تفسيروتاويل کى بحث کى تکميل کے لئے يہ ضرورى هے کہ محکم اورمتشابہ کے معانى کى وضاحت بھى کردى جائے اس لئے کہ قرآن مجيدنے سارے فتنہ کي جڑتاویل ہى کوقراردياهے اوراسى خطرہ کى طرف ہرمردمسلمان کومتوجہ کياهے ۔
واضح رهے کہ قرآن مجيد ميں ان دونوںالفاظ کودوطرح سے استعمال کياگياهے ۔
بعض مقامات پرپورے قرآن کومحکم يامتشابہ کہاگياهے ،جيسے” کتاب احکمت آيتہ ثم فصلت من لدن حکيم خبير“(ھود) اس کتاب کى تمام آيات کومحکم بناکرخدائے حکيم وخبيرکى طرف سے تفصيل کے ساتھ بيان کياگياهے ۔
”اللہ نزل احسن الحديث کتابامتشابھا مثاني تقشعرمنہ جلودالذین یخشون ربھم “(زمرد۲۳)۔اس کتاب کى شکل ميں نازل کيا جس کى آیتیں آپس ميں ملتى جلتى ہيں اوربارباردہرائي گئى ہيں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے هوجاتے ہيں ۔
اوربعض مقامات پربعض آيات کومحکم اوربعض کومتشابہ قراردياگياهے ۔ مثال کے طورپر : ”منہ آيات محکمات ھن ام الکتاب واخرمتشابہات ۔“ اس قرآن ميں بعض آيات محکمات ہيں جواصل کتاب ہيں اوربعض متشابہات ہيں ۔
ليکن اس تقسیم کامقصدقرآن ميں تضاداوراختلاف کاوجودنہيں هے بلکہ دونوں مقامات پراحکام اورتشابہ الگ الگ معانى ميں استعمال هواهے ۔پہلى قسم ميں کل قرآن کے محکم هونے کے معنى يہ ہيں کہ اس کى آيات لوح محفوظ ميں بالکل محکم تھیں ۔ اس کے بعدوقت نزول تشابہ يعنى یک رنگ بناکرنازل کياگياهے اوريہى اس کے تشابہ کے معنى ہيں ۔ يعنى تشابہ کے بعدبھى آيات سب محکمات ہيں کہ تشابہ کاتعلق معانى سے نہيں هے ۔ آيات کى يکسانيت اوريک رنگى سے هے کہ اس قدرمفصل هونے کے بعدبھى کلام ميں اجنبيت ،بے ربطى اوراختلاف کااحساس نہيں هوسکتاهے۔
اوردوسرى قسم ميں احکام سے مرادظاہرى معنى ہيں جوبعض آيات ميں پائے جاتے ہيں اورتشابہ سے مراد مشتبہ معانى ہيں جودوسرى آيات ميں پائے جاتے ہيں اورانھیں کى تاویل ميں فتنہ گرى کااندیشہ پاياجاتاهے اورانھیں کے لئے محکمات کومرجع اوراصل کتاب قراردياگياهے کہ فتنہ گروں کى فتنہ گرى ميں انسان اصل کتاب کى طرف رجوع کرے اوران کى تاویل پربھروسہ کرنے کے بجائے خودقرآن مجيدکے بيانات پربھروسہ کرے اورتفسیرقرآن بالقرآن کے نہج پرمعانى کاتعین کرے ۔
اس طریقہ کارکااندازہ کرلياجائے تويہ کہنا سوفیصدى صحیح هوگا کہ قرآن مجيدکل کاکل محکمات ميں هے ۔ بعض آیتیں ظاہرى طورپرظاہرالمعنى اورمحکم ہيں اوربعض آیتیں ان محکمات کے سہارے محکم بن جاتى ہيں اوران کا تشابہ خودبخود ختم هوجاتاهے اورجس راہ سے فتنہ کے داخل هونے کاامکان هوتاهے اس کاسدباب کردياجاتاهے ۔
يہ سوال ضروررہ جاتاهے کہ آيات کے متشابہ هونے کى ضرورت ہى کياتھى کہ ان کے تشابہ کومحکمات سے حل کياجائے اورفتنہ پردازى کاموقع مل جائے تواس کے چنداسباب بيان کئے گئے ہيں :
۱۔ زبان ولغت کى اےجادانسانوںنے انسانى ضروريات کے تحت کى هے اورہرلفظ کے داخل مين ايک بشرى کيفيت کارفرماهے جس سے کوئى لفظ بے نياز نہيں هوسکتاهے ، اس لئے کہ اس کى وضع ہى بشرى خصوصيات وکيفيات کوپيش نظررکھ کرکى گئى هے اوراس کالازمى نتيجہ يہ هوگا کہ اس کااستعمال جب ماوراء مادہ يا مافوق بشريت کے لئے کياجائے گاتومعانى ميں خودبخود تشابہ پیداهوجائے گا اورانسان کويہ اختيارپیداهوجائے گا کہ وہ سیدھے سیدھے لغوى معنى اوراس کے خصوصيات کومرادلے لے اوران تمام خصوصيات کونظراندازکردے جواس ذات ياہستى ميں پائى جاتى ہيں جن کے لئے لفظ استعمال کياگياهے ۔
مثال کے طورپرلغت ميں محبت کے معنى ميلان نفس اوررحمت کے معنى رقت کے قلب کے بيان کئے گئے ہيں اوردونوںمقامات پر نفس اورقلب کالفظ استعمال هواهے ،جس کامحبت اوررحمت سے کوئى تعلق نہيں هے ۔ ليکن چونکہ الفاظ کى وضع عالم بشریت کے لئے هوئى هے اورعالم بشریت ميں محبت نفس کے ذریعہ هوتي هے اوررحمت کامظاہرہ قلب کے ذریعہ هوتاهے اس لئے اسے بھى معني لغوى ميں شامل کرلياگياهے ۔ ا ب اس کے بعد جب رب العالمین کے لئے يہ لفظ استعمال هوگا اوراسے محبت کرنے والا يارحمن ورحیم کہاجائے گا تويہ اشتباہ ضرورپیدهوگا کہ اس کے پاس نفس اورقلب هے يانہيں ،اس کى محبت ورحمت کاتعلق نفس وقلب سے هے ياکسى اوراندازوطریقہ کارسے هے اوراہل فتنہ کواپناکاروبارآگے بڑھانے کاموقع مل جائے گا ۔
اس مسئلہ کاايک ہى حل تھا کہ قرآن مجيدکسي آسمانى زبان ميں نازل هوتا اوراسکے الفاظ کى وضع بلندترین غیرمادى حقائق کے لئے هوتى ۔ ليکن ظاہرهے کہ اس طرح اس کانزول صرف ملائکہ کے لئے هوتا اورعالم بشریت سے کوئى تعلق نہ هوتا اس لئے کہ بشرسرتاپااس کے معنى هو کر رہ جاتے ۔
۲۔ خودقرآن مجيدکى تنزیل بھى دفعى نہيں هے کہ ساراقرآن ايک دفعہ ايک لمحہ ميں نازل کردياگياهو بلکہ اس کى تنزیل تدریجى اورارتقائى هے کہ جيسے جيسے حالات سازگارهوتے رهے ا ورمعاشرہ ارتقائى مراحل طے کرتاگيآيات کے نزول کوراستہ ملتاگيااوروہ لوح محفوظ سے زمین پرآتى رہيں اوراس طرح نازل هوتا توحالات اورمصالح ايک طرح کے هوتے اورآیت کااعلان ايک اندازکاهوتا۔ ليکن چونکہ ۲۳ سال ميں نازل هواهے اوراس طویل وقفہ ميں حالات مختلف رهے ہيں لہذاکبھى ایسے حالات رهے کہ عام حکم کااعلان کردياجائے اورخصوصيات کاتذکرہ نہ کياجائے تاکہ سادہ ذہن آسانى سے عمل کرنے کے لئے تيارهوجائے اوراس کے بعدوقت آنے پرخصوصيات کااعلان کياجائے ۔ اورکبھى ایساهوا کہ ايک مرتبہ حکم کااعلان کياگيااوراس کے بعد مصالح کے تمام هوجانے کے بعد اس کے منسوخ هوجانے کااعلان کردياگيا۔ظاہرهے کہ اس طرح تشابہ کاپیداهوجاناناگزیرتھا اوريہ احتمال بہرحال باقى رہ جائے گا کہ ناسخ ومنسوخ ميں اشتباہ هوجائے ياعام وخاص کے خصوصيات کاادراک نہ کياجاسکے ياقصدا اس تشابہ سے فائدہ اٹھاياجائے اوراسے فتنہ گرى کاذریعہ بنالياجائے ۔
تاویل کے سلسہ ميں باربارلفظ متشابہات کاذکرآتاهے اواس کے ساتھ ساتھ لفظ محکمات کابھى ذکرآتاهے جس طرح کہ خود قرآن مجيد ميں دونوںقسم کى آيات کاايک ہى مقام پرذکرکياگياهے کہ ا س قرآن کى بعض آيات محکمات ہيں اوربعض متشابہات ۔ لہذا ضرورى هے کہ ان دونوں الفاظ کے معاني کى بھى تعیین کردى جائے تاکہ متعلقہ مباحث کوسمجھنے ميںآساني هو اوريہ طے کياجاسکے کہ متشابہات کى تاویل سے فتنہ کاکيامقصدهے اورمتشابہات کے واقعى مفهوم کے ادراک کاذریعہ کياهے ؟ ۔ علماء قرآنيات نے ان الفاظ کے بارہ معانى بيان کئے ہيں :
۱۔ محکمات سورہٴ انعام کى تين آیتوں کانام هے ”قل تعالوااتل ماحرم ربکم علیکم ان لاتشرکوابہ شےئا ۔۔۔۔“ اورمتشابہات مقطعات ہيںجنھیں يهودي نہيں سمجھتے تھے ۔ يہ قول ابن عباس کى طرف سے نقل کياگياهے۔
ليکن اس قول ميں تين طرح کى کمزورياں ہيں :
ا۔ ابن عباس نے ان آيات کومحکمات قراردياهے ليکن يہ مطلب ہرگزنہيں هے کہ با قى ساراقرآن محکمات سے خارج هے۔
ب۔ ابن عباس نے ایساکہابھى هے کہ تواس دعوى کى کوئى دليل نہيں هے ۔
ج۔ اس قول کامطلب يہ هے کہ قرآن مجيدکى آيات کى تين قسميں هوں محکمات (۳آيتيں ) متشابہات (مقطعات) باقى قرآن ۔ حالانکہ قرآن مجيدنے اپنى آیتوں کودوہي حصوں پرتقسيم کياهے ۔
۲۔ محکمات سے مراد مقطعات ہيں ، يعنى ان کے حروف نہ کہ مفاہيم ۔ اورباقى قرآن متشابہات ميں هے ۔
اس قوميں بھى دوکمزورياںہيں :
ا ۔ اس دعوى کى بھى کوئى دلیل نہيں هے ۔
ب ۔ اس کامطلب يہ هوگاکہ سارے قرآن کے اتباع ميں زيغ اورکجى کاامکان هے جو يقينا خلاف حقيقت هے ۔
۳۔ محکم کے معنى مبین اورمتشابہ کے معنى مجمل ۔
اس قول کى کمزورى يہ هے کہ محکم ومتشابہ مجمل ومبین کے علاوہ دوسرى چيزوں ہيں اوراس کى دلیل يہ هے کہ مجمل ومبین ميں عمل مجمل ہى پرهوتاهے مبین صرف اس کاقرینہ هوتاهے اورقرآن مجيدميں متشابہات پرعمل کرنا صحیح نہيں هے ،محکماتت متشابہات کے لئے مرجع کي حیثیت رکھتے ہيں کہ ان کے مفاہیم کومتعین کرنے کے لئے محکمات کى طرف رجوع کرناچاہئے نہ يہ کہ محکمات متشابہات کے معنى متعين کرنے کے لئے مجمل ومبين کوبطورمثال بيان کياگياهے توکوئي حرج نہيں هے اوراس مثال سے بڑى حدتک اس حقيقت کاادراک کياجاسکتاهے ۔
۴۔ متشابہات سے مرادوہ منسوخ احکام ہيں جن پرایمان ضرورى هے ليکن عمل کرناصحيح نہيں هے ۔
اس قول کااشکال يہ هے کہ اس طرح غیرمنسوخات کومتشابہات نہيں کہاجاسکتاهے حالانکہ آيات صفات وافعال الہيہ کو عام طورسے متشابہات ميں شمارکياگياهے ۔
۵۔ محکمات ان آيات کانام هے جن کے مضمون پرکوئى عقلى دلیل موجودهو ، جيسے آيات وحدانیت وقدرت وغيرہ اورمتشابہات اس کے ماوراء ہيں ۔
اس قول کاسقم يہ هے کہ اس طرح احکام کى جملہ آيات متشابہ هوجائیں گى اوران کااتباع غلط هوجائے گا اوراگرخود کتاب کے اندرکسى دلیل کاوجود مقصودهے توپورا قرآن ہى متشابہ هوجائے گا کہ اس کے مضامین پراس کے اندردلیل عقلى کے وجود کے کوئى معنى نہيںہيں ۔
۶۔محکمات ان آيات کانام هے جن کاکسى دلیل جلى يادلیل خفى سے علم ممکن هواورمتشابہات جن کاعلم ممکن نہ هو جيسے آيات قيامت وغیرہ ۔
اس قول کاسب سے بڑاسقم يہ هے کہ اس ميںمحکمات اورمتشابہات کوآيات کے بجائے معانى کى صفت تسلیم کياگياهے جوظاہرقرآن کے خلاف هے ۔
۷۔ محکمات آيات احکام ہيں جن پرعمل کرناضرورى هے اورمتشابہات ان آيات کے علاوہ ہيں جن ميں بعض بعض ميں تصرف کرتى رہتى ہيں ۔
اس سلسلہ ميں دريافت طلب مسئلہ يہ هے کہ تصرف سے مراد کياهے ۔ اگرتصرف سے مراد تخصیص اورتقییدوغیرہ هے تويہ کام آيات احکام مین بھى هوتاهے اوراگراس سے مراد کوئى دلیل خارجى هے تواس کامطلب يہ هے کہ آيات احکام کے علاوہ متشابہات کاکوئى مرجع نہيں هے ۔
۸۔ محکمات ان آيات کانام هے جن ميں انبياء ومرسلین کے واقعات بالتفصيل بيان کئے گئے ہيں اورمتشابہات وہ آيات ہيں جن ميں اجمال سے کام لياگياهے ۔
۹۔ متشابہات وہ آيات ہيں جومحتاج بيان هوں ،اورمحکمات وہ آيات ہيں جن کے بيان کى ضرورت نہ هو۔
اس کامطلب يہ هے کہ ايات احکام بھى محکم نہيںہيںاس لئے کہ بيان کى ضرروت توان ميں بھى پائى جاتى هے ۔
۱۰۔ محکمات وہ آيات ہيں جن پرایمان اورعمل دونوں ضرورى ہيں اورمتشابہات وہ آيات ہيں جن پرایمان ضرورى هے عمل ضرورى نہيں هے ۔
يہ قول ساتویں قول کابدلاهوااندازهے اورمفهوم يہى هے کہ محکمات صرف آيات احکام ہيں اورسارى آيات متشابہات ہيں ۔ علاوہ اس کے کہ عمل کرنے يانہ کرنے کاسوال تومحکم ومتشابہ طے هونے کے بعد هوگا کہ محکم پرعمل هوگا اورمتشابہ پرعمل نہيں هوگا ۔ عمل کے ذریعہ محکم ومتشابہ کاتعین الٹى سمت ميں سفرکرنے کے مرادف هے ۔
۱۱۔ محکمات صفات الہيہ اورصفات نبويہ کے علاوہ دیگرتمام آيات ہيں ۔ کلمة القاھا الى مریم جیسى آيات متشابہات ہيںمحکمات نہيں ہيں ۔
يہ قول ابن تیميہ کى طرف سے نقل کياگياهے اوراس کے با رے ميں قابل توجہ بات يہ هے کہ ابن تیميہ کے نزدیک آيات صفات ميں علماء اورعوام کے درميان اختلاف هے اورعلماء يعنى راسخون فى العلم کے علاوہ کوئى ان کے معنى نہيں جانتاهے ۔ ليکن سوال يہ هے کہ کياتاویل کاتعلق صرف متشابہات سے هے جب کہ قرآن مجيدميں غیرمتشابہات کى تاویل کابھى تذکرہ موجود هے بلکہ پورے قرآن کي تاویل کاذکرکياگياهے ۔
۱۲۔محکم وہ کلام هے جس سے معني ظاہرکومرادلياگياهو ، اورمتشابہ وہ کلام هے جس سے غیرظاہرکاارادہ کياگياهو ،اوريہى قول متاخرین کى درميان مشهور هے ۔
ليکن مشکل يہ هے کہ متشابہ کى مراد متشابہ هوتى هے اورتاویل سے مراد غیرظاہرى معنى نہيں ہيں ۔ قرآن مجيد ميں کسى مقام پربھى غیرظاہرى معنى کا ارادہ نہيں کياگياهے ورنہ کلام الہى معمہ بن کررہ جائے گا ۔ محکمات مفاہیم کے متعین کرنے کاذریعہ ہيں ،اورذریعہ ظهورکے ثابت کرنے کے لئے هوتاهے غیرظاہرکي تفہیم کے لئے نہيں هوتاهے جیساکہ روايات ميں اشارہ کياگياهے کہ قرآن کا بعض ،بعض کى تفسیرکرتاهے يعنى اس کے ظهورکاتعین کرتاهے نے يہ کہ اس امرکى طرف اشارہ کرتاهے کہ اس سے غیرظاہري معنى کاارادہ کياگياهے ۔
خلاصہ کلام يہ هے کہ محکم اورمتشابہ کاتعلق ظهوراورعدم ظهورکلام سے نہيں هے ۔ اس کاتعلق لوگوں کے عقل وفہم وادراک کے تفاوت سے هے کہ لوگ عرفي معنى سے مانوس هونے کى بناپرتمام آيات سے عرفي معانى ہى مرادلیتے ہيں چاهے ان کاتعلق الہيات سے هوياماوراء ماديات سے ۔ جب کہ يہ طریقہ کارصحیح نہيںهے ۔ ان کافرض هے کہ محکمات کى طرف رجوع کریں اوراس رجوع کے ذریعہ معانى کے تشابہ کوختم کریں ۔
واضح لفظوں ميں یوں کہاجائے کہ لفظ کے معنى توظاہرہيں ليکن اس ظاہرى معنى کاحقیقى تصورمشتبہ هے اوراس کوطے کرنے کے لئے محکمات کى طرف رجوع کرناضرورى هے اورجب محکمات اورمتشابہات ميں ہم آ ہنگى نہ هوتومحکمات کوحاکم بنادياجائے گا اورمتشابہات کے واقعي معنى مرادلئے جائيں گے ۔
قرآن مجيد نے متشابہات کے بارے ميں اس نکتہ کى نشان دہي کى هے کہ جن کے دلوں ميں کجى هوتى هے وہ فتنہ پردازي کے لئے متشابہات کااتباع کرتے ہيں اوران کى من مانى تاویلیں کرکے طرح طرح کے فتنے برپاکرتے ہيں ۔ تاریخ اسلام ميں ان فتنوں کى حسب ذیل قسميں پائى جاتى ہيں :
۱۔ فتنہ تجسیم وجبروتفویض ومعصیت انبياء وتشبيہ وغیرہ جہاں آيات ميں وجہ ،ید وغیرہ کے الفاظ دیکھ کران کو مادى معانى پرمنطبق کياگيااورتجسیم کاعقیدہ اےجادهو ا۔ ياکل کائنات ميں قدرت خداکے جارى وسارى هونے کا تذکرہ دیکھاگيااوربندوں کومجبورمحض فرض کرکے جبرکاعقیدہ ایجادکياگيا۔ياافعال کى بندوں کى طرف نسبت دیکھ کراورانھیں تمام اعمال کا ذمہ دارپاکرتفویض کاعقیدہ ایجادکياگيا۔ ياانبياء کرام کے بارے ميں ذنب ،مغفرت ،معصیت جيسے الفاظ کودیکھ کران سے عام بشرى معاني مرادلے کرمعصیت ا نبياء کاعقیدہ ایجادکيا گيا۔ياخالق کائنات کے بارے ميں بندوں جيسے ا لفاظ کے استعمال سے تشبيہ کاعقیدہ ایجادکياگيا اوربندہ اورخداکوايک صف ميں لاکر کھڑاکردياگيا۔
۲۔ فتنہٴ تقرب : اس فتنہ کامقصديہ تھا کہ آيات احکام ميں قرب ا لہى کاتذکرہ دیکھ کر يہ نظريہ ایجادکياگياکہ تمام احکام قرب الہى کاذریعہ ہيں ،
اوراسى قرب کے لئے ان احکام پرعمل کولازم قراردياگيالہذا جب انسان کوقرب الہى حاصل هوجائے گا تواس سے تمام احکام ساقط هوجائیں گے ۔
۳۔ فتنہ اصلاح عالم : اس نظريہ کاماحصل يہ تھا کہ رب العالمین نے احکام اپنى تسکین قلب يامظاہرہ اقتدارکے لئے وضح نہيں کئے ہيں بلکہ ان کامقصدعالم کى اصلاح هے لہذا جيسے جيسے عالمى حالات بدلتے جائیں احکام ميں بھى تغیرهوناچاہئے اورشریعت میت تنوع اورتطورپیداهوناچاہئے ،يعني کى اصلاح کرنے کے بجائے خو داحکام کى اصلاح کرناچاہئے ۔
۴۔ فتنہ لغویت احکام : اس نظريہ کامقصديہ تھاکہ قرآن مجيدکے تمام احکام معاشرہ کى اصلاح کے لئے وضح کئے گئے ہيں اورجب معاشرہ سوفیصدى متغیرهوچکاهے تويہ سارے احکام معطل اوربیکارهوجاناچاہئے اوران پرعمل کرنے کو غیرضرورى بلکہ محمل قراردے دیناچاہئے ۔
۵۔ فتنہ تطہیرقلب : اس فتنہ کامطلب يہ هے کہ احکام الہيہ کااجراانسانى نفس کے تزکيہ اوراس کے قلب کى تطہیرکے لئے هواتھا اوراس زمانہ ميں تزکيہ اورتطہیرکااس کے علاوہ کوئى ذریعہ نہيں تھا ۔ معاشرہ کثافتوں اورنجاستوںميں ڈوباهواتھاتوضرورت تھى ایسے احکام کى جواس معاشرہ کوکثافت ونجاست سے نکال کر طہارت اورنظافت کي منزل تک پہنچائیں ۔ليکن دورحاضرميں يہ صورت حال بالکل تبدیل هوچکى هے ۔
ظاہري اعتبارسے نظافت اورصفائى کے اتنے اصول رائج هوگئے ہيں کہ ہرانسان ہروقت صاف وشفاف اورنظیف رہتاهے ۔بنابرین وضواورغسل کے احکام بالکل بے معنى هوگئے ہيں اوراب ان کى کوئى ضرورت نہيں رہ گئى ۔ ہرصبح وشام نہانے والے کو وضوياغسل کون سى طہارت اورپاکیزگى عطاکردے گا اوروہ کس قدرصاف وشفاف هوجائے گا ۔
باطني اعتبارسے بھى اس قدراخلاقى اصول رائج هوگئے ہيں اورحکومتي ،عوامى اوربین الاقوامى سطح پراس قدرآداب واحکام وضح هوگئے ہيں کہ انسان قہرى طورپرپاکیزہ نفس اورصاحب ادب واخلاق هوگياهے ۔ ایسے حالات ميں احکام الہيہ کى کوئى ضرورت نہيں هے اورگوياان کادورگزرچکاهے اوردنياايک نئے دورميں داخل هوچکى هے۔
اس طرح اورنہ جانے کتنے فتنے ہيں جوعالم انسانیت ميں رائج ہيں اورکج رو،اورکج دماغ افرادان نظريات کي تائیدکرنے کے لئے متشابہات کاسہارالے کران اوہام وخرافات کواحکام الہيہ پرمنطبق کرناچاہتے ہيں اوراس طرح فتنہ گرى کابازارگرم کرناچاہتے ہيں جب کہ اسلام ميں اس قسم کى فتنہ گرى کاکوئى جوازنہيں هے اورقرآن نے اسے کج فہمى اورکج دماغى کانتیجہ قراردياهے ۔
اس سوال کاايک مختصرجائزہ لياجاچکاهے ے۔ا س وقت قدرے تفصيلى بحث سے کام لياجارہاهے تاکہ يہ واضح هوسکے کہ علماء اسلام نے متشابہات کى ضرروت پرکس کس رخ سے نظرکي هے اورکس طرح اس کى ضرورت کوثابت کياهے يادوسرے لفظوں ميں یوں کہاجائے کہ گذشتہ اوراق ميں يہ ظاہرکياگياهے کہ متشابہات کاوجودايک تاریخى ضرورت تھا جوقرآن مجيدکے ۲۳سال ميں تدریجى نزول کي بناپر هوناضرورى تھا ليکن يہاں يہ ثابت کياجارہاهے کہ متکلم حکیم کے کلام ميں جہاں محکمات کاوجود ضرورى هے وہيں متشابہات کاوجودبھى ايک لازمى شے هے اوراس کے بغیرکلام حکیم کى حکمت کى تکمیل نہيں هوسکتى هے ۔
علماء اعلام نے جن چندوجوہ کى طرف اشارہ کياهے ان ميں سے بعض کاتذکرہ اس مقام پرکياجارہاهے :
۱۔ متشابہات کے ذریعہ انسان ميں خضوع وخشوع اورادائے تسلیم ورضاپیداهوتى هے کہ کلام کامفهوم انسان پرواضح نہيں هے ليکن اس کے باوجود اسے کلام خالق سمجھ کر اس پرایمان رکھتاهے اوراس کااسى طرح احتراک کرتاهے جس طرح کے محکمات کااحترام کرتاهے بعینہ اسي طرح جس طرح ان احکام
پرعمل کرتاهے جن کى کوئى معقول وجہ اس کے ذہن ميںنہيں هوتى هے اورحکم اس کے فہم وادراک سے بالاترهوتاهے ليکن اس کے باوجودحکم خالق سمجھ کرتعمیل کرتاهے اوراس کى عقل وفہم کے مطابق هوتے ہيں اورجن کى حکمت بظاہرواضح هوتى هے ۔
ليکن اس دلیل کى کمزورى يہ هے کہ احکام ميں کم ازکم حکم توواضح هوتاهے توانسان اس پرعمل کرکے تسلیم ورضاکامظاہرہ کرتاهے ليکن متشابہات ميںتوکوئى بات ہى واضح نہيں هوتى هے اورجوبات معلوم اورواضح نہ هواس کے بارے ميں تسلیم ورضا کے کوئى معنى ہى نہيں ہيں ۔الفاظ قرآن کااحترام کرکے بوسہ دینااورهے اورتسلیم ورضاکى منزل پرفائزهونااورهے ۔قرآن مجيدنظام زندگى بن کرنازل هواهے اوراس کامقصدفکروں ونظراورعمل وکردارکى اصلاح هے وہ احترام کرنے اوربوسہ دینے کے لئے نازل نہيں هواهے ۔ ا گرچہ اس کااحترام ہرمسلمان کافریضہ هے۔
۲۔ متشابہات کاسب سے بڑافائدہ يہ هے کہ اس طرح انسان ميں تفکرکاجذبہ پیداهو،اورتفکروتدبرانساني فکرونظرکاعظیم ترین کمال هے ۔
لکن اس کاواضح ساجواب يہ هے کہ تفکروتدبرکے لئے آيات وتدبرہي کافى ہيں ، متشابہات کى ضرورت نہيں هے ورنہ ان متشابہات ميں تفکروتدبرسے توگمراہى کابھى اندیشہ رہتاهے جیساکہ عالم اسلام کے حالات سے اندازہ هوتاهے اورخودقرآن مجيدنے بھى اشارہ کياهے کہ کج دماغ افرادفتنہ پھیلانے کے لئے متشابہات کاسہارالیتے ہيں اورانھیں کے ذریعہ فتنہ گرى کاکام انجام دیتے ہيں ۔
۳۔ انبياء کرام کے پیغامات پورے عالم انسانیت کے لئے هوتے ہيں اورعالم انسانیت کے مختلف درجات ہيں ،لہذا ایسے کلمات کاهوناضرورى تھا جن سے خواص استفادہ کریں اورعوام ا ن کے علم کوپروردگارکے حوالے کردیں اوراس طرح ان ميں تحصیل علم کابھى جذبہ پیداهو۔
اس مسلک کى کمزورى يہ هے کہ متشابہات خودبھى محکمات کے ذریعہ واضح هوجاتے ہيںتوتفویض کاکوئي سوال ہى نہيں پیداهوتاهے اورقرآن مجيدکے الفاظ کے دوطرح کے معانى نہيں ہيں کہ ايک معنى خواص کے لئے هواورايک معنى عوام کے لئے ۔ بلکہ اس کے ايک ہى معنى ہيں اوراس معنى کے درجات ہيں کہ جوجس درجہ فکرکاحامل هوتاهے اس اعتبارسے ا س معنى سے استفادہ کرتاهے ۔
حقيقت امريہ هے کہ پورے قرآن کى ايک تاویل هے جسے ہرشخص نہيںسمجھ سکتاهے اورحقائق قرآن اس تاویل کانام هے جس کاادراک مطہرون کے علاوہ کوئى نہيں کرسکتاهے اگرچہ قرآن مجيدکے مکلف تمام افرادہيں ليکن جس طرح مطہرون اپنى تکلیف پرعمل کرسکتے ہيں اس طرح دوسر ے ا فراد نہيں کرسکتے ہيں ۔
مثال کے طورپرقرآن مجيدنے حکم دياهے کہ ”اتقواللہ حق تقاتہ “ (خداسے اس طرح ڈروجوڈرنے کاحق هے )۔يہ ايک حکم عام هے جوتمام صاحبان ایمان اورعالم بشریت کے لئے هے ليکن مقام عمل ميں خواص کاتقوى اورهے اورعوام کاتقوى اور۔ خواص وعوام ميں مفهوم آیت کافرق نہيں هے ۔ مصداق اورحقیقت کافرق هے کہ ايک انسان اس غیبى حقیقت کامکمل ادراک کرلیتاهے اوردوسرے انسان اس ادراک سے عاجزاورمحروم رہتاهے ۔
اوراس کاايک رازيہ بھى هے کہ نفس کى طہارت علم سے حاصل هوتى هے اورعلم بلاعمل بیکارهوتاهے لہذا جب تک علم وعمل ميں کمال نہ پیداهوجائے انسان مطہرون کى منزل ميں نہيں آسکتاهے اورجب تک اس منزل ميںنہ آجائے حقائق تاویل کاادراک ممکن نہيں هے ۔
قرآن مجيدنے اسى ذہنى تربیت کے لئے اپنے احکام کوبالتدریج بيان کيا ۔ پہلے اصول عقائدسمجھائے ،اس کے بعدانفرادى عبادات کى دعوت دى اورآخرميں اجتماعى احکام پیش کئے اورسب کوايک دوسرے سے مربوط بنادياکہ اجتماعيات کافساد اصول معارف کوبھي فاسدکردیتاهے اوراسلام کے سارے فتنے اجتماعيات سے شروع هوئے ہيں اوران کاسلسلہ اصول ومعارف تک پهونچ گياهے ۔
تيسرانکتہ يہ بھى هے کہ قرآنى ہدایت تمام عالم بشریت کے لئے هے ۔ليکن تمام عالم بشریت اپنے علم وادراک ميںمتفاوت هے ۔ بعض لوگ محسوسات کى حدوں ميں محصورہيں اوربعض معقولات کى منزلوں تک پہنچ گئے ہيں ۔ کھلى هوئى بات هے کہ محسوسات کے قیدیوں کوبات محسوسات کے ذریعہ سمجھائى جائے گى اوراہل معقولات کو معقولات کے ذریعہ ۔ پھرمحسوسات سے معقولات تک پهونچانے کاذریعہ محکمات کوقراردياجاتاهے جس طرح کہ بچہ کو
ابتداميںشادى کاتصورحلوہ کے ذریعہ دياجاتاهے کہ يہ ايک شرینى اورحلاوت هے اوراس کے بعدذمہ داریوںکااحساس دلاياجاتاهے توایسى صورت ميں محسوسات کاذکربھى ضرورى هوتاهے اورمعقولات کا۔ ايک ابتداميں کام آتاهے اورايک انتہائى مرحلہ ميں ۔ اب اگرکوئى انسان ناقص هے ياناقص رہناچاہتاهے تومحسوسات ہى کى منزل پررک جاتاهے اورمعقولات تک نہيں جاتاهے اورنہ کسى کوجانے دیتاهے اوريہى فتہ انگیزى هے جومتشابہات کے بارے ميں استعمال کى جاتى هے ۔
واضح لفظوں ميں یوں کہاجائے کہ سطحى ذہن کوطاقت سمجھانے کے لئے ہاتھ،بصارت سمجھانے کے لئے آنکھ ،سماعت سمجھانے کے لئے کان ،اقتدارسمجھان کے لئے عرش وکرسى ،سخاوت سمجھانے کے لئے بسط ید ضرورى تھا اس کے بغیرحقیقت تک رسائى کاامکان ہى نہيں تھا ۔ ليکن ان الفاظ کے معانى کى حقیقت ظاہرى محسوسات سے ماوراء هے جہاں تک صاحبان عقل وفہم انھیں محسوس معانى کے ذریعہ پهونچ جاتے ہيں ، اورجب محکمات کے سہارے معانى کى مادیت کوالگ کردیتے ہيں توايک غیبى حقیقت سامنے آجاتى هے ليکن اسکے ادراک کے لئے محکمات کاسہاراضرورى هے اب اگرکوئى شخص محسوسات ہى تک محدود رہاناچاہتاهے يادوسروں کو دھوکادے کر يہيں تک محدودرکھناچاہتاهے تووہ محکمات کونظراندازکرکے خداکوجسم وجسمانیت والابنادیتاهے اوراس طرح خودبھى گمراہ هوتاهے اوردوسروں کوبھى گمراہ کرتاهے ۔ ليکن حقائق کے تلاش کرنے والے ان حجابات کوہٹاکرغیبيات کاادراک کرلیتے ہيں اوران عظیم ترمعانى کاتصورکرلیتے ہيں جن سے عام انسان محروم رہتے ہيں ۔
مزيدوضاحت کے لئے يہ عرض کياجائے کہ قرآن مجيدکے جملہ بيانات کے لئے عالم حقائق اورعالم غیب هے جس کوسمجھانے کے لئے مختلف وسائل اختيارکئے گئے ہيں اورعوام الناس کے لئے بہترین ذریعہ مثال هے کہ ان کاذہن بچپنے سے قریب ترهوتاهے اوربچے بات کومثال ہى سے سمجھتے ہيں اب عوام الناس کے بھى درجات ہيں لہذاايک ايک حقیقت کومختلف مثالوںسے سمجھاياجاتاهے تاکہ ذہن اس حقیقت کاادراک کرلے ۔ اس کے بعدبھى کبھى انسان حقیقت کاادراک کرلیتاهے اورکبھى مثالوں ہى ميں الجھ کررہ جاتاهے اوراسکو حقیقت سمجھ لیتاهے جوتمام تجسیم وتفویض وجبروغیرہ جيسے عقائد کے ماننے والے افرادکاحشرهواهے کہ انھوںنے اپنے کومحسوسات اورمثالوں ميں محدودکرديااورحقائق سے غافل هو کر مثالوں ہى کو حقائق کادرجہ دے دياهے جس کے نتیجہ ميں يہ بات بآسانى کہى جاسکتى هے کہ ايک ہى آیت محسوسات کے قیدیوں کے لئے متشابہات ميں هے اورمعقولات کاادراک رکھنے والوں کے لئے محکمات ميں هے کسى آیت کو مطلق طورپرمتشابہ نہيں کہاجاسکتاهے۔ ہاں مطلق طورپراورمحکمات کاوجودبہرحال پاياجاتاهے اوريہي وجہ هے کہ محکمات کے ذریعہ فتنہ گرى کاکام نہيں لياجاتاهے اورمتشابہات کواس کاذریعہ بناياجاتاهے ۔ رہ گئى تاویل توتاویل اس حقیقت کانام هے جسے ممثل قراردياگياهے اورجس کومختلف مثالوں کے ذریعہ سمجھاياگياهے ۔ اس کاالفاظ کے معانى سے کوئي تعلق نہيں هے ، اس کاادراک صرف صاحبان عقل وفہم اورراسخون فى العلم يامطہرون ہى کرسکتے ہيں ۔