گذشتہ صفحات ميں اس بات کى طرف اشارہ کياجا چکا ہے کہ مالک کائنات نے اپنے نمائندوں کى نمائندگى کے اثبات کے لےے مختلف ذرايع اختيار کئے ہيں اور ہر بنى کو کوئى نہ کوئي ايسا کمال دے کر بھيجا ہے کہ جس سے اس کا امتياز ثابت ہو جائے اور اس دور کے سارے افراد کو يہ محسوس ہو جائے کہ يہ فوق البشر طاقت کا حامل ہے اور اس کے کمالات بشرى کمالات نہيں ہےں بلکہ ان کي پشت پر کوئى غيبى طاقت کام کر رہى ہے۔
اسي کا ر نماياں کا نام معجزہ ہے اور معجزہ کا وجود اسى لےے ضروري ہے کہ نبى يا امام کى نمائندگى ثابت ہو جائے اور سماج کو ان کى عظمت و برترى کا مکمل احساس ہو جائے ۔
يہ معجزات ہر دور ميں مختلف انداز کے رہے ہيں اور ان کى جامع صفت يہ رہى ہے کہ جس دور نے جس کمال ميں امتياز پيدا کيا ہے اس دور کے منصب دار کو اسى سے ملتا جلتا معجزہ ديا گيا ہے تاکہ پورے دور کو اندازہ ہو جائے کہ يہ بغير تجربہ و تمرين وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ہزاروں تجربات کے بعد ہم نہيں کر سکتے ہيں۔
سابق انبياء کے معجزات اور ہمارے نبى کريم کے معجزات کا ايک نماياں فرق يہ ہے کہ ان کى نبوتيں ختم ہو نے والي تھيں انھيں ايسے معجزات کى ضرورت تھى جو وقتي طور سے ان کى برترى کو ثابت کردے چاہے ان کے بعد ان کا وجود نہ رہ جائے اور ہمارے نبى کى نبوت صبح قيامت تک باقى رہنے والى تھي۔ آپ کو ايسے معجزہ کى ضرورت تھى جس کا سلسلہ صبح محشر تک قائم رہے۔ قرآن حکيم اسى مقصد کى تکميل کے لئے معجزہ بنايا گيا ہے۔
اس کے علاوہ سابق شرائع اور شريعت پيغمبر کا ايک نماياں فرق يہ بھى ہے کہ ان ادوار ميں انسانيت گھٹنيوں چل رہى تھي۔ اس کى ترقى محدود اور طول کے اعتبار سے انتہائى ناقص تھى اور حضور سرور کائنات کا دور شريعت قيامت سے مل جانے کى بناء پر اتنا وسيع ہے کہ اس ميں انسانيت کى ترقى کى رفتار تيز تر ہونے والي اور طولى اعتبار سے آسمانوں سے بات کرنے والى تھي۔ اس لےے آپ کو ايک ايسے معجزہ کى ضرورت تھى جس ميں جملہ علوم وفنون کا ذخيرہ اور بشرى ترقى کا جواب موجود ہو۔ تاکہ آئندہ آنے والى نسليں يہ نہ کہہ سکيں کہ قرآن اس دور ترقى کے لےے بے کار ہے اور اس ميں کوئى افاديت نہيں۔ قرآن مجيد اس ضرورت کى بھى تکميل کرتا ہے۔ اس کے دامن ميں ايسے عظيم مطالب و مفاہيم موجود ہيں جہاں تک ذہن بشر کى رسائى نہيں ہے اور جنکے ادراک سے کمال عقل بھى عاجز ہے اور اسى لےے اس نے اپنے چيلنج کو وقتى نہيں بنايا بلکہ اپنے ہى دامن ميں محفوظ کرليا تاکہ ہر دور ميں يہ آواز باقى رہے اور ہر زمانہ کا انسان اپنى اپني فکرى پرواز کے اعتبار سے اس کى عظمتوں کا اندازہ کرتا رہے۔ کوئى اسے فصاحت و بلاغت کا شاہ کار سمجھ کر اس کى عظمت کے سامنے سر تسليم خم کرے گا، کوئى اس کى غيبى خبروں پر ايمان لائے گا کوئى اس کے علمى اکتشافات کے سامنے سر جھکائے گا، کوئى اس کى عصرى ترقى سے بلندى پر اعتماد کرے گا اور اس طرح ہر دور ترقى ميں اس کى عظمت کااحساس برقرار رہے گا۔
کل کے افراد اس حقيقت کا تجربہ کر چکے ہيں اور آج کے انسانوں کے لےے اس کا چيلنج باقى ہے۔ کل کے فصحاء عرب اس کى عظمتوں کے سامنے سر جھکا چکے ہيں اور آج والوں کا سجدہٴ نياز باقى ہے۔ کيا تاريخ اس حقيقت سے انکار کر دے گى کہ جب کتاب حکيم کا جواب تيار کرنے کے لےے بلند ترين اديب کا تقرر کيا گيا تو اس نے بھى کئى دن تک غور کرنے کے بعد يہ اعلان کر ديا کہ يہ کلام بشر نہيں ہے يہ تو ايک جادو معلوم ہوتا ہے۔ جادو کہنا فيصلہ کرنے والے کى ذہن کى پستى ہے ورنہ حقيقت يہ ہے کہ جادو ميں وہ عظمتيں کہاں ہوتى ہےں جو قرآن کى فصاحت و بلاغت ميں پائى جاتى ہيں۔
جادو کى تاثير وقتى ہوتى ہے اور قرآن کريم کى فصاحت و بلاغت کا ڈنکا آج بھى بج رہا ہے۔ جادو کا توڑ عرب کے پاس موجود تھا ليکن معجزہ کا جواب ممکن نہيںتھا ورنہ ديوار کعبہ سے اپنے قصائد نہ اتارے جاتے۔
اتنے واضح حقائق کے ہوتے ہوئے بھى بعض تعصب پيشہ افراد نے عظمت قرآن کو مجروح کر نے کے لےے مختلف اعتراضات و احتمالات قائم کےے ہيںاور سب کى پشت پر ايک ہى جذبہ رہا ہے کہ کسى طرح کتاب کريم کى عظمت پامال ہو جائے اور دنيا اس کى برترى کا اقرار نہ کرسکے۔ ليکن يہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ ”واللہ متم نورہ ولو کرہ المشرکون۔“
صاحب عماد الاسلام نے اس موضوع پر کافى سير حاصل تبصرہ کيا ہے اور اعجاز قرآن پر بے شمار اعتراضات نقل کر کے ان کا جواب ديا ہے ليکن مجھے صرف ان چند اعتراضات سے غرض ہے جو آج کى دنيا ميں نقل کےے جاتے ہيں اور جنہيں لوگ اپنى قابليت کا شاہ کار سمجھتے ہيں ان اعتراضات کى مختصر فہرست يہ ہے:
۱۔قرآن مجيد ميں متعدد مقامات اےسے ہيں جہاں عربى قواعد کا لحاظ نہيں رکھا گيا اور جو کلام قوانين و قواعد کے خلاف ہوتا ہے اسے فصيح و بليغ بھى نہيں کہا جا سکتا چہ جائےکہ اسے معجزہ کا مرتبہ دے دےا جائے۔
اس اعتراض کا مختصر جواب يہ ہے کہ عربى زبان کے ادبى قواعد کچھ بندھے ٹنکے اصولوں کا نام نہيں ہے جن کى مخالفت کلام کو بلاغت و فصاحت سے خارج کردے بلکہ يہ قرآن مجيد کے نزول کے ايک عرصہ بعد اہل زبان کى استقرائى کوشش ہے جس ميں کلام عرب کا جائزہ لے کر اکثر کلمات کى نوعےت کو دےکھتے ہوئے کچھ قواعد مقرر کر دئے گئے ہيں اور بعد ميں آنے والى نسلوں نے اسى کا اتباع کيا ہے۔ ايسى صورت ميں يہ کس قدر مہمل بات ہے کہ عرب کے سارے کلام کو قوانين کا مصدر و مدرک تسليم کيا جائے اور قران حکيم کو نظر انداز کر دےا جائے۔يہ صورت حال تو خود اس بات کى دليل ہے کہ قانون سازوں نے مکمل استقراء نہيں کيااور اس کلام کى طرف سے بے توجہى برتى ہے جو عربى زبان کى جان اور ادب کى روح ہے۔
اس دعوى کا واضح ثبوت يہ ہے کہ جب آيات قرآنيہ کو عرب کے ادبى شاہکارکے مقابلے ميں پيش کيا گيا تو ان لوگوں نے اپنے قصائد اتار لئے اور قرآن کے ما فوق البشرہونے کا اقرار کر ليا۔اسکا جواب لانے سے عاجز ہونے کا اعتراف کيا اور واضح لفظوں ميںاشارہ کردےا کہ جس کلام ميں اہل زبان کو گنجائش اعتراض نہيں ہے اس کلام پر بعد کے آنے والے قانون و قواعد کے غلاموں کو انگلي اٹھانے کا حق کيونکر ہو سکتا ہے۔
يہيں سے اس اعتراض کى حقےقت بھى بے نقاب ہو جاتى ہے کہ کلام کي فصاحت و بلاغت اور اسکے اسلوب و انداز کو صرف خواص ہى محسوس کر سکتے ہيں اور معجزہ اس غےر معمولى مظاہرہ کا نام ہے جسکا ادراک عوام وخواص سب کے لئے برابر ہوتا ہے کہ سب ايمان بھى لاسکيں ۔
اس لئے کہ يہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے کہ معجزہ کو عوام و خواص سب کے لئے يکساں طور پر معجزہ ہونا چاہئے ليکن اسکا مطلب صرف يہ ہے کہ اس کا جواب لانے سے دونوں طبقے يکساں طور ہر عاجز ہوں۔نہ يہ کہ دونوں ادراک ميں مساوى ہوں اور برابر سے معجزہ ہونے کا احساس رکھتے ہوں۔ ايساہونا تو غےر ممکن ہے اس لئے کہ نہ دونوں کاذہن ايک سطح پر آسکتا ہے اور نہ دونوں کا ادراک و احساس برابر ہو سکتا ہے۔ بلکہ يہى عدم مساوات معجزہ کے کمال کى دليل ہے کہ عوام تو عوام ،خواص بھى اسکا جواب لانے سے قاصر ہيں اور جس بات کے لاجواب ہونے کا اقرار کواص کو ہو عوام کے اقرار نہ کرنے کا کوئى محل ہى نہيں ہے۔
۲۔قرآن مجيد کا بيان ہے کہ وہ واضح و فصيح عربى زبان ميں نازل ہوا ہے اور عرب دنيا کے سارے کمالات سے عارى فرض کےے جاسکتے ہيںليکن اپنى زبان سے بہر حال واقف و با خبر تھے۔ ايسى حالت ميں يہ کيونکر ممکن ہے کہ نظم و نثر ہرقسم کے کلام کى ترتيب پر قادر ہوں اور تنہا قرآن ہى کے جواب لانے سے قاصر ہوں۔ معلوم يہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس کلام کو قابل توجہ ہى نہيں سمجھا۔ يا قابل توجہ سمجھ کر جواب دياتھا اور بعد ميں وہ جواب زمانہ کى دستبرد کا شکار ہو گيا اور آئندہ نسلوں تک نہيں پہونچ سکا۔
واضح سى بات ہے کہ اس اعتراض کے تين گوشے ہيں۔ پہلا رخ يہ ہے کہ عرب نثر و نظم پر قادر تھے تو قرآن کا جواب لانے پر بھى قادر رہے ہونگے يہ اور بات ہے کہ جواب نہيں لائے اور جواب نہ دينا کسى کلام کے لا جواب ہونے کى دليل نہيں ہے۔
اس اعتراض کا جواب يہ ہے کہ يہ بات دنيا کے ہر ادب ميں پائى جاتى ہے جہاں اہل زبان الگ الگ کلمات کى ترکيب پر مسلم طور پر قادر ہوتے ہيں ليکن کسى ايک کلام کا مثل لانے سے عاجز رہ جاتے ہيں۔ اردو کا کونسا اديب يا شاعر ہے جس نے نظم و نثر ميں اپنے ما فى الضمير کا اظہار نہ کياہو ليکن کيا کسى کى مرصع نثر ’طلسم ہوشربا‘ اور ’فسانہ عجائب‘ بن سکي۔ کوئى محمد حسين آزاد کى سى نثر لکھ سکا، کسى کى عبارت ميں ابو الکام آزاد کا جلال تحرير اور مير امن کى سادگى پيدا ہوسکي۔ کوئى شاعر اقبال کى فکر اور جوش کى گرج پيدا کرسکا، کسى کے يہاں غالب کا فلسفيانہ تغزل اور انيس کا شگفتہ مزاج ديکھنے ميں آيا۔ ذوق کا آہنگ اور مير کا ترنم اب بھى کانوں ميں رس گھول رہا ہے حالانکہ سب کے سب اسى زبان کے نثر نگار اور شاعر ہيں جس کے اديبوں کى فہرست مرتب کرنا دشوار ہے، اور يہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کلمات و فقرات پر قدرت اور ہے اور مرتب کلام پيش کردينے پر اختيار اور۔
اس مقام پر يہ تصور نہ کياجائے کہ ايسى حالت ميں ديوان غالب اور مرثيہ انيس کو بھى معجزہ تسليم کرلينا چاہئے کہ ان کا جواب بھى اردو ادب ميں نہيں پيدا ہوسکا۔ اس لےے کہ ان ميں معجزہ کى بنيادي شرطوں کا فقدان پايا جاتا ہے معجزہ کى پہلى شرط يہ ہے کہ اسے دعوئے نبوت و امام کے ثبوت ميں ہونا چاہيے اور يہاں کسى شاعر نے منصب الہى کا دعوى نہيں کيا بلکہ حق و انصاف کى بات يہ ہے کہ اگر ايسا دعوى کر ديا ہوتا تو حکمت الہيہ کا فرض تھا کہ يہ قوت فکر سلب کرلے اور ايسا کوئى کلام منظر عام پر نہ آنے دے جو حق و باطل ميں التباس و اشتباہ کاسبب بن جائے اور طالبان حقيقت کى راہ ميں سنگ راہ واقع ہوجائے۔
دوسري اہم شرط يہ ہے کہ معجزہ کسى مشق و تمرين کا نتيجہ نہيں ہو سکتا وہ ايک غيبى امداد اور قدرتي تائيد ہے جو صرف اپنے نمائندوں کے ساتھ رکھى جاتى ہے اور بس۔ اور کھلى ہوئى بات ہے کہ ان تمام اديبوں اور شاعروں کا ابتدائى کلام ہمارے پيش نظر ہے يا ہميں اس کي اطلاع ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کا کمال فن مشق و مہارت کا نتيجہ تھا اور اس کو براہ راست غيبى امداد حاصل نہ تھى جبکہ معجزہ براہ راست غيبى ترجمانى ہى کا نام ہوتا ہے۔
اعتراض کا دوسرا گوشہ يہ ہے کہ عرب اس قرآن کا جواب لانے پر مکمل اختيار رکھتے تھے ليکن انہوں نے کوئى توجہ نہيں کي يا توجہ کى ليکن حالات نے جواب نہيں لکھنےء ديا اور مسلمانوں کو اقتدار و اختيار اس راہ ميں حائل ہو گيا۔
اس اعتراض کا تاريخى جواب يہ ہے کہ جواب لانے والوں نے توجہ دى اور جواب لانے کى کوشش بھى کى اور آخر ميں اسے ما فوق البشر کہہ کر اپنى عاجزى کا اقرار بھى کر ليا۔ اسلام و کفر کے درميان معرکہ آرائيوں کا انکار کيونکر کيا جاسکتا ہے اور اس حقيقت سے کيونکر چشم پوشى کى جاسکتى ہے کہ رسول اسلام کو جنگ و جدل اور تير و تلوار سے کہيں زيادہ آسان طريقہ يہى تھا کہ ان کے معجزہ کى حقيقت کو بے نقاب کر ديا جائے اور جس بنياد پر وہ اپنے نمائندہٴ الہى ہونے کا دعوى کر تے ہيں اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھينک ديا جائے ۔ ليکن ايسا کچھ نہيں ہوا اور جنگ کا ميدان گرم ہوتا رہا۔ جس کا مطلب ہى يہ ہے کہ دشمن آسان طرز جواب پر قادر نہيں تھا اور مجبوراً اسے جنگ و جدل کا راستہ اختيار کرنا پڑا تھا۔
قدرت کے بعد مسلمانوں کے جاہ و جلال کى بناء پر جواب ظاہر نہ کرنے کى بات انتہائى مضحکہ خيز ہے۔ مسلمانوں کا جاہ جلال اعجاز قرآن کے کامياب ہو جانے کانتيجہ ہے اور رسول اسلام کا چيلنج اس عہد کا ہے جب آپ مکہ کى گليوں ميں پتھر کھا رہے تھے اور کانٹوں پر راستہ چل رہے تھے ۔ ايسے حالات ميں کس قدر آسان تھا کہ ان کے معجزہ کا جواب پيش کرکے ان کى دليل کو باطل کر ديا جاتا اور وہ جاہ جلال پيدا ہى نہ ہوسکتا جسے بعد کے حالات ميں خطرہ بتايا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بھى مسلمانوں کے خوف کى بات عجيب وغريب ہي ہے اس لےے کہ انھيں مسلمانوں کے عہد ميں اہل کتاب کي کتابيں محفوظ رہيں، انھيں مسلمانوں سے کفار نے طاقت آزمائياں کى ہيںپھر کيا وجہ ہے کہ کسى مقام پر مسلمانوں کا خوف غالب نہيں ہوا، اور صرف کتاب حکيم کا جواب لانے کے لےے يہ خوف آڑے آگيا۔
اعتراض کا تيسرا رخ تاريخ کے ظلم اور اس کى خيانت سے متعلق ہے جہاں مدعى کا يہ خيال ہے کہ اہل عرب نے کتاب حکيم کا جواب پيش کرديا تھا ليکن زمانے کے حالات نے اسے تلف کر ديا اور وہ آج ہم تک نہ پہونچ سکا۔ ظاہر ہے کہ يہ رخ کسى جواب کا مستحق نہيں ہے اور نہ اس پر کوئى دليل قائم کى گئي ہے جسے باطل کرنے کا اہتمام کيا جاتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس توہّم نے جبر تاريخ کى روشنى ميں ايک اہم حقيقت کاپتہ دے ديا۔
قانون جبر تاريخ اس بات کا گواہ ہے کہ جب بھى کسى دور ميں کوئى ايسا واقعہ پيش آيا ہے جس ميں زندہ و پايندہ رہنے کى صلاحيت اور دوام و استقرار کى استعداد پائى گئى ہے تو تاريخ نے تمام موانع کے على الرغم واقعہ کو زندہ رکھا ہے اور صفحہ ہستى سے مٹنے نہيں ديا ہے۔
اسلامي تاريخ ميں اس کاواضح ثبوت واقعہ کربلا ہے جس کے مٹانے کے لےے صديوں تک اسباب فراہم کےے گئے ہيں، حکومتوں نے زور صرف کيا ہے۔ اقتدار نے طاقت آزمائى کى ہے تخت و تاج کي بازى لگائى گئى ہے۔ اہل حق سے قيد خانوں کو آباد کيا گيا ہے باطل کو مکمل چھوٹ دے کر حق کے دہن پر قفل لگائے گئے ہيں ليکن اس کے با وجود اس کے سرمدى عناصر کى بنا پر تاريخ نے اسے زندہ رکھا ہے اور باطل کى ہواوٴں سے اس شمع کو بجھنے نہيں ديا۔
ايسے حالات ميں قرآن حکيم کے مقابلہ ميں پيش ہونے والا کلام اگر اتنا ہى جاندار ہوتا جتنا جاندار قرآن حکيم ہے تو تاريخ اسے بھى اسى طرح زندہ رکھتى جيسے اس نے اس کتاب کو زندہ رکھا ہے ليکن ايسا کچھ نہ ہوسکا اور قرآن زمانے کى تيز و تند ہواوٴں اور حکومتى خواہشات کے جھگڑوں کى زد پر اپنى پورى تابناکيوں کے ساتھ زندہ رہ گيا۔ اور اس کا مذموم جواب فنا کے گھاٹ اتر گيا، يا عدم کے پردہ ميں رو پوش ہوگيا جو اس بات کازندہ ثبوت ہے کہ قرآن ميں زندگى کے عناصر ہيں اور ان جوابات ميں ايسے عناصر نہ تھے۔
اس سے زيادہ واضح بات يہ ہے کہ بعض مختصر جوابى فقرات و کلمات اب بھى تاريخ ميں درج ہيں جو اس بات کا ثبوت ہيں کہ زمانے نے جوابات کى بقاء پر پابندى نہيں عائد کي تھى اور انھيں اپنى گود ميں اسى لےے محفوظ کر ليا تھا کہ آنے والا دور فيصلہ کرسکے کہ قرآن حکيم اور ان منتشر کلمات ميں کيا نسبت ہے اور کسے معجزہ کا درجہ ديا جا سکتا ہے۔
بعض انگور کو کھٹا کہہ دےنے والے يہ بھى کہہ ديتے ہيں کہ قرآن مجيد ميں کوئى شوکت الفاظ، جذالت و سلاست او رروانى و آسانى نہ تھى يہ امتداد زمانہ اور کثرت استعماکل کا اثر ہے جو وہ اسقدر رواں دواں معلوم ہوتا ہے اور دنيائے اسلام اس کى سلاست و جذالت کا پرچار کر رہى ہے۔ اس کى طرح دوسرا کلام بھى صبح و شام تلاوت کيا جاتا تو اس ميں بھي وہى روانى ہوتى جو قرآن حکيم ميں پائي جاتى ہے۔ مگر افسوس کہ ايسا نہ ہوسکا اور ديگر بيانات و کلمات زمانے کى بے رخى کى نذر ہو گئے۔ ليکن يہ بات خود بھى ميرے دعوى کى ايک دليل ہے کہ دنيا نے قرآن حکيم کو اپنا اسے مرکز تلاوت قراٴت بنايا ليکن دوسرے کلمات کو اہميت نہيں دى اور اس کے طرز عمل نے فيصلہ کرديا کہ کونسا کلام گلے لگانے کے قابل ہے اور کونسا کلام نسياں کى نذر کر دينے کے لايق ہے۔
اس کے علاوہ اس اعتراض کى سب سے بڑى کمزورى يہ ہے کہ اس ميں کثرت استعمال کوسلامت و روانى اور انس ذہنى کا سبب قرار ديا گيا ہے حالانکہ فطرت بشر کا مسلّم فيصلہ ہے کہ کوئي بھى کلام کثرت تکرار سے اپنا اثر و لطف کھو بيٹھتا ہے اور لوگ اس کى طرف زيادہ توجہ نہيں کرتے۔ ايک قصيدہ ايک ايک وقت ميں نادر و ناياب معلوم ہوتا ہے ليکن دوسرے وقت ميںوہى قصيدہ انتہائى مہمل اور بے معنيٰ معلوم ہوتاہے۔ صرف اس لےے کہ پہلے ابتدائى طور پر سنا تھا او ہر جديد ميں لذت ہوتى بھى ہے اور اب کئي مرتبہ سننے کے بعد سنا ہے اس لےے طبيعت اس کى طرف مائل نہيں ہوتى اور اسے وہ جذب و کشش حاصل نہيں ہے جو ابتدائى طور پر ہوا کرتى ہے۔
۳۔ قرآن کريم کى اعجازى حيثيت پر تيسرا اعتراض يہ ہے کہ اس کے بيانات ميں تضاد اور اختلاف بکثرت پايا جاتاہے اور الہامى کتاب کو ايسا نہيں ہونا چاہئے تضاد کى چند مثاليں يہ ہيں:
ا۔ جناب ذکريا کے واقعہ ميں ايک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ ”آيتک الّا تکل الناس ثلاثة ايام الا رمزاً“۳۔۴۱، اور دوسرے مقام پر بيان کيا گيا ہے ”آيتک الا تکلم الناس ثلاث ليال سويا“۔۱۹۔۱۰
يعني ايک مقام پر علامت تين دين کے سکوت کو قرار ديا گيا ہے اور دوسرے مقام پر تين رات کے سکوت ہو۔ جب کہ دونوں صورتوں ميں مقدار سکوت ميں قطعى طور پر فرق ہو جائے گا۔
ظاہر ہے کہ اس اعتراض کى تمام تر بنياد يہ ہے کہ عربى زبان ميں يوم کا تصور ليل کے تصور سے بالکل مختلف ہے اور قرآن مجيد نے دونوں کو ايک مرکز پر جمع کر دياہے، حالانکہ اس کے خلاف شواہد خود قرآن مجيد ميں موجود ہيں جہاں يوم ليل و نہار کے مجموعہ کو بھى کہا گيا ہے اور ليل کے مقابلہ ميں تنہا نہار کو بھي۔ اور اسى طرح ليل کا استعمال مجموعہ کے لےے بھى ہوا ہے اور تنہا شب کے لےے بھى ۔
اہل نظر ان مقامات کا مطالعہ کرنے کے بعد خود فيصلہ کرسکتے ہيں کہ قرآن حکيم کے بيانات ميں کوئى تضاد نہيں ہے بلکہ سارا تضاد انسانى فکر و فہم کا ہے جس نے بيان پر نظر کرنے کے بعد حالات کو قطعى طور پر نظر انداز کر ديا ہے۔
بعينہٖ اس قسم کا اعتراض خلقت ارض وسماء کے بارے ميں ہے جسے ايک مقام پر چھ دن کا نتيجہ عمل قرار ديا گيا ہے اور دوسرے مقام پر اس سے کم۔ حالانکہ وہاں بھى کوئى تضاد نہيں ہے فرق صرف يہ ہے کہ ايک مقام پر اجمالى طور پر چھ دن کا تذکرہ ہوا ہے، اور دوسرى جگہ پر اس کى تفصيل بيان کرتے ہوئے بعض اہم اجزاء کا تذکرہ کيا گيا ہے اور دوسرے غير اہم اجزاء کو ترک کر ديا گيا ہے۔
ب۔ مسئلہ جبر و اختيار کے بارے ميں قرآن مجيد کا موقف واضح نہيں ہے۔ کسى مقام پر افعال عباد کو بندوں کى طرف سے منسوب کيا گيا ہے اور ”اما شاکراً و اما کفوراً“ ۔ ”فمن شاء فليومن ومن شاء فليکفر“ جيسے اعلانات کئے گئے ہيں، اور کسى مقام پر ان تمام باتوں کو رب العٰلمين کى طرف منسوب کر ديا گيا ہے اور صاف صاف کہہ ديا گيا ہے ”و ما تشاوٴن الا ان يشاء اللہ“ ۔ ۔۔ کل من عند ربنا ۔۔۔۔ ختم اللہ على قلوبہم۔۔۔ ۔وغيرہ۔
اس اعتراض کى مکمل تجزيہ کے لئے بڑى تفصيل درکار ہے۔ اجمالى طور صرف يہ کہا جاسکتاہے کہ بندوں کے اعمال و افعال ايک درميانى کيفيت کے حامل ہيں ۔ ان ميں حيات و استعداد، صلاحيت وقوت رب العالمين کا عطيہ ہوتى ہے۔ وہ زندگى کو موت سے بدل دے تو کوئى عمل خير نہيں ہو سکتا۔ وہ طاقتوں کو سلب کرکے مشلول و مفلوج بنا دے تو کسى معصيت کا امکان نہيں ہے۔ ليکن وہ ايسا نہيں کرتا بلکہ اس نے خير و صلاح کو سامنے رکھتے ہوئے حيات و استعداد دے کر قوت و طاقت کوبرقرار رکھا ہے۔ اور اسکے بعد انسان کي قوت ارادى کو آگے بڑھا کر اعلان کر ديا ہے کہ طاقت دے دينا ہمارا کام تھا۔ صرف کرنا تمہارا کام ہے۔ استعداد و قابليت ہمارى ہے اور اختيار وانتخاب تمہارا ہوگا۔ ايسے حالات ميں ان افعال کو عبد و معبود دونوں کى طرف منسوب کيا جاسکتا ہے ليکن مالک نے طاقتوں کا ذخيرہ سپرد کرتے وقت يہ بتايا تھا کہ ہمارا مقصد خير و برکت کى ايجاد۔ اور صلاح و نيکى کى تخليق ہے۔ اس کے خلاف استعمال ہماري مرضى کے قطعى خلاف ہوگا۔ اس لےے اس نے اپنے منشاٴ کے مطابق استعمالات کو اپنى طرف منسوب کيا ہے اور اپنى مرضي کے خلاف استعمالات کى تمام تر ذمہ دارى بندوں کے سر رکھي ہے۔
واضح لفظوں ميں يہ کہا جا سکتا ہے کہ اعمال کى بنيادي حيثيت ميں عبد و معبود دونوں کا حصہ ہے، ايک کي استعداد ہے تو دوسرے کا اختيار۔ليکن اعمال کي اخلاقى و سماجى يا مذہبى حيثےت ميں دونوں کے راستے الگ الگ ہو جاتے ہيں۔خير و صلاح کے راستے پر خدا بھي بندے سے اتفاق رکھتا ہے اس لےے اسے دونوں کى طرف منسوب کيا جا سکتا ہے اور شر وفساد کى راہ ميں دونوں کا موقف الگ الگ ہو جاتا ہے اس لےے اسے صرف بندے کى طرف منسوب کيا جائے گا۔معبود کى طرف نہيں ۔
قرآن حکيم کى آيات ميں يہ بات نماےاں طور پر دےکھى جاسکتى ہے اور اس تجزيہ سے صاف اندازہ کيا جاسکتا ہے کہ دونوں کى طرف اعمال کى نسبت ميںکس کمال احتےاط سے کام ليا گيا ہے اور عبد و معبود کے ذاتى کمال و نقص کو کس طرح پيش نظر رکھا گيا ہے۔
ج۔ قرآن مجيد ميںمشرق و مغرب کا تصور واضح نہيں ہے ايک مقام پر يہ لفظ مفرداستعمال ہوا ہے جس جسے معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب ايک ايک ہے۔دوسرے مقام پر رب المشرقےن والمغربےن ۔کہا گيا ہے جسکا مطلب يہ ہے کہ مغرب و مشرق ايک ايک کے بجائے دو دو ہي۔تيسرے مقام
پر ”مشارق الارض و مغاربھا“کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے کئي کئى مشرق و مغرب کا اندازہ ہوتا ہے۔اور يہى کلام کا تضاد کہا جا تا ہے۔
بظاہر يہ بات لگتى ہوئى نظر آتى ہے ليکن اس کے حقےقى تجزيہ کے لےے دو باتوں پر نظر رکھنا ضروري ہے۔پہلى بات يہ ہے کہ قرآنى عقےدہ کى بنا پر يہ کائنات کسى ايک کرہ يا آسمان کا نام نہيں ہے بلکہ اس کائنات ميں بے شمار زمين و آسمان، لاتعداد کروات وافلاک اور انگنت نظامہائے شمسى پاےے جاتے ہيں اور کھلي ہوئى بات ہے کہ نظام ہائے شمس کى جتنى تعداد بڑھتى جائے گى مشرق ومغرب کى تعدادميں اضافہ ہوتا جائے گا۔
اس کے علاوہ خود زمين کا مشرق و مغرب بھى کوئى معين و محدود نقطہ نہيں ہے بلکہ حالات و فصول کے اعتبار سے اس ميں تغير ہوتا رہتا ہے اور اس اعتبار سے اسے واحد، تثنيہ، جمع ہر لفظ سے تعبير کر سکتے ہيں اور اس ميں کوئى فنى کمزورى نہيں ہے ۔
دوسري بات يہ ہے کہ قرآن حکيم کوئى جغرافيہ کي کتاب نہيں ہے کہ اس ميں ہر جگہ ايک ہى بات ايک ہى ٹکنيکل انداز سے بيان کى جائے بلکہ اس کا مقصد تربيت انسانيت اور پرورش کائنات ہے اس لےے اس کا فرض ہے کہ کائنات کي پہنائيوں ميں چھپے ہوئے حقائق کو حسب موقع و محل منتخب کرے اور دنيائے عقل وہوش کے سامنے پيش کرے۔ مناسب ہو تو مفرد تذکرہ کيا جائے۔ مقتضائے حال بدل جائے تو تثنيہ کا صيغہ استعمال کيا جائے اور بات کثرت ہى سے بنتى ہے تو ذہنوں کو تمام مشارق و مغارب کى طرف متوجہ کر ديا جائے۔
قرآن کريم کے بيانات ميں تضاد و تناقض ثابت کرنے کے لئے اس طرح کے بے شمار بيانات منتشر طور پر موجود ہيں اور عيسائي مبلغين نے اس سلسلہ ميں بے حد سعى کى ہے کہ کتاب حکيم ميں تضاد کى بحث اٹھا کر دنيا کى نگاہيں انجيل کے مصنوعى خرافات کى طرف سے ہٹا دى جائے۔ حالانکہ ايسا کچھ نہ ہو سکا اور انجيل کے جعلى بيانات اہل نظر کى نگاہ ميں رسوا ہو کر رہ گئے۔
حيرت تو ان علماء اسلام پر جنہوں نے تضاد کا تجزيہ کرنے کے بجائے نہايت آسانى کے ساتھ ہر مقام پر نسخ کاعقيدہ اختيار کر ليا ہے۔ نسخ ايک حقيقت بھى ہے اور ضرورت بھي۔ ليکن ہر ضرورت کا محل و موقع ہوتا ہے۔ يہ کوئي ضرورى نہيں ہے کہ جہاں کسى اعتراض کا جواب سمجھ ميں نہ آئے وہيں يہ کہہ ديا جائے کہ يہ آيت دوسرى آيت سے منسوخ ہو گئى ہے۔
مسئلہ نسخ کا مکمل تجزيہ بعد ميں کيا جائے گا اور وہاں علماء اسلام کى اس کوتاہى دامن کو واضح کرتے ہوئے بتايا جائےگا کہ نسخ ايک قانونى ضرورت ہے اسے کوتاہى نظر کى سپر کا درجہ نہيں ديا جاسکتا۔
امام حسن عسکري﷼ نے اس عقدہ کو نہايت ہى حسن وخوبصورتى کے ساتھ حل فرمايا ہے۔ آپ کو اطلاع دى گئى کہ ايک فلسفى نے قرآن مجيد کے بيانات ميں مختلف مقامات پر اختلاف ثابت کرکے تضاد قرآن پر ايک کتاب تاليف کر دى ہے اور مسلمانوں کے عقائد خطرے ميں پڑ گئے ہيں۔ تو آپ نے ايک شخص کو معمور کيا کہ وہ فلسفى سے صرف اتنا دريافت کرے کہ تونے جس تضاد کو ثابت کيا ہے اس کا تعلق قرآن مجيد کے ان معانى سے ہے جو تيرے ذہن ميں آئے ہيں يا ان معانى سے ہے جو ان الفاظ سے مالک قرآن کى مراد ہے۔ اگر تضاد معانى ميں ہے جو تيرے ذہن کى پيداوار ہيں تو اس کى کوئى ذمہ دارى قرآن حکيم پر نہيں ہے اور اگر اس تضاد کا تعلق ان معانى سے ہے جو رب العالمين مراد لئے ہيں تو يہ پہلا اور بنيادى سوال ہے کہ تجھے ان معانى کى اطلاع کہا ں سے ہو گئي؟۔ اور جب اس اطلاع کا کوئى مدرک و ماخذ نہيں ہے تو تجھے تضاد ثابت کرنے کا کوئى حق نہيںہے۔
قرآن مجيد تو واضح لفظوں ميں اعلان کر رہا ہے:
لو کان من عند غير اللہ لوجدوا فيہ اختلافاً کثيراً۔
اگر يہ قرآن غير خد اکى طرف سے نازل ہوتاتو اس ميں بے حد تضاد و اختلاف پايا جاتا۔
يعني تضاد کا نہ ہونا ہى دليل ہے کہ يہ الہامى اور خدائي کتاب ہے اور اس کى تنزيل و ترتيب ميں کسى بندے کا دخل نہيں ہے۔
اس روايت ميں اس بات کى طرف بھى اشارہ کيا گيا ہے کہ حقائق قرآن تک پہونچنا ہر ماہر لسانيات کے بس کا کام نہيں ہے۔ فلسفى لغت و ادب کے
زور سے الفاظ کے معانى کا اندازہ کر سکتاہے ليکن حقائق تک نہيں پہونچ سکتا اور اختلاف و اتحاد بيان کا تعلق حقائق اور مرادات سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہرى معانى و مفاہيم سے۔
قرآن حکيم کو ظاہرى الفاظ کے معانى تک محدود کر ديا جائے اور اس کے معانى کو واقعى حقائق و مرادات سے الگ کر ديا جائے تو ايسے اعتراضات کا دفع کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا ضرورت ہے کہ قرآن حکيم کے ان واقعى مقاصد پر ايمان رکھا جائے اور انکي عظمتوں کا اقرار کيا جائے۔ اسى کا نام تاويل قرآن ہے اور يہى مرجع تعليمات و احکام ہے۔ اور يہي تاويل و مقصديت اشارہ کرتى ہے کہ قرآن حکيم کا حقيقى علم امت کے پاس نہيں ہے بلکہ اس کا واقعي ذخيرہ ذريت پيغمبر کے سينے ميں محفوظ کيا گيا ہے جس کى طرف حضور سرور کائنات نے وقت آخر اشارہ کر ديا تھا کہ :
”ميں تم ميں دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جاتا ہوں، ايک کتاب خدا اور ايک ميرى عترت اور ميرے اہل بيت۔ جب تک ان سے متمسک رہوگے گمراہ نہيں ہو سکتے۔ اور حقائق کتاب تم تک پہونچتے رہيںگے۔“!