کيا قرآن دستور  هے

واضح رہناچاہئے کہ جس طرح قرآن عام کتابوںکى طرح کى کتاب نہيںهے اسى طرح عام دساتیرکى طرح کادستوربھى نہيں هے دستورکاموجودہ تصورقرآن مجيدپرکسى طرح صادق نہيں آتااورنہ اسے انسانى اصلاح کے اعتبارسے دستورکہہ سکتے ہيں۔

دستورکى کتاب ميں چندخصوصيات هوتى ہيں جن ميں سے کوئى خصوصيت قرآن مجيدميں نہيں پائي جاتى هے۔

دستورکى تعبيرات ميں قانون دانوں ميں اختلاف هوسکتاهے ليکن دستورکے الفاظ ايسے نہيںهوسکتے جن کابظاہرکوئى مطلب ہى نہ هو اورقرآن مجيدميںحروف مقطعات کى يہى حيثيت هے کہ ان کى تفسیردنياکاکوئي بھى عالم عربيت يا صاحب زبان نہيں کرسکتا۔  

دستورميںايک مقام کوواضح اوردوسرے کومجمل نہيںرکھاجاتاکہ مجمل کى تشریح کے لئے واضحات کى طرف رجوع کياجائے اورکسى ايک دفعہ کابھى مستقل مفهوم نہ سمجھاجاسکے اورقرآن مجيدميںايسے متشابہات موجودہيںجن کااستقلالى طورپرکوئى مفهوم اس وقت تک نہيں بيان هوسکتا جب تک محکمات کونہ دیکھ لياجائے اوران کے مطالب پرباقاعدہ طہارت نفس کے ساتھ غورنہ کرلياجائے۔ 

دستورہمیشہ کاغذپرلکھا جاتاهے يااس چيز پرجمع کياجاتاهے جس پرجمع کرنے کا اس دوراوراس  جگہ پررواج هو۔دستورميںيہ کبھى نہيںهوتا کہ اسے کاغذپرلکھ کرقوم کے حوالے کرنے کى بجائے کسى خفيہ ذریعہ سے کسى ايک آدمى کے سینے پرلکھ دياجائے اورقرآن مجيدکي يہى حيثيت هے کہ اسے روح الامين کے ذریعے قلب پیغمبرپراتاردياگياهے۔             

دستورکسى نمائندہ مملکت کے عہدے کاثبوت اورحاکم سلطنت کے کمالات کااظہارنہيںهوتااس کى حيثيت تمام باشندگان مملکت کے اعتبارسے یکساںهوتى هے ۔قرآن مجيدکى يہ نوعیت نہيںهے ،وہ جہاںاصلاح بشریت کے قوانین کامخزن هے وہاںناشرقوانین مرسل اعظم کے عہدہ کاثبوت بھى هے۔ وہ ايک طرف انسانیت کي رہنمائى کرتاهے اوردوسرى طرف ناطق راہنماکے منصب کااثبات کرتاهے ۔  

دستورکاکام باشندگان مملکت کے اموردین ودنياکي تنظیم هوتاهے،اسلام کاکام سابق کے دساتیرياان کے مبلغین کى تصدیق نہيںهوتاهے اورقرآن مجيدکى يہ ذمہ دارى بھى هے کہ ايک طرف اپنى عظمت اوراپنے رسول کى برترى کااعلان کرتاهے تودوسرى طرف سابق کى شریعتوںاوران کے پیغمبروںکى بھي تصدیق کرتاهے۔

دستورتعلیمات واحکام کامجموعہ هوتاهے اس ميں گذشتہ ادوارکے واقعات ياقدیم زمانوںکے حوادث کاتذکرہ نہيںهوتاهے ۔ليکن قرآن کريم جہاںايک طرف اپنے دورکے لئے احکام وتعلیمات فراہم کرتاهے وہاںادوارگذشتہ کے عبرت خیزواقعات بھى بيان کرتاهے،اس ميں تہذیب واخلاق کے مرقع بھى ہيںاوربدتہذیب امتوںکى تباہى کے مناظربھى ۔!

دستورکے بيانات کاانداز حاکمانہ هوتاهے اس ميںتشویق وترغیب کے پہلوںکالحاظ نہيںکياجاتاهے ۔ اس ميں سزاؤںکے ساتھ انعامات اوررعايات کاذکرهوتاهے،ليکن دوسروںکے فضائل وکمالات کاتذکرہ نہيںکياجاتااورقرآن مجيدميںايسي آیتیںبکثرت پائى جاتى ہيںجہاںاحکام وتعلیمات کاتذکرہ انسانوںکے فضائل وکمالات کے ذیل ميںکياگياهے اورجواس بات کاواضح ثبوت هے کہ قرآن صرف ايک دستورکى کتاب ياتعزیرات کامجموعہ نہيںهے،اس کى نوعیت دنياکى جملہ تصانیف اورکائنات کے تمام دساتیرسے بالکل مختلف هے،وہ کتاب بھى هے اوردستوربھى ،ليکن نہ عام کتابوںجیسى کتاب هے اورنہ عام دستوروںجیسادستور۔

اوريہى وجہ هے کے اس نے اپنے تعارف ميںدستورجیساکوئي اندازنہيںاختيارکيابلکہ اپنى تعبیران تمام الفاظ والقاب سے کى هے جس سے اس کى صحیح نوعیت کااندازہ کياجسکے۔

سوال يہ پیداهوتاهے کہ پھرقرآن مجيدهے کيا؟۔ اس کاجواب صرف ايک لفظ سے دياجاسکتاهے کہ قرآن خالق کائنات کے اصول تربيت کامجموعہ اوراس کى شان ربوبیت کامظہرهے۔اگرخالق کى حيثيت عام حکام وسلاطین جیسى هوتى تواس کے اصول وآئین بھى ویسے ہى هوتے ۔ليکن اس کى سلطنت کااندازہ دنياسے الگ هے اس لئے اس کآئین بھى جداگانہ هے۔

دنياکے حکام وسلاطین ان کى اصلاح کرتے ہيںجوان کے پیداکئے هوئے نہيںهوتے،ان کاکام تخلیق فردياتربيت فردنہيںهوتا،ان کى ذمہ دارى تنظیم مملکت اوراصلاح فردهوتى هے اورظاہرهے کہ تنظیم کے اصول اورهوںگے اورتربيت وتخلیق کے ا صول اور۔اصلاح ظاہرکے طریقے اورهوںگے اورتزکيہٴ نفس کے قوانین اور۔

قرآن کے آئين ربوبيت هونے کاسب سے بڑاثبوت يہ هے کہ اس کى وحى اول کآغازلفظ ربوبيت سے هواهے۔

”اقراباسم ربک الذى خلق “ یعنى میرے حبیب تلاوت قرآن کآغازنام رب سے کرو۔ وہ رب جس نے پیداکياهے۔

”خلق الانسان من علق“ ۔ وہ رب جس نے انسان کوعلق سے پیداکياهے یعنى ايسے لوتھڑے سے بناياهے جس کى شکل جونک جیسى هوتى هے۔

”اقراٴوربک الاکرالذى علم بالقلم ۔“ پڑھوکہ تمہارارب وہ بزرگ وبرترهے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دي۔

”علم الانسان مالم یعلم۔“ آيات بالاسے صاف ظاہرهوتاهے کہ قرآن کآغازربوبیت سے هواهے۔ ربوبیت کے ساتھ تخلیق،مادہ تخلیق، تعلیم بالقلم کاتذکرہ اس بات کازندہ ثبوت هے کہ قرآن مجيدکے تعلیمات ومقاصدکاکل خلاصہ تخلیق وتعلیم ميں منحصرهے،اس کانازل کرنے والاتخلیق کے اعتبارسے بقائے جسم کاانتظام کرتاهے اورتعلیم کے اعتبارسے تزکيہٴ نفس کااہتمام کرتاهے۔

میرے خيال ميں(واللہ اعلم) قرآن مجيدميںسورہ حمدکے ام الکتاب هونے کارازبھى يہى هے کے اس ميںربوبیت کے جملہ مظاہرسمٹ کرآگئے ہيںاوراس کآغازبھى ربوبیت اوراس کے مظاہرکے ساتھ هوتاهے۔ بلکہ اسى خيال کى روشنى اس حديث مبارک کوبھى توجيہ کى جاسکتى هے کہ”جوکچھ تمام آسمانى صحیفوںميںهے وہ سب قرآن ميںهے، اورجوکچھ قرآن ميںهے وہ سب سورہ حمدميںهے۔“ یعنى قرآن مجيدکاتمام ترمقصدتربيت هے اورتربيت کے لئے تصورجزا۔ احساس عبدیت،خيال بیچارگي،کردارنیک وبدکاپیش نظرهوناانتہائى ضرورى هے ۔اورسورہ حمدکے مالک یوم الدین، اياک نعبد،اياک نستعین، صراط الذین انعمت عليہم، غیرالمغضوب عليہم ولاالضالين ميں يہي تمام باتیںپائى جاتى ہيں، حديث کے باقى اجزاء کہ”جوکچھ سورہٴ حمدميںهے وہ بسم اللہ ميںهے اورجوکچھ بسم اللہ ميںهے وہ سب بائے بسم اللہ ميں هے ۔“ اس کى تاويل کاعلم راسخون فى العلم کے علاوہ کسى کے پاس نہيں هے، البتہ ”اناالنقطة التى تحت الباء ۔“ کى روشنى ميں يہ کہاجاسکتاهے کہ خالق کى ربوبى شان کامظہرذات على بن ابي طالب هے اوريہى کل قرآن کامظہرهے۔

قرآن کريم اوردنياکے دوسرے دستوروںکاايک بنيادى فرق يہ بھى هے کہ دستورکاموضوع اصلاح حيات هوتاهے تعلیم کائنات نہيںیعنى قانون سازى کى دنياسائنس کى لیبارٹى سے الگ هوتى هے۔ مجلس قانون سازکے فارمولے اصلاح حيات کرتے ہيں اور لبارٹى کے تحقيقات انکشاف کائنات ۔ اورقرآن مجيد ميں يہ دونوںباتیںبنيادي طورپرپائى جاتى ہيں۔ وہ اپنى وحى کے آغازميں”اقراٴ“ ”علم “ بھى کہتاهے اور”خلق الانسان من علق “ بھى کہتاهے یعنى اس ميںاصلاح حيات بھى هے اورانکشاف کائنات بھي،اوريہ اجتماع اس بات کى طرف کھلاهوااشارہ هے کہ تحقیق کے اسرارسے ناواقف ،کائنات کے رموزسے بے خبرکبھى حيات کى صحیح اصلاح نہيںکرسکتے ۔ حيات کائنات کاايک جزء هے۔ حيات کے لوازم وضروريات کائنات کے اہم مسائل ہيں،اورجوکائنات ہى سے بے خبرهوگاوہ حيات کى کيااصلاح کرے گا۔ اسلامى قانون تربيت کابنانے والارب العالمين هونے کے ا عتبارسے عالم حيات بھى هے اورعالم کائنات بھي۔ تخلیق،علم کائنات کى دلیل هے اورتربيت ،علم حيات وضروريات کي۔

عناصرتربيت

جب يہ بات واضح هوگئى کہ قرآن کريم شان ربوبيت کامظہراوراصول وآئين تربيت کامجموعہ هے تواب يہ بھى ديکھناپڑے گاکہ صحيح وصالح تربيت کے لئے کن عناصرکى ضرروت هے اورقرآن مجيدميںوہ عناصرپائے جاتے ہيںيانہيں؟

تربيت کى دوقسميںهوتى ہيں  :  تربيت جسم ، تربيت روح۔

تربيت جسم کے لئے ان اصول وقوانین کى ضرورت هوتى هے جوجسم کى بقاکے ضامن اورسماج کى تنظیم کے ذمہ دارهوں۔ اورتربيت روح کے لئے ان قواعدوضوابط کى ضرورت هوتى هے جوانسان کے دل ودماغ کوروشن کرسکیں،اس کے ذہن کے دریچوںکوکھول سکیںاورسینے کواتناکشادہ بناسکیںکہ وہ آفاق ميںگم نہ هوسکے بلکہ آفاق اس کے سینے کى وسعتوںميںگم هوجائیں ” وفیک انطوى العالم الاکبر “ اے انسان !تجھ ميںايک عالم اکبرسمٹاهواهے۔   

اب چونکہ جسم وروح دونوںايک دوسرے سے بے تعلق اورغیرمربوط نہيںہيں،اس لئے يہ غیرممکن هے کہ جسم کى صحیح تربيت روح کي تباہى کے ساتھ ياروح کى صحیح تربيت جسم کي بربادى کے ساتھ هوسکے،بلکہ ايک کى بقاوترقى کے لئے

 دوسرے کالحاظ رکھناانتہائى ضرورى هے يہ دونوںايسي مربوط حقیقتیںہيں کہ جب سے عالم ماديات ميںقدم رکھاهے دونوںساتھ رہى ہيںاورجب تک انسان ذى حيات کہاجائے گادونوںکارابطہ باقى رهے گاظاہرهے کہ جب اتحاداتنا مستحکم اورپائدارهوگاتوضروريات ميںبھي کسى نہ کسى قدراشتراک ضرورهوگااور ايک کے حالات سے دوسرے پراثربھى هوگا۔        

ايسي حالت ميں اصول تربيت بھى ايسے ہى هونے چاہئیں جن ميں دونوں کى منفرداورمشترک دونوں قسم کى ضروريات کالحاظ رکھاگياهو۔ليکن يہ بھى يادرکھنے کى بات هے کہ وجودانسانى ميںاصل روح هے ا ورفروع مادہ ۔ارتقائے روح کے لئے بقائے جسم اورمشقت جسماني ضرروى هے ليکن اس لئے نہيںکہ دونوں کى حيثيت ايک جیسى هے بلکہ اس لئے کہ ايک اصل هے اورايک اس کے لئے تمہیدومقدمہ۔

جسم وروح کى مثال یوں بھى فرض کى جاسکتى هے کہ انساني جسم کى بقاکے لئے غذاؤںکااستعمال ضرورى هے ۔لباس کااستعمال لازمى هے،مکان کاهوناناگزیرهے۔ليکن اس کايہ مطلب ہرگزنہيںهے کہ غذاولباس ومکان کامرتبہ جسم کامرتبہ هے ۔بلکہ اس کاکھلاهوامطلب يہ هے کہ جسم کى بقامطلوب هے اس لئے ان چیزوںکامہياکرناضروري هے۔ بالکل يہى حالت جسم وروح کى هے، روح اصل هے اورجسم اس کامقدمہ۔

جسم اوراس کے تقاضوںميںانسان وحیوان دونوںمشترک ہيںليکن روح کے تقاضے انسانیت اورحیوانیت کے درميان حدفاصل کى حيثيت رکھتے ہيںاورظاہرهے کہ جب تک روح انسان وحیوان کے درميان حدفاصل بنى رهے گى اس کى عظمت واہمیت مسلم رهے گى ۔  

بہرحال دونوںکى مشترک ضروريات کے لئے ايک مجموعہ قوانین کى ضرورت هے، جس ميںاصول بقاوارتقاء کابھى ذکرهواوران اقوام وملل کابھي تذکرہ هوجنھوںنے ان ا صول وضوابط کوترک کرکے اپنے جسم يااپنى روح کو تباہ وبربادکياهے۔ اس کے بغیرقانون توبن سکتاهے ليکن تربيت نہيںهوسکتى ۔ دوسرے الفاظ ميںیوںکہاجائے گاکہ اصلاح وتنظیم کوصرف اصول وقوانین کى ضرورت هے ليکن تربيت روح ودماغ کے لئے ماضى کے افسانے بھى درکارہيںجن ميںبداحتياطي کے مرقع اوربدپرہیزى کى تصویریںکھینچى گئى هوں۔ قرآن مجيدميںاحکام وتعلیمات کے ساتھ قصوںاورواقعات کافلسفہ اسى تربيت اوراس کے اصول ميںمضمرهے۔

تربيت کے لئے مزيدجن باتوںکى ضرورت هے ان کى تفصيل يہ هے  :

۱۔ انسان کے قلب ميںصفائى پیداکى جائے۔

۲۔ اس کے تصورحيات کو ايک خالق کے تصورسے مربوط بناياجائے۔

۳۔ دماغ ميں قوت تدبروتفکرپیداکى جائے۔

۴۔ حوادث ووقائع ميں خوئے توکل اےجاد کى جائے۔

۵۔ افکارميں حق وباطل کاامتيازپیداکراياجائے۔

۶۔ قانون کے تقدس کوذہن نشین کراياجائے۔

۷۔ اخلاقى بلندى کے لئے بزرگوںکے تذکرے دہرائے جائیں۔

وہ قوانین کے مجموعہ کے اعتبارسے کتاب هے اورصفائے قلب کے انتظام کے لحاظ سے نور۔

قوت تدبرکے اعتبارسے وحى مرموزهے اورخوئے توکل کے لحاظ سے آيات محکمات ومتشابہات۔

تصورخالق کے لئے تنزیل هے اورتقدس قانون کے لئے قول رسول کريم ۔

امتيازحق وباطل کے لئے فرقان هے،اوربلندى اخلاق کے لئے ذکروتذکرہ۔

ان اوصاف سے يہ بات بالکل واضح هوجاتى هے کہ قرآن نہ تصنیف هے نہ دستور، وہ اصول تربيت کامجموعہ اورشان ربوبیت کامظہرهے ،اس کانازل کرنے والاکائنات سے مافوق،اس کے اصول کائنات سے بلنداوراس کااندازبيان کائنات سے جداگانہ هے۔

يامختصرلفظوںميںیوںکہاجائے کہ قرآن اگرکتاب هے توکتاب تعلیم نہيںبلکہ کتاب تربيت هے۔ اوراگردستورهے تودستورحکومت نہيںهے بلکہ دستورتربيت هے۔ اس ميں حاکمانہ جاہ وجلال کااظہارکم هے اورمربيانہ شفقت ورحمت کامظاہرہ زيادہ۔ اس کآغازبسم اللہ رحمت سے هوتاهے قہرذوالجلال سے نہيں۔ اس کاانجام استعاذہٴ رب الناس پرهوتاهے جلال وقہاروجبارپرنہيں۔

دستورحکومت کاموضوع اصلاح زندگى هوتاهے۔ اوردستورتربيت کاموضوع استحکام بندگي۔ استحکام بندگى کے بغيراصلاح زندگى کاتصورايک خيال خام هے اوربس۔

قرآن مجيدکے دستورتربيت هونے کاسب سے بڑاثبوت اس کى تنزیل هے۔ کہ وہ حاکمانہ جلال کامظہرهوتاتواس کے سارے احکام یکبارگى نازل هوجاتے اورعالم انسانیت پران کاامتثال فرض کردياجاتاليکن ایساکچھ نہيںهوابلکہ پہلے دل ودماغ کے تصورات کوپاک کرنے کے لئے عقائدکى آیتیںنازل هوئیں،اس کے بعدتنظیم حيات کے لئے عبادات ومعاملات کے احکام نازل هوئے،جب تربيت کے لئے جوبات مناسب هوئى کہہ دى گئي،جوواقعہ مناسب هواسنادياگيا،جوقانون مناسب هوانافذکردياگيا۔ جيسے حالات هوئے اسى لہجہ ميںبات کى گئى جوتربيت کاانتہائى اہم عنصراورشان تربيت کاانتہائى عظيم الشان مظہرهے۔