باخبرہيں ۔ لیکن اس کاجواب يہ هے کہ مفسرين کے درميان اختلاف بظاہرتین اسباب سے پیداهواهے ۔
۱۔ مفسرين مذہبى اعتبارسے کسى نہ کسى عقیدہ کے حامل تھے اورملکى اورقومى سطح پرکسى نہ کسى نظريہ کے مالک تھے ۔ انھوںنے انھيں نظريات اورعقائد کوتحت الشعورميںرکھ کرتفسيرقرآن کاکام شروع کيا اورجہاں کہيں بھى کوئي آیت ان کے مخصوص عقیدہ يا نظريہ کے خلاف دکھائى دي ۔ اس کے مفهوم ميں تغيرپيداکرديااوراپنے مقصدکے مطابق معنى معين کردئے ۔
۲۔ مفسرين کے سامنے یونان کافلسفہ تھا جس نے سارى دنياکو متاثرکررکھاتھااوروہ خودبھى اس بڑى حدتک متاثرتھے اورانھيں خيال تھاکہ اگرقرآن مجيدکے مفاہیم اس فلسفہ سے متصادم هوگئے تواسکى عظمت وقداست کابچانامشکل هوجائے گا اس لئے وقت کى ضرورت کالحاظ کرکے ایسے معانى بيان کردئے جواس فلسفہ سے متصادم نہ هونے پائيں تاکہ عظمت وعزت قرآن محفوظ رہ جائے جوکاروبارآجتک هوتاچلآرہاهے کہ ہررائج الوقت نظريہ عقیدہ يارسم ورواج کالحازکرکے آیت کامفهوم بدل دياجاتاهے اوردردمنددل رکھنے والے مسلمان کوفريادکرناپڑتى هے کہ ”خودبدلتے نہيںقرآن کوبدل دیتے ہيں ۔“
۳۔ مفسرين کے سامنے وہ اعتراضات تھے جومختلف زاویوںسے قرآن مجيدکے بارے ميں بيان کئے جارهے تھے اورجن کى بناء پرقرآن مجيدميں تضاد تک ثابت کياجارہاتھا اوران کے پاس کوئى راستہ نہيں تھا جس سے ان اعتراضات کے جوابات دے سکتے۔ لہذا آسان ترين راستہ يہي نظريہ آياکہ الفاظ قران کے معانى بدل دئے جائيں تاکہ اعتراضات سے نجات حاصل کى جاسکے اورعزت قرآن کے بجائے اپنى عزت کاتحفظ کياجاسکے ۔
يہ بات تومسلمات ميںهے کہ قرآن کى تفسيرکاجونہج بھى اختيارکياجائے تفسيربالرائے بہرحال حرام هے اوراس کى مسلسل مذمت کى گئي هے ۔ چنانچہ سرورکاردوعالم کے ارشادات کتب احادیث ميںمسلسل نظرآتے ہيں :
۱۔ من فسرالقرآن براٴيہ فلیتبواٴ مقعدہ من النار۔ صافى ،سنن ابن ماجہ داؤد وغیرہ
۲۔ من قال فى القرآن بغیرعلم جاء یوم القيامةملجمابلجام النار ۔ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى
۳ ۔ من تکلم فى القرآن برايہ فاصاب فاخطاٴ ۔صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى
۴۔ اکثرمااخاف على امتى من بعدى من رجل یتناول القرآن یضعہ على غیرمواضعہ صافى ،سنن ابن ابى داؤدوترمذى ،نسائى
۵۔ من فسرالقرآن براٴيہ ان اصاب لم یوجروان اخطاٴ فھذا بعدمن السماء ۔تفسيرعياشى عن الامام الصادق
ان روايات سے صاف ظاہرهوتاهے کہ مرسل اعظم اورمعصومین کى نگاہ ميں قرآن کى تفسيربالراى کرنے والے کامقام جہنم هے وہ روزقيامت اس عالم ميں لاياجائے گا کہ اس کے منہ ميں آگ کى لگام لگى هوگى ۔ وہ منزل تک پهونچ بھى جائے گا توخطاکارهوگا
رسول اکرم کوسب سے زيادہ خطرہ اس شخص سے تھا جوقرآمجيدکواس طرح استعمال کرے کہ اس کوجگہ سے منحرف کردے اوراس کے مفاہیم ميں تیدیلى پیداکردے ۔
تفسيربالراى کرنے والا صحيح کهے تواس کااجروثواب نہيں هے اورغلط کهے تو آسمان سے زيادہ حقیقت سے دورترهوجاتاهے
يعنى تفسيربالراى اسلام کا عظیم ترين الميہ هے جس کے ذریعہ حقائق مذہب کومسخ کياجاتاهے اور الہى مقاصدميں تبدیلى پیداکردى جاتى هے ۔
مسلمان صاحب نظرکافریضہ هے کہ قران کے واقعي معانى کى جستجو کرے ، اوراسى کے مطابق عمل کرے ،الہي مقاصد کے سلسلہ ميں اپنى رائے کودخیل نہ بنائے اوربندگي پروردگاکے بجائے نفس کى عبادت نہ کرے ۔