اسباب تحريف

          جہاں تک ميں نے غورکيا ہے اورعلماء اسلام کے بيانات سے اندازہ کياہے اسلام ميں تحريف قرآن کاعقيدہ پانچ بنيادوںپرگردش کررہاہے اورہرتحريف قرآن کے معتقد وں نے انھيں ميں سے کسى ايک بات پراعتمادکياہے ۔ يہ پانچوںباتينبنيادى اعتبارسے ايک دوسرے سے مختلف ہيںبعض تاريخى ہيںاروبعض سياسى ،بعض سادگى کانتےجہ ہيںاوربعض مذہبى عصبےت کا۔ تفصيل ملاحظہ ہو :

          ۱۔ حضوراکرم کے ارشادات ميں بارباراس تاريخى حقيقت کااظہارکياگياہے کہ جوباتينسابق امتوںميںگذرى ہيںاورجوجوکرداران لوگوںنے اختيارکيا ہے وہ طرےقئہ کاراس امت والے بھى اختيارکرےںگے ان ميںذرہ برابرفرق نہ ہوگا۔ حد يہ ہے کہ اگران ميںسے کوئي کسى جانورکے سوراخ ميںگھس گياہے تويہ تارےخ بھى اس امت ميںدہرائى جائے گى ۔ اورجب يہ بات مسلم ہوگئى تواس ميںکسى شبہ کى گنجائش نہيں ہے کہ دورسابق کى امتوںنے اپنى آسمانى کتابوںميںتحريف کى ہے لہذااس حادثہ کوبھى اس امت ميںمکررہوناچاہےے اوريہ بلابھى اس امت کے سرپرنازل ہونى چاہےے چنانچہ ہوابھى ۔ جےساکہ بعض روايات سے اندازہ ہوتاہے کہ جب حضوراکرم روزقيامت اپنى امت سے سوال کرےںگے کہ تم نے مےرے بعدقرآن واہلبےت کے ساتھ کياسلوک کياتوامت کے بہت سے لوگ جواب دےںگے کہ عترت کوقتل کرديااورقرآن کوتحريف کرديا۔!

          بظاہريہ استدلال بہت ہى وقےع اورباوزن معلوم ہوتاہے ليکن جب اس کے تفصيلات پرغورکياجاتاہے تواس کى کوئى حققےت نہيںرہ جاتى ہے اس لےے کہ اولاتو تحريف کى چھ قسميںہيںاورسب سے اہم قسم تحريف کي معنوى ہے جوبہرحال امت قرآن ميںواقع ہوئى ہے ،لہذا اس کے بعدسابق امتوںکى مساوات کے لےے مزےدکسى تحريف کے عقےدے کي ضرورت نہيںہے۔ اوراگراس بات پراصرارکياجائے کہ سابق امتوںميں تحريف لفظى بھى ہوئى ہے لہذا اس امت بھى ہوني چاہےے توگذارش يہ کى جائے گى کہ سابق امتوںنے تواپني کتابوںميںتحريف زيادتى بھى کى ہے جےساکہ ان کى کتابوںانبياء کى شراب نوشي،عياشى وغےرہ کے تذکروںسے اندازہ ہوتاہے (العياذباللہ) جب کہ امت اسلاميہ ميںکوئي شخص بھى قرآن کے بارے ميںيہ عقيدہ نہيںرکھتاہے ۔ علاوہ اس کے کہ سابق امتوںميںبہت سے اےسے واقعات گذرے ہيںجوبےعنہ اس امت ميںنہيںپےش آئے ۔ سابق امتوںنے گوسالہ کوخدابناياہے ۔ اپنے نبى کوخداياخدا کابےٹاکہاہے۔ اپنے رسول کواپنى نظرميںسولى پرچڑھاياہے اوراس امت ميںاس قسم کاکوئى واقعہ پےش نہيںآياہے۔

          دوسرى سب سے اہم بات يہ ہے کہ سابق امتوںکے کردارکى دوقسميں ہيں : ايک وہ قسم ہے جس کاتعلق امت کے ذاتى کردارسے ہے ،ظاہر ہے کہ اس کے دہراے جانے ميںمذہب کاکوئى نقصان نہيںہے اس لئے ان واقعات کااعادہ بھى ہوسکتاہے اورقدرت اس اعادہ کوبرداشت بھى کرسکتى ہے ليکن ايک وہ بھى قسم ہے جس کے اعادہ سے بنياد مذہب کے متزلزل ہوجانے کااندےشہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس اعادے کااس مالک کومقابلہ کرناپڑے گاجواپنے مذہب کوتاقيام قيامت باقى رکھناچاہتاہے ۔سابق دورميںاورآج کے دورميںايک بنيادى فرق يہ ہے کہ اس وقت انبياء کاسلسلہ جاري تھا اس لےے ايک امت اپنے دستور کوتباہ کردےتى تھي تودوسرانبى آکراس کى اصلاح کردےتاتھا اوررسول قرآن کے بعد کسي دوسرے رسول کے آنے کاامکان نہيں ہے پھراس وقت کادستوربھى وقتي ہواکرتاتھااس لےے اس کى معيادختم ہوجان کے بعد اس ميںترمےم وتحريف ہو،يااسے دريابردکردياجائے قدرت پراس کاتحفظ لازم نہيں تھا اورشرےعت اسلام کادستورےعنى قرآن کرےم قيامت تک کے لئے ہے لہذااس کاتحفظ قيامت تک خالق کائنات کے ذمہ ہے جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ قدرت کسى ايسى ترمےم وتحريف کوبرداشت نہيںکرسکتي جودستورکى صورت کومسخ کردے اوراس کى ابدےت کوفناکے گھاٹ اتاردے جےساکہ سابق امتوںميںاس بات کا امکان تھا ۔!

۲۔اس ميںکوئى شک نہيں ہے کہ عترت پےغمبرکے روايات ميںاےسے بے شمارفقرات پائے جاتے ہيںجن سے يہ شبہ ہوتاہے کہ موجودہ قرآن اپنى اصلى حالت پرباقي رہابلکہ اس ميںسے بہت سے کلمات اورفقرات حذف کردےے گئے ہيں۔ مثلاايک مقام پرارشادہوتاہے کہ”بلغ ماانزل الےک من ربک فى على “ ۔يا۔ ”ان علياامےرالمومنےن “۔يا۔” کفى اللہ القتابعلي(ع)“ وغےرہ۔ اوردوسرے مقامات پريہ جملہ ملتاہے کہ” ھکذانزلت“۔ يہ آےت ےوںہى نازل ہوئى ہے ۔ظاہرہے کہ نازل ہونے کالفظ ہى بتارہاہے کہ يہ جملہ تنزےل قرآن ميںشامل تھا اوربعدميں الگ کردياگياہے بالخصوص اس وقت جب کہ اس قسم کے تمام فقرات فضائل آل محمدکے مٹانے کى ہرکوشش کى ہے اوراس سلسلے ميںدولت واقتدارکے صرف کرنے ميںکوئى دقےقہ اٹھانہيںرکھاہے۔

ليکن ان تمام باتوں کے باوجودان روايات ميں تين باتين قابل توجہ ہيں :   

۱۔ ان روايات ميںاکثررواياتےںوہ ہيںجن کااعتبارثابت نہيںہے اس لےے ان کى کثرت اورتعدادسے متاثرہونے کى کوئى وجہ نہيںہے۔

۲۔ ان روايات ميںاگر”نزلت“سے مراداس کے اصلاحى معنى ہيںاورمقصديہ ہے کہ آےت ميںيہ فقرہ موجودتھا اوربعدميںگرادياگياہے تو خود آئمہ معصومين نے اپنے قرآن ميںان فقرات کااضافہ کےوںنہيںفرماياجب کہ آيات فضائل کى اہمےت آيات صوم وصلوةسے زيادہ تھي ۔ آيات صوم وصلوةکاتغےرفروعى مسئلہ کومجروح کررہاتھا۔ اورآيات فضےلت کا تغےراصولى مسئلہ پراثراندازہورہاتھا ۔ آج کے مقامات پربعض مقامات پرجواوراق پائے جاتے ہيںاورجنھےںمختلف معصومين کى طرف نسبت دى جاتى ہے کسى قرآن ميںبھى اس قسم کے فقرات کاوجودنہيںملتا۔ اس ميںکوئى شک نہيںہے کہ آئمہ معصومين (ع)مروج قرآن کے علاوہ کوئى قرآن رائج کردےتے تواسلام کادستوربھى دوحصوںپربٹ جاتا ليکن يہ ناقابل قبول ہے کہ وحدت اسلاميہ کوباقى رکھنے کے لےے تحريف شدہ دستورکے رواج کوباقى رکھاجائے۔ اےسے دستورسے کيافائدہ ہے  جواصل مقصدکى ترجمانى نہ کرسکے ،کيآئمہ معصومين نے اپنے ادوارميںاسلام کى خاطراس سے بڑے اقدامات نہيںکےے ،کياامےرالمومنےن کے دورحکومت ميںجمل وصفےن کے زبردست معرکہ نہيںہوئے ،کياخلفاء ثلاثہ کے اقدامات پرتنقےدنہيںہوئى اورجب يہ سب کچھ ہواہے تواس تنزےل کوحضرت على نے کےوںواضح نہيںکياہے،اس کى نسبت عمومابعدکے ائمہ کى طرف کےوںپائى جاتى ہے يہ ايک لمحہ فکريہ ہے جوانسان کواس بات کى طرف متوجہ کرتاہے کہ اسلام کے غےرمخلص عناصرنے ان تاوےلى فقرات کوتنزےل کاجزء بناکرياتوقرآن کوغےرمحفوظ دستوربناناچاہا ہے ياخودآل محمدکو نفس پرستى اورخواہش بزرگى ورياست سے متہم کرناچاہاہے ۔

۳۔ ميرى نظرميں”ھکذانزلت“ يہ آےت اس طرح نازل ہوئى ہے يااسي طرح نازل ہوئى ہے ۔ اس کاوہ مطلب ہى نہيں ہے جوعام طورسے مرادلياجاتا ہے۔ مثال کے طورپرےوںسمجھ ليجئے کہ آپ نے ايک جملہ استعمال کيا اورلوگوں نے اس کے غلط معنى مرادلے کرمشہورکردئے اوراس کے بعدجب آپ کوپھر دوبارہ موقع ملاتوآپ نے اس جملے کے ساتھ ايک تفسيري جملے کااضافہ کرديااورفرماياکہ ميں نے اس طرح کہاتھا ،ياميں نے يہ کہا تھا،توکيااس کامقصديہ ہوتاہے کہ يہى مرادميري پہلے بھى تھى ،فرق يہ ہے کہ اس وقت ميںنے سامعےن کے ذہن پراعتمادکرلياتھا اورجب يہ واضح ہوگياکہ سامعےن غلط تفسيرپرآمادہ ہيںتوميںيہ تفسيرى جملہ بڑھائے دےتاہوں۔ بعےنہ يہى نوعےت ائمہ معصومين کے ارشادات کى تھى کہ جب سياست زمانہ نے آيات فضائل کارخ دوسرى طرف موڑدياتوائمہ معصومين نے حاشيہ کے طورپران فقرات کااضافہ کردياتاکہ مےرے وابستگان پريہ واضح رہے کہ يہ آےت اس مفہوم کے ساتھ نازل ہوئي ہے، اوراس کاوہ مفہوم ہرگزنہيںہے جوابناء سياست مرادلے رہے ہيں۔!   

۳۔ علماء اہل سنت نے بھى بکثرت ايسي حديثں نقل کى ہيں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ قرآن مجےدميںبہت کچھ تغےروتبدل ہوگياہے ،بعض مقامات پرالفاظ بدل گئے ہيں،بعض مقامات برآيتيں کم ہوگئى ہيں اوربض جگہوںپرتوسورے کاسورہ بے ربط ہوگياہے ياکم ہوگياہے۔

 تفصيل درج ذيل ہے :

 

يہ قرآن ناقص ہے۔ابن عمر (درمنثور )

سورہ احزاب سورہ بقرکے برابرتھا۔ ابى ابن کعب (لقمان)

عثمان نے سورہ احزاب کے آےتےںکم کردى ہيں۔ ا م المومنےن عائشہ(محاضرات راغب)

قرآن ميںچندسورے کم ہوگئے ہيں۔ ابوموسى (مستدرک حاکم،درمنثور )

سورہ برائت اول سے مع بسم اللہ کم ہوگياہے ۔ مالک (مستدرک حاکم) ،اب يہ سورہ صرف ۴/۱رہ گياہے ۔(درمنثور)

بعض آيات ناقص ہيں۔ (جامع الاصول جزرى ،ترمذي ،سےوطي)

آےت رجم کم ہے ۔ عمربن الخطاب (صحيح بخارى کتاب الحدود،محاضرات راغب ،اتقان ،موطا،مسنداحمدبن حنبل)

آےت رجم ورضاع بکرى کھاگئى ۔ حضرت عائشہ (محاضرات راغب)

آےت جہادساقط کردى گئى ۔ ابن عوف (اتقان ،درمنثور،جمع الجوامع ،کنزالعمال)

سورہ توبہ سے اصحاب کے عےوب نکال دےے گئے۔ (درمنثور،تفسيرکبير)

صف اول کى نمازکم ہوگئى ہے۔ (اتقان سےوطي)

ازواجہ امہاتہم کے ساتھ ابوت پےغمبرکاذکرکم ہوگياہے۔ (درمنثور)

صلوةعصرکاذکرنکل گياہے ۔ حضرت عائشہ (صحيح مسلم،فتح البارى ،موطا)

عمربن الخطاب فاسعوالى ذکراللہ کوفامضواالى ذکراللہ پڑھتے تھے ۔(موطا،درمنثور)

قرآن ميںبعض غلطياںپائى جاتى ہيں جنھےںعنقرےب عرب درست کرلےںگے۔ حضرت عثمان(تفسيرثعلبى ،مشکل ابن قتےبہ ،درمنثوررواےت عبدالاعلى ،ابوداؤد رواےت عکرمہ ،اتقان ازعکرمہ ،ابن انبارى ،ابن اشتہ کتاب المصاحف)

سورہ واللےل ناقص ہے ۔ ابودرداء (صحيح مسلم ،بخاري،ترمذي)

مصحف عثمان جلادےنے کے قابل ہے ۔ ابن مسعود(محاضرات راغب)

ابن ثابت کافرہے اسے قرآن نہيںدياجاسکتا۔ ابن مسعود(فتح ا لبارى ابن حجرعسقلاني)

          غرض امت کے جمع قرآن پراےمان لانے ولى قوم نے کتاب الہى کوبھى صحيح ووسالم نہيںرہنے ديااوراس ميںہرطرح کاعےب کردکھايا۔ حدہوگئى جب خود جامع قرآن ،قرآن ميںغلطےوںکااعلان فرمارہے ہيںتوباقى لوگوںکاکياذکرہے ۔!

۴۔ تحريف قرآن کے نظريہ کوفروغ دےنے ميںسب سے زيادہ ہاتھ مذہبى تعصب اورفرقہ وارانہ تنگ نظرى کاتھا ۔ خلےفہ سوم کے دورميںجب قرآن کرےم کو ايک قرائت پرجمع کرکے باقى مصاحف کونذرآتش کردياگيااورمسلمانوںميںاس آتش زدگى کے خلاف جذبات نفرت برافروختہ ہونے لگے توبنواميہ نے اپنے مقتول خلےفہ کى حماےت ميںيہ پروپےگنڈہ شروع کردياکہ مسلمان عثمان غنى کوکتناہى براکےوںنہ کہيںان کاامت اسلاميہ پرايک اےسااحسان ہے جو صبح قيامت تک بھلايانہيںجاسکتاہے اوروہ يہ ہے کہ انھوںنے منتشرآيات قرانى کوجمع کرکے ايک کتاب کى صورت دےدى ہے ۔ ا وراس پروپےگنڈہ کوشام کي مشےنرى کے ذرےعے ا تنى اہمےت دى گئى کہ عثمان جامع قرآن کے قافيہ سے مشہورہوگئے اورصحاح ومسانےدعامہ کى وہ تمام رواےتےںتقرےبابےکارہوگئےںجن خلےفہ اول ياخلےفہ دوم کے دورميںجمع قرآن کاتذکرہ تھا ۔ نتےجہ يہ ہواکہ عثمان کے مخالفےن نے جذبات کى روميںبہہ کريہ دےکھناچھوڑدياکہ اس پروپےنگڈے کى بنياد کياہے اوراس ميںکن عناصرکاہاتھ ہے ،بلکہ انھوں نے بھى يہ کہناشروع کردياکہ چونکہ قرآن کوعثمان نے جمع کياہے اس لےے اس ميںانتہائى بے ربطى ،بے ترتےبى اوربدعنوانى پائى جاتى ہے ۔ عثمان ميںاس اہم کام کى صلاحےت ہرگزنہ تھى جسے انھوںنے اختيارکياتھااوراس طرح بنى اميہ کے اسلام دشمن عناصرکامدعا حاصل ہوگيا۔ اب امت اسلاميہ کے لےے دوہى راستے رہ گئے ،اگرعثمان کوجامع قرآن مان کرقرآن کى صحت وسلامتى پراےمان لے آئےںتوگويااموى حاکم کے شرمندہ احسان ہوگئے اوراس کى لياقت پراےمان لے آئے ،اوراگرقرآن کوغےرمرتب ،بے ربط اورغےرمنظم تسلےم کرلےںتواس کامطلب يہ ہے کہ اسلامى دستوربے مصرف اورالہى آئےں بے مقصدہوگياارويہ بھى بنواميہ کاايک اہم مقصدہے۔

          جمع قرآن کے پروپےکنڈہ کے ايک اہم رازيہ بھى تھا کہ اس طرح حضرت عثمان کے قرآن کى آتش زدگى کے عےب کوچھپاناتھا اورامت اسلاميہ کويہ باورکراناتھا کہ اگرحضرت عثمان نے باقى صحےفے جلانہ دےے ہوتے توآج اسلام ميںقرآنوںکاايک ہنگامہ ہوتا اورامت اسلاميہ دستورکے مسئلہ ميںبھى متعدد حصوںميںتقسےم ہوجاتى ۔ حالانکہ کھلى ہوئى بات ہے کہ قران کوايک قرائت پرجمع کرانااورہے اورمنتشرآيات وسورکاجمع کرنااور۔ ايک قرائت کے قرآن کونشرکرنے کے لےے يہ قطعى غےرضرورى تھا کہ باقى قرآنوںکونذرآتش کردياجائے جب کہ اس سے زيادہ محترم طرےقے اسلام ميںموجودتھے اورخودايک نسخے کى اشاعت بھى تھوڑے دنوںکے اندردوسرے نسخے کاکالعدم بناسکتى تھى ،جےساکہ حکومتي تاوےلوںنے ائمہ معصومين کى تفاسےرکوتقريباکالعدم بناديا۔

عثمان کے احراق مصاحف کى داستان حسب ذيل کتب ميںملاحظہ کي جاسکتى ہے: مشکوة،روضةالاحباب،روضةالصفا،بخارى ،مداراج النبوة،تارےخ ابن واضح ،سيوطي)۔

۵۔ مذہبى تعصب اورفرقہ وارانہ تنگ نظرى سے زيادہ خطرناک عنصراسلام دشمن پروپےنکڈہ کاہے۔ حضورسرورکائنات نے آغازتبلےغ ہى ميںاس بات کوواضح کردياتھاکہ آج کے يہودونصارى کے پاس جوتورےت وانجےل موجودہے يہ قطعى طورپرآسمانى کتابےںنہيںہے،اس ميںاضافے کےے گئے ہيں،ترمےمات کى گئى ہيں اوران کى اصل صورت مسخ کردى گئى ہے ۔ اس بات نے دوقوموںپردومختلف اثرڈالے۔ مسلمان قوم پريہ اثراہواکہ ا س کے دل ميںيہودونصارى کے کردارسے نفرت پےداہوئى اوراپنے دستورکے تحفظ کاجذبہ ابھرا،اوردےگراقوام پريہ اثراہواکہ وہ قرآنى تقدس کے پےچھے پڑگے ۔ پہلے يہ فکرہوئي کہ کسى طرح اس ميںسے اپنى بدکردارےوںکاتذکرہ نکال دياجائے جےساکہ اہل انطاکيہ کے وفدکى آمدسے ظاہرہوتاہے ۔ اورجب يہ طے ہوگياکہ اس ميںکسى قسم کى تحريف وترمےم ممکن نہيںہے تومسلمانوںميںگھس کراےسے پروپےگنڈے شروع کردےے جس اسلامى تقدس مجروح ہوجائے ۔ سرکاردوعالم کى وفات کے بعد يہ سلسلہ شروع ہوگياتھا ليکن اس کى حےثےت صرف ايک رےشہ دوانى کى تھي اس کے بعد جب شام کے حاکم معاويہ ابن ابى سفيان نے حدےث سازى کاکارخانہ کھولا توان عناصرکوکام کرنے کاکھلاہواموقع ہاتھ آگيا۔ معاويہ کے کارخانے کامال اس ترتےب سے برآمدہوتاتھا پہلے خلےفہ اول کي شان کى حديثں،اس کے بعدخلےفہ دوم کى شان کى حديثں،اس کے بعد خلےفہ سوم کے فضائل ومناقب واس کے بعدخلےفہ چہارم کے عےوب ونقائص۔

          معاويہ دےن وديانت سے اجنبى ہونے کى بنيادپراس بات کى طرف قطعامتوجہ نہيںہوتاتھاکہ ان روايات کااسلام پرکيااثرپڑرہاہے بلکہ اس کاتمام ترمقصد ومدعايہ تھا کہ پہلے اپنوںکى مدح کرائى جائے اس کے بعدغےروںکى مذمت ،اوريہي وجہ ہے کہ جمع قرآن کے سلسے ميںبھى يہى ترتےب باقي رہي۔ پہلے اس کام کوخلےفہ اول کى طرف منسوب کياگيا،اس کے بعدخلےفہ دوم کى طرف اورآخرميںخلےفہ سوم کى طرف ،اوران سب کى پشت پريہى ايک جذبہ رہاکہ اہلبےت کى مخالفت کرکے دنياپرواضح کردياجائے کہ جمع قرآن ميںان کاکوئى حصہ نہيں ہے۔

          اب چونکہ حضرت عثمان کاتعلق معاويہ کے خاندان سے تھا اس لےے ان کے فضائل کى ورايات نے زيادہ زورپکڑليااوروہ جامع قرآن مشہورہوگئے۔  اورپھر يہ شہرت اس حدتک بڑھى کہ جامع قرآن ،عثمان کادوسراقافيہ بن گيا۔

          سادہ لوح عوام نے يہ سوچناہى چھوڑدياکہ اس پروپےگنڈے کى پشت پرکون سى طاقت کام کررہى ہے اوراس سے اسلامى دستورحيات کس قدرمجروح ہوگا نتےجہ يہ ہواکہ ايک عرصہ کے بعدجمع قرآن کى رواےت اتنى ہى مسلم ہوگئي جتنى مسلم رواےت عبداللہ بن سباکے کارناموںکى ہے کہ آج اگرکوئي شخص ابن سباکے وجود پراعتراض کرتاہے توطبرى وغےرہ ميںواقعات کي ترتےب وتنظےم ايک کھلے ہوئے انکاربرآمادہ کردےتى ہے ۔ ظاہرہے کہ جوتارےخ ابن سباکے کارناموںکواس سلےفہ کے ساتھ تيارکرسکتى ہے وہ جمع قرآن کى داستان بھى بآسانى وضع کرسکتى ہے،پھرجب کہ دونوںکاتعلق مذہب معاويہ کے دواہم ارکان سے تھا جمع قرآن کاتعلق فضائل خلفاء سے تھااورابن سباکاتعلق نقائص مذہب اہلبےت سے۔

          معاويہ نے اس بات کوقطعى طورپرنظراندازکردياتھاکہ اس طرح کى بے پناہ حديثںہى واقعہ کى عظمت کوگھٹانے کے لےے کافى ہيں۔ ايک قرآن تين مرتبہ جمع نہيںکياجاتااوراگرجمع بھى کياجاتاہے تودوسرى تدوےن پہلى تدوےن کے نقص کي دلےل ہوتى ہے جس کامطلب يہ ہے کہ اگريہ کام تينوںخلفاء نے اپنے اپنے دورميںکياہے توکسى کاکام بھى معتبرنہيںرہا،اوراگرکسي ايک ہى نے کياتھا توتينوںکى طرف انتساب رواےت کے ضعف کى زندہ دلےل ہے۔

          ضرورت ہے کہ اس موقع پرجمع قرآن کى روايات پرايک عبورى نظرکرلى جائے اوراس کاايک مختصرخاکہ ذہنوں ميں رکھ لياجائے ۔ ان روايات کے خصوصيات حسب ذيل ہيں:

۱۔ يہ تقرےبا۳۰ رواےتےںہيںجن کے سب کے سب راوى اہل سنت ميںسے ہيں،علماء تشےع کاان روايات سے کوئى تعلق نہيںہے۔

۲۔ ان روايات ميںيہ طے نہيںہوسکاکہ جمع قرآن کاکام خلفاء ثلاثہ ميںسے کس خلےفہ کے دورميںہواہے؟ ياايک ہى کام ہردورميںہواہے؟ ياکاموںکى نوعےت مختلف تھى ؟

 

۳۔ ان روايات ميںيہ اختلاف بھى ہے کہ اس ضرورت کااحساس کس موقع پرپےداہوااوريہ بات کس جنگ کے مقتولےن کودکھ کرذہنوںميںآئى يااسلامى ضرورت کي بنيادپر؟

۴۔ يہ بھى طے نہيںہے کہ اس ضرورت کااحساس خودخلےفہ کے ذہن ميںپےداہواياامت کے کسى فردنے فرمائش کى تھي۔

۵۔ اس کاروبارکى کوئى ايک کمےٹى بھى معےن نہيں ہے ،بلکہ ہردورکى کمےٹى الگ الگ ہے۔

۶۔ کسى کمےٹى ميںخودخلےفہ وقت نے کوئى حصہ نہيںلياہے بلکہ حضرت عثمان نے جمع ہوجانے کے بعدبھى فرماياکہ ابھى کچھ غلطياںرہ کئى ہيں جنھےںعرب خودہى درست کرلےںگے۔

۷۔ جمع کمےٹى ميںکسي ايک صاحب علم تفسيرکاتذکرہ نہيںملتاہے بلکہ دوراول ہى ميںاس کے سربراہ زےدبن ثابت قراردےے جاتے ہيںجن کى عمربقول صاحب اسدالغابہ وقت ہجرت صرف گيارہ سال کى تھى ۔ ظاہرہے کہ گيارہ سال کابچہ مکى آيات کوکےوںکرجمع کرسکتاہے؟ اوراس ميںکون سى خصوصےت تھى کہ کبارصحابہ کوچھوڑکراس کاانتخاب کياجائے؟

۸۔ اس کمےٹى ميںحضرت ابن مسعودجنھےںاعلم امت کہاجاتاہے اورحضرت ابن عباس جنھےںمفسراعظم کے لقب سے يادکياجاتاہے يان کاکوئى نماياںکارنامہ نہيںہے۔

          ۹۔اس کمےٹى کاسب سے بڑااصول يہ تھا کہ جس آےت کے لےے دوعادل گواہ مل جاتے تھے اسے داخل قرآن کرلےتي تھى اورجس آےت کے دوگواہ نہيںملتے تھے اسے ردکردےتى تھي ،چاہے اس کے راوى خود حضرت عمربن الخطاب ہى کےوںنہ ہوں۔

۱۰۔اس کمےٹى کابيان ہے کہ کچھ مخصوص آيات حضرت عائشہ کے بسترپرپڑى تھےںجنھےںان کي بکرى کھاگئى تھى اورانھےںشامل قرآن نہيںکياجاسکا۔

          يادرہے کہ تارےخ اسلام ميںحضرت عائشہ کى بکرى ،حضرت ابوہرےرہ کى بلى ،حضرت عمرکاکوڑااورحجاج کى تلوارکانماياںرول رہاہے۔