قرآن اور علم کے رشتے کو سمجھنے کے لئے اتنا ہى کافى ہے کہ قرآن وعالم انسانيت کى رہبرى کے لئے آيا ہے اور عالم انسانيت کى رہبرى کے لئے آياہے اور عالم انسانيت کا کمال و جوہر علم و دانش ہى سے کھلتا ہے۔ قرآن نے رسول اکرم کى بعثت کى غرض بيان کرتے ہوئے يہ واضح کيا ہے کہ رسول کو تعليم کتاب کے لئے بھيجا گيا ہے۔ ”يعلمہم الکتاب“ اور کتاب کى تعريف ميں يہ الفاظ بيان کئے ہيںکہ۔ ”لارطب ولا يابس الا فى کتابٍ مبين“ کوئى خشک و تر ايسا نہيںجو اس کتاب مبين ميں نہ موجود ہو۔ جس کا کھلا ہوا مطلب يہ ہے کہ رسول عالم انسانيت کوہر خشک وتر کى تعليم دينے آيا تھا۔
اس کااندازہ اس بات سے بھى کيا جاسکتا ہے کہ قرآن کريم نے اپنى تنزيل کا آغاز لفظ اقراٴ سے کيا ہے اور انجام علّم الانسان ما لم يعلم پرکيا ہے يعنى تنزيل قرآن کا مقصد قراٴت ہے اور اللہ نے انسان کو اس بات کي تعليم دى ہے جو اسے نہيں معلوم تھي۔غور کرنے کى بات ہے کہ جو رسول اتنى جامع کتاب کى تلاوت وتعليم کے لئے آيا ہووہ کتاب سے بے خبر يا تعليم سے بے گانہ کيسے ہو سکتاہے؟۔ اسلامى روايات کا بہت بڑا ظلم ہے کہ انہوں نے تنزيل قرآن کى روايات ميں سرور دو عالم کى جہالت بھى شامل کردي، حالانکہ لفظ اقراٴ کا وجود ہى اس امر کے اثبات کے لئے کافى تھا کہ رسول قراٴت سے با خبر تھے ورنہ حکم قراٴت لغو ہوجاتا اس لےے کہ جبرئيل بحيثيت رسول کے وحى ليکر آئے تھے،اسکول کے کسى بچے کو تعليم دينے نہيں آئے تھے، واضح لفظوں ميں يوں کہا جائے کہ مدرس بچے سے بھى کہتاہے کہ پڑھو جب کہ وہ پڑھنے سے نا واقف ہوتا ہے اور ملک رسول سے بھى کہہ رہا ہے کہ پڑھوجب کہ وہ تعليم کتاب کے لئے رسول بنايا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ايک بچے اور رسول ميں فرق ہوگا تو دونوں جگہ قراٴت کا تصور بھى الگ الگ ہوگا اور اگر رسول رسالت کے با وجودطفل مکتب اور غار حراکوئى مدرسہ ہوگا توجبرئيل يقينا الف۔ب کي تعليم دينے آئيں ہوں گے۔
کہا يہ جاتا ہے کہ قرآن مجيد نے خود ہى رسول کو جاہل قراٴت و کتابت ثابت کيا ہے تو ہم کہاں سے علم و دانش پر ايمان لے آئيں۔ ارشاد ہوتا ہے ”وما کنت تتلوا من قبلہ من کتاب ولاتخطہ بيمينک اذاً لارطاب المبطلون“ آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئى کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ اہل باطل شبہ ميں پڑ جاتے۔اور قرآن کو کسى مدرسہ کي تعليم کا نتيجہ قرار ديتے۔
ميري سمجھ ميں نہيںآتا کہ علماء اسلام نے آيت کے کس لفظ سے رسول کى جہالت کا اندازہ کيا ہے، جب کہ قرآن نے صاف صاف لفظوں ميںپڑھنے اور لکھنے کى نفى کى ہے ان دونوں کے جاننے کى نفى نہيں کى ہے بلکہ آگے چل کر اسى سے ملى دوسرى آيت ميںرسول کے علم کى وضاحت بھى کر دى ہے”بل ہو آيات بينات فى صدور الذين اوتوا العلم“بلکہ يہ قرآن چند آيات بينات کا نام ہے جنہيںان صاحبان علم کے سينوں ميں رکھ ديا گيا ہے جنہيںعلم ديا گيا ہے۔ کياآيت سے صاف واضح نہيں ہوتا کہ قرآن پہلے پڑھنے لکھنے کى نفى کى اور اس کے بعدعلم کا اثبات کرديا۔ يعنى علم قرآن پہلے بھى تمہارے سينے ميں تھاليکن ہم نے تمہيںپڑھنے لکھنے سے روک رکھا تھا تاکہ اہل باطل شبہ ميں نہ پڑ جائيں اور انہيںسادہ لوح عوام کے ذہنوں ميں شکوک پيدا کرنے کا موقع نہ ملے۔
قيامت تو يہ ہے کہ مسلمانوں کا ايک طبقہ تنزيل قرآن کے بعد بھى رسول کو قراٴت وکتابت سے جاہل ہى تصوّر کرتا ہے اور اسى بنياد پر دربار رسالت ميںکاتبان وحى اور کاتبان خطوط ورسائل کى ضرورت محسوس کرتا ہے حالانکہ تاريخ ميں صلح حديبيہ کا واقعہ زندہ ثبوت ہے کہ رسول اکرم عالم قراٴت و کتابت تھے ورنہ اگر عالم قراٴت نہ ہوتے تو رسول اللہ کے بجائے کوئى دوسرا لفظ کاٹ ديتے اور اگر عالم کتابت نہ ہوتے تو ابن عبد اللہ کے بجائے کچھ اور لکھ ديتے۔
ميرا ذاتى خيال تو يہ ہے کہ رسول کى جہالت کاافسانہ اس حقيقت پرپردہ ڈالنے کے لےے گڑھا گيا ہے کہ حضور نے آخري وقت ميں قلم و داوات کامطالبہ کيا تھاتاکہ امت کى نجات کے لئے نوشتہ لکھ جائيں اور امت کے بعض جانے پہچانے لوگوں نے آپ کے حکم کو ہذيان قرار دے کر قوم کو قلم و داوات دينے سے روک ديا تھا۔ يعنى مقصد يہ ہے کہ رسول کو جاہل کتابت ثابت کر ليا توکتابت کے لےے کاغذ و قلم مانگنے کوہذيان آسانى کے ساتھ کہا جاسکے گا ورنہ امت اسلاميہ ورنہ امت اسلام رسول پر تہمت يذيان رکھنے والے کے بارے ميںبھى کچھ فيصلہ کر سکتى ہے؟
بہر حال علمى دنياکى آفاقى وسعتوں پر قرآن مجيد کے احسانات کا اندازہ اس بات سے بھى ہوسکتا ہے کہ آسمانى کتابوں کى آخرى کتاب يعني انجيل مقدس اپنى قوموں کو بنى اسرائيل کي بھيڑوں سے تعبير کرتى ہے اور ظاہر ہے کہ جس قوم کي ذہنى سطح بھيڑوں کى سطحِ ذہن جيسى ہوگى اسے علوم و معرفت کے وہ خزانے نہيں دےے جاسکتے جو يا ايہا الناس کى مصداق قوم کو دےے جا سکتے ہيں۔ اور يہى وجہ ہے کہ آج سے دو صدى قبل تک مسيح کے پرستاروں اور کليسا کے ٹھيکيداروں نے جديد تحقيقات کى شديد مخالفت کى ہے اور حرکت زمين، قوت جذب جيسى حقيقتوںکے انکشاف کرنے والوں کو سخت سزاوٴں کا اہل قرار ديا ہے جب کہ قرآن مجيد نے آج سے تقريباً چودہ سو برس قبل اس وقت کے ذہن کى برداشت کا لحاظ کرتے ہوئے دو دو لفظوں ميں دنيا کے ہر بڑے علم کى طرف اشارہ کر ديا تھا اور آنے والي ترقى يافتہ انسانيت کے لےے سمندر کو کوزہ ميں بند کرکے پيش کر ديا تھا۔ اب ترقى يافتہ انسان قرآن کى ان آيتوں کو پڑھے اور سر دھنتا رہے کہ اگريہ کتاب آسمانى کتاب نہ ہوتي، اگر اس کے پيغامات ابدي پيغامات نہ ہوتے تو چودہ صدى قبل کے جاہل عرب معاشرے کے سامنے ان حقائق و معارف کو پيش کرنے کى ضرورت کيا تھي۔ قرآن مجيد نے مختصر الفاظ ميں جن علوم کى طرف اشارہ کيا ہے ان کا اجمالى خاکہ يہ ہے:
”وما يعزب عن ربک من مثقال ذرة فى الارض ولا فى السماء ولا اصغر من ذٰلک ولا اکبر الا فى کتابٍ مبين“ (زمين و آسمان کى ذرہ برابر چيز يا اس سے کم وزيادہ بھى اللہ کى نظروں سے بعيد نہيں ہے، اس نے سب کو کتاب مبين ميں جمع کرديا ہے۔
آيت ميں ذرّے کے ذکر کے ساتھ ثقل کاذکراور پھر ذرّے ميں زمين و آسمان کى عموميت اس بات کى دليل ہے کہ ذرّے کا وجود صرف زمين پر نہيں ہے بلکہ آسمانوں پر بھى ہے اوريہ وہ چيز ہے جہاں تک ابھى سائنس کى رسائي نہيں ہوئي۔ اس کے علاوہ ذرّے کے ساتھ اصغر و اکبر کاذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ ذرّے سے چھوٹى چيز کا تصوّر ممکن ہے اور اس کا وجود واقع بھى ہے بلکہ علم خدا ميں محفوظ بھى ہے۔ظاہر ہے ذرّے سے چھوٹى چيز ذرہ نہيں ہے اس لےے کہ اس پر بہرحال ذرے کا اطلاق ہوگا بلکہ ذرے سے چھوٹى چيز وہى کہربائى موجيں ہيں جنہيں آج کى دنيا ميں الکٹرون و پروٹون وغيرہ سے تعبير کيا جاتا ہے بلکہ ممکن ہے کہ قرآن کريم کى نظر اس سے زيادہ لطيف مادہ کى طرف ہوجيسے اس نے اصغر کہہ کر چھوڑ ديا ہے اور لفظ موج کا استعمال نہيں کيا ہے۔
”اولم ير الذين کفروا ان السمٰوٰت والارض کانتا رتقا ففتقناہما“۔(کيا کفار نے اس بات پر غور نہيں کيا ہے کہ سماوات و ارض آپس ميں جڑے ہوئے ہيں ہم نے ان دونوں کو الگ کيا ہے۔
سماوات و ارض کے جڑے ہونے اور الگ ہونے کا جو مفہوم بھى ہو، آيت نے علماء طبيعت کے ذہنوں کواس امر کى طرف ضرور متوجہ کر ديا ہے کہ ہر آسمان اپنى زمين کے ساتھ يا ہر آسمان و زمين دوسرے آسمانوں اور زمينوں کے ساتھ مادہ اور طبيعت ميں اتحاد رکھتے ہيں۔ فضا کے بدل جانے آثار ميں فرق ہوسکتا ہے ليکن اصلى مادہ ميں کوئى فرق نہيں ہے۔ اس لےے کہ جب دو چيزوں کو ايک ہى چيز سے الگ کيا جاتا ہے تو دونوں کے طبيعى مادہ ميں اتحاد ہوا کرتا ہے۔ آپ ايک لوٹے پانى کو دو گلاسوں ميں تقسيم کر ديجئے ايک کو آگ کے پاس رکھ ديجئے اور ايک کو برف کے پاس۔ ظاہر ہے کہ جگہ بدل جانے سے دونوں کے آثار ميں فرق ہو جائے گا، ايک گلاس کا پانى ٹھنڈا ہوگا اور ايک کاگرم۔ ليکن اصلى طبيعت کے اعتبار سے دونوں پانى رہيںگے اور پانى کے طبيعى اور ذاتى آثارکے اعتبار سے دونوں ميں اتحاد رہے گا۔
”ارسلنا الرياح لواقح فانزلنا من السماء ماء ًا فاسقينا کموہا وما انتم لہ بخازنين“(ہم نے ذريعہ تخم ريزى بنا کرآزاد کرديااور اس کے بعد پانى برسا ديا، پھرتم کو اس پانى سے سيراب کرديا حالانکہ تمہارے پاس اس کا خزانہ نہيں تھا۔)
دور قديم کے اہل جغرافيہ اس بات سے قطعى طور پر ناواقف تھے کہ ہواوٴں کے مصرف کيا کيا ہيں اور ان کا اثر کہاں کيا ہوتا ہے ليکن قرآن نے عرب کو اس کے ذوق کے مطابق اس امر کى طرف متوجہ کيا کہ ان ہواوٴں سے تمہارے نرخرمے کا مادّہ، مادہ خرمے تک پہونچ جاتا ہے اور پھر بارش کے اثر سے پيداوارشروع ہوجاتى ہے اور دور حاضر کو يہ سبق ديا ہے کہ ہوا بادلوں کى دونوںبرقى طاقتوں کو جمع کرتى ہے اور اس کے بعد پانى اسے زمين تک پہونچا ديتا ہے۔
”ہو الذى انزل من السماء ماءً ا فاخرجنا بہ نبات کل شئي۔“ (وہى خدا وہ ہے جس نے آسمان سے نازل کيا ہے اور اس کے بعد ہم نے اس پانى سے ہر نبات کو زمين سے نکال ديا ہے۔
آيت کا کھلا ہوا اشارہ ہے کہ نبات کى پيداوار ميں پانى کا بہت بڑا دخل ہوتا ہے اور پانى کے آسمان سے نازل ہونے کى بھي پيداوار ميں بڑى اہميت ہے اس لےے کہ شديد گرمي سے فضا ميں پيدا ہو جانے والى سمّيت اور بجليوں کى چمک سے پيدا ہونے والے نيٹروجن کو پانى زمين کے اندر پہونچا ديتا ہے تو زمين کى طاقتوں ميں ايک قسم کا ابال آجاتا ہے اور اس نبات کو طاقت ملنے کا بہترين ذريعہ نکل آتا ہے۔ اسى لےے آپ نے ديکھا ہوگا کہ جو اثر بارش کے پہلے پانى ميں ہوتا ہے وہ بعد کے سيلاب ميں بھى نہيں ہوتا اس لےے کہ پہلا پانى اپنے ساتھ فضا کے تمام اثرات کولےکر آتا ہے اور بعد کے پانى کو اس قدر اثرات ميسّر رنہيں ہوتے۔
”افلا ےنظرون الى الابل کيف خلقت“(آخر يہ لوگ اونٹ کو کيوں نہيں ديکھتے کہ اسے کيسے پےدا کيا گےا ہے؟)
”ان اللّٰہ لايستحيٖ ان يضرب مثلاًمابعوضةفمافوقھا“(اللہ کو چھوٹى سے چھوٹي مثال کے بےان ميں شرم نہيں ہے چاہے وہ مچّھر ہى کيوں نہ ہو۔
”فبعث اللّٰہ غراباًےبحث فى الارض“ (اللہ نے کوّے کو بھےجا تاکہ زمين کھود کر قابےل کو دفن کا طرےقہ سکھائے
”يا ايتھاالنمل ادخلوامساکنکم لا يحطمنکم سليمان وجنودہ“ (اے چيونٹےو!اپنے اپنے سوراخ ميں چلى جاوٴکہيں سليمان کا لشکرتمہيں پامال نہ کردے۔
”و اوحيٰ ربک الى النحل ان اتخذى من الجبال بيوتاً“ (اللہ نے شہد کى مکھى کو تعليم دى کہ وہ پہاڑوں ميں گھر بنائے۔
”الم تر کيف فعل ربک باصحاب الفيل“ (کيا تم نے اصحاب فيل کى حالت نہيں ديکھى کہ ان کے ہاتھى بھوسا ہو کر رہ گئے۔
”وارسل عليہم طيراً ابابيل“ (اللہ نے اڑتے ہوئے ابابيل کو بھيج ديا کہ ہاتھيوں کو تباہ کردےں۔
”وان اوہن البيوت لبيت العنکبوت“ (سب سے کمزور گھر مکڑى کا گھر ہوتا ہے۔)
مذکورہ بالا آيات ميں مختلف مواقع پر يہ بتايا گيا ہے کہ اونٹ کى خلقت ميں ايک خصوصيت پائى جاتي ہے جو دوسرے حيوانوں ميں نہيں ہے۔ مچھر ميں ايک خصوصيت ہے جو ہاتھى ميں نہيں ہے۔ کوّا چيزوں کو چھپانے کے فن ميں ماہر ہو تا ہے اسى لئے کسى نے کوے کو اپنى مادہ سے جوڑا کھاتے نہيں ديکھا ہے۔ چيونٹى سياست کے فن سے واقف ہوتى ہے اور وہ کمزوري کے مواقع پر محاذ چھوڑ دينے ہى کو مناسب سمجھتى ہے۔ شہد کى مکھى پہاڑوں ميں رہ کر اپنے کام کو بہتر انجام دے سکتي ہے۔ ہاتھى ميں کوئى ايسا جزء بھى ہو تا ہے جو ايک کنکرى سے اسے ہلاک کر سکتا ہے۔ ابابيل ميں سنگبارى کى بہتر صلاحيت ہوتى ہے۔ مکڑي ظاہرى حسن کے اعتبار سے بہترين گھر بناتى ہے ليکن اس کا باطن بہت کمزور ہوتا ہے۔
قرآن مجيد نے ان آيتوں ميں عالم بشريت کو تنبيہ کى تھى کہ جانور کو حقير نہ سمجھيں اس کى قوت برداشت انسان سے زيادہ ہوتى ہے۔ چھوٹے افراد کو ذليل نہ سمجھو اس لےے کہ مچھر کى طاقت ہاتھى سے زيادہ ہوتي ہے۔ اپنى سياست اور اپنے مقابلے پر ناز نہ کرو کہ تم سے بہتر سياست جانور جانتے ہيں، اپنى صنعت پر نازاں نہ ہو کہ شہد کى مکھى جو شہد بنا ليتى ہے وہ تم نہيں بنا سکتے ہو، اپنے جثہ پر ناز نہ کرو کہ ہاتھى ابابيل سے ہلاک ہو سکتا ہے۔ اپنے دشمن کو کمزور نہ سمجھو کہ ابابيل ہاتھيوں کے لشکر کو تباہ کر سکتے ہيں۔ ليکن اسى کے ساتھ ساتھ علم الحيوان کے عظيم نکتوں سے بھى آگاہ کر ديا اوردر حقيقت يہى قرآن کا اعجاز بيان ہے کہ وہ ايک بات کہتے کہتے ضمناً دوسرے اہم نکتہ کى طرف اشارہ کر ديتاہے اور مخاطب کا ذہن ادھر متوجہ بھى نہيں ہونے پاتا، پھر جب بعد کے زمانے ميں وہ اس بات پر غور کرتا ہے تو اس کى عظمتوں کے سامنے سجدہ ريز ہو جاتاہے۔!
”ما من دابّةٍ فى الارض ولا طائر يطير بجناحيہ على اٴممٍ امثالکم“ (زمين کا کوئى چلنے والا يا ہوا کا کوئى اڑنے والا ايسا نہيں ہے جس ميں تم جيسى قوميت اور اجتماعيت نہ پائى جاتى ہو
دنيائے فلسفہ حيوانات ميں اجتماعى شعور کى قائل ہو نہ ہو، وہ عقل و ادراک کو انسان سے مخصوص کہے يا عام ليکن قرآن مجيد کھلے الفاظ ميں اعلان کرتا ہے کہ اجتماعى شعور صرف انسان کا حصہ نہيں ہے بلکہ اس ميں جملہ حيوانات اور پرندے شامل ہيں سب کے مشترک مسائل ہيں اور سب کى ايک اجتماعى سياست ہے جس کے تحت ان مسائل کو حل کيا جاتا ہے۔ آپ صبح و شام ديکھا کرتے ہيں کہ اگر محلہ کے ايک کتے پر حملہ کر ديا جائے تو سارے کتے بيک آواز جواب ديتے ہيں۔ ايک جانور مر جائے تو سارے جانور اس کے غم ميں نوحہ و زارى کرتے ہيں۔ ايک بھيڑ آگے چلتى ہے تو ساري بھيڑيں اس کے پيچھے چلتى ہيں۔ ايک چيونٹى کسى مٹھاس کى طرف جاتى ہے توايک قطار لگ جاتى ہے، ايک پرندہ آشيانہ بناتا ہے تو سارے پرندے اسى مرکز کى طرف سمٹ آتے ہيں، اور اس طرح کے بے شمار واقعات مشاہدہ ميں آتے رہتے ہيں۔ خود قرآن مجيد نے چيونٹيوں کى اجتماعى دفاعي سياست کا تذکرہ کيا ہے اور امير المومنين على ابن ابى طالب (ع) نے اس کے زراعتى شعور کى طرف اشارہ فرمايا ہے۔
”ان لکم فى الانعام لعبرة“ (تمہارے لےے جانوروں ميں عبرت کے سامان مہيا ہيں۔)
ہرن کے نافے ميں مشک کيڑے کے منھ ميں ريشم اور مکھى کے منھ ميں مختلف پھولوں کے رس سے شہد کا تيار ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حيوانات ميں کيميا گرى کا شعور انسان سے زيادہ ہوتا ہے اور ان باتوں انسان کے لئے عبرت کا سامان مہيا ہے۔
”کمثل حبة بربوةٍ اصابہا و ابل فآتت اکلہا ضعفين“ (اس کى مثال اس بلندى پر واقع باغ کى ہے جس پر تيز بارش ہو جائے اور اس کى پيداوار دگنى ہو جائے۔)
آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بلندى کے باغ کو مناسب پانى مل جائے تو پيداوار کے زيادہ ہونے کے امکانات قوى ہيں اور عجب نہيں کہ اس کا راز يہ ہو کہ پست زمينوں تک بارش کا پاني پہونچتے پہونچتے اپنى اصلى صلاحيت کھو بيٹھتا ہے اور اس ميں زمينوں کے اثرات شامل ہو جاتے ہيں ليکن بلند زمينوں کو يہ اثرات براہ راست ملتے ہيںاس لےے پيداوار کے امکانات زيادہ رہتے ہيں۔
”قال تزرعون سبع سنين داباً فما حصدتم فزروہ فى سنبلہ“
جناب يوسف نے تعبير خواب بيان کرتے ہوئے فرمايا کہ سات برس تک مسلسل زراعت کرو اور جو کچھ پيداوار ہو اس کا زيادہ حصہ باليوں سميت محفوظ کر لو اس لےے کہ اس کے بعد سات سال بہت سخت آنے والے ہيں۔
اس واقعہ نے صاحبان زراعت کو اس امر کى طرف متوجہ کيا کہ غلہ باليوں سے الگ کرکے رکھا جائے تو اس کے خراب ہونے کے امکانات زيادہ ہوتے ہيں اور باليوں سميت رکھا جائے تواس کى زندگي بڑھ جاتى ہے۔ ظاہر ہے کہ يہ علم زراعت کا اہم ترين نکتہ ہے جس سے ہر دور ميں فائدہ اٹھايا جاسکتا ہے۔
”يخلقکم فى بطون امہاتکم خلقاً من بعد خلقٍ فى ظلماتٍ ثلٰث“ (اللہ تم کو شکم مادر ميں مسلسل بناتا رہتاہے اور يہ کام تين تاريکيوں ميں انجام پاتا ہے۔)
دور حاضر کى تحقيقات نے واضح کرديا ہے کہ انسانى تخليق کاسلسلہ نطفہ سے لے کر بشريت تک برابر جارى رہتا ہے اور يہ کام تين پردوں منباري، خوربون، لفائفى کے اندر ہوتا ہے جس کي وجہ سے نر اور مادہ کا امتياز مشکل ہو جاتا ہے۔
”کلوا واشربوا ولا تسرفوا“ (کھاوٴ پيو اور اسراف نہ کرو)
ان فقرات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کے امراض کا زيادہ حصہ اس کے اسراف سے تعلق رکھتا ہے۔ اسراف کا مطلب مال کو بيکار پھينک دينا نہيں ہے بلکہ ضرورت سے زيادہ کھا لينا بھى اسراف کي حد ميں داخل ہے اور اسى لےے اس کا ذکر صرف مال کے بجائے کھانے پينے کے ساتھ ہوا ہے يعنى کھانے ميں بےجا زيادتى نہ کرو کہ موجب ہلاکت ہے۔
”حرمت عليکم الميتت والدم ولحم الخنزير“ (تمہارے اوپر مردار خون اور سور کے گوشت کو حرام کر ديا گيا اس لےے کہ ان چيزوں کے استعمال سے تمہارى صحت پر غلط اثر پڑتا ہے
مردار کا کھانا بے حسى پيدا کرتا ہے، خون کاپينا سنگ دلى کا باعث ہوتا ہے اور سور کا گوشت بے حيائى ايجاد کرتا ہے ، علاوہ اس کے کہ ان چيزوں کے جسم پر طبى اثرات بھى ہوتے ہيں جن کا اندازہ آج کے دور ميں دشوار نہيںہے۔ حيرت کى بات تو يہ ہے کہ مريض کو خون ديتے وقت ہزاروں قسم کى تحقيق کى جاتى ہے اور جانوروں کا خون پيتے وقت انسان ان تمام باتوں کو نظر انداز کرديتا ہے۔
”يا اخت ہارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغيا“ (اى ہارون کى بہن مريم نہ تمہارا باپ کوئي بدکردار مرد تھا اور نہ تمہارى ماں بد کردار تھى آخر يہ تمہارے يہاں بچہ کيسے ہوگيا؟)
قرآن مجيد نے مخالفين کے اس فقرہ کى حکايت کرکے اس نکتہ کى وضاحت کردى کہ انسانى کردارپر ماں باپ کا اثرپڑتا ہے اور سيرت کى تشکيل ميںوراثت کا بہر حال ايک حصہ ہوتا ہے۔ اسى لےے جناب مريم نے بھى قانون کى ترديد نہيں کى بلکہ يہ ظاہر کر ديا کہ نہ مير اباپ خراب تھا نہ ميرى ماں برى تھى اور نہ ميں نے کوئي غلط اقدام کيا ہے بلکہ يہ سب قدرت کے کرشمے ہيں جس کا زندہ ثبوت خود يہ بچہ ہے تم اس سے سوال کر لو سب خود ہى معلوم ہو جائےگا۔
”انّ اللہ يتوفى الانفس حين موتہا و التى لم تمت فى منامہا“ (اللہ ہى وقت موت روح کو لے ليتا ہے اور جس کى موت کا وقت نہيں ہو تا ہے اسے خواب کے بعد بيدار کر ديتا ہے۔)
آيت عالم طبيعت کے علاوہ ايک عالم نفس و روح کى طرف بھى اشارہ کرتى ہے جس کا فائدہ يہ ہے کہ نفس عالم خواب ميں جسم کو چھوڑ کر اپنے عالم کى سير کرتا ہے اگر اس کى موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ اپنے عالم ميں رہ جاتا ہے اور اگر حيات باقى رہتي ہے تو جسم سے پہلا جيسا رشتہ جوڑ ليتا ہے۔
”واذا البحار سجّرت“ (وہ وقت بھى آئے گا جب سمندر بھڑک اٹھےنگے)
آگ کے ساتھ پانى اور پانى کے ساتھ آگ کا تصور آج کي دنيا ميں بھى نا ممکن خيال کيا جاتا ہے چہ جائيکہ چودہ صدى قبل عرب کى جاہل دنيا۔۔ ليکن قرآن مجيد نے سمندر کے ساتھ بھڑکنے کا لفظ استعمال کرکے علمى دنيا کے ذہنوں کو ان کى کہربائى اور برقي طاقتوں کى طرف موڑ ديا جو آج پانى کے دل اندر موجود ہے۔ فرق يہ ہے کہ آج ان طاقتوں سے استفادہ کرنے کے لےے آلات و اسباب کى ضرورت ہوتى ہے اور کل قيامت کا دن وہ ہوگا جب يہ طاقتيں از خود سامنے آجائيں گى اور سارے سمندر بھڑک اٹھيں گے، واخرجت الارض اثقالہا زمين سارے خزانے اگل دے گى تو پانى بھى اپنى سارى طاقتوں کو سر عام لے آئے گا۔
”يا معشر الجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموت و الارض فانفذوا لا تنفذون الا بسلطان“ (اے گروہ جن و انس! اگر تم ميں اطراف زمين و آسمان سے نکل جانے کى طاقت ہے تو نکل جاوٴ ليکن ياد رکھو کہ تم بغير غير معمولي طاقت کے نہيں نکل سکتے۔
آيت نے اقطار سماوات و ارض کى وسعتوں کا ذکر کرنے کے باوجود خلاء تک پہونچنے کے امکان پر روشنى ڈالى ہے اور ظاہر ہے کہ جب غير معمولي طاقت کے سہارے فضائے بسيط کى وسعتوں کو پار کرکے خلائے بسيط تک رسائى ممکن ہے تو چاند سورج تک پہونچنے ميں کيا دشواري ہے؟ البتہ بعض سادہ لوح عوام نے اس آيت سے چاند تک جانے کي محاليت پر استدلال کيا ہے ليکن انہيں يہ سوچنا چاہئے کہ چاند و سورج وغيرہ سماوات و ارض کى وسعتوں ميں شامل ہيں اور قرآن مجيد نے جس شئى کو تقريباً ناممکن بتايا ہے وہ ان وسعتوں کے باہر نکل جانا ہے نہ کہ ان وسعتوں ميں سير کرنا ۔ ورنہ اگر ايسا ہوتا تو کم از کم جنات کومخاطب نہ کيا جاتا جو اس فضا ميں ہميشہ ہى پرواز کيا کرتے ہيں۔
”ثم استوى الى السماء و ہى دخان“ (خالق نے آسمان کى طرف توجہ کى جو اس وقت دھواں تھا۔)
آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آغاز خلقت افلاک دھويں سے ہوا ہے۔
”الم تروا کيف خلق اللہ سبع سمٰوٰت طباقا و جعل القمر فيہن نوراً و جعل الشمس سراجاً“ (کيا تم نے نہيں ديکھا کہ اللہ نے کس طرح ہفت طبق آسمان پيدا کردےے اور ان ميں چاند کو روشنى اور سورج کو چراغ بنا ديا۔)
يہ اشارہ ہے اس بات کى طرف کہ سورج کا نور ذاتى ہے اور چاند کا نور اس سے کسب کيا ہوا ہے۔
”اللہ الذى رفع السمٰوٰت بغير عمد ترونہا“ (خدا وہ جس نے آسمانوں کو بلند کرديا بغير کسى ايسے ستون کے جسے تم ديکھ سکو۔)
معلوم ہوتا کہ رفعت سماوات ميں کوئى غير مرئى ستون کام کر رہا ہے جسے آج کى زبان ميں قوت جذب و دفع سے تعبير کيا جاسکتا ہے۔
”ومن يرد ان يضلہ يجعل صدرہ حرجاً کانما يصّعّد فى السماء“ (خدا جس کو اس کى گمراہى ميں چھوڑ ديتا ہے اس کے سينے کو اتنا تنگ بنا ديتا ہے جيسے وہ آسمان ميں بلند ہو رہاہو۔)
آيت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آسمان کى بلندى تنگى نفس کا باعث ہے اس لےے کى فضاوٴں ميں ہوا کى مقدار زمين سے کہيں زيادہ کم ہے۔
”و من کل شئى خلقنا زوجين“ (ہم نے ہر شئى کا جوڑا اسى کے اندر سے پيدا کيا ہے۔)
معلوم ہوتا ہے کہ عالم وجود ميں وحدت اور اکائى صرف خالق ومالک کا حصہ ہے باقى ہر شئى کى ذات ميں دوئى اور زوجيت پائى جاتى ہے وہ دوئى ظاہرى اعتبار سے نر اور مادہ کى ہو يا حقيقى اعتبار سے کہربائى موجوںکي؟
ياد رہے کہ آيات بالا کے پيش کرنے سے يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ دور حاضر نے اپنى تحقيقى منزل کو جس حد تک پہونچايا ہے آيت اسى حد کى طرف اشارہ کر رہي ہے بلکہ مقصد صرف يہ ہے کہ ان آيات ميں علم کائنات کى طرف کھلے ہوئے اشارے پائے جاتے ہيں چاہے وہ علم وہى ہے جسے آج کى دنيا ميں پيش کيا جارہا ہے يا اس سے بالا تر کوئى منزل ہوجہاں تک آج کا علم نہيں پہونچ سکا ہے۔ اسى لےے ميں آيات کى تشريح ميں اشارہ کا لفظ استعمال کيا ہے اور اسے تحقيق و تعيين پر محمول نہيں کيا ہے۔
علوم قرآن کے تذکرہ کا ايک مقصد يہ بھى ہے کہ يہ علوم اگر بقائے نوع اور ارتقائے بشر کے ضرورى نہ ہوں تو کم سے کم نگاہ قرآن ميں جائز ضرور ہيں ورنہ قرآن مجيد ان حقائق کى طرف اشارہ کرکے انسانى ذہن کو تحقيق پر آمادہ نہ کرنا ليکن اسے کيا کيا جائے کہ صدر اول کے مسلمانوں نے اس نکتہ سے غفلت برتى اور اسکندرہ کا عظيم کتب خانہ جس سے علوم قرآنى کى تشريح وتفصيل کا کام ليا جاسکتا تھا نذر آتش کرديا گيا اور اس طرح امت اسلاميہ ديگر اقوام سے ہميشہ ہميشہ کے لےے پيچھے ہوگئي، اسکندريہ کے کتب خانہکا نذر آتش ہونا اتنا بڑا ہولناک کام نہيں تھا جتنا بڑا ہولناک امر اس کى پشت پر کام کرنے والا نظريہ تھا۔ کہا يہ گيا کہ ان کتابوں ميں اگر وہى سب کچھ ہے جو قرآن مجيد ميں ہے تو ہميں قرآن کے ہوتے ہوئے ان کتابوں کى ضرورت نہيں ہے اور اگر ان ميں قرآن کريم کے علاوہ کوئى شئى ہے تو امت قرآن کو ايسي کتابيں نذر آتش ہى کردينى چاہئےں جو قرآن سے ہٹ کر مطالب بيان کرتى ہوں۔ يہ ايسا خطرناک اور زہريلا نظريہ تھا جس نے ہر موڑ پر بشريت کو گمراہ کرنے کيا فريضہ انجام ديا ہے۔ برہمنوں نے رسالت کے انکار ميں يہى طرز استدلال اختيار کيا کہ اگر رسول وہى کچھ کہتا ہے جو عقل کا فيصلہ ہے تو عقل کے ہوتے ہوئے رسول کى ضرورت کيا ہے اور اگر رسول عقل کے خلاف بولتا ہے تو خلاف عقل بات کو تسليم کرنا انسانيت اور بشريت کے منافى ہے۔ يہوديوں اور عيسائيوں کا اسدلال بھي يہى تھا کہ اگر شريعت موسيٰ و عيسيٰ برحق ہے تو اس کے منسوخ ہونے کے کيا معني ہيں؟ اور اگر غلط ہے تو خدا نے ايسى شريعت اپنے انبياء کو دى کيوں؟ غرض بشريت کے ہو موڑ پر تباہي کا راز اسى غفلت ميںپوشيدہ نظر آتا ہے اور ميرا خيال تو يہ ہے کہ مسلمانوں کا يہ انداز فکر بھى اپنے ذہن کى پيداوار نہيں تھا بلکہ انہيں اقوام سے لےے ہوئے سبق کا نتيجہ تھا جنہوں نے ہر دور ميں بشريت کو گمراہ کيا ہے۔ اور اس گمراہى کا راز صرف يہ ہے کہ ہر قوم نے اصل مطلب کو ياد رکھا اور تفصيلات کو فراموش کرديا ورنہ برہمنوں کو يہ سوچنا چاہئے تھا کہ نبى کا کام عقل کى مخالفت نہيں ہوتا ہے بلکہ عقلہ کے احکام کى تفصيل ہوا کرتا ہے۔ عقل مالک کى اطاعت کا حکم ديتى ہے اور نبى طريقہ اطاعت کى تعليم ديتا ہے، عقل برائيوں سے الگ رہنے کا فيصلہ کرتى ہے اور نبى برائيوں کى تفصيل بيان کرتا ہے۔ اسى طرح يہوديت اور مسيحيت کے پرستاروں کو يہ سوچنا چاہئے تھا کہ کسى قانون کا حق ہونا اسکے ابدى ہونے کي دليل نہيں ہے بلکہ قانون کبھى کبھى قانون ايک محدود وقفہ کے لےے بنايا جاتا ہے اور اس وقفہ ميں انتہائى صالح اور صحت مند ہوتا ہے ليکن اس وقفہ کے گذر جانے کے بعدوہ بے کار اور غير صحت مند ہو جايا کرتا ہے ايسے قانون کے بارے ميں يہ نہيں کہا جاسکتا کہ چونکہ ايک وقفہ کے لےے صحت مند تھاليکن ہر دور ميں کارگر اور کارآمد ہونا چاہئے۔
مسلمانوں کے اس جاہلانہ طرز فکر کى خرابى کى طرف ايک محقق نے بڑے اچھے انداز سے اشارہ کيا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر صدر اول کے مسلمانوں کو علوم و معارف سے کوئى بھى را بطہ ہوتا تو وہ يہ سوچتے کہ اگر ان کتابوں ميں قرآن کے موافق بيانات ہيں تو انہيں دوسرى قوموں کے سامنے بطور استدلال پيش کيا جاسکتا ہے اور اگر قرآن کے مخالف نظريات ہيں تو قرآن کى روشني ميں ان کى ترديد کرکے ديگر اقوام پر قرآن کي برترى ثابت کى جاسکتى ہے۔ ليکن افسوس کہ اس دور کے مسلمانوں ميںنہ اثبات کى طاقت تھى اور نہ ترديد کي۔ نتيجہ يہ ہوا کہ حکمرانوں نے اپنى جہالت کا پردہ رکھنے کے لئے ايک عظيم علمى سرمايہ کو نذر آتش کرديا اور بشريت منزل معراج سے صديوں پيچھے ہٹ گئي۔
ياد رکھنے کى بات ہے کہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کے پيچھے کوئي مذہبى جذبہ کار فرما نہيں تھا بلکہ يہ در حقيقت اقتدار اور آمريت کے مظاہرے کا جذبہ تھا جو اس شکل ميں سامنے آ رہا تھا قرآن کى موافقت اور مخالفت تو صرف بعد کي پيداوار ہے جس کا سب سے اہم ثبوت امام محمد ابن اسماعيل بخاري اور امام مسلم کى وہ روايات ہيں جنہيں ان حضرات نے کتابت حديث کے ذيل ميں درج کيا ہے اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ صدر اول کے مسلمانوں کا ايک بڑا طبقہ رسول اکرم کى حديثوں کو لکھنے اور جمع کرنے کا مخالف تھا۔ سوچنے کى بات ہے کہ جو مسلمان اپنے رسول کے اقوال جمع کرنے کو بدعت سمجھتا ہو وہ اسکندريہ کے کتب خانہ کے ساتھ کيا برتاوٴ کرے گا۔ بات يہيں تک محدود نہيں رہتى بلکہ ايک منزل آگے بڑھ جاتى ہے اور صاحب نظر انسان کو يہ سوچنا پڑتا ہے کہ اسکندريہ کى کتابوں ميں تو خير مخالفت قرآن کا امکان تھا اس لےے انہيں نظر آتش کرديا گيا۔ رسول اکرم کى حديثوں ميں کونسى خاص بات تھى جس کى وجہ سے اس کى کتابت حرام تھى کيا يہاں بھى مخالفت قرآن کے امکانات تھے؟ يا قرآنى اجمال کو حيث کے تفصيلات کى ضرورت نہ تھي؟ يا کوئى اور جذبہ کام کر رہاتھا جس کے اظہار کے سامنے تاريخ کے منھ پر لگام لگى ہوئى ہے اور مورخ کاناطقہ گنگ ہے، بات صرف يہى ہے کہ مسلمان اپنى جہالت کى پردہ پوشى کے لےے ايک پورى امت کو علوم دين و دنيوى سے محروم کر رہے تھے اور اس روشنى ميں يہ کہنا پڑے گا کہ آج کا مسلمان جس احساس کمترى کا شکار ہے اور آج کى امت اسلاميہ علمى ميدان ميں جس قدر پيچھے ہوگئى ہے اس کي ذمہ دارى دور حاضر سے زيادہ صدر اول کے ان مسلمانوں پر ہے جنہوں نے ممانعت علم و فن اور پابندى فکر و نظر کى بدعت کاسنگ بنياد رکھا تھا۔!