خالق کائنات نے اپنے کلام کے تعارف کے لئے حسب ذیل الفاظ استعمال فرمائے ہيں :
يہ کتاب هے : الم ذلک الکتاب لاریب فيہ
يہ نورهے : قدجائکم من اللہ نوروکتاب ومبين
يہ قرآن هے : ان ھذاالقرآن يھدي للتى ھى اقوم
يہ فرقان هے : الذى نزل الفرقان على عبدہ
يہ آیات بینات هے : بل ھى آيات بينات فى صدورالذين اوتوالعلم
يہ تنزیل هے : تنزیل العزيزالحکيم
يہ قول هے : انہ لقول رسول کريم
يہ ذکرهے : انانحن نزلناالذکروانالہ الحافظون
يہ ہدى هے : ھدى للمتقين
اس کے علاوہ اوربھى تعبير يں ہيں ،ليکن يہاںصرف يہ واضح کرنامقصودهے کہ ان تعبيرات کى روشنى ميں قرآن کريم کى واقعى حیثیت کياقرارپاتي هے ۔
اہل قلم اس مقدس کلام کوکبھى کتاب سے تعبيرکرتے ہيں اورکبھى اسلام کے ائين ودستورسے ۔ ليکن کتاب سے ان کى مرادعموما وہ قرآنى تعبير نہيں هوتى جو ”الم ذلک الکتاب“ ميں پائى جاتى هے ،اس لئے کہ قرآنى تعبیرکے لحاظ سے کتاب کوباقى دوسرے اوصاف سے متصف کياجاسکتاهے ليکن ہمارى تعبیرکے لحاظ سے کتاب ميں وہ تمام خصوصیات نہيں پائى جاتى ہيں جوقرآن کريم ميں موجودہيں ۔
دیکھنا يہى هے کہ قرآن مجیدکودوسري تصانیف کى طرح تصنیف یادساتیرکى طرح دستورکہہ سکتے ہيں یانہيں ؟ يہاں اس بات سے بحث نہيں هے کہ قرآن تصنیف هے تواس کامصنف کون هے،خداهے یااس کارسول ؟ اوراگرقرآن تالیف هے تو اس کامؤلف کون هے،خالق کائنات رسول اکرم یاخلفاء اسلام ؟
يہاں توصرف يہ ظاہرکرناهے کہ قرآن نہ دنیاکى کتابوں کے طرزکى کتاب هے اورنہ دنیاکے دساتیرکے قسم کاکوئى دستور۔
اس کااندازترتيب اسى طرح ساري کائنات سے منفردوممتازهے جس طرح اس کے اصول ومعارف ۔وہ نہ اصول ومعارف کے اعتبارسے دنیاکى کسى کتاب سے ہم رنگ هے اورنہ سلیقہ ٴ ترتیب کے اعتبارسے کسى تصنیف وتالیف سے ہم آہنگ۔
اوردرحقیقت يہى بات اس امرکاواضح ثبوت هے کہ قرآن رسول اکرم کاکلام نہيںهے ۔اس لئے کہ دنیاکاکوئى انسان کتنى ہى بلندکتاب کیوںنہ تصنیف کرے سلیقہٴ تصنیف کاہاتھ سے نہيں دے سکتاسلیقہٴ تصنیف ہى سے مصنف کى عظمت کااندازہ هوتاهے اورقرآن کريم ميں وہ اندازہى نہيں هے جوتصنیف کاهواکرتاهے لہذانہ اسے تصنیف کہہ سکتے ہيں اورنہ اس کے اندازوسلیقہ کوکسي بشرکى طرف منسوب کرسکتے ہيں۔
تصنیف کى سب سے پہلى خصوصیات يہ هوتى هے کہ مصنف اپنے ذہن ميں ایک خاکہ تیارکرتاهے اس کے بعدمطالب کوچندحصوںپرتقسیم کرتاهے، تقسیم کے اعتبارسے باب قائم هوتے ہيں،باب کوفصلوںپربانٹاجاتاهے اوراس بات کى کوشش کى جاتى هے کہ ایک باب کامفهوم دوسرے باب ميں،ایک فصل کى بات دوسرى فصل ميںنہ آنے پائے ،تکرارکلمات،تکرارواقعات وغیرہ سے گریزکياجائے ۔اندازکلام وہ اختیارکياجائے جوہرقارى کے لئے قابل فہم هو۔الفاظ کے ماوراکوئى ایسى بات نہ رکھى جائے جس تک مصنف یااس کے اپنے افرادکے علاوہ کسى کاذہن نہ پهونچ سکے،اورقرآن مجیدميں ایسي کوئى بات نہيں پائى جاتى هے اس ميںنہ ابواب ہيںنہ فصول ۔نہ سرخى هے نہ عنوان ۔ نہ مطالب کے ایک رنگ هونے کالحاظ کياگیاهے اورنہ مفاہیم کى یکسانیت کا۔ایک ہى مقام پرکہيںاصول کاذکرهے توکہيں فروع کا،کہيںواقعات ہيں توکہيں احکام،کہيں قصے ہيںتوکہيں عبرتیں ۔
اندازبھى وہ نہيںهے جوہرشخص کے لئے قابل فہم هوبلکہ سوروںکے شروع ميں حروف مقطعات رکہ دئے ہيںجن کاسمجھناکسى انسان کے بس کى بات نہيںهے۔
سارے مطالب کھل کربھى بیان نہيںکئے گئے بلکہ پورى کتاب کى پشت پرایک تاویلى حقیقت رکہ دي گئى هے جسے صاحب کلام جانتاهے یااس کے پڑھائے هوئے افراد۔ اس تک رسائى کے لئے پاکیزگى نفس وکردارکى ضرورت هے اس کے ادراک کے لئے راسخ فى العلم هوناضرورى هے اس کى سمائى کے لئے وہ سینہ درکارهے جس ميں علم رکہ دیاگیاهے ا س کے سمجھنے کے لئے وہ انسان درکارهے جس کى خلقت مادى بعدميں هواورتعلیم قرآن پہلے هو(علم القرآن خلق الانسان)
قرآن مجيدميں سوروں کى تقسيم بھى ابواب وفصول کے اعتبارسے نہيں هے بلکہ ایک ہى سورے ميں مختلف موضوعات ،مختلف مطالب کى وضاحت کى گئى هے ظاہرهے کہ بقریال عمران کاطولانى سورہ کسى ایسے موضوع کے لئے الگ نہيں کياگیاهے جوحمدیاتوحیدميںنہ پایاجاتاهو بلکہ يہ تقسیم بھى کسى خاص مصلحت کے تحت کى گئى هے۔
سوروںکامکى یامدني هونابھى محل تصنیف کے اعتبارسے نہيں هے کہ جوسورہ جہاںمرتب کياگیاهواس کانام وہيں کے اعتبارسے رکھ دیاگیاهو بلکہ اکثرمکى سوروںميںمدنى آیات رکھى گئى ہيں اوراکثرمدنى سورتوںميںمکى آیات کوجگہ دى گئي هے۔
ميراخيال هے کہ قرآن مجيدکايہ معجزہ نمااورمنفرداندازجہاںاس بات کاثبوت هے کہ يہ رسول اکرم کاکلام نہيں هے،وہاں اس بات کابھى محکم ثبوت هے کہ اس کے جمع کرنے ميںکسي بادشاہ وقت یاخلیفہٴ رسول کاکوئى ہاتھ نہيںهے کوئي بھى خلیفہ یابادشاہ اگررسول کى وفات حسرت آیات کے بعدقرآن کريم کوترتیب دیتاتواس کى دوہى صورتیں هوتیںیاوہ ترتیب ٹھیک تنزیل کے مطابق هوتى یاپھراس ميں وہ سلیقہ برتاجاتاجوعموما تصانیف وتالیفات ميںبرتاجاتاهے حالانکہ جمع قرآن کى کسى ایک روايت ميںبھى اس کاذکرنہيںهے کہ جمع کرنے والوںنے صاحبان آیات وسورسے يہ سوال کياهوکہ يہ ايت کب اورکہاں،کس ايت کے پہلے اورکس ايت کے بعدنازل هوئى هے۔
قرآن کريم کاعام کتابوںکے سلیقے سے الگ هونااس قدرواضح اوربديہى هے کہ اس کے لئے کسى ثبوت وبرہان کي ضرروت ہى نہيںهے۔
غيررسول یاغیروحى الہى کے قرآن کومرتب کرنے کے عقیدے کامطلب يہ هے کہ قرآن کى پورى ترتیب کوبدسلیقگى کانتےجہ سمجھ لیاجائے اوريہ کہاجائے کہ مرتب کرنے والوںکونہ آیات کے نزول کاحال معلوم تھااورنہ ا نھیںتالیف ہى کاکوئي سلیقہ تھا۔انھوںنے جس ايت کوجس جگہ چاہارکھ دیااورجس مضمون کوجہاںچاہاچسپاںکردیا۔حالانکہ يہ بات کوئى بھى صاحب عقل وشعورمطالعہٴ قرآن کرنے والاتسلیم نہيںکرسکتا۔قرآن کاسلیقہٴ ترتیب ،قرآن کااندازبیان اس امرکازندہ ثبوت هے کہ اس کى جمع آورى ميں غیروحى کاہاتھ نہيںهے،”ان علیناجمعہ وقرآنہ“ اس کاجمع کرنااورپڑھناہمارے ذمے هے۔
يہ ضرورهے کہ بعض آیات اپنے محل پرنامناسب معلوم هوتى ہيں ليکن ان دوتین آیات کے بظاہربے محل هونے کامطلب يہ نہيں هے کہ جامعین قرآن کى فوق البشرصلاحیت تسلیم کرلى جائے اوريہ کہاجائے کہ انہيں منتشرآیات کوجمع کرنے کافوق البشرسلیقہ حاصل تھا۔ يہ ا وربات هے کہ انهوںنے چندآیات کواپنى خاص غرض کے تحت ادھرسے ادھرکردیاهے زیدبن ثابت جیسے نوجوان کے لئے ایسے بے پناہ علم کاعقیدہ یاخلیفہ ثالث جیسے حضرات کے لئے ایسے اتھاہ ادراک کاتصوروہى انسان کرسکتاهے جونہ قرآن کى فصاحت وبلاغت سے باخبرهو اورنہ اس کى ترتیب وتنظیم کى شان اعجازسے اورنہ ان حضرات کى تاریخى صلاحیت سے باخبرهو۔
اس موضوع کى تفصیل توتحریف قرآن کى بحث ميں آئے گي،يہاںصرف يہ واضح کرناهے کہ قرآن کااندازترتیب اورسلیقہ تنظیم عام تصنیف وکتب جیسانہيں هے وہ کتاب هے ليکن انسانى اصطلاح ميںنہيںبلکہ قرآنى اصطلاح ميں۔ وہ مجموعہ هے ليکن انسانى ترتیب وتالیف کے اعتبارسے نہيںبلکہ سماوى ترتیب وتالیف کے اعتبارسے۔