اس بات کے مسلم هوجانے کے بعد کہ اسلام ميں تفسيربالرائي کى کوئى جگہ نہيں هے اور يہ عمل قطعاحرام اورناجائزهے ۔ علماء اسلام کے درميان اس روایت کى تشریح ميں اختلاف شروع هوگياکہ تفسيربالراى کے معنى کياہيں اورقرآن کى کس طرح کى تفسيرجائزنہيں هے ۔
علامہ سیوطى نے اتقان ميں حسب ذيل احتمالات کاتذکرہ کيا هے :
۱۔ قرآن مجيدکو سمجنے کے لئے جن پندرہ علوم کى ضرورت هے ،جن سے مزاج عربیت ،اسلوب ادبیت اورآہنگ قرآن کااندازہ کياجاسکتاهے ۔ ان سب ميں مہارت پیداکئے بغیرقرآن مجيدکى ايات کے معنى بيان کرنا۔
۲۔ قرآن مجيدميںمتشابہات کے مفاہیم کامقررکرنا۔
۳۔ فاسد مذاہب اورعقائدکوبنياد بناکران کى روشنى ميں قرآن مجيدکي آيات کے معانى مقررکرنا۔
۴۔ اس اندازسے تفسيرکرنا کہ یقینا يہى مراد پروردگارهے جب کہ اس کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کونہيں هے ۔
۵۔ اپنى ذاتي پسنداورخواہش کوبنياد بناکرآيات قرآن کى تفسيرکرنا۔
۶۔ مشکلات قرآن کى تفسيرصحابہ اورتابعین کے اقوال سے مددلئے بغیربيان کردینا ۔
۷۔ کسى آیت کے ایسے معنى بيان کرنا جس کے بارے ميں معلوهوکہ حق یقینا اس معنى کے خلاف هے ۔
۸۔ ظواہرقرآن پرعمل کرنا ۔ اس عقیدہ کى بنيادپرکہ اس کاظهور هے ليکن اس کاسمجھنا معصوم کے بغیرممکن نہيںهے ۔
ان تمام اقول سے صاف واضح هوجاتاهے کہ ان ميں تفسيربالراي کى واقعیت کى تحليل نہيں کى گئى هے بلکہ اس کے طریق کارپربحث کى گئى هے کہ تفسيربالراى کرنے والا کياکياوسائل اختيارکرتاهے ۔ خصوصیت کے سا تھ صحابہ اورتابعین کى امدادکے بغیرتفسيرکوتفسيربالراى قراردینے کامطلب يہ هے کہ صحابہ اورتابعین کوہرطرح کى تفسيرکرنے کاحق هے صرف ان کے بعدوالوں کى تفسيربالراي کرنے کاحق نہيں هے اورانھیں صحابہ کرام ياتابعین سے مدد لیناپڑے گى جب کہ روايات ميںاس طرح کاکوئى اشارہ نہيں هے اورنہ قانونا يہ بات صحيح هے ۔ مرادالہى کى غلط تفسيرکرنابہرحال حرام هے چاهے صحابہٴ کرام کریں ياکوئى اوربزرگ ۔ اس لئے کہ ان سب کوخداکى طرف سے کوئى الہامى علم نہيںدياگياهے ۔ ائمہ اہليبيت اس قانون سے اس لئے مستثنى ہيں کہ انھیں پروردگارکى طرف سے علم قرآن دے کر دنياميں بھےجاگياهے جس کے بے شمارشواہد تاريخ اورسیرت کى کتابوںميںموجودہيں ۔
تفسيربالراى کى حقيقت کوسمجھنے کے لئے اس نکتہ کونظرميں رکھنابے حدضرورى هے کہ مذکورہ روا يات ميںتفسيربالراى جرم نہيںهے بلکہ راى کى اضافت ضميرکى طرف هے يعنى اپنى رائے سے تفسيرکرنا ۔ جس کامطلب يہ هے کہ مقام تفسيرميںرائے اوراجتھاد کااستعمال کرنامضرنہيںهے ۔مضريہ هے کہ مرادالہى کوطے کرنے ميں اپنى ذاتى رائے کوداخیل بناياجائے اوراسى بنيادپربعض علماء نے وضاحت کى هے کہ تفسيرکاکام رائے اوراجتہادکے بغیرممکن نہيں هے ليکن اس رائے کوشخصى نہيںهوناچاہئئے بالکہ قانوني هوناچاهےٴے ۔اورقانى اورشخصى کافرق يہ هے کہ جس تفسيرميں دیگرآيات کے مزاج کوپیش نظررکھاجاتاهے اورآيات ميں اجتہادى نظرکے بعدمعنى طے کئے جاتے ہيں وہ تفسيربالراي نہيں هے اورجس مفسرميں تمام آيات سے قطع نظرکرکے اپنى ذات اوراپنى فکراورخواہش کوحکم بناياجاتاهے وہ تفسيربالراى هے ۔ دوسرے لفظوںميں يوں کہاجائے کہ دنياکے ہرکلام کى تفسيروتشریح اسى کلام کے الفاظ وعبارات کى روشنى
ميںهوتى هے اورقرآن مجيدکى تفسيروتشریح کے لئے جملہ آ يات کے مزاج پرنگاہ رکھنے کى ضرروت هوتى هے اوراس کے بغیرصحيح تفسيرنہيں هوسکتى هے۔ اس لئے با
ربار تدبرفى القرآن کى دعوت دى گئى هے کہ انسان پورے قرآن پرنظررکھے اوراسى کى روشنى ميں ہرآیت کامفهوم طے کرے ۔
الرايٴ اورراٴيہ کے فرق کونگاہ ميں رکھنے کے بعد يہ بات واضح هوجاتى هے کہ آيات قرآن کى تفسير ميں استقلالى رائے مضرهے اوراس کااستعمال جرم هے ليکن وہ رائے جومطالعہٴ قران سے حاصل هوئى هے اورجس کے حصول ميںتفکراورتدبرفى القرآن سے کام ليا گياهے اس کے ذریعہ تفسيرقرآن ميںکوئى مضائقہ نہيں هے اوروہى تفسيرقرآن کاواحدذریعہ هے ، جس کے چنددلائل اس مقام پردرج کئے جارهے ہيں ۔
۱۔ روايات نے تفسيربالراى ميں دونوں احتمالات کاذکرکياهے ۔ يہ بھى ممکن هے کہ انسان واقعى مرادکوحاصل کرلے اوريہ بھى ممکن هے کہ غلطى کرجائے ۔ يہ اوربات هے کہ واقع کے ادراک ميں بھى ثواب سے محروم رهے گا اوريہ اس بات کي علامت هے کہ ذاتى رائے کااستعمال مضرهے اگرچہ اس کے منزل تک پهونچانے کاامکان بھى هے ليکن اس طریقہء کارکى اجازت نہيں دي جاسکتى هے ،بلکہ صحيح طریقہٴ کاروہى هے کہ تمام آيات کے مراجعہ کے بعد آيات کامخفى مفهوم منظرعام پرلاياجائے ۔
۲۔ تفسيربالراى کى روايات عام طورپرسرکاردوعالم سے نقل هوئى ہيں اورآپ نے اس کى شدت سے ممانعت کى هے جس سے اندازہ هوتاهے کہ يہ وہ طریقہٴ کارهے جس کاامکان سرکارکے زمانے ميں بھى تھا بلکہ کچھ زيادہ ہى تھا اوراسى لئے آپ نے شدت سے منع کياهے اورشاید اس کارازيہ تھا کہ اس دورميںقرآن مجيد مکمل شکل ميں امت کے ہاتھوں ميںموجودنہ تھا اوراس طرح ہرشخص کے لئے تمام آيات کى طرف مراجعہ کرنااوران کے اسلوب وآہنگ سے استفادہ کرناممکن نہيں تھااوريہ خطرہ شدیدتھا کہ ہرشخص اپنى ذاتي پسندياخواہش سے آيات کامفهوم طے کردے ۔اس لئے آپ نے شدت سے ممانعت فرمادى کہ يہ راستہ نہ کھلنے پائے ورنہ قرآن کے مفاہیم تباہ وبربادهوکررہ جائیں گے ۔
۳۔ اگرہرمسئلہ ميںروا يات ہى کى طرف رجوع کياجائے گا اورآيات کى کوئى تفسيرروايات کے بغیرممکن نہ هوگى توتدبرفى القرآن کے کوئى معنى نہ رہ جائیںگے اوران روايات کابھى کوئى مقصدنہ رہ جائے گا جن ميں روايات کى صحت وخطاکامعيارقرآن مجيدکوقراردياگياهے اوريہ کہاگياهے کہ ہمارى طرف سے آنے والى روايات کوکتاب خداپرپیش کرواوردیکھوکہ موافق ہيں يانہيں ۔ اگرموافق ہيں تولے لو ورنہ دیوارپرماردو ۔ ظاہرهے کہ اگرروايات کے بغیرقرآن مجيدپرعمل کرناممکن نہ هوگا تواس کا کوئى مفهوم ہى متعین نہ هوسکے گا ،اورجب مفهوم متعین نہ هوگا توکس چیزپرروايات کوپیش کياجائے گا اورکس کى مطابقت اورعدم مطابقت کوحق وباطل کامعياربناياجائے گا ۔
اس کامطلب يہ هے کہ قرآن مجيدکى آيات کے پوشیدہ معانى کاانکشاف کرنے کے لئے قرآن مجيدہى کے اسلوب ا ورآہنگ کومعياربناياجائے گا اوراس ميںکسى شخص کي ذاتى رائے ياخواہش کادخل نہ هوگا ۔
تفسيربالراى کى ايک مختصرمثال يہ هے کہ قرآن مجيدنے بيان کياکہ ”ان من شئي الاعندناخزائنہ الخ“(ہمارے پاس ہرشے کے خزانے ہيں)۔ اس آیت کودیکھنے کے بعدمفسرن اندازہ کياکہ آسمان پرکوئى عظیم خزانہ هے جہاں کائنات کى ہرشے کاذخيرہ موجودهے ۔اس کے بعد دوسرى آيت پرنظرڈالى ”وماانزل اللہ من السماء من رزق فاحيابہ الارض بعد موتھا“(خدانے آسمان سے رزق نازل کياهے اوراس کے ذریعہ مردہ زمین کوزندہ بنا ديا هے ) ۔ اوراس سے اندازہ هواکہ بارش کوبھى رزق کہاجاتاهے اوراس کابھى خزانہ آسمان پرهے ۔ پھراپنى ذاتى فکرکا اضافہ کياکہ انسان اورحیوان آسمان سے نازل نہيں هوتے ،لہذا خزانہ سے مرادآسمانى اشياء ہيں ،زمین کى چيزيں نہيں ہيں ۔ حالانکہ اس تخصیص کااسے حق نہيںتھا اس لئے کہ اسے نہ آسمان کى حقیقت معلوم هے اورنہ نزول کے طریقہ کاعلم هے اورقرآن مجيد سے ان حقائق کاادراک کئے بغيران کے بارے ميں اظہاررائے کاکوئي حق نہيں هے اوراس کوتفسيربالراى ياقول بلاعلم کانام دياجائے گا ۔
رہ گياسیوطى کايہ بيان کہ صحابہٴ کرام کى تفسيرسے قطع نظرکرکے تفسيرکرنے کوتفسيربالراي کہاجاتاهے اورجس کى دلیل يہ دى گئى هے کہ وہ
عصرپیغمبرميںموجودتھے اورانھیںحقائق قرآن کاعلم تھااوران سے سترہزارروايات نقل هوئى ہيں لہذا ان سے الگ هوکرنا خلاف اسلام هے ۔
تواس کاواضح ساجواب يہ هے کہ قرآن مجيدکادعوي هے کہ وہ ہرشے کاتبيان هے اس کے متشابہات محکمات کے ذريعہ واضح هوجاتے ہيںلہذا اسے اصحاب کے فکرکي کوئى ضرورت نہيں هے پھراس کى تحدى کے مخاطب کفارومشرکین ہيں اوروہ اصحاب کے فہم کے محتاج هوگئے توتحدى اورچیلنج کے کوئي معنى نہ رہ جائیں گے ۔
دوسرى لفظوں ميں يوں کہاجائے کہ اصحاب کاقول ظاہرکلام کے مطابق هے توظهور خودہى کافى هے کسى قول کى ضرورت نہيں هے اورخلاف ظاہرقرآن هے توتحدى بیکارهے اوراس کاکوئى مفهوم نہيں هے اس لئے کہ جس کلام کے معنى معلوم نہ هوں اوروہ خود غیرواضح هواس کامقابلہ اورجواب لانے لانے کاسوال ہى نہيںپیداهوتاهے ۔
رہ گئے احکام کے تفصیلات توان کے لئے مرسل اعظم اورمعصومین کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت هے اوريہ بھى مطابق حکم قرآن هے کہ جورسول دیدے اس لے لو،اورجس چیزسے منع کردے اس سے رک جاؤ ۔ گويآیت کامفهوم عربى زبان کے قواعدکے اعتبارسے واضح هے اوراس پرعمل کرنے کے لئے مرسل اعظم کى طرف رجوع کرنے کى ضرورت هے جیساکہ خودمرسل اعظم نے قرآن مجيد سے تمسک کرنے کاحکم دياهے اورکھلى هوئي بات هے کہ اس کلام سے تمسک کرناممکن نہيں هے جس کامفهوم واضح نہ هو اورجس کے بارے ميں کسى طرح کى تحقيق اورتفتيش تفسيربالراي قرارپاجائے ۔
اس مقام پريہ سوال ضرورپیداهوسکتاهے کہ رسول اکرم نے قرآن اوراہلبيت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دياهے اوريہ فرمادياهے کہ يہ دونوں جدانہيں هوسکتے ہيں تواس کامطلب يہ هے کہ قرآن مجيدکے معانى کااخذکرنا عترت واہليبيت کى توضیح کے بغیرممکن نہيں هے ۔ ليکن اس کاواضح ساجواب يہ هے کہ قرآن اورعترت دونوںسے تمسک کرنے کاحکم دینااس بات کى علامت هے کہ دونوںاپنے اپنے مقام پرحجت ہيں کہ اگرحکم قرآن ميںموجودهے اوراہليبيت کى زندگى سامنے نہيں بھى هے تووہ بھى واجب العمل هے ۔ اوراگراہليبيت نے فرماديا هے اورقرآن مجيدميںنہيں بھى مل رہاهے توبھى واجب العمل هے فرق صرف يہ هے کہ قرآن ظاہرالفاظ کے معانى معین کرتاهے اوراہلیبت مقاصدکى وضاحت کرتے ہيں جس طرح کہ قرآن مجيد نے اجمال سے کام لياهے اورسرکاردوعالم نے اپنے اقوال واعمال سے اس اجمال کى وضاحت کى هے اوراس کابہترین ثبوت يہ هے کہ خود اہليبيت نے بھى آيات قرآن سے استدلال کياهے اوراس کے ظهورکاحوالہ دے کرامت کومتوجہ کياهے کہ اس کے الفاظ وآيات سے کس طرح استنباط کياجاتاهے ۔
محاسن ميں امام محمدباقرکايہ واضح ارشادموجودهے کہ ”جس شخص کاخيال يہ هے کہ قرآن مجيدمبہم هے وہ خودبھى ہلاک هوگيااوراس نے دوسروںکوبھى ہلاک کرديا۔-“
خلاصہ کلام يہ هے کہ قرآن کى تفسيرکاصحيح راستہ تفسيرقرآن بالقرآن هے ۔ ارشادات معصومین کا سہارالینااس لئے ضرورى هے کہ اس سے آيات قرآن کوجمع کرکے ايک نتےجہ اخذکرنے کاسلیقہ معلوم هوتاهے اورمعصومین عليہم السلام نے اسى اندازسے قوم کى تربیت بھى کى هے ، چنانچہ امیرالمومنے کے دورميں جب دربارخلافت ميں اس عورت کامقدمہ پیش هواجس کے يہاں چھ مہینے ميںبچہ پیداهوگياتھا اورحاکم وقت نے حدجارى کرنے کاحکم دیديا توآپ نے فرماياکہ اس عورت پرحدجارى نہيں هوسکتى هے اس لئے کہ قرآن مجيدنے اقل مدت حمل چھ ماہ قراردى هے اورجب قوم نے حیرت واستعجاب کامظاہرہ کيا توآپ نے دومختلف آيات کاحوالہ ديا ۔ ايک آیت ميںانسان کے حمل اوررضاعت کاکل زمانہ تیس ماہ بتاياگياهے اوردوسرى آیت ميںعورتوں کے دوسال دودھ پلانے کاتذکرہ کياگياهے ۔ اوردونوںکوجمع کرکے فرماياکہ دوسال مدت رضاعت نکالنے کے بعد حمل کازمانہ صرف چھ ماہ باقى رہ جاتاهے لہذانہ اس ولادت کوغلط کہاجاسکتاهے اورنہ اس عورت پرحدجارى کى جاسکتى هے ۔ جس کامقصد يہ هے کہ قرآن مجيدسے استنباط کرناهے توايک آیت سے ممکن نہيں هے ،آيات کوباہم جمع کرناهوگا اورسب کے مجموعہ سے ايک نتےجہ اخذکرناهوگااوراسي کانام تفسيرقرآن بالقرآن هے کہ انسان کوحمل کے بارے ميں قرآني نظريہ معلوم کرناهے توان دوآيات کوجمع کرلے ،قرآنى نظريہ خودبخود سامنے آجائے گا ۔