اس ميں کوئى شک نہيں هے کہ قرآن مجيدکسي بھى قسم کى تحريف وبے ترتيبى کاعقيدہ جمع وتدوین قرآن ہى سے پیداهواهے ورنہ کوئى بھى مسلمان اس بات کادعوى نہيں کرسکتاتھا کہ دور رسول اکرم ميںقرآن مرتب هواتھااوربعد ميں حکام جور نے اس کى ترتيب بدل ڈالى يا اس کى آيات کم کرديں ۔ يہ سب باتيں اسي وقت پیداهوتى ہيںجب اصل جمع وترتيب قرآن کاکام خلفاء اسلام اورحکام جورکے حوالے کردياجائے اوريہ عجیب بات هے کہ جن علماء تشیع نے تحريف ونقص قرآن پراتنازوردياهے ان کے يہاںجمع قرآن کي کوئى ايک روایت نہيںپائى جاتى هے۔
حقيقت امريہ هے کہ صدراسلام سے مذہبى تعصب نے مسلمانوں کے ذہنوں کوعمومى طورپرايک ايسے سانچے ميں ڈھال دياتھاجس ميں تحقيق سے زيادہ کام تردیدکاهورہاتھا،ہرشخص دوسرے کے مذہب کوباطل کرنے کى فکرميںتھااورمناظرانہ روش ذوق تفتیش پرغالب آگئي تھى ،علماء شیعہ کى بھى ايک بڑى جماعت اسي روش پرچل پڑى ۔ ان حضرات نے اس امرکى طرف توجہ نہيںکي کہ اس قسم کے روآيات سے اسلام کى بنيادیںمتزلزل هوجاتى ہيںبلکہ اغيارکى روآيات کاسہارالے کران پراعتراض کرناشروع کرديا۔ ابتداء ميںيہ کام علمى سطح پرمناظرانہ اندازسے هوتارہااورظاہرهے کہ مناظرانہ بحثوںميںفریق مخالف کے مسلمات پرزيادہ نظرهوتى هے اوراصل حقیقت پرکم۔ ليکن بعدکى آنے والى نسل نے اس نکتہ کونظراندازکرديااوراسي مناظرانہ بحث کوحقیقت کارنگ دے کرتحريف قرآن کے عقیدے کوجزء مذہب بناليااورایسامعلوم هونے لگاکہ جوشخص خلفاء کے جمع قرآن اوراس سلسلے ميں تحريف کاقائل نہ هوگوياوہ مسلمان ہى نہيں هے۔
ضرورت هے کہ اس جمع قرآن کے افسانے کى حقیقت کوتلاش کياجائے اوريہ دیکھاجائے کہ اس افسانے کى پشت پرکون سے عناصرکام کررهے ہيں۔ اس سلسلے ميںحسب ذیل امورقابل توجہ ہيں :
۱۔ يہ تاريخ کاکھلاهوامسلمہ هے کہ امير المومنين حضرت على نے تقاضائے بيعت کے جواب ميں يہ کہاتھا کہ ميں قرآن جمع کررہاهوں،اوراس سے يہ بات ظاہرهوگئى تھى کہ علي(ع) کى نظرميں قرآن کے جمع کرنے کاکام خلافت وحکومت سے زيادہ اہم هے۔ اس کے بابت ميںيہ بھى ايک تاريخى حقیقت هے کہ جب آپ نے وہ قرآن پیش کياتوحکام وقت نے قبول کرنے سے انکارکرديا۔ اہلبیت دشمن عناصرنے وضع حديث کے دورميںجب ان تاريخى حقائق پرنظرڈالى توايک عجیب وغریب کشمکش سے دوچارهوگئے ،ايک طرف حضرت على کااہتمام قرآن اوردوسرى طرف حکام وقت کى روش،جس سے يہ ظاہرهورہاتھاکہ ”حسبناکتاب اللہ“ حکومت کاقرآن سے کوئى رابطہ ہى نہيںهے اس لئے ان لوگوںنے اس فضیلت کوخلفاء کى طرف منتقل کرناشروع کرديااورہرخلیفہ کى دلچسپى کوظاہرکرنے کے لئے اس کى شان ميںحديثیںتيارهونے لگیںاوراس طرح ايک قرآن تین مرتبہ مرتب هوگيا۔ انھیںيہ بات يادنہ رہى کہ اس سلسلے ميںجوتفصیلات وضع کي جارہى ہيںان سے قرآن کاتقدس مجروح هورہاهے۔
واضعين حديث نے خلفاء وقت کے اہتمام سے زيادہ زوران کى احتياط پرديااوريہاںتک روایت تيارکرلي کہ دوايک آیتیںخودحضرت عمرکى بھى منظورنہيںهوئیںصرف اس بنيادپرکہ ان کے پاس دوگواہ نہيںتھے اوريہ بات بھول گئے کہ اس طرح خلیفہ وقت کاوقارخاک ميںمل جائے گااوردنيائے مستقبل يہ سوچنے پرمجبورهوجائے گى کہ جس شخص کاقول خوداس کى مقررکردہ کمیٹى کے نزدیک معتبرنہ هووہ قرآن کاترجمان اوراسلام کاسربراہ کیونکر هوسکتاهے۔
۲۔ ان روآيات کے وضعى هونے کى دوسرى اہم دليل يہ هے کہ انھیںجس اہتمام حفظ قرآن کے اظہارکے لئے وضع کياگياتھاان ميںوہ بات دوردورتک نظرنہيںآتى هے بلکہ اہتمام سے زيادہ باہمي اختلاف کاحصہ نظرآتاهے ۔ واضعین حديث کے پیش نظرکئى قسم کے کام تھے اہتمام حکومت ،مرتبہ صحابیت ،علم قرآن ،تحفظ سياسیت۔ اس لئے انھوںنے اپنى روایتوںميںتمام باتوںکابندوبست کيا،کسى کے دل ميںيہ احساس پیداکردياکہ اب قرآن کوجمع هوناچاہئے، کسي کومنتظم قرارديا،کسى کے علم کوظاہرکے نے کے لئے جمع قرآن کمیٹي کاممبربنايااورکسيکى شخصیت کوگرانے کے لئے اس کمیٹى سے نکال ديايہاںتک کہ ابن مسعودفريادکرتے رہ گئے اورکوئي سننے والانہ پیداهوا،ابن عباس کى شخصیت یکسرنظراندازهوگئى ،دوسرے صحابہ پردہ کرگئے اورقرآن الحمدکے ساتھ پس پردئہ تقدیرسے باہرآگيا۔ يہ اوربات هے کہ خلفاء وقت کاعلم،ان کااحساس ،ان کى صلاحیت اوران کااعتبارپردے ہى ميںرہ گيا۔
۳۔ ان روآيات کي سب سے بڑى کمزورى يہ هے کہ ان ميںقرآن کیٹيکايہ اعلان مسلسل درج هواهے کہ جس آیت کے دوگواہ نہ هوںگے وہ درج قرآن نہ کى جائے گى اوراس طرح اعتبارقرآن کودوگواهوںکے اعتبارسے مربوط کردياگياهے ۔ غورکرنے کى بات هے کہ اسلام کاابدى دستور،امت کاملجاوماوى ،احکام الہيہ کامصدرومرکزدوصحابیوںکے اعتبارکاممنون هوجائے اوروہ بھى دوايسے صحابى جن کے نام تک صفحہ تاريخ پرمحفوظ نہ هوںکہ اس آیت کى گواہى ميں کون دوبزرگ تشریف لائے تھے۔
واضح لفظوںميںیوںکہاجائے کہ اسلامى آئین کى روسے ہرحديث کى صحت وکمزورى کامرجع قرآن کریم کوقراردياگياهے اورقرآن کریم کاحال يہ هے کہ اس کى آیتیںدودوصحابیوںکى شہادت سے آیت مانى گئى ہيںتوکياایسى حالت ميںتین گواہ والى حديث کوقرآن کى آیت پرمقدم نہيںکياجائے گا؟ هوناتويہى چاہئے کہ اگرکسى حديث کے تین راوي هوںاوراس کامضمون کسى آیت قرآنى سے ٹکراجائے توحديث کومقدم کردياجائے اورآیت کوٹھکرادياجائے اس لئے کہ آیت کے آیت هونے پردوگواہ ہيںاورحديث کے حديث هونے پرتین گواہ ہيں۔ کيادنياکاکوئي بھى باذوق اورهوشمندمسلمان اس فیصلے پرراضى هوسکتاهے؟ اوراگرنہيںتوکيايہ بات تنہااس امرکازندہ ثبوت نہيںهے کہ تحريف قرآن اورجمع قرآن کاافسانہ صرف خیرخواهوںکى اےجادهے اسے نہ حقیقت سے کوئى واسطہ هے اورنہ عظمت اسلام سے۔
قيامت يہ هے کہ قرآن کے دوگواهوںکے نام تک تاريخ ميںمحفوظ نہيںہيںاورنہ کہيںيہ درج کياگياهے کہ اس آیت کے گواہ فلاںبن فلاںبزرگ تھے جب کہ حديث کے راویوںکے نام ونسب تک محفوظ ہيںتوگويامعلوم النسب افرادکى شہادت کے هوتے هوئے غیرمعلوم النسب افرادکى شہادت کومقدم کردياجائے گا؟ اوراگرایسانہيںهوسکتاتومانناپڑے گاکہ قرآن وحديث کے ٹکراؤميںہمیشہ حديث مقدم کى جائے گى اورآیت کوترک کردياجائے گا۔
انصاف سے بتلائئے کيااسلامى دستورکي توہین کااس سے بڑاکوئى افسانہ تيارهوسکتاهے اورکياجمع قرآن کى اس انوکھى فضیلت نے قرآن کى عظمت کوپامال نہيںکردياهے۔
معلوم يہ هوتاهے کہ غیراسلامى عناصرنے مسلمانوںکے درميان گھس کرانھیںايسے خرافات کے تسلیم کرنے پرآمادہ کردياهے جن سے ان کے مذہب کاتقدس اسى طرح ختم هوجائے گاجس طرح دیگرمذاہب کاتقدس مجروح هوچکاهے ۔ ورنہ جمع وترتيب قرآن کى کیفیت خودگواہ هے کہ اسے دنياکاکوئى بڑے سے بڑاانسان بھى مرتب نہيںکرسکتا۔ آيات ميںيہ نظم ونسق مضامین مین يہ ترتيب وتنظیم ،سوروںميںيہ اجمال وتفصیل سوائے الہامى طاقت کے اورکس کے بس کى بات هے يہ اوربات هے کہ قرآن مجيدميںکچھ ایسي آیتیںبھى پائى جاتى ہيںجن کابظاہرکوئى محل نہيںدکھائي دیتااوراسى بے ترتيبى سے جمع قرآن کے عقیدے کوتقویت پهونچتى هے ليکن ظاہرهے کہ دوچارآيات کابے ترتيب معلوم هونااوران کى تنظیم وترتيب کى مصلحت کاواضح هونااس بات کامتقاضى نہيںهے کہ سارے قرآن کے بے ربط اوربے ترتيب تسلیم کرلياجائے جب کہ دوسرى تمام آیتوںميںایسى حسین تنظیم پائي جاتى هے جسے جمع قرآن کمیٹى کے ارکان سمجھ بھى نہيںسکتے تھے ۔ اس اندازسے مرتب کرناتوبہت دورهے۔
واضح لفظوںميںيہ کہاجائے کہ جمع قرآن کیمٹى ميںکون ایسارکن هے جوچارآيات کے علاوہ قرآن کریم کى چھ ہزارآیتوںکى اتنى خوب صورتى اورترتيب کے ساتھ اپنى جگہ پربٹھاسکتاهوجب کہ آج دنياکابڑے سے بڑاحافظ ياقاري بھى کسى ايک آیت کواپنى جگہ سے ہٹاکردوسرى جگہ نہيںرکھ سکتاهے۔ عمرگذرجائے گى ليکن آیت کى جگہ نہ مل سکے گى اوريہى وجہ هے کہ جن حضرات نے بعض آيات کواپنى جگہ غیرمناسب اوربے ربط خيال کياهے وہ بھى آجتک ان آیتوںکى جگہ نہيںتلاش کرسکے۔ غورکرنے کى بات هے کہ آج دنياکے بڑے بڑے مفسرین،مفکرین،صاحبان بصیرت ايک آیت کى جگہ تلاش کرنے سے قاصررہيںاورکل ۲۰۔۲۱سال کے نوجوان غیرتعلیم يافتہ اپنى لياقت پیداکرلیںکہ چھ ہزارآیتوںکوان کى جگہ پربٹھادیں،
”ناطقہ سربہ گریباںهے اسے کياکہئے “
سوال صرف يہ رہ جاتاهے کہ اگرجمع قرآن کي داستان فرضى اورخلاف واقعہ هے توآخريہ قرآن کب،کس طرح اورکس کے حکم سے جمع هوا اوراسے يہ موجودہ شکل کس دورميںحاصل هوئي۔ اس کاجواب انشاء اللہ آئندہ صفحات ميںپیش کياجائے گا۔ في الحال ضرورت هے کہ جمع وتحريف قرآن کے بارے ميںخوداس کے نظرئے کاانکشاف کرلياجائے تاکہ تاريخ و روايات کے غير مستند و غير معتبر هونے کى صورت ميں اس نظريہ پر اعتماد کيا جا سکے۔